اتوار 16 نو مبر ، 2025



مضمون۔ فانی اور لافانی

SubjectMortals And Immortals

سنہری متن: یوحنا 3 باب 16 آیت

کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اْس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اْس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔



Golden Text: John 3 : 16

God so loved the world, that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but have everlasting life.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: 1 کرنتھیوں 15 باب 50 تا 54 آیات


50۔ اے بھائیو! میرا مطلب یہ ہے کہ گوشت اور خون خدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہو سکتے اور نہ فنا بقا کی وارث ہو سکتی ہے۔

51۔ دیکھو میں تم سے بھید کی بات کہتا ہوں۔ ہم سب تو نہیں سوئیں گے مگر سب بدل جائیں گے۔

52۔ اور یہ ایک دم میں۔ ایک پل میں۔ پچھلا نرسنگا پھونکتے ہی ہوگا کیونکہ نرسنگا پھونکا جائے گا اور مردے غیر فانی حالت میں اْٹھیں گے اور ہم بدل جائیں گے۔

53۔ کیونکہ ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے اور مرنے والا جسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہنے۔

54۔ اور جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جسم حیات ِ ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہوگا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لْقمہ ہو گئی۔

Responsive Reading: I Corinthians 15 : 50-54

50.     Now this I say, brethren, that flesh and blood cannot inherit the kingdom of God; neither doth corruption inherit incorruption.

51.     Behold, I shew you a mystery; We shall not all sleep, but we shall all be changed,

52.     In a moment, in the twinkling of an eye, at the last trump: for the trumpet shall sound, and the dead shall be raised incorruptible, and we shall be changed.

53.     For this corruptible must put on incorruption, and this mortal must put on immortality.

54.     So when this corruptible shall have put on incorruption, and this mortal shall have put on immortality, then shall be brought to pass the saying that is written, Death is swallowed up in victory.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یوحنا 17 باب 3 آیت

3۔ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور بر حق کو اور یسوع مسیح کو جسے تْو نے بھیجا ہے جانیں۔

1. John 17 : 3

3     And this is life eternal, that they might know thee the only true God, and Jesus Christ, whom thou hast sent.

2 . ۔ عبرانیوں 11 باب 1 تا 3، 5 آیات

1۔ اب ایمان اْمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اندیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔

2۔ کیونکہ اِس کی بابت بزرگوں کے حق میں اچھی گواہی دی گئی۔

3۔ ایمان ہی سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ عالم خدا کے کہنے سے بنے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہے۔

5۔ ایمان ہی سے حنوک اْٹھا لیا گیا تاکہ موت کو نہ دیکھے اور چونکہ خدا نے اْسے اْٹھا لیا تھا اِس لئے اْس کا پتہ نہ ملا کیونکہ اْٹھائے جانے سے پیشتر اْس کے حق میں گواہی دی گئی تھی کہ یہ خدا کو پسند آیا۔

2. Hebrews 11 : 1-3, 5

1     Now faith is the substance of things hoped for, the evidence of things not seen.

2     For by it the elders obtained a good report.

3     Through faith we understand that the worlds were framed by the word of God, so that things which are seen were not made of things which do appear.

5     By faith Enoch was translated that he should not see death; and was not found, because God had translated him: for before his translation he had this testimony, that he pleased God.

3 . ۔ یوحنا 4 باب 1، 3، 4، 6، 7، 9 تا 11،13تا 21، 23 تا 26 آیات

1۔ پھر جب خداوند کو معلوم ہوا کہ فریسیوں نے سنا ہے کہ یسوع یوحنا سے زیادہ شاگرد کرتا اور بپتسمہ دیتا ہے۔

3۔تو وہ یہودیہ کو چھوڑ کر پھر گلیل کو چلا گیا۔

4۔اور اُس کو سامریہ سے ہو کر جاناضرور تھا۔

6۔اور یعقوب کا کنواں وہیں تھا۔ چنانچہ یسوع سفر سے تھکاماندہ ہو کر اُس کنویں پر یونہی بیٹھ گیا۔ یہ چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔

7۔ سامریہ کی ایک عورت پانی بھرنے آئی۔ یسوع نے اُس سے کہا مجھے پانی پلا۔

9۔ اُس سامری عورت نے اُس سے کہا کہ تو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟کیونکہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے۔

10۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا اگر تو خدا کی بخشش کو جانتی اور یہ بھی جانتی کہ وہ کون ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پانی پلا تو تو اُس سے مانگتی اور وہ تجھے زندگی کا پانی دیتا۔

11۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند تیرے پاس پانی بھرنے کو تو کچھ ہے نہیں اور کنواں گہرا ہے۔ پھر وہ زندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے آیا؟

13۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا جو کوئی اِس پانی میں سے پیتا ہے وہ پھر پیاسا ہو گا۔

14۔ مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پیئے گا جو میں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہوگا بلکہ جو پانی میں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائیگا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری ر ہے گا۔

15۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند وہ پانی مجھ کو دے تاکہ میں نہ پیاسی ہوں نہ پانی بھرنے کو یہاں تک آؤں۔

16۔ یسوع نے اُس سے کہا جا اپنے شوہر کو یہاں بُلا لا۔

17۔عورت نے جواب میں اُس سے کہا میں بے شوہر ہوں۔ یسوع نے اُس سے کہا تُونے خوب کہا کہ میں بے شوہر ہوں۔

18۔ کیونکہ تُو پانچ شوہر کر چکی ہے اور جس کے پاس تُواب ہے وہ تیرا شوہر نہیں یہ تُو نے سچ کہا۔

19۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تُو نبی ہے۔

20۔ ہمارے باپ دادا نے اِس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنا چاہیے یروشلم میں ہے۔

21۔ یسوع نے اُس سے کہا اے عورت! میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یروشلم میں۔

22۔ہم جسے جانتے ہیں اُس کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔

23۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔

24۔ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستارروح اور سچائی سے پرستش کریں۔

25۔عورت نے اُس سے کہا میں جانتی ہوں کہ مسیح جو خرستُس کہلاتا ہے آنے والا ہے۔ جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتادے گا۔

26۔ یسوع نے اُس سے کہا میں جو تجھ سے بول رہا ہوں وہی ہوں۔

3. John 4 : 1, 3, 4, 6, 7, 9-11, 13-26

1     When therefore the Lord knew how the Pharisees had heard that Jesus made and baptized more disciples than John,

3     He left Judæa, and departed again into Galilee.

4     And he must needs go through Samaria.

6     Now Jacob’s well was there. Jesus therefore, being wearied with his journey, sat thus on the well: and it was about the sixth hour.

7     There cometh a woman of Samaria to draw water: Jesus saith unto her, Give me to drink.

9     Then saith the woman of Samaria unto him, How is it that thou, being a Jew, askest drink of me, which am a woman of Samaria? for the Jews have no dealings with the Samaritans.

10     Jesus answered and said unto her, If thou knewest the gift of God, and who it is that saith to thee, Give me to drink; thou wouldest have asked of him, and he would have given thee living water.

11     The woman saith unto him, Sir, thou hast nothing to draw with, and the well is deep: from whence then hast thou that living water?

13     Jesus answered and said unto her, Whosoever drinketh of this water shall thirst again:

14     But whosoever drinketh of the water that I shall give him shall never thirst; but the water that I shall give him shall be in him a well of water springing up into everlasting life.

15     The woman saith unto him, Sir, give me this water, that I thirst not, neither come hither to draw.

16     Jesus saith unto her, Go, call thy husband, and come hither.

17     The woman answered and said, I have no husband. Jesus said unto her, Thou hast well said, I have no husband:

18     For thou hast had five husbands; and he whom thou now hast is not thy husband: in that saidst thou truly.

19     The woman saith unto him, Sir, I perceive that thou art a prophet.

20     Our fathers worshipped in this mountain; and ye say, that in Jerusalem is the place where men ought to worship.

21     Jesus saith unto her, Woman, believe me, the hour cometh, when ye shall neither in this mountain, nor yet at Jerusalem, worship the Father.

22     Ye worship ye know not what: we know what we worship: for salvation is of the Jews.

23     But the hour cometh, and now is, when the true worshippers shall worship the Father in spirit and in truth: for the Father seeketh such to worship him.

24     God is a Spirit: and they that worship him must worship him in spirit and in truth.

25     The woman saith unto him, I know that Messias cometh, which is called Christ: when he is come, he will tell us all things.

26     Jesus saith unto her, I that speak unto thee am he.

4 . ۔ متی 19 باب 16 تا22، 27 تا 29 آیات

16۔ اور دیکھو ایک شخص نے پاس آکر اْس سے کہا کہ اے استاد مَیں کون سی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟

17۔ اْس نے اْس سے کہا کہ تْو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے؟ نیک تو ایک ہی ہے لیکن اگر تْو زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو حکموں پر عمل کر۔

18۔ اْس نے اْس سے کہا کون سے حکموں پر؟ یسوع نے کہا یہ کہ خون نہ کر۔ زنا نہ کر۔ چوری نہ کر۔ جھوٹی گواہی نہ دے۔

19۔ اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔

20۔ اْس جوان نے اْس سے کہا کہ مَیں نے اِن سب پر عمل کیا ہے۔ اب مجھ میں کس بات کی کمی ہے؟

21۔ یسوع نے اْس سے کہا اگر تْو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے۔ تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا اور آکر میرے پیچھے ہو لے۔

22۔ مگر وہ جوان یہ بات سن کر غمگین ہو کر چلا گیا کیونکہ بڑا مالدار تھا۔

27۔ اِس پر پطرس نے جواب میں اْس سے کہا دیکھ ہم تو سب کچھ چھوڑ کر تیرے پیچھے ہو لئے ہیں۔ پس ہم کو کیا ملے گا؟

28۔ یسوع نے اْن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب ابنِ آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو تم بھی جو میرے پیچھے ہو لئے ہو بارہ تختوں پر بیٹھ کر اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔

29۔ اور جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اْس کو سو گنا ملے گا اور وہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا۔

4. Matthew 19 : 16-22, 27-29

16     And, behold, one came and said unto him, Good Master, what good thing shall I do, that I may have eternal life?

17     And he said unto him, Why callest thou me good? there is none good but one, that is, God: but if thou wilt enter into life, keep the commandments.

18     He saith unto him, Which? Jesus said, Thou shalt do no murder, Thou shalt not commit adultery, Thou shalt not steal, Thou shalt not bear false witness,

19     Honour thy father and thy mother: and, Thou shalt love thy neighbour as thyself.

20     The young man saith unto him, All these things have I kept from my youth up: what lack I yet?

21     Jesus said unto him, If thou wilt be perfect, go and sell that thou hast, and give to the poor, and thou shalt have treasure in heaven: and come and follow me.

22     But when the young man heard that saying, he went away sorrowful: for he had great possessions.

27     Then answered Peter and said unto him, Behold, we have forsaken all, and followed thee; what shall we have therefore?

28     And Jesus said unto them, Verily I say unto you, That ye which have followed me, in the regeneration when the Son of man shall sit in the throne of his glory, ye also shall sit upon twelve thrones, judging the twelve tribes of Israel.

29  And every one that hath forsaken houses, or brethren, or sisters, or father, or mother, or wife, or children, or lands, for my name’s sake, shall receive an hundredfold, and shall inherit everlasting life.

5 . ۔ گلتیوں 6 باب 7 تا 9 آیات

7۔ فریب نہ کھاؤ۔ خدا ٹھٹھوں میں نہیں اڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا۔

8۔جو کوئی اپنے جسم کے لئے بوتا ہے وہ جسم سے ہلاکت کی فصل کاٹے گا اور جو روح کے لئے بوتا ہے وہ روح سے ہمیشہ کی زندگی کی فصل کاٹے گا۔

9۔ ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بے دل نہ ہوں گے تو عین وقت پر کاٹیں گے۔

5. Galatians 6 : 7-9

7     Be not deceived; God is not mocked: for whatsoever a man soweth, that shall he also reap.

8     For he that soweth to his flesh shall of the flesh reap corruption; but he that soweth to the Spirit shall of the Spirit reap life everlasting.

9     And let us not be weary in well doing: for in due season we shall reap, if we faint not.

6 . ۔ 1 کرنتھیوں 15 باب 58 آیت

58۔پس اے میرے عزیز بھائیو! ثابت قدم اور قائم رہو اور خداوند کے کام میں ہمیشہ افزائش کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تمہاری محنت خداوند میں بے فائدہ نہیں ہے۔

6. I Corinthians 15 : 58

58     Therefore, my beloved brethren, be ye stedfast, unmoveable, always abounding in the work of the Lord, forasmuch as ye know that your labour is not in vain in the Lord.



سائنس اور صح


1 . ۔ 42: 26(میں)۔ 28

۔۔۔کرسچن سائنس میں حقیقی انسان پر خدا یعنی اچھائی حکومت کرتی ہے نہ کہ بدی، اور اسی لئے وہ فانی نہیں بلکہ لافانی ہے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو اس ثبوت کی سائنس سکھائی تھی۔

1. 42 : 26 (in)-28

…in Christian Science the true man is governed by God — by good, not evil — and is therefore not a mortal but an immortal. Jesus had taught his disciples the Science of this proof.

2 . ۔ 336: 9 (لافانی)۔ 12

لافانی انسان خدا کی صورت یا خیال تھا اور ہے، حتیٰ کہ لامحدود عقل کا لامحدود اظہار، اور لافانی انسان اِس عقل کے ساتھ وجود رکھتا اور اس کا ہم آہنگ ہے۔

2. 336 : 9 (Immortal)-12

Immortal man was and is God's image or idea, even the infinite expression of infinite Mind, and immortal man is coexistent and coeternal with that Mind.

3 . ۔ 295: 5۔ 15

خدا کائنات کو،بشمول انسان،خلق کرتا اور اْس پر حکومت کرتا ہے، یہ کائنات روحانی خیالات سے بھری پڑی ہے، جنہیں وہ تیار کرتا ہے، اور وہ اْس عقل کی فرمانبرداری کرتے ہیں جو انہیں بناتی ہے۔ فانی عقل مادی کو روحانی میں تبدیل کر دے گی، اور پھر انسان کی اصل خودی کو غلطی کی فانیت سے رہا کرنے کے لئے ٹھیک کرے گی۔ فانی لوگ غیر فانیوں کی مانند خدا کی صورت پر پیدا نہیں کئے گئے، بلکہ لامحدود روحانی ہستی کی مانند فانی ضمیر بالا آخر سائنسی حقیقت کو تسلیم کرے گا اور غائب ہو جائے گا،اور ہستی کا،کامل اور ہمیشہ سے برقرار حقیقی فہم سامنے آئے گا۔

3. 295 : 5-15

God creates and governs the universe, including man. The universe is filled with spiritual ideas, which He evolves, and they are obedient to the Mind that makes them. Mortal mind would transform the spiritual into the material, and then recover man's original self in order to escape from the mortality of this error. Mortals are not like immortals, created in God's own image; but infinite Spirit being all, mortal consciousness will at last yield to the scientific fact and disappear, and the real sense of being, perfect and forever intact, will appear.

4 . ۔ 190: 14۔ 20

انسانی پیدائش، بالیدگی، بلوغت اورزوال اْس گھاس کی مانند ہیں جو سبز پتوں کے ساتھ مٹی میں سے اگتی ہے، تاکہ بعد میں مرجھا ئے اور اپنے آبائی عدم میں لوٹ جائے۔ یہ فانی اظہار عارضی ہے، یہ لافانی ہستی میں کبھی ضم نہیں ہوتا، بلکہ بالاآخر ختم ہو جاتا ہے، اور فانی انسان، روحانی اور ابدی، حقیقی انسان ہی سمجھا جاتا ہے۔

4. 190 : 14-20

Human birth, growth, maturity, and decay are as the grass springing from the soil with beautiful green blades, afterwards to wither and return to its native nothingness. This mortal seeming is temporal; it never merges into immortal being, but finally disappears, and immortal man, spiritual and eternal, is found to be the real man.

5 . ۔ 476: 1۔ 5، 9۔ 20، 28۔ 30

بشر لافانیوں کا فریب ہیں۔ وہ بدکرداروں، یا بدوں کی اولاد ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان مٹی سے شروع ہوایا مادی ایمبریو کے طور پر پیدا ہوا ہے۔ الٰہی سائنس میں، خدااور حقیقی انسان الٰہی اصول اور خیال کی مانند ناقابل غیر مْنفک ہیں۔

خدا انسان کا اصول ہے، اور انسان خداکا خیال ہے۔لہٰذہ انسان نہ فانی ہے نہ مادی ہے۔فانی غائب ہو جائیں گے اور لافانی یا خدا کے فرزند انسان کی واحد اور ابدی سچائیوں کے طور پر سامنے آئیں گے۔ فانی بشر خدا کے گرائے گئے فرزند نہیں ہیں۔ وہ کبھی بھی ہستی کی کامل حالت میں نہیں تھے، جسے بعد ازیں دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔فانی تاریخ کے آغاز سے انہوں نے ”بدی میں حالت پکڑی اور گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑے۔“آخر کار فانیت غیر فانیت کے باعث ہڑپ کر لی جاتی ہے۔ جو حقائق غیر فانی انسان سے تعلق رکھتے ہیں انہیں جگہ فراہم کرنے کے لئے گناہ، بیماری اور موت کوغائب ہونا چاہئے۔

خدا کے لوگوں سے متعلق، نہ کہ انسان کے بچوں سے متعلق، بات کرتے ہوئے یسوع نے کہا، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے؛“ یعنی سچائی اور محبت حقیقی انسان پر سلطنت کرتی ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ انسان خدا کی صورت پر بے گناہ اور ابدی ہے۔

5. 476 : 1-5, 9-20, 28-32

Mortals are the counterfeits of immortals. They are the children of the wicked one, or the one evil, which declares that man begins in dust or as a material embryo. In divine Science, God and the real man are inseparable as divine Principle and idea.

God is the Principle of man, and man is the idea of God. Hence man is not mortal nor material. Mortals will disappear, and immortals, or the children of God, will appear as the only and eternal verities of man. Mortals are not fallen children of God. They never had a perfect state of being, which may subsequently be regained. They were, from the beginning of mortal history, "conceived in sin and brought forth in iniquity." Mortality is finally swallowed up in immortality. Sin, sickness, and death must disappear to give place to the facts which belong to immortal man.

When speaking of God's children, not the children of men, Jesus said, "The kingdom of God is within you;" that is, Truth and Love reign in the real man, showing that man in God's image is unfallen and eternal.

6 . ۔ 477: 9(جوکچھ بھی)۔ 18

جوکچھ بھی مادی ہے وہ فانی ہے۔ پانچ جسمانی حواس کے لئے انسان بطور مادا اور عقل ایک ساتھ سامنے آتا ہے؛ مگر کرسچن سائنس یہ پیش کرتی ہے کہ انسان خدا کا خیال ہے اور واضح کرتی ہے کہ جسمانی حواس فانی اور جھوٹے بھرم ہیں۔ الٰہی سائنس اِسے ناممکن پیش کرتی ہے کہ مادی بدن کو، مادے کی بلند سطح کے ساتھ باہم ہونے کے وسیلہ، جس کا اْلٹا نام عقل لیا جاتا ہے، انسان ہونا چاہئے، یعنی اصلی اور کامل انسان، ہستی کا لافانی خیال، لازوال اور ابدی انسان۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان فنا ہو جاتا۔

6. 477 : 9 (Whatever)-18

Whatever is material is mortal. To the five corporeal senses, man appears to be matter and mind united; but Christian Science reveals man as the idea of God, and declares the corporeal senses to be mortal and erring illusions. Divine Science shows it to be impossible that a material body, though interwoven with matter's highest stratum, misnamed mind, should be man, — the genuine and perfect man, the immortal idea of being, indestructible and eternal. Were it otherwise, man would be annihilated.

7 . ۔ 247: 10۔ 18

خوبصورتی، اس کے ساتھ ساتھ سچائی بھی، ابدی ہیں؛ لیکن مادی چیزوں کی خوبصورتی،فانی یقین کی مانند دھندلا تے اور عارضی ہوتے ہوئے، ختم ہو جاتی ہے۔ رواج، تعلیم اور فیشن فانی انسانوں کے عارضی معیار تشکیل دیتے ہیں۔ لافانیت، عمر اور فنا پذیری سے مستثنیٰ ہو تے ہوئے، اپنا جلال آپ،یعنی روح کی چمک رکھتی ہے۔غیر فانی مرد اور خواتین روحانی حس کا نمونہ ہوتے ہیں جو کامل عقل سے اور پاکیزگی کے اْن بلند نظریات کی عکاسی کرنے سے بنائے جاتے ہیں جو مادی حس سے بالا تر ہوتے ہیں۔

7. 247 : 10-18

Beauty, as well as truth, is eternal; but the beauty of material things passes away, fading and fleeting as mortal belief. Custom, education, and fashion form the transient standards of mortals. Immortality, exempt from age or decay, has a glory of its own, — the radiance of Soul. Immortal men and women are models of spiritual sense, drawn by perfect Mind and reflecting those higher conceptions of loveliness which transcend all material sense.

8 . ۔ 296: 4 (ترقی)۔13، 19۔ 26

ترقی تجربے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ فانی انسان کی پختگی ہے، جس کے وسیلہ لافانی کی خاطر فانی بشر کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خواہ یہاں یا اس کے بعد، تکالیف یا سائنس کو زندگی اور عقل کے حوالے سے تمام تر فریب نظری کو ختم کر دینا چاہئے، او ر مادی فہم اور خودی کو از سرے نو پیدا کرنا چاہئے۔ انسانیت کو اْس کے اعمال کے ساتھ منسوخ کر دینا چاہئے۔ کوئی بھی نفس پرستی یا گناہ آلود چیز لافانی نہیں ہے۔یہ مادے کی موت نہیں بلکہ جھوٹے مادی فہم اور گناہ کی موت ہی ہے جسے انسان اور زندگی ہم آہنگ، حقیقی اور ابدی ظاہر کرتے ہیں۔

جلد یا بدیر بشر یہ سیکھ لیں گے، اور تباہی کے درد وہ کب تک برداشت کریں گے اس کا انحصار غلطی کی شدت پر ہے۔

علم جو جسمانی حواس سے حاصل ہوتا ہے وہ ہمیں گناہ اور موت کی طرف لے جاتا ہے۔ جب روح اور مادے، سچائی اور غلطی کے ثبوت آپس میں گھلتے ملتے ہیں، تو یہ اْن بنیادوں پر ہورہا ہوتا ہے جنہیں وقت ختم کر رہا ہوتا ہے۔

8. 296 : 4 (Progress)-13, 19-26

Progress is born of experience. It is the ripening of mortal man, through which the mortal is dropped for the immortal. Either here or hereafter, suffering or Science must destroy all illusions regarding life and mind, and regenerate material sense and self. The old man with his deeds must be put off. Nothing sensual or sinful is immortal. The death of a false material sense and of sin, not the death of organic matter, is what reveals man and Life, harmonious, real, and eternal.

Whether mortals will learn this sooner or later, and how long they will suffer the pangs of destruction, depends upon the tenacity of error.

The knowledge obtained from the corporeal senses leads to sin and death. When the evidence of Spirit and matter, Truth and error, seems to commingle, it rests upon foundations which time is wearing away.

9 . 9۔ 428: 22۔ 29

ایک بڑی روحانی حقیقت سامنے لائی جانی چاہئے کہ انسان کامل اور لافانی ہوگا نہیں بلکہ ہے۔ ہمیں وجودیت کے شعور کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے اور جلد یا بدیر، مسیح اور کرسچن سائنس کے وسیلہ گناہ اور موت پر حاکم ہونا چاہئے۔ جب مادی عقائد کو ترک کیا جاتا ہے اورہستی کے غیر فانی حقائق کو قبول کر لیا جاتا ہے تو انسان کی لافانیت کی شہادت مزید واضح ہو جائے گی۔

9. 428 : 22-29

The great spiritual fact must be brought out that man is, not shall be, perfect and immortal. We must hold forever the consciousness of existence, and sooner or later, through Christ and Christian Science, we must master sin and death. The evidence of man's immortality will become more apparent, as material beliefs are given up and the immortal facts of being are admitted.

10 . ۔ 76: 22۔ 31

بے گناہ خوشی، زندگی کی کامل ہم آہنگی اور لافانیت، ایک بھی جسمانی تسکین یا درد کے بِنا لامحدود الٰہی خوبصورتی اور اچھائی کی ملکیت رکھتے ہوئے، اصلی اور لازوال انسان تشکیل دیتی ہے، جس کا وجود روحانی ہوتا ہے۔ وجودیت کی یہ حالت سائنسی ہے اور برقرار ہے، یعنی ایسی کاملیت جو محض اْن لوگوں کے لئے قابل فہم ہے جنہیں الٰہی سائنس میں مسیح کی حتمی سمجھ ہے۔ موت وجودیت کی اس حالت کو کبھی تیز نہیں کر سکتی کیونکہ لافانیت کے ظاہر ہونے سے قبل موت پر فتح مند ہونا چاہئے نہ کہ اْس کے سپرد ہونا چاہئے۔

10. 76 : 22-31

The sinless joy, — the perfect harmony and immortality of Life, possessing unlimited divine beauty and goodness without a single bodily pleasure or pain, — constitutes the only veritable, indestructible man, whose being is spiritual. This state of existence is scientific and intact, — a perfection discernible only by those who have the final understanding of Christ in divine Science. Death can never hasten this state of existence, for death must be overcome, not submitted to, before immortality appears.

11 . ۔ 302: 15 (ہم ساز)۔ 24

۔۔۔ہم ساز اورغیر فانی انسان ہمیشہ سے موجود ہے اور بطور مادہ وجود رکھتے ہوئے کسی فانی زندگی، جوہر یا ذہانت سے ہمیشہ بلند اور پار رہتا ہے۔ یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے نہ کہ افسانوی ہے۔ہستی کی سائنس انسان کو کامل ظاہر کرتی ہے، حتیٰ کہ جیسا کہ باپ کامل ہے، کیونکہ روحانی انسان کی جان یا عقل خدا ہے، جو تمام تر مخلوقات کا الٰہی اصول ہے، اور یہ اس لئے کہ اس حقیقی انسان پر فہم کی بجائے روح کی حکمرانی ہوتی ہے، یعنی شریعت کی روح کی، نہ کہ نام نہاد مادے کے قوانین کی۔

11. 302 : 15 (harmonious)-24

…harmonious and immortal man has existed forever, and is always beyond and above the mortal illusion of any life, substance, and intelligence as existent in matter. This statement is based on fact, not fable. The Science of being reveals man as perfect, even as the Father is perfect, because the Soul, or Mind, of the spiritual man is God, the divine Principle of all being, and because this real man is governed by Soul instead of sense, by the law of Spirit, not by the so-called laws of matter.

12 . ۔ 495: 14۔ 24

جب بیماری یا گناہ کا بھرم آپ کو آزماتا ہے تو خدا اور اْس کے خیال کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ منسلک رہیں۔ اْس کے مزاج کے علاوہ کسی چیز کو آپ کے خیال میں قائم ہونے کی اجازت نہ دیں۔ کسی خوف یا شک کو آپ کے اس واضح اورمطمین بھروسے پر حاوی نہ ہونے دیں کہ پہچانِ زندگی کی ہم آہنگی، جیسے کہ زندگی ازل سے ہے، اس چیز کے کسی بھی درد ناک احساس یا یقین کو تبا ہ کر سکتی ہے جو زندگی میں ہے ہی نہیں۔جسمانی حس کی بجائے کرسچن سائنس کو ہستی سے متعلق آپ کی سمجھ کی حمایت کرنے دیں، اور یہ سمجھ غلطی کو سچائی کے ساتھ اکھاڑ پھینکے گی، فانیت کوغیر فانیت کے ساتھ تبدیل کرے گی، اور خاموشی کی ہم آہنگی کے ساتھ مخالفت کرے گی۔

12. 495 : 14-24

When the illusion of sickness or sin tempts you, cling steadfastly to God and His idea. Allow nothing but His likeness to abide in your thought. Let neither fear nor doubt overshadow your clear sense and calm trust, that the recognition of life harmonious — as Life eternally is — can destroy any painful sense of, or belief in, that which Life is not. Let Christian Science, instead of corporeal sense, support your understanding of being, and this understanding will supplant error with Truth, replace mortality with immortality, and silence discord with harmony.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔