اتوار 29 جون، 2025
جا اْس فرشتہ کے ہاتھ میں سے جو سمندر اور خشکی پر کھڑا ہے وہ کھلی ہوئی کتاب لے لے۔
“Go and take the little book which is open in the hand of the angel which standeth upon the sea and upon the earth.”
1۔ پھر مَیں نے ایک اور زور آور فرشتہ کو بادہ اوڑھے ہوئے آسمان سے اترتے دیکھا۔ اْس کے سر پر دھنک تھی اور اْس کا چہرہ آفتاب کی مانند تھا اور اْس کے پاؤں آگ کے ستونوں کی مانند۔
2۔ اور اْس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کھلی ہوئی کتاب تھی۔ اْس نے اپنا داہنا پاؤں تو سمندرمیں رکھا اور بایاں خشکی پر۔
3۔ اور ایسی بڑی آواز سے چلایا جیسے ببر دھاڑتا ہے۔
4۔ اور جب گرج کی سات آوازیں سنائی دے چکیں تو میں نے لکھنے کا ارادہ کیا اور آسمان پر سے یہ آواز آتے سنی کہ جو باتیں گرج کی ان سات آوازوں سے سنی ہیں اْن کو پوشیدہ رکھ اور تحریر نہ کر۔
9۔ تب مَیں نے اْس فرشتہ کے پاس جا کر کہا کہ یہ چھوٹی کتاب مجھے دے دے۔ اْس نے مجھ سے کہا اِسے کھا لے۔ یہ تیرا پیٹ تو کڑوا کر دے گی مگر تیرے منہ میں شہد کی طرح میٹھی لگے گی۔
10۔پس مَیں چھوٹی کتاب فرشتہ کے ہاتھ سے لے کر کھا گیا۔ وہ میرے منہ میں تو شہد کی طرح میٹھی لگی مگر جب مَیں اْسے کھا گیا تو میرا پیٹ کڑوا ہوگیا۔
11۔ اور مجھ سے کہا گیا کہ تجھے بہت سی امتوں اور قوموں اور اہلِ زبان اور بادشاہوں پر پھر نبوت کرنا ضرور ہے۔
1. And I saw another mighty angel come down from heaven, clothed with a cloud: and a rainbow was upon his head, and his face was as it were the sun, and his feet as pillars of fire:
2. And he had in his hand a little book open: and he set his right foot upon the sea, and his left foot on the earth,
3. And cried with a loud voice, as when a lion roareth: and when he had cried, seven thunders uttered their voices.
4. And when the seven thunders had uttered their voices, I was about to write: and I heard a voice from heaven saying unto me, Seal up those things which the seven thunders uttered, and write them not.
9. And I went unto the angel, and said unto him, Give me the little book. And he said unto me, Take it, and eat it up; and it shall make thy belly bitter, but it shall be in thy mouth sweet as honey.
10. And I took the little book out of the angel’s hand, and ate it up; and it was in my mouth sweet as honey: and as soon as I had eaten it, my belly was bitter.
11. And he said unto me, Thou must prophesy again before many peoples, and nations, and tongues, and kings.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
26۔میں خداوند تیرا شافی ہوں۔
26 I am the Lord that healeth thee.
1۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور جو کچھ مجھ میں ہے اْس کے قدوس نام کو مبارک کہے۔
2۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور اْس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر۔
3۔ وہ تیری ساری بدکاری بخشتا ہے۔ وہ تجھے تمام بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔
4۔ وہ تیری جان ہلاکت سے بچاتا ہے۔ وہ تیرے سر پر شفقت و رحمت کا تاج رکھتا ہے۔
5۔ وہ تجھے عمر بھر اچھی اچھی چیزوں سے آسودہ کرتا ہے۔ تْو عْقاب کی مانند از سرِ نو جوان ہوتا ہے۔
1 Bless the Lord, O my soul: and all that is within me, bless his holy name.
2 Bless the Lord, O my soul, and forget not all his benefits:
3 Who forgiveth all thine iniquities; who healeth all thy diseases;
4 Who redeemeth thy life from destruction; who crowneth thee with lovingkindness and tender mercies;
5 Who satisfieth thy mouth with good things; so that thy youth is renewed like the eagle’s.
9۔ اور اْن دنوں ایسا ہوا کہ یسوع نے گلیل کے ناصرت سے آکر یردن میں یوحنا سے بپتسمہ لیا۔
10۔ اور جب وہ پانی سے نکل کر اوپر آیا تو فی الفور اْس نے آسمان کو پھٹتے اور روح کو کبوتر کی مانند اپنے اوپر اْترتے دیکھا۔
11۔ اور آسمان سے آواز آئی کہ تْو میرا پیارا بیٹا ہے۔ تجھ سے مَیں خوش ہوں۔
29۔ اور وہ فی الفور عبادت خانہ سے نکل کر یعقوب اور یوحنا کے ساتھ شمعون اور اندریاس کے گھر آئے۔
30۔ شمعون کی ساس تپ میں پڑی تھی اور اْنہوں نے فی الفور اْس کی خبر اْسے دی۔
31۔ اْس نے پاس جا کر اور اْس کا ہاتھ پکڑ کر اْسے اْٹھایا اور تپ اْس پر سے اتر گئی اور وہ اْن کی خدمت کرنے لگی۔
32۔ شام کو جب سورج ڈوب گیا تو لوگ سب بیماروں کو اور اْن کو جن میں بدروحیں تھیں اْس کے پاس لائے۔
33۔ اور سارا شہر دروازے پر جمع ہو گیا۔
34۔ اور اْس نے بہتوں کو جو طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار تھے اچھا کیا اور بہت سی بدروحوں کو نکالا اور بد روحوں کو بولنے نہ دیا کیونکہ وہ اْس کو پہچانتی تھیں۔
40۔ اور ایک کوڑھی نے اْس کے پاس آکر اْس کی منت کی اور اْس کے سامنے گھْٹنے ٹیک کر اْس سے کہا اگر تْو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔
41۔ اْس نے اْس پر ترس کھا کر ہاتھ بڑھایا اور اْسے چھْو کر اْس سے کہا مَیں چاہتا ہوں تْو پاک صاف ہوجا۔
42۔ اور فی الفور اْس کا کوڑھ جاتا رہا اور وہ پاک صاف ہوگیا۔
9 Jesus came from Nazareth of Galilee, and was baptized of John in Jordan.
10 And straightway coming up out of the water, he saw the heavens opened, and the Spirit like a dove descending upon him:
11 And there came a voice from heaven, saying, Thou art my beloved Son, in whom I am well pleased.
29 And forthwith, when they were come out of the synagogue, they entered into the house of Simon and Andrew, with James and John.
30 But Simon’s wife’s mother lay sick of a fever, and anon they tell him of her.
31 And he came and took her by the hand, and lifted her up; and immediately the fever left her, and she ministered unto them.
32 And at even, when the sun did set, they brought unto him all that were diseased, and them that were possessed with devils.
33 And all the city was gathered together at the door.
34 And he healed many that were sick of divers diseases, and cast out many devils;
40 And there came a leper to him, beseeching him, and kneeling down to him, and saying unto him, If thou wilt, thou canst make me clean.
41 And Jesus, moved with compassion, put forth his hand, and touched him, and saith unto him, I will; be thou clean.
42 And as soon as he had spoken, immediately the leprosy departed from him, and he was cleansed.
1۔ عیدِ فسح سے پہلے جب یسوع نے جان لیا کہ میرا وہ وقت آ پہنچا کہ دنیا سے رخصت ہو کر باپ کے پاس جاؤں تو اپنے اْن لوگوں سے جو دنیا میں تھے جیسی محبت رکھتا تھا آخر تک محبت رکھتا رہا۔
31۔ جب وہ باہر چلا گیا تو یسوع نے کہا اب ابنِ آدم نے جلال پایا اور خدا نے اْس میں جلال پایا۔
32۔ اور خدا بھی اْسے اپنے میں جلال دے گا بلکہ اْسے فی الفور جلال دے گا۔
33۔ اے بچو! میں اور تھوڑی دیر تمہارے ساتھ ہوں۔تم مجھے ڈھونڈو گے اور جیسا میں نے یہودیوں سے کہا کہ جہاں میں جاتا ہوں تم نہیں آ سکتے ویسا ہی اب تم سے بھی کہتا ہوں۔
34۔میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھوکہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔
35۔اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو۔
1 Now before the feast of the passover, when Jesus knew that his hour was come that he should depart out of this world unto the Father, having loved his own which were in the world, he loved them unto the end.
31 Therefore, when he was gone out, Jesus said, Now is the Son of man glorified, and God is glorified in him.
32 If God be glorified in him, God shall also glorify him in himself, and shall straightway glorify him.
33 Little children, yet a little while I am with you. Ye shall seek me: and as I said unto the Jews, Whither I go, ye cannot come; so now I say to you.
34 A new commandment I give unto you, That ye love one another; as I have loved you, that ye also love one another.
35 By this shall all men know that ye are my disciples, if ye have love one to another.
5۔ توما نے اْس سے کہا اے خداوند ہم نہیں جانتے کہ تْو کہاں جاتا ہے۔ پھر راہ کس طرح جانیں۔
6۔ یسوع نے اْس سے کہا کہ راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔
15۔ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔
16۔ اور مَیں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔
17۔ یعنی روحِ حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اْسے دیکھتی نہ جانتی ہے۔ تم اْسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہوگا۔
5 Thomas saith unto him, Lord, we know not whither thou goest; and how can we know the way?
6 Jesus saith unto him, I am the way, the truth, and the life: no man cometh unto the Father, but by me.
15 If ye love me, keep my commandments.
16 And I will pray the Father, and he shall give you another Comforter, that he may abide with you for ever;
17 Even the Spirit of truth; whom the world cannot receive, because it seeth him not, neither knoweth him: but ye know him; for he dwelleth with you, and shall be in you.
1۔ جو حق تعالیٰ کے پردے میں رہتا ہے وہ قادر مطلق کے سایہ میں سکونت کرے گا۔
2۔ مَیں خداوند کے بارے میں کہوں گا وہی میری پناہ اور میرا گڑھ ہے۔ وہ میرا خدا ہے جس پر میرا توکل ہے۔
3۔ کیونکہ وہ تجھے صیاد کے پھندے سے اور مہلک وبا سے چھڑائے گا۔
4۔ وہ تجھے اپنے پروں سے چھپا لے گا۔ اور تجھے اْس کے بازوؤں کے نیچے پناہ ملے گی۔ اْس کی سچائی ڈھال اور سِپر ہے۔
5۔ تْو نہ رات کی ہیبت سے ڈرے گا اور نہ دن کو اْڑنے والے تیر سے۔
6۔ نہ اْس وبا سے جو اندھیرے میں چلتی ہے۔ نہ اْس ہلاکت سے جو دوپہر کو ویران کرتی ہے۔
7۔ تیرے آس پاس ایک ہزار گِر جائیں گے اور تیرے دہنے ہاتھ کی طرف دس ہزار لیکن وہ تیرے نزدیک نہ آ ئے گی۔
8۔ لیکن تو اپنی آنکھوں سے نگاہ کرے گا۔ اور شریروں کے انجام کو دیکھے گا۔
9۔ پر تْو اے خداوند!میری پناہ ہے! تْو نے حق تعالیٰ کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔
10۔ تجھ پر کوئی آفت نہ آئے گی۔ اور کوئی وبا تیرے خیمہ کے نزدیک نہ پہنچے گی۔
11۔ کیونکہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ تیری سب راہوں میں تیری حفاظت کریں۔
12۔ وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اْٹھا لیں گے تاکہ ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔
14۔ چونکہ اْس نے مجھ سے دل لگایا ہے اِس لئے مَیں اْسے چھڑاؤں گا۔ مَیں اْسے سرفراز کروں گا کیونکہ اْس نے میرا نام پہچانا ہے۔
15۔ وہ مجھے پکارے گا اور مَیں اْسے جواب دوں گا۔ مَیں مصیبت میں اْس کے ساتھ رہوں گا۔ مَیں اْسے چھڑاؤں گا اور عزت بخشوں گا۔
16۔ مَیں اْسے عمر کی درازی سے آسودہ کروں گا۔ اور اپنی نجات اْسے دکھاؤں گا۔
1 He that dwelleth in the secret place of the most High shall abide under the shadow of the Almighty.
2 I will say of the Lord, He is my refuge and my fortress: my God; in him will I trust.
3 Surely he shall deliver thee from the snare of the fowler, and from the noisome pestilence.
4 He shall cover thee with his feathers, and under his wings shalt thou trust: his truth shall be thy shield and buckler.
5 Thou shalt not be afraid for the terror by night; nor for the arrow that flieth by day;
6 Nor for the pestilence that walketh in darkness; nor for the destruction that wasteth at noonday.
7 A thousand shall fall at thy side, and ten thousand at thy right hand; but it shall not come nigh thee.
8 Only with thine eyes shalt thou behold and see the reward of the wicked.
9 Because thou hast made the Lord, which is my refuge, even the most High, thy habitation;
10 There shall no evil befall thee, neither shall any plague come nigh thy dwelling.
11 For he shall give his angels charge over thee, to keep thee in all thy ways.
12 They shall bear thee up in their hands, lest thou dash thy foot against a stone.
14 Because he hath set his love upon me, therefore will I deliver him: I will set him on high because he hath known my name.
15 He shall call upon me, and I will answer him: I will be with him in trouble; I will deliver him, and honour him.
16 With long life will I satisfy him, and shew him my salvation.
یسوع نے مسیح کی شفا کی روحانی بنیاد پر اپنا چرچ قائم کیا اور اپنے مشن کو برقرار رکھا۔ اْس نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ اْس کا مذہب الٰہی اصول تھا، جو خطا کو خارج کرتا اور بیمار اور گناہگار دونوں کو شفا دیتا تھا۔ اْس نے خدا سے جدا کسی دانش، عمل اور نہ ہی زندگی کا دعویٰ کیا۔ باوجود اْس ایذا کے جو اِسی کے باعث اْس پر آئی، اْس نے الٰہی قوت کو انسان کو بدنی اور روحانی دونوں لحاظ سے نجات دینے کے لئے استعمال کیا۔
Jesus established his church and maintained his mission on a spiritual foundation of Christ-healing. He taught his followers that his religion had a divine Principle, which would cast out error and heal both the sick and the sinning. He claimed no intelligence, action, nor life separate from God. Despite the persecution this brought upon him, he used his divine power to save men both bodily and spiritually.
ہمارے مالک نے بیمار کو شفا دی، مسیحی شفا کی مشق کی، اور اپنے طالب علموں کو اِس کے الٰہی اصول کی عمومیات سکھائیں؛ مگر اْس نے شفا کے اِس اصول کو ظاہر کرنے اور بیماری سے محفوظ رہنے کے لئے کوئی حتمی اصول وضع نہیں کیا۔کرسچن سائنس میں یہ اصول دریافت کرنے کے لئے رکھا گیا ہے۔
Our Master healed the sick, practised Christian healing, and taught the generalities of its divine Principle to his students; but he left no definite rule for demonstrating this Principle of healing and preventing disease. This rule remained to be discovered in Christian Science.
سن1866میں، میں نے کرسچن سائنس یا زندگی، سچائی اور محبت کے الٰہی قوانین کو دریافت کیا اور اپنی اس دریافت کو کرسچن سائنس کا نام دیا۔ خدا نہایت شاندار انداز سے مجھے سائنسی ذہنی شفا کے مطلق الٰہی اصول کے اس آخری مکاشفہ کے استقبالیہ کے لئے تیار کررہا تھا۔
In the year 1866, I discovered the Christ Science or divine laws of Life, Truth, and Love, and named my discovery Christian Science. God had been graciously preparing me during many years for the reception of this final revelation of the absolute divine Principle of scientific mental healing.
میری تین سالہ دریافت کے بعد، میں نے عقلی شفا سے متعلق مسئلے کا حل تلاش کیا، آیات کو تلاش کیا اور تھوڑا بہت کچھ اور مطالعہ کیا، معاشرے سے دوری اختیار کی، اور ایک مثبت اصول کی دریافت کے لئے اپنا وقت اور توانائی وقف کی۔یہ تلاش شیریں، پرسکون، امید کے ساتھ خوش کْن تھی، نہ کہ خود غرض اور نہ ہی افسردہ تھی۔۔۔۔میں خدا کو بطورعقل کے ہم آہنگ عمل کے اصول جانتا تھا، اور یہ کہ ابتدائی مسیحی شفا میں علاج پاک، بلند ایمان کے وسیلہ پیدا ہورہے تھے؛ مگر مجھے اِس شفا کی سائنس لازمی جاننا تھی، اور مَیں الٰہی مکاشفہ، وجہ اور اظہار کی بدولت اپنی راہ کی قطعی منازل پر پہنچا۔میرے ادراک میں سچائی کا انکشاف آہستہ آہستہ اور بظاہر الٰہی طاقت کے ذریعے آیا۔
For three years after my discovery, I sought the solution of this problem of Mind-healing, searched the Scriptures and read little else, kept aloof from society, and devoted time and energies to discovering a positive rule. The search was sweet, calm, and buoyant with hope, not selfish nor depressing. I knew the Principle of all harmonious Mind-action to be God, and that cures were produced in primitive Christian healing by holy, uplifting faith; but I must know the Science of this healing, and I won my way to absolute conclusions through divine revelation, reason, and demonstration. The revelation of Truth in the understanding came to me gradually and apparently through divine power.
سائنس کی اصطلاح، مناسب طور پر سمجھی جائے تو خدا کی شریعت اور کائنات بشمول انسان پر اْس حکمرانی کا حوالہ دیتی ہے۔ اِس سے یہ بات سامنے آتی ہے۔ تاجران اور مذہبی علماء نے دیکھا ہے کہ کرسچن سائنس اْن کی برداشت اور ذہنی قوتوں کو فروغ دیتی ہے، کردار کے لئے اْن کی سوچ کو وسیع کرتی ہے، انہیں فراست اور ادراک اور اپنی عام گنجائش کو بڑھانے کی قابلیت دیتی ہے۔ انسانی سوچ روحانی سمجھ سے بھر پور ہوکر مزید لچکدار ہوجاتی ہے، تو یہ بہت برداشت اور کسی حد تک خود سے فرارکے قابل ہوجاتی ہے اور کم آرام طلب ہوتی ہے۔ ہستی کی سائنس کا علم انسان کی قابلیت کے فن اور امکانات کو فروغ دیتا ہے۔ فانی لوگوں کو بلند اور وسیع ریاست تک رسائی دیتے ہوئے یہ سوچ کے ماحول کو بڑھاتا ہے۔ یہ سوچنے والے کو اْس کے ادراک اور بصیرت کی مقامی ہوا میں پروان چڑھاتا ہے۔
The term Science, properly understood, refers only to the laws of God and to His government of the universe, inclusive of man. From this it follows that business men and cultured scholars have found that Christian Science enhances their endurance and mental powers, enlarges their perception of character, gives them acuteness and comprehensiveness and an ability to exceed their ordinary capacity. The human mind, imbued with this spiritual understanding, becomes more elastic, is capable of greater endurance, escapes somewhat from itself, and requires less repose. A knowledge of the Science of being develops the latent abilities and possibilities of man. It extends the atmosphere of thought, giving mortals access to broader and higher realms. It raises the thinker into his native air of insight and perspicacity.
وہ دعا جو گناہگار کو ٹھیک کرتی اور بیمار کو تندرست کرتی ہے وہ مکمل طور پر یہ ایمان ہے کہ خدا کے لئے سب کچھ ممکن ہے، جو اْس سے متعلق ایک روحانی فہم، ایک بے لوث محبت ہے۔
The prayer that reforms the sinner and heals the sick is an absolute faith that all things are possible to God, — a spiritual understanding of Him, an unselfed love.
کرسچن سائنس گناہ گار کو بیدار کرتی ہے، کافر کو سدھارتی ہے، اور بے بس معذور کو درد کے بستر سے اْٹھاتی ہے۔یہ بہرے کو سچائی کی باتیں سناتی ہے، اور وہ خوشی سے جواب دیتے ہیں۔ یہ بہرے کے سننے، لنگڑے کے چلنے اور اندھے کے دیکھنے کا سبب بنتی ہے۔
Christian Science awakens the sinner, reclaims the infidel, and raises from the couch of pain the helpless invalid. It speaks to the dumb the words of Truth, and they answer with rejoicing. It causes the deaf to hear, the lame to walk, and the blind to see. Who would be the first to disown the Christliness of good works, when our Master says, "By their fruits ye shall know them"?
کرسچن سائنس حق کی شریعت ہے، جو واحد عقل یا خدا کی بنیاد پر بیمار کو شفا دیتی ہے۔یہ کسی اور طریقے سے شفا نہیں دے سکتی، کیونکہ انسان، نام نہاد فانی عقل مشفی نہیں ہے، بلکہ بیماری پر ایمان کی وجہ بنتا ہے۔
Christian Science is the law of Truth, which heals the sick on the basis of the one Mind or God. It can heal in no other way, since the human, mortal mind so-called is not a healer, but causes the belief in disease.
چونکہ مصنفہ نے بیماری اوراِس کے ساتھ ساتھ گناہ کے علاج میں سچائی کی طاقت کو دریافت کیا، اْس کا نظام مکمل طور پر تصدیق شدہ تھا اور یہ کبھی نامکمل نہیں رہا؛بلکہ کرسچن سائنس کی بلندی تک پہنچنے کے لئے، انسان کو اِس کے الٰہی اصول کی فرمانبردار زندگی گزارنی چاہئے۔
Since the author's discovery of the might of Truth in the treatment of disease as well as of sin, her system has been fully tested and has not been found wanting; but to reach the heights of Christian Science, man must live in obedience to its divine Principle.
مصنفہ کی مقدس دریافت کے بعد، اْس نے ”سائنس“ کا نام مسیحت کے ساتھ منسلک کیا، جسمانی فہم کے لیے ”غلطی“ کا نام، اور عقل کو ”مادہ“ کا نام دیا۔ سائنس نے اِس مسئلے اور ِاس کے اظہار سے مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کو دعوت دی، جو بیماریوں کو ٹھیک کرتی ہے، غلطیوں کو ختم کرتی ہے، اور ہم آہنگی کو ظاہر کرتی ہے۔ ان فطری کرسچن سائنس دانوں، پرانے نیک لوگوں، اور یسوع مسیح کے ذریعے خدا نے کرسچن سائنس کی روح کو ضرور ظاہر کیا۔
کیونکہ عقل کی سائنس عام سائنسی سکولوں کو اچھی نہیں لگتی، جو صرف جسمانی چیزوں کے ساتھ لڑائی کرتی ہے، اس لیے اِس سائنس کی مخالفت کی گئی؛ لیکن اگر کوئی علم خدا کو عزت بخشتا ہے، تو دانش مند لوگوں کی طرف سے اسے تسلیم کیا جانا چاہئے، نہ کہ ْاس کی مخالف ہونی چاہئے۔اور کرسچن سائنس خدا کی عزت ایسے کرتی ہے جیسے کوئی دوسرا عقیدہ نہیں کرتا، اور وہ یہ سب اْس کے مقررکردہ طریقوں سے کرتی ہے، اْس کے پاک نام اور فطرت کے ذریعے بہت سے حیرت انگیز کام انجام دیتے ہوئے کرتی ہے۔کسی شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے مقصد کو بغیر ڈر یا ضد کے پورا کرے، کسی کام کو بہتر انجام دینے کے لئے اْس کام کو خود غرضی سے پاک ہونا چاہئے۔ مسیحیت کبھی بھی الٰہی اصول پر بنیاد نہیں رکھے گی اور یوں یقینی رہے گی جب تک کہ اَس کی مکمل سائنس تک رسائی نہیں ہوگی۔ جب یہ مکمل ہو جائے، نہ تکبر، تعصب اور نہ ہی حسد اِس کی بنیاد کو تلف کرسکے گی، کیونکہ یہ مضبوط چٹان، مسیح پر رکھی گئی ہے۔
After the author's sacred discovery, she affixed the name "Science" to Christianity, the name "error" to corporeal sense, and the name "substance" to Mind. Science has called the world to battle over this issue and its demonstration, which heals the sick, destroys error, and reveals the universal harmony. To those natural Christian Scientists, the ancient worthies, and to Christ Jesus, God certainly revealed the spirit of Christian Science, if not the absolute letter.
Because the Science of Mind seems to bring into dishonor the ordinary scientific schools, which wrestle with material observations alone, this Science has met with opposition; but if any system honors God, it ought to receive aid, not opposition, from all thinking persons. And Christian Science does honor God as no other theory honors Him, and it does this in the way of His appointing, by doing many wonderful works through the divine name and nature. One must fulfil one's mission without timidity or dissimulation, for to be well done, the work must be done unselfishly. Christianity will never be based on a divine Principle and so found to be unerring, until its absolute Science is reached. When this is accomplished, neither pride, prejudice, bigotry, nor envy can wash away its foundation, for it is built upon the rock, Christ.
سچائی کا لافانی نظریہ،اپنے پروں تلے بیماروں اور گناہگاروں کو یکجا کرتے ہوئے،صدیوں کا احاطہ کررہا ہے۔میری خستہ حال امید اْس خوشی کے دن کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے، جب انسان مسیح کی سائنس کو سمجھے گا اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھے گا، جب وہ یہ جانے گا کہ خدا قادر مطلق ہے اور جو کچھ اْس نے انسان کے لئے کیا ہے اور کر رہا ہے اْس میں الٰہی محبت کی شفائیہ طاقت کو جانے گا۔ وعدے پورے کئے جائیں گے۔ الٰہی شفا کے دوبارہ ظاہر ہونے کا وقت ہمہ وقت ہوتا ہے؛ اور جو کوئی بھی اپنازمینی سب کچھ الٰہی سائنس کی الطار پر رکھتا ہے، وہ اب مسیح کے پیالے میں سے پیتا ہے، اور وہ روح اور مسیحی شفا کی طاقت سے ملبوس ہوتا ہے۔
مقدس یوحنا کے الفاظ میں: ”وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔“ میں الٰہی سائنس کو یہ مددگار سمجھتا ہوں۔
Truth's immortal idea is sweeping down the centuries, gathering beneath its wings the sick and sinning. My weary hope tries to realize that happy day, when man shall recognize the Science of Christ and love his neighbor as himself, — when he shall realize God's omnipotence and the healing power of the divine Love in what it has done and is doing for mankind. The promises will be fulfilled. The time for the reappearing of the divine healing is throughout all time; and whosoever layeth his earthly all on the altar of divine Science, drinketh of Christ's cup now, and is endued with the spirit and power of Christian healing.
In the words of St. John: "He shall give you another Comforter, that he may abide with you forever." This Comforter I understand to be Divine Science.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔