اتوار یکم ستمبر، 2019



مضمون۔ مسیح یسوع

SubjectChrist Jesus

سنہری متن:سنہری متن: مکاشفہ 22باب16آیت

’’مجھ یسوع نے اپنا فرشتہ اس لئے بھیجا کہ کلیسیاؤں کے بارے میں تمہارے آگے ان باتوں کی گواہی دے۔ میں داؤد کی اصل و نسل اور صبح کا چمکتا ہوا ستارہ ہوں۔‘‘



Golden Text: Revelation 22 : 16

I Jesus have sent mine angel to testify unto you these things in the churches. I am the root and the offspring of David, and the bright and morning star.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: افسیوں 2باب4تا10آیات


4۔ مگر خدا نے اپنے رحم کی دولت سے اْس بڑی محبت کے سبب سے جو اْس نے ہم سے کی۔

5۔ جب قصوروں کے سبب سے مردہ ہی تھے تو ہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کیا۔(تم کو فضل ہی سے نجات ملی ہے)۔

6۔ اور مسیح یسوع میں شامل کر کے اْس کے ساتھ جلایا اور آسمانی مقاموں میں اْس کے ساتھ بٹھایا۔

7۔ تاکہ وہ اپنی اْس مہربانی سے جو مسیح یسوع میں ہم پر ہے آنے والے زمانوں میں اپنے فضل کی بے نہایت دولت دکھائے۔

8۔ کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں۔ خدا کی بخشش ہے۔

9۔ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔

10۔ کیونکہ ہم اْسی کی کاریگری ہیں اور مسیح یسوع میں اْن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوئے جن کو خدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کے لئے تیار کیا تھا۔

Responsive Reading: Ephesians 2 : 4-10

4.     God, who is rich in mercy, for his great love wherewith he loved us,

5.     Even when we were dead in sins, hath quickened us together with Christ, (by grace ye are saved;)

6.     And hath raised us up together, and made us sit together in heavenly places in Christ Jesus:

7.     That in the ages to come he might shew the exceeding riches of his grace in his kindness toward us through Christ Jesus.

8.     For by grace are ye saved through faith; and that not of yourselves: it is the gift of God:

9.     Not of works, lest any man should boast.

10.     For we are his workmanship, created in Christ Jesus unto good works, which God hath before ordained that we should walk in them.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ یسعیاہ 11باب1تا4آیات

1۔ اور یسی کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اْس کی جڑوں سے ایک بار آور شاخ پیدا ہوگی۔

2۔ اور خداوند کی روح اْس پر ٹھہرے گی۔ حکمت اور خرد کی روح، مصلحت اور قدرت کی روح، معرفت اور خداوند کے خوف کی روح۔

3۔ اور اْس کی شادمانی خداوند کے خوف میں ہوگی اور وہ نہ اپنی آنکھوں کے دیکھنے کے مطابق انصاف کرے گا اور نہ اپنے کانوں کے سننے کے مطابق فیصلہ کرے گا۔

4۔ بلکہ وہ راستی سے مسکینوں کا انصاف کرے گا اور عدل سے زمین کے خاکساروں کا فیصلہ کرے گا اور اپنی زبان کے عصا سے زمین کو مارے گا اور اپنے لبوں کے دم سے شریروں کو فنا کر ڈالے گا۔

1. Isaiah 11 : 1-4

1     And there shall come forth a rod out of the stem of Jesse, and a Branch shall grow out of his roots:

2     And the spirit of the Lord shall rest upon him, the spirit of wisdom and understanding, the spirit of counsel and might, the spirit of knowledge and of the fear of the Lord;

3     And shall make him of quick understanding in the fear of the Lord: and he shall not judge after the sight of his eyes, neither reprove after the hearing of his ears:

4     But with righteousness shall he judge the poor, and reprove with equity for the meek of the earth: and he shall smite the earth with the rod of his mouth, and with the breath of his lips shall he slay the wicked.

2۔ یوحنا 10باب23(یسوع) تا33، 36 تا 39 آیات

23۔ اور یسوع ہیکل کے اندر سلیمانی برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔

24۔ پس یہودیوں نے اْس کے گرد جمع ہو کر اْس سے کہا تْو کب تک ہمارے دلوں کو ڈانواں ڈول رکھے گا؟ اگر تْو مسیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔

25۔ یسوع نے اْن سے کہا میں نے تو تم سے کہہ دیا مگر تم یقین نہیں کرتے۔ جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں۔

26۔ لیکن تم اس لئے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو۔

27۔ میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔

28۔ اور میں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔

29۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا۔

30۔ میں اور باپ ایک ہیں۔

31۔ یہودیوں نے اْسے سنگسار کرنے کے لئے پھر پتھر اٹھائے۔

32۔ یسوع نے اْنہیں جواب دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائے ہیں۔ اْن میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو؟

33۔ یہودیوں نے اْسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اس لئے کہ تْو آدمی ہو کر خود کو خدا بناتا ہے۔

34۔ یسوع نے انہیں جواب دیا کہ تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ مَیں نے کہا کہ تم خدا ہو؟

35۔ جبکہ اْس نے اْنہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا (اور کتاب مقدس کا باطل ہونا ممکن نہیں)۔

36۔ آیا تم اْس شخص سے جسے باپ نے مقدس کر کے دنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ تْو کفر بکتا ہے اس لئے کہ مَیں نے کہا مَیں خدا کا بیٹا ہوں؟

37۔ اگر مَیں اپنے باپ کے کام نہیں کرتا تو میرا یقین نہ کرو۔

38۔ لیکن اگر میں کرتا ہوں تو گو میرا یقین نہ کرو مگر اْن کاموں کا تو یقین کرو تاکہ تم جانو اور سمجھو کہ باپ مجھ میں ہے اور مَیں باپ میں۔

39۔ انہوں نے پھر اْسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اْن کے ہاتھ سے نکل گیا۔

2. John 10 : 23 (Jesus)-33, 36-39

23     Jesus walked in the temple in Solomon’s porch.

24     Then came the Jews round about him, and said unto him, How long dost thou make us to doubt? If thou be the Christ, tell us plainly.

25     Jesus answered them, I told you, and ye believed not: the works that I do in my Father’s name, they bear witness of me.

26     But ye believe not, because ye are not of my sheep, as I said unto you.

27     My sheep hear my voice, and I know them, and they follow me:

28     And I give unto them eternal life; and they shall never perish, neither shall any man pluck them out of my hand.

29     My Father, which gave them me, is greater than all; and no man is able to pluck them out of my Father’s hand.

30     I and my Father are one.

31     Then the Jews took up stones again to stone him.

32     Jesus answered them, Many good works have I shewed you from my Father; for which of those works do ye stone me?

33     The Jews answered him, saying, For a good work we stone thee not; but for blasphemy; and because that thou, being a man, makest thyself God.

36     Say ye of him, whom the Father hath sanctified, and sent into the world, Thou blasphemest; because I said, I am the Son of God?

37     If I do not the works of my Father, believe me not.

38     But if I do, though ye believe not me, believe the works: that ye may know, and believe, that the Father is in me, and I in him.

39     Therefore they sought again to take him: but he escaped out of their hand,

3۔ یوحنا 8باب31(یسوع سے)، 37(تا؛)، 40، 44، 56 تا59 آیات

31۔ پھر یسوع نے کہا

37۔ میں جانتا ہوں کہ تم ابراہیم کی نسل سے ہو۔

40۔لیکن اب تم مجھ جیسے شخص کے قتل کی کوشش میں ہو جس نے تم کو وہی حق بات بتائی جو خدا سے سنی۔ ابراہیم نے تو یہ نہیں کیا تھا۔

44۔تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔ وہ شروع ہی سے خونی ہے اور سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اْس میں سچائی ہے ہی نہیں۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے۔

56۔تمہارا باپ ابراہیم میرا دن دیکھنے کی امید سے بہت خوش تھا چنانچہ اْس نے دیکھا اور خوش ہوا۔

57۔یہودیوں نے اْس سے کہا تیری عمر تو ابھی پچاس برس کی نہیں پھر کیا تْو نے ابراہیم کو دیکھا ہے؟

58۔یسوع نے اْن سے کہامیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ پیشتر اْس سے کہ ابراہیم پیدا ہوا مَیں ہوں۔

59۔پس انہوں نے اْسے مارنے کو پتھر اٹھائے مگر یسوع چھْپ کر ہیکل سے نکل گیا۔

3. John 8 : 31 (to Jesus), 37 (to ;), 40, 44, 56-59

31     Then said Jesus

37     I know that ye are Abraham’s seed;

40     But now ye seek to kill me, a man that hath told you the truth, which I have heard of God: this did not Abraham.

44     Ye are of your father the devil, and the lusts of your father ye will do. He was a murderer from the beginning, and abode not in the truth, because there is no truth in him. When he speaketh a lie, he speaketh of his own: for he is a liar, and the father of it.

56     Your father Abraham rejoiced to see my day: and he saw it, and was glad.

57     Then said the Jews unto him, Thou art not yet fifty years old, and hast thou seen Abraham?

58     Jesus said unto them, Verily, verily, I say unto you, Before Abraham was, I am.

59     Then took they up stones to cast at him: but Jesus hid himself, and went out of the temple, going through the midst of them, and so passed by.

4۔ لوقا 14باب25تا33 آیات

25۔ جب بہت سے لوگ اُس کے ساتھ جا رہے تھے تو اُس نے پھر کر اُن سے کہا۔

26۔ اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بیوی اور بچوں اور بھائیوں اور بہنوں بلکہ اپنی جان سے بھی دشمنی نہ کرے تو میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔

27۔ جو کوئی اپنی صلیب اٹھا کر میرے پیچھے نہ آئے وہ میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔

28۔ کیونکہ تم میں سے ایسا کون ہے کہ جب وہ ایک برج بنانا چاہے تو پہلے بیٹھ کر لاگت کا حساب نہ کرلے کہ آیا میرے پاس اسے تیار کرنے کا سامان ہے یا نہیں؟

29۔ ایسا نہ ہو کہ جب نیو ڈال کر تیار نہ کر سکے تو سب دیکھنے والے یہ کہہ کر اُس پر ہنسنا شروع کریں کہ۔

30۔ اس شخص نے عمارت شروع تو کی مگر تکمیل نہ کرسکا۔

31۔ یا کون ایسا بادشاہ ہے جو دوسرے بادشاہ سے لڑنے جاتا ہو اور پہلے بیٹھ کر مشورہ نہ کرلے کہ آیا میں دس ہزار سے اُس کا مقابلہ کر سکتا ہوں یا نہیں جو بیس ہزار لے کر مجھ پر چڑھا آتا ہے

32۔ نہیں تو جب وہ ہنوز دور ہی ہے ایلچی بھیج کر شرائط صلح کی درخواست کرے گا۔

33۔ پس اسی طرح تم میں سے جو کوئی اپنا سب کچھ ترک نہ کرے وہ میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔

4. Luke 14 : 25-33

25     And there went great multitudes with him: and he turned, and said unto them,

26     If any man come to me, and hate not his father, and mother, and wife, and children, and brethren, and sisters, yea, and his own life also, he cannot be my disciple.

27     And whosoever doth not bear his cross, and come after me, cannot be my disciple.

28     For which of you, intending to build a tower, sitteth not down first, and counteth the cost, whether he have sufficient to finish it?

29     Lest haply, after he hath laid the foundation, and is not able to finish it, all that behold it begin to mock him,

30     Saying, This man began to build, and was not able to finish.

31     Or what king, going to make war against another king, sitteth not down first, and consulteth whether he be able with ten thousand to meet him that cometh against him with twenty thousand?

32     Or else, while the other is yet a great way off, he sendeth an ambassage, and desireth conditions of peace.

33     So likewise, whosoever he be of you that forsaketh not all that he hath, he cannot be my disciple.

5۔ لوقا 4باب33تا36آیات

33۔ اور عبادت خانہ میں ایک آدمی تھا جس میں ناپاک دیو کی روح تھی وہ بڑی آواز سے چِلا اٹھا کہ

34۔ اے یسوع ناصری ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تْو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ مَیں تجھے جانتا ہو ں کہ تْو کون ہے۔ خدا کا قدوس ہے۔

35۔ یسوع نے اْسے جھڑک کر کہا چْپ رہ اور اْس میں سے نکل جا۔ اس پر بد روح اْسے بیچ میں پٹک کر بغیر ضرر پہنچائے اْس میں سے نکل گئی۔

36۔ اور سب حیران ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ یہ کیسا کلام ہے؟ کیونکہ وہ اختیار اور قدرت سے ناپاک روحوں کو حکم دیتا ہے اور وہ نکل جاتی ہیں۔

5. Luke 4 : 33-36

33     And in the synagogue there was a man, which had a spirit of an unclean devil, and cried out with a loud voice,

34     Saying, Let us alone; what have we to do with thee, thou Jesus of Nazareth? art thou come to destroy us? I know thee who thou art; the Holy One of God.

35     And Jesus rebuked him, saying, Hold thy peace, and come out of him. And when the devil had thrown him in the midst, he came out of him, and hurt him not.

36     And they were all amazed, and spake among themselves, saying, What a word is this! for with authority and power he commandeth the unclean spirits, and they come out.

6۔ عبرانیوں 4باب12آیات

12۔ کیونکہ خدا کا کلام زندہ اور موثر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جان اور روح اور بند بند اور گْودے کو جْدا کر کے گزر جاتا ہے اور دل کے خیالوں اور ارادوں کو جانچتا ہے۔

6. Hebrews 4 : 12

12     For the word of God is quick, and powerful, and sharper than any twoedged sword, piercing even to the dividing asunder of soul and spirit, and of the joints and marrow, and is a discerner of the thoughts and intents of the heart.



سائنس اور صح


1۔ 583 :10۔11

مسیح۔ خدا کا الٰہی اظہار، جو مجسم غلطی کو نیست کرنے کے لئے بدن کی صورت میں آتا ہے۔

1. 583 : 10-11

Christ. The divine manifestation of God, which comes to the flesh to destroy incarnate error.

2۔ 333 :16 (دی)۔31

یسوع ناصری کی آمد مسیحی دور کی پہلی صدی کا احاطہ کرتی ہے، لیکن مسیح ابتدائی برسوں یا آخری ایام کی قید سے مبرا ہے۔ مسیحی دورسے پیشتر اور بعد ازاں نسل در نسل مسیح بطور روحانی خیال، بطور خدا کے سایہ، اْن لوگوں کے لئے کچھ خاص طاقت اور فضل کے ساتھ آیا جو مسیح، یعنی سچائی کو حاصل کرنے کے لئے تیار تھے۔ ابراہیم، یعقوب، موسیٰ اور انبیاء نے مسیحا یا مسیح کی جلالی جھلکیاں پائی تھیں، جس نے ان دیکھنے والوں کو الٰہی فطرت، محبت کے جوہر میں بپتسمہ دیا تھا۔ الٰہی شبیہ، خیال یا مسیح الٰہی اصول یعنی خدا سے غیر منفِک تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یسوع نے اپنی روحانی شناخت کے اس اتحاد کو یوں بیان کیا: ”پیشتر اِس سے کہ ابراہیم پیدا ہوا، میں ہوں“؛ ”مَیں اور باپ ایک ہیں؛“ ”باپ مجھ سے بڑا ہے۔“ ایک روح میں ساری شناختیں پائی جاتی ہیں۔

2. 333 : 16 (The)-31

The advent of Jesus of Nazareth marked the first century of the Christian era, but the Christ is without beginning of years or end of days. Throughout all generations both before and after the Christian era, the Christ, as the spiritual idea, — the reflection of God, — has come with some measure of power and grace to all prepared to receive Christ, Truth. Abraham, Jacob, Moses, and the prophets caught glorious glimpses of the Messiah, or Christ, which baptized these seers in the divine nature, the essence of Love. The divine image, idea, or Christ was, is, and ever will be inseparable from the divine Principle, God. Jesus referred to this unity of his spiritual identity thus: “Before Abraham was, I am;” “I and my Father are one;” “My Father is greater than I.” The one Spirit includes all identities.

3۔ 334 :10(دی)۔20

مخفی مسیح نام نہاد ذاتی حواس کے لئے ناقابل ادراک تھا، جبکہ یسوع جسمانی وجودیت میں ظاہر ہوا تھا۔ دیدہ اور نادیدہ خواص والی، روحانی اور مادی یہ دوہری شخصیت، ابدی مسیح اور جسمانی یسوع بدن میں ظاہر ہوا، مالک کے اوپر اٹھائے جانے تک یہ جاری رہا، جب تک کہ انسانی، مادی نظریہ یا یسوع غائب نہیں ہو گیا، جبکہ روحانی خودی، یا مسیح،دنیا کے گناہوں کو اٹھائے ہوئے،الٰہی سائنس کی ابدی ترتیب میں موجود رہنا جاری رہاجیسا کہ مسیح نے ہمیشہ ہی کیا، حتیٰ کہ فانی آنکھوں کے لئے انسانی یسوع کے مجسم ہونے سے بھی قبل۔

3. 334 : 10 (The)-20

The invisible Christ was imperceptible to the so-called personal senses, whereas Jesus appeared as a bodily existence. This dual personality of the unseen and the seen, the spiritual and material, the eternal Christ and the corporeal Jesus manifest in flesh, continued until the Master’s ascension, when the human, material concept, or Jesus, disappeared, while the spiritual self, or Christ, continues to exist in the eternal order of divine Science, taking away the sins of the world, as the Christ has always done, even before the human Jesus was incarnate to mortal eyes.

4۔ 315 :29۔11

انسانی شبیہ اپناتے ہوئے (یعنی جیسا کہ فانی نظر کو دکھائی دیتا ہے)، انسانی ماں کے پیٹ میں حمل لیتے ہوئے، یسوع روح اور جسم کے مابین، سچائی اور غلطی کے مابین درمیانی تھا۔ الٰہی سائنس کی راہ کو واضح کرتے اور ظاہر کرتے ہوئے، وہ اْن سب کے لئے نجات کی راہ بن گیا جنہوں نے اْس کے کلام کو قبول کیا۔ بشر اْس سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ بدی سے کیسے بچا جائے۔ حقیقی انسان کا سائنس کی بدولت اپنے خالق سے تعلق استوار کرتے ہوئے، بشر کو صرف گناہ سے دور ہونے اور مسیح، یعنی حقیقی انسان اور خدا کے ساتھ اْس کے تعلق کو پانے اور الٰہی فرزندگی کو پہچاننے کے لئے فانی خودی سے نظر ہٹانے کی ضرورت ہے۔ مسیح یعنی سچائی یسوع کے وسیلہ ظاہر ہوئی، بدن پر روح کی طاقت کو ثابت کرنے کے لئے اور یہ دکھانے کے لئے کہ سچائی بیمار کی کو شفا دیتے اور گناہ کو تباہ کرتے ہوئے انسانی عقل اور بدن پر اس کے اثرات کی بدولت ظاہر ہوتی ہے۔

4. 315 : 29-11

Wearing in part a human form (that is, as it seemed to mortal view), being conceived by a human mother, Jesus was the mediator between Spirit and the flesh, between Truth and error. Explaining and demonstrating the way of divine Science, he became the way of salvation to all who accepted his word. From him mortals may learn how to escape from evil. The real man being linked by Science to his Maker, mortals need only turn from sin and lose sight of mortal

selfhood to find Christ, the real man and his relation to God, and to recognize the divine sonship. Christ, Truth, was demonstrated through Jesus to prove the power of Spirit over the flesh, — to show that Truth is made manifest by its effects upon the human mind and body, healing sickness and destroying sin.

5۔ 6 :23۔6

یسوع نے گناہ کو باہر نکالنے سے پہلے اسے ایاں کیا اور ملامت کیا۔ ایک بیمار عورت کو اْس نے کہا کہ شیطان نے اْسے جکڑ رکھا تھا اور پطرس سے اْس نے کہا، ”تْو میرے لئے ٹھوکرکا باعث ہے۔“ وہ آدمیوں کو تعلیم دینے اور یہ دکھانے آیا کہ گناہ، بیماری اور موت کو کیسے فنا کیا جائے۔ اْس نے ایک بے پھل درخت سے کہا، ”]یہ[ کاٹا جاتا ہے۔“

کئی لوگ یہ مانتے ہیں کہ ایک عدالت کا حاکم جو یسوع کے زمانے میں رہتا تھا اْس نے یہ بیان دیا تھا:

”اْس کی ملامت خوفناک ہے۔“ ہمارے مالک کی سخت زبان اس بیان کی تصدیق کرتی ہے۔

غلطی کے لئے جو واحد سزائے موت اْس نے دی وہ تھی، ”اے شیطان، میرے سامنے سے دور ہو۔“اس بات کی مزید تصدیق کہ یسوع کی سرزنش بہت نوکیلی اور چْبھنے والی تھی اْس کے اپنے الفاظ میں پائی جاتی ہے، اس قدر شدید بیان کو ضروری ثابت کرتے ہوئے، جب اْس نے بدروحوں کو نکالا اور بیمار اور گناہگار کو شفا دی۔

5. 6 : 23-6

Jesus uncovered and rebuked sin before he cast it out. Of a sick woman he said that Satan had bound her, and to Peter he said, “Thou art an offence unto me.” He came teaching and showing men how to destroy sin, sickness, and death. He said of the fruitless tree, “[It] is hewn down.”

It is believed by many that a certain magistrate, who lived in the time of Jesus, left this record: “His rebuke is fearful.” The strong language of our Master confirms this description.

The only civil sentence which he had for error was, “Get thee behind me, Satan.” Still stronger evidence that Jesus’ reproof was pointed and pungent is found in his own words, — showing the necessity for such forcible utterance, when he cast out devils and healed the sick and sinning.

6۔ 230 :1۔10

اگر بیماری حقیقی ہے،تو یہ لافانیت سے تعلق رکھتی ہے؛ اگر سچی ہے تو یہ سچائی سے تعلق رکھتی ہے۔ کیا آپ منشیات کے ساتھ یا بِنا سچائی کے معیار یا حالت کو نیست کرنے کی کوشش کر یں گے؟لیکن اگر بیماری یا گناہ فریب نظری ہیں، تو اس فانی خواب یا دھوکے سے بیدار ہونا ہمارے لئے صحت، پاکیزگی اور لافانیت پیدا کرے گا۔یہ بیداری مسیح کی ہمیشہ کے لئے آمد ہے، یعنی سچائی کا ترقی یافتہ ظہور، جو غلطی کو دور کرتا اور بیمار کو شفا دیتا ہے۔یہ وہ نجات ہے جو خدا، الٰہی اصول، محبت کی جانب سے آتی ہے، جس کا اظہار یسوع نے کیا۔

6. 230 : 1-10

If sickness is real, it belongs to immortality; if true, it is a part of Truth. Would you attempt with drugs, or without, to destroy a quality or condition of Truth? But if sickness and sin are illusions, the awakening from this mortal dream, or illusion, will bring us into health, holiness, and immortality. This awakening is the forever coming of Christ, the advanced appearing of Truth, which casts out error and heals the sick. This is the salvation which comes through God, the divine Principle, Love, as demonstrated by Jesus.

7۔ 41 :28۔32

یسوع نے جس سچائی کی تعلیم دی بزرگوں نے اْس کا تمسخر اڑایا۔ کیوں؟ کیونکہ اِس کے لئے اس سے زیادہ ضرورت تھی جتنی وہ مشق کرنے کے خواہشمند تھے۔ اپنے قومی دیوتا پر ایمان رکھنا اْن کے لئے کافی تھا، لیکن اْ ن کے دور سے ہمارے دور تک، اْس ایمان نے کبھی کسی ایسے شاگرد کو جنم نہیں دیا جو بدروح کو نکال سکے اور بیمار کو شفا دے سکے۔

7. 41 : 28-32

The truth taught by Jesus, the elders scoffed at. Why? Because it demanded more than they were willing to practise. It was enough for them to believe in a national Deity; but that belief, from their time to ours, has never made a disciple who could cast out evils and heal the sick.

8۔ 141 :4۔9

زندگی گزارنے اور شفا دینے کے لئے یسوع کے الٰہی احکامات کو چند لوگ ہی سمجھتے اور اْن پر عمل کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اْس کے احکامات شاگردوں سے اپنا داہنا ہاتھ کاٹنے اور دائیں آنکھ نکال پھینکنے کی مانگ کرتے ہیں، یعنی مسیح کے لئے سب کچھ قربان کرتے ہوئے حتیٰ کہ اپنے سب سے مقدم عقائد اور مشقوں کو بھی ترک کرنے کی مانگ کرتے ہیں۔

8. 141 : 4-9

Few understand or adhere to Jesus’ divine precepts for living and healing. Why? Because his precepts require the disciple to cut off the right hand and pluck out the right eye, — that is, to set aside even the most cherished beliefs and practices, to leave all for Christ.

9۔ 26 :1۔11(تا؛)،16۔18

جب ہم یسوع کی تمجید کرتے ہیں، اور جو کچھ اْس نے بشر کے لئے کیا ہے اْس کے باعث ہمارا دل شکر سے بھر جاتا ہے، جلال کے تخت پر اْس کے شفیق راستے پر اکیلے پاؤں رکھتے ہوئے، ہمارے لئے ناقابل بیان اذیت میں راہ ہموار کرتے ہوئے، یسوع ہمارے لئے صرف ایک انفرادی تجربہ محفوظ نہیں رکھتا، اگر ہم وفاداری کے ساتھ اْس کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں، اور سب غمگین جدوجہد کا پیالہ لیتے ہیں تاکہ اْس کے ساتھ اپنی محبت کے اظہار کے تناسب میں پئیں، جب تک کہ سب الٰہی محبت کے وسیلہ نجات نہ پا لیں۔

مسیح روح تھا جس کا ذکر یسوع نے اپنے ان بیانات میں کیا: ”راہ، حق اور زندگی میں ہوں؛“۔۔۔ اْس کا مقصد آسمانی ہستی کی سائنس کو ظاہر کرنا تھا تاکہ اِسے ثابت کرے جو خدا ہے اور جو وہ انسان کے لئے کرتا ہے۔

9. 26 : 1-11 (to ;), 16-18

While we adore Jesus, and the heart overflows with gratitude for what he did for mortals, — treading alone his loving pathway up to the throne of glory, in speechless agony exploring the way for us, — yet Jesus spares us not one individual experience, if we follow his commands faithfully; and all have the cup of sorrowful effort to drink in proportion to their demonstration of his love, till all are redeemed through divine Love.

The Christ was the Spirit which Jesus implied in his own statements: “I am the way, the truth, and the life;” … His mission was to reveal the Science of celestial being, to prove what God is and what He does for man.

10۔ 55 :15۔26

سچائی کا لافانی نظریہ،اپنے پروں تلے بیماروں اور گناہگاروں کو یکجا کرتے ہوئے،صدیوں کا احاطہ کررہا ہے۔میری خستہ حال امید اْس خوشی کے دن کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے، جب انسان مسیح کی سائنس کو سمجھے گا اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھے گا، جب وہ یہ جانے گا کہ خدا قادر مطلق ہے اور جو کچھ اْس نے انسان کے لئے کیا ہے اور کر رہا ہے اْس میں الٰہی محبت کی شفائیہ طاقت کو جانے گا۔ وعدے پورے کئے جائیں گے۔ الٰہی شفا کے دوبارہ ظاہر ہونے کا وقت ہمہ وقت ہوتا ہے؛ اور جو کوئی بھی اپنازمینی سب کچھ الٰہی سائنس کی الطار پر رکھتا ہے، وہ اب مسیح کے پیالے میں سے پیتا ہے، اور وہ روح اور مسیحی شفا کی طاقت سے ملبوس ہوتا ہے۔

10. 55 : 15-26

Truth’s immortal idea is sweeping down the centuries, gathering beneath its wings the sick and sinning. My weary hope tries to realize that happy day, when man shall recognize the Science of Christ and love his neighbor as himself, — when he shall realize God’s omnipotence and the healing power of the divine Love in what it has done and is doing for mankind. The promises will be fulfilled. The time for the reappearing of the divine healing is throughout all time; and whosoever layeth his earthly all on the altar of divine Science, drinketh of Christ’s cup now, and is endued with the spirit and power of Christian healing.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████