اتوار 7 ستمبر ، 2025



مضمون۔ انسان

SubjectMan

سنہری متن: عبرانیوں 11 باب6 آیت

اور بغیر ایمان کے ]خدا [کو پسند آنا ناممکن ہے۔



Golden Text: Hebrews 11 : 6

Without faith it is impossible to please [God].





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: زبور 31: 1، 5، 13، 14، 18، 19، 24 آیات


1۔ اے خداوند! میرا توکل تجھ پر ہے۔ مجھے کبھی شرمندہ نہ ہونے دے۔ اپنی صداقت کی خاطر مجھے رہائی دے۔

5۔ مَیں اپنی روح تیرے ہاتھ میں سونپتا ہوں۔ اے خداوند! سچائی کے خدا! تْو نے میرا فدیہ دیا ہے۔

13۔کیونکہ میں نے بہتوں سے اپنی بدنامی سنی ہے۔ہر طرف خوف ہی خوف ہے جب انہوں نے مل کر میرے خلاف مشورہ کیا، تو میری جان لینے کا منصوبہ باندھا۔

14۔ اے خداوند! میرا توکل تجھ پر ہے۔ مَیں نے کہا تْو میرا خدا ہے۔

18۔جھوٹے ہونٹ بند ہو جائیں جو صادقوں کے خلاف غرور اور حقارت سے تکبر کی باتیں بولتے ہیں۔

19۔آہ! تو نے اپنے ڈرنے والوں کے لیے کیسی بڑی نعمت رکھ چھوڑی ہے۔جسے تو نے بنی آدم کے سامنے اپنے توکل کرنے والوں کے لیے تیار کیا۔

24۔اے خداوند پر آس رکھنے والو! سب مضبوط ہو اور تمہارا دل قوی رہے۔

Responsive Reading: Psalm 31 : 1, 5, 13, 14, 18, 19, 24

1.     In thee, O Lord, do I put my trust; let me never be ashamed: deliver me in thy righteousness.

5.     Into thine hand I commit my spirit: thou hast redeemed me, O Lord God of truth.

13.     For I have heard the slander of many: fear was on every side: while they took counsel together against me, they devised to take away my life.

14.     But I trusted in thee, O Lord: I said, Thou art my God.

18.     Let the lying lips be put to silence; which speak grievous things proudly and contemptuously against the righteous.

19.     Oh how great is thy goodness, which thou hast laid up for them that fear thee; which thou hast wrought for them that trust in thee before the sons of men!

24.     Be of good courage, and he shall strengthen your heart, all ye that hope in the Lord.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 103: 1 تا 3 آیات

1۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور جو کچھ مجھ میں ہے اْس کے قدوس نام کو مبارک کہے۔

2۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور اْس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر۔

3۔ وہ تیری ساری بدکاری بخشتا ہے۔ وہ تجھے تمام بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔

1. Psalm 103 : 1-3

1     Bless the Lord, O my soul: and all that is within me, bless his holy name.

2     Bless the Lord, O my soul, and forget not all his benefits:

3     Who forgiveth all thine iniquities; who healeth all thy diseases;

2 . ۔ زبور 19: 7 تا 10 آیات

7۔ خداوند کی شریعت کامل ہے۔ وہ جان کو بحال کرتی ہے۔ خداوندکی شہادت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے۔

8۔ خداوند کے قوانین راست ہیں۔ وہ دِل کو فرحت پہنچاتے ہیں۔ خداوند کا حکم بے عیب ہے۔ وہ آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔

9۔ خداوند کا خوف پاک ہے۔ وہ ابد تک قائم رہتا ہے۔ خداوند کے احکام برحق اور بالکل راست ہیں۔

2. Psalm 19 : 7-10

7     The law of the Lord is perfect, converting the soul: the testimony of the Lord is sure, making wise the simple.

8     The statutes of the Lord are right, rejoicing the heart: the commandment of the Lord is pure, enlightening the eyes.

9     The fear of the Lord is clean, enduring for ever: the judgments of the Lord are true and righteous altogether.

10     More to be desired are they than gold, yea, than much fine gold: sweeter also than honey and the honeycomb.

3 . ۔ خروج 17: 1تا 7 آیات

1۔ پھر بنی اسرائیل کی ساری جماعت نسین کے بیابان سے چلی اور خداوند کے حکم کے مطابق سفر کرتی ہوئی رفیدیم میں آکر ڈیرا کیا۔ وہاں اْن لوگوں کو پینے کا پانی نہ ملا۔

2۔ وہاں وہ لوگ موسیٰ سے جھگڑا کر کے کہنے لگے کہ ہم کو پینے کو پانی دے۔ موسیٰ نے اْن سے کہا تم مجھ سے کیوں جھگڑتے ہو اور خداوند کو کیوں آزماتے ہو؟

3۔ وہاں اْن لوگوں کو بڑی پیاس لگی۔ سو وہ لوگ موسیٰ پر بڑبڑانے لگے اور کہا کہ تم ہم کو اور ہمارے بچوں اور چوپائیوں کو پیاسا مرنے کیلئے ہم لوگوں کو کیوں ملک مصر سے نکال لایا؟

4۔ موسیٰ نے خداوند سے فریاد کر کے کہا مَیں اِن لوگوں سے کیا کروں؟ وہ سب تو ابھی مجھے سنگسار کرنے کو تیار ہیں۔

5۔ خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ لوگوں کے آگے ہو کر چل اور بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے چند کو اپنے ساتھ لے لے اور جس لاٹھی سے تْو نے دریا پر مارا تھا اْسے اپنے ہاتھ میں لیتا جا۔

6۔ دیکھ میں تیرے آگے جا کر وہاں حوریب کی ایک چٹان پر کھڑا رہوں گا اور تْو اْس چٹان پر مارنا تو اْس میں سے پانی نکلے گا کہ یہ لوگ پئیں۔ چنانچہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کے بزرگوں کے سامنے یہی کیا۔

7۔اور اْس نے اْس جگہ کا نام مسہ اور مریبہ رکھا کیونکہ بنی اسرائیل نے وہاں جھگڑا کیا اور یہ کہہ کر خداوند کا امتحان کیا کہ خداوند ہمارے بیچ میں ہے یا نہیں۔

3. Exodus 17 : 1-7

1     And all the congregation of the children of Israel journeyed from the wilderness of Sin, after their journeys, according to the commandment of the Lord, and pitched in Rephidim: and there was no water for the people to drink.

2     Wherefore the people did chide with Moses, and said, Give us water that we may drink. And Moses said unto them, Why chide ye with me? wherefore do ye tempt the Lord?

3     And the people thirsted there for water; and the people murmured against Moses, and said, Wherefore is this that thou hast brought us up out of Egypt, to kill us and our children and our cattle with thirst?

4     And Moses cried unto the Lord, saying, What shall I do unto this people? they be almost ready to stone me.

5     And the Lord said unto Moses, Go on before the people, and take with thee of the elders of Israel; and thy rod, wherewith thou smotest the river, take in thine hand, and go.

6     Behold, I will stand before thee there upon the rock in Horeb; and thou shalt smite the rock, and there shall come water out of it, that the people may drink. And Moses did so in the sight of the elders of Israel.

7     And he called the name of the place Massah, and Meribah, because of the chiding of the children of Israel, and because they tempted the Lord, saying, Is the Lord among us, or not?

4 . ۔ لوقا 5: 12 تا 14 آیات

12۔ جب وہ شہر میں تھا تو دیکھو کوڑھ سے بھرا ہوا ایک آدمی یسوع کو دیکھ کر منہ کے بل گرا اور اْس کی منت کر کے کہنے لگا اے خداوند! اگر تْو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔

13۔ اْس نے ہاتھ بڑھا کر اْسے چھوْا اور کہا مَیں چاہتا ہوں تْو پاک صاف ہو جا اور فوراً اْس کا کوڑھ جاتا رہا۔

14۔ اور اْس نے اْسے تاکید کی کہ کسی سے نہ کہنا بلکہ جا کر اپنے تئیں کاہن کو دکھا اور جیسا موسیٰ نے مقرر کیا ہے اپنے پاک صاف ہو جانے کی بابت نذر گزران تاکہ اْن کے لئے گواہی ہو۔

4. Luke 5 : 12-14

12     And it came to pass, when he was in a certain city, behold a man full of leprosy: who seeing Jesus fell on his face, and besought him, saying, Lord, if thou wilt, thou canst make me clean.

13     And he put forth his hand, and touched him, saying, I will: be thou clean. And immediately the leprosy departed from him.

14     And he charged him to tell no man: but go, and shew thyself to the priest, and offer for thy cleansing, according as Moses commanded, for a testimony unto them.

5 . ۔ لوقا 17: 5 آیت

5۔اس پر رسولوں نے خداوند سے کہا ہمارے ایمان کو بڑھا۔

5. Luke 17 : 5

5     And the apostles said unto the Lord, Increase our faith.

6 . ۔ مرقس 10: 46 تا 52 آیات

46۔اور جب وہ اور اْس کے شاگرد اور ایک بڑی بھیڑ یریحو سے نکلے تو تمائی کا بیٹا برتمائی اندھا فقیر راہ کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔

47۔ اور یہ سْن کر کہ یسوع ناصری ہے چلا چلا کر کہنے لگا اے ابنِ داؤد! اے یسوع! مجھ پر رحم کر۔

48۔ اور بہتوں نے اْسے ڈانٹا کہ چپ رہے مگر وہ اور بھی زیادہ چلایا کہ اے ابنِ داؤ دمجھ پر رحم کر۔

49۔ یسوع نے کھڑے ہو کر کہا اْسے بلاؤ۔پس اْنہوں نے اْس اندھے کو یہ کہہ کر بلایا کہ خاطر جمع رکھ۔ اْٹھ وہ تجھے بلاتا ہے۔

50۔ وہ اپنا کپڑا پھینک کر اْچھل پڑا اور یسوع کے پاس آیا۔

51۔ یسوع نے اْس سے کہا تْو کیا چاہتا ہے کہ مَیں تیرے لئے کروں؟ اندھے نے اْس سے کہا اے ربونی! یہ کہ مَیں بینا ہو جاؤں۔

52۔ یسوع نے اْس سے کہا جا تیرے ایمان نے تجھے اچھا کر دیا۔وہ فی الفور بینا ہو گیا اور راہ میں اْس کے پیچھے ہو لیا۔

6. Mark 10 : 46-52

46     And they came to Jericho: and as he went out of Jericho with his disciples and a great number of people, blind Bartimæus, the son of Timæus, sat by the highway side begging.

47     And when he heard that it was Jesus of Nazareth, he began to cry out, and say, Jesus, thou Son of David, have mercy on me.

48     And many charged him that he should hold his peace: but he cried the more a great deal, Thou Son of David, have mercy on me.

49     And Jesus stood still, and commanded him to be called. And they call the blind man, saying unto him, Be of good comfort, rise; he calleth thee.

50     And he, casting away his garment, rose, and came to Jesus.

51     And Jesus answered and said unto him, What wilt thou that I should do unto thee? The blind man said unto him, Lord, that I might receive my sight.

52     And Jesus said unto him, Go thy way; thy faith hath made thee whole. And immediately he received his sight, and followed Jesus in the way.

7 . ۔ مرقس 11: 23، 24 آیات

23۔میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کوئی اس پہاڑ سے کہے تْو اکھڑ جا اور سمندر میں جا پڑ اور اپنے دل میں شک نہ کرے کہ جو کہتا ہے وہ ہو جائے گا تو اْس کے لیے وہی ہو گا۔

24۔اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کچھ تم دعا میں مانگتے ہو یقین کرو کہ تم کو مل گیا اور وہ تم کو مل جائے گا۔

7. Mark 11 : 23, 24

23     For verily I say unto you, That whosoever shall say unto this mountain, Be thou removed, and be thou cast into the sea; and shall not doubt in his heart, but shall believe that those things which he saith shall come to pass; he shall have whatsoever he saith.

24     Therefore I say unto you, What things soever ye desire, when ye pray, believe that ye receive them, and ye shall have them.

8 . ۔ عبرانیوں 11: 17، 19، 23 تا 29 آیات

17۔ایمان ہی سے ابراہام نے آزمائش کے وقت اضحاق کو نذرگزرانا اور جس نے وعدوں کو سچ مان لیا تھا وہ اْس اکلوتے کو نذر کرنے لگا۔

19۔کیونکہ وہ سمجھا کہ خدا مْردوں میں سے جِلانے پر بھی قادر ہے چنانچہ اْن ہی میں سے تمثیل کے طور پر وہ اْسے پھر ملا۔

23۔ایمان ہی سے موسیٰ کے ماں باپ نے اْس کے پیدا ہونے کے بعد تین مہینے تک اْس کو چھپائے رکھا کیونکہ اْنہوں نے دیکھا کہ بچہ خوبصورت ہے اور وہ بادشاہ کے حکم سے نہ ڈرے۔

24۔ ایمان ہی سے موسیٰ نے بڑے ہو کر فرعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے سے انکار کیا۔

25۔اس لیے کہ اْس نے گناہ کا چند روزہ لطف اْٹھانے کی نسبت خدا کی اْمت کے ساتھ بد سلوکی برداشت کرنا زیادہ پسند کیا۔

26۔اور مسیح کے لیے لعن طعن اْٹھانے کو مصر کے خزانوں سے بڑی دولت جانا کیونکہ اْس کی نگاہ اجر پانے پر تھی۔

27۔ ایمان ہی سے اْس نے بادشاہ کے غصے کا خوف نہ کر کے مصر کو چھوڑ دیا۔ اِس لئے کہ وہ اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابت قدم رہا۔

28۔ایمان ہی سے اْس نے فسح کرنے اور خون چھڑکنے پر عمل کیا تاکہ پہلوٹھوں کا ہلاک کرنے والا بنی اسرائیل کو ہاتھ نہ لگائے۔

29۔ ایمان ہی سے وہ بحرِ قلزم سے اِس طرح نکل گئے جیسے خشک زمین پر سے اور جب مصریوں نے یہ قصد کیا تو ڈوب گئے۔

8. Hebrews 11 : 17, 19, 23-29

17     By faith Abraham, when he was tried, offered up Isaac: and he that had received the promises offered up his only begotten son,

19     Accounting that God was able to raise him up, even from the dead; from whence also he received him in a figure.

23     By faith Moses, when he was born, was hid three months of his parents, because they saw he was a proper child; and they were not afraid of the king’s commandment.

24     By faith Moses, when he was come to years, refused to be called the son of Pharaoh’s daughter;

25     Choosing rather to suffer affliction with the people of God, than to enjoy the pleasures of sin for a season;

26     Esteeming the reproach of Christ greater riches than the treasures in Egypt: for he had respect unto the recompence of the reward.

27     By faith he forsook Egypt, not fearing the wrath of the king: for he endured, as seeing him who is invisible.

28     Through faith he kept the passover, and the sprinkling of blood, lest he that destroyed the firstborn should touch them.

29     By faith they passed through the Red sea as by dry land: which the Egyptians assaying to do were drowned.

9 . ۔ 2 کرنتھیوں 5: 7 آیت

7۔ (کیونکہ ہم ایمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔)

9. II Corinthians 5 : 7

7     (For we walk by faith, not by sight:)



سائنس اور صح


1 . ۔ 145: 7۔32

ہمارے مالک کا ایمان پر پہلا مضمون شفا تھا جو اْس نے اپنے طالب علموں کو پیش کیا،اور اْس نے اپنے کاموں سے اپنے ایمان کو ثابت کیا۔قدیم مسیحی معالج تھے۔مسیحت کا یہ عنصر کھو کیوں گیا ہے؟ کیونکہ ہمارا مذہبی نظام کم و بیش ہمارے طبی نظاموں کے زیر اطاعت ہوگیا ہے۔پہلی بت پرستی مادے پر یقین تھا۔سکولوں نے خدائی پر ایمان کی بجائے، منشیات کے فیشن پر ایمان کو فروغ دیا ہے۔

1. 145 : 32-7

Our Master’s first article of faith propounded to his students was healing, and he proved his faith by his works. The ancient Christians were healers. Why has this element of Christianity been lost? Because our systems of religion are governed more or less by our systems of medicine. The first idolatry was faith in matter. The schools have rendered faith in drugs the fashion, rather than faith in Deity.

2 . ۔ 373: 1۔7

اگر تمام اخلاقی سوالات کے مطابق ہم مسیحی ہیں مگر اْس جسمانی استثنیٰ کے لئے تاریکی میں جو مسیحیت میں شامل ہوتی ہے، تو پھر ہمیں اِس موضوع پر خداپر اور زیادہ بھروسہ رکھنا چاہئے اور اْس کے وعدوں کے لئے زیادہ جوشیلے ہونا چاہئے۔

2. 373 : 1-5

If we are Christians on all moral questions, but are in darkness as to the physical exemption which Christianity includes, then we must have more faith in God on this subject and be more alive to His promises.

3 . ۔ 387: 27۔32

مسیحت کی تاریخ اْس آسمانی باپ، قادرِمطلق فہم، کے عطا کردہ معاون اثرات اور حفاظتی قوت کے شاندار ثبوتوں کو مہیا کرتی ہے جو انسان کو ایمان اور سمجھ مہیا کرتا ہے جس سے وہ خود کو بچا سکتا ہے نہ صرف آزمائش سے بلکہ جسمانی دْکھوں سے بھی۔

3. 387 : 27-32

The history of Christianity furnishes sublime proofs of the supporting influence and protecting power bestowed on man by his heavenly Father, omnipotent Mind, who gives man faith and understanding whereby to defend himself, not only from temptation, but from bodily suffering.

4 . ۔ 298: 2۔7

زندگی، سچائی اور محبت الٰہی سائنس کی حقیقتیں ہیں۔ ان کا آغاز ایمان میں ہوتا ہے اور روحانی سمجھ میں مکمل مدار کے ساتھ روشن ہوتے ہیں۔ جیسے بادل سورج کو چھپا لیتا ہے مگر اْسے بجھا نہیں سکتا، ویسے ہی جھوٹا عقیدہ عارضی طور پر ناقابل تغیر ہم آہنگی کی آواز کوخاموش کر دیتا ہے مگر جھوٹا عقیدہ ایمان، امید اور پھلوں سے مسلح سائنس کو تباہ نہیں کرسکتا۔

4. 298 : 2-7

Life, Truth, and Love are the realities of divine Science. They dawn in faith and glow full-orbed in spiritual understanding. As a cloud hides the sun it cannot extinguish, so false belief silences for a while the voice of immutable harmony, but false belief cannot destroy Science armed with faith, hope, and fruition.

5 . ۔ 146: 5۔13

مادی دواخدا کی قوت کو منشیات سے تبدیل کرتی ہے، حتیٰ کہ انسانی طاقت سے بھی، تاکہ جسم کو شفا دے سکے۔وہ فلسفیانہ نظام جونجات کے لئے الٰہی اصول، یسوع بطور انسان پر جو خدا کا شفا دینے والا نمائندہ ہے اور اْس کی سائنس کی بجائے کسی شخص پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ خاموش کر دیا گیا ہے۔کیوں؟ کیونکہ سچائی اْن کی فرضی قوت کی مادی دوا کو منقسم کرتی اور روح کو بالادستی سے ملبوس کرتی ہے۔سائنس ”تیری بستیوں کا مسافر“ ہے، جسے یاد نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ اس کے بلند و بالا اثرات اس کی الٰہی اصلیت اور افادیت کو عملی طور پر ثابت کرتے ہیں۔

الٰہی سائنس اس کی منظوری بائبل سے پاتی ہے، اور سائنس کی الٰہی اصلیت بیماری اور گناہ سے شفا کے دوران سچائی کے پاک اثر کے وسیلہ ظاہر کی جاتی ہے۔سچائی کی یہ شفائیہ قوت اْس دور سے بھی کہیں پیشتر سے ہے جب یسوع رہا کرتا تھا۔ یہ ”قدیم زمانوں“ جتنی پرانی ہے۔ یہ ازل سے رہتی ہے اور مکمل وسعت رکھتی ہے۔

الٰہی ما بعد الطبیعات اب ایک ایسے نظام میں ڈھل گئی ہے جو سمجھنے میں آسان ہے اور جسے ہمارے موجودہ زمانے کے خیال کے مطابق بنا دیا گیا ہے۔ یہ نظام سیکھنے والے کو وہ الٰہی اصول سمجھانے کے قابل بناتا ہے جس پر یسوع کی شفا دینے کی طاقت قائم تھی، اور یہ اصول آج بھی بیماری کا علاج کرنے میں کام آ سکتا ہے۔

5. 146 : 13-5

Material medicine substitutes drugs for the power of God — even the might of Mind — to heal the body. Scholasticism clings for salvation to the person, instead of to the divine Principle, of the man Jesus; and his Science, the curative agent of God, is silenced. Why? Because truth divests material drugs of their imaginary power, and clothes Spirit with supremacy. Science is the "stranger that is within thy gates," remembered not, even when its elevating effects practically prove its divine origin and efficacy.

Divine Science derives its sanction from the Bible, and the divine origin of Science is demonstrated through the holy influence of Truth in healing sickness and sin. This healing power of Truth must have been far anterior to the period in which Jesus lived. It is as ancient as "the Ancient of days." It lives through all Life, and extends throughout all space.

Divine metaphysics is now reduced to a system, to a form comprehensible by and adapted to the thought of the age in which we live. This system enables the learner to demonstrate the divine Principle, upon which Jesus' healing was based, and the sacred rules for its present application to the cure of disease.

6 . ۔ 367: 19۔ 30

کیونکہ سچائی لامتناہی ہے، اس لئے سچائی کو کچھ بھی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ کیونکہ سچائی اچھائی میں قادر مطلق ہے، تو غلطی، سچائی کی مخالف، میں کوئی طاقت نہیں ہے۔ لیکن بدی عدم کا ہم وزن مدِ مقابل ہے۔عظیم ترین غلطی بلند و بالا اچھائی کی جعلی مخالف ہے۔ سائنس سے اجاگر ہونے والا اعتماد اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ سچائی حقیقی ہے اور غلطی غیر حقیقی۔ غلطی سچائی کے سامنے بْزدل ہے۔الٰہی سائنس اِس پر اصرار کرتی ہے کہ وقت یہ سب کچھ ثابت کرے گا۔ سچائی اور غلطی دونوں بشر کی سوچ سے کہیں زیادہ قریب تر ہوئے ہیں، اور سچائی پھر بھی واضح تر ہوتی جائے گی کیونکہ غلطی خودکو تباہ کرنے والی ہے۔

اِن جھوٹے عقائد کے خلاف کہ غلطی اْتنی ہی حقیقی ہے جتنی سچائی ہے، کہ بدی اگر برتر نہیں تو اچھائی کی طاقت کے برابر ہے، اور کہ مخالفت اْتنی ہی عمومی ہے جتنی ہم آہنگی ہے، حتیٰ کہ بیماری اور گناہ کی قید سے آزادی کی امید بھی اعصابی کوششوں پر بہت کم اثر رکھتی ہے۔جب ہم غلطی سے زیادہ زندگی کی سچائی پرایمان رکھتے ہیں، مادے سے زیادہ روح پر بھروسہ رکھتے ہیں، مرنے سے زیادہ جینے پر بھروسہ رکھتے ہیں، انسان سے زیادہ خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں، تو کوئی مادی مفرضے ہمیں بیماروں کو شفا دینے اور غلطی کو نیست کرنے سے نہیں روک سکتے۔

6. 367 : 30-19

Because Truth is infinite, error should be known as nothing. Because Truth is omnipotent in goodness, error, Truth's opposite, has no might. Evil is but the counterpoise of nothingness. The greatest wrong is but a supposititious opposite of the highest right. The confidence inspired by Science lies in the fact that Truth is real and error is unreal. Error is a coward before Truth. Divine Science insists that time will prove all this. Both truth and error have come nearer than ever before to the apprehension of mortals, and truth will become still clearer as error is self-destroyed.

Against the fatal beliefs that error is as real as Truth, that evil is equal in power to good if not superior, and that discord is as normal as harmony, even the hope of freedom from the bondage of sickness and sin has little inspiration to nerve endeavor. When we come to have more faith in the truth of being than we have in error, more faith in Spirit than in matter, more faith in living than in dying, more faith in God than in man, then no material suppositions can prevent us from healing the sick and destroying error.

7 . ۔ 226: 2۔14

خدا نے انسانی حقوق کا ایک بلند تر مقام تعمیر کر رکھا ہے، اور اِسے اْس نے الٰہی دعوں پر تعمیر کیا ہے۔ یہ دعوے اشاروں یا عقائد کے وسیلہ نہیں بنائے گئے، بلکہ ”زمین پر اْن آدمیوں سے جن سے راضی ہو صلح“ کے اظہار سے۔انسانی ضابطے، نظریہ پرستی کی الٰہیات، مادی دوا اور حفظانِ صحت، ایمان اور روحانی فہم کو زنجیر ڈالتے ہیں۔ الٰہی سائنس اِن زنجیروں کو ریزہ ریزہ توڑ دیتی ہے، اورانسان کا اپنے خالق کے ساتھ بلا شراکت تابعداری کا پیدائشی حق خود کو مضبوط کرتا ہے۔

مَیں نے اپنے سامنے کسی بیمار کو دیکھا، جو اِس عقیدے میں ایک غیر حقیقی مالک کی غلامی کو برسوں سے اوڑھے ہوئے تھا کہ وہ عقل کی بجائے بدن پر حکمرانی کرتے ہیں۔

لنگڑا، گونگا، بہرہ، اندھا، بیمار، جنس پرست،گناہگار، میری خواہش تھی کہ یہ اپنے عقائد کی غلامی سے اور فرعونوں کے تعلیمی نظام سے رہائی پائیں، جو آج، ماضی کی طرح، اسرائیلی قوم کو قید میں رکھتے ہیں۔ میں نے اپنے سامنے ہولناک تصادم دیکھا، بحیرہ قلزم اور بیابان؛ مگر میں نے خدا پر ایمان رکھ کر، سچائی، مضبوط نجات دہندہ پر بھروسہ کر کے سفر جاری رکھا، کہ وہ مجھے کرسچن سائنس کی سر زمین میں راہنمائی دے، جہاں بیڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور انسان کے حقوق کومکمل طور پر سمجھا اور تسلیم کیاجاتا ہے۔

7. 226 : 14-2

God has built a higher platform of human rights, and He has built it on diviner claims. These claims are not made through code or creed, but in demonstration of "on earth peace, good-will toward men." Human codes, scholastic theology, material medicine and hygiene, fetter faith and spiritual understanding. Divine Science rends asunder these fetters, and man's birthright of sole allegiance to his Maker asserts itself.

I saw before me the sick, wearing out years of servitude to an unreal master in the belief that the body governed them, rather than Mind.

The lame, the deaf, the dumb, the blind, the sick, the sensual, the sinner, I wished to save from the slavery of their own beliefs and from the educational systems of the Pharaohs, who to-day, as of yore, hold the children of Israel in bondage. I saw before me the awful conflict, the Red Sea and the wilderness; but I pressed on through faith in God, trusting Truth, the strong deliverer, to guide me into the land of Christian Science, where fetters fall and the rights of man are fully known and acknowledged.

8 . ۔ 496: 5۔8

آپ یہ سیکھیں گے کہ کرسچن سائنس میں پہلا فرض خدا کی فرمانبرداری کرنا، ایک عقل رکھنا اور دوسروں کے ساتھ اپنی مانند محبت رکھنا ہے۔

8. 496 : 5-8

You will learn that in Christian Science the first duty is to obey God, to have one Mind, and to love another as yourself.

9 . ۔ 295: 5۔15

خدا کائنات کو،بشمول انسان،خلق کرتا اور اْس پر حکومت کرتا ہے، یہ کائنات روحانی خیالات سے بھری پڑی ہے، جنہیں وہ تیار کرتا ہے، اور وہ اْس عقل کی فرمانبرداری کرتے ہیں جو انہیں بناتی ہے۔ فانی عقل مادی کو روحانی میں تبدیل کر دے گی، اور پھر انسان کی اصل خودی کو غلطی کی فانیت سے رہا کرنے کے لئے ٹھیک کرے گی۔ فانی لوگ غیر فانیوں کی مانند خدا کی صورت پر پیدا نہیں کئے گئے، بلکہ لامحدود روحانی ہستی کی مانند فانی ضمیر بالا آخر سائنسی حقیقت کو تسلیم کرے گا اور غائب ہو جائے گا،اور ہستی کا،کامل اور ہمیشہ سے برقرار حقیقی فہم سامنے آئے گا۔

9. 295 : 5-15

God creates and governs the universe, including man. The universe is filled with spiritual ideas, which He evolves, and they are obedient to the Mind that makes them. Mortal mind would transform the spiritual into the material, and then recover man's original self in order to escape from the mortality of this error. Mortals are not like immortals, created in God's own image; but infinite Spirit being all, mortal consciousness will at last yield to the scientific fact and disappear, and the real sense of being, perfect and forever intact, will appear.

10 . ۔ 430: 6۔7

مادے کی بجائے روح پر انحصار کرتے ہوئے ایمان کو اپنی حدود کو وسیع کرنا اور اپنی بنیاد کو مضبوط کرنا چاہئے۔

10. 430 : 6-7

Faith should enlarge its borders and strengthen its base by resting upon Spirit instead of matter.

11 . ۔ 429: 27۔28 (تا،)

ہمیں ہمارے مالک کی تمام باتوں پر ایمان رکھنا چاہئے۔

11. 429 : 27-28 (to ,)

We must have faith in all the sayings of our Master,


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔