اتوار 25 مئی، 2025



مضمون۔ جان اور جسم

SubjectSoul And Body

سنہری متن: لوقا 1 باب46، 47 آیات

میری جان خداوند کی بڑائی کرتی ہے۔ اور میری روح میرے منجی خدا سے خوش ہوئی۔



Golden Text: Luke 1 : 46, 47

My soul doth magnify the Lord, And my spirit hath rejoiced in God my Saviour.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: زبور 66:8، 9، 16تا20 آیات


8۔ اے لوگو! ہمارے خدا کو مبارک کہو اور اْس کی تعریف میں آواز بلند کرو۔

9۔ وہی ہماری جان کو زندہ رکھتا ہے اور ہمارے پاؤں کو پھسلنے نہیں دیتا۔

16۔ اے خدا سے ڈرنے والو! سب آؤ۔ سنو اور مَیں بتاؤں گا کہ اْس نے میری جان کے لئے کیا کیا کِیا ہے۔

17۔ مَیں نے اپنے منہ سے اْس کو پکارا۔ اْس کی تمجید میری زبان سے ہوئی۔

18۔ اگر مَیں بدی کو اپنے دل میں رکھتا تو خداوند میری نہ سنتا۔

19۔ لیکن خدا نے یقیناً سن لیا ہے۔ اْس نے میری دعا کی آواز پر کان لگایا ہے۔

20۔ خدا مبارک ہو جس نے نہ تو میری دعا کو رد کیا اور نہ اپنی شفقت کو مجھ سے باز رکھا۔

Responsive Reading: Psalm 66 : 8, 9, 16-20

8.     O bless our God, ye people, and make the voice of his praise to be heard:

9.     Which holdeth our soul in life, and suffereth not our feet to be moved.

16.     Come and hear, all ye that fear God, and I will declare what he hath done for my soul.

17.     I cried unto him with my mouth, and he was extolled with my tongue.

18.     If I regard iniquity in my heart, the Lord will not hear me:

19.     But verily God hath heard me; he hath attended to the voice of my prayer.

20.     Blessed be God, which hath not turned away my prayer, nor his mercy from me.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یسعیاہ 55 باب1، 3 آیات

1۔ اے سب پیاسو پانی کے پاس آؤ اور وہ بھی جس کے پاس پیسہ نہ ہو۔ آؤ مول لو اور کھاؤ۔ ہا ں آؤ اور دودھ بے زر اور بے قیمت خریدو۔

3۔ کان لگاؤ اور میرے پاس آؤ اور سنو اور تمہاری جان زندہ رہے گی اور مَیں تم کو ابدی عہد یعنی داؤد کی سچی نعمتیں بخشوں گا۔

1. Isaiah 55 : 1, 3

1     Ho, every one that thirsteth, come ye to the waters, and he that hath no money; come ye, buy, and eat; yea, come, buy wine and milk without money and without price.

3     Incline your ear, and come unto me: hear, and your soul shall live; and I will make an everlasting covenant with you, even the sure mercies of David.

2 . ۔ زبور 33: 20تا22 آیات

20۔ ہماری جان کو خداوند کی آس ہے۔ وہی ہماری کْمک اور ہماری سِپر ہے۔

21۔ہمارا دل اس میں شادمان رہے گا کیونکہ ہم نے اس کے پاک نام پر توکل کیا ہے۔

22۔اے خداوند!جیسی تجھ پر ہماری آس ہے۔ ویسی ہی تیری رحمت ہم پر ہو!

2. Psalm 33 : 20-22

20     Our soul waiteth for the Lord: he is our help and our shield.

21     For our heart shall rejoice in him, because we have trusted in his holy name.

22     Let thy mercy, O Lord, be upon us, according as we hope in thee.

3 . ۔ لوقا 4 باب1(تا پہلی)، 33تا37 آیات

1۔ پھر یسوع روح القدس سے بھرا ہوا یردن سے لوٹا اور چالیس دن تک روح کی ہدایت سے بیابان میں پھرتا رہا۔

33۔ اور عبادتخانہ میں ایک آدمی تھا جس میں ناپاک دیو کی روح تھی وہ بڑی آواز سے چلااْٹھا کہ

34۔ اے یسوع ناصری ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تْو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ مَیں تجھے جانتا ہوں کہ تْو کون ہے۔ خدا کا قدوس ہے۔

35۔ یسوع نے اْسے جھڑک کر کہا چْپ رہ اور اْس میں سے نکل جا۔ اِس پر بد روح اْسے بیچ میں پٹک کر بغیر ضرر پہنچائے اْس میں سے نکل گئی۔

36۔ اور سب حیران ہو کر آپس میں کہنے لگے یہ کیسا کلام ہے؟ کیونکہ وہ اختیار اور قدرت سے ناپاک روحوں کو حکم دیتا ہے اور وہ نکل جاتی ہیں۔

37۔ اور گردو نواح میں ہر جگہ اْس کی دھوم مچ گئی۔

3. Luke 4 : 1 (to 1st ,), 33-37

1     And Jesus being full of the Holy Ghost returned from Jordan,

33     And in the synagogue there was a man, which had a spirit of an unclean devil, and cried out with a loud voice,

34     Saying, Let us alone; what have we to do with thee, thou Jesus of Nazareth? art thou come to destroy us? I know thee who thou art; the Holy One of God.

35     And Jesus rebuked him, saying, Hold thy peace, and come out of him. And when the devil had thrown him in the midst, he came out of him, and hurt him not.

36     And they were all amazed, and spake among themselves, saying, What a word is this! for with authority and power he commandeth the unclean spirits, and they come out.

37     And the fame of him went out into every place of the country round about.

4 . ۔ یوحنا 5 باب19 آیت

19۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سوا اْس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جن کاموں کو وہ کرتا ہے انہیں بیٹا بھی اْسی طرح کرتا ہے۔

4. John 5 : 19

19     Then answered Jesus and said unto them, Verily, verily, I say unto you, The Son can do nothing of himself, but what he seeth the Father do: for what things soever he doeth, these also doeth the Son likewise.

5 . ۔ لوقا 12 باب1(تا تیسری)، 13 (ایک) تا24، 28تا31 آیات

1۔ اتنے میں ہزاروں آدمیوں کی بھیڑ لگ گئی یہاں تک کہ ہر ایک دوسرے پر گِرا پڑتا تھا۔

13۔ پھر بھیڑ میں سے کسی نے اْس سے کہا اے استاد! میرے بھائی سے کہہ کہ میراث کا میرا حصہ مجھے دے۔

14۔ اْس نے اْس سے کہا۔ میاں! کس نے مجھے تمہارا منصف یا بانٹنے والا مقرر کیا ہے؟

15۔ اور اْس نے اْن سے کہا خبردار! اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو۔ کیونکہ کسی کی زندگی اْس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔

16۔ اور اْس نے اْن سے تمثیل کہی کہ کسی دولتمند کی زمین میں بڑی فصل ہوئی۔

17۔ پس وہ اپنے دل میں سوچ کر کہنے لگا مَیں کیا کروں کیونکہ میرے ہا ں جگہ نہیں جہاں اپنی پیداوار بھر رکھوں۔

18۔ اْس نے کہا مَیں یوں کروں گا کہ اپنی کوٹھیاں ڈھا کر اْن سے بڑی بناؤں گا۔

19۔ اور اْن میں اپنا سارا اناج اور مال بھر رکھوں گا اور اپنی جان سے کہوں گا اے جان! تیرے پاس بہت برسوں کے لئے بہت سا مال جمع ہے۔ چین کر، کھا پی۔ خوش رہ۔

20۔ مگر خداوند نے اْس سے کہا اے نادان! اسی رات تیری جان تجھ سے طلب کر لی جائے گی۔ پس جو کچھ تْو نے تیار کیا ہے وہ کس کاہوگا؟

21۔ ایسا ہی وہ شخص ہے جو اپنے لئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خدا کے نزدیک دولتمند نہیں۔

22۔ پھر اْس نے اپنے شاگردوں سے کہا اس لئے مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرو کہ ہم کیا کھائیں گے اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے۔

23۔ کیونکہ جان خوراک سے بڑھ کر ہے اور بدن پوشاک سے۔

24۔ کوؤں پر غور کرو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں۔ اور نہ اْن کا کھِتا ہوتا ہے اور نہ کوٹھی۔ تو بھی خدا اْنہیں کھلاتا ہے۔ تمہاری قدر تو پرندوں سے کہیں زیادہ ہے۔

28۔ پس جب خدا گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟

29۔ اور تم اِس کی تلاش میں نہ رہو کہ کیا کھائیں گے کیا پہنیں گے اور نہ شکی بنو۔

30۔ کیونکہ اِن سب چیزوں کی تلاش میں دنیا کی قومیں رہتی ہیں لیکن تمہارا باپ جانتا ہے کہ تم کن چیزوں کے محتاج ہو۔

31۔ ہاں اْس کی بادشاہی کی تلاش میں رہو تو یہ چیزیں بھی تمہیں مل جائیں گی۔

5. Luke 12 : 1 (to 3rd ,), 13 (one)-24, 28-31

1     In the mean time, when there were gathered together an innumerable multitude of people, insomuch that they trode one upon another,

13     …one of the company said unto him, Master, speak to my brother, that he divide the inheritance with me.

14     And he said unto him, Man, who made me a judge or a divider over you?

15     And he said unto them, Take heed, and beware of covetousness: for a man’s life consisteth not in the abundance of the things which he possesseth.

16     And he spake a parable unto them, saying, The ground of a certain rich man brought forth plentifully:

17     And he thought within himself, saying, What shall I do, because I have no room where to bestow my fruits?

18     And he said, This will I do: I will pull down my barns, and build greater; and there will I bestow all my fruits and my goods.

19     And I will say to my soul, Soul, thou hast much goods laid up for many years; take thine ease, eat, drink, and be merry.

20     But God said unto him, Thou fool, this night thy soul shall be required of thee: then whose shall those things be, which thou hast provided?

21     So is he that layeth up treasure for himself, and is not rich toward God.

22     And he said unto his disciples, Therefore I say unto you, Take no thought for your life, what ye shall eat; neither for the body, what ye shall put on.

23     The life is more than meat, and the body is more than raiment.

24     Consider the ravens: for they neither sow nor reap; which neither have storehouse nor barn; and God feedeth them: how much more are ye better than the fowls?

28     If then God so clothe the grass, which is to day in the field, and to morrow is cast into the oven; how much more will he clothe you, O ye of little faith?

29     And seek not ye what ye shall eat, or what ye shall drink, neither be ye of doubtful mind.

30     For all these things do the nations of the world seek after: and your Father knoweth that ye have need of these things.

31     But rather seek ye the kingdom of God; and all these things shall be added unto you.

6 . ۔ متی 16 باب24تا26 آیات

24۔اُس وقت یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اگر کوئی میرے پِیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔

25۔ کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا اسے پائے گا۔

26۔اور اگر آدمی ساری دنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اٹھائے تو اسے کیا فائدہ ہوگا؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے گا؟

6. Matthew 16 : 24-26

24     Then said Jesus unto his disciples, If any man will come after me, let him deny himself, and take up his cross, and follow me.

25     For whosoever will save his life shall lose it: and whosoever will lose his life for my sake shall find it.

26     For what is a man profited, if he shall gain the whole world, and lose his own soul? or what shall a man give in exchange for his soul?

7 . ۔ متی 10 باب28 آیت

28۔ جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور روح کو قتل نہیں کر سکتے اْن سے نہ ڈرو بلکہ اْسی سے ڈرو جو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کرسکتا ہے۔

7. Matthew 10 : 28

28     And fear not them which kill the body, but are not able to kill the soul: but rather fear him which is able to destroy both soul and body in hell.

8 . ۔ یسعیاہ 58باب6، 8تا11 آیات

6۔ کیا وہ روزہ جو مَیں چاہتا ہوں یہ نہیں کہ ظلم کی زنجیریں توڑے اور جوئے کے بندھن کھولے اور مظلوموں کو آزاد کرے بلکہ ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالے۔

8۔ تب تیری روشنی صبح کی مانند پھوٹ نکلے گی اور تیری صحت کی ترقی جلد ظاہر ہوگی۔ تیری صداقت تیری ہراول ہوگی اور خداوند کا جلال تیرے پیچھے تیری حفاظت کرے گا۔

9۔ تب تْو پکارے گا اور خداوند جواب دے گا۔ تْو چلائے گا اور فرمائے گا کہ مَیں یہاں ہوں۔ اگر تْو جوئے کو اور انگلیوں سے اشارہ کرنے کو اور ہر زہ گوئی کو اپنے درمیان سے دور کرے گا۔

10۔ اگر تْو اپنے دل کو بھوکے کی طرف مائل کرے اور آزودہ دل کو آسودہ کرے تو تیرا نور تاریکی میں چمکے گا اورتیری تیرگی دوپہر کی مانند ہوجائے گی۔

11۔ اور خداوند سدا تیری راہنمائی کرے گا اور خشک سالی میں تجھے سیر کرے گا اور تیری ہڈیوں کو قوت بخشے گا۔ پس تْو سیراب باغ کی مانند ہوگا اور اْس چشمہ کی مانند جس کا پانی کم نہ ہو۔

8. Isaiah 58 : 6, 8-11

6     Is not this the fast that I have chosen? to loose the bands of wickedness, to undo the heavy burdens, and to let the oppressed go free, and that ye break every yoke?

8     Then shall thy light break forth as the morning, and thine health shall spring forth speedily: and thy righteousness shall go before thee; the glory of the Lord shall be thy rereward.

9     Then shalt thou call, and the Lord shall answer; thou shalt cry, and he shall say, Here I am. If thou take away from the midst of thee the yoke, the putting forth of the finger, and speaking vanity;

10     And if thou draw out thy soul to the hungry, and satisfy the afflicted soul; then shall thy light rise in obscurity, and thy darkness be as the noonday:

11     And the Lord shall guide thee continually, and satisfy thy soul in drought, and make fat thy bones: and thou shalt be like a watered garden, and like a spring of water, whose waters fail not.

9 . ۔ 1 تھسلینکیوں 5باب23 آیت

23۔ خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے آپ ہی تم کو بالکل پاک کرے اور تمہاری روح اور جان اور بدن ہمارے خداوند یسوع مسیح کے آنے تک پورے پورے اور بے عیب محفوظ رہیں۔

9. I Thessalonians 5 : 23

23     And the very God of peace sanctify you wholly; and I pray God your whole spirit and soul and body be preserved blameless unto the coming of our Lord Jesus Christ.



سائنس اور صح


1 . ۔ 120 :4۔6

جان یا روح خدا ہے،ناقابل تبدیل اور ابدی؛ اور انسان جان، خدا کے ساتھ وجودیت رکھتا اور اس کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ انسان خدا کی شبیہ ہے۔

1. 120 : 4-6

Soul, or Spirit, is God, unchangeable and eternal; and man coexists with and reflects Soul, God, for man is God's image.

2 . ۔ 477: 22۔2

جان مادہ، زندگی، انسان کی ذہانت ہے، جس کی انفرادیت ہوتی ہے لیکن مادے میں نہیں۔ جان روح سے کمتر کسی چیز کی عکاسی کبھی نہیں کر سکتی۔

انسان روح کا اظہار۔بھارتیوں نے بنیادی حقیقت کی چند جھلکیاں پکڑی ہیں، جب انہوں نے ایک خوبصورت جھیل کو ”عظیم روح کی مسکراہٹ“ کا نام دیا۔ انسان سے جْدا، جو جان کو ظاہر کرتا ہے، روح غیر دیوتائی ہوگی؛ انسان، جو روح سے دریافت شدہ ہے، اپنی الوہیت کھو دے گا۔لیکن یہاں ایسی کوئی تقسیم نہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے، کیونکہ انسان خدا کے ساتھ باہم وجود رکھتا ہے۔

2. 477 : 22-2

Soul is the substance, Life, and intelligence of man, which is individualized, but not in matter. Soul can never reflect anything inferior to Spirit.

Man is the expression of Soul. The Indians caught some glimpses of the underlying reality, when they called a certain beautiful lake "the smile of the Great Spirit." Separated from man, who expresses Soul, Spirit would be a nonentity; man, divorced from Spirit, would lose his entity. But there is, there can be, no such division, for man is coexistent with God.

3 . ۔ 307: 25 (دی)۔30

الٰہی فہم بشر کی جان ہے، اور انسان کو سب چیزوں پر حاکمیت عطا کرتا ہے۔ انسان کو مادیت کی بنیاد پر خلق نہیں کیا گیا اور نہ اسے مادی قوانین کی پاسداری کا حکم دیا گیا جو روح نے کبھی نہیں بنائے؛ اس کا صوبہ روحانی قوانین، فہم کے بلند آئین میں ہے۔

3. 307 : 25 (The)-30

The divine Mind is the Soul of man, and gives man dominion over all things. Man was not created from a material basis, nor bidden to obey material laws which Spirit never made; his province is in spiritual statutes, in the higher law of Mind.

4 . ۔ 140 :8۔13، 16۔18

ہم الٰہی فطرت کو سمجھنے اور،جسمانیت پر مزید جنگ نہ کرتے ہوئے بلکہ ہمارے خدا کی بہتات سے شادمانی کرتے ہوئے، سمجھ کے ساتھ اْس سے پیار کرنے کے تناسب میں اْس کی فرمانبرداری اور عبادت کریں گے۔تو مذہب پھر دل کا ہوگا دماغ کا نہیں۔

ہم روحانی پرستش صرف تب کرتے ہیں جب ہم مادی پرستش کرنا ترک کرتے ہیں۔ روحانی عقیدت مسیحیت کی جان ہے۔

4. 140 : 8-13, 16-18

We shall obey and adore in proportion as we apprehend the divine nature and love Him understandingly, warring no more over the corporeality, but rejoicing in the affluence of our God. Religion will then be of the heart and not of the head.

We worship spiritually, only as we cease to worship materially. Spiritual devoutness is the soul of Christianity.

5 . ۔ 451 :2۔4، 8۔18

مسیحی سائنسدانوں کو مادی دنیا سے باہر نکلنے اور اِس سے دور رہنے کے رسولی حْکم کے متواتر دباؤ میں رہنا چاہئے۔

کرسچن سائنس کے وہ طالب علم جو اِس کے خط سے آغاز کرتے ہیں اور روح کے بغیر فتح مند ہونے کا سوچتے ہیں، یا تو اْن کے ایمان کی کشتی غرق ہو جائے گی یا وہ افسوس کے ساتھ گھبراہٹ کا شکار ہوں گے۔ اْنہیں زندگی کے تنگ راستے سے گزرنے کی نہ صرف تلاش کرنی چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کیونکہ ”وہ دروازہ چوڑا اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اْس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔“(انسان اْسی جانب رواں رہتا ہے جہاں اْس کی نظر ہوتی ہو، اور جہاں اْس کا خزانہ ہو وہیں اْس کا دل بھی لگا رہتا ہے۔ اگر ہماری امیدیں اور احساس روحانی ہیں، تو وہ اوپر سے آتے ہیں نیچے سے نہیں، اور وہ ماضی کی طرح روح کے پھل پیدا کرتے ہیں۔

5. 451 : 2-4, 8-18

Christian Scientists must live under the constant pressure of the apostolic command to come out from the material world and be separate.

Students of Christian Science, who start with its letter and think to succeed without the spirit, will either make shipwreck of their faith or be turned sadly awry. They must not only seek, but strive, to enter the narrow path of Life, for "wide is the gate, and broad is the way, that leadeth to destruction, and many there be which go in thereat." Man walks in the direction towards which he looks, and where his treasure is, there will his heart be also. If our hopes and affections are spiritual, they come from above, not from beneath, and they bear as of old the fruits of the Spirit.

6 . ۔ 222: 31۔6

ہمیں اِس جھوٹے عقیدے کو نیست کر دینا چاہئے کہ زندگی اور ذہانت مادے میں ہے، اور خود کو اْس بنیاد پر کھڑا کردینا چاہئے جو پاک اور کامل ہے۔ پولوس نے کہا، ”روح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہرگز پورا نہ کروگے۔“ جلد یا بدیر ہم یہ سیکھیں گے کہ انسان کی متناہی حیثیت کی بیڑیاں اس فریب نظری کے باعث پگھلنے لگتی ہیں کہ وہ جان کی بجائے بدن میں، روح کی بجائے مادے میں رہتا ہے۔

6. 222 : 31-6

We must destroy the false belief that life and intelligence are in matter, and plant ourselves upon what is pure and perfect. Paul said, "Walk in the Spirit, and ye shall not fulfil the lust of the flesh." Sooner or later we shall learn that the fetters of man's finite capacity are forged by the illusion that he lives in body instead of in Soul, in matter instead of in Spirit.

7 . ۔ 60 :29۔6

جان میں لامتناہی وسائل ہیں جن سے انسان کو برکت دینا ہوتی ہے اور خوشی مزید آسانی سے حاصل کی جاتی ہے اور ہمارے قبضہ میں مزید محفوظ رہے گی، اگر جان میں تلاش کی جائے گی۔ صرف بلند لطف ہی لافانی انسان کے نقوش کو تسلی بخش بنا سکتے ہیں۔ ہم ذاتی فہم کی حدود میں خوشی کو محدود نہیں کر سکتے۔حواس کوئی حقیقی لطف عطا نہیں کرتے۔

انسانی ہمدردیوں میں اچھائی کو بدی پر اور جانور پر روحانی کو غلبہ پانا چاہئے وگرنہ خوشی کبھی فتح مند نہیں ہوگی۔

7. 60 : 29-6

Soul has infinite resources with which to bless mankind, and happiness would be more readily attained and would be more secure in our keeping, if sought in Soul. Higher enjoyments alone can satisfy the cravings of immortal man. We cannot circumscribe happiness within the limits of personal sense. The senses confer no real enjoyment.

The good in human affections must have ascendency over the evil and the spiritual over the animal, or happiness will never be won.

8 . ۔ 273: 16۔20

مادے کے نام نہاد قوانین اور طبی سائنس نے کبھی بشر کو مکمل، ہم آہنگ اور لافانی نہیں بنایا۔ انسان تب ہم آہنگ ہوتا ہے جب روح کی نگرانی میں ہوتا ہے۔اسی طرح ہستی کی سچائی کو سمجھنے کی اہمیت ہے، جو روحانی وجودیت کے قوانین کو ظاہر کرتی ہے۔

8. 273 : 16-20

The so-called laws of matter and of medical science have never made mortals whole, harmonious, and immortal. Man is harmonious when governed by Soul. Hence the importance of understanding the truth of being, which reveals the laws of spiritual existence.

9 . ۔ 210: 11۔16

یہ جانتے ہوئے کہ جان اور اْس کی خصوصیات ہمیشہ کے لئے انسان کے وسیلہ ظاہر کی جاتی رہی ہیں، مالک نے بیمار کو شفا دی، اندھے کو آنکھیں دیں، بہرے کو کان دئیے، لنگڑے کو پاؤں دئیے، یوں وہ انسانی خیالوں اور بدنوں پر الٰہی عقل کے سائنسی عمل کو روشنی میں لایااور انہیں جان اور نجات کی بہتر سمجھ عطا کی۔

9. 210 : 11-16

Knowing that Soul and its attributes were forever manifested through man, the Master healed the sick, gave sight to the blind, hearing to the deaf, feet to the lame, thus bringing to light the scientific action of the divine Mind on human minds and bodies and giving a better understanding of Soul and salvation.

10 . ۔ 232: 19۔25

یسوع نے یہ تعلیم کبھی نہیں دی کہ ادویات، خوراک، ہوا اور ورزش انسان کو صحتمند رکھتے ہیں یا ان سے انسانی زندگی تباہ ہوسکتی ہے؛ نہ ہی اْس نے ان غلطیوں کو اپنے عمل سے بیان کیا۔ اْس نے انسان کی ہم آہنگی کا عقل کے ساتھ حوالہ دیا نہ کہ مادے کے ساتھ، اور کبھی بھی خدا کے فرمان کو غیر موثر نہیں بنایا، جس نے گناہ، بیماری اور موت کی خدا کی طرف سے ہلاکت پر مہر کی۔

10. 232 : 19-25

Jesus never taught that drugs, food, air, and exercise could make a man healthy, or that they could destroy human life; nor did he illustrate these errors by his practice. He referred man's harmony to Mind, not to matter, and never tried to make of none effect the sentence of God, which sealed God's condemnation of sin, sickness, and death.

11 . ۔ 196: 11۔18

یسوع نے کہا، ”اْسی سے ڈروجو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ڈال سکتا ہے“۔ اِس متن کا بغور مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں لفظ روح کا مطلب جھوٹا فہم یا مادی شعور ہے۔یہ نہ روم سے، نہ شیطان سے نہ ہی خدا سے ہوشیار رہنے کا بلکہ گناہ سے ہوشیار رہنے کا حکم تھا۔ بیماری، گناہ اور موت زندگی یا سچائی کے ساتھی نہیں ہیں۔ کوئی شریعت اِن کی حمایت نہیں کرتی۔ اِن کا خدا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جس سے کہ اِن کی طاقت قائم ہو۔

11. 196 : 11-18

"Fear him which is able to destroy both soul and body in hell," said Jesus. A careful study of this text shows that here the word soul means a false sense or material consciousness. The command was a warning to beware, not of Rome, Satan, nor of God, but of sin. Sickness, sin, and death are not concomitants of Life or Truth. No law supports them. They have no relation to God wherewith to establish their power.

12 . ۔ 427: 2۔12

زندگی جان کا قانون ہے، حتیٰ کہ سچائی کی روح کا قانون بھی، اور جان کسی نمائندہ کارکے بغیر کبھی نہیں ہوتی۔ انسان کی انفرادیت اپنے ضمیر میں کبھی مر سکتی ہے نہ غائب ہو سکتی ہے جیسے کہ جان ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں لافانی ہیں۔ اگر انسان اب موت پر ایمان رکھتا ہے، تو تب اْسے اِس پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ موت میں کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ ہستی کی سچائی موت سے مبرا ہے۔اس سے قبل کی زندگی کو سمجھا اور ہم آہنگی کو حاصل کیا جا سکے، اس یقین پر سائنس کی بدولت مہارت حاصل ہونی چاہئے کہ وجودیت مادے کا عارضی حصہ ہے۔

12. 427 : 2-12

Life is the law of Soul, even the law of the spirit of Truth, and Soul is never without its representative. Man's individual being can no more die nor disappear in unconsciousness than can Soul, for both are immortal. If man believes in death now, he must disbelieve in it when learning that there is no reality in death, since the truth of being is deathless. The belief that existence is contingent on matter must be met and mastered by Science, before Life can be understood and harmony obtained.

13 . ۔ 119: 29 (کرسچن)۔3

کرسچن سائنس جان اور بدن کے دیدنی تعلق کو تبدیل کرتی ہے اور بدن کو عقل کے لئے معاون بناتی ہے۔پس یہ انسان پر منحصر ہے جو آرام دہ عقل کا حلیم خادم ہونے کے علاوہ کچھ نہیں، اگر چہ دوسری صورت میں یہ فہم کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔لیکن ہم اسے کبھی سمجھ نہیں پائیں گے جب تک کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ جان مادے کی بدولت بدن یا عقل میں ہے اور یہ کہ انسان کم عقلی میں شامل ہے۔

13. 119 : 29 (Christian)-3

Christian Science reverses the seeming relation of Soul and body and makes body tributary to Mind. Thus it is with man, who is but the humble servant of the restful Mind, though it seems otherwise to finite sense. But we shall never understand this while we admit that soul is in body or mind in matter, and that man is included in non-intelligence.

14 . ۔ 9: 17۔24

”تو اپنے سارے دل، اپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ۔“ اس حکم میں بہت کچھ شامل ہے، حتیٰ کہ محض مادی احساس، افسوس اور عبادت۔ یہ مسیحت کا ایلڈوراڈو ہے۔ اس میں زندگی کی سائنس شامل ہے اور یہ روح پر الٰہی قابو کی شناخت کرتی ہے، جس میں ہماری روح ہماری مالک بن جاتی ہے اور مادی حس اور انسانی رضا کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔

14. 9 : 17-24

Dost thou "love the Lord thy God with all thy heart, and with all thy soul, and with all thy mind"? This command includes much, even the surrender of all merely material sensation, affection, and worship. This is the El Dorado of Christianity. It involves the Science of Life, and recognizes only the divine control of Spirit, in which Soul is our master, and material sense and human will have no place.

15 . ۔ 125: 12۔16

چونکہ انسانی سوچ شعوری درد اور بے آرامی،خوشی اور غمی، خوف سے امید اور ایمان سے فہم کے ایک مرحلے سے دوسرے میں تبدیل ہوتی رہتی ہے، اس لئے ظاہری اظہاربالاآخر انسان پر جان کی حکمرانی ہوگا نہ کہ مادی فہم کی حکمرانی ہوگا۔

15. 125 : 12-16

As human thought changes from one stage to another of conscious pain and painlessness, sorrow and joy, — from fear to hope and from faith to understanding, — the visible manifestation will at last be man governed by Soul, not by material sense.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔