اتوار 4 فروری، 2024
”دیکھو باپ نے ہم سے کیسی محبت کی ہے کہ ہم خدا کے فرزند کہلائے۔“
“Behold, what manner of love the Father hath bestowed upon us, that we should be called the sons of God.”
7۔ اے بچو! کسی کے فریب میں نہ آنا۔ جو راستبازی کے کام کرتا ہے وہی اْس کی طرح راستباز ہے۔
6۔ہم خدا سے ہیں۔
7۔ اے عزیزو! آؤ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں، کیونکہ محبت خدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی خدا سے محبت رکھتا ہے وہ خدا سے پیدا ہوا ہے اور خدا کو جانتا ہے۔
8۔جو محبت نہیں رکھتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔
9۔ جو محبت خدا کو ہم سے ہے وہ اس سے ظاہر ہوئی کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اْس کے سبب سے زندہ رہیں۔
10۔ محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ اْس نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارے کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا۔
11۔ اے عزیزو! جب خدانے ہم سے ایسی محبت کی تو ہم پر بھی ایک دوسرے سے محبت رکھنا فرض ہے۔
7. Little children, let no man deceive you: he that doeth righteousness is righteous, even as he is righteous.
6. We are of God.
7. Beloved, let us love one another: for love is of God; and every one that loveth is born of God, and knoweth God.
8. He that loveth not knoweth not God; for God is love.
9. In this was manifested the love of God toward us, because that God sent his only begotten Son into the world, that we might live through him.
10. Herein is love, not that we loved God, but that he loved us, and sent his Son to be the propitiation for our sins.
11. Beloved, if God so loved us, we ought also to love one another.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
16۔ جو محبت خدا کو ہم سے ہے اْس کو ہم جان گئے اور ہمیں اْس کا یقین ہے۔ خدامحبت ہے اور جو محبت میں قائم رہتا ہے وہ خدا میں قائم رہتا ہے اور خدا اْس میں قائم رہتا ہے۔
17۔ اِسی سبب سے محبت ہم میں کامل ہوگئی ہے تاکہ ہمیں عدالت کے دن دلیری ہو کیونکہ جیسا وہ ہے ویسے ہی دنیا میں ہم بھی ہیں۔
19۔ ہم اِس لئے محبت رکھتے ہیں کہ پہلے اْس نے ہم سے محبت رکھی۔
20۔اگر کوئی کہے کہ میں خدا سے محبت رکھتا ہوں اور وہ اپنے بھائی سے عداوت رکھے تو جھوٹا ہے کیونکہ جو اپنے بھائی سے جسے اس نے دیکھا ہے محبت نہیں رکھتا وہ خدا سے بھی جسے اس نے نہیں دیکھا محبت نہیں رکھ سکتا۔
21۔ اور ہم کو اْس کی طرف سے یہ حکم ملا ہے کہ جو کوئی خدا سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے بھائی سے بھی محبت رکھے۔
16 And we have known and believed the love that God hath to us. God is love; and he that dwelleth in love dwelleth in God, and God in him.
17 Herein is our love made perfect, that we may have boldness in the day of judgment: because as he is, so are we in this world.
19 We love him, because he first loved us.
20 If a man say, I love God, and hateth his brother, he is a liar: for he that loveth not his brother whom he hath seen, how can he love God whom he hath not seen?
21 And this commandment have we from him, That he who loveth God love his brother also.
37۔ اْس نے اْس سے کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔
38۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔
39۔ اور دوسرا اِس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔
40۔ اِنہی دو حکموں پر توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے۔
37 Jesus said ... Thou shalt love the Lord thy God with all thy heart, and with all thy soul, and with all thy mind.
38 This is the first and great commandment.
39 And the second is like unto it, Thou shalt love thy neighbour as thyself.
40 On these two commandments hang all the law and the prophets.
1۔وہ اْس بھیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب بیٹھ گیا تو اْس کے شاگرد اْس کے پاس آئے۔
2۔ اور وہ اپنی زبان ہوکر اْن کو یوں تعلیم دینے گا۔
43۔ تم سْن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دْشمن سے عداوت۔
44۔ لیکن مَیں تم سے کہتاہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اوراپنے ستانے والوں کے لئے دعا کرو۔
45۔ تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔
46۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارا کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟
47۔ اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرتے ہو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟
48۔ پس چاہئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔
1 And seeing the multitudes, he went up into a mountain: and when he was set, his disciples came unto him:
2 And he opened his mouth, and taught them, saying,
43 Ye have heard that it hath been said, Thou shalt love thy neighbour, and hate thine enemy.
44 But I say unto you, Love your enemies, bless them that curse you, do good to them that hate you, and pray for them which despitefully use you, and persecute you;
45 That ye may be the children of your Father which is in heaven: for he maketh his sun to rise on the evil and on the good, and sendeth rain on the just and on the unjust.
46 For if ye love them which love you, what reward have ye? do not even the publicans the same?
47 And if ye salute your brethren only, what do ye more than others? do not even the publicans so?
48 Be ye therefore perfect, even as your Father which is in heaven is perfect.
1۔قیصریہ میں کرنیلیس نام ایک شخص تھا۔وہ اس پلٹن کا صوبہ دار تھا جو اطالیانی کہلاتی ہے۔
2۔وہ دیندار تھا اور اپنے سارے گھرانے سمیت خدا سے ڈرتا تھااور یہودیوں کو بہت خیرات دیتا اور ہر وقت خدا سے دعا کرتا تھا۔
3۔اس نے تیسرے پہر کے قریب رویا میں صاف صاف دیکھا کہ خدا کا فرشتہ میرے پاس آ کر کہتا ہے کرنیلیس۔
4۔اس نے اس کو غور سے دیکھا اور ڈر کر کہا خداوند کیا ہے؟اس نے اس سے کہا تیری دعائیں اور تیری خیرات یادگاری کے لیے خدا کے حضور پہنچیں۔
5۔اب یافا میں آدمی بھیج کر شمعون کو جو پطرس کہلاتا ہے بلوالے۔
7۔اور جب وہ فرشتہ چلا گیا جس نے اس سے باتیں کی تھیں تو اس نے دو نوکروں کو ان میں سے جو اس کے پاس حاضر رہا کرتے تھے ایک دیندار سپاہی کو بلایا۔
8۔اور سب باتیں ان سے بیان کر کے انہیں یافا میں بھیجا۔
9۔دوسرے دن جب وہ راہ میں تھے اور شہر کے نزدیک پہنچے تو پطرس دوپہر کے قریب کوٹھے پر دعا کرنے کو چڑھا۔
10۔اور اسے بھوک لگی اور کچھ کھانا چاہتا تھالیکن جب لوگ تیار کر رہے تھے تو اس پر بے خودی چھا گئی۔
11۔اور اس نے دیکھا کہ آسمان کھل گیا اور ایک چیز بڑی چادر کی مانند چاروں کونوں سے لٹکتی ہوئی زمین کی طرف اتر رہی ہے۔
12۔جس میں زمین کے سب قسم کے چوپائے اور کیڑے مکوڑے اور ہوا کے پرندے ہیں۔
13۔اور اسے ایک آواز آئی کہ اے پطرس اٹھ!ذبح کر اور کھا۔
14۔مگر پطرس نے کہا اے خداوند!ہرگز نہیں کیونکہ میں نے کبھی کوئی حرام یا ناپاک چیز نہیں کھائی۔
15۔پھر دوسری بار اسے آواز آئی کہ جن کو خدا نے پاک ٹھہرایاتو انہیں حرام نہ کہہ۔
19۔جب پطرس اس رویا کو سوچ رہا تھا تو روح نے اس سے کہا کہ تین آدمی تجھے پوچھ رہے ہیں۔
20۔پس اٹھ کر نیچے جا اور بے کھٹکے ان کے ساتھ ہو لے کیونکہ میں نے ہی ان کو بھیجا ہے۔
23۔ پس اس نے ان کو اندر بلا کر ان کی مہمانی کی۔اور دوسرے دن وہ اٹھ کر ان کے ساتھ روانہ ہوا اور یافا میں سے بعض بھائی اس کے ساتھ ہو لئے۔
24۔وہ دوسرے روز قیصریہ میں داخل ہوئے۔
25۔جب پطرس اندر آنے لگا تو ایسا ہوا کہ کرنیلیس نے اس کا استقبال کیااور اس کے قدموں میں گر کرسجدہ کیا۔
26۔لیکن پطرس نے اسے اٹھا کر کہا کہ کھڑا ہو۔ میں بھی تو انسان ہوں۔
28۔ اوران سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ یہودی کو غیر قوم والے سے صحبت رکھنا یا اس کے ہاں جانا نا جائزہے مگر خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ میں کسی آدمی کو نجس یا ناپاک نہ کہوں۔
34۔پطرس نے زبان کھول کر کہا۔اب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ خدا کسی کا طرف دار نہیں۔
35۔بلکہ ہر قوم میں جو اس سے ڈرتا اور راستبازی کرتاہے وہ اس کو پسند آتا ہے۔
1 There was a certain man in Cæsarea called Cornelius, a centurion of the band called the Italian band,
2 A devout man, and one that feared God with all his house, which gave much alms to the people, and prayed to God alway.
3 He saw in a vision evidently about the ninth hour of the day an angel of God coming in to him, and saying unto him, Cornelius.
4 And when he looked on him, he was afraid, and said, What is it, Lord? And he said unto him, Thy prayers and thine alms are come up for a memorial before God.
5 And now send men to Joppa, and call for one Simon, whose surname is Peter:
7 And when the angel which spake unto Cornelius was departed, he called two of his household servants, and a devout soldier of them that waited on him continually;
8 And when he had declared all these things unto them, he sent them to Joppa.
9 On the morrow, as they went on their journey, and drew nigh unto the city, Peter went up upon the housetop to pray about the sixth hour:
10 And he became very hungry, and would have eaten: but while they made ready, he fell into a trance,
11 And saw heaven opened, and a certain vessel descending unto him, as it had been a great sheet knit at the four corners, and let down to the earth:
12 Wherein were all manner of fourfooted beasts of the earth, and wild beasts, and creeping things, and fowls of the air.
13 And there came a voice to him, Rise, Peter; kill, and eat.
14 But Peter said, Not so, Lord; for I have never eaten any thing that is common or unclean.
15 And the voice spake unto him again the second time, What God hath cleansed, that call not thou common.
19 While Peter thought on the vision, the Spirit said unto him, Behold, three men seek thee.
20 Arise therefore, and get thee down, and go with them, doubting nothing: for I have sent them.
23 Then called he them in, and lodged them. And on the morrow Peter went away with them, and certain brethren from Joppa accompanied him.
24 And the morrow after they entered into Cæsarea.
25 And as Peter was coming in, Cornelius met him, and fell down at his feet, and worshipped him.
26 But Peter took him up, saying, Stand up; I myself also am a man.
28 And he said unto them, Ye know how that it is an unlawful thing for a man that is a Jew to keep company, or come unto one of another nation; but God hath shewed me that I should not call any man common or unclean.
34 Then Peter opened his mouth, and said, Of a truth I perceive that God is no respecter of persons:
35 But in every nation he that feareth him, and worketh righteousness, is accepted with him.
2۔جب ہم خدا سے محبت رکھتے اور اس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں تو اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کے فرزندوں سے بھی محبت رکھتے ہیں۔
3۔اور خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اْس کے حکموں پرعمل کریں اور اْس کے حکم سخت نہیں۔
4۔ جو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے وہ دنیا پر غالب آتا ہے اور وہ غلبہ جس سے دنیا مغلوب ہوئی ہے ہمارا ایمان ہے۔
2 By this we know that we love the children of God, when we love God, and keep his commandments.
3 For this is the love of God, that we keep his commandments: and his commandments are not grievous.
4 For whatsoever is born of God overcometh the world:
28۔ اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اْن کے لئے جو خدا کے ارادہ کے موافق بلائے گئے۔
31۔ پس ہم اِن باتوں کی بابت کیا کہیں َ اگر خدا ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے؟
35۔ کون ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کرے گا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال نہ ننگا پن یا خطرہ یا تلوار؟
37۔ مگر اْن سب حالتوں میں اْس کے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کے غلبہ حاصل ہوتا ہے۔
38۔ کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی محبت جو ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہے اْس سے ہم کو نہ موت جدا کر سکے گی نہ زندگی۔
39۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں۔ نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق۔
28 And we know that all things work together for good to them that love God, to them who are the called according to his purpose.
31 What shall we then say to these things? If God be for us, who can be against us?
35 Who shall separate us from the love of Christ? Shall tribulation, or distress, or persecution, or famine, or nakedness, or peril, or sword?
37 Nay, in all these things we are more than conquerors through him that loved us.
38 For I am persuaded, that neither death, nor life, nor angels, nor principalities, nor powers, nor things present, nor things to come,
39 Nor height, nor depth, nor any other creature, shall be able to separate us from the love of God, which is in Christ Jesus our Lord.
”آپس میں محبت رکھیں“ (1 یوحنا 3 باب23 آیت)، الہامی مصنف کی نہایت سادہ اور گہری نصیحت ہے۔
محبت کرسچن سائنس کے قانون کو پورا کرتی ہے،
"Love one another" (I John, iii. 23), is the most simple and profound counsel of the inspired writer.
Love fulfils the law of Christian Science,
”خدا محبت ہے۔“ اس سے زیادہ ہم مانگ نہیں سکتے، اِس سے اونچا ہم دیکھ نہیں سکتے اور اس سے آگے ہم جا نہیں سکتے۔
"God is Love." More than this we cannot ask, higher we cannot look, farther we cannot go.
یسوع نے انسان کو محبت کا حقیقی فہم، یسوع کی تعلیمات کا الٰہی اصول دیتے ہوئے خدا کے ساتھ راضی ہونے میں مدد کی، اور محبت کا یہ حقیقی فہم روح کے قانون، الٰہی محبت کے قانون کے وسیلہ انسان کو مادے، گناہ اور موت کے قانون سے آزاد کرتا ہے۔
Jesus aided in reconciling man to God by giving man a truer sense of Love, the divine Principle of Jesus' teachings, and this truer sense of Love redeems man from the law of matter, sin, and death by the law of Spirit, — the law of divine Love.
خدا تمام چیزوں کو اپنی شبیہ پر بناتا ہے۔ زندگی وجودیت سے، سچ راستی سے، خدا نیکی سے منعکس ہوتا ہے، جو خود کی سلامتی اور استقلال عنایت کرتے ہیں۔ محبت، بے غرضی سے معطر ہو کر، سب کو خوبصورتی اور روشنی سے غسل دیتی ہے۔
God fashions all things, after His own likeness. Life is reflected in existence, Truth in truthfulness, God in goodness, which impart their own peace and permanence. Love, redolent with unselfishness, bathes all in beauty and light.
جیسا کہ صرف ایک واحد خدا ہے، تو پوری سائنس کا صرف ایک ہی الٰہی اصول ہے؛ اور اس الٰہی اصول کے اظہار کے لئے بھی طے شدہ قوانین ہونے چاہئیں۔ سائنس کا خط آج کثرت کے ساتھ انسانیت تک پہنچ رہا ہے، لیکن ا س کی روح بہت چھوٹے درجات میں آتی ہے۔ کرسچن سائنس کا لازمی حصہ، دل اور جان محبت ہے۔ اِس کے بغیر، یہ خط سائنس کی مردہ لاش، بے نفس، ٹھنڈا، بے جان ہوتا ہے۔
As there is but one God, there can be but one divine Principle of all Science; and there must be fixed rules for the demonstration of this divine Principle. The letter of Science plentifully reaches humanity to-day, but its spirit comes only in small degrees. The vital part, the heart and soul of Christian Science, is Love. Without this, the letter is but the dead body of Science, — pulseless, cold, inanimate.
محبت تخت نشین ہے۔
شفا اور تعلیم دونوں میں خدا اور انسان سے محبت سچی ترغیب ہے۔محبت راہ کو متاثر کرتی، روشن کرتی، نامزد کرتی اور راہنمائی کرتی ہے۔ درست مقاصد خیالات کو شہ دیتے، اور کلام اور اعمال کو قوت اور آزادی دیتے ہیں۔محبت سچائی کی الطار پر بڑی راہبہ ہے۔ فانی عقل کے پانیوں پر چلنے اور کامل نظریہ تشکیل دینے کے لئے صبر کے ساتھ الٰہی محبت کا انتظار کریں۔صبر کو ”اپنا پورا کام کرنا چاہئے۔“
Love is enthroned.
Love for God and man is the true incentive in both healing and teaching. Love inspires, illumines, designates, and leads the way. Right motives give pinions to thought, and strength and freedom to speech and action. Love is priestess at the altar of Truth. Wait patiently for divine Love to move upon the waters of mortal mind, and form the perfect concept. Patience must "have her perfect work."
انسانی محبت بے فائدہ نہیں انڈیلی جاتی، خواہ اِس کا حاصل کچھ بھی نہ ہو۔ محبت فطرت کو وسیع کرتے ہوئے، پاک کرتے ہوئے اور بلند کرتے ہوئے اِسے آراستہ کرتی ہے۔ زمین پر جاڑے کے دھماکے محبت کے پھولوں کو اْکھاڑ سکتے اور اْنہیں آندھی میں منتشر کر سکتے ہیں، مگر جسمانی تعلقات کی یہ علیحدگی خدا کے ساتھ مزید قریب ہونے کی سوچ کو یکجا کرتی ہے، کیونکہ محبت اْس وقت تک جدوجہد کرنے والے دل کی حمایت کرتی ہے جب تک کہ وہ زمین پر سانس لینا نہیں چھوڑتا اور آسمان پر پرواز کے لئے اپنے پر کھولنا شروع نہیں کرتا۔
Human affection is not poured forth vainly, even though it meet no return. Love enriches the nature, enlarging, purifying, and elevating it. The wintry blasts of earth may uproot the flowers of affection, and scatter them to the winds; but this severance of fleshly ties serves to unite thought more closely to God, for Love supports the struggling heart until it ceases to sigh over the world and begins to unfold its wings for heaven.
کیا ذاتی دوستوں کے بغیر وجودیت آپ کے لئے ایک خلا ہوگا؟تو پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آپ تنہا، بغیر کسی ہمدردی کے چھوڑ دئیے جائیں گے؛ مگر یہ ظاہری خلا الٰہی محبت کے ساتھ پہلے سے ہی بھر دیا گیا ہے۔جب ترقی کی یہ گھڑی آتی ہے، تو چاہے آپ ذاتی خوشیوں کے فہم میں مشغول ہوں، روحانی محبت آپ کو اْسے قبول کرنے پر مجبور کرے گی جو آپ کی ترقی بڑھانے کے لئے بہترین ہو۔ دوست دھوکہ دیں گے اور دشمن بہتان لگائیں گے، جب تک کہ آپ کی بلندی کے لئے سبق موزوں نہیں بن جاتا؛ ”کیونکہ آدمی کی انتہا خدا کے لئے موقع ہے۔“ مصنف نے مذکورہ بالا پیشن گوئی اور اِس کی برکات کا تجربہ کیا ہے۔لہٰذہ وہ انسانوں کو اپنی جسمانیت کو کم کرنے اور روحانی کو اپنانے کی تعلیم دیتا ہے۔یہ خود کا انکار کرنے سے ہوتا ہے۔ عالمگیر محبت کرسچن سائنس میں الٰہی راہ ہے۔
Would existence without personal friends be to you a blank? Then the time will come when you will be solitary, left without sympathy; but this seeming vacuum is already filled with divine Love. When this hour of development comes, even if you cling to a sense of personal joys, spiritual Love will force you to accept what best promotes your growth. Friends will betray and enemies will slander, until the lesson is sufficient to exalt you; for "man's extremity is God's opportunity." The author has experienced the foregoing prophecy and its blessings. Thus He teaches mortals to lay down their fleshliness and gain spirituality. This is done through self-abnegation. Universal Love is the divine way in Christian Science.
خود پرستی ایک مضبوط جسم سے زیادہ غیر شفاف ہے۔ صابر خدا کی صابر تابعداری میں آئیے غلطی، خود ارادی، خود جوازی اور خود پرستی کے سخت پتھر کو محبت کے محلول کے ساتھ تحلیل کرنے کے لئے جدو جہد کریں، جو روحانیت کے خلاف جنگ کرتا اوروہ گناہ اور موت کا قانون ہے۔
Self-love is more opaque than a solid body. In patient obedience to a patient God, let us labor to dissolve with the universal solvent of Love the adamant of error, — self-will, self-justification, and self-love, — which wars against spirituality and is the law of sin and death.
جو کچھ بھی حکمت، سچائی یا محبت سے متاثر ہو، خواہ یہ گیت، وعظ یا سائنس ہو، وہ بھوکے کو کھانا کھلاتے اور پیاسے کو زندگی کا پانی دیتے ہوئے، انسانی خاندان کو مسیح کے میز سے تسلی کے ٹکڑوں سے بابرکت بناتے ہیں۔
ہمیں بدی کی بجائے نیکی سے زیادہ واقف ہونا چاہئے، اور ایسے محتاط ہو کر جھوٹے عقائد کے خلاف محفوظ ہونا چاہئے جیسے ہم چوروں اور قاتلوں کی پہنچ سے اپنے دروازے بند رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنے دشمنوں سے محبت رکھنی چاہئے اور سنہری اصول کی بنیاد پر اْن کی مدد کرنی چاہئے؛ مگر اْن لوگوں کے سامنے موتی پھینکنے سے گریز کرناچا ہئے جو اْنہیں اپنے پاؤں تلے روندتے ہیں، یعنی خود کو اور دوسروں کو نقب لگاتے ہوئے۔
Whatever inspires with wisdom, Truth, or Love — be it song, sermon, or Science — blesses the human family with crumbs of comfort from Christ's table, feeding the hungry and giving living waters to the thirsty.
We should become more familiar with good than with evil, and guard against false beliefs as watchfully as we bar our doors against the approach of thieves and murderers. We should love our enemies and help them on the basis of the Golden Rule; but avoid casting pearls before those who trample them under foot, thereby robbing both themselves and others.
ساری فطرت انسان کے ساتھ خدا کی محبت کی تعلیم دیتی ہے، لیکن انسان خدا سے بڑھ کر اْسے پیار نہیں کر سکتا اورروحانیت کی بجائے مادیت سے پیار کرتے اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنے احساس کو روحانی چیزوں پر مرتب نہیں کرسکتا۔
ہمیں مادی نظاموں کی بنیاد کو ترک کرنا چاہئے، تاہم یہ منحصر ہے، اگر ہم مسیح کو ہمارے واحد نجات دہندہ کے طور پر حاصل کرتے ہیں۔
All nature teaches God's love to man, but man cannot love God supremely and set his whole affections on spiritual things, while loving the material or trusting in it more than in the spiritual.
We must forsake the foundation of material systems, however time-honored, if we would gain the Christ as our only Saviour.
کسی کا اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کرنا ایک الٰہی خیال ہے؛ مگر اِس خیال کو جسمانی حواس کے وسیلہ کبھی نہیں دیکھا، محسوس کیا اور نہ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
To love one's neighbor as one's self, is a divine idea; but this idea can never be seen, felt, nor understood through the physical senses.
اْس دولت، شہرت اور معاشرتی تنظیم کو دور کردیں جن کا خدا کے ترازو میں تنکا برابر وزن بھی نہیں ہے، تو پھر ہمیں اصول کے واضح خیالات ملتے ہیں۔ گروہ بندی کو توڑیں، دولت کو ایمانداری سے ہموار کریں، قابلیت کو حکمت سے آزمائیں تو ہمیں انسانیت کے بہتر خیالات ملتے ہیں۔
ہماری ترقی کا تعین کرنے کے لئے، ہمیں یہ سیکھنا چاہئے کہ ہماری ہمدردیاں کیا مقام رکھتی ہیں اور بطور خدا ہم کسے تسلیم کرتے اور کس کے حْکم کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر الٰہی محبت ہمارے لئے قریب تر، عزیز تر اور زیادہ حقیقی بن رہی ہے تو پھر مادہ روح کے سپرد ہورہا ہے۔جن چیزوں کا ہم تعاقب کرتے ہیں اورجس روح کو ہم آشکار کرتے ہیں وہ ہمارے نقطہ نظر کو ظاہرکرتی ہے اور ہمیں دکھاتی ہے کہ ہم کیا فتح کر رہے ہیں۔
Take away wealth, fame, and social organizations, which weigh not one jot in the balance of God, and we get clearer views of Principle. Break up cliques, level wealth with honesty, let worth be judged according to wisdom, and we get better views of humanity.
To ascertain our progress, we must learn where our affections are placed and whom we acknowledge and obey as God. If divine Love is becoming nearer, dearer, and more real to us, matter is then submitting to Spirit. The objects we pursue and the spirit we manifest reveal our standpoint, and show what we are winning.
خدا خود کا تصور بڑے کے ساتھ ایک رابطے کے لئے چھوٹے کو دیتا ہے، اور بدلے میں، بڑا ہمیشہ چھوٹے کو تحفظ دیتا ہے۔روح کے امیراعلیٰ بھائی چارے میں،ایک ہی اصول یا باپ رکھتے ہوئے، غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور مبارک ہے وہ شخص جودوسرے کی بھلائی میں اپنی بھلائی دیکھتے ہوئے، اپنے بھائی کی ضرورت دیکھتا اور پوری کرتا ہے۔ محبت کمزور روحانی خیال کو طاقت، لافانیت اور بھلائی عطا کرتی ہے جو سب میں ایسے ہی روشن ہوتی ہے جیسے شگوفہ ایک کونپل میں روشن ہوتا ہے۔خدا سے متعلق تمام تر مختلف اظہارات صحت، پاکیزگی، لافانیت، لامحدود زندگی، سچائی اور محبت کی عکاسی کرتے ہیں۔
God gives the lesser idea of Himself for a link to the greater, and in return, the higher always protects the lower. The rich in spirit help the poor in one grand brotherhood, all having the same Principle, or Father; and blessed is that man who seeth his brother's need and supplieth it, seeking his own in another's good. Love giveth to the least spiritual idea might, immortality, and goodness, which shine through all as the blossom shines through the bud. All the varied expressions of God reflect health, holiness, immortality — infinite Life, Truth, and Love.
خدا کی تمجید ہو اور جدوجہد کرنے والے دلوں کے لئے سلامتی ہو! مسیح نے انسانی امید اور ایمان کے درواز ے سے پتھر ہٹا دیا ہے، اور خدا میں زندگی کے اظہار اور مکاشفہ کی بدولت اْس نے انسان کے روحانی خیال اور اْس کے الٰہی اصول، یعنی محبت کے ساتھ ممکنہ کفارے سے انہیں بلند کیا۔
روز مرہ کے فرائضمنجاب میری بیکر ایڈی
Glory be to God, and peace to the struggling hearts! Christ hath rolled away the stone from the door of human hope and faith, and through the revelation and demonstration of life in God, hath elevated them to possible at-one-ment with the spiritual idea of man and his divine Principle, Love.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔