اتوار 30 مارچ، 2025



مضمون۔ حقیقت

SubjectReality

سنہری متن: زبور 34: 15 آیت

خداوند کی نگاہ صادقوں پر ہے اور اْس کے کان اْن کی فریاد پر لگے رہتے ہیں۔“



Golden Text: Psalm 34 : 15

The eyes of the Lord are upon the righteous, and his ears are open unto their cry.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: عبرانیوں 3 باب1، 3، 4، 6، 7، 12 تا14 آیات


1۔ پس اے بھائیو! تم جو آسمانی بلاوے میں شریک ہو۔ اْس رسول اور سردار کاہن یسوع پر غور کرو جس کا ہم اقرار کرتے ہیں۔

3۔ کیونکہ وہ موسیٰ سے اِس قدر زیادہ عزت کے لائق سمجھا گیا جس طرح گھر کا بنانے والا گھر سے زیادہ عزت دار ہوتا ہے۔

4۔ چنانچہ ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خدا ہے۔

6۔ مگر مسیح بیٹے کی طرح اْس کے گھر کا مختار ہے اور اْس کا گھر ہم ہیں بشرطیکہ اپنی دلیری اور امید کا فخر آخر تک مضبوطی سے قائم رکھیں۔

7۔ پس جس طرح کہ روح القدس فرماتا ہے اگر آج تم اْس کی آواز سنو۔

12۔ اے بھائیو! خبردار! تم میں سے کسی کا ایسا برا اور بے ایمان دل نہ ہو جو زندہ خدا سے پھرے۔

13۔ بلکہ جس روز تک آج کا دن کہا جاتا ہے ہر روز آپس میں نصیحت کیا کرو تاکہ تم میں سے کوئی گناہ کے فریب میں آکر سخت دل نہ ہو جائے۔

14۔ کیونکہ ہم مسیح میں شریک ہوئے ہیں بشرطیکہ اپنے ابتدائی بھروسے پر آخر تک مضبوطی سے قائم رہیں۔

Responsive Reading: Hebrews 3 : 1, 3, 4, 6, 7, 12-14

1.     Wherefore, holy brethren, partakers of the heavenly calling, consider the Apostle and High Priest of our profession, Christ Jesus.

3.     For this man was counted worthy of more glory than Moses, inasmuch as he who hath builded the house hath more honour than the house.

4.     For every house is builded by some man; but he that built all things is God.

6.     But Christ as a son over his own house; whose house are we, if we hold fast the confidence and the rejoicing of the hope firm unto the end.

7.     Wherefore (as the Holy Ghost saith, To-day if ye will hear his voice,)

12.     Take heed, brethren, lest there be in any of you an evil heart of unbelief, in departing from the living God.

13.     But exhort one another daily, while it is called To-day; lest any of you be hardened through the deceitfulness of sin.

14.     For we are made partakers of Christ, if we hold the beginning of our confidence stedfast unto the end.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ 1 سیموئیل 16 باب 7 (کیونکہ) آیت

7۔۔۔۔ کیونکہ خداوند انسان کی مانند نظر نہیں کرتا کہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر خداوند دل پر نظر کرتا ہے۔

1. I Samuel 16 : 7 (for the)

7     …for the Lord seeth not as man seeth; for man looketh on the outward appearance, but the Lord looketh on the heart.

2 . ۔ متی 11 باب2تا6، 15 آیات

2۔ اور یوحنا نے قید خانہ میں مسیح کے کاموں کا حال سن کر اپنے دو شاگردوں کی معرفت اْس سے پْچھوا بھیجا۔

3۔ کہ آنے والا تْو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟

4۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا کہ جو کچھ تم سنتے اور دیکھتے ہو جا کر یوحنا سے بیان کرو۔

5۔ کہ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتے پھرتے ہیں۔ کوڑھی پاک صاف کئے جاتے اور بہرے سنتے اور مردے زندہ کئے جاتے ہیں اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے۔

6۔ اور مبارک ہے وہ جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔

15۔ جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لے۔

2. Matthew 11 : 2-6, 15

2     Now when John had heard in the prison the works of Christ, he sent two of his disciples,

3     And said unto him, Art thou he that should come, or do we look for another?

4     Jesus answered and said unto them, Go and shew John again those things which ye do hear and see:

5     The blind receive their sight, and the lame walk, the lepers are cleansed, and the deaf hear, the dead are raised up, and the poor have the gospel preached to them.

6     And blessed is he, whosoever shall not be offended in me.

15     He that hath ears to hear, let him hear.

3 . ۔ یوحنا 4 باب3، 4، 7 (تا:)، 21تا26، 28تا30 آیات

3۔تو وہ یہودیہ کو چھوڑ کر پھر گلیل کو چلا گیا۔

4۔اور اُس کو سامریہ سے ہو کر جاناضرور تھا۔

7۔ سامریہ کی ایک عورت پانی بھرنے آئی۔ یسوع نے اُس سے کہا مجھے پانی پلا۔

21۔ یسوع نے اُس سے کہا اے عورت! میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یروشلم میں۔

22۔ہم جسے جانتے ہیں اُس کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔

23۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔

24۔ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستارروح اور سچائی سے پرستش کریں۔

25۔عورت نے اُس سے کہا میں جانتی ہوں کہ مسیح جو خرستُس کہلاتا ہے آنے والا ہے۔ جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتادے گا۔

26۔ یسوع نے اُس سے کہا میں جو تجھ سے بول رہا ہوں وہی ہوں۔

28۔پس عورت اپنا گھڑا چھوڑ کر شہر میں چلی گئی اور لوگوں سے کہنے لگی۔

29۔آؤ،ایک آدمی کو دیکھو جس نے میرے سب کام مجھے بتا دیے۔کیا ممکن ہے کہ مسیح یہ ہے؟

30۔ وہ شہر سے نکل کر اْس کے پاس آنے لگے۔

3. John 4 : 3, 4, 7 (to :), 21-26, 28-30

3     He left Judæa, and departed again into Galilee.

4     And he must needs go through Samaria.

7     There cometh a woman of Samaria to draw water:

21     Jesus saith unto her, Woman, believe me, the hour cometh, when ye shall neither in this mountain, nor yet at Jerusalem, worship the Father.

22     Ye worship ye know not what: we know what we worship: for salvation is of the Jews.

23     But the hour cometh, and now is, when the true worshippers shall worship the Father in spirit and in truth: for the Father seeketh such to worship him.

24     God is a Spirit: and they that worship him must worship him in spirit and in truth.

25     The woman saith unto him, I know that Messias cometh, which is called Christ: when he is come, he will tell us all things.

26     Jesus saith unto her, I that speak unto thee am he.

28     The woman then left her waterpot, and went her way into the city, and saith to the men,

29     Come, see a man, which told me all things that ever I did: is not this the Christ?

30     Then they went out of the city, and came unto him.

4 . ۔ متی 15 باب1تا3، 7تا10 آیات

1۔ اْس وقت فریسوں اور فقیہوں نے یروشلیم سے یسوع کے پاس آکر کہا کہ۔

2۔ تیرے شاگرد بزرگوں کی روایت کو کیوں ٹال دیتے ہیں کہ کھانا کھاتے وقت ہاتھ نہیں دھوتے؟

3۔ اْس نے جواب میں اْن سے کہا تم اپنی روایت سے خدا کا حکم کیوں ٹال دیتے ہو؟

7۔ اے ریاکارو! یسعیاہ نے تمہارے حق میں کیا خوب نبوت کی ہے کہ

8۔ یہ اْمت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر اِن کا دل مجھ سے دور ہے۔

9۔ اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔

10۔ پھر اْس نے لوگوں کو پاس بلا کر اْن سے کہا سنو اور سمجھو۔

4. Matthew 15 : 1-3, 7-10

1     Then came to Jesus scribes and Pharisees, which were of Jerusalem, saying,

2     Why do thy disciples transgress the tradition of the elders? for they wash not their hands when they eat bread.

3     But he answered and said unto them, Why do ye also transgress the commandment of God by your tradition?

7     Ye hypocrites, well did Esaias prophesy of you, saying,

8     This people draweth nigh unto me with their mouth, and honoureth me with their lips; but their heart is far from me.

9     But in vain they do worship me, teaching for doctrines the commandments of men.

10     And he called the multitude, and said unto them, Hear, and understand:

5 . ۔ مرقس 10 باب46تا52 آیات

46۔اور جب وہ اور اْس کے شاگرد اور ایک بڑی بھیڑ یریحو سے نکلے تو تمائی کا بیٹا برتمائی اندھا فقیر راہ کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔

47۔ اور یہ سْن کر کہ یسوع ناصری ہے چلا چلا کر کہنے لگا اے ابنِ داؤد! اے یسوع! مجھ پر رحم کر۔

48۔ اور بہتوں نے اْسے ڈانٹا کہ چپ رہے مگر وہ اور بھی زیادہ چلایا کہ اے ابنِ داؤ دمجھ پر رحم کر۔

49۔ یسوع نے کھڑے ہو کر کہا اْسے بلاؤ۔پس اْنہوں نے اْس اندھے کو یہ کہہ کر بلایا کہ خاطر جمع رکھ۔ اْٹھ وہ تجھے بلاتا ہے۔

50۔ وہ اپنا کپڑا پھینک کر اْچھل پڑا اور یسوع کے پاس آیا۔

51۔ یسوع نے اْس سے کہا تْو کیا چاہتا ہے کہ مَیں تیرے لئے کروں؟ اندھے نے اْس سے کہا اے ربونی! یہ کہ مَیں بینا ہو جاؤں۔

52۔ یسوع نے اْس سے کہا جا تیرے ایمان نے تجھے اچھا کر دیا۔وہ فی الفور بینا ہو گیا اور راہ میں اْس کے پیچھے ہو لیا۔

5. Mark 10 : 46-52

46     And they came to Jericho: and as he went out of Jericho with his disciples and a great number of people, blind Bartimæus, the son of Timæus, sat by the highway side begging.

47     And when he heard that it was Jesus of Nazareth, he began to cry out, and say, Jesus, thou Son of David, have mercy on me.

48     And many charged him that he should hold his peace: but he cried the more a great deal, Thou Son of David, have mercy on me.

49     And Jesus stood still, and commanded him to be called. And they call the blind man, saying unto him, Be of good comfort, rise; he calleth thee.

50     And he, casting away his garment, rose, and came to Jesus.

51     And Jesus answered and said unto him, What wilt thou that I should do unto thee? The blind man said unto him, Lord, that I might receive my sight.

52     And Jesus said unto him, Go thy way; thy faith hath made thee whole. And immediately he received his sight, and followed Jesus in the way.

6 . ۔ یوحنا 21 باب1تا7 (تا پہلی)، 12، 13 آیات

1۔ اِن باتوں کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو تبریاس کی جھیل کے کنارے شاگردوں پر ظاہر کیا اور اِس طرح ظاہر کیا۔

2۔ شمعون پطرس اور توما جو توام کہلاتا ہے اور نتن ایل جو قانائے گلیل کا تھا اور زبدی کے بیٹے اور اْس کے دو شاگردوں میں سے دو شخص جمع تھے۔

3۔ شمعون پطر س نے اْن سے کہا مَیں مچھلی کے شکار کو جاتا ہوں۔ اْنہوں نے اْس سے کہا ہم بھی تیرے ساتھ جاتے ہیں۔ وہ نکل کر کشتی پر سوا ر ہوئے مگر اْس رات کچھ نہ پکڑا۔

4۔ اور صبح ہوتے ہی یسوع کنارے پر آکھڑا ہوا مگر شاگردوں نے نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔

5۔ پس یسوع نے اْن سے کہا بچو! تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اْنہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔

6۔ اْس نے اْن سے کہا کہ کشتی کی دہنے طرف جال ڈالو تو پکڑو گے۔پس اْنہوں نے ڈالا تو مچھلیوں کی کثرت سے پھر کھینچ نہ سکے۔

7۔ اِس لئے اُس شاگرد نے جس سے یسوع محبت رکھتا تھا پطرس سے کہا کہ یہ تو خداوند ہے۔ پس شمعون پطرس نے یہ سن کر خداوند ہے کرتہ کمر باندھا کیونکہ ننگا تھا اور جھیل میں کود پڑا۔

12۔ یسوع نے اْن سے کہا آؤ کھانا کھا لو اور شاگردوں میں سے کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اْس سے پوچھتا کہ تْو کون ہے؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خداوند ہی ہے۔

13۔ یسوع آیا اور روٹی لے کر انہیں دی۔ اسی طرح مَچھلی بھی دی۔

6. John 21 : 1-7 (to 1st .), 12, 13

1     After these things Jesus shewed himself again to the disciples at the sea of Tiberias; and on this wise shewed he himself.

2     There were together Simon Peter, and Thomas called Didymus, and Nathanael of Cana in Galilee, and the sons of Zebedee, and two other of his disciples.

3     Simon Peter saith unto them, I go a fishing. They say unto him, We also go with thee. They went forth, and entered into a ship immediately; and that night they caught nothing.

4     But when the morning was now come, Jesus stood on the shore: but the disciples knew not that it was Jesus.

5     Then Jesus saith unto them, Children, have ye any meat? They answered him, No.

6     And he said unto them, Cast the net on the right side of the ship, and ye shall find. They cast therefore, and now they were not able to draw it for the multitude of fishes.

7     Therefore that disciple whom Jesus loved saith unto Peter, It is the Lord.

12     Jesus saith unto them, Come and dine. And none of the disciples durst ask him, Who art thou? knowing that it was the Lord.

13     Jesus then cometh, and taketh bread, and giveth them, and fish likewise.

7 . ۔ یسعیاہ 55 باب1، 3آیات

1۔ اے سب پیاسو پانی کے پاس آؤ اور وہ بھی جس کے پاس پیسہ نہ ہو۔ آؤ مول لو اور کھاؤ۔ ہا ں آؤ اور دودھ بے زر اور بے قیمت خریدو۔

3۔ کان لگاؤ اور میرے پاس آؤ اور سنو اور تمہاری جان زندہ رہے گی اور مَیں تم کو ابدی عہد یعنی داؤد کی سچی نعمتیں بخشوں گا۔

7. Isaiah 55 : 1, 3

1     Ho, every one that thirsteth, come ye to the waters, and he that hath no money; come ye, buy, and eat; yea, come, buy wine and milk without money and without price.

3     Incline your ear, and come unto me: hear, and your soul shall live; and I will make an everlasting covenant with you, even the sure mercies of David.

8 . ۔ مکاشفہ 2 باب7 آیت

7۔ جس کے کان ہوں وہ سنے کہ روح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے۔ جو غالب آئے مَیں اْسے زندگی کے درخت میں سے جو خدا کے فردوس میں ہے پھل کھانے کو دوں گا۔

8. Revelation 2 : 7

7     He that hath an ear, let him hear what the Spirit saith unto the churches; To him that overcometh will I give to eat of the tree of life, which is in the midst of the paradise of God.



سائنس اور صح


1 . ۔ 492: 3۔4

درست وجہ کی بنا پر یہاں تصور کے سامنے ایک حقیقت ہونی چاہئے، یعنی روحانی وجودیت۔

1. 492 : 3-4

For right reasoning there should be but one fact before the thought, namely, spiritual existence.

2 . ۔ 472: 24 (ساری)۔26

خدا اور اْس کی تخلیق میں پائی جانے والی ساری حقیقت ہم آہنگ اور ابدی ہے۔ جو کچھ وہ بناتا ہے اچھا بناتا ہے، اور جو کچھ بنا ہے اْسی نے بنایاہے۔

2. 472 : 24 (All)-26

All reality is in God and His creation, harmonious and eternal. That which He creates is good, and He makes all that is made.

3 . ۔ 207: 27۔31

روحانی حقیقت سب چیزوں میں سائنسی سچائی ہے۔ روحانی سچائی، انسان اور پوری کائنات کے عمل میں دوہرائی جانے سے ہم آہنگ اور سچائی کے لئے مثالی ہے۔ روحانی حقائق اْلٹ نہیں ہیں؛ مخالف نفاق، جو روحانیت سے مشابہت نہیں رکھتا، حقیقی نہیں ہے۔

3. 207 : 27-31

The spiritual reality is the scientific fact in all things. The spiritual fact, repeated in the action of man and the whole universe, is harmonious and is the ideal of Truth. Spiritual facts are not inverted; the opposite discord, which bears no resemblance to spirituality, is not real.

4 . ۔ 275: 10۔19

ہستی کی حقیقت اور ترتیب کو اْس کی سائنس میں تھامنے کے لئے، وہ سب کچھ حقیقی ہے اْس کے الٰہی اصول کے طور پر آپ کو خدا کا تصور کرنے کی ابتدا کرنی چاہئے۔ روح، زندگی، سچائی، محبت یکسانیت میں جْڑ جاتے ہیں، اور یہ سب خدا کے روحانی نام ہیں۔سب مواد، ذہانت، حکمت، ہستی، لافانیت، وجہ اور اثر خْدا سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ اْس کی خصوصیات ہیں، یعنی لامتناہی الٰہی اصول، محبت کے ابدی اظہار۔ کوئی حکمت عقلمند نہیں سوائے اْس کی؛ کوئی سچائی سچ نہیں، کوئی محبت پیاری نہیں، کوئی زندگی زندگی نہیں ماسوائے الٰہی کے، کوئی اچھائی نہیں ماسوائے اْس کے جو خدا بخشتا ہے۔

4. 275 : 10-19

To grasp the reality and order of being in its Science, you must begin by reckoning God as the divine Principle of all that really is. Spirit, Life, Truth, Love, combine as one, — and are the Scriptural names for God. All substance, intelligence, wisdom, being, immortality, cause, and effect belong to God. These are His attributes, the eternal manifestations of the infinite divine Principle, Love. No wisdom is wise but His wisdom; no truth is true, no love is lovely, no life is Life but the divine; no good is, but the good God bestows.

5 . ۔ 84: 28۔14

ہم سب مناسب طور پر یہ جانتے ہیں کہ روح خدا، الٰہی اصول سے آتی ہے اور اِس کی تعلیم مسیح اور کرسچن سائنس کے وسیلہ ملتی ہے۔ اگر اِس سائنس کو اچھی طرح سے سیکھا اور مناسب طور پر سمجھا گیا ہے تو ہم اس سے کہیں درست طریقے سے سچائی کو جان سکتے ہیں جتنا کوئی ماہر فلکیات ستاروں کو پڑھ سکتا یا کسی گرہن کا اندازہ لگا سکتا ہو۔ یہ ذہن خوانی غیب بینی کے بالکل الٹ ہے۔ یہ روحانی فہم کی تابانی ہے جو روح کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے نہ کہ مادی حِس کی۔یہ روحانی حِس انسانی عقل میں اْس وقت آتی ہے جب موخر الذکر الٰہی عقل کو تسلیم کرتی ہے۔

کسی شخص کو اچھائی کرنے نہ کہ بدی کرنے کے قابل بناتے ہوئے اس قسم کے الہام اْسے ظاہر کرتے ہیں جو ہم آہنگی کو تعمیر کرتا اور ہمیشہ قائم رکھتا ہے۔جب آپ اِس طرز پر انسانی عقل کو پڑھنے کے قابل ہوجائیں گے تب آپ کامل سائنس تک پہنچیں گے اور اْس غلطی کو سمجھیں گے جسے فنا کرنا ہے۔سامری عورت نے کہا: ”آؤ، ایک آدمی کو دیکھو جس نے میرے سب کام مجھے بتا دئے۔ کیا ممکن ہے کہ مسیح یہ ہے؟“

5. 84 : 28-14

All we correctly know of Spirit comes from God, divine Principle, and is learned through Christ and Christian Science. If this Science has been thoroughly learned and properly digested, we can know the truth more accurately than the astronomer can read the stars or calculate an eclipse. This Mind-reading is the opposite of clairvoyance. It is the illumination of the spiritual understanding which demonstrates the capacity of Soul, not of material sense. This Soul-sense comes to the human mind when the latter yields to the divine Mind.

Such intuitions reveal whatever constitutes and perpetuates harmony, enabling one to do good, but not evil. You will reach the perfect Science of healing when you are able to read the human mind after this manner and discern the error you would destroy. The Samaritan woman said: "Come, see a man, which told me all things that ever I did: is not this the Christ?"

6 . ۔ 339: 7 (چونکہ)۔10

چونکہ خدا ہی سب کچھ ہے، تو اْس کے عدم احتمال کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ خدا، روح نے سب کچھ تنہا ہی خلق کیا اور اْسے اچھا کہا۔ اس لئے بدی، اچھائی کی مخالف ہوتے ہوئے، غیر حقیقی ہے اور خدا کی تخلیق کردہ نہیں ہو سکتی۔

6. 339 : 7 (Since)-10

Since God is All, there is no room for His unlikeness. God, Spirit, alone created all, and called it good. Therefore evil, being contrary to good, is unreal, and cannot be the product of God.

7 . ۔ 208: 5۔16

کلام کہتا ہے، ”کیونکہ اْسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔“ پھر خدا سے آزاد ایسی کون سی طاقت دکھائی پڑتی ہے جو بیماری کا موجب بنتی اور اْسے ٹھیک کرتی ہے؟یہ ایمان کی غلطی، بشری عقل کاقانون، ہر لحاظ سے غلط، گناہ، بیماری اور موت کو گلے لگانے کے سوا اور کیا ہے؟یہ لافانی عقل کے، سچائی کے اور روحانی قانون کے بالکل برعکس ہے۔ یہ خدا کے اچھے کردار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا کہ وہ کسی شخص کو بیمار کرے اور پھر انسان کو خود شفا پانے کے لئے چھوڑ دے، یہ فرض کرنا نہایت مضحکہ خیز بات ہے کہ مادہ بیماری کا سبب اور اعلاج دونوں ہو سکتا ہے، یا روح، خدا بیماری پیدا کرتا ہے اور اس کا اعلاج مادے پر چھوڑ دیتا ہے۔

7. 208 : 5-16

The Scriptures say, "In Him we live, and move, and have our being." What then is this seeming power, independent of God, which causes disease and cures it? What is it but an error of belief, — a law of mortal mind, wrong in every sense, embracing sin, sickness, and death? It is the very antipode of immortal Mind, of Truth, and of spiritual law. It is not in accordance with the goodness of God's character that He should make man sick, then leave man to heal himself; it is absurd to suppose that matter can both cause and cure disease, or that Spirit, God, produces disease and leaves the remedy to matter.

8 . ۔ 129: 21۔29

ہمیں دوا سازی کو ترک کر کے علم موجودات یعنی ”حقیقی ہستی کی سائنس“ پر توجہ دینی چاہئے۔ ہمیں چیزوں کے محض بیرونی فہم کو قبول کرنے کی بجائے حقیقت پسندی کی گہرائی کو دیکھنا چاہئے۔کیا ہم انناس کے درخت سے آڑو حاصل کر سکتے ہیں، یا ہستی کی ہم آہنگی سے مخالفت سیکھ سکتے ہیں؟ تاہم اِس کے ساتھ ساتھ کافی حد تک کچھ معتدل قسم کے سر کردہ بھرم ہیں جنہیں سائنس کو انسانوں کے درمیان اپنے تجدیدی مشن میں کچل دینا چاہئے۔ یہ خصوصی، وہم، عدم کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

8. 129 : 21-29

We must abandon pharmaceutics, and take up ontology, — "the science of real being." We must look deep into realism instead of accepting only the outward sense of things. Can we gather peaches from a pine-tree, or learn from discord the concord of being? Yet quite as rational are some of the leading illusions along the path which Science must tread in its reformatory mission among mortals. The very name, illusion, points to nothingness.

9 . ۔ 85: 23۔28

یہودیوں اور غیر قوموں دونوں کے پاس شدید جسمانی حواس تھے، لیکن بشر کو روحانی حواس کی ضرورت ہے۔ یسوع بدکار اور زناکار نسل کو جانتا تھا جو روحانی کی بجائے مادی چیزوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ مادیت پرستی کے لئے اْس کی مذمت شدید مگر بہت ضروری تھی۔ اْس نے ریاکاری کی شدید مذمت کرنے میں کبھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔

9. 85 : 23-28

Both Jew and Gentile may have had acute corporeal senses, but mortals need spiritual sense. Jesus knew the generation to be wicked and adulterous, seeking the material more than the spiritual. His thrusts at materialism were sharp, but needed. He never spared hypocrisy the sternest condemnation.

10 . ۔ 237: 15۔32

بچوں کواْن کے پہلے اسباق میں سچائی کے علاج، کرسچن سائنس، کی تعلیم دی جانی چاہئے، اور بیماری سے متعلق خیالات اور نظریات کی ترویج یا بحث سے دور رکھنا چاہئے۔غلطی اور اْس کی تکالیف کے تجربے سے بچانے کے لئے اپنے بچوں کے ذہنوں کو گناہ آلود یا بیمار خیالات سے دور رکھیں۔دوسرے والے خیالات کو پہلے والے خیالات کے اصول پر ہی ختم ہونا چاہئے۔اِس سے کرسچن سائنس شروع میں ہی دستیاب ہوجائے گی۔

چند باطل لوگ حقائق یا مادے اور اْس کے فرضی قوانین کی گمراہی سے متعلق سننا ناپسند کرتے ہیں۔وہ تھوڑا زیادہ دیر تک خود کو اپنے مادی دیوتاؤں کو وقف کرتے ہیں، مادے کی زندگی اور ذہانت پر ایمان سے جڑے رہتے ہیں، اور اِس غلطی سے امید کرتے ہیں کہ وہ اِس کی نسبت اْن کے لئے زیادہ کام کرے جتنا کہ وہ یہ قبول کرنے کے لئے تیار ہیں کہ زندہ اور حقیقی خدا اْن کے لئے کر سکتا ہے۔آپ کی تشریح پر بے صبرے ہوتے ہوئے، اْس عقل کی سائنس کی تفتیش کرنے سے انکار کرتے ہوئے جو اْنہیں اْن کی شکایات سے دور کرے گی، وہ جھوٹے عقائد کو گلے لگاتے ہیں اور پر فریب نتائج کی تکلیف اٹھاتے ہیں۔

10. 237 : 15-32

Children should be taught the Truth-cure, Christian Science, among their first lessons, and kept from discussing or entertaining theories or thoughts about sickness. To prevent the experience of error and its sufferings, keep out of the minds of your children either sinful or diseased thoughts. The latter should be excluded on the same principle as the former. This makes Christian Science early available.

Some invalids are unwilling to know the facts or to hear about the fallacy of matter and its supposed laws. They devote themselves a little longer to their material gods, cling to a belief in the life and intelligence of matter, and expect this error to do more for them than they are willing to admit the only living and true God can do. Impatient at your explanation, unwilling to investigate the Science of Mind which would rid them of their complaints, they hug false beliefs and suffer the delusive consequences.

11 . ۔ 264 :13۔31

جب بشر خدا اور انسان سے متعلق درست خیالات رکھتے ہیں، تخلیق کے مقاصد کی کثرت، جو اس سے قبل نادیدنی تھی، اب دیدنی ہو جائے گی۔ جب ہمیں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ زندگی روح ہے، نہ کبھی مادے کا اور نہ کبھی مادے میں، یہ ادراک خدا میں سب کچھ اچھا پاتے ہوئے اور کسی دوسرے شعور کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے، خود کاملیت کی طرف وسیع ہو گا۔

روح اور اْس کی اصلاحات ہستی کے واحد حقائق ہیں۔مادا روح کی خورد بین تلے غائب ہوجاتا ہے۔ گناہ سچائی کے وسیلہ ناگزیر ہے، اور بیماری اور موت پر یسوع نے فتح پائی، جس نے اِنہیں غلطی کی اشکال ثابت کیا۔ روحانی زندگی اور برکت ہی واحد ثبوت ہیں جن کے وسیلہ ہم حقیقی وجودیت کو پہچان سکتے اور ناقابل بیان امن کو محسوس کرتے ہیں جو سب جذب کرنے والی روحانی محبت سے نکلتا ہے۔

جب ہم کرسچن سائنس میں راستہ جانتے ہیں اور انسان کی روحانی ہستی کو پہچانتے ہیں، ہم خدا کی تخلیق کو سمجھیں اور دیکھیں گے،سارا جلال زمین اور آسمان اور انسان کے لئے۔

11. 264 : 13-31

As mortals gain more correct views of God and man, multitudinous objects of creation, which before were invisible, will become visible. When we realize that Life is Spirit, never in nor of matter, this understanding will expand into self-completeness, finding all in God, good, and needing no other consciousness.

Spirit and its formations are the only realities of being. Matter disappears under the microscope of Spirit. Sin is unsustained by Truth, and sickness and death were overcome by Jesus, who proved them to be forms of error. Spiritual living and blessedness are the only evidences, by which we can recognize true existence and feel the unspeakable peace which comes from an all-absorbing spiritual love.

When we learn the way in Christian Science and recognize man's spiritual being, we shall behold and understand God's creation, — all the glories of earth and heaven and man.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔