اتوار10نومبر، 2019



مضمون۔ آدم اور گناہگار انسان

SubjectAdam and Fallen Man

سنہری متن:سنہری متن: استثنا 18باب13 آیت

’’تْو خداوند اپنے خدا کے حضور کامل رہنا۔‘‘



Golden Text: Deuteronomy 18 : 13

Thou shalt be perfect with the Lord thy God.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: زبور 37: 3تا6، 18، 19، 23، 37 آیات


3۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ ملک میں آباد رہ اور اْس کی وفاداری سے پرورش پا۔

4۔ خداوند میں مسرور رہ اور وہ تیرے دل کی مرادیں پوری کرے گا۔

5۔ اپنی راہ خداوند پر چھوڑ دے اور اْس پر توکل کر۔ وہی سب کچھ کرے گا۔

6۔ وہ تیری راستبازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔

18۔ کمال لوگوں کے ایام کو خداوند جانتا ہے۔ اْن کی میراث ہمیشہ کے لئے ہوگی۔

19۔ وہ آفت کے وقت شرمندہ نہ ہوں گے اور کال کے دنوں میں آسودہ رہیں گے۔

23۔ انسان کی روشیں خداوند کی طرف سے قائم ہیں اور وہ اْس کی راہ سے خوش ہے۔

37۔ کامل آدمی پر نگاہ کر اور اْس راستباز آدمی کو دیکھ کیونکہ صلح دوست آدمی کے لئے اجر ہے۔

Responsive Reading: Psalm 37 : 3-6, 18, 19, 23, 37

3.     Trust in the Lord, and do good; so shalt thou dwell in the land, and verily thou shalt be fed.

4.     Delight thyself also in the Lord; and he shall give thee the desires of thine heart.

5.     Commit thy way unto the Lord; trust also in him; and he shall bring it to pass.

6.     And he shall bring forth thy righteousness as the light, and thy judgment as the noonday.

18.     The Lord knoweth the days of the upright: and their inheritance shall be for ever.

19.     They shall not be ashamed in the evil time: and in the days of famine they shall be satisfied.

23.     The steps of a good man are ordered by the Lord: and he delighteth in his way.

37.     Mark the perfect man, and behold the upright: for the end of that man is peace.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ 2سیموئیل 22باب33 آیت

33۔ خدا میرا مضبوط قلعہ ہے۔ وہ اپنی راہ میں کامل شخص کی راہنمائی کرتا ہے۔

1. II Samuel 22 : 33

33     God is my strength and power: and he maketh my way perfect.

2۔ پیدائش 1باب31 (تا پہلا) آیت

31۔ اور خداوند نے سب پر جو اْس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔

2. Genesis 1 : 31 (to 1st .)

31     And God saw every thing that he had made, and, behold, it was very good.

3۔ زبور 104: 24، 30، 31، 33 آیات

24۔ اے خداوند تیری صنعتیں کیسی بے شمار ہیں! تْو نے سب کچھ حکمت سے بنایا۔ زمین تیری مخلوقات سے معمور ہے۔

30۔ تْو اپنی روح بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں۔ اور تْو روئے زمین کو نیا بنا دیتا ہے۔

31۔ خداوند کا جلال ابد تک رہے۔ خداوند اپنی صنعتوں سے خوش ہو۔

33۔ میں عمر بھر خداوند کی تعریف کروں گا۔ جب تک میرا وجود ہے میں اپنے خداوند کی مدح سرائی کروں گا۔

3. Psalm 104 : 24, 30, 31, 33

24     O Lord, how manifold are thy works! in wisdom hast thou made them all: the earth is full of thy riches.

30     Thou sendest forth thy spirit, they are created: and thou renewest the face of the earth.

31     The glory of the Lord shall endure for ever: the Lord shall rejoice in his works.

33     I will sing unto the Lord as long as I live: I will sing praise to my God while I have my being.

4۔ پیدائش 2باب6، 7، 16، 17 آیات

6۔ بلکہ زمین سے کْہر اٹھتی تھی اور تمام روئے زمین کو سیراب کرتی تھی۔

7۔ اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اْس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔

16۔ اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تْو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے۔

17۔ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تْو نے اْس میں سے کھایا تْو مرا۔

4. Genesis 2 : 6, 7, 16, 17

6     But there went up a mist from the earth, and watered the whole face of the ground.

7     And the Lord God formed man of the dust of the ground, and breathed into his nostrils the breath of life; and man became a living soul.

16     And the Lord God commanded the man, saying, Of every tree of the garden thou mayest freely eat:

17     But of the tree of the knowledge of good and evil, thou shalt not eat of it: for in the day that thou eatest thereof thou shalt surely die.

5۔ پیدائش 3باب 1تا6، 13، 17 آیات

1۔ سانپ کْل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا اور اْس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟

2۔ عورت نے سانپ سے کہا باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔

3۔ پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اْس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اْسے کھانا اور نہ چھْونا ورنہ مر جاؤ گے۔

4۔تب سانپ نے عورت سے کہا تم ہر گز نہ مرو گے۔

5۔ بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اْسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھْل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔

6۔عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کو اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اْس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اْس نے کھایا۔

13۔ تب خداوند نے عورت سے کہا تْو نے یہ کیا کِیا؟ عورت نے کہا سانپ نے مجھ کو بہکایا تو میں نے کھایا۔

17۔ اور آدم سے اْس نے کہا چونکہ تْو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اْس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ نہ اْسے نہ کھانا اس لئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی۔ مشقت کے ساتھ تْو عمر بھر اْس کی پیداوار کھائے گا۔

5. Genesis 3 : 1-6, 13, 17

1 Now the serpent was more subtil than any beast of the field which the Lord God had made. And he said unto the woman, Yea, hath God said, Ye shall not eat of every tree of the garden?

2     And the woman said unto the serpent, We may eat of the fruit of the trees of the garden:

3     But of the fruit of the tree which is in the midst of the garden, God hath said, Ye shall not eat of it, neither shall ye touch it, lest ye die.

4     And the serpent said unto the woman, Ye shall not surely die:

5     For God doth know that in the day ye eat thereof, then your eyes shall be opened, and ye shall be as gods, knowing good and evil.

6     And when the woman saw that the tree was good for food, and that it was pleasant to the eyes, and a tree to be desired to make one wise, she took of the fruit thereof, and did eat, and gave also unto her husband with her; and he did eat.

13     And the Lord God said unto the woman, What is this that thou hast done? And the woman said, The serpent beguiled me, and I did eat.

17     And unto Adam he said, Because thou hast hearkened unto the voice of thy wife, and hast eaten of the tree, of which I commanded thee, saying, Thou shalt not eat of it: cursed is the ground for thy sake; in sorrow shalt thou eat of it all the days of thy life;

6۔ مرقس 1باب9تا11، 21تا28، 34 (تا؛) آیات

9۔ اور اُن دنوں ایسا ہوا کہ یسوع نے گلیل کے ناصرت سے آ کر یردن میں یوحنا سے بپتسمہ لیا۔

10۔اورجب وہ پانی سے نکل کر اوپر آیا تو فی الفور اُس نے آسمان کو پھٹتے اور روح کو کبوتر کی مانند اپنے اوپر اترتے دیکھا۔

11۔اور آسمان سے آواز آئی کہ تُو میرا پیارا بیٹا ہے۔ تجھ سے مَیں خوش ہوں۔

21۔ پھر وہ کفرنحوم میں داخل ہوئے اور وہ فی الفور سبت کے دن عبادت خانہ میں جا کر تعلیم دینے لگا۔

22۔ اور لوگ اُس کی تعلیم سے حیران ہوئے کیونکہ وہ اُن کو فقیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحب اختیار کی طرح تعلیم دیتا تھا۔

23۔ اور فی الفور اُن کے عبادت خانہ میں ایک شخص ملا جس میں ناپاک روح تھی۔ وہ یوں کہہ کر چلایا۔

24۔ کہ اے یسوع ناصری! ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تو ہم کو ہلاک کرنے آیا ہے؟ مَیں تجھے جانتا ہوں کہ تو کون ہے۔ خدا کا قدوس ہے۔

25۔ یسوع نے اُسے جھڑک کر کہا چپ رہ اور اِس میں سے نکل جا۔

26۔ پس وہ ناپاک روح اُسے مروڑ کر اور بڑی آواز سے چلا کر اُس میں سے نکل گئی۔

27۔ اور سب لوگ حیران ہوئے اور آپس میں یہ کہہ کر بحث کرنے لگے کہ یہ کیا ہے؟ یہ تو نئی تعلیم ہے! وہ ناپاک روحوں کو بھی اختیار کے ساتھ حکم دیتا ہے اور وہ اُس کا حکم مانتی ہیں۔

28۔ اور فی الفور اُس کی شہرت گلیل کی اُس تمام نواحی میں ہر جگہ پھیل گئی۔

34۔ اور اُس نے بہتوں کو جو طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار تھے اچھا کیا اوربہت سی بدروحوں کو نکالا۔

6. Mark 1 : 9-11, 21-28, 34 (to ;)

9     And it came to pass in those days, that Jesus came from Nazareth of Galilee, and was baptized of John in Jordan.

10     And straightway coming up out of the water, he saw the heavens opened, and the Spirit like a dove descending upon him:

11     And there came a voice from heaven, saying, Thou art my beloved Son, in whom I am well pleased.

21     And they went into Capernaum; and straightway on the sabbath day he entered into the synagogue, and taught.

22     And they were astonished at his doctrine: for he taught them as one that had authority, and not as the scribes.

23     And there was in their synagogue a man with an unclean spirit; and he cried out,

24     Saying, Let us alone; what have we to do with thee, thou Jesus of Nazareth? art thou come to destroy us? I know thee who thou art, the Holy One of God.

25     And Jesus rebuked him, saying, Hold thy peace, and come out of him.

26     And when the unclean spirit had torn him, and cried with a loud voice, he came out of him.

27     And they were all amazed, insomuch that they questioned among themselves, saying, What thing is this? what new doctrine is this? for with authority commandeth he even the unclean spirits, and they do obey him.

28     And immediately his fame spread abroad throughout all the region round about Galilee.

34     And he healed many that were sick of divers diseases, and cast out many devils;

7۔ یوحنا 17باب1تا3، 14تا20، 22، 23 آیات

1۔ یسوع نے یہ باتیں کہیں اور اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھا کر کہا اے باپ! وہ گھڑی آپہنچی۔ اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔

2۔ چنانچہ تْو نے اْسے ہر بشر پر اختیار دیا ہے تاکہ جنہیں تْو نے اْسے بخشا ہے اْن سب کو ہمیشہ کی زندگی دے۔

3۔ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور خداوند یسوع مسیح کو جسے تْو نے بھیجا ہے جانیں۔

14۔ میں نے تیرا کلام اْنہیں پہنچا دیا اور دنیا نے اْن سے عداوت رکھی اس لئے کہ جس طرح میں دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں۔

15۔ میں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تْو انہیں دنیا سے اْٹھا لے بلکہ یہ کہ اْس شریر سے اْن کی حفاظت کر۔

16۔ جس طرح میں دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں۔

17۔ انہیں سچائی کے وسیلہ سے مقدس کر۔ تیرا کلام سچائی ہے۔

18۔ جس طرح تْو نے مجھے دنیا میں بھیجا اْسی طرح میں نے بھی انہیں دنیا میں بھیجا۔

19۔ اور اْن کی خاطر میں اپنے آپ کو مقدس کرتا ہوں تاکہ وہ بھی سچائی کے وسیلہ مقدس کئے جائیں۔

20۔ میں صرف اِن ہی کے لئے درخواست نہیں کرتا بلکہ اْن کے لئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلہ سے مجھ پر ایمان لائیں گے۔

22۔ اور وہ جلال جو تْو نے مجھے دیا ہے میں نے انہیں دیا ہے تاکہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں۔

23۔ میں اْن میں اور تْو مجھ میں تاکہ وہ کامل ہو کر ایک ہوجائیں اور دنیا جانے کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا اور جس طرح کہ تْو نے مجھ سے محبت رکھی۔

7. John 17 : 1-3, 14-20, 22, 23

1     These words spake Jesus, and lifted up his eyes to heaven, and said, Father, the hour is come; glorify thy Son, that thy Son also may glorify thee:

2     As thou hast given him power over all flesh, that he should give eternal life to as many as thou hast given him.

3     And this is life eternal, that they might know thee the only true God, and Jesus Christ, whom thou hast sent.

14     I have given them thy word; and the world hath hated them, because they are not of the world, even as I am not of the world.

15     I pray not that thou shouldest take them out of the world, but that thou shouldest keep them from the evil.

16     They are not of the world, even as I am not of the world.

17     Sanctify them through thy truth: thy word is truth.

18     As thou hast sent me into the world, even so have I also sent them into the world.

19     And for their sakes I sanctify myself, that they also might be sanctified through the truth.

20     Neither pray I for these alone, but for them also which shall believe on me through their word;

22     And the glory which thou gavest me I have given them; that they may be one, even as we are one:

23     I in them, and thou in me, that they may be made perfect in one; and that the world may know that thou hast sent me, and hast loved them, as thou hast loved me.

8۔ عبرانیوں 13باب20، 21 (تا پہلا) آیات

20۔ اب خدا اطمینان کا چشمہ جو بھیڑوں کے بڑے چرواہے یعنی ہمارے خداوند یسوع مسیح کو ابدی عہد کے خون کے باعث مردوں میں سے زندہ کر کے اٹھا لایا۔

21۔ تم کو ہر ایک بات میں کامل کرے تاکہ تم اْس کی مرضی پوری کرو اور جو کچھ اْس کے نزدیک پسندیدہ ہے یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم میں پیدا کرے جس کی تمجید ابدالاباد ہوتی رہے۔

8. Hebrews 13 : 20, 21 (to 1st .)

20     Now the God of peace, that brought again from the dead our Lord Jesus, that great shepherd of the sheep, through the blood of the everlasting covenant,

21     Make you perfect in every good work to do his will, working in you that which is wellpleasing in his sight, through Jesus Christ; to whom be glory for ever and ever.



سائنس اور صح


1۔ 259 :6۔14

الٰہی سائنس میں، انسان خدا کی حقیقی شبیہ ہے۔ الٰہی فطرت کو یسوع مسیح کو بہترین طریقے سے بیان کیا گیا ہے، جس نے انسانوں پر خدا کی مناسب تر عکاسی ظاہر کی اورکمزور سوچ کے نمونے کی سوچ سے بڑی معیارِ زندگی فراہم کی، یعنی ایسی سوچ جو انسان کے گرنے، بیماری، گناہ کرنے اور مرنے کو ظاہر کرتی ہے۔ سائنسی ہستی اور الٰہی شفا کی مسیح جیسی سمجھ میں کامل اصول اور خیال، کامل خدا اور کامل انسان، بطور سوچ اور اظہار کی بنیاد شامل ہوتے ہیں۔

1. 259 : 6-14

In divine Science, man is the true image of God. The divine nature was best expressed in Christ Jesus, who threw upon mortals the truer reflection of God and lifted their lives higher than their poor thought-models would allow, — thoughts which presented man as fallen, sick, sinning, and dying. The Christlike understanding of scientific being and divine healing includes a perfect Principle and idea, — perfect God and perfect man, — as the basis of thought and demonstration.

2۔ 470 :21۔31

خدا انسان کا خالق ہے، اور انسان کا الٰہی اصول کامل ہونے سے الٰہی خیال یا عکس یعنی انسان کامل ہی رہتا ہے۔ انسان خدا کی ہستی کا ظہور ہے۔ اگر کوئی ایسا لمحہ تھا جب انسان نے الٰہی کاملیت کا اظہار نہیں کیا تو یہ وہ لمحہ تھا جب انسان نے خدا کو ظاہر نہیں کیا، اور نتیجتاً یہ ایک ایسا وقت تھا جب الوہیت یعنی وجود غیر متوقع تھا۔ اگر انسان نے اپنی کاملیت کھو دی ہے تو اْس نے اپنا کامل اصول، الٰہی عقل کھو دی ہے۔ اگر انسان اس کامل اصول یا عقل کے بغیر کبھی وجود رکھتا تھا تو پھر انسان کی وجودیت ایک فرضی داستان ہی تھی۔

2. 470 : 21-31

God is the creator of man, and, the divine Principle of man remaining perfect, the divine idea or reflection, man, remains perfect. Man is the expression of God’s being. It there ever was a moment when man did not express the divine perfection, then there was a moment when man did not express God, and consequently a time when Deity was unexpressed — that is, without entity. If man has lost perfection, then he has lost his perfect Principle, the divine Mind. If man ever existed without this perfect Principle or Mind, then man’s existence was a myth.

3۔ 306 :30۔6

خدا کا انسان، جسے روحانی طور پر خلق کیا گیا ہے، مادی یا فانی نہیں ہے۔

تمام تر انسانی اختلاف کی ولدیت آدم کا خواب تھا، گہری نیند، جس میں زندگی اور اْس ذہانت کا بھرم پیدا ہوا جو مادے سے اخذ ہوا اور گزرا۔یہ مشرکانہ غلطی، یا نام نہاد سانپ ابھی بھی سچائی کے مخالف سے اصرار کرتا اور کہتا ہے، ”تم خدا کی مانند ہو جاؤ گے؛“ یعنی، میں غلطی کو سچائی کی مانند حقیقی اور ابدی بنا دوں گا۔

3. 306 : 30-6

God’s man, spiritually created, is not material and mortal.

The parent of all human discord was the Adam-dream, the deep sleep, in which originated the delusion that life and intelligence proceeded from and passed into matter. This pantheistic error, or so-called serpent, insists still upon the opposite of Truth, saying, “Ye shall be as gods;” that is, I will make error as real and eternal as Truth.

4۔ 491 :7۔16

مادی انسان از خود اور رضاکارانہ غلطی سے، ایک منفی درستگی اور مثبت غلطی سے بنا ہے، دوسرے والا خود کو صحیح سمجھتا ہے۔انسان کی روحانی انفرادیت کبھی غلط نہیں ہوتی۔یہ انسان کے خالق کی شبیہ ہے۔ مادہ بشر کو حقیقی ابتداء اور ہستی کے حقائق سے نہیں جوڑ سکتا، جس میں سب کچھ ختم ہو جانا چاہئے۔ یہ صرف روح کی برتری کا تسلیم کرنے سے ہوگا، جو مادے کے دعووں کو منسوخ کرتا ہے، کہ بشر فانیت کو برخاست کریں اور کسی مستحکم روحانی تعلق کو تلاش کریں جو انسان کو ہمیشہ کے لئے، اپنے خالق کی طرف سے لازم و ملزوم الٰہی شبیہ میں قائم رکھتا ہے۔

4. 491 : 7-16

Material man is made up of involuntary and voluntary error, of a negative right and a positive wrong, the latter calling itself right. Man’s spiritual individuality is never wrong. It is the likeness of man’s Maker. Matter cannot connect mortals with the true origin and facts of being, in which all must end. It is only by acknowledging the supremacy of Spirit, which annuls the claims of matter, that mortals can lay off mortality and find the indissoluble spiritual link which establishes man forever in the divine likeness, inseparable from his creator.

5۔ 282 :23۔31

مادے میں کوئی موروثی قوت نہیں ہے؛ کیونکہ جو کچھ بھی مادی ہے وہ محض مادی، انسانی، فانی خیال ہے جو ہمیشہ خود پر غلط طور سے ہی حکومت کرتا ہے۔

سچائی لافانی عقل کی ذہانت ہے۔ غلطی فانی عقل کی نام نہاد ذہانت ہے۔

جو کچھ بھی انسان کے گناہ یا خدا کے مخالف یا خدا کی غیر موجودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے، وہ آدم کا خواب ہے، جو نہ ہی عقل ہے اورنہ انسان ہے، کیونکہ یہ باپ کا اکلوتا نہیں ہے۔

5. 282 : 23-31

There is no inherent power in matter; for all that is material is a material, human, mortal thought, always governing itself erroneously.

Truth is the intelligence of immortal Mind. Error is the so-called intelligence of mortal mind.

Whatever indicates the fall of man or the opposite of God or God’s absence, is the Adam-dream, which is neither Mind nor man, for it is not begotten of the Father.

6۔ 476 :13۔17

فانی بشر خدا کے گرائے گئے فرزند نہیں ہیں۔ وہ کبھی بھی ہستی کی کامل حالت میں نہیں تھے، جسے بعد ازیں دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔فانی تاریخ کے آغاز سے انہوں نے ”بدی میں حالت پکڑی اور گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑے۔“

6. 476 : 13-17

Mortals are not fallen children of God. They never had a perfect state of being, which may subsequently be regained. They were, from the beginning of mortal history, “conceived in sin and brought forth in iniquity.”

7۔ 556 :17۔24

کیا نسل سے متعلق بصیرت اور ابتدااْس گہری نیند سے آتے ہیں جو آدم پر چھائی تھی؟ نیند تاریکی ہے، لیکن خدا کا تخلیقی فرمان یہ تھا، ”روشنی ہو۔“ نیند میں وجہ اور اثر محض بھرم ہیں۔ وہ کچھ دکھائی دیتے ہیں، لیکن ہوتے نہیں۔ بدکاری اور خواب، نہ کہ حقیقتیں، نیند سے آتے ہیں۔ حتیٰ کہ آدم کا یقین بھی ایسا ہی تھا، جس کے مطابق فانی اور مادی زندگی خواب ہے۔

7. 556 : 17-24

Did the origin and the enlightenment of the race come from the deep sleep which fell upon Adam? Sleep is darkness, but God’s creative mandate was, “Let there be light.” In sleep, cause and effect are mere illusions. They seem to be something, but are not. Oblivion and dreams, not realities, come with sleep. Even so goes on the Adam-belief, of which mortal and material life is the dream.

8۔ 338 :27۔32

یہواہ نے یہ اعلان کیا کہ زمین ملعون تھی؛ اور اس زمین سے، یا مادے سے آدم نے جنم لیا، اس کے باوجود خدا نے ”انسان کی خاطر“ زمین کو برکت دی۔اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ آدم وہ مثالی انسان نہیں تھا جس کے لئے زمین کو برکت دی گئی تھی۔مثالی انسان اپنے وقت پر ظاہر کیا گیا، اور اْسے بطور یسوع مسیح جانا جاتا تھا۔

8. 338 : 27-32

Jehovah declared the ground was accursed; and from this ground, or matter, sprang Adam, notwithstanding God had blessed the earth “for man’s sake.” From this it follows that Adam was not the ideal man for whom the earth was blessed. The ideal man was revealed in due time, and was known as Christ Jesus.

9۔ 332 :23 (یسوع)۔26، 29۔2

یسوع ایک کنواری کا بیٹا تھا۔ اْسے خدا کا کلام سنانے کے لئے اور ایک ایسی انسانی شکل میں بشر پر ظاہر ہونے کے لئے مقرر کیا گیا تھا جسے وہ سمجھ سکتے اور ساتھ ہی ساتھ اس کا ادراک پا سکیں۔۔۔۔اْس نے الوہیت کی اعلیٰ قسم ظاہر کی، جسے ایک جسمانی شکل ہی اْس دور میں ظاہر کر سکتی تھی۔ایک حقیقی اور مثالی انسان میں جسمانی عنصر داخل نہیں ہو سکتا۔تاہم یہ مسیح ہی ہے جو اپنی صورت پر بنائے گئے انسان اور خدا کے مابین اتفاق یا روحانی معاہدے کو بیان کرتا ہے۔

9. 332 : 23 (Jesus)-26, 29-2

Jesus was the son of a virgin. He was appointed to speak God’s word and to appear to mortals in such a form of humanity as they could understand as well as perceive. … He expressed the highest type of divinity, which a fleshly form could express in that age. Into the real and ideal man the fleshly element cannot enter. Thus it is that Christ illustrates the coincidence, or spiritual agreement, between God and man in His image.

10۔ 333 :8 (مسیح)۔13

الٰہی خطاب یسوع کی مانند مسیح کوئی نام نہیں ہے۔ مسیح خدا کی روحانی،ابدی فطرت کو ظاہر کرتا ہے۔یہ نام مسیحا کا مترادف لفظ ہے، اور اْس روحانیت کی جانب اشارہ دیتا ہے جو ایسی زندگی سے سکھائی، بیان کی گئی اور ظاہر کی گئی جس کے لئے مسیح یسوع مجسم ہوا تھا۔

10. 333 : 8 (Christ)-13

Christ is not a name so much as the divine title of Jesus. Christ expresses God’s spiritual, eternal nature. The name is synonymous with Messiah, and alludes to the spirituality which is taught, illustrated, and demonstrated in the life of which Christ Jesus was the embodiment.

11۔ 476 :28۔5

خدا کے لوگوں سے متعلق، نہ کہ انسان کے بچوں سے متعلق، بات کرتے ہوئے یسوع نے کہا، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے؛“ یعنی سچائی اور محبت حقیقی انسان پر سلطنت کرتی ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ انسان خدا کی صورت پر بے گناہ اور ابدی ہے۔ یسوع نے سائنس میں کامل آدمی کو دیکھا جو اْس پر وہاں ظاہر ہوا جہاں گناہ کرنے والا فانی انسان لافانی پر ظاہر ہوا۔ اس کامل شخص میں نجات دہندہ نے خدا کی اپنی شبیہ اور صورت کو دیکھا اور انسان کے اس درست نظریے نے بیمار کو شفا بخشی۔ لہٰذہ یسوع نے تعلیم دی کہ خدا برقرار اور عالمگیر ہے اور یہ کہ انسان پاک اور مقدس ہے۔

11. 476 : 28-5

When speaking of God’s children, not the children of men, Jesus said, “The kingdom of God is within you;” that is, Truth and Love reign in the real man, showing that man in God’s image is unfallen and eternal. Jesus beheld in Science the perfect man, who appeared to him where sinning mortal man appears to mortals. In this perfect man the Saviour saw God’s own likeness, and this correct view of man healed the sick. Thus Jesus taught that the kingdom of God is intact, universal, and that man is pure and holy.

12۔ 260 :7۔12

بشری خیالات یعنی غلط تصورات کو اْن تمام تصورات کا راستہ ہموار کرنا چاہئے جو کامل اور ابدی ہیں۔ کئی نسلوں سے انسانی عقائد الٰہی تصورات کو حاصل کریں گے اور خدا کی تخلیق کا لافانی اور کامل نمونہ آخر کار صرف ہستی کے حقیقی تصور کے طور پر دکھائی دے گا۔

12. 260 : 7-12

The conceptions of mortal, erring thought must give way to the ideal of all that is perfect and eternal. Through many generations human beliefs will be attaining diviner conceptions, and the immortal and perfect model of God’s creation will finally be seen as the only true conception of being.

13۔ 407 :22 (میں)۔28

سائنس میں تمام تر ہستی ابدی، روحانی، کامل اور ہر عمل میں ہم آہنگ ہے۔ ایک کامل نمونے کو آپ کے خیالات میں پیش ہونے دیں بجائے اس کے بد اخلاق مخالف کے۔ خیالات کی روحانیت آپ کے شعور کو روشن کرتی اور اس میں الٰہی عقل یعنی زندگی لاتی ہے نہ کہ موت۔

13. 407 : 22 (In)-28

In Science, all being is eternal, spiritual, perfect, harmonious in every action. Let the perfect model be present in your thoughts instead of its demoralized opposite. This spiritualization of thought lets in the light, and brings the divine Mind, Life not death, into your consciousness.

14۔ 470 :32۔5

سائنس میں خدا اور انسان، الٰہی اصول اور خیال کے تعلقات لازوال ہیں، اور سائنس غیر متغیر رہنے میں بھول چوک نہیں جانتی اور نہ ہی اِس کی ابدی تاریخ سے ہم آہنگی کی جانب واپسی جانتی ہے، لیکن الٰہی حْکم یا روحانی قانون ضرور رکھتی ہے جس میں خدا جو کچھ وہ بناتا ہے کامل اور ابدی ہیں۔

14. 470 : 32-5

The relations of God and man, divine Principle and idea, are indestructible in Science; and Science knows no lapse from nor return to harmony, but holds the divine order or spiritual law, in which God and all that He creates are perfect and eternal, to have remained unchanged in its eternal history.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████