اتوار 18 مئی، 2025
اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تْو نے بھیجا ہے جانیں۔
“This is life eternal, that they might know thee the only true God, and Jesus Christ, whom thou hast sent.”
19۔ اگر ہم صرف اِسی زندگی میں مسیح میں امید رکھتے ہیں تو سب آدمیوں سے زیادہ بد نصیب ہیں۔
20۔ لیکن فی الواقع مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور جو سو گئے ہیں اْن میں پہلا پھل ہوا۔
21۔ کیونکہ جب آدمی کے سبب سے موت آئی تو آدمی ہی کے سبب سے مردوں کی قیامت بھی آئی۔
22۔ اور جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے۔
23۔ لیکن ہر ایک اپنی اپنی باری سے۔ پہلا پھل مسیح۔ پھر مسیح کے آنے پر اْس کے لوگ۔
24۔ اِس کے بعد آخرت ہوگی۔ اْس وقت وہ ساری حکومت اور سارا اختیار اور قدرت نیست کر کے بادشاہی کو خدا یعنی باپ کے حوالے کر دے گا۔
25۔ کیونکہ جب تک وہ سب دشمنوں کو اپنے پاؤں تلے نہ لے آئے اْس کو بادشاہی کرنا ضرور ہے۔
26۔ سب سے پہلا دْشمن جو نیست کیا جائے گا وہ موت ہے۔
19. If in this life only we have hope in Christ, we are of all men most miserable.
20. But now is Christ risen from the dead, and become the firstfruits of them that slept.
21. For since by man came death, by man came also the resurrection of the dead.
22. For as in Adam all die, even so in Christ shall all be made alive.
23. But every man in his own order: Christ the firstfruits; afterward they that are Christ’s at his coming.
24. Then cometh the end, when he shall have delivered up the kingdom to God, even the Father; when he shall have put down all rule and all authority and power.
25. For he must reign, till he hath put all enemies under his feet.
26. The last enemy that shall be destroyed is death.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ اور ساؤل جو ابھی تک خداوند کے شاگردوں کو دھمکانے اور قتل کرنے کی دھن میں تھا سردار کاہن کے پاس گیا۔
2۔اور اْس سے دمشق کے عبادتخانوں کے لئے اِس مضمون کے خط مانگے کہ جن کو وہ اِس طریق پر پائے خواہ مرد خواہ عورت اْن کو باندھ کر یروشلیم میں لائے۔
3۔جب وہ سفر کرتے کرتے دمشق کے نزدیک پہنچا تو ایسا ہوا کہ یکایک آسمان سے ایک نور اْس کے گردا گرد آچمکا۔
4۔اور وہ زمین پر گر پڑا اور یہ آواز سنی کہ اے ساؤل اے ساؤل! تْو مجھے کیوں ستاتا ہے؟
5۔ اُس نے پوچھا اے خداوند! تْو کون ہے؟ اْس نے کہا مَیں یسوع ہوں جسے تْو ستاتا ہے۔
6۔ مگر اُٹھ شہر میں جا اور جوتجھے کرنا چاہئے وہ تجھ سے کہا جائے گا۔
7۔جو آدمی اْس کے ہمراہ تھے وہ خاموش کھڑے رہ گئے کیونکہ آواز تو سنتے تھے مگر کسی کو دیکھتے نہ تھے۔
8۔اور ساؤل زمین پر سے اٹھا لیکن جب آنکھیں کھولیں تو اْس کو کچھ نہ دکھائی دیا اور لوگ اْس کا ہاتھ پکڑ کر دمشق میں لے گئے۔
9۔اور وہ تین دن تک نہ دیکھ سکا اور نہ اْس نے کھایا نہ پیا۔
10۔دمشق میں حننیاہ نام ایک شاگرد تھا۔ اْس سے خداوند نے رویا میں کہا کہ اے حننیاہ! اْس نے کہا اے خداوند مَیں حاضر ہوں۔
11۔خداوند نے اْس سے کہا اْٹھ۔ اْس کوچہ میں جا جو سیدھا کہلاتا ہے اور یہوداہ کے گھر میں ساؤل نام تِرسی کو پوچھ لے کیونکہ دیکھ وہ دعا کر رہا ہے۔
12۔اور اْس نے حننیاہ نام ایک آدمی کو اندر آتے اور اپنے اوپر ہاتھ رکھتے دیکھا تاکہ پھر بیناہو۔
13۔حننیاہ نے جواب دیا کہ اے خداوند مَیں نے بہت لوگوں سے اِس شخص کا ذکر سنا ہے کہ اِس نے یروشلیم میں تیرے مقدسوں کے ساتھ کیسی کیسی برائیاں کی ہیں۔
14۔اور یہاں اِس کو سردار کاہنوں کی طرف سے اختیار ملا ہے کہ جو لوگ تیرا نام لیتے ہیں اْن سب کو باندھ لے۔
15۔ مگر خداوند نے اْس سے کہا کہ تْو جا کیونکہ یہ قوموں بادشاہوں اور بنی اسرائیل پر میرا نام ظاہر کرنے کا میرا چنا ہوا وسیلہ ہے۔
16۔ اور مَیں اْسے جتا دوں گا کہ اْسے میرے نام کی خاطر کس قدر دکھ اٹھا ناپڑے گا۔
17۔پس حننیاہ جا کر اْس گھر میں داخل ہوا اور اپنے ہاتھ اْس پر رکھ کر کہا اے بھائی ساؤل! خداوند یعنی یسوع جو تجھ پر اْس راہ میں جس سے تْو آیا ظاہر ہوا تھا اْسی نے مجھے بھیجا ہے کہ تْو بینائی پائے اور روح القدس سے بھر جائے۔
18۔اور فوراً اْس کی آنکھوں سے چھِلکے سے گرے اور وہ بینا ہوگیا اور اْٹھ کر بپتسمہ لیا۔
19۔ پھر کچھ کھا کر طاقت پائی۔ اور وہ کئی دن اْن شاگردوں کے ساتھ رہا جو دمشق میں تھے۔
20۔ اور فوراً عبادت خانوں میں یسوع کی منادی کرنے لگاکہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔
21۔ اور سب سْننے والے حیران ہو کر کہنے لگے کیا یہ وہ شخص نہیں ہے جو یروشلم میں اِس نام کے لینے والوں کو تباہ کرتا تھااور یہاں بھی اِس لیے آیا تھا کہ اْن کو باندھ کر سردار کاہنوں کے پاس لے جائے؟
22۔ لیکن ساؤل کو اور بھی قوت حاصل ہوتی گئی اور وہ اِس بات کو ثابت کر کے کہ مسیح یہی ہے دمشق کے رہنے والے یہودیوں کو حیرت دلاتا رہا۔
1 And Saul, yet breathing out threatenings and slaughter against the disciples of the Lord, went unto the high priest,
2 And desired of him letters to Damascus to the synagogues, that if he found any of this way, whether they were men or women, he might bring them bound unto Jerusalem.
3 And as he journeyed, he came near Damascus: and suddenly there shined round about him a light from heaven:
4 And he fell to the earth, and heard a voice saying unto him, Saul, Saul, why persecutest thou me?
5 And he said, Who art thou, Lord? And the Lord said, I am Jesus whom thou persecutest: it is hard for thee to kick against the pricks.
6 And he trembling and astonished said, Lord, what wilt thou have me to do? And the Lord said unto him, Arise, and go into the city, and it shall be told thee what thou must do.
7 And the men which journeyed with him stood speechless, hearing a voice, but seeing no man.
8 And Saul arose from the earth; and when his eyes were opened, he saw no man: but they led him by the hand, and brought him into Damascus.
9 And he was three days without sight, and neither did eat nor drink.
10 And there was a certain disciple at Damascus, named Ananias; and to him said the Lord in a vision, Ananias. And he said, Behold, I am here, Lord.
11 And the Lord said unto him, Arise, and go into the street which is called Straight, and inquire in the house of Judas for one called Saul, of Tarsus: for, behold, he prayeth,
12 And hath seen in a vision a man named Ananias coming in, and putting his hand on him, that he might receive his sight.
13 Then Ananias answered, Lord, I have heard by many of this man, how much evil he hath done to thy saints at Jerusalem:
14 And here he hath authority from the chief priests to bind all that call on thy name.
15 But the Lord said unto him, Go thy way: for he is a chosen vessel unto me, to bear my name before the Gentiles, and kings, and the children of Israel:
16 For I will shew him how great things he must suffer for my name’s sake.
17 And Ananias went his way, and entered into the house; and putting his hands on him said, Brother Saul, the Lord, even Jesus, that appeared unto thee in the way as thou camest, hath sent me, that thou mightest receive thy sight, and be filled with the Holy Ghost.
18 And immediately there fell from his eyes as it had been scales: and he received sight forthwith, and arose, and was baptized.
19 And when he had received meat, he was strengthened. Then was Saul certain days with the disciples which were at Damascus.
20 And straightway he preached Christ in the synagogues, that he is the Son of God.
21 But all that heard him were amazed, and said; Is not this he that destroyed them which called on this name in Jerusalem, and came hither for that intent, that he might bring them bound unto the chief priests?
22 But Saul increased the more in strength, and confounded the Jews which dwelt at Damascus, proving that this is very Christ.
19۔ پس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گُناہ مٹائے جائیں اور اس طرح خداوند کے حضور سے تازگی کے دن آئیں۔
19 Repent ye therefore, and be converted, that your sins may be blotted out, when the times of refreshing shall come from the presence of the Lord;
53۔ کیونکہ ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے اور مرنے والا جسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہنے۔
54۔ اور جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جسم حیات ِ ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہوگا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لْقمہ ہو گئی۔
53 For this corruptible must put on incorruption, and this mortal must put on immortality.
54 So when this corruptible shall have put on incorruption, and this mortal shall have put on immortality, then shall be brought to pass the saying that is written, Death is swallowed up in victory.
1۔ پس اے بھائیو۔ مَیں خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔
2۔اور اس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہوجانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔
1 I beseech you therefore, brethren, by the mercies of God, that ye present your bodies a living sacrifice, holy, acceptable unto God, which is your reasonable service.
2 And be not conformed to this world: but be ye transformed by the renewing of your mind, that ye may prove what is that good, and acceptable, and perfect, will of God.
7۔ فریب نہ کھاؤ۔ خدا ٹھٹھوں میں نہیں اڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا۔
8۔جو کوئی اپنے جسم کے لئے بوتا ہے وہ جسم سے ہلاکت کی فصل کاٹے گا اور جو روح کے لئے بوتا ہے وہ روح سے ہمیشہ کی زندگی کی فصل کاٹے گا۔
9۔ ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بے دل نہ ہوں گے تو عین وقت پر کاٹیں گے۔
10۔ پس جہاں تک موقع ملے سب کے ساتھ نیکی کریں خاص کر اہلِ ایمان کے ساتھ۔
16۔ اور جتنے اِس قاعدہ پر چلیں اْنہیں اور خدا کے اسرائیل کو اطمینان اور رحم حاصل ہوتا رہے۔
7 Be not deceived; God is not mocked: for whatsoever a man soweth, that shall he also reap.
8 For he that soweth to his flesh shall of the flesh reap corruption; but he that soweth to the Spirit shall of the Spirit reap life everlasting.
9 And let us not be weary in well doing: for in due season we shall reap, if we faint not.
16 And as many as walk according to this rule, peace be on them, and mercy, and upon the Israel of God.
7۔ کیونکہ خدا نے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور تربیت کی روح دی ہے۔
8۔ پس ہمارے خداوند کی گواہی دینے سے اور مجھ سے جو اْس کا قیدی ہوں شرم نہ کر بلکہ خدا کی قدرت کے موافق خوشخبری کی خاطر میرے ساتھ دکھ اٹھا۔
9۔ جس نے ہمیں نجات دی اور پاک بلاوے سے بلایا ہمارے کاموں کے موافق نہیں بلکہ اپنے خاص ارادہ اور اْس کے فضل کے موافق جو مسیح یسوع میں ہم پر ازل سے ہوا۔
10۔ مگر اب ہمارے منجی مسیح یسوع کے ظہور سے ظاہر ہوا جس نے موت کو نیست اور زندگی اور بقا کو اْس خوشخبری کے وسیلہ روشن کر دیا۔
7 For God hath not given us the spirit of fear; but of power, and of love, and of a sound mind.
8 Be not thou therefore ashamed of the testimony of our Lord, nor of me his prisoner: but be thou partaker of the afflictions of the gospel according to the power of God;
9 Who hath saved us, and called us with an holy calling, not according to our works, but according to his own purpose and grace, which was given us in Christ Jesus before the world began,
10 But is now made manifest by the appearing of our Saviour Jesus Christ, who hath abolished death, and hath brought life and immortality to light through the gospel.
کائنات خدا کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک خالق اور ایک تخلیق کے سوا اور کوئی نہیں۔ یہ تخلیق روحانی خیالات اور اْن کی شناختوں کے ایاں ہونے پر مشتمل ہے، جو لامحدود عقل کے دامن سے جڑے ہیں اور ہمیشہ منعکس ہوتے ہیں۔ یہ خیالات محدود سے لامحدود تک وسیع ہیں اور بلند ترین خیالات خدا کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔
The universe reflects God. There is but one creator and one creation. This creation consists of the unfolding of spiritual ideas and their identities, which are embraced in the infinite Mind and forever reflected. These ideas range from the infinitesimal to infinity, and the highest ideas are the sons and daughters of God.
۔۔۔ کرسچن سائنس میں حقیقی انسان پر خدا یعنی اچھائی حکومت کرتی ہے نہ کہ بدی، اور اسی لئے وہ فانی نہیں بلکہ لافانی ہے۔
…in Christian Science the true man is governed by God — by good, not evil — and is therefore not a mortal but an immortal.
الٰہی سائنس میں، انسان خدا کی حقیقی شبیہ ہے۔ الٰہی فطرت میں یسوع مسیح کو بہترین طریقے سے بیان کیا گیا ہے، جس نے انسانوں پر خدا کی مناسب تر عکاسی ظاہر کی اورکمزور سوچ کے نمونے کی سوچ سے بڑی معیارِ زندگی فراہم کی، یعنی ایسی سوچ جو انسان کے گرنے، بیماری، گناہ کرنے اور مرنے کو ظاہر کرتی ہے۔ سائنسی ہستی اور الٰہی شفا کی مسیح جیسی سمجھ میں کامل اصول اور خیال، کامل خدا اور کامل انسان، بطور سوچ اور اظہار کی بنیاد شامل ہوتے ہیں۔
In divine Science, man is the true image of God. The divine nature was best expressed in Christ Jesus, who threw upon mortals the truer reflection of God and lifted their lives higher than their poor thought-models would allow, — thoughts which presented man as fallen, sick, sinning, and dying. The Christlike understanding of scientific being and divine healing includes a perfect Principle and idea, — perfect God and perfect man, — as the basis of thought and demonstration.
بشری تصورات، غلط خیالات کو اْس سب کے نمونے کے لئے راہ استوار کرنی چاہئے جوکامل اور ابدی ہے۔کئی نسلوں تک انسانی عقائد الٰہی تصورات حاصل کریں گے، تو خدا کی تخلیق کا کامل اور لافانی نمونہ ہستی کا واحد حقیقی نظریہ آخرکار دیکھا جائے گا۔
The conceptions of mortal, erring thought must give way to the ideal of all that is perfect and eternal. Through many generations human beliefs will be attaining diviner conceptions, and the immortal and perfect model of God's creation will finally be seen as the only true conception of being.
پولوس پہلے پہل یسوع کا شاگرد نہیں بلکہ یسوع کے پیروکاروں کو ایذا پہنچانے والا تھا۔جب سچائی سائنس میں اْس پر ظاہر ہوئی،پولوس کو نابینا کر دیا گیا، اور اْس کا اندھا پن محسوس کیا گیا؛ مگر جلد ہی روحانی نور نے اْسے، ایشیائے کوچک، یونان اورحتیٰ کہ رومی سلطنت میں بھی بیماروں کو شفا دیتے اور مسیحت کا پرچار کرتے ہوئے، یسوع کی تعلیمات اورنمونے پر چلنے کے قابل بنادیا۔
Paul was not at first a disciple of Jesus but a persecutor of Jesus' followers. When the truth first appeared to him in Science, Paul was made blind, and his blindness was felt; but spiritual light soon enabled him to follow the example and teachings of Jesus, healing the sick and preaching Christianity throughout Asia Minor, Greece, and even in imperial Rome.
ساؤل تِرسی صرف تب راہ، مسیح، یا سچائی کو دیکھ سکا جب درست ہونے سے متعلق اْس کے غیر یقینی فہم نے روحانی فہم کو تسلیم کیا، جو ہمیشہ درست ہوتا ہے۔تب وہ آدمی تبدیل ہوا۔ سوچ نے پوشیدہ نقطہ نظر کو قبول کیا، تو اْس کی زندگی زیادہ روحانی ہوگئی۔اْس نے اْس غلطی کو جانا کہ وہ مسیحیوں کو ایذا دیتا تھا، جن کا مذہب اْس نے نہیں سمجھا تھا اور حلیمی میں اْس نے اپنا نیا نام پولوس پایا۔پہلی بار اْس نے محبت کا حقیقی تصور پایا اور الٰہی سائنس میں ایک سبق سیکھا۔
Saul of Tarsus beheld the way — the Christ, or Truth — only when his uncertain sense of right yielded to a spiritual sense, which is always right. Then the man was changed. Thought assumed a nobler outlook, and his life became more spiritual. He learned the wrong that he had done in persecuting Christians, whose religion he had not understood, and in humility he took the new name of Paul. He beheld for the first time the true idea of Love, and learned a lesson in divine Science.
ایک بشری گناہگار خدا کا بند ہ نہیں ہے۔ بشر لافانیوں کا فریب ہیں۔ وہ بدکرداروں، یا بدوں کی اولاد ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان مٹی سے شروع ہوایا مادی ایمبریو کے طور پر پیدا ہوا ہے۔ الٰہی سائنس میں، خدااور حقیقی انسان الٰہی اصول اور خیال کی مانند ناقابل غیر مْنفک ہیں۔
A mortal sinner is not God's man. Mortals are the counterfeits of immortals. They are the children of the wicked one, or the one evil, which declares that man begins in dust or as a material embryo. In divine Science, God and the real man are inseparable as divine Principle and idea.
لہٰذہ انسان نہ فانی ہے نہ مادی ہے۔فانی غائب ہو جائیں گے اور لافانی یا خدا کے فرزند انسان کی واحد اور ابدی سچائیوں کے طور پر سامنے آئیں گے۔
اے بشر یہ سیکھو اور انسان کے روحانی معیار کی سنجیدگی سے تلاش کرو جو مادی خودی سے مکمل طور پر بے بہرہ ہے۔
خدا کے لوگوں سے متعلق، نہ کہ انسان کے بچوں سے متعلق، بات کرتے ہوئے یسوع نے کہا، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے؛“ یعنی سچائی اور محبت حقیقی انسان پر سلطنت کرتی ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ انسان خدا کی صورت پر بے گناہ اور ابدی ہے۔ یسوع نے سائنس میں کامل آدمی کو دیکھا جو اْس پر وہاں ظاہر ہوا جہاں گناہ کرنے والا فانی انسان لافانی پر ظاہر ہوا۔ اس کامل شخص میں نجات دہندہ نے خدا کی اپنی شبیہ اور صورت کو دیکھا اور انسان کے اس درست نظریے نے بیمار کو شفا بخشی۔ لہٰذہ یسوع نے تعلیم دی کہ خدا برقرار اور عالمگیر ہے اور یہ کہ انسان پاک اور مقدس ہے۔جان کے لئے انسان مادی رہائش نہیں ہے؛ وہ خود روحانی ہے۔
Hence man is not mortal nor material. Mortals will disappear, and immortals, or the children of God, will appear as the only and eternal verities of man.
Learn this, O mortal, and earnestly seek the spiritual status of man, which is outside of all material selfhood.
When speaking of God's children, not the children of men, Jesus said, "The kingdom of God is within you;" that is, Truth and Love reign in the real man, showing that man in God's image is unfallen and eternal. Jesus beheld in Science the perfect man, who appeared to him where sinning mortal man appears to mortals. In this perfect man the Saviour saw God's own likeness, and this correct view of man healed the sick. Thus Jesus taught that the kingdom of God is intact, universal, and that man is pure and holy. Man is not a material habitation for Soul; he is himself spiritual.
انسان کی انفرادیت مادی نہیں ہے۔ ہستی کی سائنس صرف مستقبل ہی میں نہیں بلکہ ابھی اور یہاں بھی وہ حاصل کرتی ہے جسے انسان جنت کا نام دیتا ہے؛ وقت اور ابدیت کے ہونے سے متعلق یہ بہت بڑی حقیقت ہے۔
تو پھر وہ کون سی مادی شخصیت ہے جو دْکھ سہتی، گناہ کرتی اور مرجاتی ہے؟ یہ وہ انسان نہیں جو خدا کی شبیہ اور صورت ہے بلکہ یہ انسان کی نقل، شبیہ کا اْلٹ، گناہ، بیماری اور موت کہلانے والی غیر مشابہت ہے۔اس دعوے کا وہم کہ بشر خدا کی حقیقی شبیہ ہے روح اور مادے، عقل اور جسم کی متضاد فطرتوں سے واضح ہوتا ہے کیونکہ ایک فہیم ہے تو دوسرا نافہم ہے۔
Man's individuality is not material. This Science of being obtains not alone hereafter in what men call Paradise, but here and now; it is the great fact of being for time and eternity.
What, then, is the material personality which suffers, sins, and dies? It is not man, the image and likeness of God, but man's counterfeit, the inverted likeness, the unlikeness called sin, sickness, and death. The unreality of the claim that a mortal is the true image of God is illustrated by the opposite natures of Spirit and matter, Mind and body, for one is intelligence while the other is non-intelligence.
حقیقی انسان روحانی اور لافانی ہے، مگر فانی اور نامکمل نام نہاد ”آدمیوں کے بچے“ ابتدا ہی سے بہروپ دھارتے ہیں، تاکہ خالص حقیقت کے لئے ایک طرف رکھے جائیں۔ اِس انسانیت کو اْتار دیا جاتا ہے، اور نئی انسانیت یا حقیقی انسان کو پہن لیا جاتا ہے، جس تناسب سے بشر انسان کی سائنس کو سمجھتے اور حقیقی نمونے کی تلاش کرتے ہیں۔
The real man is spiritual and immortal, but the mortal and imperfect so-called "children of men" are counterfeits from the beginning, to be laid aside for the pure reality. This mortal is put off, and the new man or real man is put on, in proportion as mortals realize the Science of man and seek the true model.
ترقی تجربے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ فانی انسان کی پختگی ہے، جس کے وسیلہ لافانی کی خاطر فانی بشر کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خواہ یہاں یا اس کے بعد، تکالیف یا سائنس کو زندگی اور عقل کے حوالے سے تمام تر فریب نظری کو ختم کر دینا چاہئے، او ر مادی فہم اور خودی کو از سرے نو پیدا کرنا چاہئے۔ انسانیت کو اْس کے اعمال کے ساتھ منسوخ کر دینا چاہئے۔ کوئی بھی نفس پرستی یا گناہ آلود چیز لافانی نہیں ہے۔یہ مادے کی موت نہیں بلکہ جھوٹے مادی فہم اور گناہ کی موت ہی ہے جسے انسان اور زندگی ہم آہنگ، حقیقی اور ابدی ظاہر کرتے ہیں۔
Progress is born of experience. It is the ripening of mortal man, through which the mortal is dropped for the immortal. Either here or hereafter, suffering or Science must destroy all illusions regarding life and mind, and regenerate material sense and self. The old man with his deeds must be put off. Nothing sensual or sinful is immortal. The death of a false material sense and of sin, not the death of organic matter, is what reveals man and Life, harmonious, real, and eternal.
فانی لوگ غیر فانیوں کی مانند خدا کی صورت پر پیدا نہیں کئے گئے، بلکہ لامحدود روحانی ہستی کی مانند فانی ضمیر بالا آخر سائنسی حقیقت کو تسلیم کرے گا اور غائب ہو جائے گا،اور ہستی کا،کامل اور ہمیشہ سے برقرار حقیقی فہم سامنے آئے گا۔
انسانوں کے ذریعے خدا کا اظہار ایسے ہی ہے جیسے کھڑکی میں سے روشنی گزرتی ہے۔روشنی اور شیشہ کبھی ایک نہیں ہوتے، مگر بطور مادہ، شیشہ دیوار کی نسبت کم مبہم ہے۔وہ انسانی عقل جس کے وسیلہ سچائی زیادہ واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے وہی ہے جو بہت زیادہ مادیت، بہت زیادہ غلطی، کو کھو چکی ہے تاکہ سچائی کے لئے بہتر شفافیت بنے۔پھر، جیسے بادل باریک بخارات کی صورت پگھلتا ہے، یہ مزید سورج کو نہیں چھپاتا۔
Mortals are not like immortals, created in God's own image; but infinite Spirit being all, mortal consciousness will at last yield to the scientific fact and disappear, and the real sense of being, perfect and forever intact, will appear.
The manifestation of God through mortals is as light passing through the window-pane. The light and the glass never mingle, but as matter, the glass is less opaque than the walls. The mortal mind through which Truth appears most vividly is that one which has lost much materiality — much error — in order to become a better transparency for Truth. Then, like a cloud melting into thin vapor, it no longer hides the sun.
ہستی کی سائنس میں یہ بڑی حقیقت کہ حقیقی انسان کامل تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا، ناقابل تردید بات ہے؛ کیونکہ اگر انسان خدا کی صورت، شبیہ ہے تو وہ نہ تو اونچا ہے نہ نیچا بلکہ وہ سیدھا اور خدا جیسا ہے۔
The great truth in the Science of being, that the real man was, is, and ever shall be perfect, is incontrovertible; for if man is the image, reflection, of God, he is neither inverted nor subverted, but upright and Godlike.
سائنس اْس لافانی انسان کے جلالی امکانات کو ظاہر کرتی ہے جو ہمیشہ کے لئے فانی حواس کی طرف سے لامحدود ہوتا ہے۔
Science reveals the glorious possibilities of immortal man, forever unlimited by the mortal senses.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔