اتوار 20 اپریل، 2025



مضمون۔ کفارے کا عقیدہ

SubjectDoctrine Of Atonement

سنہری متن: مکاشفہ 12 باب10 آیت

اب ہمارے خدا کی نجات اور قدرت اور بادشاہی اور اْس کے مسیح کا اختیار ظاہر ہوا ہے۔



Golden Text: Revelation 12 : 10

Now is come salvation, and strength, and the kingdom of our God, and the power of his Christ.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: یوحنا 10 باب11، 14، 15، 17، 18، 27تا30 آیات


11۔ اچھا چرواہا مَیں ہوں۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے۔

14۔ اچھا چرواہا مَیں ہوں۔ جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور مَیں باپ کو جانتا ہوں۔

15۔ اِسی طرح مَیں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مجھے جانتی ہیں اور مَیں بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں۔

17۔ باپ مجھ سے اِس لئے محبت رکھتا ہے کہ مَیں اپنی جان دیتاہوں تاکہ اْسے پھر لوں۔

18۔ کوئی اْسے مجھ سے چھینتا نہیں بلکہ مَیں اْسے آپ ہی دیتا ہوں مجھے اْس کے دینے کا بھی اختیار ہے اور اْسے پھر لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا۔

27۔ میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔

28۔ اور مَیں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔

29۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دیں ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا۔

30۔ مَیں اور باپ ایک ہیں۔

Responsive Reading: John 10 : 11, 14, 15, 17, 18, 27-30

11.     I am the good shepherd: the good shepherd giveth his life for the sheep.

14.     I am the good shepherd, and know my sheep, and am known of mine.

15.     As the Father knoweth me, even so know I the Father: and I lay down my life for the sheep.

17.     Therefore doth my Father love me, because I lay down my life, that I might take it again.

18.     No man taketh it from me, but I lay it down of myself. I have power to lay it down, and I have power to take it again. This commandment have I received of my Father.

27.     My sheep hear my voice, and I know them, and they follow me:

28.     And I give unto them eternal life; and they shall never perish, neither shall any man pluck them out of my hand.

29.     My Father, which gave them me, is greater than all; and no man is able to pluck them out of my Father's hand.

30.     I and my Father are one.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یوحنا 3 باب16 آیت

16۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اْس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اْس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

1. John 3 : 16

16     For God so loved the world, that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but have everlasting life.

2 . ۔ متی 4باب23 آیت

23۔ اور یسوع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور اْن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دور کرتا رہا۔

2. Matthew 4 : 23

23     And Jesus went about all Galilee, teaching in their synagogues, and preaching the gospel of the kingdom, and healing all manner of sickness and all manner of disease among the people.

3 . ۔ یوحنا 12 باب1، 9تا11، 17، 19 (تا؟)، 23، 27تا35(تا دوسری)، 36 (وہ) (تا پہلی)، 37، 42تا44، 50 آیات

1۔ پھر یسوع فسح سے چھ روز پہلے بیتِ عنیاہ میں آیا جہاں لعزر تھا جسے یسوع نے مردوں میں سے جلایا تھا۔

9۔ پس یہودیوں میں سے عوام یہ معلوم کر کے کہ وہ وہاں ہے نہ صرف یسوع کے سبب سے آئے بلکہ اِس لئے بھی کہ لعزر کو دیکھیں جسے اْس نے مردوں میں سے جلایا تھا۔

10۔ لیکن سردار کاہنوں نے مشورہ کیا کہ لعزر کو بھی مار ڈالیں۔

11۔ کیونکہ اْس کے باعث بہت سے یہودی چلے گئے اور یسوع پر ایمان لائے۔

17۔ پس اْن لوگوں نے یہ گواہی دی جو اْس وقت اْس کے ساتھ تھے جب اْس نے لعزر کو قبر سے باہر بلایا اور مردوں میں سے جلایا تھا۔

19۔ پس فریسیوں نے آپس میں کہا، سوچو تو! تم سے کچھ نہیں بن پڑتا۔

23۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا وہ وقت آگیا کہ ابنِ آدم جلال پائے۔

27۔ اب میری جان گھبراتی ہے۔ پس مَیں کیا کہوں؟ اے باپ! مجھے اِس گھڑی سے بچا لیکن مَیں اسی سبب سے تو اِس گھڑی کو پہنچا ہوں۔

28۔ اے باپ! اپنے نام کو جلال دے۔ پس آسمان سے آواز آئی کہ مَیں نے اْس کو جلال دیا ہے اور پھر بھی دوں گا۔

29۔ جو لوگ کھڑے سن رہے تھے اْنہوں نے کہا بادل گرجا۔ اوروں نے کہا کہ فرشتہ اْس سے ہمکلام ہوا۔

30۔ یسوع نے جواب میں کہا کہ آواز میرے لئے نہیں بلکہ تمہارے لئے آئی ہے۔

31۔ اب دنیا کی عدالت کی جاتی ہے۔ اب دنیا کا سردار نکال دیا جائے گا۔

32۔ اور مَیں اگر زمین سے اونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا۔

33۔ اْس نے اِس بات سے اشارہ کیا کہ مَیں کس موت مرنے کو ہوں۔

34۔ لوگوں نے اْس کو جواب دیا کہ ہم نے شریعت کی یہ بات سنی ہے کہ مسیح ابدتک رہے گا۔ پھر تْو کیونکر کہتا ہے کہ ابنِ آدم کا اونچے پر چڑھایا جانا ضرور ہے؟ ابنِ آدم کون ہے؟

35۔ پس یسوع نے اْن سے کہا کہ اور تھوڑی دیر تک نور تمہارے درمیان ہے۔ جب تک نور تمہارے ساتھ ہے چلے چلو۔

36۔۔۔۔تاکہ نور کے فرزند بنو۔

37۔ اور اگر چہ اْس نے اْن کے سامنے اتنے معجزے دکھائے تو بھی وہ اْس پر ایمان نہ لائے۔

42۔ تو بھی سرداروں میں سے بہتیرے اْس پر ایمان لائے مگر فریسیوں کے سبب سے اقرار نہ کرتے تھے تا ایسا نہ ہو کہ عبادت خانہ سے خارج کئے جائیں۔

43۔ کیونکہ وہ خدا سے عزت حاصل کرنے کی نسبت انسان سے عزت حاصل کرنا زیادہ چاہتے تھے۔

44۔یسوع نے پکار کر کہا کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے مجھ پر نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتا ہے۔

50۔ اور مَیں جانتا ہوں کہ اْس کا حکم ہمیشہ کی زندگی ہے۔ پس جو کچھ مَیں کہتا ہوں جس طرح باپ نے مجھ سے فرمایا ہے اْسی طرح کہتا ہوں۔

3. John 12 : 1, 9-11, 17, 19 (to ?), 23, 27-35 (to 2nd ,), 36 (that) (to 1st .), 37, 42-44, 50

1     Then Jesus six days before the passover came to Bethany, where Lazarus was which had been dead, whom he raised from the dead.

9     Much people of the Jews therefore knew that he was there: and they came not for Jesus’ sake only, but that they might see Lazarus also, whom he had raised from the dead.

10     But the chief priests consulted that they might put Lazarus also to death;

11     Because that by reason of him many of the Jews went away, and believed on Jesus.

17     The people therefore that was with him when he called Lazarus out of his grave, and raised him from the dead, bare record.

19     The Pharisees therefore said among themselves, Perceive ye how ye prevail nothing?

23     And Jesus answered them, saying, The hour is come, that the Son of man should be glorified.

27     Now is my soul troubled; and what shall I say? Father, save me from this hour: but for this cause came I unto this hour.

28     Father, glorify thy name. Then came there a voice from heaven, saying, I have both glorified it, and will glorify it again.

29     The people therefore, that stood by, and heard it, said that it thundered: others said, An angel spake to him.

30     Jesus answered and said, This voice came not because of me, but for your sakes.

31     Now is the judgment of this world: now shall the prince of this world be cast out.

32     And I, if I be lifted up from the earth, will draw all men unto me.

33     This he said, signifying what death he should die.

34     The people answered him, We have heard out of the law that Christ abideth for ever: and how sayest thou, The Son of man must be lifted up? who is this Son of man?

35     Then Jesus said unto them, Yet a little while is the light with you. Walk while ye have the light,

36     …that ye may be the children of light.

37     But though he had done so many miracles before them, yet they believed not on him:

42     Nevertheless among the chief rulers also many believed on him; but because of the Pharisees they did not confess him, lest they should be put out of the synagogue:

43     For they loved the praise of men more than the praise of God.

44     Jesus cried and said, He that believeth on me, believeth not on me, but on him that sent me.

50     And I know that his commandment is life everlasting: whatsoever I speak therefore, even as the Father said unto me, so I speak.

4 . ۔ یوحنا 13باب1 آیت

1۔ عیدِ فسح سے پہلے جب یسوع نے جان لیا کہ میرا وہ وقت آ پہنچا کہ دنیا سے رخصت ہو کر باپ کے پاس جاؤں تو اپنے اْن لوگوں سے جو دنیا میں تھے جیسی محبت رکھتا تھا آخر تک محبت رکھتا رہا۔

4. John 13 : 1

1     Now before the feast of the passover, when Jesus knew that his hour was come that he should depart out of this world unto the Father, having loved his own which were in the world, he loved them unto the end.

5 . ۔ یوحنا 14 باب9 (تا کہا)، 12 (وہ)، 13تا15، 27، 28 (اگر)، 29، 31 آیات

9۔ یسوع نے کہا۔۔۔

12۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں۔

13۔ اور جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے مَیں وہی کروں گا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔

14۔ اگر میرے نام سے مجھ سے کچھ چاہو گے تو مَیں وہی کروں گا۔

15۔ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔

27۔ مَیں تمہیں اطمینان دئے جاتا ہوں۔ اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں۔ جس طرح دنیا دیتی ہے مَیں تمہیں اْس طرح نہیں دیتا۔ تمہارا دل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے۔

28۔ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے تو اِس بات سے کہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں خوش ہوتے کیونکہ باپ مجھ سے بڑا ہے۔

29۔ اور اب مَیں نے تم سے اِس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا ہے تاکہ جب ہو جائے تو یقین کرو۔

31۔لیکن یہ اِس لئے ہوتا ہے کہ دنیا جانے کہ مَیں باپ سے محبت رکھتا ہوں اور جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا مَیں ویسا ہی کرتا ہوں۔ اْٹھو یہاں سے چلیں۔

5. John 14 : 9 (to saith), 12 (He), 13-15, 27, 28 (If), 29, 31

9     Jesus saith …

12     He that believeth on me, the works that I do shall he do also; and greater works than these shall he do; because I go unto my Father.

13     And whatsoever ye shall ask in my name, that will I do, that the Father may be glorified in the Son.

14     If ye shall ask any thing in my name, I will do it.

15     If ye love me, keep my commandments.

27     Peace I leave with you, my peace I give unto you: not as the world giveth, give I unto you. Let not your heart be troubled, neither let it be afraid.

28     If ye loved me, ye would rejoice, because I said, I go unto the Father: for my Father is greater than I.

29     And now I have told you before it come to pass, that, when it is come to pass, ye might believe.

31     But that the world may know that I love the Father; and as the Father gave me commandment, even so I do. Arise, let us go hence.

6 . ۔ متی 27 باب1، 33، 35(اْنہوں) (تا پہلی)، 55، 56 (تا پہلی) آیات

1۔ جب صبح ہوئی تو سب سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں نے یسوع کے خلاف مشورہ کیا کہ اُسے مار ڈالیں۔

33۔ اور اس جگہ جو گلگتا یعنی کھوپڑی کی جگہ کہلاتی ہے پہنچ کر۔

35۔۔۔۔انہوں نے اسے مصلوب کیا۔

55۔ اور وہاں بہت سی عورتیں جو گلیل سے یسوع کی خدمت کرتی اْس کے پیچھے پیچھے آئی تھیں دور سے دیکھ رہی تھیں۔

56۔ اْن میں مریم مگدلینی تھی۔

6. Matthew 27 : 1, 33, 35 (they) (to 1st ,), 55, 56 (to 1st ,)

1     When the morning was come, all the chief priests and elders of the people took counsel against Jesus to put him to death:

33     And when they were come unto a place called Golgotha, that is to say, a place of a skull,

35     …they crucified him.

55     And many women were there beholding afar off, which followed Jesus from Galilee, ministering unto him:

56     Among which was Mary Magdalene,

7 . ۔ مرقس 16 باب9تا11، 14، 15، 17 (تا دوسری)، 18تا20 آیات

9۔ ہفتہ کے پہلے روز جب وہ جی اٹھا تو پہلے مگدلینی کو جس میں سے اْس نے سات بدروحیں نکالی تھیں دکھائی دیا۔

10۔ اْس نے جا کر اْس کے ساتھیوں کو جو ماتم کرتے اور روتے تھے خبر دی۔

11 اور انہوں نے یہ سن کر کہ وہ جیتا ہے اور اْس نے اْسے دیکھا ہے یقین نہ کیا۔

14۔ پھر وہ اْن گیارہ کو بھی جب کھانا کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اور اْس نے اْن کی بے اعتقادی اور سخت دلی پر اْن کو ملامت کی کیونکہ جنہوں نے اْس کے جی اٹھنے کے بعد اْسے دیکھا تھا اْنہوں نے اْن کا یقین نہ کیا تھا۔

15۔ اور اْس نے اْن سے کہا کہ تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔

17۔ اور ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔ وہ میرے نام سے بدروحوں کو نکالیں گے۔

18۔ سانپوں کو اٹھا لیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پئیں گے تو اْنہیں کچھ ضرر نہ پہنچے گا۔ وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو وہ اچھے ہو جائیں گے۔

19۔ غرض خداوند یسوع اْن سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیا اور خدا کی دہنی طرف بیٹھ گیا۔

20۔ پھر اْنہوں نے نکل کر ہر جگہ منادی کی اور خداوند اْن کے ساتھ کام کرتا رہا اور کلام کو اْن معجزوں کے وسیلہ سے جو ساتھ ساتھ ہوتے تھے ثابت کرتا رہا۔ آمین۔

7. Mark 16 : 9-11, 14, 15, 17 (to 2nd ;), 18-20

9     Now when Jesus was risen early the first day of the week, he appeared first to Mary Magdalene, out of whom he had cast seven devils.

10     And she went and told them that had been with him, as they mourned and wept.

11     And they, when they had heard that he was alive, and had been seen of her, believed not.

14     Afterward he appeared unto the eleven as they sat at meat, and upbraided them with their unbelief and hardness of heart, because they believed not them which had seen him after he was risen.

15     And he said unto them, Go ye into all the world, and preach the gospel to every creature.

17     And these signs shall follow them that believe; In my name shall they cast out devils;

18     They shall take up serpents; and if they drink any deadly thing, it shall not hurt them; they shall lay hands on the sick, and they shall recover.

19     So then after the Lord had spoken unto them, he was received up into heaven, and sat on the right hand of God.

20     And they went forth, and preached every where, the Lord working with them, and confirming the word with signs following. Amen.

8 . ۔ متی 5 باب8 آیت

8۔ مبارک ہیں وہ جو پاکدل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔

8. Matthew 5 : 8

8     Blessed are the pure in heart: for they shall see God.



سائنس اور صح


1 . ۔ 583 :10۔11

مسیح۔ خدا کا الٰہی اظہار، جو مجسم غلطی کو نیست کرنے کے لئے بدن کی صورت میں آتا ہے۔

1. 583 : 10-11

Christ. The divine manifestation of God, which comes to the flesh to destroy incarnate error.

2 . ۔ 18 :1۔5

کفارہ خدا کے ساتھ انسانی اتحاد کی مثال ہے، جس کے تحت انسان الٰہی سچائی، زندگی اور محبت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یسوع ناصری نے انسان کی باپ کے ساتھ یگانگت کو بیان کیا، اور اس کے لئے ہمارے اوپر اْس کی لامتناہی عقیدت کا قرض ہے۔

2. 18 : 1-5

Atonement is the exemplification of man's unity with God, whereby man reflects divine Truth, Life, and Love. Jesus of Nazareth taught and demonstrated man's oneness with the Father, and for this we owe him endless homage.

3 . ۔ 136: 1۔10 (تا)

یسوع نے مسیح کی شفا کی روحانی بنیاد پر اپنا چرچ قائم کیا اور اپنے مشن کو برقرار رکھا۔ اْس نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ اْس کا مذہب الٰہی اصول تھا، جو خطا کو خارج کرتا اور بیمار اور گناہگار دونوں کو شفا دیتا تھا۔ اْس نے خدا سے جدا کسی دانش، عمل اور نہ ہی زندگی کا دعویٰ کیا۔ باوجود اْس ایذا کے جو اِسی کے باعث اْس پر آئی، اْس نے الٰہی قوت کو انسان کو بدنی اور روحانی دونوں لحاظ سے نجات دینے کے لئے استعمال کیا۔

سوال آج کی طرح تب بھی تھا، کہ یسوع نے بیمار کو کیسے شفا دی؟ اِس سوال پر اْس کے جواب کودنیا نے رد کر دیا۔

3. 136 : 1-10 (to .)

Jesus established his church and maintained his mission on a spiritual foundation of Christ-healing. He taught his followers that his religion had a divine Principle, which would cast out error and heal both the sick and the sinning. He claimed no intelligence, action, nor life separate from God. Despite the persecution this brought upon him, he used his divine power to save men both bodily and spiritually.

The question then as now was, How did Jesus heal the sick? His answer to this question the world rejected.

4 . ۔ 28: 1۔6

فریسی الٰہی رضا کو جاننے اور اْس کی تعلیم دینے کا دعویٰ کرتے تھے، مگر وہ صرف یسوع کے مقصد کی کامیابی میں رکاوٹ ڈالتے تھے۔حتیٰ کہ اْس کے بہت سے طالب علم بھی اْس کی راہ میں کھڑے ہوگئے۔ اگر استاد نے ایک طالب علم کو لے کر اْسے خدا سے متعلق پوشیدہ حقائق کی تعلیم نہ دی ہوتی تو وہ ہر گز مصلوب نہ ہوتا۔

4. 28 : 1-6

The Pharisees claimed to know and to teach the divine will, but they only hindered the success of Jesus' mission. Even many of his students stood in his way. If the Master had not taken a student and taught the unseen verities of God, he would not have been crucified.

5 . ۔ 23: 5۔7 (تادوسرا)

کہ خدا کا غضب اْس کے پیارے بیٹے پر نکلے۔ایسا نظریہ انسان کا بنایا ہوا ہے۔

5. 23 : 5-7 (to 2nd .)

That God's wrath should be vented upon His beloved Son, is divinely unnatural. Such a theory is man-made.

6 . ۔ 286: 1۔11

ایک انسانی عقیدے پر ایمان کے وسیلہ حق کو تلاش کرنا لامحدود کو سمجھنا نہیں ہے۔ہمیں محدود، قابلِ تبدیل اور فانی کے وسیلہ ناقابلِ تبدیل اور لافانی کی تلاش نہیں کرنی چاہئے، اور یوں اظہار کی بجائے ایمان پر انحصار کرنا چاہئے، کیونکہ یہ سائنس کے علم کے لئے مہلک ہے۔ حق کا فہم سچائی پر مکمل ایمان مہیا کرتا ہے، اور روحانی سمجھ تمام سوختنی قربانیوں سے بہتر ہے۔

مالک نے کہا، ”کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ(ہستی کے الٰہی اصول) کے پاس نہیں آتا،“ یعنی مسیح، زندگی، حق اور محبت کے بغیر؛ کیونکہ مسیح کہتا ہے، ”راہ مَیں ہوں۔“

6. 286 : 1-11

To seek Truth through belief in a human doctrine is not to understand the infinite. We must not seek the immutable and immortal through the finite, mutable, and mortal, and so depend upon belief instead of demonstration, for this is fatal to a knowledge of Science. The understanding of Truth gives full faith in Truth, and spiritual understanding is better than all burnt offerings.

The Master said, "No man cometh unto the Father [the divine Principle of being] but by me," Christ, Life, Truth, Love; for Christ says, "I am the way."

7 . ۔ 34: 18۔24 (تا)

سبھی شاگردوں کے تجربات کے وسیلہ وہ مزید روحانی بنے اور اْسے بہتر طور پر سمجھے جو مالک نے انہیں سکھایا تھا۔ اْس کا جی اٹھنا اْن کا جی اٹھنا بھی تھا۔ اس نے اْن کی اور دیگر لوگوں کی روحانی بے حسی اور لامتناہی امکانات کے خیالات میں خدا پر اندھے توکل سے بیدار کیا۔ انہیں اس ارتکاز کی ضرورت تھی،

7. 34 : 18-24 (to ,)

Through all the disciples experienced, they became more spiritual and understood better what the Master had taught. His resurrection was also their resurrection. It helped them to raise themselves and others from spiritual dulness and blind belief in God into the perception of infinite possibilities. They needed this quickening,

8 . ۔ 134: 26۔32

یسوع نے کہا ”مجھے تو معلوم تھا تْو ہمیشہ میری سْنتا ہے“؛ اور اْس نے لعذر کو زندہ کیا، طوفان کو تھاما، بیمار کو شفا دی، پانی پر چلا۔یہاں مادے کے مقابلے میں روحانی قدرت کی برتری پر یقین رکھنے کا الٰہی اختیار ہے۔

ایک معجزہ خدا کے قانون کو پورا کرتا ہے، لیکن اْس قانون کو توڑتا نہیں۔

8. 134 : 26-32

Jesus said: "I knew that Thou hearest me always;" and he raised Lazarus from the dead, stilled the tempest, healed the sick, walked on the water. There is divine authority for believing in the superiority of spiritual power over material resistance.

A miracle fulfils God's law, but does not violate that law.

9 . ۔ 24: 27۔31

مصلوبیت کی افادیت اس عملی پیار اور اچھائی میں پنہاں ہے جو انسان کے لئے ظاہر ہوتی ہے۔ سچائی انسانوں کے درمیان رہتی رہی ہے؛ لیکن جب تک انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ اس سچائی نے اْن کے مالک کو قبر پر فتح بخشی ہے، اْس کے اپنے شاگردوں نے اس بات کا یقین نہ کیا کہ ایسا ہونا بھی ممکن ہوسکتا تھا۔

9. 24 : 27-31

The efficacy of the crucifixion lay in the practical affection and goodness it demonstrated for mankind. The truth had been lived among men; but until they saw that it enabled their Master to triumph over the grave, his own disciples could not admit such an event to be possible.

10 . ۔ 36 :10۔14

یسوع نے شرمندگی کو برداشت کیا تاکہ وہ بنجر زندگیوں میں اپنا عزیز خریدا ہوا فضل لا سکے۔اْس کا زمینی اجر کیا تھا؟ اْسے سب نے ترک کر دیا ماسوائے یوحنا، اْس کے عزیز شاگرد، اور چند اْن خواتین کے جنہوں نے اْس کی صلیب کے سایے تلے خاموشی سے سجدہ کیا۔

10. 36 : 10-14

Jesus endured the shame, that he might pour his dear-bought bounty into barren lives. What was his earthly reward? He was forsaken by all save John, the beloved disciple, and a few women who bowed in silent woe beneath the shadow of his cross.

11 . ۔ 20: 20۔23

وہ یہ جانتے ہوئے کبھی نہ جھکا کہ الٰہی حکم کی فرمانبرداری کرنا اور خدا پر بھروسہ کرنا گناہ سے پاکیزگی کی جانب جانے والی نئی راہ کو استوار کرنا اور اْس پر چلنا نجات بخشتا ہے۔

11. 20 : 20-23

Yet he swerved not, well knowing that to obey the divine order and trust God, saves retracing and traversing anew the path from sin to holiness.

12 . ۔ 26 :1۔6 (تا؛)

جب ہم یسوع کی تمجید کرتے ہیں، اور جو کچھ اْس نے بشر کے لئے کیا ہے اْس کے باعث ہمارا دل شکر سے بھر جاتا ہے، جلال کے تخت پر اْس کے شفیق راستے پر اکیلے پاؤں رکھتے ہوئے، ہمارے لئے ناقابل بیان اذیت میں راہ ہموار کرتے ہوئے، یسوع ہمارے لئے صرف ایک انفرادی تجربہ محفوظ نہیں رکھتا، اگر ہم وفاداری کے ساتھ اْس کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں؛

12. 26 : 1-6 (to ;)

While we adore Jesus, and the heart overflows with gratitude for what he did for mortals, — treading alone his loving pathway up to the throne of glory, in speechless agony exploring the way for us, — yet Jesus spares us not one individual experience, if we follow his commands faithfully;

13 . ۔ 138: 18۔22

مسیحی لوگ اب بھی براہ راست اِن حکموں کے ماتحت ہیں، جیسے وہ پہلے تھے، کہ مسیح جیسی روح کی ملکیت رکھنا، مسیح کے نمونے کی پیروی کرنا اور بیماروں کے ساتھ ساتھ گناہگاروں کو شفا دینا۔

13. 138 : 18-22

Christians are under as direct orders now, as they were then, to be Christlike, to possess the Christ-spirit, to follow the Christ-example, and to heal the sick as well as the sinning.

14 . ۔ 37 :27۔31

اِن ناگزیر احکامات کو سنیں: ”پس چاہئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے!“ ”تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو!“ ”بیمار کو شفا دو!“

14. 37 : 27-31

Hear these imperative commands: "Be ye therefore perfect, even as your Father which is in heaven is perfect!" "Go ye into all the world, and preach the gospel to every creature!" "Heal the sick!"

15 . ۔ 494: 11۔15

اس بات کا تصور کرنا مناسب نہیں کہ یسوع نے محض چند مخصوص تعداد میں یا محدود عرصے تک شفا دینے کے لئے الٰہی طاقت کا مظاہرہ کیا، کیونکہ الٰہی محبت تمام انسانوں کے لئے ہر لمحہ سب کچھ مہیا کرتی ہے۔

فضل کا معجزہ محبت کے لئے کوئی معجزہ نہیں ہے۔

15. 494 : 11-15

It is not well to imagine that Jesus demonstrated the divine power to heal only for a select number or for a limited period of time, since to all mankind and in every hour, divine Love supplies all good.

The miracle of grace is no miracle to Love.

16 . ۔ 21 :1۔14

اگر آپ کی روزمرہ کی زندگی اور گفتگو میں سچائی غلطی پر فتح پا رہی ہے، تو آپ بالاآخر کہہ سکتے ہیں، ”میں اچھی کْشتی لڑ چکا۔۔۔مَیں نے ایمان کو محفوظ رکھا،“ کیونکہ آپ ایک بہتر انسان ہیں۔ یہ سچائی اور محبت کے ساتھ یکجہتی میں حصہ لینا ہے۔مسیحی لوگ اِس توقع کے ساتھ محنت کرنا اور دعا کرنا جاری نہیں رکھتے کہ کسی اور اچھائی، دْکھ اور فتح کے باعث وہ اْس کی ہم آہنگی اور اجرپالیں گے۔

اگر شاگرد روحانی طور پر ترقی کر رہا ہے، تو وہ داخل ہونے کی جدجہد کر رہا ہے۔ وہ مادی حِس سے دور ہونے کی مسلسل کوشش کررہا ہے اور روح کی ناقابل تسخیر چیزوں کا متلاشی ہے۔اگر ایماندار ہے تو وہ ایمانداری سے ہی آغاز کرے گا اور آئے دن درست سمت پائے گا جب تک کہ وہ آخر کار شادمانی کے ساتھ اپنا سفر مکمل نہیں کر لیتا۔

16. 21 : 1-14

If Truth is overcoming error in your daily walk and conversation, you can finally say, "I have fought a good fight ... I have kept the faith," because you are a better man. This is having our part in the at-one-ment with Truth and Love. Christians do not continue to labor and pray, expecting because of another's goodness, suffering, and triumph, that they shall reach his harmony and reward.

If the disciple is advancing spiritually, he is striving to enter in. He constantly turns away from material sense, and looks towards the imperishable things of Spirit. If honest, he will be in earnest from the start, and gain a little each day in the right direction, till at last he finishes his course with joy.

17 . ۔ 24 :11۔13

وہ جس پر ”خدا کا بازو“ظاہر ہوتا ہے وہ ہماری رپورٹ پر یقین کرے گا، اور نئی پیدائش کے ساتھ زندگی کے نئے پن میں اْٹھے گا۔

17. 24 : 11-13

He to whom "the arm of the Lord" is revealed will believe our report, and rise into newness of life with regeneration.

18 . ۔ 45: 16۔21

خدا کی تمجید ہو اور جدوجہد کرنے والے دلوں کے لئے سلامتی ہو! مسیح نے انسانی امید اور ایمان کے درواز ے سے پتھر ہٹا دیا ہے، اور خدا میں زندگی کے اظہار اور مکاشفہ کی بدولت اْس نے انسان کے روحانی خیال اور اْس کے الٰہی اصول، یعنی محبت کے ساتھ ممکنہ کفارے سے انہیں بلند کیا۔

18. 45 : 16-21

Glory be to God, and peace to the struggling hearts! Christ hath rolled away the stone from the door of human hope and faith, and through the revelation and demonstration of life in God, hath elevated them to possible at-one-ment with the spiritual idea of man and his divine Principle, Love.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔