اتوار19 جنوری، 2025



مضمون۔ زندگی

SubjectLife

سنہری متن: اعمال 26 باب 8 آیت

جبکہ خدا مردوں کو جِلاتا ہے تو یہ بات تمہارے نزدیک کیونکر غیر معتبر سمجھی جاتی ہے؟



Golden Text: Acts 26 : 8

Why should it be thought a thing incredible with you, that God should raise the dead?





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: یوحنا 5 باب 19، 21، 24تا29 آیات


19۔ پس یسوع نے اْن سے کہا۔

21۔ کیونکہ جس طرح باپ مردوں کو اٹھاتا ہے اور زندہ کرتا ہے اور اْسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے۔

24۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا ہے اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اْس کی ہے اور اْس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔

25۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سنیں گے وہ جیئں گے۔

26۔ کیونکہ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اْسی طرح اْس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔

27۔ بلکہ اْسے عدالت کرنے کا بھی اختیار بخشا۔ اِس لئے کہ وہ آدم زاد ہے۔

28۔ اِس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اْس کی آواز سن کر نکلیں گے۔

29۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔

Responsive Reading: John 5 : 19, 21, 24-29

19.     Then answered Jesus and said unto them,

21.     For as the Father raiseth up the dead, and quickeneth them; even so the Son quickeneth whom he will.

24.     Verily, verily, I say unto you, He that heareth my word, and believeth on him that sent me, hath everlasting life, and shall not come into condemnation; but is passed from death unto life.

25.     Verily, verily, I say unto you, The hour is coming, and now is, when the dead shall hear the voice of the Son of God: and they that hear shall live.

26.     For as the Father hath life in himself; so hath he given to the Son to have life in himself;

27.     And hath given him authority to execute judgment also, because he is the Son of man.

28.     Marvel not at this: for the hour is coming, in the which all that are in the graves shall hear his voice,

29.     And shall come forth; they that have done good, unto the resurrection of life.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ پیدائش 5 باب23، 24آیات

23۔ اور حنوک کی کْل عمر تین سو پینسٹھ برس کی ہوئی۔

24۔ اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور غائب ہو گیا کیونکہ خدا نے اْسے اٹھا لیا۔

1. Genesis 5 : 23, 24

23     And all the days of Enoch were three hundred sixty and five years:

24     And Enoch walked with God: and he was not; for God took him.

2 . ۔ عبرانیوں 11 باب5آیت

5۔ ایمان ہی سے حنوک اْٹھا لیا گیا تاکہ موت کو نہ دیکھے اور چونکہ خدا نے اْسے اْٹھا لیا تھا اِس لئے اْس کا پتہ نہ ملا کیونکہ اْٹھائے جانے سے پیشتر اْس کے حق میں گواہی دی گئی تھی کہ یہ خدا کو پسند آیا۔

2. Hebrews 11 : 5

5     By faith Enoch was translated that he should not see death; and was not found, because God had translated him: for before his translation he had this testimony, that he pleased God.

3 . ۔ متی 3 باب13تا17آیات

13۔ اْس وقت یسوع گلیل سے یردن کے کنارے یوحنا کے پاس اْس سے بپتمہ لینے آیا۔

14۔ مگر یوحنا یہ کہہ کر اْسے منع کرنے لگا کہ مَیں آپ تجھ سے بپتمہ لینے کا محتاج ہوں اور تْو میرے پاس آیا ہے؟

15۔ یسوع نے اْسے جواب دیا اب تْو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔ اِس پر اْس نے ہونے دیا۔

16۔ اور یسوع بپتسمہ لے کر فی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیا اور دیکھو اْس کے لئے آسمان کھْل گیا اور اْس نے خدا کے روح کو کبوتر کی مانند اْترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا۔

17۔ اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔

3. Matthew 3 : 13-17

13     Then cometh Jesus from Galilee to Jordan unto John, to be baptized of him.

14     But John forbad him, saying, I have need to be baptized of thee, and comest thou to me?

15     And Jesus answering said unto him, Suffer it to be so now: for thus it becometh us to fulfil all righteousness. Then he suffered him.

16     And Jesus, when he was baptized, went up straightway out of the water: and, lo, the heavens were opened unto him, and he saw the Spirit of God descending like a dove, and lighting upon him:

17     And lo a voice from heaven, saying, This is my beloved Son, in whom I am well pleased.

4 . ۔ یوحنا 11 باب1تا11، 15، 17، 20 (تا:)، 21تا27، 32تا34، 38، 39 (تا پہلی)، 40(کہا) تا 44 آیات

1۔ مریم اور اْس کی بہن مارتھا کے گاؤں بیت عنیاہؔ کا لعزر نامی ایک آدمی بیمار تھا۔

2۔ (یہ وہی مریم تھی جس نے خداوند پر عطر ڈال کر اپنے بالوں سے اْس کے پاؤں پونچھے۔ اِسی کا بھائی لعزر بیمار تھا)۔

3۔ پس اْس کی بہنوں نے اْسے یہ کہلا بھیجا کہ اے خداوند دیکھ جسے تْو عزیز رکھتا ہے وہ بیمار ہے۔

4۔ یسوع نے سْن کر کہا کہ یہ بیماری موت کی نہیں بلکہ خدا کے جلال کے لئے ہے تاکہ اْس کے وسیلہ سے خدا کے بیٹے کا جلال ظاہر ہو۔

5۔ اور یسوع مارتھا اور اْس کی بہن اور لعزر سے محبت رکھتا تھا۔

6۔ پس جب اْس نے سنا کہ وہ بیمار ہے تو جس جگہ تھا وہیں دو دن اَور رہا۔

7۔ پھر اْس کے بعد شاگردوں سے کہا آؤ پھر یہودیہ کو چلیں۔

8۔ شاگردوں نے اْس سے کہا اے ربی!ابھی تو یہودی تجھے سنگسار کرنا چاہتے تھے اور تْو پھر وہاں جاتا ہے؟

9۔ یسوع نے جواب دیا کہ دن کے بارہ گھنٹے نہیں ہوتے۔ اگر کوئی دن کو چلے تو ٹھوکر نہیں کھاتا کیونکہ وہ دنیا کی روشنی دیکھتا ہے۔

10۔ لیکن اگر کوئی رات کو چلے تو ٹھوکر کھاتا ہے کیونکہ اْس میں روشنی نہیں۔

11۔ ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے اور میں اْسے جگانے جاتا ہوں۔

15۔ اور مَیں تمہارے سبب سے خوش ہوں کہ وہاں نہ تھا تاکہ تم ایمان لاؤ لیکن آؤ ہم اْس کے پاس چلیں۔

17۔ پس یسوع کو آکر معلوم ہوا کہ اْسے قبر میں رکھے چار دن ہوئے۔

20۔ پس مارتھا یسوع کے آنے کی خبر سن کر اْس سے ملنے کو گئی لیکن مریم گھر میں بیٹھی رہی۔

21۔ مارتھا نے یسوع سے کہا اے خداوند! اگر تْو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔

22۔ اور اب بھی مَیں جانتی ہوں کہ جو کچھ تْو خدا سے مانگے گا وہ تجھے دے گا۔

23۔ یسوع نے اْس سے کہا تیرا بھائی جی اٹھے گا۔

24۔ مارتھا نے اْس سے کہا مَیں جانتی ہوں کہ قیامت کے دن میں آخری دن جی اٹھے گا۔

25۔ یسوع نے اْس سے کہا قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر بھی جائے تو بھی زندہ رہتا ہے۔

26۔ اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔ کیا تْو اِس پر ایمان رکھتی ہے؟

27۔ اْس نے اْس سے کہا ہاں اے خداوند مَیں ایمان لا چکی ہوں کہ خدا کا بیٹا مسیح جو دنیا میں آنے والا تھا تْو ہی ہے۔

32۔ جب مریم وہاں پہنچی جہاں یسوع تھا اور اْسے دیکھا تو اْس کے قدموں میں گر کر اْس سے کہا اے خداوند اگر تْو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔

33۔جب یسوع نے اْسے اور اْن یہودیوں کو جو اْس کے ساتھ آئے تھے روتے دیکھا تو دل میں نہایت رنجیدہ ہوا۔

34۔ تم نے اْسے کہاں رکھا ہے؟ انہوں نے کہا اے خداوند چل کر دیکھ لے۔

38۔ یسوع پھر اپنے دل میں نہایت رنجیدہ ہو کر قبر پر آیا۔ وہ ایک غار تھا اور اْس پر پتھر دھرا تھا۔

39۔ یسوع نے کہا پتھر کو ہٹاؤ۔ اْس مرے ہوئے شخص کی بہن مارتھا نے اْس سے کہا اے خداوند! اْس میں سے تو اب بدبو آتی ہے کیونکہ اْسے چار دن ہو گئے۔

40۔ یسوع نے اْس سے کہا میں نے تجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تْو ایمان لائے گی تو خدا کا جلال دیکھے گی؟

41۔ پس انہوں نے اْس پتھر کو ہٹا دیا۔ پھر یسوع نے آنکھیں اْٹھا کر کہا اے باپ میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تْو نے میری سْن لی۔

42۔ اور مجھے تو معلوم تھا کہ تْو ہمیشہ میری سْنتا ہے مگر ان لوگوں کے باعث جو آس پاس کھڑے ہیں مَیں نے کہا تاکہ وہ ایمان لائیں کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا ہے۔

43۔ اور یہ کہہ کر اْس نے بلند آواز سے پکارا کہ اے لعزر نکل آ۔

44۔ جو مر گیا تھا کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نکل آیا اور اْس کا چہرہ رومال سے لپٹا ہوا تھا۔ یسوع نے اْن سے کہا اِسے کھول کر جانے دو۔

4. John 11 : 1-11, 15, 17, 20 (to :), 21-27, 32-34, 38, 39 (to 1st .), 40 (Said)-44

1     Now a certain man was sick, named Lazarus, of Bethany, the town of Mary and her sister Martha.

2     (It was that Mary which anointed the Lord with ointment, and wiped his feet with her hair, whose brother Lazarus was sick.)

3     Therefore his sisters sent unto him, saying, Lord, behold, he whom thou lovest is sick.

4     When Jesus heard that, he said, This sickness is not unto death, but for the glory of God, that the Son of God might be glorified thereby.

5     Now Jesus loved Martha, and her sister, and Lazarus.

6     When he had heard therefore that he was sick, he abode two days still in the same place where he was.

7     Then after that saith he to his disciples, Let us go into Judæa again.

8     His disciples say unto him, Master, the Jews of late sought to stone thee; and goest thou thither again?

9     Jesus answered, Are there not twelve hours in the day? If any man walk in the day, he stumbleth not, because he seeth the light of this world.

10     But if a man walk in the night, he stumbleth, because there is no light in him.

11     These things said he: and after that he saith unto them, Our friend Lazarus sleepeth; but I go, that I may awake him out of sleep.

15     And I am glad for your sakes that I was not there, to the intent ye may believe; nevertheless let us go unto him.

17     Then when Jesus came, he found that he had lain in the grave four days already.

20     Then Martha, as soon as she heard that Jesus was coming, went and met him:

21     Then said Martha unto Jesus, Lord, if thou hadst been here, my brother had not died.

22     But I know, that even now, whatsoever thou wilt ask of God, God will give it thee.

23     Jesus saith unto her, Thy brother shall rise again.

24     Martha saith unto him, I know that he shall rise again in the resurrection at the last day.

25     Jesus said unto her, I am the resurrection, and the life: he that believeth in me, though he were dead, yet shall he live:

26     And whosoever liveth and believeth in me shall never die. Believest thou this?

27     She saith unto him, Yea, Lord: I believe that thou art the Christ, the Son of God, which should come into the world.

32     Then when Mary was come where Jesus was, and saw him, she fell down at his feet, saying unto him, Lord, if thou hadst been here, my brother had not died.

33     When Jesus therefore saw her weeping, and the Jews also weeping which came with her, he groaned in the spirit, and was troubled,

34     And said, Where have ye laid him? They said unto him, Lord, come and see.

38     Jesus therefore again groaning in himself cometh to the grave. It was a cave, and a stone lay upon it.

39     Jesus said, Take ye away the stone.

40     Said I not unto thee, that, if thou wouldest believe, thou shouldest see the glory of God?

41     Then they took away the stone from the place where the dead was laid. And Jesus lifted up his eyes, and said, Father, I thank thee that thou hast heard me.

42     And I knew that thou hearest me always: but because of the people which stand by I said it, that they may believe that thou hast sent me.

43     And when he thus had spoken, he cried with a loud voice, Lazarus, come forth.

44     And he that was dead came forth, bound hand and foot with graveclothes: and his face was bound about with a napkin. Jesus saith unto them, Loose him, and let him go.

5 . ۔ یوحنا 17 باب1تا3 آیات

1۔ یسوع نے یہ باتیں کہیں اوراپنی آنکھیں آسمان کی طرف اْٹھا کر کہا اے باپ! وہ گھڑی آپہنچی۔ اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔

2۔ چنانچہ تْو نے اْسے ہر بشر پر اختیار دیا ہے تاکہ جنہیں تْو نے اْسے بخشا ہے اْن سب کو ہمیشہ کی زندگی دے۔

3۔ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور بر حق کو اور یسوع مسیح کو جسے تْو نے بھیجا ہے جانیں۔

5. John 17 : 1-3

1     These words spake Jesus, and lifted up his eyes to heaven, and said, Father, the hour is come; glorify thy Son, that thy Son also may glorify thee:

2     As thou hast given him power over all flesh, that he should give eternal life to as many as thou hast given him.

3     And this is life eternal, that they might know thee the only true God, and Jesus Christ, whom thou hast sent.

6 . ۔ 1 یوحنا 5باب11، 13، 20 آیات

11۔ اور وہ گواہی یہ ہے کہ خدا نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی بخشی اور یہ زندگی اْس کے بیٹے میں ہے؟

13۔ مَیں نے تم کو جو خدا کے بیٹے پر ایمان لائے ہو یہ باتیں اِس لئے لکھیں کہ تمہیں معلوم ہو کہ ہمیشہ کی زندگی رکھتے ہو۔

20۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا آگیا ہے اور اْس نے ہمیں سمجھ بخشی ہے تاکہ اْس کو جو حقیقی ہے جانیں اور ہم اْس میں جو حقیقی ہے یعنی اْس کے بیٹے یسوع مسیح میں ہیں۔ حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے۔

6. I John 5 : 11, 13, 20

11     And this is the record, that God hath given to us eternal life, and this life is in his Son.

13     These things have I written unto you that believe on the name of the Son of God; that ye may know that ye have eternal life, and that ye may believe on the name of the Son of God.

20     And we know that the Son of God is come, and hath given us an understanding, that we may know him that is true, and we are in him that is true, even in his Son Jesus Christ. This is the true God, and eternal life.



سائنس اور صح


1 . ۔ 586 :9۔10

باپ۔ ابدی زندگی؛ واحد عقل؛ الٰہی اصول، عموماً خدا کہلایا جانے والا۔

1. 586 : 9-10

Father. Eternal Life; the one Mind; the divine Principle, commonly called God.

2 . ۔ 331: 11 (دی)۔17

صحیفے دلیل دیتے ہیں کہ خداقادرِمطلق ہے۔ اِس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ الٰہی عقل اوراْس کے خیالات کے علاوہ کوئی چیز نہ حقیقت کی ملکیت رکھتی ہے نہ وجودیت کی۔صحائف یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ خدا روح ہے۔اِس لئے روح میں سب کچھ ہم آہنگی ہے، اور کوئی مخالفت نہیں ہوسکتی؛ سب کچھ زندگی ہے اور موت بالکل نہیں ہے۔ خدا کی کائنات میں ہر چیز اْسی کو ظاہر کرتی ہے۔

2. 331 : 11 (The)-17

The Scriptures imply that God is All-in-all. From this it follows that nothing possesses reality nor existence except the divine Mind and His ideas. The Scriptures also declare that God is Spirit. Therefore in Spirit all is harmony, and there can be no discord; all is Life, and there is no death. Everything in God's universe expresses Him.

3 . ۔ 214: 5۔8

اگر حنوک کے ادراک کو اْس کے مادی حواس سے قبل ثبوت تک محدود کردیا جاتا، تو وہ کبھی ”خدا کے ساتھ نہ چل“ پاتا، نہ ہی اْسے ابدی زندگی کے اظہار کی جانب ہدایت دی جاتی۔

3. 214 : 5-8

If Enoch's perception had been confined to the evidence before his material senses, he could never have "walked with God," nor been guided into the demonstration of life eternal.

4 . ۔ 245: 27 صرف

ناممکنات کبھی واقع نہیں ہوتے۔

4. 245 : 27 only

Impossibilities never occur.

5 . ۔ 213: 11۔15

اچھائی کی جانب بڑھنے والا قدم مادیت سے رخصت ہونا ہے، اور یہ خدا، روح کی جانب رغبت ہے۔مادی نظریات جزوی طور پر لافانی اور ابدی اچھائی کی جانب اِس توجہ کو فانی، عارضی اور مخالفت کی جانب توجہ کی بدولت مفلوج بناتے ہیں۔

5. 213 : 11-15

Every step towards goodness is a departure from materiality, and is a tendency towards God, Spirit. Material theories partially paralyze this attraction towards infinite and eternal good by an opposite attraction towards the finite, temporary, and discordant.

6 . ۔ 241: 13۔18

روح کی تجدید کی بدولت بائبل بدن کی تبدیلی کی تعلیم دیتی ہے۔ کلام کی روحانی اہمیت کو ایک طرف رکھ دیں، تو یہ ترتیب انسانوں کے لئے چاند کی کرنوں سے برف کے دریا کے پگھلنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔کئی زمانوں سے عمل کے بغیر تعلیم دینا ایک غلطی ہے۔

6. 241 : 13-18

The Bible teaches transformation of the body by the renewal of Spirit. Take away the spiritual signification of Scripture, and that compilation can do no more for mortals than can moonbeams to melt a river of ice. The error of the ages is preaching without practice.

7 . ۔ 428: 30۔10

مصنف نے نا اْمید عضوی بیماری کو شفا بخشی، اور صرف خدا کو ہی زندگی تصو کرنے کے باعث مرنے والے کو زندہ کیا۔ یہ یقین رکھنا گناہ ہے کہ کوئی چیز قادر مطلق اور ابدی زندگی کو زیر کرسکتی ہے،اور یہ سمجھتے ہوئے کہ موت نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روح کے دیگر فضائل کو سمجھنا زندگی میں روشنی لا سکتا ہے۔ تاہم ہمیں مزید اختیار کے سادہ اظہار کے ساتھ آغاز کرنا چاہئے، اور جتنا جلدی ہم یہ شروع کریں اْتنا ہی اچھا ہے۔ آخری اظہار اس کے مکمل ہونے میں تھوڑا وقت لیتا ہے۔ چلتے وقت ہمیں آنکھ سے ہدایت ملتی ہے۔ ہم اپنے پاؤں کے سامنے دیکھتے ہیں، اور اگر ہم عقلمند ہوں تو ہم روحانی ترقی کی راہ میں ایک قدم آگے دیکھتے ہیں۔

7. 428 : 30-10

The author has healed hopeless organic disease, and raised the dying to life and health through the understanding of God as the only Life. It is a sin to believe that aught can overpower omnipotent and eternal Life, and this Life must be brought to light by the understanding that there is no death, as well as by other graces of Spirit. We must begin, however, with the more simple demonstrations of control, and the sooner we begin the better. The final demonstration takes time for its accomplishment. When walking, we are guided by the eye. We look before our feet, and if we are wise, we look beyond a single step in the line of spiritual advancement.

8 . ۔ 428 :15۔21

ہمیں وجودیت کو ”گمنام خدا کے لئے“ مخصوص نہیں کرنا چاہئے جس کی ہم ”لاعلمی سے عبادت“ کرتے ہیں، بلکہ ابدی معمار، ابدی باپ، اور اْس زندگی کے لئے کرنی چاہئے جسے فانی فہم بگاڑ نہیں سکتا نہ ہی فانی عقیدہ نیست کر سکتا ہے۔انسانی غلط فہمیوں کی تلافی کر نے کے لئے اور اْس زندگی کے ساتھ اْن کا تبادلہ کرنے کے لئے جو روحانی ہے نہ کہ مادی ہمیں ذہنی طاقت کی قابلیت کا ادراک ہونا چاہئے۔

8. 428 : 15-21

We should consecrate existence, not "to the unknown God" whom we "ignorantly worship," but to the eternal builder, the everlasting Father, to the Life which mortal sense cannot impair nor mortal belief destroy. We must realize the ability of mental might to offset human misconceptions and to replace them with the life which is spiritual, not material.

9 . ۔ 493: 28۔15

اگر یسوع نے لعزر کو موت کے خواب، بھرم سے جگایا ہوتا تو اس سے ثابت ہوجاتا کہ مسیح ایک جھوٹے فہم کو فروغ دیتا تھا۔ الٰہی عقل کی رضا اور قوت کی اس طے شْدہ آزمائش پر کون شک کرنے کی جسارت کرتا ہے تاکہ انسان کو ہمیشہ اْس کی حالت میں برقرار رکھے اور انسان کے تمام تر کاموں کی نگرانی کرے؟ یسوع نے کہا ”اِس مقدس ]بدن[ کو ڈھا دو تو مَیں ]عقل[ اِسے تین دن میں کھڑا کردوں گا؛“ اور اْس نے یہ کام تھکی ماندی انسانیت کی یقین دہانی کے لئے کیا۔

کیا یہ ایمان رکھنا کفر کی ایک قسم نہیں کہ مسیحا جیسا ایک عظیم کام جو اْس نے خود کے لئے یا خدا کے لئے کیا، اْسے ابدی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لئے یسوع کے نمونے سے کوئی مدد لینے کی ضرورت نہیں تھی؟ مگر انسانوں کو اِس مد د کی ضرورت تھی اور یسوع نے اِس کے لئے اْس راہ کی نشان دہی کی۔الٰہی محبت نے ہمیشہ انسانی ضرورت کو پورا کیا ہے اور ہمیشہ پورا کرے گی۔ اس بات کا تصور کرنا مناسب نہیں کہ یسوع نے محض چند مخصوص تعداد میں یا محدود عرصے تک شفا دینے کے لئے الٰہی طاقت کا مظاہرہ کیا، کیونکہ الٰہی محبت تمام انسانوں کے لئے ہر لمحہ سب کچھ مہیا کرتی ہے۔

فضل کا معجزہ محبت کے لئے کوئی معجزہ نہیں ہے۔

9. 493 : 28-15

If Jesus awakened Lazarus from the dream, illusion, of death, this proved that the Christ could improve on a false sense. Who dares to doubt this consummate test of the power and willingness of divine Mind to hold man forever intact in his perfect state, and to govern man's entire action? Jesus said: "Destroy this temple [body], and in three days I [Mind] will raise it up;" and he did this for tired humanity's reassurance.

Is it not a species of infidelity to believe that so great a work as the Messiah's was done for himself or for God, who needed no help from Jesus' example to preserve the eternal harmony? But mortals did need this help, and Jesus pointed the way for them. Divine Love always has met and always will meet every human need. It is not well to imagine that Jesus demonstrated the divine power to heal only for a select number or for a limited period of time, since to all mankind and in every hour, divine Love supplies all good.

The miracle of grace is no miracle to Love.

10 . ۔ 242 :1۔8

معافی، روحانی بپتسمہ، اور نئی پیدائش کے وسیلہ بشر اپنے لافانی عقائد اور جھوٹی انفرادیت کو اتار پھینکتے ہیں۔ یہ بس وقت کی بات ہے کہ ”چھوٹے سے بڑے تک وہ سب مجھے (خدا کو) جانیں گے۔“ مادے کے دعووں سے انکار خوشی کی روح کی جانب انسانی آزادی اور بدن پر آخری فتح کی جانب بڑا قدم ہے۔

10. 242 : 1-8

Through repentance, spiritual baptism, and regeneration, mortals put off their material beliefs and false individuality. It is only a question of time when "they shall all know Me [God], from the least of them unto the greatest." Denial of the claims of matter is a great step towards the joys of Spirit, towards human freedom and the final triumph over the body.

11 . ۔ 254 :2۔15

وہ لوگ مستحکم ہوتے ہیں جو دھیان رکھتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے ”دوڑتے ہیں اور تھک نہیں سکتے۔۔۔ چلتے ہیں لیکن ماندہ نہیں ہوسکتے“، جو تیزی کے ساتھ اچھائی حاصل کرتے ہیں اور اپنی اس حالت کو برقرار رکھتے ہیں، یا دھیرے دھیرے حاصل کرتے ہیں اور نہ امیدی کو جنم نہیں لینے دیتے۔ خدا کاملیت کی مانگ کرتا ہے لیکن تب تک نہیں جب تک روح اور بدن کے مابین جنگ لڑی اور فتح نہ کی جائے۔ قدم بہ قدم وجودیت کے روحانی حقائق کو حاصل کرنے سے پیشتر مادی طور پر کھانا، پینا یا پہننا بند کرنا مناسب نہیں۔جب ہم صبر کے ساتھ خدا کا انتظار کرتے اور راستبازی کے ساتھ سچائی کی تلاش کرتے ہیں تو وہ ہماری راہ میں راہنمائی کرتا ہے۔ غیر کامل انسان آہستہ آہستہ اصلی روحانی کاملیت کو گرفت میں لیتے ہیں؛ مگر ٹھیک طریقے سے شروع کرنے کے لئے اور ہستی کے بڑے مسئلے کے اظہار کے تنازع کو جاری رکھنا بہت بڑا کام ہے۔

11. 254 : 2-15

Individuals are consistent who, watching and praying, can "run, and not be weary; ... walk, and not faint," who gain good rapidly and hold their position, or attain slowly and yield not to discouragement. God requires perfection, but not until the battle between Spirit and flesh is fought and the victory won. To stop eating, drinking, or being clothed materially before the spiritual facts of existence are gained step by step, is not legitimate. When we wait patiently on God and seek Truth righteously, He directs our path. Imperfect mortals grasp the ultimate of spiritual perfection slowly; but to begin aright and to continue the strife of demonstrating the great problem of being, is doing much.

12 . ۔ 544: 7۔17

پیدائش، زوال، اور موت چیزوں کے مادی فہم سے نہ کہ روحانی فہم سے پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ بعد والے میں زندگی اْن چیزوں پر مشتمل نہیں جو انسان کھاتا ہے۔مادہ اِس ابدی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا کہ انسان اِس لئے موجود ہے کیونکہ خدا موجود ہے۔

سائنس میں، نہ تو عقل مادے کو پیدا کرتی ہے نہ مادا عقل کو پیدا کرتا ہے۔کسی مادے میں طاقت یا اہلیت یا دانش نہیں کہ وہ کچھ پیدا کرے یا نیست کرے۔سب کچھ صرف ایک عقل، یعنی خدا کے اختیارمیں ہے۔

12. 544 : 7-17

Birth, decay, and death arise from the material sense of things, not from the spiritual, for in the latter Life consisteth not of the things which a man eateth. Matter cannot change the eternal fact that man exists because God exists. Nothing is new to the infinite Mind.

In Science, Mind neither produces matter nor does matter produce mind. No mortal mind has the might or right or wisdom to create or to destroy. All is under the control of the one Mind, even God.

13 . ۔ 428 :3۔14

زندگی حقیقی ہے، اور موت بھرم ہے۔ یسوع کی راہ میں روح کے حقائق کا ایک اظہار مادی فہم کے تاریک ادراک میں ہم آہنگی اور لافانیت کو حل کرتا ہے۔اس مقتدر لمحے میں انسان کی ترجیح اپنے مالک کے ان الفاظ کو ثابت کرنا ہے: ”اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔“ جھوٹے بھروسوں اور مادی ثبوتوں کے خیالات کو ختم کرنے کے لئے، تاکہ شخصی روحانی حقائق سامنے آئیں، یہ ایک بہت بڑا حصول ہے جس کی بدولت ہم غلط کو تلف کریں گے اور سچائی کو جگہ فراہم کریں گے۔ یوں ہم سچائی کی وہ ہیکل یا بدن تعمیر کرتے ہیں، ”جس کا معمار اور بنانے والا خدا ہے“۔

13. 428 : 3-14

Life is real, and death is the illusion. A demonstration of the facts of Soul in Jesus' way resolves the dark visions of material sense into harmony and immortality. Man's privilege at this supreme moment is to prove the words of our Master: "If a man keep my saying, he shall never see death." To divest thought of false trusts and material evidences in order that the spiritual facts of being may appear, — this is the great attainment by means of which we shall sweep away the false and give place to the true. Thus we may establish in truth the temple, or body, "whose builder and maker is God."

14 . ۔ 200: 9۔12 (تا پہلی)

زندگی ہمیشہ مادے سے آزاد ہے، تھی اور ہمیشہ رہے گی،کیونکہ زندگی خدا ہے اور انسان خدا کا تصور ہے،

14. 200 : 9-12 (to 1st ,)

Life is, always has been, and ever will be independent of matter; for Life is God, and man is the idea of God,


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔