اتوار 31 اگست ، 2025
اے بچو! ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت رکھیں۔
“My little children, let us not love in word, neither in tongue; but in deed and in truth.”
1۔ پس عزیز فرزندوں کی طرح خدا کی مانند بنو۔
2۔ اور محبت سے چلو۔ جیسے مسیح نے تم سے محبت کی اور ہمارے واسطے اپنے آپ کو خوشبو کی مانند خدا کی نذر کر کے قربان کیا۔
26۔ کیونکہ تم سب اْس ایمان کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے خدا کے فرزند ہو۔
27۔ اور تم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا۔
28۔ نہ کوئی یہودی رہا نہ یونانی۔ نہ کوئی غلام نہ آزاد۔ نہ کوئی مرد نہ عورت کیونکہ تم سب مسیح یسوع میں ایک ہو۔
1. Be ye therefore followers of God, as dear children;
2. And walk in love, as Christ also hath loved us.
26. For ye are all the children of God by faith in Christ Jesus.
27. For as many of you as have been baptized into Christ have put on Christ.
28. There is neither Jew nor Greek, there is neither bond nor free, there is neither male nor female: for ye are all one in Christ Jesus.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
7۔ اے بچو! کسی کے فریب میں نہ آنا۔ جو راستبازی کے کام کرتا ہے وہی اْس کی طرح راستباز ہے۔
7 Little children, let no man deceive you: he that doeth righteousness is righteous, even as he is righteous.
3۔ اور سلیمان خداوند سے محبت رکھتا اور اپنے باپ دادا کے آئین پر چلتا تھا۔
5۔ جبعون میں خداوند رات کے وقت سلیمان کو خواب میں دکھائی دیا اور خدا نے کہا مانگ مَیں تجھے کیا دوں۔
6۔ سلیمان نے کہا تُو نے اپنے خادم میرے باپ داؤد پر بڑا احسان کیا اِس لیے کہ وہ تیرے حضور راستی اور صداقت اور تیرے ساتھ سیدھے دل سے چلتا رہا اور تُو نے اُسکے واسطے یہ بڑا احسان رکھ چھوڑا تھا کہ تُو نے اُسے ایک بیٹا عنایت کِیا جو اُس کے تخت پر بیٹھے جیسا آج کے دن ہے۔
7۔ اور اب اے خُداوند میرے خُدا تُو نے اپنے خادم کو میرے باپ داؤدکی جگہ بادشاہ بنایا ہے اور مَیں چھوٹا لڑکا ہی ہوں اور مجھے باہر جانے اور بِھیتر آنے کا شعور نہیں۔
9۔ سو تُو اپنے خادم کو اپنی قوم کا انِصاف کرنے کے لیے سمجھنے والا دل عنایت کر تاکہ مَیں برے اور بھلے میں امتیاز کر سکوں کیونکہ تیری اِس بڑی قوم کا اِ؎نصاف کون کر سکتا ہے؟
11۔ اور خدانے اُس سے کہا چونکہ تُو نے یہ چیز مانگی اوراپنے لیے عمرکی درازی کی درخواست نہ کی اور نہ اپنے لیے دولت کا سوال کیا اور نہ اپنے دشمنوں کی جان مانگی بلکہ انصاف پسندی کے لیے تُو نے اپنے واسطے عقلمندی کی درخواست کی ہے۔
12۔ سو دیکھ مَیں نے تیری درخواست کے مطابق کیا۔ میں نے ایک عاقل اور سمجھنے والا دل تجھ کو بخشا ایسا کہ تیری مانند نہ تو کوئی تجھ سے پہلے ہوا اور نہ کوئی تیرے بعد تجھ سا برپا ہو گا۔
3 And Solomon loved the Lord, walking in the statutes of David his father:
5 In Gibeon the Lord appeared to Solomon in a dream by night: and God said, Ask what I shall give thee.
6 And Solomon said, Thou hast shewed unto thy servant David my father great mercy, according as he walked before thee in truth, and in righteousness, and in uprightness of heart with thee; and thou hast kept for him this great kindness, that thou hast given him a son to sit on his throne, as it is this day.
7 And now, O Lord my God, thou hast made thy servant king instead of David my father: and I am but a little child:
9 Give therefore thy servant an understanding heart …
11 And God said unto him, Because thou hast asked this thing, and hast not asked for thyself long life; neither hast asked riches for thyself, nor hast asked the life of thine enemies; but hast asked for thyself understanding to discern judgment;
12 Behold, I have done according to thy words: lo, I have given thee a wise and an understanding heart;
13۔ مسکین اور دانشمند لڑکا اْس بوڑھے بے وقوف بادشاہ سے جس نے نصیحت سننا ترک کر دیا بہتر ہے۔
13 Better is a poor and a wise child than an old and foolish king, who will no more be admonished.
23۔ اور یسوع ہیکل کے اندر سلیمانی برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔
24۔ پس یہودیوں نے اْس کے گرد جمع ہو کر اْس سے کہا تْو کب تک ہمارے دلوں کو ڈانواں ڈول رکھے گا؟ اگر تْو مسیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔
25۔ یسوع نے اْن سے کہا میں نے تو تم سے کہہ دیا مگر تم یقین نہیں کرتے۔ جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں۔
26۔ لیکن تم اس لئے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو۔
27۔ میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔
28۔ اور میں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔
29۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا۔
30۔ مَیں اور باپ ایک ہیں۔
23 And Jesus walked in the temple in Solomon’s porch.
24 Then came the Jews round about him, and said unto him, How long dost thou make us to doubt? If thou be the Christ, tell us plainly.
25 Jesus answered them, I told you, and ye believed not: the works that I do in my Father’s name, they bear witness of me.
26 But ye believe not, because ye are not of my sheep, as I said unto you.
27 My sheep hear my voice, and I know them, and they follow me:
28 And I give unto them eternal life; and they shall never perish, neither shall any man pluck them out of my hand.
29 My Father, which gave them me, is greater than all; and no man is able to pluck them out of my Father’s hand.
30 I and my Father are one.
2۔ اْس نے ایک بچے کو پاس بلا کر اْسے اْن کے بیچ میں کھڑا کیا۔
3۔ اور کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم توبہ نہ کرو اور بچوں کی مانند نہ بنو تو آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہوگے۔
4۔ پس جو کوئی اپنے آپ کو اِس بچے کی مانند چھوٹا بنائے گا وہی آسمان کی بادشاہی میں بڑا ہوگا۔
5۔اور جو کوئی ایسے بچے کو میرے نام پر قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے۔
6۔ لیکن جو کوئی اِن چھوٹوں میں سے جو مجھ پر ایمان لائے ہیں کسی کو ٹھوکر کھلاتا ہے اْس کے لئے یہ بہتر ہے کہ بڑی چکی کا پاٹ اْس کے گلے میں لٹکایا جائے اور وہ گہرے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔
10۔ خبردار اِن چھوٹوں میں سے کسی کو ناچیز نہ جاننا کیونکہ مَیں تم سے کہتاہوں کہ آسمان پر اْن کے فرشتے میرے آسمانی باپ کا منہ ہر وقت دیکھتے ہیں۔
11۔ کیونکہ ابنِ آدم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا۔
12۔ تم کیا سمجھتے ہو؟ اگر کسی آدمی کی سو بھیڑیں ہوں اور اْن میں سے ایک بھٹک جائے تو کیا وہ ننانوے کو چھوڑ کر اور پہاڑی پر جا کر اْس بھٹکی ہوئی کو نہ ڈھونڈے گا؟
13۔ اور اگر ایسا ہو کہ اْسے پائے تو مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اْن ننانوے کی نسبت جو بھٹکی نہیں اِس بھیڑ کی زیادہ خوشی کرے گا۔
14۔ اِسی طرح تمہارا آسمانی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو۔
2 And Jesus called a little child unto him, and set him in the midst of them,
3 And said, Verily I say unto you, Except ye be converted, and become as little children, ye shall not enter into the kingdom of heaven.
4 Whosoever therefore shall humble himself as this little child, the same is greatest in the kingdom of heaven.
5 And whoso shall receive one such little child in my name receiveth me.
6 But whoso shall offend one of these little ones which believe in me, it were better for him that a millstone were hanged about his neck, and that he were drowned in the depth of the sea.
10 Take heed that ye despise not one of these little ones; for I say unto you, That in heaven their angels do always behold the face of my Father which is in heaven.
11 For the Son of man is come to save that which was lost.
12 How think ye? if a man have an hundred sheep, and one of them be gone astray, doth he not leave the ninety and nine, and goeth into the mountains, and seeketh that which is gone astray?
13 And if so be that he find it, verily I say unto you, he rejoiceth more of that sheep, than of the ninety and nine which went not astray.
14 Even so it is not the will of your Father which is in heaven, that one of these little ones should perish.
14۔ لیکن یسوع نے کہا بچوں کو میرے پاس آنے دو اْنہیں منع نہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی ایسوں ہی کی ہے۔
14 Jesus said, Suffer little children, and forbid them not, to come unto me: for of such is the kingdom of heaven.
6۔ لڑکے کی اْس راہ میں تربیت کر جس پر اْسے جانا ہے۔ وہ بوڑھا ہو کر بھی اْس سے نہیں مڑے گا۔
6 Train up a child in the way he should go: and when he is old, he will not depart from it.
4۔ کیونکہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہر چیز اچھی ہے اور کوئی چیز انکار کے لائق نہیں بشرطیکہ شکرگزاری کے ساتھ کھائی جائے۔
5۔ اِس لئے کہ خدا کے کلام اور دعا سے پاک ہو جاتی ہے۔
6۔ اگر تْو بھائیوں کو یہ باتیں یاد دلائے گا تو مسیح یسوع کا اچھا خادم ٹھہرے گا اور ایمان اور اْس اچھی تعلیم کی باتوں سے جس کی تْو پیروی کرتا آیا ہے پرورش پاتا رہے گا۔
10۔ کیونکہ ہم محنت اور جانفشانی اِس لئے کرتے ہیں کہ ہماری امید اْس زندہ خدا پر لگی ہوئی ہے جو سب آدمیوں کا خاص کر ایمانداروں کا منجی ہے۔
11۔ اِن باتوں کا حکم اور تعلیم دے۔
12۔ کوئی تیری جوانی کی حقارت نہ کرنے پائے بلکہ تْو ایمانداروں کے لئے کلام کرنے اور چال چلن اور محبت اور ایمان اور پاکیزگی میں نمونہ بن۔
13۔جب تک مَیں نہ آؤں پڑھنے اور نصیحت کرنے اور تعلیم دینے کی طرف متوجہ رہ۔
14۔ اْس نعمت سے غافل نہ رہ جو تجھے حاصل ہے۔
15۔ اِن باتوں کی فکر رکھ اِن ہی میں مشغول رہ تاکہ تیری ترقی سب پر ظاہر ہو۔
16۔ اپنی اور اپنی تعلیم کی خبرداری کر۔ اِن باتوں پر قائم رہ کیونکہ ایسا کرنے سے تْو اپنی اور اپنے سننے والوں کی بھی نجات کا باعث ہوگا۔
4 For every creature of God is good, and nothing to be refused, if it be received with thanksgiving:
5 For it is sanctified by the word of God and prayer.
6 If thou put the brethren in remembrance of these things, thou shalt be a good minister of Jesus Christ, nourished up in the words of faith and of good doctrine, whereunto thou hast attained.
10 For therefore we both labour and suffer reproach, because we trust in the living God, who is the Saviour of all men, specially of those that believe.
11 These things command and teach.
12 Let no man despise thy youth; but be thou an example of the believers, in word, in conversation, in charity, in spirit, in faith, in purity.
13 Till I come, give attendance to reading, to exhortation, to doctrine.
14 Neglect not the gift that is in thee,
15 Meditate upon these things; give thyself wholly to them; that thy profiting may appear to all.
16 Take heed unto thyself, and unto the doctrine; continue in them: for in doing this thou shalt both save thyself, and them that hear thee.
5۔ اور خدا صبر اور تسلی کا چشمہ تم کو یہ توفیق دے کہ مسیح یسوع کے مطابق آپس میں یک دل رہو۔
6۔ تاکہ تم یک دل اور یک زبان ہو کر ہمارے خداوند یسوع مسیح کے خدا اور باپ کی تمجید کرو۔
7۔ پس جس طرح مسیح نے خدا کے جلال کیلئے تم کو اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے اْسی طرح تم بھی ایک دوسرے کو شامل کر لو۔
5 Now the God of patience and consolation grant you to be likeminded one toward another according to Christ Jesus:
6 That ye may with one mind and one mouth glorify God, even the Father of our Lord Jesus Christ.
7 Wherefore receive ye one another, as Christ also received us to the glory of God.
یسوع ناصری نے انسان کی باپ کے ساتھ یگانگت کو بیان کیا، اور اس کے لئے ہمارے اوپر اْس کی لامتناہی عقیدت کا قرض ہے۔ اْس کا مشن انفرادی اور اجتماعی دونوں تھا۔ اْس نے زندگی کا مناسب کام سر انجام دیا نہ صرف خود کے انصاف کے لئے بلکہ انسانوں پر رحم کے باعث، انہیں یہ دکھانے کے لئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا ہے، بلکہ نہ تو اْن کے لئے خود کچھ کرنے یا نہ ہی اْنہیں کسی ایک ذمہ داری سے آزاد کرنے کے لئے یہ کیا۔
Jesus of Nazareth taught and demonstrated man's oneness with the Father, and for this we owe him endless homage. His mission was both individual and collective. He did life's work aright not only in justice to himself, but in mercy to mortals, — to show them how to do theirs, but not to do it for them nor to relieve them of a single responsibility.
یسوع بے غرض تھا۔
Jesus was unselfish.
وہ اپنے لڑکپن کی ابتدا ہی سے ”باپ کے کام“ میں لگ گیا تھا۔
”غمزدہ شخص“نے مادی زندگی اور ذہانت کے عدم کواور قادر جامع خدا، اچھائی کی قادر حقیقت کو بہتر طور پر سمجھا۔ شفائیہ عقل یا کرسچن سائنس کے یہ دوافضل نکات ہیں جنہوں نے اْسے محبت سے مسلح کیا۔خدا کے اعلیٰ ترین نمائندے نے، الٰہی اصول کی عکاسی کے لئے انسانی قابلیت سے متعلق بات کرتے ہوئے، اپنے شاگردوں سے پیشن گوئی کے طور پر، نہ صرف اپنے دور بلکہ ہر دور کے لئے کہا: ”جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا؛“ اور ”ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔“
From early boyhood he was about his "Father's business."
The "man of sorrows" best understood the nothingness of material life and intelligence and the mighty actuality of all-inclusive God, good. These were the two cardinal points of Mind-healing, or Christian Science, which armed him with Love. The highest earthly representative of God, speaking of human ability to reflect divine power, prophetically said to his disciples, speaking not for their day only but for all time: "He that believeth on me, the works that I do shall he do also;" and "These signs shall follow them that believe."
اْس کی انسانی زندگی کی عظمت کے وسیلہ اْس نے الٰہی زندگی کو ظاہر کیا۔ اْس کے خالص خلوص کی وسعت کے وسیلہ اْس نے محبت کی وضاحت کی۔ سچائی کی فراوانی سے اْس نے غلطی کو فتح کیا۔ دنیا نے، یہ نہ دیکھتے ہوئے، اْس کی راستبازی کو تسلیم نہ کیا، بلکہ زمین کو وہ ہم آہنگی نصیب ہوئی جسے اْس کے جلالی نمونے نے متعارف کیا تھا۔
اْس کی تعلیم اور نمونے کی پیروی کرنے کے لئے کون تیار ہے؟ سب کو جلد یا بدیر مسیح یعنی خدا کے حقیقی تصور میں خود کو پیوست کرنا ہوگا۔
Through the magnitude of his human life, he demonstrated the divine Life. Out of the amplitude of his pure affection, he defined Love. With the affluence of Truth, he vanquished error. The world acknowledged not his righteousness, seeing it not; but earth received the harmony his glorified example introduced.
Who is ready to follow his teaching and example? All must sooner or later plant themselves in Christ, the true idea of God.
سائنس میں انسان روح کی اولاد ہے۔ اْس کا نسب خوبصورت، اچھائی اور پاکیزگی تشکیل دیتی ہے۔ اْس کا اصل، بشر کی مانند، وحشی جبلت میں نہیں اور نہ ہی وہ ذہانت تک پہنچنے سے پہلے مادی حالات سے گزرتا ہے۔ روح اْس کی ہستی کا ابتدائی اور اصلی منبع ہے؛ خدا اْس کا باپ ہے، اور زندگی اْس کی ہستی کا قانون ہے۔
In Science man is the offspring of Spirit. The beautiful, good, and pure constitute his ancestry. His origin is not, like that of mortals, in brute instinct, nor does he pass through material conditions prior to reaching intelligence. Spirit is his primitive and ultimate source of being; God is his Father, and Life is the law of his being.
اگر حقیقت خدا، الٰہی اصول، کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں ہے تو شک کرنا بے وقوفی ہوگا، اگر سائنس، جب سمجھی جائے اور ظاہر کی جائے، ساری مخالفت کو نیست کرتی ہے، چونکہ آپ قبول کرلیتے ہیں کہ خدا قادر مطلق ہے؛ کیونکہ اِس بنیاد پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اچھائی اور اِس کی شیریں مخالفتوں میں تمام قدرت پائی جاتی ہے۔
کرسچن سائنس، مناسب طور پر سمجھی جا کر، انسانی عقل کے اْن مادی عقائد کی خام خیالی کو دور کرے گی جو روحانی حقائق کے ساتھ جنگ کرتے ہیں؛ اور سچائی کو جگہ فراہم کرنے کے لئے اِن مادی عقائد کا انکار کیا جانااِنہیں باہر نکالا جانا چاہئے۔اْس برتن میں آپ مزید کچھ نہیں ڈال سکتے جو پہلے سے لبریز ہو۔ مادے پر کسی بالغ شخص کے ایمان کو جنجھوڑنے کے لئے اور خدا پر ایمان کا ایک بیج بونے کے لئے، یعنی بدن کو ہم آہنگ بنانے کے لئے روح کی قابلیت پیدا کرنے کے لئے، مصنف نے اکثر ہمارے اْستاد کی بچوں کے ساتھ محبت کو یاد کیا، اور اِسے بہت سچ سمجھا کہ آسمان کی بادشاہی اْن کی ہے۔
It is unwise to doubt if reality is in perfect harmony with God, divine Principle, — if Science, when understood and demonstrated, will destroy all discord, — since you admit that God is omnipotent; for from this premise it follows that good and its sweet concords have all-power.
Christian Science, properly understood, would disabuse the human mind of material beliefs which war against spiritual facts; and these material beliefs must be denied and cast out to make place for truth. You cannot add to the contents of a vessel already full. Laboring long to shake the adult's faith in matter and to inculcate a grain of faith in God, — an inkling of the ability of Spirit to make the body harmonious, — the author has often remembered our Master's love for little children, and understood how truly such as they belong to the heavenly kingdom.
والدین کو اپنے بچوں کی ابتدائی زندگی میں ہی صحت اور پاکیزگی کے حقائق کی تعلیم دینی چاہئے۔بچے بڑوں کی نسبت زیادہ قابل عمل ہوتے ہیں اور وہ زیادہ باآسانی اْن سادہ حقیقتوں کو پسند کرتے ہیں جو اْنہیں خوش اور اچھے بناتی ہیں۔
یسوع نے برائی سے اْن کی آزادی اور اچھائی کی قبولیت کی وجہ سے چھوٹے بچوں کوپیار کیا۔چونکہ عمر دو آراء کے مابین مقام رکھتی ہے یا جھوٹے عقائد کے ساتھ جنگ کرتی ہے، جوانی سچائی کی جانب آسانی سے اور تیزی سے قدم بڑھاتی ہے۔
ایک چھوٹی بچی نے، جو کبھی کبار میری وضاحتیں سنتی ہے، بری طرح سے اپنی انگلی زخمی کروا لی۔ ایسا لگا جیسے اْس نے اِس پر توجہ نہیں دی۔ کسی کے پوچھنے پر اْس نے سادگی سے جواب دیا، ”مادے میں کوئی احساس نہیں ہوتا۔“ مسکراتی آنکھوں کے ساتھ چھلانگیں مارتی ہوئی، اْس نے فی الحال کہا، ”ماں، میری انگلی ایک چھوٹا زخم نہیں ہے۔“
Parents should teach their children at the earliest possible period the truths of health and holiness. Children are more tractable than adults, and learn more readily to love the simple verities that will make them happy and good.
Jesus loved little children because of their freedom from wrong and their receptiveness of right. While age is halting between two opinions or battling with false beliefs, youth makes easy and rapid strides towards Truth.
A little girl, who had occasionally listened to my explanations, badly wounded her finger. She seemed not to notice it. On being questioned about it she answered ingenuously, "There is no sensation in matter." Bounding off with laughing eyes, she presently added, "Mamma, my finger is not a bit sore."
مادے کی فرضی زندگی پر عقیدے کے تیز ترین تجربات، اِس کے علاوہ ہماری مایوسیاں اور نہ ختم ہونے والی پریشانیاں ہمیں الٰہی محبت کی بانہوں میں تھکے ہوئے بچوں کی مانند پہنچاتے ہیں۔پھر ہم الٰہی سائنس میں زندگی کو سیکھنا شروع کرتے ہیں۔ رہائی کے اِس عمل کے بغیر، ”کیا تْو تلاش سے خدا کو پا سکتا ہے؟“کسی شخص کا خود کو غلطی سے بچانے کی نسبت سچائی کی خواہش رکھنا زیادہ آسان ہے۔بشر کرسچن سائنس کے فہم کی تلاش کر سکتے ہیں، مگر وہ کرسچن سائنس میں سے ہستی کے حقائق کو جدوجہد کے بغیر چننے کے قابل نہیں ہوں گے۔یہ اختلاف ہر قسم کی غلطی کو ترک کرنے اور اچھائی کے علاوہ کوئی دوسرا شعور نہ رکھنے کی کوشش کرنے پر مشتمل ہے۔
محبت کی صحت بخش تادیب کے وسیلہ راستبازی، امن اور پاکیزگی کی جانب ہماری پیش قدمی میں مدد کی جاتی ہے، جو کہ سائنس کے امتیازی نشانات ہیں۔
The sharp experiences of belief in the supposititious life of matter, as well as our disappointments and ceaseless woes, turn us like tired children to the arms of divine Love. Then we begin to learn Life in divine Science. Without this process of weaning, "Canst thou by searching find out God?" It is easier to desire Truth than to rid one's self of error. Mortals may seek the understanding of Christian Science, but they will not be able to glean from Christian Science the facts of being without striving for them. This strife consists in the endeavor to forsake error of every kind and to possess no other consciousness but good.
Through the wholesome chastisements of Love, we are helped onward in the march towards righteousness, peace, and purity, which are the landmarks of Science.
الٰہی سائنس میں، انسان خدا کی حقیقی شبیہ ہے۔ الٰہی فطرت میں یسوع مسیح کو بہترین طریقے سے بیان کیا گیا ہے، جس نے انسانوں پر خدا کی مناسب تر عکاسی ظاہر کی اورکمزور سوچ کے نمونے کی سوچ سے بڑی معیارِ زندگی فراہم کی، یعنی ایسی سوچ جو انسان کے گرنے، بیماری، گناہ کرنے اور مرنے کو ظاہر کرتی ہے۔ سائنسی ہستی اور الٰہی شفا کی مسیح جیسی سمجھ میں کامل اصول اور خیال، کامل خدا اور کامل انسان، بطور سوچ اور اظہار کی بنیاد شامل ہوتے ہیں۔
In divine Science, man is the true image of God. The divine nature was best expressed in Christ Jesus, who threw upon mortals the truer reflection of God and lifted their lives higher than their poor thought-models would allow, — thoughts which presented man as fallen, sick, sinning, and dying. The Christlike understanding of scientific being and divine healing includes a perfect Principle and idea, — perfect God and perfect man, — as the basis of thought and demonstration.
یسوع کا اقرار کرنے والے اْس کے پیروکار اْس کی راہوں کی پیروی کرنا اور اْس کے بڑے کاموں کی نقل کرنا کب سیکھیں گے؟
یہ ممکن ہے، ہاں یہ ہر بچے، مرد اور عورت کی ذمہ داری اور استحقاق ہے کہ وہ زندگی اور سچائی، صحت اور پاکیزگی کے اظہار کے وسیلہ مالک کے نمونے کی کسی حد تک پیروی کریں۔
When will Jesus' professed followers learn to emulate him in all his ways and to imitate his mighty works?
It is possible, — yea, it is the duty and privilege of every child, man, and woman, — to follow in some degree the example of the Master by the demonstration of Truth and Life, of health and holiness.
کرسچن سائنس آزادی کو اونچا کرتی اور چلاتی ہے کہ: ”میری پیروی کریں! بیماری، گناہ اور موت کے بندھنوں سے بچیں!“ یسوع نے راستہ متعین کیا ہے۔ دنیا کے باسیو، ”خدا کے فرزندوں کی جلالی آزادی“ کو قبول کریں، اور آزاد ہوں! یہ آپ کا الٰہی حق ہے۔
Christian Science raises the standard of liberty and cries: "Follow me! Escape from the bondage of sickness, sin, and death!" Jesus marked out the way. Citizens of the world, accept the "glorious liberty of the children of God," and be free! This is your divine right.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔