اتوار 9 نومبر، 2025
مبارک ہے وہ شخص جو آزمائش کی برداشت کرتا ہے کیونکہ جب مقبول ٹھہرا تو زندگی کا وہ حاصل کرے گا جس کا خداوند نے اپنے محبت کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے۔
“Blessed is the man that endureth temptation: for when he is tried, he shall receive the crown of life, which the Lord hath promised to them that love him.”
13۔ جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمائش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔
14۔ ہاں ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔
17۔ ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام اوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتاہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اْس پر سایہ پڑتا ہے۔
18۔ اْس نے اپنی مرضی سے ہمیں کلامِ حق کے وسیلہ سے پیدا کیا تاکہ اْس کی مخلوقات میں سے ہر ایک طرح کے پہلے پھل ہوں۔
15۔پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے۔
16۔ اے میرے پیارے بھائیو! فریب نہ کھانا۔
21۔ اِس لئے ساری نجاست اور بدی کے فضلہ کو دور کر کے اْس کلام کو حلیمی سے قبول کر لو جو دل میں بویا گیا اور تمہاری روحوں کو نجات دے سکتا ہے۔
25۔ لیکن جو شخص آزادی کی شریعت پر غور سے نظرکرتا رہتا ہے وہ اپنے کام میں اِس لئے برکت پائے گا کہ سْن کر بھولتا نہیں بلکہ عمل کرتا ہے۔
13. Let no man say when he is tempted, I am tempted of God: for God cannot be tempted with evil, neither tempteth he any man:
14. But every man is tempted, when he is drawn away of his own lust, and enticed.
15. Then when lust hath conceived, it bringeth forth sin: and sin, when it is finished, bringeth forth death.
16. Do not err, my beloved brethren.
17. Every good gift and every perfect gift is from above, and cometh down from the Father of lights, with whom is no variableness, neither shadow of turning.
18. Of his own will begat he us with the word of truth, that we should be a kind of firstfruits of his creatures.
21. Wherefore lay apart all filthiness and superfluity of naughtiness, and receive with meekness the engrafted word, which is able to save your souls.
25. But whoso looketh into the perfect law of liberty, and continueth therein, he being not a forgetful hearer, but a doer of the work, this man shall be blessed in his deed.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا۔
26۔ پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپائیوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اختیار رکھیں۔
27۔ اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اْس کو پیدا کیا۔ نر اور ناری اْن کو پیدا کیا۔
28۔اور خدا نے اْن کو برکت دی۔
31۔ اور خدا نے سب پر جو اْس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔
1 In the beginning God created the heaven and the earth.
26 And God said, Let us make man in our image, after our likeness: and let them have dominion over the fish of the sea, and over the fowl of the air, and over the cattle, and over all the earth, and over every creeping thing that creepeth upon the earth.
27 So God created man in his own image, in the image of God created he him; male and female created he them.
28 And God blessed them,
31 And God saw every thing that he had made, and, behold, it was very good.
1۔ سو آسمان اور زمین اور اْن کے کْل لشکر کا بنانا ختم ہوا۔
6۔ بلکہ زمین سے کْہر اٹھتی تھی اور تمام روئے زمین کو سیراب کرتی تھی۔
7۔ اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اْس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھْونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔
15۔ اور خداوند خدا نے آدم کو لے کر باغ عدن میں رکھا کہ اُسکی باغبانی اور نگہبانی کرے۔
16۔ اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے۔
17۔ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا۔
1 Thus the heavens and the earth were finished, and all the host of them.
6 But there went up a mist from the earth, and watered the whole face of the ground.
7 And the Lord God formed man of the dust of the ground, and breathed into his nostrils the breath of life; and man became a living soul.
15 And the Lord God took the man, and put him into the garden of Eden to dress it and to keep it.
16 And the Lord God commanded the man, saying, Of every tree of the garden thou mayest freely eat:
17 But of the tree of the knowledge of good and evil, thou shalt not eat of it: for in the day that thou eatest thereof thou shalt surely die.
1۔سانپ کل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا اور اْس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کاپھل تم نہ کھانا؟
4۔ تب سانپ نے عورت سے کہا تم ہر گز نہ مرو گے۔
5۔ بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اْسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔
6۔عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اْس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اْس نے کھایا۔
9۔تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور اُس سے کہا کہ تْو کہاں ہے؟
10۔ اُس نے کہا میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور میں ڈرا کیونکہ میں ننگا تھا اور میں نے اپنے آپ کو چھپایا۔
11۔ اُس نے کہا تجھے کس نے بتایا کہ تُو ننگا ہے؟ کیا تُو نے اُس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا؟
12۔ آدم نے کہا جس عورت کو تُو نے میرے ساتھ کیا ہے اُس نے مجھے اُس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا۔
13۔ تب خدا وند خدا نے عورت سے کہا کہ تُو نے یہ کیا کِیا؟ عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھ کو بہکایا تو میں نے کھایا۔
23۔ اِس لئے خداوند خدا نے اْس کو باغِ عدن سے باہر کر دیا تاکہ وہ اْس زمین کی جس میں سے وہ لیا گیا تھا کھیتی کرے۔
1 Now the serpent was more subtil than any beast of the field which the Lord God had made. And he said unto the woman, Yea, hath God said, Ye shall not eat of every tree of the garden?
4 And the serpent said unto the woman, Ye shall not surely die:
5 For God doth know that in the day ye eat thereof, then your eyes shall be opened, and ye shall be as gods, knowing good and evil.
6 And when the woman saw that the tree was good for food, and that it was pleasant to the eyes, and a tree to be desired to make one wise, she took of the fruit thereof, and did eat, and gave also unto her husband with her; and he did eat.
9 And the Lord God called unto Adam, and said unto him, Where art thou?
10 And he said, I heard thy voice in the garden, and I was afraid, because I was naked; and I hid myself.
11 And he said, Who told thee that thou wast naked? Hast thou eaten of the tree, whereof I commanded thee that thou shouldest not eat?
12 And the man said, The woman whom thou gavest to be with me, she gave me of the tree, and I did eat.
13 And the Lord God said unto the woman, What is this that thou hast done? And the woman said, The serpent beguiled me, and I did eat.
23 Therefore the Lord God sent him forth from the garden of Eden, to till the ground from whence he was taken.
1۔ پھر یسوع روح القدس سے بھرا ہوا یردن سے لوٹا اور چالیس دن تک روح کی ہدایت سے بیابان میں پھرتا رہا۔
2۔ اور ابلیس اْسے آزماتا رہا۔ اْن دنوں میں اْس نے کچھ نہ کھایا اور جب وہ دن پورے ہوگئے تو اْسے بھوک لگی۔
3۔ اور ابلیس نے اْس سے کہا کہ اگر تْو خدا کا بیٹا ہے تو اِس پتھر سے کہہ کہ روٹی بن جائے۔
4۔ یسوع نے اْس کو جواب دیا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا، بلکہ ہر اْس بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے۔
5۔اور ابلیس نے اْسے اونچے پر لے جا کر دنیا کی سب سلطنتیں پل بھر میں دِکھائیں۔
6۔ اور اْس نے کہا کہ یہ سارا اختیار اور اْن کی شان و شوکت میں تجھے دے دوں گا کیونکہ یہ میرے سپرد ہے اور جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں۔
7۔ پس اگر تو میرے آگے سجدہ کرے تو یہ سب تیرا ہو گا۔
8۔ یسوع نے جواب میں اْس سے کہا لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اْسی کی عبادت کر۔
9۔ اور وہ اْسے یروشلم میں لے گیا اور ہیکل کے کنگرے پرکھڑا کر کے اْس سے کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں یہاں سے نیچے گِرا دے۔
10۔ کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ تیری حفاظت کریں۔
11۔ اور یہ بھی کہ وہ تجھے ہاتھوں پر اْٹھا لیں گے۔ مبادا تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔
12۔ یسوع نے جواب میں اْس سے کہا فرمایا گیا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر۔
13۔ جب ابلیس تمام آزمائشیں کر چکا تو کچھ عرصہ کے لیے اْس سے جْدا ہوا۔
14۔ پھر یسوع روح کی قوت سے بھرا ہو گلیل کو لوٹا۔
15۔ اور وہ اْن کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا رہا اور سب اْس کی بڑائی کرتے رہے۔
1 And Jesus being full of the Holy Ghost returned from Jordan, and was led by the Spirit into the wilderness,
2 Being forty days tempted of the devil. And in those days he did eat nothing: and when they were ended, he afterward hungered.
3 And the devil said unto him, If thou be the Son of God, command this stone that it be made bread.
4 And Jesus answered him, saying, It is written, That man shall not live by bread alone, but by every word of God.
5 And the devil, taking him up into an high mountain, shewed unto him all the kingdoms of the world in a moment of time.
6 And the devil said unto him, All this power will I give thee, and the glory of them: for that is delivered unto me; and to whomsoever I will I give it.
7 If thou therefore wilt worship me, all shall be thine.
8 And Jesus answered and said unto him, Get thee behind me, Satan: for it is written, Thou shalt worship the Lord thy God, and him only shalt thou serve.
9 And he brought him to Jerusalem, and set him on a pinnacle of the temple, and said unto him, If thou be the Son of God, cast thyself down from hence:
10 For it is written, He shall give his angels charge over thee, to keep thee:
11 And in their hands they shall bear thee up, lest at any time thou dash thy foot against a stone.
12 And Jesus answering said unto him, It is said, Thou shalt not tempt the Lord thy God.
13 And when the devil had ended all the temptation, he departed from him for a season.
14 And Jesus returned in the power of the Spirit into Galilee: and there went out a fame of him through all the region round about.
15 And he taught in their synagogues, being glorified of all.
1۔وہ اْس بھیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب بیٹھ گیا تو اْس کے شاگرد اْس کے پاس آئے۔
2۔ اور وہ اپنی زبان کھول کر اْن کو یوں تعلیم دینے لگا۔
1 And seeing the multitudes, he went up into a mountain: and when he was set, his disciples came unto him:
2 And he opened his mouth, and taught them, saying,
9۔ پس تم اِس طرح دعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ تْو جو آسمان پر ہے۔ تیرا نام پاک مانا جائے۔
10۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔
11۔ ہمارے روز کی روٹی آج ہمیں دے۔
12۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے تْو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔
13۔ اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں۔ آمین۔
9 After this manner therefore pray ye: Our Father which art in heaven, Hallowed be thy name.
10 Thy kingdom come. Thy will be done in earth, as it is in heaven.
11 Give us this day our daily bread.
12 And forgive us our debts, as we forgive our debtors.
13 And lead us not into temptation, but deliver us from evil: For thine is the kingdom, and the power, and the glory, for ever. Amen.
13۔ تم کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہواور خدا سچا ہے۔وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دے گا بلکہ آزمائش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کرے گا تاکہ تم برداشت کر سکو۔
13 There hath no temptation taken you but such as is common to man: but God is faithful, who will not suffer you to be tempted above that ye are able; but will with the temptation also make a way to escape, that ye may be able to bear it.
3۔کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کچھ سمجھے اور کچھ بھی نہ ہو تو اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔
3 For if a man think himself to be something, when he is nothing, he deceiveth himself.
9۔ خداوند دینداروں کو آزمائش سے نکالنا جانتا ہے۔
9 The Lord knoweth how to deliver the godly out of temptations,
انسان تمام تر خیالات یعنی خدا کے بیٹوں اور بیٹیوں کا خاندانی نام ہے۔وہ سب جو خدا دیتا ہے اچھائی اور طاقت کی عکاسی کرتے ہوئے اْس کے ساتھ چلتا ہے۔
Man is the family name for all ideas, — the sons and daughters of God. All that God imparts moves in accord with Him, reflecting goodness and power.
مواد، زندگی، ذہانت، سچائی اور محبت جو خدائے واحد کو متعین کرتے ہیں، اْس کی مخلوق سے منعکس ہوتے ہیں؛ اور جب ہم جسمانی حواس کی جھوٹی گواہی کو سائنسی حقائق کے ماتحت کر دیتے ہیں، تو ہم اس حقیقی مشابہت اور عکس کوہرطرف دیکھیں گے۔
خدا تمام چیزوں کو اپنی شبیہ پر بناتا ہے۔ زندگی وجودیت سے، سچ راستی سے، خدا نیکی سے منعکس ہوتا ہے، جو خود کی سلامتی اور استقلال عنایت کرتے ہیں۔
آدمی اور عورت بطور ہمیشہ کے لئے خدا کے ساتھ ابدی اور ہم عصر، جلالی خوبی میں، لامحدود مادر پدر خدا کی عکاسی کرتے ہیں۔
The substance, Life, intelligence, Truth, and Love, which constitute Deity, are reflected by His creation; and when we subordinate the false testimony of the corporeal senses to the facts of Science, we shall see this true likeness and reflection everywhere.
God fashions all things, after His own likeness. Life is reflected in existence, Truth in truthfulness, God in goodness, which impart their own peace and permanence.
Man and woman as coexistent and eternal with God forever reflect, in glorified quality, the infinite Father-Mother God.
پیدائش 2باب6 آیت: بلکہ زمین سے کْہر اٹھتی تھی اور تمام روئے زمین کو سیراب کرتی تھی۔
پیدائش کے دوسرے باب میں خدا اور کائنات کے اس مادی نظریے کا بیان پایا جاتا ہے، وہ بیان جو جیسے پہلے ریکارڈ ہوئی اْسی سائنسی سچائی کے عین متضاد ہے۔مادے یا غلطی کی تاریخ، اگر اصلی ہے تو، قادرِ مطلق کی روح کو ایک طرف کر دے گی، لیکن یہ حقیقت کے خلاف جھوٹی تاریخ ہے۔
پہلے ریکارڈ کی سائنس دوسرے ریکارڈ کے جھوٹ کو ثابت کرتی ہے۔ اگر ایک حقیقی ہے تو دوسرا جھوٹا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔پہلاریکارڈ ساری طاقت اور حکمرانی خدا کو سونپتا ہے، اور انسان کو خدا کی کاملیت اور قوت سے شبیہ دیتا ہے۔دوسرا ریکارڈ انسان کو قابل تغیر اور لافانی، بطور اپنے دیوتا سے الگ ہوا اور اپنے ہی مدار میں گھومتا ہوا، تحریر کرتا ہے۔وجودیت کو، الوہیت سے الگ، سائنس بطور ناممکن واضح کر تی ہے۔
Genesis ii. 6. But there went up a mist from the earth, and watered the whole face of the ground.
The second chapter of Genesis contains a statement of this material view of God and the universe, a statement which is the exact opposite of scientific truth as before recorded. The history of error or matter, if veritable, would set aside the omnipotence of Spirit; but it is the false history in contradistinction to the true.
The Science of the first record proves the falsity of the second. If one is true, the other is false, for they are antagonistic. The first record assigns all might and government to God, and endows man out of God's perfection and power. The second record chronicles man as mutable and mortal, — as having broken away from Deity and as revolving in an orbit of his own. Existence, separate from divinity, Science explains as impossible.
انسان کے لئے خدا کی واضح مذمتیں جب وہ اْس کی شبیہ، روح کی صورت پر نہیں پایا گیا اِس کی وجہ کو مانتی ہیں اور اِس مادی مخلوق کے جھوٹے ہونے کا اعلان کرنے والے مکاشفہ کے ساتھ اتفاق کرتی ہیں۔
God's glowing denunciations of man when not found in His image, the likeness of Spirit, convince reason and coincide with revelation in declaring this material creation false.
اگرچہ سچائی کے عین مخالف پیش ہوتے ہوئے، جھوٹ سچاہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔مادے کی مخلوقات کْہر یا جھوٹے دعوے یا پْر اسراریت سے پیدا ہوتے ہیں نہ کہ آسمان یا اْس سمجھ سے پیدا ہوتے ہیں جو خدا سچ اور جھوٹ کے مابین کھڑا کرتا ہے۔غلطی میں ہر چیز نیچے سے آتی ہے اوپر سے نہیں۔ سب کچھ روح کے عکس کی بجائے مادی افسانہ ہے۔
Although presenting the exact opposite of Truth, the lie claims to be truth. The creations of matter arise from a mist or false claim, or from mystification, and not from the firmament, or understanding, which God erects between the true and false. In error everything comes from beneath, not from above.
مادے کے ساتھ ہمدرد ہوتے ہوئے دنیاوی انسان غلطی کے آگے پیچھے ہمہ وقت تیار ہوتا ہے اور وہ اِس طرف رجحان رکھے گا۔وہ کسی مسافر کی طرح مغرب میں ایک تفریحی سفر پر جانے والے کی مانند ہوگا۔ یہاں اْس کی صحبت دلکش اور خواہشیں دلچسپ ہوتی ہیں۔چھ دن تک سورج کا پیچھا کرنے کے بعد وہ ساتویں دن مشرق میں واپس آتا ہے، اگر وہ خود کو درست سمت میں جاتا ہوا تصور کرے گا تو وہ بہت مطمین ہوگا۔اِس کے ساتھ ساتھ اپنے اْلٹے پْلٹے راستوں سے شرمندہ ہوکر وہ کسی دانشمندانہ زیارت کے لئے اپنا پاسپورٹ وصول کرے گا، اور اِس کی مدد سے درست راہ کو پانے اور اِس پر چلنے کا سوچے گا۔
Being in sympathy with matter, the worldly man is at the beck and call of error, and will be attracted thitherward. He is like a traveller going westward for a pleasure-trip. The company is alluring and the pleasures exciting. After following the sun for six days, he turns east on the seventh, satisfied if he can only imagine himself drifting in the right direction. By-and-by, ashamed of his zigzag course, he would borrow the passport of some wiser pilgrim, thinking with the aid of this to find and follow the right road.
”اپنی نجات کے لئے کوشش کریں“، یہ زندگی اور محبت کا مطالبہ ہے، کیونکہ یہاں پہنچنے کے لئے خدا آپ کے ساتھ کام کرتا ہے۔ ”قائم رہو جب تک کہ میں نہ آؤں!“ اپنے اجر کا انتظار کریں، اور ”نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں۔“ اگر آپ کی کوششیں خوف و ہراس کی مشکلات میں گھِری ہیں، اور آپ کو موجودہ کوئی اجر نہیں مل رہا، واپس غلطی پر مت جائیں، اور نہ ہی اس دوڑ میں کاہل ہو جائیں۔
جب جنگ کا دھواں چھٹ جاتا ہے، آپ اْس اچھائی کو جان جائیں گے جو آپ نے کی ہے، اور آپ کے حق کے مطابق آپ کو ملے گا۔ خدا ہمیں آزمائش سے نکالنے کے لئے جلد باز نہیں ہے، کیونکہ محبت کا مطلب ہے کہ آپ کو آزمایا اور پاک کیا جائے گا۔
غلطی سے حتمی رہائی، جس کے تحت ہم لافانیت، بے انتہا آزادی، بے گناہ فہم میں شادمان ہوتے پھولوں سے سجی راہوں سے ہو کر نہیں پائے جاتے نہ کسی کے ایمان کے بغیر کسی اور کی متبادل کوشش سے سامنے آتے ہیں۔
"Work out your own salvation," is the demand of Life and Love, for to this end God worketh with you. "Occupy till I come!" Wait for your reward, and "be not weary in well doing." If your endeavors are beset by fearful odds, and you receive no present reward, go not back to error, nor become a sluggard in the race.
When the smoke of battle clears away, you will discern the good you have done, and receive according to your deserving. Love is not hasty to deliver us from temptation, for Love means that we shall be tried and purified.
Final deliverance from error, whereby we rejoice in immortality, boundless freedom, and sinless sense, is not reached through paths of flowers nor by pinning one's faith without works to another's vicarious effort.
غلط کام پر شرمندگی اصلاح کی جانب ایک قدم ہے لیکن بہت آسان قدم ہے۔ عقل کے باعث جوا گلا اور بڑا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے وہ وفاداری کی آزمائش ہے، یعنی اصلاح۔ یہاں تک ہمیں حالات کے دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔ آزمائش ہمیں جرم کو دوہرانے کی دعوت دیتی ہے، اورجو کچھ ہوا ہوتا ہے اس کے عوض غم و الم ملتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ہوگا، جب تک ہم یہ نہیں سیکھتے کہ عدل کے قانون میں کوئی رعایت نہیں ہے اور ہمیں ”کوڑی کوڑی“ ادا کرنا ہوگی۔جس پیمانے سے تم ناپتے ہو ”اسی سے تمہارے لئے ناپا جائے گا“، اور یہ لبریز ہوگا اور ”باہر چھلکے گا۔“
Sorrow for wrong-doing is but one step towards reform and the very easiest step. The next and great step required by wisdom is the test of our sincerity, — namely, reformation. To this end we are placed under the stress of circumstances. Temptation bids us repeat the offence, and woe comes in return for what is done. So it will ever be, till we learn that there is no discount in the law of justice and that we must pay "the uttermost farthing." The measure ye mete "shall be measured to you again," and it will be full "and running over."
تمام انسانی علم اور مادی احساسات جسمانی حواسِ خمسہ سے حاصل کئے جانے چاہئیں۔ اگر اِس علم کا پہلا پھل کھانے سے موت آئی، تو کیا یہ علم محفوظ ہے؟ زیرِ غور کہانی میں پیشن گوئی تھی کہ ”جس روز تْو نے اْس میں سے کھایا تْو مرا“۔ آدم اور اْس کی اولاد پر لعنت کی گئی،نہ کہ برکت دی گئی؛ اور یہ اشارہ کرتا ہے کہ الٰہی روح، یا باپ، مادی انسان کی مذمت کرتا ہے اور اسے خاک میں ملا دیتا ہے۔
All human knowledge and material sense must be gained from the five corporeal senses. Is this knowledge safe, when eating its first fruits brought death? "In the day that thou eatest thereof thou shalt surely die," was the prediction in the story under consideration. Adam and his progeny were cursed, not blessed; and this indicates that the divine Spirit, or Father, condemns material man and remands him to dust.
کوئی بھی شخص جو خدا کے خیال اور بیچاری انسانیت کے مابین عدم مطابقت کو سمجھنے کے قابل ہے، اْسے خدا کے انسان، جو اْس کی صورت پر بنایا گیا ہے، اور آدم کی گناہ کرنے والی نسل کے مابین امتیاز کو(جو کرسچن سائنس نے کیا) سمجھنے کے قابل ہونا چاہئے۔
پولوس کہتا ہے ”کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کچھ سمجھے اور کچھ بھی نہ ہو تو اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔“ یہ دوسرا ریکارڈ بے تکلفی کے ساتھ اْس کی اْن ٹھوس اشکال میں غلطی کی تاریخ بیان کرتا ہے جنہیں مادے میں ذہانت اور زندگی کہا جاتا ہے۔یہ الٰہی روح کی بالادستی کے مخالف، شرک کو بیان کرتا ہے؛ مگر اِس صورت حال کوعارضی اور انسان کو فانی واضح کیا گیا ہے۔
”خدا کے تصور کی تعلیم دینا، یا اِس سے بیماری کا علاج کرنا“، یہ کرسچن سائنس کا مقصد نہیں ہے، جیسا کہ ایک نقاد نے الزام لگایا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ایسی تنقید انسان اور آدم میں الجھاؤ پیدا کرتی ہے۔ انسان سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خدا کی صورت پر خلق کیا گیا ہے، تو یہ ایک گناہ آلودہ اور بیمار فانی انسان نہیں ہے بلکہ ایک مثالی انسان ہے جو خدا کی صورت کی عکاسی کرتا ہے، جس کا حوالہ دیا جا رہا ہوتا ہے۔
Anybody, who is able to perceive the incongruity between God's idea and poor humanity, ought to be able to discern the distinction (made by Christian Science) between God's man, made in His image, and the sinning race of Adam.
The apostle says: "For if a man think himself to be something, when he is nothing, he deceiveth himself." This thought of human, material nothingness, which Science inculcates, enrages the carnal mind and is the main cause of the carnal mind's antagonism.
It is not the purpose of Christian Science to "educate the idea of God, or treat it for disease," as is alleged by one critic. I regret that such criticism confounds man with Adam. When man is spoken of as made in God's image, it is not sinful and sickly mortal man who is referred to, but the ideal man, reflecting God's likeness.
آدم وہ مثالی انسان نہیں تھا جس کے لئے زمین کو برکت دی گئی تھی۔مثالی انسان اپنے وقت پر ظاہر کیا گیا، اور اْسے بطور یسوع مسیح جانا جاتا تھا۔
Adam was not the ideal man for whom the earth was blessed. The ideal man was revealed in due time, and was known as Christ Jesus.
خدا کے لوگوں سے متعلق، نہ کہ انسان کے بچوں سے متعلق، بات کرتے ہوئے یسوع نے کہا، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے؛“ یعنی سچائی اور محبت حقیقی انسان پر سلطنت کرتی ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ انسان خدا کی صورت پر بے گناہ اور ابدی ہے۔ یسوع نے سائنس میں کامل آدمی کو دیکھا جو اْس پر وہاں ظاہر ہوا جہاں گناہ کرنے والا فانی انسان لافانی پر ظاہر ہوا۔ اس کامل شخص میں نجات دہندہ نے خدا کی اپنی شبیہ اور صورت کو دیکھا اور انسان کے اس درست نظریے نے بیمار کو شفا بخشی۔ لہٰذہ یسوع نے تعلیم دی کہ خدا برقرار اور عالمگیر ہے اور یہ کہ انسان پاک اور مقدس ہے۔
When speaking of God's children, not the children of men, Jesus said, "The kingdom of God is within you;" that is, Truth and Love reign in the real man, showing that man in God's image is unfallen and eternal. Jesus beheld in Science the perfect man, who appeared to him where sinning mortal man appears to mortals. In this perfect man the Saviour saw God's own likeness, and this correct view of man healed the sick. Thus Jesus taught that the kingdom of God is intact, universal, and that man is pure and holy.
مادیت کے روحانی مخالف کی فراست کے وسیلہ، حتیٰ کہ مسیح، سچائی کے وسیلہ، انسان بہشت کے دروازوں کو الٰہی سائنس کی چابیوں سے دوبارہ کھولے گا جن سے متعلق انسان سمجھتا ہے کہ وہ بند ہو چکے ہیں، اور خود کو بے گناہ، راست، پاک اور آزاد پائے گا۔
Through discernment of the spiritual opposite of materiality, even the way through Christ, Truth, man will reopen with the key of divine Science the gates of Paradise which human beliefs have closed, and will find himself unfallen, upright, pure, and free,
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔