اتوار 3 اگست ، 2025



مضمون۔ محبت

SubjectLove

سنہری متن: گلتیوں 6 باب 2 آیت

تم ایک دوسرے کا بھار اْٹھاؤ، اور یوں مسیح کی شریعت کو پورا کرو۔



Golden Text: Galatians 6 : 2

Bear ye one another’s burdens, and so fulfil the law of Christ.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: 1 پطرس 4 باب 8تا11 آیت


8۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ آپس میں بڑی محبت رکھو کیونکہ محبت بہت سے گناہوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔

9۔ بغیر بڑبڑائے آپس میں مسافر پروری کرو۔

10۔ جن کو جس جس قدر نعمت ملی ہے وہ اْسے خدا کی مختلف نعمتوں کے اچھے مختاروں کی طرح ایک دوسرے کی خدمت میں صرف کریں۔

11۔ اگر کوئی کچھ کہے تو ایسا کہے کہ گویا خدا کا کلام ہے۔ اگر کوئی خدمت کرے تو اْس طاقت کے مطابق کرے جو خدا دے تاکہ سب باتوں میں یسوع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا جلال ظاہر ہو۔ جلال اور سلطنت ابد الا باد اْسی کے ہیں۔ آمین

Responsive Reading: I Peter 4 : 8-11

8.     And above all things have fervent charity among yourselves: for charity shall cover the multitude of sins.

9.     Use hospitality one to another without grudging.

10.     As every man hath received the gift, even so minister the same one to another, as good stewards of the manifold grace of God.

11.     If any man speak, let him speak as the oracles of God; if any man minister, let him do it as of the ability which God giveth: that God in all things may be glorified through Jesus Christ, to whom be praise and dominion for ever and ever. Amen.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ فلپیوں 2 باب3، 4 آیت

3۔ تفرقے اور بے جا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی اور ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھو۔

4۔ ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ ایک دوسرے کے احوال پر بھی نظر رکھے۔

1. Philippians 2 : 3, 4

3     Let nothing be done through strife or vainglory; but in lowliness of mind let each esteem other better than themselves.

4     Look not every man on his own things, but every man also on the things of others.

2 . ۔ یسعیاہ 54 باب2 آیت

2۔ اپنی خیمہ گاہ کو وسیع کردے ہاں اپنے مسکنوں کے پردے پھیلا۔ دریغ نہ کر۔ اپنی ڈوریاں لمبی اور اپنی میخیں مضبوط کر۔

2. Isaiah 54 : 2

2     Enlarge the place of thy tent, and let them stretch forth the curtains of thine habitations: spare not, lengthen thy cords, and strengthen thy stakes;

3 . ۔ روت 1 باب1 (اور ایک)، 2 (تا تیسری)، 3تا6، 8، 14 (اور عرفہ)، 16، 18، 22 آیات

1۔ اور اِن ہی ایام میں جب قاضی انصاف کیا کرتے تھے ایسا ہوا کہ اِس سر زمین میں کال پڑا اور یہوداہ کے بیت لحم کا ایک مرد اپنی بیوی اور دو بیٹوں کو لے کر چلا کہ موآب کے ملک میں جا کر بسے۔

2۔ اِس مرد کا نام الیملک اور اسکی بیوی کا نام نعومی تھا اور اسکے دونوں بیٹوں کے نام محلون اور کلیون تھے۔

3۔ اورنعومی کا شوہر الیملک مر گیا۔ پس وہ اور اْس کے دونوں بیٹے باقی رہ گئے۔

4۔اِن دونوں نے ایک ایک موآبی عورت بیاہ لی۔ اِن میں سے ایک کا نام عرفہ اوردوسری کا نام روت تھا۔ اور وہ دس برس کے قریب وہاں رہے۔

5۔ اورمحلون اور کلیون دونوں مر گئے۔ سو وہ عورت اپنے دونوں بیٹوں اور خاوند سے چھوٹ گئی۔

6۔ تب وہ اپنی دونوں بہوؤں کو لے کر اٹھی کہ موآب کے ملک سے لوٹ جائے اس لئے کہ اْس نے موآب کے ملک میں یہ حال سنا کہ خداوند نے اپنے لوگوں کو روٹی دی اور یوں اْن کی خبر لی۔

8۔ اور نعومی نے اپنی دونوں بہوؤں سے کہا کہ تم دونوں اپنے اپنے میکے کو جاؤ جیسا تم نے مرحوموں کے ساتھ اور جیسا میرے ساتھ کیا ویسا ہی خداوند تمہارے ساتھ مہر سے پیش آئے۔

14۔۔۔۔ اور عرفہ نے اپنی ساس کو چوما پر روت اْس سے لپٹی رہی۔

16۔ روت نے کہا تو منت نہ کر کہ میں تجھے چھوڑوں اورتیرے پیچھے سے لوٹ جاؤں کیونکہ جہاں تو جائے گی میں جاؤں گی اور جہاں تو رہے گی میں رہوں گی تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا۔

18۔ جب اْس نے دیکھا کہ اْس نے اْس کے ساتھ چلنے کی ٹھان لی ہے تو اْس سے اور کچھ نہ کہا۔

22۔ غرض نعومی لوٹی اور اْس کے ساتھ اْس کی بہو موآبی روت جو موآب کے ملک سے یہاں آئی اور وہ دونوں جَو کاٹنے کے موسم میں بیت الحم میں داخل ہوئیں۔

3. Ruth 1 : 1 (And a), 2 (to 3rd ,), 3-6, 8, 14 (and Orpah), 16, 18, 22

1     And a certain man of Beth-lehem-judah went to sojourn in the country of Moab, he, and his wife, and his two sons.

2     And the name of the man was Elimelech, and the name of his wife Naomi, and the name of his two sons Mahlon and Chilion,

3     And Elimelech Naomi’s husband died; and she was left, and her two sons.

4     And they took them wives of the women of Moab; the name of the one was Orpah, and the name of the other Ruth: and they dwelled there about ten years.

5     And Mahlon and Chilion died also both of them; and the woman was left of her two sons and her husband.

6     Then she arose with her daughters in law, that she might return from the country of Moab: for she had heard in the country of Moab how that the Lord had visited his people in giving them bread.

8     And Naomi said unto her two daughters in law, Go, return each to her mother’s house: the Lord deal kindly with you, as ye have dealt with the dead, and with me.

14     and Orpah kissed her mother in law; but Ruth clave unto her.

16     And Ruth said, Intreat me not to leave thee, or to return from following after thee: for whither thou goest, I will go; and where thou lodgest, I will lodge: thy people shall be my people, and thy God my God:

18     When she saw that she was stedfastly minded to go with her, then she left speaking unto her.

22     So Naomi returned, and Ruth the Moabitess, her daughter in law, with her, which returned out of the country of Moab: and they came to Beth-lehem in the beginning of barley harvest.

4 . ۔ روت 2 باب2، 3، 8تا12، 17 (تا،)، 20 (تا پہلی) آیات

2۔ سو موآبی روت نے نعومی سے کہا مجھے اجازت دے تو میں کھیت میں جاؤں اور جو کوئی کرم کی نظر مجھ پر کرے اْس کے پیچھے پیچھے بالیں چْنوں اْس نے اْس سے کہا جا میری بیٹی۔

3۔ سو وہ گئی اور کھیت میں جا کر کاٹنے والوں کے پیچھے جا کر بالیں چننے لگی۔

8۔ تب بوعز نے روت سے کہا اے میری بیٹی! کیا تجھے سنائی نہیں دیتا؟ تْو دوسرے کھیت میں بالیں چننے کو نہ جانا اور نہ یہاں سے نکلنا بلکہ میری چھوکریوں کے ساتھ ساتھ رہنا۔

9۔ اْس کھیت پر جسے وہ کاٹتے ہیں تیری آنکھیں جمی رہیں اورتْو اِن ہی کے پیچھے پیچھے چلنا۔ کیا میں نے اِن جوانوں کو حکم نہیں دیا کہ وہ تجھے نہ چھوئیں؟ اورجب تْو پیاسی ہو تو برتنوں کے پاس جا کر اِسی پانی میں سے پینا جو میرے جوانوں نے بھرا ہے۔

10۔ تب وہ اوندھے منہ گری اورزمین پر سر نگوں ہو کر اْس سے کہا کیا باعث ہے کہ تْو مجھ پر کرم کی نظر کر کے میری خبر لیتا ہے حالانکہ میں پردیسن ہوں؟

11۔ بوعز نے اْس سے کہا کہ جو کچھ تْو نے اپنے خاوند کے مرنے کے بعد اپنی ساس کے ساتھ کیا وہ سب مجھے پورے طور پر بتایا گیا ہے کہ تْو نے کیسے اپنے ماں باپ اورزاد بوم کو چھوڑا اور اِن لوگوں میں جِن کو تْو اس سے پیشتر نہ جانتی تھی آئی۔

12۔خداوند تیرے کام کا بدلہ دے بلکہ خداوند اسرائیل کے خدا کی طرف سے جس کے پروں میں تو پناہ کے لیے آئی ہے تجھ کو پورا اجر ملے۔

17۔ سو وہ شام تک کھیت میں چْنتی رہی۔

20۔ نعومی نے اپنی بہو سے کہا وہ خداوند کی طرف سے برکت پائے جس نے زندوں اور مردوں سے اپنی مہربانی باز نہ رکھی۔

4. Ruth 2 : 2, 3, 8-12, 17 (to ,), 20 (to 1st .)

2     And Ruth the Moabitess said unto Naomi, Let me now go to the field, and glean ears of corn after him in whose sight I shall find grace. And she said unto her, Go, my daughter.

3     And she went, and came, and gleaned in the field after the reapers: and her hap was to light on a part of the field belonging unto Boaz, who was of the kindred of Elimelech.

8     Then said Boaz unto Ruth, Hearest thou not, my daughter? Go not to glean in another field, neither go from hence, but abide here fast by my maidens:

9     Let thine eyes be on the field that they do reap, and go thou after them: have I not charged the young men that they shall not touch thee? and when thou art athirst, go unto the vessels, and drink of that which the young men have drawn.

10     Then she fell on her face, and bowed herself to the ground, and said unto him, Why have I found grace in thine eyes, that thou shouldest take knowledge of me, seeing I am a stranger?

11     And Boaz answered and said unto her, It hath fully been shewed me, all that thou hast done unto thy mother in law since the death of thine husband: and how thou hast left thy father and thy mother, and the land of thy nativity, and art come unto a people which thou knewest not heretofore.

12     The Lord recompense thy work, and a full reward be given thee of the Lord God of Israel, under whose wings thou art come to trust.

17     So she gleaned in the field until even,

20     And Naomi said unto her daughter in law, Blessed be he of the Lord, who hath not left off his kindness to the living and to the dead.

5 . ۔ روت 4 باب13تا17 آیات

13۔ سو بوعز نے روت کو لیا اور وہ اسکی بیوی بنی اور اس نے اس سے خلوت کی اور خداوند کے فضل سے وہ حاملہ ہوئے اور اسکے بیٹا ہوا۔

14۔ اور عورتوں نے نعومی سے کہا کہ خداوند مبارک ہو جس نے آج کے دن تجھے نزدیک کے قرابتی کے بغیر نہیں چھوڑا اور اس کا نام اسرائیل میں مشہور ہو۔

15۔ اور وہ تیرے لئے تیری جان کا بحال کرنے والا اور تیرے بڑھاپے کا پالنے والا ہوگا کیونکہ تیری بہو جو تجھ سے محبت رکھتی ہے اور تیرے لئے سات بیٹوں سے بھی بڑھ کر ہے وہ اْس کی ماں ہے۔

16۔ اور نعومی نے اْس لڑکے کو لے کر اپنی چھاتی سے لگایا اور اْس کی دایہ بنی۔

17۔ اور اسکی پڑوسنوں نے اس بچے کو ایک نام دیا اور کہنے لگی کہ نعومی کے لیے ایک بیٹا پیدا ہوا سو انہوں نے اس کا نام عوبید رکھا وہ یسی کا باپ تھا جو داؤد کا باپ ہے۔

5. Ruth 4 : 13-17

13     So Boaz took Ruth, and she was his wife: and when he went in unto her, the Lord gave her conception, and she bare a son.

14     And the women said unto Naomi, Blessed be the Lord, which hath not left thee this day without a kinsman, that his name may be famous in Israel.

15     And he shall be unto thee a restorer of thy life, and a nourisher of thine old age: for thy daughter in law, which loveth thee, which is better to thee than seven sons, hath born him.

16     And Naomi took the child, and laid it in her bosom, and became nurse unto it.

17     And the women her neighbours gave it a name, saying, There is a son born to Naomi; and they called his name Obed: he is the father of Jesse, the father of David.

6 . ۔ امثال 31 باب10، 13، 17، 18، 20، 26، 27، 30 (ایک)، 31 آیات

10۔ نیکو کار بیوی کس کو ملتی ہے؟ کیونکہ اْس کی قدر مرجَان سے بھی بہت زیادہ ہے۔

13۔ وہ اْون اور کتان ڈھونڈتی ہے اور خوشی کے ساتھ اپنے ہاتھ سے کام کرتی ہے۔

17۔ وہ مضبوطی سے اپنی کمر باندھتی ہے اور اپنے بازوؤں کو مضبوط کرتی ہے۔

18۔ وہ اپنی سوداگری کو سود مند پاتی ہے۔ رات کو اْس کا چراغ نہیں بجھتا۔

20۔ وہ مفلسوں کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتی ہے ہاں وہ اپنے ہاتھ محتاجوں کی طرف بڑھاتی ہے۔

26۔ اْس کے منہ سے حکمت کی باتیں نکلتی ہیں۔ اْس کی زبان پر شفقت کی تعلیم ہے۔

27۔ وہ اپنے گھرانے پر بخوبی نگاہ رکھتی ہے اور کاہلی کی روٹی نہیں کھاتی۔

30۔۔۔۔وہ عورت جو خداوند سے ڈرتی ہے ستْودہ ہوگی۔

31۔ اْس کی محنت کا اجر اْسے دو اور اْس کے کاموں سے مجلس میں اْس کی ستائش کرو۔

6. Proverbs 31 : 10, 13, 17, 18, 20, 26, 27, 30 (a), 31

10     Who can find a virtuous woman? for her price is far above rubies.

13     She seeketh wool, and flax, and worketh willingly with her hands.

17     She girdeth her loins with strength, and strengtheneth her arms.

18     She perceiveth that her merchandise is good: her candle goeth not out by night.

20     She stretcheth out her hand to the poor; yea, she reacheth forth her hands to the needy.

26     She openeth her mouth with wisdom; and in her tongue is the law of kindness.

27     She looketh well to the ways of her household, and eateth not the bread of idleness.

30     a woman that feareth the Lord, she shall be praised.

31     Give her of the fruit of her hands; and let her own works praise her in the gates.

7 . ۔ 1یوحنا 3باب16، 18 آیات

16۔ ہم نے محبت کو اسی سے جانا ہے کہ اْس نے ہمارے واسطے اپنی جان دے دی اور ہم پر بھی بھائیوں کے واسطے جان دینا فرض ہے۔

18۔ اے بچو! ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت رکھیں۔

7. I John 3 : 16, 18

16     Hereby perceive we the love of God, because he laid down his life for us: and we ought to lay down our lives for the brethren.

18     My little children, let us not love in word, neither in tongue; but in deed and in truth.



سائنس اور صح


1 . ۔ 568: 30۔3

خود کی منسوخی، جس کے وسیلہ ہم غلطی کے ساتھ اپنی جنگ میں اپنا سب کچھ سچائی یا مسیح کے حوالے کر دیتے ہیں، کرسچن سائنس کا دستورہے۔ یہ دستور وضاحت کرتا ہے خدا کی بطور الٰہی اصول یعنی زندگی باپ کی پیش کردہ، بطور سچائی، بیٹے کی پیش کردہ،اور بطور محبت ماں کی پیش کردہ۔

2 . ۔ 454: 17۔24

شفا اور تعلیم دونوں میں خدا اور انسان سے محبت سچی ترغیب ہے۔محبت راہ کو متاثر کرتی، روشن کرتی، نامزد کرتی اور راہنمائی کرتی ہے۔ درست مقاصد خیالات کو شہ دیتے، اور کلام اور اعمال کو قوت اور آزادی دیتے ہیں۔محبت سچائی کی الطار پر بڑی راہبہ ہے۔ فانی عقل کے پانیوں پر چلنے اور کامل نظریہ تشکیل دینے کے لئے صبر کے ساتھ الٰہی محبت کا انتظار کریں۔صبر کو ”اپنا پورا کام کرنا چاہئے۔“

3 . ۔ 9: 5۔16

ہر دعا کی پرکھ اِن سوالات کے جواب میں پائی جاتی ہے: کیا ہم اپنے پڑوسی سے اِس حکم کی بنا پر بہتر پیار کرتے ہیں؟ اگرچہ ہم ہمارے دعا کے ساتھ مسلسل زندگی گزارتے ہوئے ہماری التجاؤں کی تابعداری کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرتے، تو کیا کسی بہتر چیز کے لئے دعا کرنے پر مطمئن ہو کر ہم ہماری پرانی خودغرضی کا تعاقب کرتے ہیں؟ اگر خود غرضی نے ہمدردی کو جگہ دے دی ہے، تو ہم ہمارے پڑوسی کے ساتھ بے غرضی سے سلوک رکھیں گے، اور اپنے لعنت بھیجنے والوں کے لئے برکت چاہیں گے؛ لیکن ہم اِس عظیم فرض تک محض یہ مانگنے سے کبھی نہیں پہنچ سکتے کہ یہ بس ہو جائے۔ ہمارے ایمان اور امید کے پھل کا مزہ لینے سے پہلے ہمیں ایک صلیب کو اْٹھانا ہوگا۔

4 . ۔ 205: 22۔31

جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ صرف ایک ہی عقل ہے تو ہمارے پڑوسی کے ساتھ اپنی مانند پیار کرنے کا الٰہی قانون سامنے آتا ہے؛ جبکہ بہت سے حکمران ذہنوں کا ایک عقیدہ واحد عقل، واحدخدا کی جانب انسان کے معمولی جھکاؤ میں رکاوٹ بنتا ہے اور انسانی سوچ کو مخالف راہ کی جانب گامز ن کرتا ہے جہاں خود غرضی حکومت کرتی ہے۔

خودغرضی انسانی وجود کے ستون کی نوک غلطی کی جانب پھیر دیتی ہے نہ کہ سچائی کی جانب۔ عقل کی وحدانیت سے انکار ہماراوزن روح، خدا، اچھائی کے پیمانے پر نہیں بلکہ مادے کے پیمانے پر ڈال دیتا ہے۔

5 . ۔ 88: 18۔20

کسی شخص کااپنے پڑوسی سے اپنی مانند پیار کرنا الٰہی خیال ہے؛ لیکن یہ خیال جسمانی حواس کے وسیلہ کبھی دیکھا، محسوس کیا اور نہ ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

6 . ۔ 57: 18۔30

خوشی روحانی ہے، جو سچائی اور محبت سے پیدا ہوتی ہے۔یہ بے غرض ہے؛ اِس لئے یہ تنہا موجود نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ سب انسانوں میں بٹنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

انسانی محبت بے فائدہ نہیں انڈیلی جاتی، خواہ اِس کا حاصل کچھ بھی نہ ہو۔محبت فطرت کو وسیع کرتے ہوئے، پاک کرتے ہوئے اور بلند کرتے ہوئے اِسے آراستہ کرتی ہے۔ زمین پر جاڑے کے دھماکے محبت کے پھولوں کو اْکھاڑ سکتے اور اْنہیں آندھی میں منتشر کر سکتے ہیں، مگر جسمانی تعلقات کی یہ علیحدگی خدا کے ساتھ مزید قریب ہونے کی سوچ کو یکجا کرتی ہے، کیونکہ محبت اْس وقت تک جدوجہد کرنے والے دل کی حمایت کرتی ہے جب تک کہ وہ زمین پر سانس لینا نہیں چھوڑتا اور آسمان پر پرواز کے لئے اپنے پر کھولنا شروع نہیں کرتا۔

7 . ۔ 266: 6۔16

کیا ذاتی دوستوں کے بغیر وجودیت آپ کے لئے ایک خلا ہوگا؟تو پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آپ تنہا، بغیر کسی ہمدردی کے چھوڑ دئیے جائیں گے؛ مگر یہ ظاہری خلا الٰہی محبت کے ساتھ پہلے سے ہی بھر دیا گیا ہے۔جب ترقی کی یہ گھڑی آتی ہے، تو چاہے آپ ذاتی خوشیوں کے فہم میں مشغول ہوں، روحانی محبت آپ کو اْسے قبول کرنے پر مجبور کرے گی جو آپ کی ترقی بڑھانے کے لئے بہترین ہو۔ دوست دھوکہ دیں گے اور دشمن بہتان لگائیں گے، جب تک کہ آپ کی بلندی کے لئے سبق موزوں نہیں بن جاتا؛ ”کیونکہ آدمی کی انتہا خدا کے لئے موقع ہے۔“مصنف نے مذکورہ بالا پیشن گوئی اور اِس کی برکات کا تجربہ کیا ہے۔

8 . ۔ 518: 13۔21

خدا خود کا تصور بڑے کے ساتھ ایک رابطے کے لئے چھوٹے کو دیتا ہے، اور بدلے میں، بڑا ہمیشہ چھوٹے کو تحفظ دیتا ہے۔روح کے امیراعلیٰ بھائی چارے میں،ایک ہی اصول یا باپ رکھتے ہوئے، غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور مبارک ہے وہ شخص جودوسرے کی بھلائی میں اپنی بھلائی دیکھتے ہوئے، اپنے بھائی کی ضرورت دیکھتا اور پوری کرتا ہے۔ محبت کمزور روحانی خیال کو طاقت، لافانیت اور بھلائی عطا کرتی ہے جو سب میں ایسے ہی روشن ہوتی ہے جیسے شگوفہ ایک کونپل میں روشن ہوتا ہے۔

9 . ۔ 192: 27۔31

الٰہی مابعد الطبیعات کے فہم میں ہم ہمارے مالک کے نمونے کی پیروی کرتے ہوئے محبت اور سچائی کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔مسیحت حقیقی شفا کی بنیاد ہے۔بے لوث محبت کے معاملے میں انسانی سوچ جو کچھ بھی اپناتی ہے وہ براہ راست الٰہی قوت پا لیتی ہے۔

10 . ۔ 138: 17۔31

یسوع نے مسیحی دور میں تمام تر مسیحت، الٰہیات اور شفا کی مثال قائم کی۔ مسیحی لوگ اب بھی براہ راست اِن حکموں کے ماتحت ہیں، جیسے وہ پہلے تھے، کہ مسیح جیسی روح کی ملکیت رکھنا، مسیح کے نمونے کی پیروی کرنا اور بیماروں کے ساتھ ساتھ گناہگاروں کو شفا دینا۔ مسیحت کے لئے گناہ سے زیادہ بیماری کو باہر نکالنا آسان ہے، کیونکہ بیمار لوگ درد سے الگ ہونے کے لئے جلدی تیار ہوتے ہیں بہ نسبت اِس کے کہ گناہگار لوگ گناہ، نام نہاد حواس کی لذت کو ترک کریں۔ کوئی بھی مسیحی اِس بات کو جلدی سے ثابت کر سکتا ہے جیسے صدیوں پہلے کیا جاتا تھا۔

ہمارے مالک نے ہر پیروکار سے کہا: ”تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو!۔۔۔بیماروں کو شفا دو!۔۔۔اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھو!“یسوع کی یہی وہ الٰہیات ہے جس نے بیماروں اور گناہگاروں کو شفا بخشی۔

11 . ۔ 571: 15۔21

ہر دور اور ہر حال میں، بدی پر اچھائی کے ساتھ قابو پائیں۔ خود کو جانیں تو خدا بدی پر فتح مندی کے لئے حکمت اور موقع فراہم کرے گا۔ محبت کے لباس میں ملبوس ہوں، تو انسانی نفرت آپ تک پہنچ نہیں سکتی۔ بلند انسانیت کا سیمنٹ تمام مفادات کو ایک الوہیت میں متحد رکھے گا۔

12 . ۔ 264: 24۔27

روحانی زندگی اور برکت ہی واحد ثبوت ہیں جن کے وسیلہ ہم حقیقی وجودیت کو پہچان سکتے اور ناقابل بیان امن کو محسوس کرتے ہیں جو سب جذب کرنے والی روحانی محبت سے نکلتا ہے۔

13 . ۔ 467: 9۔16

اس بات کی پوری طرح سے سمجھ آجانی چاہئے کہ تمام انسانوں کی عقل ایک ہے، ایک خدا اور باپ، ایک زندگی، حق اور محبت ہے۔ جب یہ حقیقت ایک تناسب میں ایاں ہوگی تو انسان کامل ہوجائے گا، جنگ ختم ہو جائے گی اور انسان کا حقیقی بھائی چارہ قائم ہو جائے گا۔دوسرے دیوتا نہ ہونا، دوسروں کی طرف جانے کی بجائے راہنمائی کے لئے ایک کامل عقل کے پاس جاتے ہوئے، انسان خدا کی مانند پاک اور ابدی ہوجاتا ہے، جس کے پاس وہی عقل ہے جو مسیح میں بھی تھی۔

14 . ۔ 266: 18 (عالمگیر)۔19

عالمگیر محبت کرسچن سائنس میں الٰہی راہ ہے۔


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔