اتوار 26 اکتوبر ، 2025



مضمون۔ موت کے بعد امتحان

SubjectProbation After Death

سنہری متن: یرمیاہ 29 باب 11 آیت

کیونکہ میں تمہارے حق میں اپنے خیالات کو جانتا ہوں خداوند فرماتا ہے یعنی سلامتی کے خیالات۔ برائی کے نہیں تاکہ میں تم کو نیک انجام کی امید بخشوں۔



Golden Text: Jeremiah 29 : 11

For I know the thoughts that I think toward you, saith the Lord, thoughts of peace, and not of evil, to give you an expected end.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: کلسیوں 1 باب 3، 9 تا 13 آیات


3۔ ہم تمہارے حق میں ہمیشہ دعا کر کے اپنے خداوند یسوع مسیح کے باپ یعنی خدا کا شکر کرتے ہیں۔

9۔ اِس لئے جس دن سے یہ سنا ہے ہم بھی تمہارے واسطے یہ دعا کرنے اور درخواست کرنے سے باز نہیں آتے کہ تم کمال روحانی حکمت اور سمجھ کے ساتھ اْس کی مرضی کے علم سے معمور ہوجاؤ۔

10۔ تاکہ تمہارا چال چلن خداوند کے لائق ہو اور اْس کو ہر طرح سے پسند آئے اور تم میں ہر طرح کے نیک کام کا پھل لگے اور خدا کی پہچان میں بڑھتے جاؤ۔

11۔ اور اْس کے جلال کی قدرت کے موافق ہر طرح کی قدرت سے قوی ہوتے جاؤ تاکہ خوشی کے ساتھ ہر صورت سے صبر اور تحمل کر سکو۔

12۔ اور باپ کا شکر کرتے رہو جس نے ہم کو اِس لائق کیا کہ نور میں مقدسوں کے ساتھ حصہ پائیں۔

13۔ اْسی نے ہم کو تاریکی کے قبضہ سے چھڑا کر اپنے عزیز بیٹے کی بادشاہی میں داخل کیا۔

Responsive Reading: Colossians 1 : 3, 9-13

3.     We give thanks to God and the Father of our Lord Jesus Christ, praying always for you,

9.     For this cause we also, since the day we heard it, do not cease to pray for you, and to desire that ye might be filled with the knowledge of his will in all wisdom and spiritual understanding;

10.     That ye might walk worthy of the Lord unto all pleasing, being fruitful in every good work, and increasing in the knowledge of God;

11.     Strengthened with all might, according to his glorious power, unto all patience and longsuffering with joyfulness;

12.     Giving thanks unto the Father, which hath made us meet to be partakers of the inheritance of the saints in light:

13.     Who hath delivered us from the power of darkness, and hath translated us into the kingdom of his dear Son.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ امثال 4 باب 23 آیت

23۔ اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سر ہمیشہ وہی ہے۔

1. Proverbs 4 : 23

23     Keep thy heart with all diligence; for out of it are the issues of life.

2 . ۔ اعمال 21 باب 39 (پولوس) (تا پہلی،)آیت

39۔ پولوس نے کہا،

2. Acts 21 : 39 (Paul) (to 1st ,)

39     Paul said,

3 . ۔ اعمال 22 باب 3، 5 (میں) تا 8، 10تا 15 آیات

3۔ میں یہودی ہوں اور کلکیہ کے شہر ترسْس میں پیدا ہوا مگرمیری تربیت اس شہر میں گملی ایل کے قدموں میں ہوئی اور میں نے باپ دادا کی شریعت کی خاص پابندی کی تعلیم پائی اور خدا کی راہ میں ایسا سرگرم تھا جیسے تم سب آج کے دن ہو۔

5۔ اْن سے میں بھائیوں کے نام خط لے کر دمشق کو روانہ ہوا تاکہ جتنے وہاں ہوں اْنہیں بھی باندھ کر یروشلم میں سزا دِلانے کو لاؤں۔

6۔ جب میں سفر کرتا کرتا دمشق کے نزدیک پہنچا تو ایسا ہوا کہ دوپہر کے قریب یکایک ایک بڑا نور آسمان سے میرے گِردا گرد آ چمکا۔

7۔ اور میں زمین پر گِر پڑا اور یہ آواز سنی کہ اے ساؤل اے ساؤل! تو مجھے کیوں ستاتا ہے۔

8۔ میں نے جواب دیا کہ اے خداوند! تو کون ہے! اْس نے مجھ سے کہا میں یسوع ناصری ہوں جسے تو ستاتا ہے۔

10۔ میں نے کہا اے خداوند میں کیا کروں؟ خداوند نے مجھ سے کہا اْٹھ کر دمشق میں جا۔ جو کچھ تیرے کرنے کے لیے مقرر ہوا ہے وہاں تجھ سے سب کہا جائے گا۔

11۔ جب مجھے اْس نور کے جلال کے سبب سے کچھ دکھائی نہ دیا تو میرے ساتھی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے دمشق میں لے گئے۔

12۔ اور حننیاہ نام ایک شخص جو شریعت کے مْوافق دیندار اور وہاں کے سب رہنے والے یہودیوں کے نزدیک نیک نام تھا۔

13۔ میرے پاس آیا اور کھڑے ہو کر مجھ سے کہا بھائی ساؤل پھر بینا ہو! اْسی گھڑی بینا ہو کے میں نے اْس کو دیکھا۔

14۔ اْس نے کہا ہمارے باپ دادا کے خدا نے تجھ کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ تو اس کی مرضی کو جانے اور اْس راستباز کو دیکھے اور اْس کے منہ کی آواز کو سْنے۔

15۔ کیونکہ تو اْس کی طرف سے سب آدمیوں کے سامنے اْن باتوں کا گواہ ہو گا جو تو نے دیکھی اور سْنی ہیں۔

3. Acts 22 : 3, 5 (I)-8, 10-15

3     I am verily a man which am a Jew, born in Tarsus, a city in Cilicia, yet brought up in this city at the feet of Gamaliel, and taught according to the perfect manner of the law of the fathers, and was zealous toward God, as ye all are this day.

5     I received letters unto the brethren, and went to Damascus, to bring them which were there bound unto Jerusalem, for to be punished.

6     And it came to pass, that, as I made my journey, and was come nigh unto Damascus about noon, suddenly there shone from heaven a great light round about me.

7     And I fell unto the ground, and heard a voice saying unto me, Saul, Saul, why persecutest thou me?

8     And I answered, Who art thou, Lord? And he said unto me, I am Jesus of Nazareth, whom thou persecutest.

10     And I said, What shall I do, Lord? And the Lord said unto me, Arise, and go into Damascus; and there it shall be told thee of all things which are appointed for thee to do.

11     And when I could not see for the glory of that light, being led by the hand of them that were with me, I came into Damascus.

12     And one Ananias, a devout man according to the law, having a good report of all the Jews which dwelt there,

13     Came unto me, and stood, and said unto me, Brother Saul, receive thy sight. And the same hour I looked up upon him.

14     And he said, The God of our fathers hath chosen thee, that thou shouldest know his will, and see that Just One, and shouldest hear the voice of his mouth.

15     For thou shalt be his witness unto all men of what thou hast seen and heard.

4 . ۔ اعمال 14 باب 1، 2، 19، 20 آیات

1۔ اور اْکنیم میں ایسا ہوا کہ وہ ساتھ ساتھ یہودیوں کے عبادت خانہ میں گئے اور ایسی تقریر کی کہ یہودیوں اور یونانیوں دونوں کی ایک بڑی جماعت ایمان لے آئی۔

2۔ مگر نافرمان یہودیوں نے غیر قوموں کے دِلوں میں جوش پیدا کر کے اْن کو بھائیوں کی طرف بد گمان کر دیا۔

19۔پھر بعض یہودی انطاکیہ اور اْکنیم سے آئے اور لوگوں کو اپنی طرف کر کے پولوس کو سنگسار کیا اور اْس کومْردہ سمجھ کر شہر کے باہر گھسیٹ کر لے گئے۔

20۔ مگر جب شاگرد اْس کے گردا گرد آ کھڑے ہوئے تو وہ اْٹھ کر شہر میں آیا اور دوسرے دن برنباس کے ساتھ دربے کو چلا گیا۔

4. Acts 14 : 1, 2, 19, 20

1     And it came to pass in Iconium, that they went both together into the synagogue of the Jews, and so spake, that a great multitude both of the Jews and also of the Greeks believed.

2     But the unbelieving Jews stirred up the Gentiles, and made their minds evil affected against the brethren.

19     And there came thither certain Jews from Antioch and Iconium, who persuaded the people, and, having stoned Paul, drew him out of the city, supposing he had been dead.

20     Howbeit, as the disciples stood round about him, he rose up, and came into the city: and the next day he departed with Barnabas to Derbe.

5 . ۔ اعمال 20 باب 7 تا 12 آیات

7۔ ہفتے کے پہلے دن جب ہم روٹی توڑنے کے لئے جمع ہوئے تو پولوس نے دوسرے دن روانہ ہونے کا ارادہ کرکے اْن سے باتیں کیں اور آدھی رات تک کلام کرتا رہا۔

8۔ جس بالا خانہ میں ہم جمع تھے اْس میں بہت سے چراغ جل رہے تھے۔

9۔ یوتخْس نام ایک جوان کھڑکی میں بیٹھا تھا۔ اْس پر نیند کا بڑا غلبہ تھا اور جب پولوس زیادہ دیر تک باتیں کرتا رہا تو وہ نیند کے غلبہ میں تیسری منزل سے گر پڑا اور اْٹھایا گیا تو مردہ تھا۔

10۔ پولوس اْتر کر اْس سے لپٹ گیا اور گلے لگا کر کہا گھبراؤ نہیں۔ اِس میں جان ہے۔

11۔ پھر اوپر جا کر روٹی توڑی اور کھا کر اِتنی دیر اْن سے باتیں کرتا رہا کہ پو پھٹ گئی۔ پھر وہ روانہ ہوگیا۔

12۔ اور وہ اْس لڑکے کو جیتا لائے اور اْن کی بڑی خاطر جمع ہوئی۔

5. Acts 20 : 7-12

7     And upon the first day of the week, when the disciples came together to break bread, Paul preached unto them, ready to depart on the morrow; and continued his speech until midnight.

8     And there were many lights in the upper chamber, where they were gathered together.

9     And there sat in a window a certain young man named Eutychus, being fallen into a deep sleep: and as Paul was long preaching, he sunk down with sleep, and fell down from the third loft, and was taken up dead.

10     And Paul went down, and fell on him, and embracing him said, Trouble not yourselves; for his life is in him.

11     When he therefore was come up again, and had broken bread, and eaten, and talked a long while, even till break of day, so he departed.

12     And they brought the young man alive, and were not a little comforted.

6 . ۔ اعمال 27 باب 1 (تا پہلی)، 2 (تا دوسری)، 14 (نہیں)، 20، 21 (تا دوسری،)، 22 (میں) تا 25، 44 (اور یوں) آیات

1۔ اور جب اطالیہ کو ہمارا جانا ٹھہر گیا۔

2۔اور ہم اردمیم کے ایک جہاز پر روانہ ہوئے۔

14۔۔۔۔تھوڑی دیر ایک بڑی طوفانی ہوا جو یْور کلون کہلاتی ہے کریتے پر سے جہاز پر آئی۔

20۔ اور جب بہت دن تک نہ سورج نظر آیا نہ تارے اور شدت کی آندھی چل رہی تھی تو آخر ہم کو پہنچنے کی امید بالکل نہ رہی۔

21۔ اور جب بہت فاقہ کر چکے تو پولوس نے اْن کے بیچ میں کھڑے ہو کر کہا۔

22۔ مَیں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ خاطر جمع رکھو کیونکہ تم میں سے کسی کی جان کا نقصان نہیں ہوگا مگرجہاز کا۔

23۔ کیونکہ خدا جس کا مَیں ہوں اور جس کی عبادت بھی کرتا ہوں اْس کے فرشتہ نے اِسی رات کو میرے پاس آکر۔

24۔ کہا،اے پولوس! نہ ڈر، ضرور ہے کہ تْو قیصر کے سامنے حاضر ہو اور دیکھ جتنے لوگ تیرے ساتھ جہاز میں سوار ہیں اْن سب کی خدا نے تیری خاطر جان بخشی ہے۔

25۔ اِس لئے اے صاحبو! خاطر جمع رکھو کیونکہ مَیں خدا کا یقین کرتا ہوں جیسا مجھ سے کہا گیا ہے ویسا ہی ہوگا۔

44۔ پس وہ سمندر میں چھوڑ دئیے گئے۔

6. Acts 27 : 1 (to 1st ,), 2 (to 2nd ,), 14 (not), 20, 21 (to 2nd ,), 22 (I)-25, 44 (And so)

1     And when it was determined that we should sail into Italy,

2     And entering into a ship of Adramyttium, we launched,

14     …not long after there arose against it a tempestuous wind, called Euroclydon.

20     And when neither sun nor stars in many days appeared, and no small tempest lay on us, all hope that we should be saved was then taken away.

21     But after long abstinence Paul stood forth in the midst of them, and said,

22     I exhort you to be of good cheer: for there shall be no loss of any man’s life among you, but of the ship.

23     For there stood by me this night the angel of God, whose I am, and whom I serve,

24     Saying, Fear not, Paul; thou must be brought before Cæsar: and, lo, God hath given thee all them that sail with thee.

25     Wherefore, sirs, be of good cheer: for I believe God, that it shall be even as it was told me.

44     And so it came to pass, that they escaped all safe to land.

7 . ۔ اعمال 28 باب 1 تا 3، 5، 30، 31 آیات

1۔ جب ہم پہنچ گئے تو جانا کہ اِس ٹاپْو کا نام مِلِتے ہے۔

2۔ اور اْن اجنبیوں نے ہم پر خاص مہربانی کی کیونکہ مینہ کی جھڑی اور جاڑے کے سبب سے اْنہوں نے آگ جلا کر ہم سب کی خاطر کی۔

3۔ جب پولوس نے لکڑیوں کا گٹھا جمع کر کے آگ میں ڈالا تو ایک سانپ گرمی پا کر نکلا اور اْس کے ہاتھ پر لپٹ گیا۔

5۔ پس اْس نے کیڑے کو آگ میں جھٹک دیا اور اْسے کچھ ضرر نہ پہنچا۔

30۔ اور وہ پورے دو برس اپنے کرایہ کے گھر میں رہتا رہا۔ اور جو اْس کے پاس آتے تھے سب سے ملتا رہا۔

31۔ اور کمال دلیری سے بغیر روک ٹوک کے خدا کی بادشاہی کی منادی کرتا اور خداوند یسوع مسیح کی باتیں سکھاتا رہا۔

7. Acts 28 : 1-3, 5, 30, 31

1     And when they were escaped, then they knew that the island was called Melita.

2     And the barbarous people shewed us no little kindness: for they kindled a fire, and received us every one, because of the present rain, and because of the cold.

3     And when Paul had gathered a bundle of sticks, and laid them on the fire, there came a viper out of the heat, and fastened on his hand.

5     And he shook off the beast into the fire, and felt no harm.

30     And Paul dwelt two whole years in his own hired house, and received all that came in unto him,

31     Preaching the kingdom of God, and teaching those things which concern the Lord Jesus Christ, with all confidence, no man forbidding him.

8 . ۔ 2 کرنتھیوں 5 باب 17 آیت

17۔ اس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں۔

8. II Corinthians 5 : 17

17     Therefore if any man be in Christ, he is a new creature: old things are passed away; behold, all things are become new.



سائنس اور صح


1 . ۔ 291: 12۔ 13

عالمگیر نجات ترقی اور امتحان پر مرکوز ہے، اور ان کے بغیر غیر ممکن الحصول ہے۔

1. 291 : 12-13

Universal salvation rests on progression and probation, and is unattainable without them.

2 . ۔ 99: 5۔ 12

رسول کہتا ہے، ”ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام کرتے جاؤ،“ اوروہ برائے راست یہ بات شامل کرتا ہے کہ،”کیونکہ جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو اپنے نیک ارادہ کو انجام دینے کے لئے پیدا کرتا ہے وہ خدا ہے،“ (فلپیوں 2 باب12، 13آیات)۔ سچائی نے بادشاہت کی کنجی تیار کر لی ہے، اور اِس کنجی کی بدولت کرسچن سائنس نے انسانی فہم کا دروازہ کھول لیا ہے۔ کوئی بھی تالہ نہیں اٹھا سکتا اور نہ ہی کسی دروازے سے داخل ہو سکتا ہے۔

2. 99 : 5-12

"Work out your own salvation with fear and trembling," says the apostle, and he straightway adds: "for it is God which worketh in you both to will and to do of His good pleasure" (Philippians ii. 12, 13). Truth has furnished the key to the kingdom, and with this key Christian Science has opened the door of the human understanding. None may pick the lock nor enter by some other door.

3 . ۔ 233: 1۔ 7

ہر دن ہم سے مسیحی قوت کے پیشوں کی بجائے اعلیٰ ثبوتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔یہ ثبوت مکمل طورپر روح کی طاقت سے گناہ، بیماری اور موت کی تباہی پر مشتمل ہیں، جیسے مسیح نے اِنہیں نیست کیا تھا۔ یہ ترقی کا ایک عنصر ہے، اور ترقی خدا کا قانون ہے، جس کا قانون ہم سے صرف وہی مانگتا ہے جو ہم یقینی طور پر پورا کر سکتے ہیں۔

3. 233 : 1-7

Every day makes its demands upon us for higher proofs rather than professions of Christian power. These proofs consist solely in the destruction of sin, sickness, and death by the power of Spirit, as Jesus destroyed them. This is an element of progress, and progress is the law of God, whose law demands of us only what we can certainly fulfil.

4 . ۔ 254: 2۔ 23

وہ لوگ مستحکم ہوتے ہیں جو دھیان رکھتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے ”دوڑتے ہیں اور تھک نہیں سکتے۔۔۔ چلتے ہیں لیکن ماندہ نہیں ہوسکتے“، جو تیزی کے ساتھ اچھائی حاصل کرتے ہیں اور اپنی اس حالت کو برقرار رکھتے ہیں، یا دھیرے دھیرے حاصل کرتے ہیں اور نہ امیدی کو جنم نہیں لینے دیتے۔ خدا کاملیت کی مانگ کرتا ہے لیکن تب تک نہیں جب تک روح اور بدن کے مابین جنگ لڑی اور فتح نہ کی جائے۔ قدم بہ قدم وجودیت کے روحانی حقائق کو حاصل کرنے سے پیشتر مادی طور پر کھانا، پینا یا پہننا بند کرنا مناسب نہیں۔ جب ہم صبر کے ساتھ خدا کا انتظار کرتے اور راستبازی کے ساتھ سچائی کی تلاش کرتے ہیں تو وہ ہماری راہ میں راہنمائی کرتا ہے۔ غیر کامل انسان آہستہ آہستہ اصلی روحانی کاملیت کو گرفت میں لیتے ہیں؛ مگر ٹھیک طریقے سے شروع کرنے کے لئے اور ہستی کے بڑے مسئلے کے اظہار کے تنازع کو جاری رکھنا بہت بڑا کام ہے۔

نفسی دور کے دوران، قطعی کرسچن سائنس کو اْس تبدیلی سے پہلے حاصل نہیں کیا جا سکتا جسے موت کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ جسے ہم سمجھ نہیں پاتے اْسے ظاہر کرنے کی طاقت ہم میں نہیں ہے۔مگر انسانی خودی کو انجیلی تبلیغ ملنی چاہئے۔آج خدا ہم سے اِس کلام کو قبول کرنے کا اور جلدی سے عملی طور پر مادی کو ترک کرنے اور روحانی پر عمل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جس سے بیرونی اور اصلی کا تعین ہوتا ہے۔

4. 254 : 2-23

Individuals are consistent who, watching and praying, can "run, and not be weary; ... walk, and not faint," who gain good rapidly and hold their position, or attain slowly and yield not to discouragement. God requires perfection, but not until the battle between Spirit and flesh is fought and the victory won. To stop eating, drinking, or being clothed materially before the spiritual facts of existence are gained step by step, is not legitimate. When we wait patiently on God and seek Truth righteously, He directs our path. Imperfect mortals grasp the ultimate of spiritual perfection slowly; but to begin aright and to continue the strife of demonstrating the great problem of being, is doing much.

During the sensual ages, absolute Christian Science may not be achieved prior to the change called death, for we have not the power to demonstrate what we do not understand. But the human self must be evangelized. This task God demands us to accept lovingly to-day, and to abandon so fast as practical the material, and to work out the spiritual which determines the outward and actual.

5 . ۔ 428: 6۔ 30

مصنف نے نا اْمید عضوی بیماری کو شفا بخشی، اور صرف خدا کو ہی زندگی تصو کرنے کے باعث مرنے والے کو زندہ کیا۔ یہ یقین رکھنا گناہ ہے کہ کوئی چیز قادر مطلق اور ابدی زندگی کو زیر کرسکتی ہے،اور یہ سمجھتے ہوئے کہ موت نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روح کے دیگر فضائل کو سمجھنا زندگی میں روشنی لا سکتا ہے۔

5. 428 : 30-6

The author has healed hopeless organic disease, and raised the dying to life and health through the understanding of God as the only Life. It is a sin to believe that aught can overpower omnipotent and eternal Life, and this Life must be brought to light by the understanding that there is no death, as well as by other graces of Spirit. We must begin, however, with the more simple demonstrations of control, and the sooner we begin the better.

6 . ۔ 296: 4 (ترقی)۔ 13

ترقی تجربے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ فانی انسان کی پختگی ہے، جس کے وسیلہ لافانی کی خاطر فانی بشر کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خواہ یہاں یا اس کے بعد، تکالیف یا سائنس کو زندگی اور عقل کے حوالے سے تمام تر فریب نظری کو ختم کر دینا چاہئے، او ر مادی فہم اور خودی کو از سرے نو پیدا کرنا چاہئے۔ انسانیت کو اْس کے اعمال کے ساتھ منسوخ کر دینا چاہئے۔ کوئی بھی نفس پرستی یا گناہ آلود چیز لافانی نہیں ہے۔یہ مادے کی موت نہیں بلکہ جھوٹے مادی فہم اور گناہ کی موت ہی ہے جسے انسان اور زندگی ہم آہنگ، حقیقی اور ابدی ظاہر کرتے ہیں۔

6. 296 : 4 (Progress)-13

Progress is born of experience. It is the ripening of mortal man, through which the mortal is dropped for the immortal. Either here or hereafter, suffering or Science must destroy all illusions regarding life and mind, and regenerate material sense and self. The old man with his deeds must be put off. Nothing sensual or sinful is immortal. The death of a false material sense and of sin, not the death of organic matter, is what reveals man and Life, harmonious, real, and eternal.

7 . ۔ 258: 9۔ 15

انسان اپنے اندر ایک دماغ رکھتے ہوئے مادی صورت سے کہیں بڑھ کر ہے، جسے لا فانی رہنے کے لئے اپنے ماحول سے محفوظ رہنا چاہئے۔ انسان ابدیت کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ عکس خدا کا حقیقی خیال ہے۔

اس کی وسعت اورلامحدود بنیادوں سے اونچی سے اونچی پرواز کو بڑھاتے ہوئے خدا انسان میں لامحدود خیال کو ہمیشہ ظاہر کرتا ہے۔

7. 258 : 9-15

Man is more than a material form with a mind inside, which must escape from its environments in order to be immortal. Man reflects infinity, and this reflection is the true idea of God.

God expresses in man the infinite idea forever developing itself, broadening and rising higher and higher from a boundless basis.

8 . ۔ 324: 2۔ 6، 13 (یہ)۔ 18

غلط نشانیوں کو چھوڑنے کی خوشی اور انہیں غائب ہوتے دیکھنے کی شادمانی، یہ ترغیب مکمل ہم آہنگی کو تیزی سے عمل میں لانے میں مدد دیتی ہے۔سمجھ اور خودکی پاکیزگی ترقی کا ثبوت ہے۔ ”مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں؛ کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔“

جو رستہ اس فہم کی جانب لے جاتا ہے کہ واحد خدا ہی زندگی ہے وہ رستہ سیدھا اور تنگ ہے۔یہ بدن کے ساتھ ایک جنگ ہے، جس میں گناہ، بیماری اور موت پر ہمیں فتح پانی چاہئے خواہ یہاں یا اس کے بعد، یقیناً اس سے قبل کہ ہم روح کے مقصد، یا خدا میں زندگی حاصل کرنے تک پہنچ پائیں۔

8. 324 : 2-6, 13 (The)-18

Gladness to leave the false landmarks and joy to see them disappear, — this disposition helps to precipitate the ultimate harmony. The purification of sense and self is a proof of progress. "Blessed are the pure in heart: for they shall see God."

The way is straight and narrow, which leads to the understanding that God is the only Life. It is a warfare with the flesh, in which we must conquer sin, sickness, and death, either here or hereafter, — certainly before we can reach the goal of Spirit, or life in God.

9 . ۔ 291: 23۔ 31

جیسا فانی انسان کو موت پاتی ہے، وہ مرنے کے بعد ویسا ہی ہوگا، جب تک کہ آزمائش اور ترقی کوئی ضروری تبدیلی نہ لائے۔عقل کبھی خاک میں نہیں ملتی۔ قبر میں سے جی اٹھنا عقل یا زندگی کا انتظار نہیں کرتا، کیونکہ قبر کا دونوں پر اختیار نہیں ہے۔

آخری عدالت انسانوں کا انتظار نہیں کرتی کیونکہ حکمت کا روزِ محشر ہمہ وقت اور متواتر طور پر جاری و ساری ہے، حتی کہ وہ عدالت بھی جس کے وسیلہ فانی انسان ساری مادی غلطی سے بے نقاب کیا جاتا ہے۔

9. 291 : 23-31

As death findeth mortal man, so shall he be after death, until probation and growth shall effect the needed change. Mind never becomes dust. No resurrection from the grave awaits Mind or Life, for the grave has no power over either.

No final judgment awaits mortals, for the judgment-day of wisdom comes hourly and continually, even the judgment by which mortal man is divested of all material error.

10 . ۔ 271: 2۔ 20

ہمارے اْستا د نے کہا، ”لیکن مددگار۔۔۔تمہیں سب باتیں سکھائے گا۔“ جب مسیحت کی سائنس ظاہر ہو گی، تو وہ آپ کو پوری سچائی کی جانب گامزن کرے گی۔ پہاڑی وعظ اس سائنس کا جوہرہے، اور ابدی زندگی، نہ کہ یسوع کی موت، اس کا نتیجہ ہے۔

وہ لوگ، جو اپنے جال کو چھوڑدینے یا سچائی کے لیے دائیں طرف ڈالنے کے لیے تیار ہیں اْن کے پاس پہلے کی طرح، سیکھنے اور مسیحی شفا پر عمل کرنے کا موقع ہے۔ اس پر صحائف مشتمل ہیں۔ کلام کی روحانی اہمیت یہ طاقت فراہم کرتی ہے۔ لیکن، جیسا کہ پولوس کہتا ہے، ”بغیر منادی کرنے والے کے کیونکر سنیں؟اور جب تک وہ بھیجے نہ جائیں منادی کیونکر کریں؟“اگر وہ بھیجے گئے ہیں تو وہ منادی کیسے کریں گے، تبدیل کریں گے اور لوگوں کو شفا دیں گے، جبکہ لوگ ہی نہ سنیں؟

10. 271 : 20-2

Our Master said, "But the Comforter ... shall teach you all things." When the Science of Christianity appears, it will lead you into all truth. The Sermon on the Mount is the essence of this Science, and the eternal life, not the death of Jesus, is its outcome.

Those, who are willing to leave their nets or to cast them on the right side for Truth, have the opportunity now, as aforetime, to learn and to practice Christian healing. The Scriptures contain it. The spiritual import of the Word imparts this power. But, as Paul says, "How shall they hear without a preacher? and how shall they preach, except they be sent?" If sent, how shall they preach, convert, and heal multitudes, except the people hear?

11 . ۔ 254: 27۔ 32

اگر آپ ہمیشہ مشتعل مگر سچائی کے صحتمند پانی پر چھال پھینکتے ہیں، تو آپ کو طوفانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔آپ کی نیکی کو بدی کہا جائے گا۔ یہ ہی صلیب ہے۔ اِسے اٹھائیں اور برداشت کریں، کیونکہ اِسی کی بدولت آپ فتح پاتے اور تاج پہنتے ہیں۔ زمین پر مسافر ہو، آسمان تمہارا گھر ہے؛ اجنبی ہو، خدا کے تم مہمان ہو۔

11. 254 : 27-32

If you launch your bark upon the ever-agitated but healthful waters of truth, you will encounter storms. Your good will be evil spoken of. This is the cross. Take it up and bear it, for through it you win and wear the crown. Pilgrim on earth, thy home is heaven; stranger, thou art the guest of God.

12 . ۔ 568: 24۔ 30

صرف ایک واحد گناہ پر فتح یابی کے لئے ہم لشکروں کے خداوند کا شکر کرتے اور اْس کی عظمت بیان کرتے ہیں۔ تمام تر گناہوں پر ایک عظیم فتح کو ہم کیا کہیں گے؟ آسمان پر اِس سے پہلے کبھی اتنا میٹھا، ایک بلند گیت نہیں پہنچا، جو اب مسیح کے عظیم دل کے قریب تر اور واضح تر ہوکر پہنچتا ہے؛ کیونکہ الزام لگانے والا وہاں نہیں ہے، اور محبت اپنا بنیادی اور ابدی تناؤ باہر نکالتی ہے۔

12. 568 : 24-30

For victory over a single sin, we give thanks and magnify the Lord of Hosts. What shall we say of the mighty conquest over all sin? A louder song, sweeter than has ever before reached high heaven, now rises clearer and nearer to the great heart of Christ; for the accuser is not there, and Love sends forth her primal and everlasting strain.

13 . ۔ 492: 7 (ہستی)۔ 12

ہستی، پاکیزگی، ہم آہنگی، لافانیت ہے۔یہ پہلے سے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ اس کا علم، حتیٰ کہ معمولی درجے میں بھی، انسانوں کے جسمانی اور اخلاقی معیار کو اونچا کرے گا، عمر کی درازی کو بڑھائے گا، کردار کو پاک اور بلند کرے گا۔ پس ترقی ساری غلطی کو تباہ کرے گی اور لافانیت کو روشنی میں لائے گی۔

13. 492 : 7 (Being)-12

Being is holiness, harmony, immortality. It is already proved that a knowledge of this, even in small degree, will uplift the physical and moral standard of mortals, will increase longevity, will purify and elevate character. Thus progress will finally destroy all error, and bring immortality to light.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔