اتوار 28 دسمبر ، 2025
خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اْس کی سننا۔
“The Lord thy God will raise up unto thee a Prophet from the midst of thee, of thy brethren, like unto me; unto him ye shall hearken.”
2۔ جو لوگ تاریکی میں چلتے تھے انہوں نے بڑی روشنی دیکھی۔ جو موت کے سایہ کے ملک میں رہتے تھے اْن پر نور چمکا۔
6۔ اس لئے ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اْس کے کندھے پر ہوگی۔
7۔ اْس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی انتہا نہ ہوگی۔ وہ داؤد کے تخت اور اْس کی مملکت پر آج سے ابد تک حکمران رہے گا اور عدالت اور صداقت سے اْسے قیام بخشے گا رب الا افواج کی غیوری یہ کرے گی۔
1۔ اور یسی کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اْس کی جڑوں سے ایک بار آور شاخ پیدا ہوگی۔
2۔ اور خداوند کی روح اْس پر ٹھہرے گی۔ حکمت اور خرد کی روح، مصلحت اور قدرت کی روح، معرفت اور خداوند کے خوف کی روح۔
3۔ اور اْس کی شادمانی خداوند کے خوف میں ہوگی اور وہ نہ اپنی آنکھوں کے دیکھنے کے مطابق انصاف کرے گا اور نہ اپنے کانوں کے سننے کے مطابق فیصلہ کرے گا۔
4۔ بلکہ وہ راستی سے مسکینوں کا انصاف کرے گا اور عدل سے زمین کے خاکساروں کا فیصلہ کرے گا اور اپنی زبان کے عصا سے زمین کو مارے گا اور اپنے لبوں کے دم سے شریروں کو فنا کر ڈالے گا۔
5۔ اور اْس کی کمرکا پٹکا راستبازی ہوگی اور اْس کے پہلو پر راستبازی کا پٹکا ہوگا۔
2. The people that walked in darkness have seen a great light: they that dwell in the land of the shadow of death, upon them hath the light shined.
6. For unto us a child is born, unto us a son is given: and the government shall be upon his shoulder:
7. Of the increase of his government and peace there shall be no end, upon the throne of David, and upon his kingdom, to order it, and to establish it with judgment and with justice from henceforth even for ever. The zeal of the Lord of hosts will perform this.
1. And there shall come forth a rod out of the stem of Jesse, and a Branch shall grow out of his roots:
2. And the spirit of the Lord shall rest upon him, the spirit of wisdom and understanding, the spirit of counsel and might, the spirit of knowledge and of the fear of the Lord;
3. And shall make him of quick understanding in the fear of the Lord: and he shall not judge after the sight of his eyes, neither reprove after the hearing of his ears:
4. But with righteousness shall he judge the poor, and reprove with equity for the meek of the earth: and he shall smite the earth with the rod of his mouth, and with the breath of his lips shall he slay the wicked.
5. And righteousness shall be the girdle of his loins, and faithfulness the girdle of his reins.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
15۔ کاش کہ لوگ خداوند کی شفقت کی خاطر اور بنی آدم کے لئے اْس کے عجائب کی خاطر اْس کی ستائش کرتے۔
20۔ وہ اپنا کلام نازل فرما کر اْن کو شفا دیتا ہے اور اْن کو اْنکی ہلاکت سے رہائی بخشتا ہے۔
15 Oh that men would praise the Lord for his goodness, and for his wonderful works to the children of men!
20 He sent his word, and healed them, and delivered them from their destructions.
16۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اْس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اْس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔
17۔ کیونکہ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اْس کے وسیلہ سے نجات پائے۔
34۔ کیونکہ جسے خدا نے بھیجا ہے وہ خدا کی باتیں کہتا ہے۔اِس لئے کہ وہ روح ناپ ناپ کر نہیں دیتا۔
16 For God so loved the world, that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but have everlasting life.
17 For God sent not his Son into the world to condemn the world; but that the world through him might be saved.
34 For he whom God hath sent speaketh the words of God: for God giveth not the Spirit by measure unto him.
1۔ان دنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر اوگستس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں۔
3۔اور سب لوگ نام لکھوانے کے لئے اپنے اپنے شہر کو گئے۔
4۔پس یوسف بھی گلیل کے شہر ناصرت سے داؤد کے شہر بیت الحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے۔اس لئے کہ وہ داؤد کے گھرانے اور اولاد سے تھا۔
5۔تاکہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے۔
6۔جب وہ وہاں تھے تو ایسا ہوا کہ اس کے وضعِ حمل کا وقت آ پہنچا۔
7۔اور اس کا پہلوٹا بیٹا پیدا ہوا اور اس نے اس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ ان کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی۔
؎8۔اسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔
9۔اور خداوند کا فرشتہ اْن کے پاس آ کھڑا ہوا اور خداوند کا جلال اْن کے چو گرد چمکا اور وہ نہایت ڈر گئے۔
10۔مگر فرشتہ نے اْن سے کہا ڈرو مت کیونکہ دیکھو میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری امت کے واسطے ہو گی۔
11۔کہ آج داؤد کے شہر میں تمہارے لیے ایک منجی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند۔
12۔ اور ِاس کا تمہارے لئے یہ نشان ہے کہ تم ایک بچے کو کپڑے میں لپٹا اور چرنی میں پڑا ہوا پاؤ گے۔
13۔ اور یکا یک اْس فرشتہ کے ساتھ آسمانی لشکر کی ایک گروہ خدا کی حمد کرتی اور یہ کہتی ظاہر ہوئی کہ۔
14۔ عالمِ بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر اْن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صلح۔
40۔ اور وہ لڑکا بڑھتا اور قوت پاتا گیا اور حکمت سے معمور ہوتا گیا اور خدا کا فضل اْس پر تھا۔
1 And it came to pass in those days, that there went out a decree from Cæsar Augustus, that all the world should be taxed.
3 And all went to be taxed, every one into his own city.
4 And Joseph also went up from Galilee, out of the city of Nazareth, into Judæa, unto the city of David, which is called Bethlehem; (because he was of the house and lineage of David:)
5 To be taxed with Mary his espoused wife, being great with child.
6 And so it was, that, while they were there, the days were accomplished that she should be delivered.
7 And she brought forth her firstborn son, and wrapped him in swaddling clothes, and laid him in a manger; because there was no room for them in the inn.
8 And there were in the same country shepherds abiding in the field, keeping watch over their flock by night.
9 And, lo, the angel of the Lord came upon them, and the glory of the Lord shone round about them: and they were sore afraid.
10 And the angel said unto them, Fear not: for, behold, I bring you good tidings of great joy, which shall be to all people.
11 For unto you is born this day in the city of David a Saviour, which is Christ the Lord.
12 And this shall be a sign unto you; Ye shall find the babe wrapped in swaddling clothes, lying in a manger.
13 And suddenly there was with the angel a multitude of the heavenly host praising God, and saying,
14 Glory to God in the highest, and on earth peace, good will toward men.
40 And the child grew, and waxed strong in spirit, filled with wisdom: and the grace of God was upon him.
1۔ یسوع زیتون کے پہاڑ پر گیا۔
2۔ صبح سویرے ہی وہ پھر ہیکل میں آیا اور سب لوگ اس کے پاس آئے اور وہ بیٹھ کر انہیں تعلیم دینے لگا۔
12۔ یسوع نے پھر اْن سے مخاطب ہو کر کہا کہ دنیا کا نور مَیں ہوں۔جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔
13۔ فریسیوں نے اْس سے کہا تْو اپنی گواہی آپ دیتا ہے۔ تیری گواہی سچی نہیں۔
14۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا اگرچہ مَیں اپنی گواہی آپ دیتا ہوں تو بھی میری گواہی سچی ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں کو جاتا ہوں لیکن تم کو معلوم نہیں کہ مَیں کہاں سے آتا ہوں اور کہاں کو جاتا ہوں۔
15۔تم جسم کے مطابق فیصلہ کرتے ہو۔ مَیں کسی کا فیصلہ نہیں کرتا۔
16۔ اور اگر مَیں فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ مَیں اکیلا نہیں بلکہ مَیں ہوں اور باپ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔
28۔ پس یسوع نے کہا کہ جب تم ابنِ آدم کو اونچے پہاڑ پر چڑھاؤ گے تو جانو گے کہ مَیں وہی ہوں اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا بلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا اْسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں۔
31۔ پس یسوع نے اْن یہودیوں سے کہا جنہوں نے اْس کا یقین کیا تھا کہ اگر تم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔
32۔ اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔
1 Jesus went unto the mount of Olives.
2 And early in the morning he came again into the temple, and all the people came unto him; and he sat down, and taught them.
12 Then spake Jesus again unto them, saying, I am the light of the world: he that followeth me shall not walk in darkness, but shall have the light of life.
13 The Pharisees therefore said unto him, Thou bearest record of thyself; thy record is not true.
14 Jesus answered and said unto them, Though I bear record of myself, yet my record is true: for I know whence I came, and whither I go; but ye cannot tell whence I come, and whither I go.
15 Ye judge after the flesh; I judge no man.
16 And yet if I judge, my judgment is true: for I am not alone, but I and the Father that sent me.
28 Then said Jesus unto them, When ye have lifted up the Son of man, then shall ye know that I am he, and that I do nothing of myself; but as my Father hath taught me, I speak these things.
31 Then said Jesus to those Jews which believed on him, If ye continue in my word, then are ye my disciples indeed;
32 And ye shall know the truth, and the truth shall make you free.
5۔ اور جب وہ کفر نحوم میں داخل ہوا تو ایک صوبہ دار اْس کے پاس آیا اور اْس کی منت کر کے کہا
6۔ اے خداوند میرا خادم فالج کا مارا گھرمیں پڑا ہے اور نہایت تکلیف میں ہے۔
7۔ اْس نے اْس سے کہا مَیں آکر اْسے شفا دوں گا۔
8۔ صوبہ دار نے جواب میں کہا اے خداوند مَیں اِس لائق نہیں کہ تْو میری چھت کے نیچے آئے بلکہ صرف زبان سے کہہ دے تو میرا خادم شفا پا جا ئے گا۔
13۔ اور یسوع نے صوبہ دار سے کہا جا جیسا تو نے اعتقاد کیا ہے تیرے لئے ویسا ہی ہواور اْسی گھڑی خادم نے شفا پائی۔
5 And when Jesus was entered into Capernaum, there came unto him a centurion, beseeching him,
6 And saying, Lord, my servant lieth at home sick of the palsy, grievously tormented.
7 And Jesus saith unto him, I will come and heal him.
8 The centurion answered and said, Lord, I am not worthy that thou shouldest come under my roof: but speak the word only, and my servant shall be healed.
13 And Jesus said unto the centurion, Go thy way; and as thou hast believed, so be it done unto thee. And his servant was healed in the selfsame hour.
6۔ یسوع نے اْس سے کہا۔۔۔
15۔ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو۔
16۔ اور مَیں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔
17۔ یعنی روحِ حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اْسے دیکھتی نہ جانتی ہے۔ تم اْسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہوگا۔
6 Jesus saith …
15 If ye love me, keep my commandments.
16 And I will pray the Father, and he shall give you another Comforter, that he may abide with you for ever;
17 Even the Spirit of truth; whom the world cannot receive, because it seeth him not, neither knoweth him: but ye know him; for he dwelleth with you, and shall be in you.
26۔ لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو مَیں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی روحِ حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔
26 But when the Comforter is come, whom I will send unto you from the Father, even the Spirit of truth, which proceedeth from the Father, he shall testify of me:
13۔ لیکن جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔
13 Howbeit when he, the Spirit of truth, is come, he will guide you into all truth:
2۔ ہمارے باپ خدا اور خداوند یسوع مسیح کی طرف سے تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے۔
13۔ اور اْسی میں تم پر بھی جب تم نے کلامِ حق کو سنا جو تمہاری نجات کی خوشخبری ہے اور اْس پر ایمان لائے پاک موعودہ روح کی مہر لگی۔
2 Grace be to you, and peace, from God our Father, and from the Lord Jesus Christ.
13 In whom ye also trusted, after that ye heard the word of truth, the gospel of your salvation: in whom also after that ye believed, ye were sealed with that holy Spirit of promise,
جب ایک نیا روحانی خیال زمین پر برپا ہوتا ہے، تو یسعیاہ کا الہامی کلام نئے سرے سے پورا ہوتا ہے: ”ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا۔۔۔اْس کا نام عجیب مشیرہوگا۔“
یسوع نے ایک بار اپنی تعلیمات کے بارے میں کہا: ”میری تعلیم میر ی نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔ اگر کوئی اْس کی مرضی پر چلنا چاہے تو وہ اِس تعلیم کی بابت جان جائے گا کہ خدا کی طرف سے ہے یا مَیں اپنی طرف سے کہتا ہوں۔“(یوحنا 7 باب16، 17 آیات)
When a new spiritual idea is borne to earth, the prophetic Scripture of Isaiah is renewedly fulfilled: "Unto us a child is born, ... and his name shall be called Wonderful."
Jesus once said of his lessons: "My doctrine is not mine, but His that sent me. If any man will do His will, he shall know of the doctrine, whether it be of God, or whether I speak of myself." (John vii. 16,17.)
سن1866میں، میں نے کرسچن سائنس یا زندگی، سچائی اور محبت کے الٰہی قوانین کو دریافت کیا اور اپنی اس دریافت کو کرسچن سائنس کا نام دیا۔ خدا نہایت شاندار انداز سے مجھے سائنسی ذہنی شفا کے مطلق الٰہی اصول کے اس آخری مکاشفہ کے استقبالیہ کے لئے تیار کررہا تھا۔
یہ صریحی اصول اعمانوئیل، ”خدا ہمارے ساتھ ہے“، ازلی حاکم، کے مکاشفہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، ابنِ آدم کو ہر اْس بیماری سے آزاد کرتے ہوئے ’جو بدن کی میراث ہے“۔کرسچن سائنس کے وسیلہ، مذہب اور دوا الٰہی فطرت اور جوہر کے ساتھ الہامی بنائے جاتے ہیں، ایمان اور فہم کو تازہ پنکھ دیئے جاتے ہیں، اور خیالات عقلمندانہ طور پر خود کو خدا کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔
In the year 1866, I discovered the Christ Science or divine laws of Life, Truth, and Love, and named my discovery Christian Science. God had been graciously preparing me during many years for the reception of this final revelation of the absolute divine Principle of scientific mental healing.
This apodictical Principle points to the revelation of Immanuel, "God with us," — the sovereign ever-presence, delivering the children of men from every ill "that flesh is heir to." Through Christian Science, religion and medicine are inspired with a diviner nature and essence; fresh pinions are given to faith and understanding, and thoughts acquaint themselves intelligently with God.
میری تین سالہ دریافت کے بعد، میں نے عقلی شفا سے متعلق مسئلے کا حل تلاش کیا، آیات کو تلاش کیا اور تھوڑا بہت کچھ اور مطالعہ کیا، معاشرے سے دوری اختیار کی، اور ایک مثبت اصول کی دریافت کے لئے اپنا وقت اور توانائی وقف کی۔یہ تلاش شیریں، پرسکون، امید کے ساتھ خوش کْن تھی، نہ کہ خود غرض اور نہ ہی افسردہ تھی۔۔۔۔میں خدا کو بطورعقل کے ہم آہنگ عمل کے اصول جانتا تھا، اور یہ کہ ابتدائی مسیحی شفا میں علاج پاک، بلند ایمان کے وسیلہ پیدا ہورہے تھے؛ مگر مجھے اِس شفا کی سائنس لازمی جاننا تھی، اور مَیں الٰہی مکاشفہ، وجہ اور اظہار کی بدولت اپنی راہ کی قطعی منازل پر پہنچا۔میرے ادراک میں سچائی کا انکشاف آہستہ آہستہ اور بظاہر الٰہی طاقت کے ذریعے آیا۔
For three years after my discovery, I sought the solution of this problem of Mind-healing, searched the Scriptures and read little else, kept aloof from society, and devoted time and energies to discovering a positive rule. The search was sweet, calm, and buoyant with hope, not selfish nor depressing. I knew the Principle of all harmonious Mind-action to be God, and that cures were produced in primitive Christian healing by holy, uplifting faith; but I must know the Science of this healing, and I won my way to absolute conclusions through divine revelation, reason, and demonstration. The revelation of Truth in the understanding came to me gradually and apparently through divine power.
سائنسی مکاشفہ کی اِن راہنمائیوں پر عمل کرتے ہوئے، بائبل میری واحد درسی کتاب تھی۔ صحائف پر روشنی ڈالی گئی؛ وجہ اور مکاشفہ کا آپس میں ملاپ کیا گیا، اوراِس بعد کرسچن سائنس کی سچائی کا اظہار ہوا۔ سائنس اور صحت، کتاب میں موجود سائنس سے متعلق نہ کسی انسانی قلم نے نہ زبان نے مجھے کچھ سکھایا؛ اور کوئی زبان یا قلم اِسے معزول نہیں کر سکتی۔ شاید اِس کتاب کو کھوکھلی تنقید یا لاپرواہ اور بد نیت طلباء کی بدولت مسخ کیا جاسکے، اور اِس کے نظریات کی عارضی طور پر توہین یا غلط ترجمانی کی جائے؛ مگر پہچاننے اور اظہار کرنے کے لئے سائنس اور سچ اِس میں ہمیشہ موجود رہے گا۔
In following these leadings of scientific revelation, the Bible was my only textbook. The Scriptures were illumined; reason and revelation were reconciled, and afterwards the truth of Christian Science was demonstrated. No human pen nor tongue taught me the Science contained in this book, Science and Health; and neither tongue nor pen can overthrow it. This book may be distorted by shallow criticism or by careless or malicious students, and its ideas may be temporarily abused and misrepresented; but the Science and truth therein will forever remain to be discerned and demonstrated.
چونکہ مصنفہ نے بیماری اوراِس کے ساتھ ساتھ گناہ کے علاج میں سچائی کی طاقت کو دریافت کیا، اْس کا نظام مکمل طور پر تصدیق شدہ تھا اور یہ کبھی نامکمل نہیں رہا؛ بلکہ کرسچن سائنس کی بلندی تک پہنچنے کے لئے، انسان کو اِس کے الٰہی اصول کی فرمانبردار زندگی گزارنی چاہئے۔اِس سائنس کی مکمل طاقت کو اجاگر کرنے کے لئے، جسمانی حس کی مخالفت کو روحانی حس کی ہم آہنگی تسلیم کرنی چاہئے، جیسے کہ موسیقی کی سائنس غلط دھنوں کو ٹھیک کرتی اور آواز کو مدْھر آہنگ فراہم کرتی ہے۔
Since the author's discovery of the might of Truth in the treatment of disease as well as of sin, her system has been fully tested and has not been found wanting; but to reach the heights of Christian Science, man must live in obedience to its divine Principle. To develop the full might of this Science, the discords of corporeal sense must yield to the harmony of spiritual sense, even as the science of music corrects false tones and gives sweet concord to sound.
کیونکہ عقل کی سائنس عام سائنسی سکولوں کو اچھا نہیں لگتا، جو صرف جسمانی چیزوں کے ساتھ لڑائی کرتی ہے، اس لیے اِس سائنس کی مخالفت کی گئی؛ لیکن اگر کوئی علم خدا کو عزت بخشتا ہے، تو دانش مند لوگوں کی طرف سے اسے تسلیم کیا جانا چاہئے، نہ کہ ْاس کی مخالفت ہونی چاہئے۔ اورکرسچن سائنس خدا کی عزت ایسے کرتی ہے جیسے کوئی دوسرا عقیدہ نہیں کرتا، اور وہ یہ سب اْس کے مقررکردہ طریقوں سے کرتی ہے، اْس کے پاک نام اور فطرت کے ذریعے بہت سے حیرت انگیز کام انجام دیتے ہوئے کرتی ہے۔کسی شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے مقصد کو بغیر ڈر یا ضد کے پورا کرے، کسی کام کو بہتر انجام دینے کے لئے اْس کام کو خود غرضی سے پاک ہونا چاہئے۔ مسیحیت کبھی بھی الٰہی اصول پر بنیاد نہیں رکھے گی اور یوں یقینی رہے گی جب تک کہ اَس کی مکمل سائنس تک رسائی نہیں ہوگی۔ جب یہ مکمل ہو جائے، نہ تکبر، تعصب اور نہ ہی حسد اِس کی بنیاد کو تلف کرسکے گی، کیونکہ یہ مضبوط چٹان، مسیح پر رکھی گئی ہے۔
After the author's sacred discovery, she affixed the name "Science" to Christianity, the name "error" to corporeal sense, and the name "substance" to Mind. Science has called the world to battle over this issue and its demonstration, which heals the sick, destroys error, and reveals the universal harmony. To those natural Christian Scientists, the ancient worthies, and to Christ Jesus, God certainly revealed the spirit of Christian Science, if not the absolute letter.
مصنف کی جانب سے کرسچن سائنس کی اصطلاح متعارف کرانے کا مقصد الٰہی شفا کے سائنسی نظام کو نامز دکرنا تھا۔
مکاشفہ دو حصوں پر مشتمل ہے:
1۔ عقلی شفا کی الٰہی سائنس کی دریافت یعنی جس کا ہمارے مالک نے وعدہ کیا اْس تسلی دینے والے کی تعلیمات کے وسیلہ اور صحائف کے روحانی فہم کے وسیلہ۔
2۔ موجودہ اظہار کے وسیلہ، اِس بات کا ثبوت کہ یسوع کے نام نہاد معجزات اْس تقدیر سے تعلق نہیں رکھتے جو اب ختم ہو چکی ہے، بلکہ اْن سے ایک ہمیشہ کارگر رہنے والا الٰہی اصول ظاہر ہوا۔اِس اصول کی کارکردگی سائنسی ترتیب کی ابدیت اور ہستی کے تسلسل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
The term Christian Science was introduced by the author to designate the scientific system of divine healing.
The revelation consists of two parts:
1. The discovery of this divine Science of Mind-healing, through a spiritual sense of the Scriptures and through the teachings of the Comforter, as promised by the Master.
2. The proof, by present demonstration, that the so-called miracles of Jesus did not specially belong to a dispensation now ended, but that they illustrated an ever-operative divine Principle. The operation of this Principle indicates the eternality of the scientific order and continuity of being.
یسوع نے انسانی عقلوں اور بدنوں کو شفا دینے کے لئے کرسچن سائنس کی طاقت کو ظاہر کیا۔مگر اِس طاقت کو نظر انداز کردیا گیا تھا، مگر اِس پر دوبارہ روحانی طور پر غور کیا جانا، اِسکی تعلیم دی جانی اور مسیح کے حکم کے مطابق، ”علامتوں کی پیروی“ کرنے سے اِس کا اظہار کیا جانا چاہئے۔ جتنے بھی مسیح پر ایمان رکھتے ہیں اور روحانی طور پر سچائی کو سمجھتے ہیں اْنہیں اِس کی سائنس کا ادراک لازمی ہونا چاہئے۔
Jesus demonstrated the power of Christian Science to heal mortal minds and bodies. But this power was lost sight of, and must again be spiritually discerned, taught, and demonstrated according to Christ's command, with "signs following." Its Science must be apprehended by as many as believe on Christ and spiritually understand Truth.
اونچے درجے کے کام کے لئے خدا کسی شخص کی نمو یافتہ صحتمندی کا انتخاب کرتا ہے تاکہ کسی ناممکنہ مہم کو تلف کرنے کے لئے یہ پیش کی جائے۔وہ قادر العقل اپنا اعتبار کسی نا اہل کو عطا نہیں کرتا۔ جب وہ کسی پیامبر کو مختار بناتا ہے تو یہ وہ ہوتا ہے جو روحانی طور پر خود اس کے قریب ہو۔ کوئی شخص اس ذہنی قوت کا غلط استعمال نہیں کر سکتا، اگر اسے خدا کی طرف سے اس کی آگاہی کی تعلیم دی گئی ہو۔
God selects for the highest service one who has grown into such a fitness for it as renders any abuse of the mission an impossibility. The All-wise does not bestow His highest trusts upon the unworthy. When He commissions a messenger, it is one who is spiritually near Himself. No person can misuse this mental power, if he is taught of God to discern it.
آنے والی نسلوں کے لئے راہ کی نشاندہی کرتے ہوئے،جو بھی کرسچن سائنس میں راستہ کھولتا ہے وہ ایک زائراور اجنبی ہے۔
Whoever opens the way in Christian Science is a pilgrim and stranger, marking out the path for generations yet unborn.
میری خستہ حال امید اْس خوشی کے دن کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے، جب انسان مسیح کی سائنس کو سمجھے گا اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھے گا، جب وہ یہ جانے گا کہ خدا قادر مطلق ہے اور جو کچھ اْس نے انسان کے لئے کیا ہے اور کر رہا ہے اْس میں الٰہی محبت کی شفائیہ طاقت کو جانے گا۔ وعدے پورے کئے جائیں گے۔ الٰہی شفا کے دوبارہ ظاہر ہونے کا وقت ہمہ وقت ہوتا ہے؛ اور جو کوئی بھی اپنازمینی سب کچھ الٰہی سائنس کی الطار پر رکھتا ہے، وہ اب مسیح کے پیالے میں سے پیتا ہے، اور وہ روح اور مسیحی شفا کی طاقت سے ملبوس ہوتا ہے۔
مقدس یوحنا کے الفاظ میں: ”وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔“ میں الٰہی سائنس کو یہ مددگار سمجھتا ہوں۔
My weary hope tries to realize that happy day, when man shall recognize the Science of Christ and love his neighbor as himself, — when he shall realize God's omnipotence and the healing power of the divine Love in what it has done and is doing for mankind. The promises will be fulfilled. The time for the reappearing of the divine healing is throughout all time; and whosoever layeth his earthly all on the altar of divine Science, drinketh of Christ's cup now, and is endued with the spirit and power of Christian healing.
In the words of St. John: "He shall give you another Comforter, that he may abide with you forever." This Comforter I understand to be Divine Science.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔