اتوار 9 مارچ، 2025
پس تم انسان سے جس کا دم اْس کے نتھنوں میں ہے باز رہو۔ کیونکہ اْس کی کیا قدر ہے؟
“Cease ye from man, whose breath is in his nostrils: for wherein is he to be accounted of?”
26۔ پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپائیوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اختیار رکھیں۔
27۔ اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اْس کو پیدا کیا۔ نر اور ناری اْن کو پیدا کیا۔
31۔ اور خدا نے سب پر جو اْس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔
3۔ جان رکھو کہ خداوند ہی خدا ہے۔ اْسی نے ہم کو بنایا اور ہم اْسی کے ہیں۔ ہم اْس کے لوگ اور اْس کی چراہ گاہ کی بھیڑیں ہیں۔
4۔ شکر گزاری کرتے ہوئے اْس کے پھاٹکوں میں اور حمد کرتے ہوئے اْس کی بارگاہوں میں داخل ہو۔ اْس کا شکر کرو اور اْس کے نام کو مبارک کہو۔
5۔ کیونکہ خداوند بھلا ہے۔ اْس کی شفقت ابدی ہے اور اْس کی وفاداری پشت در پشت رہتی ہے۔
26. And God said, Let us make man in our image, after our likeness: and let them have dominion over the fish of the sea, and over the fowl of the air, and over the cattle, and over all the earth, and over every creeping thing that creepeth upon the earth.
27. So God created man in his own image, in the image of God created he him; male and female created he them.
31. And God saw every thing that he had made, and, behold, it was very good.
3. Know ye that the Lord he is God: it is he that hath made us, and not we ourselves; we are his people, and the sheep of his pasture.
4. Enter into his gates with thanksgiving, and into his courts with praise: be thankful unto him, and bless his name.
5. For the Lord is good; his mercy is everlasting; and his truth endureth to all generations.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ اے خداوند! تْو نے مجھے جانچ لیا اور پہچان لیا۔
2۔ تْو میرا اْٹھنا بیٹھنا جانتا ہے۔ تْو میرے خیال کو دور سے سمجھ لیتا ہے۔
3۔تْو میرے راستہ کی اور میری خوابگاہ کی چھان بین کرتا ہے۔ اور میری سب روشوں سے واقف ہے۔
7۔ مَیں تیری روح سے بچ کر کہاں جاؤں۔ یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں؟
8۔ آسمان پر چڑھ جاؤں تو تْو وہاں ہے۔ اگر مَیں پاتال میں بستر بچھاؤں تو دیکھ! تْو وہاں بھی ہے۔
9۔ اگر میں صبح کے پر لگا کر سمندر کی انتہا میں بسوں۔
10۔تو وہاں بھی تیرا ہاتھ میری راہنمائی کرے گا۔ اور تیرا داہناہاتھ مجھے سنبھالے گا۔
1 O Lord, thou hast searched me, and known me.
2 Thou knowest my downsitting and mine uprising, thou understandest my thought afar off.
3 Thou compassest my path and my lying down, and art acquainted with all my ways.
7 Whither shall I go from thy spirit? or whither shall I flee from thy presence?
8 If I ascend up into heaven, thou art there: if I make my bed in hell, behold, thou art there.
9 If I take the wings of the morning, and dwell in the uttermost parts of the sea;
10 Even there shall thy hand lead me, and thy right hand shall hold me.
8۔ اور ایک روز اایسا ہوا کہ الیشع شونیم کو گیا۔ وہاں ایک دولتمند عورت تھی اور اْس نے اْسے روٹی کھانے پر مجبور کیا۔ پھر تو جب کبھی وہ وہاں سے گزرتا روٹی کھانے کے لئے وہاں چلا جاتا تھا۔
9۔ سو اْس نے اپنے شوہر سے کہا دیکھ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرد خدا جو اکثر ہماری طرف آتا ہے مقدس ہے۔
10۔ ہم اْس کے لئے ایک پلنگ اور کوٹھری دیوار پر بنا دیں اور اْس کے لئے ایک پلنگ اور میز اور چوکی اور شمعدان لگا دیں۔ پھر جب کبھی وہ ہمارے پاس آئے تو وہیں ٹھہرے گا۔
11۔ سو ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اْدھر گیا اور اْس کوٹھری میں جا کر وہیں سویا۔
12۔ پھر اْس نے اپنے خادم جیحازی سے کہا کہ اِس شونیمی عورت کو بلا لے۔ اْس نے اْسے بلالیا اور وہ اْس کے سامنے کھڑی ہوئی۔
13۔ پھر اْس نے اپنے خادم سے کہا تْو اْس سے پوچھ کہ تْو نے جو ہمارے لئے اتنی فکریں کیں تو تیرے لئے کیا کِیا جائے؟ کیا تْو چاہتی ہے کہ بادشاہ سے یا فوج کے سردار سے تیری سفارش کی جائے؟ اْس نے جواب دیا مَیں تو اپنے ہی لوگوں میں رہتی ہوں۔
14۔ پھر اْس نے اْس سے کہا اْس کے لئے کیا کِیا جائے؟ تب جیحازی نے جواب دیاکہ کیا واقعی اْس کے کوئی فرزند نہیں اور اْس کا شوہر بْڈھا ہے۔
15۔ تب اْس نے اْس سے کہا اْسے بلا لے اور جب اْس نے اْسے بلایا تو وہ دروازے پر کھڑی ہوئی۔
16۔ تب اْس نے کہا موسمِ بہار میں وقت پورا ہونے پر تیری گود میں بیٹا ہوگا۔ اْس نے کہا نہیں اے میرے مالک اے مردِ خدا اپنی لونڈی سے جھوٹ نہ کہہ۔
17۔ سو وہ عورت حاملہ ہوئی اور جیسا الیشع نے اْس سے کہا تھا موسمِ بہار میں وقت پوراہونے پر اْس کے بیٹا ہوا۔
18۔ اور جب وہ لڑکا بڑھا تو ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اپنے باپ کے پاس کھیت کاٹنے والوں میں چلا گیا۔
19۔اور اْس نے باپ سے کہا ہائے میرا سر! ہائے میرا سر! اْس نے اْس سے کہا اْسے اْس کی ماں کے پاس لے جا۔
20۔ جب اْس نے اْسے لے کر اْس کی ماں کے پاس پہنچا دیا تو وہ اْس کے گھٹنوں پر دوپہر تک بیٹھا رہا اِس کے بعد مر گیا۔
21۔ اِس کے بعد اْس کی ماں نے اوپرجا کر اْسے مردِ خدا کے پلنگ پر لیٹا دیا اور دروازہ بند کر کے باہر چلی گئی۔
22۔ اور اْس نے اپنے شوہر سے پکار کر کہا جلد جوانوں میں سے ایک کو اور گدھوں میں سے ایک کو میرے لئے بھیج دے تاکہ میں مردِ خدا کے پاس دوڑ جاؤں اور پھر لوٹ آؤں۔
23۔ اْس نے کہا آج تْو اْس کے پاس کیوں جانا چاہتی ہے آج نہ تو نیا چاند ہے نہ سبت۔ اْس نے جواب دیا کہ اچھا ہی ہوگا۔
24۔ اور اْس نے گدھے پر زین کس کر اپنے خادم سے کہا ہانک۔ آگے بڑھ اور سواری چلانے میں ڈھیل نہ ڈال جب تک مَیں تجھ سے نہ کہوں۔
25۔ سو وہ چلی اور کوہِ کِرمل کو مردِ خدا کے پاس گئی۔ اْس مردِ خدا نے دور سے اْسے دیکھ کر اپنے خادم جیحازی سے کہا دیکھ اْدھر وہ شونیمی عورت ہے۔
26۔ اب ذرا اْس کے استقبال کو دوڑ جا اور اْس سے پْوچھ کیا تْو خیریت سے ہے؟ تیرا شوہر خیریت سے ہے؟ بچہ خیریت سے ہے؟ اْس نے جواب دیا خیریت ہے۔
27۔ اور جب وہ اْس پہاڑ پر مردِ خدا کے پاس آئی اور اْس کے پاؤں پکڑ لئے اور جیحازی اْسے اٹھانے کے لئے نزدیک آیا پر مردِ خدا نے کہا اْسے چھوڑ دے کیونکہ اْس کا جی پریشان ہے اور خداوند نے یہ بات مجھ سے چھپائی اور مجھے نہ بتائی۔
28۔ اور وہ کہنے لگی کیا مَیں نے اپنے مالک سے بیٹے کا سوال کیا تھا؟ کیا مَیں نے نہ کہا تھا کہ مجھے دھوکہ نہ دے۔
32۔ جب الیشع اْس گھر میں آیا تو دیکھو وہ لڑکا مرا ہوا اْس کے پلنگ پر پڑا تھا۔
33۔ سو وہ اندر گیا اور دروازہ بند کر کے خداوند سے دعا کی۔
34۔ اور اوپر چڑھ کر اْس بچے پر لیٹ گیا اور اْس کے منہ پر اپنا منہ اور اْس کی آنکھوں پر اپنی آنکھیں اور اْس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ لئے اور اْس کے اوپر پسر گیا۔ تب اْس بچے کا جسم گرم ہونے لگا۔
35۔ پھر وہ اٹھ کر اْس گھر میں ایک بار ٹہلا اور اوپر چڑھ کر اْس بچے کے اوپر پسر گیا اوروہ بچہ سات بار چھینکا اور بچے نے آنکھیں کھول دیں۔
36۔ تب اْس نے جیحازی کو بلا کر کہا اْس شونیمی عورت کو بلا لے سو اْس نے اْسے بلایا اور جب وہ اْس کے پاس آئی تو اْس نے اْس سے کہا اپنے بیٹے کو اٹھا لے۔
37۔ تب وہ اندر جا کر اْس کے قدموں پر گری اور زمین پر سر نگوں ہوگئی پھر اپنے بیٹے کو اٹھا کر باہر چلی گئی۔
8 And it fell on a day, that Elisha passed to Shunem, where was a great woman; and she constrained him to eat bread. And so it was, that as oft as he passed by, he turned in thither to eat bread.
9 And she said unto her husband, Behold now, I perceive that this is an holy man of God, which passeth by us continually.
10 Let us make a little chamber, I pray thee, on the wall; and let us set for him there a bed, and a table, and a stool, and a candlestick: and it shall be, when he cometh to us, that he shall turn in thither.
11 And it fell on a day, that he came thither, and he turned into the chamber, and lay there.
12 And he said to Gehazi his servant, Call this Shunammite. And when he had called her, she stood before him.
13 And he said unto him, Say now unto her, Behold, thou hast been careful for us with all this care; what is to be done for thee? wouldest thou be spoken for to the king, or to the captain of the host? And she answered, I dwell among mine own people.
14 And he said, What then is to be done for her? And Gehazi answered, Verily she hath no child, and her husband is old.
15 And he said, Call her. And when he had called her, she stood in the door.
16 And he said, About this season, according to the time of life, thou shalt embrace a son. And she said, Nay, my lord, thou man of God, do not lie unto thine handmaid.
17 And the woman conceived, and bare a son at that season that Elisha had said unto her, according to the time of life.
18 And when the child was grown, it fell on a day, that he went out to his father to the reapers.
19 And he said unto his father, My head, my head. And he said to a lad, Carry him to his mother.
20 And when he had taken him, and brought him to his mother, he sat on her knees till noon, and then died.
21 And she went up, and laid him on the bed of the man of God, and shut the door upon him, and went out.
22 And she called unto her husband, and said, Send me, I pray thee, one of the young men, and one of the asses, that I may run to the man of God, and come again.
23 And he said, Wherefore wilt thou go to him to day? it is neither new moon, nor sabbath. And she said, It shall be well.
24 Then she saddled an ass, and said to her servant, Drive, and go forward; slack not thy riding for me, except I bid thee.
25 So she went and came unto the man of God to mount Carmel. And it came to pass, when the man of God saw her afar off, that he said to Gehazi his servant, Behold, yonder is that Shunammite:
26 Run now, I pray thee, to meet her, and say unto her, Is it well with thee? is it well with thy husband? is it well with the child? And she answered, It is well.
27 And when she came to the man of God to the hill, she caught him by the feet: but Gehazi came near to thrust her away. And the man of God said, Let her alone; for her soul is vexed within her: and the Lord hath hid it from me, and hath not told me.
28 Then she said, Did I desire a son of my lord? did I not say, Do not deceive me?
32 And when Elisha was come into the house, behold, the child was dead, and laid upon his bed.
33 He went in therefore, and shut the door upon them twain, and prayed unto the Lord.
34 And he went up, and lay upon the child, and put his mouth upon his mouth, and his eyes upon his eyes, and his hands upon his hands: and he stretched himself upon the child; and the flesh of the child waxed warm.
35 Then he returned, and walked in the house to and fro; and went up, and stretched himself upon him: and the child sneezed seven times, and the child opened his eyes.
36 And he called Gehazi, and said, Call this Shunammite. So he called her. And when she was come in unto him, he said, Take up thy son.
37 Then she went in, and fell at his feet, and bowed herself to the ground, and took up her son, and went out.
23۔ اور یسوع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور اْن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دور کرتا رہا۔
24۔ اور اْس کی شہرت تمام سوریہ میں پھیل گئی اور لوگ سب بیماروں کو جو طرح طرح کی بیماریوں اور تکلیفوں میں گرفتار تھے اور اْن کو جن میں بد روحیں تھیں اور مرگی والوں اور مفلوجوں کو اْس کے پاس لائے اور اْس نے اْن کو اچھا کیا۔
23 And Jesus went about all Galilee, teaching in their synagogues, and preaching the gospel of the kingdom, and healing all manner of sickness and all manner of disease among the people.
24 And his fame went throughout all Syria: and they brought unto him all sick people that were taken with divers diseases and torments, and those which were possessed with devils, and those which were lunatick, and those that had the palsy; and he healed them.
14۔ اور یسوع نے پطرس کے گھر میں آکر اْس کی ساس کو تپ میں پڑی دیکھا۔
15۔ اْس نے اْس کا ہاتھ چھوا اورتپ اْس پر سے اتر گئی اور وہ اْٹھ کھڑی ہوئی اور اْس کی خدمت کرنے لگی۔
14 And when Jesus was come into Peter’s house, he saw his wife’s mother laid, and sick of a fever.
15 And he touched her hand, and the fever left her: and she arose, and ministered unto them.
17۔خداوند تیرا خدا جو تجھ میں ہے قادر ہے۔ وہی بچا لے گا۔ وہ تیرے سبب سے شادمان ہوکر خوشی کرے گا۔ وہ اپنی محبت میں مسرور رہے گا۔ وہ گاتے ہوئے تیرے لئے شادمانی کرے گا۔
17 The Lord thy God in the midst of thee is mighty; he will save, he will rejoice over thee with joy; he will rest in his love, he will joy over thee with singing.
سوال: انسان کیا ہے؟
جواب: انسان مادا نہیں ہے، وہ دماغ، خون، ہڈیوں اور دیگر مادی عناصر سے نہیں بنایا گیا۔کلام پاک ہمیں اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ انسان خدا کی شبیہ اور صورت پر خلق کیا گیا ہے۔ یہ مادے کی شبیہ نہیں ہے۔ روح کی شبیہ اس قدر غیر روحانی نہیں ہوسکتی۔ انسان روحانی اور کامل ہے؛ اور چونکہ وہ روحانی اور کامل ہے اس لئے اْسے کرسچن سائنس میں ایسا ہی سمجھا جانا چاہئے۔انسان محبت کا خیال، شبیہ ہے؛ وہ بدن نہیں ہے۔وہ خدا کا ایک مرکب خیال ہے،جس میں تمام تر درست خیالات شامل ہیں، ایسی عمومی اصطلاح جو خدا کی صورت اور شبیہ کی عکاسی کرتی ہے؛ سائنس میں پائے جانے والی ہستی کی با خبر شناخت، جس میں انسان خدا یا عقل کی عکاسی ہے، اور اسی لئے وہ ابدی ہے،یعنی وہ جس کی خدا سے مختلف کوئی عقل نہیں ہے؛ وہ جس میں ایسی ایک بھی خاصیت نہیں جو خدا سے نہ لی گئی ہو؛ وہ جو خود سے اپنی کوئی زندگی، ذہانت اور نہ ہی کوئی تخلیقی قوت رکھتا ہے؛ مگر اْس سب کی روحانی طور پر عکاسی کرتا ہے جو اْس کے بنانے والے سے تعلق رکھتی ہے۔
پھر خدا نے کہا:” ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اختیار کھیں۔“
انسان گناہ، بیماری اور موت سے عاجز ہے۔ حقیقی انسان پاکیزگی سے الگ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی خدا، جس سے انسان نشوونما پاتا ہے، گناہ کے خلاف قوت یا آزادی پیدا کرسکتا ہے۔ ایک بشری گناہگار خدا کا بند ہ نہیں ہے۔
Question. — What is man?
Answer. — Man is not matter; he is not made up of brain, blood, bones, and other material elements. The Scriptures inform us that man is made in the image and likeness of God. Matter is not that likeness. The likeness of Spirit cannot be so unlike Spirit. Man is spiritual and perfect; and because he is spiritual and perfect, he must be so understood in Christian Science. Man is idea, the image, of Love; he is not physique. He is the compound idea of God, including all right ideas; the generic term for all that reflects God's image and likeness; the conscious identity of being as found in Science, in which man is the reflection of God, or Mind, and therefore is eternal; that which has no separate mind from God; that which has not a single quality underived from Deity; that which possesses no life, intelligence, nor creative power of his own, but reflects spiritually all that belongs to his Maker.
And God said: "Let us make man in our image, after our likeness; and let them have dominion over the fish of the sea, and over the fowl of the air, and over the cattle, and over all the earth, and over every creeping thing that creepeth upon the earth."
Man is incapable of sin, sickness, and death. The real man cannot depart from holiness, nor can God, by whom man is evolved, engender the capacity or freedom to sin. A mortal sinner is not God's man.
الٰہی سائنس میں، انسان خدا کی حقیقی شبیہ ہے۔ الٰہی فطرت میں یسوع مسیح کو بہترین طریقے سے بیان کیا گیا ہے، جس نے انسانوں پر خدا کی مناسب تر عکاسی ظاہر کی اورکمزور سوچ کے نمونے کی سوچ سے بڑی معیارِ زندگی فراہم کی، یعنی ایسی سوچ جو انسان کے گرنے، بیماری، گناہ کرنے اور مرنے کو ظاہر کرتی ہے۔ سائنسی ہستی اور الٰہی شفا کی مسیح جیسی سمجھ میں کامل اصول اور خیال، کامل خدا اور کامل انسان، بطور سوچ اور اظہار کی بنیاد شامل ہوتے ہیں۔
In divine Science, man is the true image of God. The divine nature was best expressed in Christ Jesus, who threw upon mortals the truer reflection of God and lifted their lives higher than their poor thought-models would allow, — thoughts which presented man as fallen, sick, sinning, and dying. The Christlike understanding of scientific being and divine healing includes a perfect Principle and idea, — perfect God and perfect man, — as the basis of thought and demonstration.
انسان کی انفرادیت مادی نہیں ہے۔ہستی کی سائنس صرف مستقبل ہی میں نہیں بلکہ ابھی اور یہاں بھی وہ حاصل کرتی ہے جسے انسان جنت کا نام دیتا ہے؛ وقت اور ابدیت کے ہونے سے متعلق یہ بہت بڑی حقیقت ہے۔
تو پھر وہ کون سی مادی شخصیت ہے جو دْکھ سہتی، گناہ کرتی اور مرجاتی ہے؟ یہ وہ انسان نہیں جو خدا کی شبیہ اور صورت ہے بلکہ یہ انسان کی نقل، شبیہ کا اْلٹ، گناہ، بیماری اور موت کہلانے والی غیر مشابہت ہے۔
Man's individuality is not material. This Science of being obtains not alone hereafter in what men call Paradise, but here and now; it is the great fact of being for time and eternity.
What, then, is the material personality which suffers, sins, and dies? It is not man, the image and likeness of God, but man's counterfeit, the inverted likeness, the unlikeness called sin, sickness, and death.
مادی انسان از خود اور رضاکارانہ غلطی سے، ایک منفی درستگی اور مثبت غلطی سے بنا ہے، دوسرے والا خود کو صحیح سمجھتا ہے۔انسان کی روحانی انفرادیت کبھی غلط نہیں ہوتی۔یہ انسان کے خالق کی شبیہ ہے۔ مادہ بشر کو حقیقی ابتداء اور ہستی کے حقائق سے نہیں جوڑ سکتا، جس میں سب کچھ ختم ہو جانا چاہئے۔ یہ صرف روح کی برتری کو تسلیم کرنے سے ہوگا، جو مادے کے دعووں کو منسوخ کرتا ہے، کہ بشر فانیت کو برخاست کریں اور کسی مستحکم روحانی تعلق کو تلاش کریں جو انسان کو ہمیشہ کے لئے، اپنے خالق کی طرف سے لازم و ملزوم الٰہی شبیہ میں قائم رکھتا ہے۔
یہ عقیدہ کہ مادہ اور عقل ایک ہیں، کہ مادہ ایک وقت میں جاگتا ہے اور دوسرے وقت میں سوتا ہے، بعض اوقات عقل کی کوئی صورت پیش نہ کرتے ہوئے، یہ عقیدہ ایک اور عقیدے میں پورا ہوتا ہے کہ انسان مرتا ہے۔ سائنس مادی انسان کو کبھی بطور حقیقی ہستی پیش نہیں کرتی۔ خواب اور ایمان جاری رہتے ہیں، خواہ ہماری آنکھیں کھْلی ہوں یا بند ہوں۔ نیند میں، یادداشت اور شعور بدن میں سے ختم ہوجاتے ہیں، اور وہ ظاہری طور پر اپنے الگ جسم میں شامل ہو کر یہاں وہاں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ شخصیت انسان کی انفرادیت نہیں ہوتی۔ ایک بدکار شخص جاذبِ نظر شخصیت کا مالک ہو سکتا ہے۔
جب ہم جاگتے ہیں، ہم مادے کے درد اور خوشیوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ کون ایسا ہے جو کہتا ہے، خواہ وہ کرسچن سائنس کو نہ بھی جانتا ہو، کہ یہ خواب، خواب دیکھنے والے کی بجائے، مادی انسان نہیں ہوسکتا۔وگرنہ کون عقلی طور پر یہ کہہ سکتا ہے، جب خواب فانی انسان کو بدن اور سوچ کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے، اگرچہ یہ نام نہاد خواب دیکھنے والا لا شعور ہے؟ درست وجہ کی بنا پر یہاں تصور کے سامنے ایک حقیقت ہونی چاہئے، یعنی روحانی وجودیت۔ حقیقت میں اور کوئی وجودیت نہیں ہے، کیونکہ زندگی اِس کی غیر مشابہت، لافانیت کے ساتھ متحد نہیں ہوسکتی۔
ہستی، پاکیزگی، ہم آہنگی، لافانیت ہے۔یہ پہلے سے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ اس کا علم، حتیٰ کہ معمولی درجے میں بھی، انسانوں کے جسمانی اور اخلاقی معیار کو اونچا کرے گا، عمر کی درازی کو بڑھائے گا، کردار کو پاک اور بلند کرے گا۔ پس ترقی ساری غلطی کو تباہ کرے گی اور لافانیت کو روشنی میں لائے گی۔ہم جانتے ہیں ایک بیان جسے بہتر ثابت کیا گیا ہو اْسے درست بھی ہونا چاہئے۔نئے خیالات متواتر طور پر بڑھ رہے ہیں۔ یہ دو مخالف نظریات، کہ مادہ کچھ ہے، یا عقل ہی سب کچھ ہے، اْس وقت تک زمین پر متنازعہ رہیں گے جب تک کسی ایک کو فتح مند تسلیم نہیں کیا جاتا۔
Material man is made up of involuntary and voluntary error, of a negative right and a positive wrong, the latter calling itself right. Man's spiritual individuality is never wrong. It is the likeness of man's Maker. Matter cannot connect mortals with the true origin and facts of being, in which all must end. It is only by acknowledging the supremacy of Spirit, which annuls the claims of matter, that mortals can lay off mortality and find the indissoluble spiritual link which establishes man forever in the divine likeness, inseparable from his creator.
The belief that matter and mind are one, — that matter is awake at one time and asleep at another, sometimes presenting no appearance of mind, — this belief culminates in another belief, that man dies. Science reveals material man as never the real being. The dream or belief goes on, whether our eyes are closed or open. In sleep, memory and consciousness are lost from the body, and they wander whither they will apparently with their own separate embodiment. Personality is not the individuality of man. A wicked man may have an attractive personality.
When we are awake, we dream of the pains and pleasures of matter. Who will say, even though he does not understand Christian Science, that this dream — rather than the dreamer — may not be mortal man? Who can rationally say otherwise, when the dream leaves mortal man intact in body and thought, although the so-called dreamer is unconscious? For right reasoning there should be but one fact before the thought, namely, spiritual existence. In reality there is no other existence, since Life cannot be united to its unlikeness, mortality.
Being is holiness, harmony, immortality. It is already proved that a knowledge of this, even in small degree, will uplift the physical and moral standard of mortals, will increase longevity, will purify and elevate character. Thus progress will finally destroy all error, and bring immortality to light. We know that a statement proved to be good must be correct. New thoughts are constantly obtaining the floor. These two contradictory theories — that matter is something, or that all is Mind — will dispute the ground, until one is acknowledged to be the victor.
مثالی انسان تخلیق کے ساتھ، ذہانت کے ساتھ اور سچائی کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ مثالی عورت زندگی اور محبت کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔
الٰہی محبت اپنے خود کے خیالات کو برکت دیتا ہے، اور اْنہیں بڑھنے، اْس کی قوت کو ظاہر کرنے کا موجب بنتا ہے۔انسان مٹی جوتنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ اْس کا پیدائشی حق محکومی نہیں حکمرانی ہے۔وہ زمین اور آسمان پر عقیدے کا حاکم ہے، جو خود صرف اپنے خالق کے ماتحت ہے۔ یہ ہستی کی سائنس ہے۔
The ideal man corresponds to creation, to intelligence, and to Truth. The ideal woman corresponds to Life and to Love.
Divine Love blesses its own ideas, and causes them to multiply, — to manifest His power. Man is not made to till the soil. His birthright is dominion, not subjection. He is lord of the belief in earth and heaven, — himself subordinate alone to his Maker. This is the Science of being.
انسانی غلط فہمیوں کی تلافی کر نے کے لئے اور اْس زندگی کے ساتھ اْن کا تبادلہ کرنے کے لئے جو روحانی ہے نہ کہ مادی ہمیں ذہنی طاقت کی قابلیت کا ادراک ہونا چاہئے۔
ایک بڑی روحانی حقیقت سامنے لائی جانی چاہئے کہ انسان کامل اور لافانی ہوگا نہیں بلکہ ہے۔
We must realize the ability of mental might to offset human misconceptions and to replace them with the life which is spiritual, not material.
The great spiritual fact must be brought out that man is, not shall be, perfect and immortal.
بے گناہ خوشی، زندگی کی کامل ہم آہنگی اور لافانیت، ایک بھی جسمانی تسکین یا درد کے بِنا لامحدود الٰہی خوبصورتی اور اچھائی کی ملکیت رکھتے ہوئے، اصلی اور لازوال انسان تشکیل دیتی ہے، جس کا وجود روحانی ہوتا ہے۔
The sinless joy, — the perfect harmony and immortality of Life, possessing unlimited divine beauty and goodness without a single bodily pleasure or pain, — constitutes the only veritable, indestructible man, whose being is spiritual.
انسان خدا کا عکس ہے، جسے پرورش کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ ہمیشہ خوبصورت اور مکمل عکس رہتاہے۔
Man is God's reflection, needing no cultivation, but ever beautiful and complete.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔