اتوار 4 جنوری، 2026
خداوند کا نام محکم برج ہے صادق اْس میں بھاگ جاتا ہے اور امن میں رہتا ہے۔
“The name of the Lord is a strong tower: the righteous runneth into it, and is safe.”
1۔ اور اگر تْو خداوند اپنے خدا کی بات کو جانفشانی سے مان کر اْس کے سب حکموں پر جو آج کے دن مَیں تجھ کو دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے۔
2۔اور اگر تْو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی۔
3۔شہر میں بھی تْو مبارک ہوگا اور کھیت میں بھی مبارک ہوگا۔
4۔ تیری اولاد اور تیری زمین کی پیداوار اور تیرے چوپائیوں کے بچے یعنی گائے بیل کی بڑھتی اور تیری بھیڑ بکریوں کے بچے مبارک ہوں گے۔
5۔ تیرا ٹوکرا اور تیری کٹھوتی دونوں مبارک ہوں گے۔
6۔ اور تْو اندر آتے وقت مبارک ہوگا اور باہر جاتے وقت بھی مبارک ہوگا۔
9۔ اگر تْو خداوند اپنے خدا کے حکموں کو مانے اور اْس کی راہوں پر چلے تو خداوند اپنی اْس قسم کے مطابق جو اْس نے تجھ سے کھائی تجھ کو اپنی پاک قوم بنا کر رکھے گا۔
1. And it shall come to pass, if thou shalt hearken diligently unto the voice of the Lord thy God, to observe and to do all his commandments:
2. All these blessings shall come on thee, and overtake thee, if thou shalt hearken unto the voice of the Lord thy God.
3. Blessed shalt thou be in the city, and blessed shalt thou be in the field.
4. Blessed shall be the fruit of thy body, and the fruit of thy ground, and the fruit of thy cattle, the increase of thy kine, and the flocks of thy sheep.
5. Blessed shall be thy basket and thy store.
6. Blessed shalt thou be when thou comest in, and blessed shalt thou be when thou goest out.
9. The Lord shall establish thee an holy people unto himself, as he hath sworn unto thee, if thou shalt keep the commandments of the Lord thy God, and walk in his ways.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ جیسے ہرنی پانی کے نالوں کو ترستی ہے ویسے ہی اے خدا! میری روح تیرے لئے ترستی ہے۔
2۔ میری روح خدا کی، زندہ خدا کی پیاسی ہے۔
3۔ میرے آنسو دن رات میری خوراک ہیں۔ جس حال کہ وہ مجھ سے برابر کہتے ہیں تیرا خدا کہاں ہے؟
8۔اب دن کو خداوند اپنی شفقت دکھائے گا۔ اور رات کو مَیں اْس کا گیت گاؤں گا بلکہ اپنی حیات کے خدا سے دعا کروں گا۔
11۔ اے میری جان تْوں کیوں گری جاتی ہے؟ تْو اندر ہی اندر کیوں بے چین ہے؟ خدا سے امید رکھ کیونکہ وہ میرے چہرے کی رونق اورمیرا خدا ہے۔
1 As the hart panteth after the water brooks, so panteth my soul after thee, O God.
2 My soul thirsteth for God, for the living God:
3 My tears have been my meat day and night, while they continually say unto me, Where is thy God?
8 Yet the Lord will command his lovingkindness in the daytime, and in the night his song shall be with me, and my prayer unto the God of my life.
11 Why art thou cast down, O my soul? and why art thou disquieted within me? hope thou in God: for I shall yet praise him, who is the health of my countenance, and my God.
20۔ اور یوسف کے آقا نے اْس کو لے کر اْسے قید خانہ میں ڈال دیا، جہاں بادشاہ کے قیدی بند تھے۔ سو وہ وہاں قید خانہ میں رہا۔
21۔ لیکن خداوند یوسف کے ساتھ تھا۔ اْس نے اْس پر رحم کیا۔
20 Joseph’s master took him, and put him into the prison, a place where the king’s prisoners were bound: and he was there in the prison.
21 But the Lord was with Joseph, and shewed him mercy,
1۔ پورے دو برس کے بعد فرعون نے خواب دیکھا۔
9۔ اْس وقت سردار ساقی نے فرعون سے کہا،
12۔۔۔ وہاں ایک عبرانی جوان ہمارے ساتھ تھا،۔۔۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو ہمارے خواب کے مطابق اْس نے تعبیر بتائی۔
14۔ تب فرعون نے یوسف کو بلوا بھیجا۔سو انہوں نے جلد اْسے قید خانہ سے باہر نکالا۔
15۔ فرعون نے یوسف سے کہا مَیں نے ایک خواب دیکھا ہے جس کی تعبیر کوئی نہیں کر سکتا اور مجھ سے تیرے بارے میں کہتے ہیں کہ تْو خواب کو سن کر اْس کی تعبیر کرتا ہے؟
16۔ یوسف نے فرعون کو جواب دیا کہ مَیں کچھ نہیں جانتا۔ خدا ہی فرعون کو سلامتی بخش جواب دے گا۔
25۔ تب یوسف نے فرعون سے کہا کہ فرعون کا خواب ایک ہی ہے۔ جو کچھ خدا کرنے کو ہے اْسے اْس نے فرعون پر ظاہر کیا ہے۔
37۔ یہ بات فرعون اور اْس کے سب خادموں کو پسند آئی۔
38۔ سو فرعون نے اپنے سب خادموں سے کہا کیا ہم کو ایسا آدمی جیسا یہ ہے جس میں خدا کی روح ہے مل سکتا ہے؟
39۔ اور فرعون نے یوسف سے کہا چونکہ خدا نے تجھے سب کچھ سمجھا دیا ہے اِس لئے تیری مانند دانشور اور عقلمند کوئی نہیں۔
40۔ سو تْو میرے گھر کا مختار ہوگا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔
1 And it came to pass at the end of two full years, that Pharaoh dreamed:
9 Then spake the chief butler unto Pharaoh, saying,
12 … there was there with us a young man, an Hebrew, … and he interpreted to us our dreams;
14 Then Pharaoh sent and called Joseph, and they brought him hastily out of the dungeon:
15 And Pharaoh said unto Joseph, I have dreamed a dream, and there is none that can interpret it: and I have heard say of thee, that thou canst understand a dream to interpret it.
16 And Joseph answered Pharaoh, saying, It is not in me: God shall give Pharaoh an answer of peace.
25 And Joseph said unto Pharaoh, The dream of Pharaoh is one: God hath shewed Pharaoh what he is about to do.
37 And the thing was good in the eyes of Pharaoh, and in the eyes of all his servants.
38 And Pharaoh said unto his servants, Can we find such a one as this is, a man in whom the Spirit of God is?
39 And Pharaoh said unto Joseph, Forasmuch as God hath shewed thee all this, there is none so discreet and wise as thou art:
40 Thou shalt be over my house, and according unto thy word shall all my people be ruled:
2۔ کس نے مشرق سے اْس کو برپا کیا جس کو وہ صداقت سے اپنے قدموں میں بلاتا ہے؟ وہ قوموں کو اْس کے حوالے کرتا ہے اور اْسے بادشاہوں پر مسلط کرتا ہے۔
4۔ یہ کس نے کیا اور ابتدائی پشتوں کو طلب کر کے انجام دیا؟ مَیں خداوند جو اول و آخر ہے، وہ مَیں ہی ہوں۔
8۔ پر تْو اے اسرائیل میرے بندے! اے یعقوب جس کو مَیں نے پسند کیا جو میرے دوست ابرہام کی نسل سے ہے۔
9۔ تْو جس کو مَیں نے زمین کی انتہا سے بلایا اور اْس کے سوانوں سے طلب کیا اور تجھ کو کہا تو میرا بندہ ہے مَیں نے تجھ کو پسند کیا اورتجھے رد نہ کیا۔
10۔ تْو مت ڈر کیونکہ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ ہراساں نہ ہو کیونکہ مَیں تیرا خدا ہوں مَیں تجھے زور بخشوں گا۔مَیں یقیناً تیری مدد کروں گا اور مَیں اپنی صداقت کے دہنے ہاتھ سے تجھے سنبھالوں گا۔
13۔ کیونکہ مَیں خداوند تیرا خدا تیرا دہنا ہاتھ پکڑ کر کہوں گا مت ڈر مَیں تیری مدد کروں گا۔
2 Who raised up the righteous man from the east, called him to his foot, gave the nations before him, and made him rule over kings?
4 Who hath wrought and done it, calling the generations from the beginning? I the Lord, the first, and with the last; I am he.
8 But thou, Israel, art my servant, Jacob whom I have chosen, the seed of Abraham my friend.
9 Thou whom I have taken from the ends of the earth, and called thee from the chief men thereof, and said unto thee, Thou art my servant; I have chosen thee, and not cast thee away.
10 Fear thou not; for I am with thee: be not dismayed; for I am thy God: I will strengthen thee; yea, I will help thee; yea, I will uphold thee with the right hand of my righteousness.
13 For I the Lord thy God will hold thy right hand, saying unto thee, Fear not; I will help thee.
1۔ یسوع مسیح ابن خدا کی خوشخبری کا شروع۔
32۔ شام کو جب سورج ڈوب گیا تو لوگ سب بیماروں کو اور اْن کو جن میں بدروحیں تھیں اْس کے پاس لائے۔
33۔ اور سارا شہر دروازے پر جمع ہو گیا۔
34۔ اور اْس نے بہتوں کو جو طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار تھے اچھا کیا اور بہت سی بدروحوں کو نکالا اور بد روحوں کو بولنے نہ دیا کیونکہ وہ اْس کو پہچانتی تھیں۔
1 The beginning of the gospel of Jesus Christ, the Son of God;
32 And at even, when the sun did set, they brought unto him all that were diseased, and them that were possessed with devils.
33 And all the city was gathered together at the door.
34 And he healed many that were sick of divers diseases, and cast out many devils; and suffered not the devils to speak, because they knew him.
1۔ پھر یسوع فسح سے چھ روز پہلے بیتِ عنیاہ میں آیا جہاں لعزر تھا جسے یسوع نے مردوں میں سے جلایا تھا۔
20۔ جو لوگ عید پر پرستش کرنے آئے تھے اْن میں بعض یونانی تھے۔
23۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا وہ وقت آگیا کہ ابنِ آدم جلال پائے۔
26۔ اگر کوئی شخص میری خدمت کرے تو میرے پیچھے ہو لے اور جہاں مَیں ہوں وہاں میرا خادم بھی ہو گا، اگر کوئی میری خدمت کرے تو باپ اْس کی عزت کرے گا۔
28۔ اے باپ! اپنے نام کو جلال دے۔ پس آسمان سے آواز آئی کہ مَیں نے اْس کو جلال دیا ہے اور پھر بھی دوں گا۔
29۔ جو لوگ کھڑے سن رہے تھے اْنہوں نے کہا بادل گرجا۔ اوروں نے کہا کہ فرشتہ اْس سے ہمکلام ہوا۔
30۔ یسوع نے جواب میں کہا کہ آواز میرے لئے نہیں بلکہ تمہارے لئے آئی ہے۔
1 Then Jesus six days before the passover came to Bethany, where Lazarus was which had been dead, whom he raised from the dead.
20 And there were certain Greeks among them that came up to worship at the feast:
23 And Jesus answered them, saying,
26 If any man serve me, let him follow me; and where I am, there shall also my servant be: if any man serve me, him will my Father honour.
28 Father, glorify thy name. Then came there a voice from heaven, saying, I have both glorified it, and will glorify it again.
29 The people therefore, that stood by, and heard it, said that it thundered: others said, An angel spake to him.
30 Jesus answered and said, This voice came not because of me, but for your sakes.
8۔ فلپس نے اْس سے کہا اے خداوند! باپ کو ہم کو دکھا۔ یہی ہمیں کافی ہے۔
9۔ یسوع نے اْس سے کہا اے فلپس! مَیں اتنی مدت سے تمہارے ساتھ ہوں کیا تْو مجھے نہیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا ہے اْس نے باپ کو دیکھا ہے۔ تْو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟
10۔ کیا تْو یقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو مَیں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر کام کرتا ہے۔
11۔ میرا یقین کرو کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔ نہیں تو میرے کاموں ہی کے سبب سے میرا یقین کرو۔
12۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں۔
13۔ اور جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے مَیں وہی کروں گا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔
8 Philip saith unto him, Lord, shew us the Father, and it sufficeth us.
9 Jesus saith unto him, Have I been so long time with you, and yet hast thou not known me, Philip? he that hath seen me hath seen the Father; and how sayest thou then, Shew us the Father?
10 Believest thou not that I am in the Father, and the Father in me? the words that I speak unto you I speak not of myself: but the Father that dwelleth in me, he doeth the works.
11 Believe me that I am in the Father, and the Father in me: or else believe me for the very works’ sake.
12 Verily, verily, I say unto you, He that believeth on me, the works that I do shall he do also; and greater works than these shall he do; because I go unto my Father.
13 And whatsoever ye shall ask in my name, that will I do, that the Father may be glorified in the Son.
6۔اِس لئے کہ خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکا تاکہ خداکے جلال کی پہچان کا نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گر ہو۔
6 For God, who commanded the light to shine out of darkness, hath shined in our hearts, to give the light of the knowledge of the glory of God in the face of Jesus Christ.
زندگی، سچائی اور محبت قادر امطلق اور ازلی ہیں؛
Life, Truth, and Love are all-powerful and ever-present;
جب خدا، ازلی فہم جو سب باتیں سمجھتا ہے، انسان پر حکومت کرتا ہے تو انسان جانتا ہے کہ خدا کے لئے سب کچھ ممکن ہے۔ اِس زندہ سچائی کو جاننے کا واحد راستہ، جو بیمار کو شفا دیتی ہے، الٰہی فہم کی سائنس میں پایا جاتا ہے کیونکہ یہ مسیح یسوع کے وسیلہ سے سکھائی گئی اور ظاہر ہوئی۔
When man is governed by God, the ever-present Mind who understands all things, man knows that with God all things are possible. The only way to this living Truth, which heals the sick, is found in the Science of divine Mind as taught and demonstrated by Christ Jesus.
سوال۔ کرسچن سائنس کو سمجھنے میں مَیں کیسے تیزی کے ساتھ ترقی کر سکتا ہوں؟
جواب۔ خط کا پوری طرح مطالعہ کریں اور روح کو اپنے اندر سمو لیں۔ کرسچن سائنس کے الٰہی اصول پر عمل پیرا ہوں اورثابت قدمی کے ساتھ حکمت، محبت اور سچائی پر قائم رہتے ہوئے خدا کے احکامات کی پیروی کریں۔عقل کی سائنس میں آپ کو جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ غلطی غلطی کو نیست نہیں کر سکتی۔ آپ یہ بھی سیکھیں گے کہ سائنس میں ایک انسان سے دوسرے انسان کوبرے مشورے منتقل نہیں ہوتے۔ یہاں ماسوائے ایک عقل کے اور کوئی نہیں، اور یہ ہمہ وقت موجود قادرِ مطلق عقل کی انسان کی بدولت عکاسی کرتی اور یہ پوری کائنات پر حکمرانی کرتی ہے۔آپ یہ سیکھیں گے کہ کرسچن سائنس میں پہلا فرض خدا کی فرمانبرداری کرنا، ایک عقل رکھنا اور دوسروں کے ساتھ اپنی مانند محبت رکھنا ہے۔
ہم سب کو یہ سیکھنا چاہئے کہ زندگی خدا ہے۔ خود سے سوال کریں: کیا میں ایسی زندگی جی رہا ہوں جو اعلیٰ اچھائی تک رسائی رکھتی ہے؟ کیا میں سچائی اور محبت کی شفائیہ قوت کا اظہار کر رہاہوں؟ اگر ہاں، تو ”دوپہر تک“ راستہ روشن ہوتا جائے گا۔آپ کے پھل و ہ سب کچھ ثابت کریں جو خدا کا ادراک انسان کے لئے مہیا کرتا ہے۔
Question. — How can I progress most rapidly in the understanding of Christian Science?
Answer. — Study thoroughly the letter and imbibe the spirit. Adhere to the divine Principle of Christian Science and follow the behests of God, abiding steadfastly in wisdom, Truth, and Love. In the Science of Mind, you will soon ascertain that error cannot destroy error. You will also learn that in Science there is no transfer of evil suggestions from one mortal to another, for there is but one Mind, and this ever-present omnipotent Mind is reflected by man and governs the entire universe. You will learn that in Christian Science the first duty is to obey God, to have one Mind, and to love another as yourself.
We all must learn that Life is God. Ask yourself: Am I living the life that approaches the supreme good? Am I demonstrating the healing power of Truth and Love? If so, then the way will grow brighter "unto the perfect day." Your fruits will prove what the understanding of God brings to man.
خود کو گناہ سے برتر بنائے رکھناحقیقی حکمت ہے، کیونکہ خدا نے آپ کو اِس سے برتر ہی بنایا ہے اور وہ انسان پر حکمرانی کرتا ہے۔ گناہ سے ڈرنا محبت کی طاقت کو خدا کے ساتھ انسان کے تعلق میں الٰہی سائنس کی ہستی کو غلط سمجھنا ہے، یعنی اْس کی حکمرانی پر شک کرنا اور اْس کی قادرِ مطلق حفاظت پر عدم اعتماد کرنا ہے۔خود کو بیماری اورموت سے برتر بنائے رکھنا اس کے متوازی عقلمندی اور الٰہی سائنس کے عین مطابق ہے۔جب آپ خدا کو اور یہ جاننے میں بالکل غلط ہوتے ہیں کہ یہ اْس کی تخلیق کا حصہ ہیں تو اِن سے خوف زدہ ہونا ناممکن ہوجاتا ہے۔
جب تک ایک بیماری کے ساتھ سچائی کے وسیلہ درست طور پر نپٹا اور مناسب طورپراسے فتح نہ کیا جائے، بیماری پر کبھی قابو نہیں پایا جا سکتا۔۔۔۔ اگر خدا ہی بیمار کو شفا نہیں دیتا، تو وہ شفا یاب نہیں ہوسکتے، کیونکہ کوئی کمتر قوت لامتناہی قادر مطلق کی قوت کے برابرنہیں؛ بلکہ خدا، حق، زندگی، محبت، بیمار کو راستبازوں کی دعاؤں کے وسیلہ شفا دیتا ہے۔
To hold yourself superior to sin, because God made you superior to it and governs man, is true wisdom. To fear sin is to misunderstand the power of Love and the divine Science of being in man's relation to God, — to doubt His government and distrust His omnipotent care. To hold yourself superior to sickness and death is equally wise, and is in accordance with divine Science. To fear them is impossible, when you fully apprehend God and know that they are no part of His creation.
Unless an ill is rightly met and fairly overcome by Truth, the ill is never conquered. … If God heals not the sick, they are not healed, for no lesser power equals the infinite All-power; but God, Truth, Life, Love, does heal the sick through the prayer of the righteous.
دعا کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا ہم اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لیے دعا کرتے ہیں یا ان لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے جو ہمیں سنتے ہیں، لامحدود کو منور کرنے کے لیے یا لوگوں کو سنانے کے لئے؟ کیا دعا کرنے سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ جی ہاں، وہ خواہش جو راستبازی کی بھوک کی جانب لے جاتی ہے وہ ہمارے باپ کی برکت ہے، اور وہ ہمارے پاس خالی واپس نہیں آتی۔
What are the motives for prayer? Do we pray to make ourselves better or to benefit those who hear us, to enlighten the infinite or to be heard of men? Are we benefited by praying? Yes, the desire which goes forth hungering after righteousness is blessed of our Father, and it does not return unto us void.
اگر ہم خفیہ طور پر خواہش نہیں رکھتے اور کھلے عام اْس کی تکمیل کے لئے کوشاں نہیں ہوتے جو کچھ ہم مانگتے ہیں، تو ہماری دعائیں ”بک بک“ ہیں،جیسے کہ غیر قومیں کرتی ہیں۔ اگر ہماری منتیں مخلص ہیں، ہمارے مانگنے کے لئے ہم محنت کرتے ہیں توہمارا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے، ہمیں کھْلے عام اْس کا بدلہ دے گا۔ کیا ہماری خواہشات کا محض عوامی اظہار اْن میں اضافہ کر سکتا؟ کیا خیالات کی بجائے الفاظ کے ذریعے ہم قادرِ مطلق کان تک جلدی پہنچ پاتے ہیں؟ دعا مخلصانہ ہو تو بھی خدا ہماری ضرورت کو جانتا ہے اِس سے پہلے کہ ہم اْسے یا ہمارے ساتھیوں کو اِس سے متعلق بتائیں۔ اگر ہم ایمانداری اور خاموشی اور عاجزی کے ساتھ خواہش کو پالیں گے تو خدا اس میں برکت دے گا، اور ہم اپنی حقیقی خواہشات کو لفظوں کے طوفان سے مغلوب کرنے کا کم خطرہ اْٹھائیں گے۔
If we are not secretly yearning and openly striving for the accomplishment of all we ask, our prayers are "vain repetitions," such as the heathen use. If our petitions are sincere, we labor for what we ask; and our Father, who seeth in secret, will reward us openly. Can the mere public expression of our desires increase them? Do we gain the omnipotent ear sooner by words than by thoughts? Even if prayer is sincere, God knows our need before we tell Him or our fellow-beings about it. If we cherish the desire honestly and silently and humbly, God will bless it, and we shall incur less risk of overwhelming our real wishes with a torrent of words.
کرسچن سائنس کے اثرات اِس قدر دیکھے نہیں جا تے جتنے کہ یہ محسوس کئے جاتے ہیں۔ یہ سچائی کی ”دبی ہوئی ہلکی آواز“ ہے جو خود سے مخاطب ہے۔یا تو ہم اِس آواز سے دور بھاگ رہے ہیں یا ہم اِسے سْن رہے ہیں اور اْونچے ہو رہے ہیں۔
The effects of Christian Science are not so much seen as felt. It is the "still, small voice" of Truth uttering itself. We are either turning away from this utterance, or we are listening to it and going up higher.
جب تک ہم آہنگی اور انسان کی لافانیت زیادہ واضح نہیں ہوجاتے، تب تک ہم خدا کا حقیقی تصور نہیں پا سکتے، اور بدن اس کی عکاسی کرے گا جو اْس پر حکمرانی کرتا ہے خواہ یہ سچائی ہو یا غلطی، سمجھ ہو یا عقیدہ، روح ہو یا مادہ۔ لہٰذہ، ”اْس سے ملا رہ تو سلامت رہے گا۔“ ہوشیار، سادہ اور چوکس رہیں۔ جو رستہ اس فہم کی جانب لے جاتا ہے کہ واحد خدا ہی زندگی ہے وہ رستہ سیدھا اور تنگ ہے۔یہ بدن کے ساتھ ایک جنگ ہے، جس میں گناہ، بیماری اور موت پر ہمیں فتح پانی چاہئے خواہ یہاں یا اس کے بعد، یقیناً اس سے قبل کہ ہم روح کے مقصد، یا خدا میں زندگی حاصل کرنے تک پہنچ پائیں۔
Unless the harmony and immortality of man are becoming more apparent, we are not gaining the true idea of God; and the body will reflect what governs it, whether it be Truth or error, understanding or belief, Spirit or matter. Therefore "acquaint now thyself with Him, and be at peace." Be watchful, sober, and vigilant. The way is straight and narrow, which leads to the understanding that God is the only Life. It is a warfare with the flesh, in which we must conquer sin, sickness, and death, either here or hereafter, — certainly before we can reach the goal of Spirit, or life in God.
صحیح ڈھنگ سے زندگی گزارنے کا مقصد اور غرض اب حاصل کئے جا سکتے ہیں۔یہ فتح کیا گیا نقطہ آپ نے ویسے ہی شروع کیا جیسے یہ کرنا چاہئے تھا۔ آپ نے کرسچن سائنس کا عددی جدول شروع کیا ہے، اور کچھ نہیں ہو گا ماسوائے غلط نیت آپ کی ترقی میں رکاوٹ بنے گی۔ سچے مقاصد کے ساتھ کام کرنے اور دعا کرنے سے آپ کا باپ آپ کے لئے راستہ کھول دے گا۔”کس نے تمہیں حق کے ماننے سے روک دیا؟“
The purpose and motive to live aright can be gained now. This point won, you have started as you should. You have begun at the numeration-table of Christian Science, and nothing but wrong intention can hinder your advancement. Working and praying with true motives, your Father will open the way. "Who did hinder you, that ye should not obey the truth?"
جب بشر اِس وہم کو ترک کردیتے ہیں کہ عقل ایک سے زیادہ ہے، خدا ایک سے زیادہ ہے، تو انسان خدا کی شبیہ میں سامنے آئے گا، اور یہ ابدی انسان اِ س شبیہ میں کوئی مادی عنصر شامل نہیں کرے گا۔
بطور مادا، نظریاتی زندگی کی بنیاد وجودیت کی غلط فہمی سمجھی گئی ہے، یعنی انسان کا وہ روحانی اور الٰہی اصول جو انسانی سوچ پر نازل ہوتا ہے اور اِسے وہاں لے جاتا ہے ”جہاں چھوٹا بچہ تھا،“ حتیٰ کہ جدید پرانے خیال کی پیدائش پر ہستی کے روحانی فہم اوروہاں تک جسے زندگی میں شامل کیا گیا ہو۔ لہٰذہ غلطی کی تاریکی کا تعاقب کرتے ہوئے،پوری زمین روشنی سے متعلق اِس کی آراء پر سچائی کی طرف سے تبدیل ہوں گے۔
انسانی سوچ کو خود آوردہ مادیت اور قید سے اپنے آپ کو آزاد کرنا چاہئے۔
As mortals give up the delusion that there is more than one Mind, more than one God, man in God's likeness will appear, and this eternal man will include in that likeness no material element.
As a material, theoretical life-basis is found to be a misapprehension of existence, the spiritual and divine Principle of man dawns upon human thought, and leads it to "where the young child was," — even to the birth of a new-old idea, to the spiritual sense of being and of what Life includes. Thus the whole earth will be transformed by Truth on its pinions of light, chasing away the darkness of error.
The human thought must free itself from self-imposed materiality and bondage.
الٰہی اصول اور خیال روحانی ہم آہنگی، آسمان اور ابدیت، تشکیل دیتے ہیں۔ سچائی کی کائنات میں، مادا گمنام ہے۔غلطی کا کوئی مفروضہ وہاں داخل نہیں ہوتا۔ غلطی کی تاریکی سے الٰہی سائنس، یعنی خدا کا کلام کہتا ہے کہ، ”خدا حاکم کْل“ ہے، اور ازل سے موجود محبت کی روشنی کائنات کو روشن کرتی ہے۔ پس ابدی عجوبہ،کہ لامتناہی خلا خدا کے خیالات سے آباد ہے، جو اْسے بیشمار روحانی اشکال کی عکاسی کرتا ہے۔
The divine Principle and idea constitute spiritual harmony, — heaven and eternity. In the universe of Truth, matter is unknown. No supposition of error enters there. Divine Science, the Word of God, saith to the darkness upon the face of error, "God is All-in-all," and the light of ever-present Love illumines the universe. Hence the eternal wonder, — that infinite space is peopled with God's ideas, reflecting Him in countless spiritual forms.
انسان اور اْس کا خالق الٰہی سائنس میں باہمی شراکت رکھتے ہیں، اور حقیقی شعور صرف خدا کی باتوں سے ہی پہچانا جاتا ہے۔
Man and his Maker are correlated in divine Science, and real consciousness is cognizant only of the things of God.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔