اتوار 9 اپریل، 2023
”ابدتک خداوندپر اعتماد رکھو کیونکہ خداوند یہواہ ابدی چٹان ہے۔“
“Trust ye in the Lord for ever: for in the Lord JEHOVAH is everlasting strength.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
1۔ اے خداوند! مَیں تیری تمجید کروں گا کیونکہ تْو نے مجھے سرفراز کیا ہے۔ اور میرے دشمنوں کومجھ پر خوش ہونے نہ دیا۔
2۔ اے خداوند میرے خدا! مَیں نے تجھ سے فریاد کی اور تْو نے مجھے شفا بخشی۔
3۔ اے خداوند! تْو میری جان کو پاتال سے نکال لایا ہے۔تْو نے مجھے زندہ رکھا کہ گور میں نہ جاؤں۔
2۔ مَیں خداوند کے بارے میں کہوں گا وہی میری پناہ اور میرا گڑھ ہے۔ وہ میرا خدا ہے جس پر میرا توکل ہے۔
9۔ پر تْو اے خداوند! میری پناہ ہے۔ تْو نے حق تعالیٰ کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔
10۔ تجھ پر کوئی آفت نہ آئے گی۔ اور کوئی وبا تیرے خیمے کے نزدیک نہ پہنچے گی۔
11۔ کیونکہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا۔ کہ تیری سب راہوں میں تیری حفاظت کریں۔
12۔ وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اْٹھا لیں گے۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔
1. I will extol thee, O Lord; for thou hast lifted me up, and hast not made my foes to rejoice over me.
2. O Lord my God, I cried unto thee, and thou hast healed me.
3. O Lord, thou hast brought up my soul from the grave: thou hast kept me alive, that I should not go down to the pit.
2. I will say of the Lord, He is my refuge and my fortress: my God; in him will I trust.
9. Because thou hast made the Lord, which is my refuge, even the most High, thy habitation;
10. There shall no evil befall thee, neither shall any plague come nigh thy dwelling.
11. For he shall give his angels charge over thee, to keep thee in all thy ways.
12. They shall bear thee up in their hands, lest thou dash thy foot against a stone.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
2۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور اْس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر۔
3۔ وہ تیری ساری بدکاری بخشتا ہے۔ وہ تجھے تمام بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔
4۔ وہ تیری جان ہلاکت سے بچاتا ہے۔ وہ تیرے سر پر شفقت و رحمت کا تاج رکھتا ہے۔
5۔ وہ تجھے عمر بھر اچھی اچھی چیزوں سے آسودہ کرتا ہے۔ تْو عْقاب کی مانند از سرِ نو جوان ہوتا ہے۔
6۔ خداوند سب مظلوموں کے لئے صداقت اور عدل کے کام کرتا ہے۔
10۔ اْس نے ہمارے گناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہمیں بدلہ نہیں دیا۔
11۔ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اْسی قدر اْس کی شفقت اْن پر ہے جو اْس سے ڈرتے ہیں۔
12۔ جیسے پورب پچھم سے دور ہے ویسے ہی اْس نے ہماری خطائیں ہم سے دور کردیں۔
13۔ جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہی خداوند اْن پر جو اْس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔
2 Bless the Lord, O my soul, and forget not all his benefits:
3 Who forgiveth all thine iniquities; who healeth all thy diseases;
4 Who redeemeth thy life from destruction; who crowneth thee with lovingkindness and tender mercies;
5 Who satisfieth thy mouth with good things; so that thy youth is renewed like the eagle’s.
6 The Lord executeth righteousness and judgment for all that are oppressed.
10 He hath not dealt with us after our sins; nor rewarded us according to our iniquities.
11 For as the heaven is high above the earth, so great is his mercy toward them that fear him.
12 As far as the east is from the west, so far hath he removed our transgressions from us.
13 Like as a father pitieth his children, so the Lord pitieth them that fear him.
1۔ یسوع مسیح ابن خدا کی خوشخبری کا شروع۔
4۔ یوحنا آیا اور بیابان میں بپتسمہ دیتا اور گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کے بپتسمہ کی منادی کرتا تھا۔
9۔ اور اْن دنوں ایسا ہوا کہ یسوع نے گلیل کے ناصرت سے آکر یردن میں یوحنا سے بپتسمہ لیا۔
10۔ اور جب وہ پانی سے نکل کر اوپر آیا تو فی الفور اْس نے آسمان کو پھٹتے اور روح کو کبوتر کی مانند اپنے اوپر اْترتے دیکھا۔
11۔ اور آسمان سے آواز آئی کہ تْو میرا پیارا بیٹا ہے۔ تجھ سے مَیں خوش ہوں۔
1 The beginning of the gospel of Jesus Christ, the Son of God;
4 John did baptize in the wilderness, and preach the baptism of repentance for the remission of sins.
9 And it came to pass in those days, that Jesus came from Nazareth of Galilee, and was baptized of John in Jordan.
10 And straightway coming up out of the water, he saw the heavens opened, and the Spirit like a dove descending upon him:
11 And there came a voice from heaven, saying, Thou art my beloved Son, in whom I am well pleased.
1۔ پھر وہ کشتی پر چڑھ کر پار گیااور اپنے شہر میں آیا۔
2۔ اور دیکھو لوگ ایک مفلوج کو چار پائی پر پڑا ہوا اْس کے پاس لائے۔ یسوع نے اْن کا ایمان دیکھ کر مفلوج سے کہا بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے۔
3۔ اور دیکھو بعض فقیہوں نے اپنے دل میں کہا یہ کفر بکتا ہے۔
4۔ یسوع نے اْن کے خیال معلوم کر کے کہا تم کیوں اپنے دلوں میں برا خیال لاتے ہو؟
5۔ آسان کیا ہے۔ یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہ اٹھ اور چل پھر؟
6۔ لیکن اِس لئے کہ تم جان لو کہ ابنِ آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔ (اْس نے مفلوج سے کہا) اْٹھ اپنی چار پائی اْٹھا اور اپنے گھر چلا جا۔
7۔ وہ اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔
8۔ لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا۔
1 And he entered into a ship, and passed over, and came into his own city.
2 And, behold, they brought to him a man sick of the palsy, lying on a bed: and Jesus seeing their faith said unto the sick of the palsy; Son, be of good cheer; thy sins be forgiven thee.
3 And, behold, certain of the scribes said within themselves, This man blasphemeth.
4 And Jesus knowing their thoughts said, Wherefore think ye evil in your hearts?
5 For whether is easier, to say, Thy sins be forgiven thee; or to say, Arise, and walk?
6 But that ye may know that the Son of man hath power on earth to forgive sins, (then saith he to the sick of the palsy,) Arise, take up thy bed, and go unto thine house.
7 And he arose, and departed to his house.
8 But when the multitudes saw it, they marvelled, and glorified God, which had given such power unto men.
14۔ اور یسوع نے پطرس کے گھر میں آکر اْس کی ساس کو تپ میں پڑی دیکھا۔
15۔ اْس نے اْس کا ہاتھ چھوا اورتپ اْس پر سے اتر گئی اور وہ اْٹھ کھڑی ہوئی اور اْس کی خدمت کرنے لگی۔
16۔ جب شام ہوئی تو اْس کے پاس بہت سے لوگ آئے جن میں بدروحیں تھیں۔ اْس نے روحوں کو زبان ہی سے کہہ کر نکال دیا اور سب بیماروں کو اچھا کر دیا۔
14 And when Jesus was come into Peter’s house, he saw his wife’s mother laid, and sick of a fever.
15 And he touched her hand, and the fever left her: and she arose, and ministered unto them.
16 When the even was come, they brought unto him many that were possessed with devils: and he cast out the spirits with his word, and healed all that were sick:
1۔ جب صبح ہوئی تو سب سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں نے یسوع کے خلاف مشورہ کیا کہ اُسے مار ڈالیں۔
11۔ یسوع حاکم کے سامنے کھڑا تھا اور حاکم نے اُس سے یہ پوچھا کہ کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ یسوع نے اُس سے کہا تو خود کہتا ہے۔
12۔ اور جب سردار کاہن اور بزرگ اُس پر الزام لگا رہے تھے اُس نے کچھ جواب نہ دیا۔
13۔ اس پر پلاطوس نے اُس سے کہا کیا تو نہیں سنتا یہ تیرے خلاف کتنی گواہیاں دیتے ہیں؟
14۔ اُس نے ایک بات کا بھی اُس کو جواب نہ دیا۔ یہاں تک کہ حاکم نے بہت تعجب کیا۔
24۔ جب پلاطس نے دیکھا کہ کچھ بن نہیں پڑتا بلکہ الٹا بلوا ہوتا جاتا ہے تو پانی لے کر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا کہ مَیں اس راستباز کے خون سے بری ہوں۔ تم جانو۔
25۔ سب لوگوں نے جواب میں کہا اِس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر!
33۔ اور اس جگہ جو گلگتا یعنی کھوپڑی کی جگہ کہلاتی ہے پہنچ کر۔
35۔۔۔۔انہوں نے اسے مصلوب کیا۔
1 When the morning was come, all the chief priests and elders of the people took counsel against Jesus to put him to death:
11 And Jesus stood before the governor: and the governor asked him, saying, Art thou the King of the Jews? And Jesus said unto him, Thou sayest.
12 And when he was accused of the chief priests and elders, he answered nothing.
13 Then said Pilate unto him, Hearest thou not how many things they witness against thee?
14 And he answered him to never a word; insomuch that the governor marvelled greatly.
24 When Pilate saw that he could prevail nothing, but that rather a tumult was made, he took water, and washed his hands before the multitude, saying, I am innocent of the blood of this just person: see ye to it.
25 Then answered all the people, and said, His blood be on us, and on our children.
33 And when they were come unto a place called Golgotha, that is to say, a place of a skull,
35 …they crucified him.
1۔ جب سبت کا دن گزر گیا تو مریم مگدلینی اور یعقوب کی ماں مریم اور سلومی نے خوشبودار چیزیں مول لیں تاکہ آ کر اُس پر ملیں۔
4۔ جب انہوں نے نگاہ کی تو دیکھا کہ پتھر لڑھکا ہوا ہے کیونکہ وہ بہت ہی بڑا تھا۔
5۔ اور قبر کے اندر جا کر انہوں نے ایک جوان کو سفید جامہ پہنے ہوئے دہنی طرف بیٹھے دیکھا اور نہایت حیران ہوئیں۔
6۔ اُس نے اُن سے کہا ایسی حیران نہ ہو۔ تم یسوع ناصری کو جو مصلوب ہوا تھا ڈھونڈتی ہو۔ وہ جی اُٹھا ہے۔ وہ یہاں نہیں ہے۔ دیکھو یہ وہ جگہ ہے جہاں اُنہوں نے اُسے رکھا تھا۔
9۔ ہفتہ کے پہلے روز جب وہ سویرے جی اٹھا تو پہلے مریم مگدلینی کو جس میں سے اُس نے سات بدروحیں نکالی تھیں دکھائی دیا۔
14۔ پھر وہ ان گیارہ کو بھی جب کھانا کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اور اس نے ان کی بے اعتقادی اور سخت دلی پر اُن کو ملامت کی کیونکہ جنہوں نے اُس کے جی اٹھنے کے بعد اُسے دیکھا تھا انہوں نے اُن کا یقین نہ کیا تھا۔
15۔ اور اُس نے اُن سے کہا کہ تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔
17۔ اور ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔ وہ میرے نام سے بدروحوں کو نکالیں گے۔
18۔ نئی نئی زبانیں بولیں گے۔ سانپوں کو اُٹھالیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پئیں گے تو انہیں کچھ ضرر نہ پہنچے گا۔ وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو اچھے ہو جائیں گے۔
19۔ غرض خداوند یسوع ان سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیا اور خدا کی دہنی طرف بیٹھ گیا۔
20۔ پھر انہوں نے نکل کر ہر جگہ منادی کی اور خداوند ان کے ساتھ کام کرتا رہا اور کلام کو اُن معجزوں کے وسیلہ سے جو ساتھ ساتھ ہوتے تھے ثابت کرتا رہا۔ آمین
1 And when the sabbath was past, Mary Magdalene, and Mary the mother of James, and Salome, had bought sweet spices, that they might come and anoint him.
4 And when they looked, they saw that the stone was rolled away: for it was very great.
5 And entering into the sepulchre, they saw a young man sitting on the right side, clothed in a long white garment; and they were affrighted.
6 And he saith unto them, Be not affrighted: Ye seek Jesus of Nazareth, which was crucified: he is risen; he is not here: behold the place where they laid him.
9 Now when Jesus was risen early the first day of the week, he appeared first to Mary Magdalene, out of whom he had cast seven devils.
14 Afterward he appeared unto the eleven as they sat at meat, and upbraided them with their unbelief and hardness of heart, because they believed not them which had seen him after he was risen.
15 And he said unto them, Go ye into all the world, and preach the gospel to every creature.
17 And these signs shall follow them that believe; In my name shall they cast out devils; they shall speak with new tongues;
18 They shall take up serpents; and if they drink any deadly thing, it shall not hurt them; they shall lay hands on the sick, and they shall recover.
19 So then after the Lord had spoken unto them, he was received up into heaven, and sat on the right hand of God.
20 And they went forth, and preached every where, the Lord working with them, and confirming the word with signs following. Amen.
یسوع نے مسیح کی شفا کی روحانی بنیاد پر اپنا چرچ قائم کیا اور اپنے مشن کو برقرار رکھا۔ اْس نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ اْس کا مذہب الٰہی اصول تھا، جو خطا کو خارج کرتا اور بیمار اور گناہگار دونوں کو شفا دیتا تھا۔ اْس نے خدا سے جدا کسی دانش، عمل اور نہ ہی زندگی کا دعویٰ کیا۔ باوجود اْس ایذا کے جو اِسی کے باعث اْس پر آئی، اْس نے الٰہی قوت کو انسان کو بدنی اور روحانی دونوں لحاظ سے نجات دینے کے لئے استعمال کیا۔
شاگرد اپنے مالک کو دوسروں کی نسبت زیادہ جانتے تھے مگر جو کچھ اْس نے کہا اور کیا وہ اْس کو مکمل طور پر نہیں سمجھتے تھے وگرنہ وہ اکثر اْس پر سوال نہ اْٹھاتے۔یسوع صبر کے ساتھ اور سچائی کی ہستی کو ظاہر کرتے ہوئے اپنی تعلیم پر قائم رہا۔اْس کے طالب علموں نے سچائی کی اِس طاقت کو بیمار کو شفا دیتے، بد روح کو نکالتے اور مردہ کو زندہ کرتے ہوئے دیکھا، مگر اِس عجیب کام کی کاملیت روحانی طور پر قبول نہیں کی گئی، حتیٰ کہ اْن کی جانب سے بھی، صلیب پر چڑھائے جانے کے بعد تک، جب اْن کا بیداغ استاد اْن کے سامنے کھڑا تھا، جو بیماری، گناہ اور عارضے، موت اور قبر پر فتح مند ہوئے۔
Jesus established his church and maintained his mission on a spiritual foundation of Christ-healing. He taught his followers that his religion had a divine Principle, which would cast out error and heal both the sick and the sinning. He claimed no intelligence, action, nor life separate from God. Despite the persecution this brought upon him, he used his divine power to save men both bodily and spiritually.
The disciples apprehended their Master better than did others; but they did not comprehend all that he said and did, or they would not have questioned him so often. Jesus patiently persisted in teaching and demonstrating the truth of being. His students saw this power of Truth heal the sick, cast out evil, raise the dead; but the ultimate of this wonderful work was not spiritually discerned, even by them, until after the crucifixion, when their immaculate Teacher stood before them, the victor over sickness, sin, disease, death, and the grave.
یہ حقیقت کہ مسیح، یا سچائی نے موت پر فتح پائی یا ابھی بھی فتح پاتا ہے،”دہشت کے بادشاہ“ کو محض ایک فانی عقیدے یا غلطی کے علاوہ کچھ بھی ثابت نہیں کرتی، جسے سچائی زندگی کی روحانی شہادتوں کے ساتھ تباہ کرتی ہے؛ اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ حواس کو جو موت دکھائی دیتی ہے فانی فریب نظری کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ حقیقی انسان اور حقیقی کائنات کے لئے کوئی موت کا عمل نہیں۔
The fact that the Christ, or Truth, overcame and still overcomes death proves the "king of terrors" to be but a mortal belief, or error, which Truth destroys with the spiritual evidences of Life; and this shows that what appears to the senses to be death is but a mortal illusion, for to the real man and the real universe there is no death-process.
کلیسیائی جبر کے دور میں، یسوع نے، مسیحت کی سچائی اور محبت کے ثبوت کی استطاعت رکھتے ہوئے، مسیحت کی تعلیم اور مشق متعارف کروائی؛ مگر اْس کے نمونے تک پہنچنے کے لئے اور اْس کے اصول کے مطابق غلطی سے مبرا سائنس کو آزمانے کے لئے، بیماری، گناہ اور موت سے شفا دیتے ہوئے، انسانی یسوع یا اْس کی شخصیت کی بجائے خدا کو بطور الٰہی اصول اور محبت بہتر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
In an age of ecclesiastical despotism, Jesus introduced the teaching and practice of Christianity, affording the proof of Christianity's truth and love; but to reach his example and to test its unerring Science according to his rule, healing sickness, sin, and death, a better understanding of God as divine Principle, Love, rather than personality or the man Jesus, is required.
کلام پاک ہمیں اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ انسان خدا کی شبیہ اور صورت پر خلق کیا گیا ہے۔ یہ مادے کی شبیہ نہیں ہے۔ روح کی شبیہ اس قدر غیر روحانی نہیں ہوسکتی۔ انسان روحانی اور کامل ہے؛ اور چونکہ وہ روحانی اور کامل ہے اس لئے اْسے کرسچن سائنس میں ایسا ہی سمجھا جانا چاہئے۔
انسان گناہ، بیماری اور موت سے عاجز ہے۔ حقیقی انسان پاکیزگی سے الگ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی خدا، جس سے انسان نشوونما پاتا ہے، گناہ کے خلاف قوت یا آزادی پیدا کرسکتا ہے۔ ایک بشری گناہگار خدا کا بند ہ نہیں ہے۔
The Scriptures inform us that man is made in the image and likeness of God. Matter is not that likeness. The likeness of Spirit cannot be so unlike Spirit. Man is spiritual and perfect; and because he is spiritual and perfect, he must be so understood in Christian Science.
Man is incapable of sin, sickness, and death. The real man cannot depart from holiness, nor can God, by whom man is evolved, engender the capacity or freedom to sin. A mortal sinner is not God's man.
الٰہی سائنس میں، خدااور حقیقی انسان الٰہی اصول اور خیال کی مانند ناقابل غیر مْنفک ہیں۔
خدا انسان کا اصول ہے، اور انسان خداکا خیال ہے۔ لہٰذہ انسان نہ فانی ہے نہ مادی ہے۔
یسوع نے سائنس میں کامل آدمی کو دیکھا جو اْس پر وہاں ظاہر ہوا جہاں گناہ کرنے والا فانی انسان لافانی پر ظاہر ہوا۔ اس کامل شخص میں نجات دہندہ نے خدا کی اپنی شبیہ اور صورت کو دیکھا اور انسان کے اس درست نظریے نے بیمار کو شفا بخشی۔ لہٰذہ یسوع نے تعلیم دی کہ خدا برقرار اور عالمگیر ہے اور یہ کہ انسان پاک اور مقدس ہے۔
In divine Science, God and the real man are inseparable as divine Principle and idea.
God is the Principle of man, and man is the idea of God. Hence man is not mortal nor material.
Jesus beheld in Science the perfect man, who appeared to him where sinning mortal man appears to mortals. In this perfect man the Saviour saw God's own likeness, and this correct view of man healed the sick. Thus Jesus taught that the kingdom of God is intact, universal, and that man is pure and holy.
تمام حقیقت خدا اور اْس کی مخلوق میں ہم آہنگ اور ابدی ہے۔ جو کچھ وہ بناتا ہے اچھا ہے اور جو کچھ بنا ہے اْسی نے بنایا ہے۔ اسی لئے گناہ، بیماری یا موت کی واحد سچائی یہ ہولناک حقیقت ہے کہ غیر واقعیات، غلط عقائد کے ساتھ، انسان کو حقیقی لگتے ہیں، جب تک کہ خدا اْن کا پردہ فاش نہ کردے۔ وہ حقیقی نہیں ہیں کیونکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہیں۔کرسچن سائنس میں ہم سیکھتے ہیں مادی سوچ یا جسم کی تمام خارج از آہنگی فریب نظری ہے جو اگرچہ حقیقی اور یکساں دکھائی دیتی ہے لیکن وہ نہ حقیقت کی نہ ہی یکسانیت کی ملکیت رکھتی ہے۔
عقل کی سائنس ساری بدی سے عاری ہوتی ہے۔ سچائی، خدا غلطی کا باپ نہیں ہے۔گناہ، بیماری اور موت کی بطور غلطی کے اثرات درجہ بندی کی جانی چاہئے۔
All reality is in God and His creation, harmonious and eternal. That which He creates is good, and He makes all that is made. Therefore the only reality of sin, sickness, or death is the awful fact that unrealities seem real to human, erring belief, until God strips off their disguise. They are not true, because they are not of God. We learn in Christian Science that all inharmony of mortal mind or body is illusion, possessing neither reality nor identity though seeming to be real and identical.
The Science of Mind disposes of all evil. Truth, God, is not the father of error. Sin, sickness, and death are to be classified as effects of error.
عقل کو تمام جسمانی حواس کے عقائد پر برتری حاصل ہونی چاہئے، اور اِسے تمام بیماریوں کو نیست کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔ بیماری ایک عقیدہ ہے، جسے الٰہی عقل کے وسیلہ فنا ہونا چاہئے۔ عارضہ نام نہاد فانی عقل کا ایک تجربہ ہے۔ یہ ایک خوف ہے جو بدن پر ظاہر کیا گیا ہے۔ کرسچن سائنس مخالفت کے اِس جسمانی فہم کو دور کر دیتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے یہ کسی بھی دوسری اخلاقی یا ذہنی ہم آہنگی کے فہم کو تلف کرتی ہے۔
Mind must be found superior to all the beliefs of the five corporeal senses, and able to destroy all ills. Sickness is a belief, which must be annihilated by the divine Mind. Disease is an experience of so-called mortal mind. It is fear made manifest on the body. Christian Science takes away this physical sense of discord, just as it removes any other sense of moral or mental inharmony.
صحت مادے کی حالت نہیں بلکہ عقل کی حالت ہے؛اور نہ ہی مادی حواس صحت کے موضوع پر قابل یقین گواہی پیش کر سکتے ہیں۔ شفائیہ عقل کی سائنس کسی کمزور کے لئے یہ ہونا ناممکن بیان کرتی ہے جبکہ عقل کے لئے اِس کی حقیقتاً تصدیق کرنا یا انسان کی اصلی حالت کو ظاہر کرنا ممکن پیش کرتی ہے۔اس لئے سائنس کا الٰہی اصول جسمانی حواس کی گواہی کو تبدیل کرتے ہوئے انسان کو بطور سچائی میں ہم آہنگی کے ساتھ موجود ہوتا ظاہر کرتی ہے، جو صحت کی واحد بنیاد ہے؛ اور یوں سائنس تمام بیماری سے انکار کرتی، بیمار کو شفا دیتی، جھوٹی گواہی کو برباد کرتی اور مادی منطق کی تردید کرتی ہے۔
Health is not a condition of matter, but of Mind; nor can the material senses bear reliable testimony on the subject of health. The Science of Mind-healing shows it to be impossible for aught but Mind to testify truly or to exhibit the real status of man. Therefore the divine Principle of Science, reversing the testimony of the physical senses, reveals man as harmoniously existent in Truth, which is the only basis of health; and thus Science denies all disease, heals the sick, overthrows false evidence, and refutes materialistic logic.
کیا یہ ایمان رکھنا کفر کی ایک قسم نہیں کہ مسیحا جیسا ایک عظیم کام جو اْس نے خود کے لئے یا خدا کے لئے کیا، اْسے ابدی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لئے یسوع کے نمونے سے کوئی مدد لینے کی ضرورت نہیں تھی؟ مگر انسانوں کو اِس مد د کی ضرورت تھی اور یسوع نے اِس کے لئے اْس راہ کی نشان دہی کی۔الٰہی محبت نے ہمیشہ انسانی ضرورت کو پورا کیا ہے اور ہمیشہ پورا کرے گی۔ اس بات کا تصور کرنا مناسب نہیں کہ یسوع نے محض چند مخصوص تعداد میں یا محدود عرصے تک شفا دینے کے لئے الٰہی طاقت کا مظاہرہ کیا، کیونکہ الٰہی محبت تمام انسانوں کے لئے ہر لمحہ سب کچھ مہیا کرتی ہے۔
Is it not a species of infidelity to believe that so great a work as the Messiah's was done for himself or for God, who needed no help from Jesus' example to preserve the eternal harmony? But mortals did need this help, and Jesus pointed the way for them. Divine Love always has met and always will meet every human need. It is not well to imagine that Jesus demonstrated the divine power to heal only for a select number or for a limited period of time, since to all mankind and in every hour, divine Love supplies all good.
ایک مسیحی سائنسدان اْس وقت میں جگہ پر قابض ہوتا ہے جس کے بارے میں یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا، جب اْس نے کہا: ”تم زمین کے نمک ہو۔“ ”تم دنیا کے نور ہو۔ جو شہر پہاڑ پر بسا ہے وہ چھپ نہیں سکتا۔“ آئیے دھیان رکھیں، کام کریں اور دعا کریں کہ یہ نمک اپنی نمکینی نہ کھو دے، اور یہ نور چھپ نہ جائے، بلکہ یہ دوپہر کے جلال میں چمکے اور روشن رہے۔
A Christian Scientist occupies the place at this period of which Jesus spoke to his disciples, when he said: "Ye are the salt of the earth." "Ye are the light of the world. A city that is set on an hill cannot be hid." Let us watch, work, and pray that this salt lose not its saltness, and that this light be not hid, but radiate and glow into noontide glory.
جب ہم غلطی سے زیادہ زندگی کی سچائی پرایمان رکھتے ہیں، مادے سے زیادہ روح پر بھروسہ رکھتے ہیں، مرنے سے زیادہ جینے پر بھروسہ رکھتے ہیں، انسان سے زیادہ خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں، تو کوئی مادی مفرضے ہمیں بیماروں کو شفا دینے اور غلطی کو نیست کرنے سے نہیں روک سکتے۔
When we come to have more faith in the truth of being than we have in error, more faith in Spirit than in matter, more faith in living than in dying, more faith in God than in man, then no material suppositions can prevent us from healing the sick and destroying error.
عزیز قارین، مجھے امید ہے کہ میں آپ کوآپ کے الٰہی حقوق کے فہم، آپ کی آسمانی عطاکردہ ہم آہنگی کی جانب راہنمائی دے رہا ہوں، تاکہ جب آپ یہ پڑھیں تو آپ دیکھیں کہ ایسی کوئی وجہ (غلطی کرنے کے علاوہ، کوئی مادی حس جس میں کوئی قوت نہیں ہے)اس قابل نہیں ہے کہ آپ کو بیمار یا گناہگار بنا سکے؛ اور مجھے امید ہے کہ آپ اس جھوٹی سوچ پر فتح پا رہے ہیں۔ نام نہاد مادی حس کے جھوٹ کو جانتے ہوئے آپ گناہ، بیماری یاموت کے عقیدے پرفتح پانے والے اپنے استحقاق کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
I hope, dear reader, I am leading you into the understanding of your divine rights, your heaven-bestowed harmony, — that, as you read, you see there is no cause (outside of erring, mortal, material sense which is not power) able to make you sick or sinful; and I hope that you are conquering this false sense. Knowing the falsity of so-called material sense, you can assert your prerogative to overcome the belief in sin, disease, or death.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████