اتوار 21 نومبر،2021



مضمون۔ جان اور جسم

SubjectSoul and Body

سنہری متن: زبور 18: 26 آیت

”نیکو کار کے ساتھ نیک ہوگا۔“



Golden Text: Psalm 18 : 26

With the pure thou wilt shew thyself pure.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: زبور 132: 11، 13، 17، 18 آیات • زبور 78: 70تا72آیات


11۔ خداوند نے سچائی کے ساتھ داؤد سے قسم کھائی ہے۔ اور اْس سے پھرنے کا نہیں۔ کہ مَیں تیری اولاد میں سے کسی کو تیرے تخت پر بٹھاؤں گا۔

13۔ کیونکہ خداوند نے صیون کو چنا ہے۔ اْس نے اْسے اپنے مسکن کے لئے پسند کیا ہے۔

17۔ وہیں مَیں داؤد کے لئے ایک سینگ نکالوں گا۔ مَیں نے اپنے ممسوح کے لئے ایک چراغ تیار کیا ہے۔

18۔ مَیں اْس کے دشمنوں کو شرمندگی کا لباس پہناؤں گا۔ لیکن اْس پر اْسی کا تاج رونق افروز ہوگا۔

70۔ اْس نے اپنے بندے داؤد کو بھی چنا اور بھیڑ سالوں میں سے اْسے لے لیا۔

71۔ وہ اْسے بچے والی بھیڑوں کی چوپانی سے ہٹا لایا تاکہ اْس کی قوم یعقوب اور اْس کی میراث اسرائیل کی گلہ بانی کرے۔

72۔ سو اْس نے خلوصِ دل سے اْن کی پاسبانی کی۔

Responsive Reading: Psalm 132 : 11, 13, 17, 18; Psalm 78 : 70-72

11.     The Lord hath sworn in truth unto David; he will not turn from it; Of the fruit of thy body will I set upon thy throne.

13.     For the Lord hath chosen Zion; he hath desired it for his habitation.

17.     There will I make the horn of David to bud: I have ordained a lamp for mine anointed.

18.     His enemies will I clothe with shame: but upon himself shall his crown flourish.

70     He chose David also his servant, and took him from the sheepfolds:

71.     From following the ewes great with young he brought him to feed Jacob his people, and Israel his inheritance.

72.     So he fed them according to the integrity of his heart.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ زبور 24: 3، 4 (تا؛) آیات

3۔ خداوند کے پہاڑ پر کون چڑھے گا اور اْس کے مقدس مقام پر کون کھڑا ہوگا۔

4۔ وہی جس کے ہاتھ صاف ہیں اور جس کا دل پاک ہے۔

1. Psalm 24 : 3, 4 (to ;)

3     Who shall ascend into the hill of the Lord? or who shall stand in his holy place?

4     He that hath clean hands, and a pure heart;

2 . ۔ 1سیموئیل 16 باب 1، 4 (تا۔)، 5 (اور اْس نے پاک کیا)، 7، 11 (تا تیسرا،)، 12، 13 (تا پہلا)، 14، 23 آیات

1۔ اور خداوند نے سیموئیل سے کہا تْو کب تک داؤد کے لئے غم کھاتا رہے گا جس حال کہ مَیں نے اْسے اسرائیل کا بادشاہ ہونے سے رد کردیا ہے؟ تْو اپنے سینگ میں تیل بھر اور جا۔ مَیں تجھے بیت الحمی یسی کے پاس بھیجتا ہوں کیونکہ مَیں نے اْس کے بیٹوں میں سے ایک اپنی طرف سے بادشاہ چنا ہے۔

4۔ اور سیموئیل نے وہی جو خداوند نے کہا تھا کیا اور وہ بیت الحم میں آیا۔

5۔ اور اْس نے یسی کو اور اْس کے بیٹوں کو پاک کیا اور اْن کو قربانی کی دعو ت دی۔

7۔ پر خداوند نے سیموئیل سے کہا کہ تْو اْس کے چہرے اور اْس کے قد کی بلندی کو نہ دیکھ اِس لئے کہ مَیں نے اْسے ناپسند کیا ہے کیونکہ خداوند انسان کی مانند نظر نہیں کرتا کہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر خداوند دل پر نظر کرتا ہے۔

11۔ پھر سیموئیل نے یسی سے پوچھا کیا تیرے لڑکے یہی ہیں؟ اْس نے کہا سب سے چھوٹا ابھی رہ گیا۔

12۔ سو وہ اْسے بلوا کر اندر لایا وہ سرخ رنگ اور خوبصورت اور حسین تھا اور خداوند نے فرمایا اٹھ اور اْسے مسح کر کیونکہ وہ یہی ہے۔

13۔ تب سیموئیل نے تیل کا سینگ لیا اور اْسے اْس کے بھائیوں کے درمیان مسح کیا اور خداوند کی روح اْس دن سے آگے کو داؤد پر زور سے نازل ہوتی رہی۔

14۔ اور خداوند کی روح ساؤل سے جدا ہوگئی اور خداوند کی طرف سے ایک بری روح اْسے ستانے لگی۔

23۔ سو جب وہ بری روح خدا کی طرف سے ساؤل پر چڑھتی تھی تو داؤد بربط لے کر ہاتھ سے بجاتا تھا اور وہ بری روح اْس پر سے اْتر جاتی تھی۔

2. I Samuel 16 : 1, 4 (to .), 5 (And he sanctified), 7, 11 (to 3rd ,), 12, 13 (to 1st .), 14, 23

1     And the Lord said unto Samuel, How long wilt thou mourn for Saul, seeing I have rejected him from reigning over Israel? fill thine horn with oil, and go, I will send thee to Jesse the Beth-lehemite: for I have provided me a king among his sons.

4     And Samuel did that which the Lord spake, and came to Beth-lehem.

5     And he sanctified Jesse and his sons, and called them to the sacrifice.

7     But the Lord said unto Samuel, Look not on his countenance, or on the height of his stature; because I have refused him: for the Lord seeth not as man seeth; for man looketh on the outward appearance, but the Lord looketh on the heart.

11     And Samuel said unto Jesse, Are here all thy children? And he said, There remaineth yet the youngest,

12     And he sent, and brought him in. Now he was ruddy, and withal of a beautiful countenance, and goodly to look to. And the Lord said, Arise, anoint him: for this is he.

13     Then Samuel took the horn of oil, and anointed him in the midst of his brethren: and the Spirit of the Lord came upon David from that day forward.

14     But the Spirit of the Lord departed from Saul, and an evil spirit from the Lord troubled him.

23     And it came to pass, when the evil spirit from God was upon Saul, that David took an harp, and played with his hand: so Saul was refreshed, and was well, and the evil spirit departed from him.

3 . ۔ 1 سیموئیل 23 باب15تا17 (تا دوسرا،) آیات

15۔اور داؤد نے دیکھا کہ ساؤل اْس کی جان لینے کو نکلا ہے۔ اْس وقت داؤد دشتِ زیف کے بَن میں تھا۔

16۔ اور ساؤل کا بیٹا یونتن اْٹھ کر داؤد کے پاس بن میں گیا، اور خدا میں اْس کا ہاتھ مضبوط کیا۔

17۔ اْس نے اْس سے کہا تْو مت ڈر کیونکہ تْو میرے باپ ساؤل کے ہاتھ میں نہیں پڑے گا اور تْو اسرائیل کا بادشاہ ہوگا اور میں تجھ سے دوسرے درجے پر ہوں گا، یہ میرے باپ ساؤل کو بھی معلوم ہے۔

3. I Samuel 23 : 15-17 (to 2nd ,)

15     And David saw that Saul was come out to seek his life: and David was in the wilderness of Ziph in a wood.

16     And Jonathan Saul’s son arose, and went to David into the wood, and strengthened his hand in God.

17     And he said unto him, Fear not: for the hand of Saul my father shall not find thee; and thou shalt be king over Israel,

4 . ۔ 1 سیموئیل 25 باب29 (تا؛) آیت

29۔ گو انسان تیرا پیچھا کرنے اور تیری جان لینے کو اْٹھے تو بھی میرے مالک کی جان زندگی کے بْقچہ میں خداوند تیرے خدا کے ساتھ بندھی رہے گی۔

4. I Samuel 25 : 29 (to ;)

29     Yet a man is risen to pursue thee, and to seek thy soul: but the soul of my lord shall be bound in the bundle of life with the Lord thy God;

5 . ۔ 1 سیموئیل 24 باب1 (تا دوسرا)، 3 (وہ) تا 6، 8، 10 تا12، 16تا18، 20 آیات

1۔ جب ساؤل فلستیوں کا پیچھا کر کے لوٹا؛

3۔۔۔۔وہ راستے میں بھیڑ سالوں کے پاس پہنچا جہاں ایک غار تھا اور ساؤل اْس غار میں فراغت کرنے گھْسا اور داؤد اپنے لوگوں سمیت اْس غار کے اندرونی خانوں میں بیٹھا تھا۔

4۔ اور داؤد کے لوگوں نے اْس سے کہا دیکھ یہ وہ دن ہے جس کی بابت خداوند نے تجھ سے کہا تھا کہ دیکھ مَیں تیرے دشمن کو تیرے ہاتھ میں کردوں گا اور جو تیرا جی چاہے تْو اْس سے کرنا۔ سو داؤد اٹھ کر ساؤل کے جْبہ کا دامن چپکے سے کاٹ لے گیا۔

5۔ اور اْس کے بعد ایسا ہوا کہ داؤد کا دل بے چین ہوا اِس لئے کہ اْس نے ساؤل کے جبہ کا دامن کاٹ لیا تھا۔

6۔ اور اْس نے اپنے لوگوں سے کہا کہ خداوند نہ کرے کہ مَیں اپنے مالک سے جو خداوند کا ممسوح ہے ایسا کام کروں کہ اپنا ہاتھ اْس پر چلاؤں اِس لئے کہ وہ خداوند کا ممسوح ہے۔

8۔ اور اِس کے بعد داؤد بھی اٹھا اور اْس غار میں سے نکلا اور ساؤل کے پیچھے پکار کر کہنے لگا کہ اے میرے مالک بادشاہ! جب ساؤل نے پیچھے پھر کر دیکھا تو داؤد نے اوندھے منہ گر کر سجدہ کیا۔

10۔ دیکھ آج کے دن تْو نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خداوند نے غار میں آج تجھے میرے ہاتھ میں کر دیا اور بعضوں نے مجھ سے کہا بھی کہ تجھے مار ڈالوں پر میری آنکھوں نے تیرا لحاظ کیا اور مَیں نے کہا کہ مَیں اپنے مالک پر ہاتھ نہیں چلاؤں گا کیونکہ وہ خداوند کا ممسوح ہے۔

11۔ ماسوائے اِس کے اے میرے باپ دیکھ۔ یہ بھی دیکھ کہ تیرے جْبہ کا دامن کاٹا اور تجھے مار نہیں ڈالا سو تْو جان لے اور دیکھ لے کہ میرے ہاتھ میں کسی طرح کی بدی یا برائی نہیں اور مَیں نے تیرا گناہ نہیں کیا گو تْو میری جان لینے کے در پے ہے۔

12۔ خداوند میرے اور تیرے درمیان انصاف کرے اور خداوند تجھ سے میرا انتقام لے پر میرا ہاتھ تجھ پر نہیں اٹھے گا۔

16۔اور ایسا ہوا کہ جب داؤد یہ باتیں ساؤل سے کہہ چکا تو ساؤل نے کہا اے میرے بیٹے داؤد کیا یہ تیری آواز ہے؟ اور ساؤل چلا کر رونے لگا۔

17۔ اور اْس نے داؤد سے کہا تْو مجھ سے زیادہ صادق ہے اِس لئے کہ تْو نے میرے ساتھ بھلائی کی ہے حالانکہ مَیں نے تیرے ساتھ برائی کی۔

18۔ اور تْو نے آج کے دن ظاہر کر دیا کہ تْو نے میرے ساتھ بھلائی کی ہے کیونکہ جب خداوند نے مجھے تیرے ہاتھ میں کر دیا تو تْو نے مجھے قتل نہ کیا۔

20۔ اور اب دیکھ مَیں خوب جانتا ہوں کہ تْو یقیناً بادشاہ ہوگا اور اسرائیل کی سلطنت تیرے ہاتھ میں پڑ کر قائم ہوگی۔

5. I Samuel 24 : 1 (to 2nd ,), 3 (he)-6, 8, 10-12, 16-18, 20

1     And it came to pass, when Saul was returned from following the Philistines,

3     … he came to the sheepcotes by the way, where was a cave; and Saul went in to cover his feet: and David and his men remained in the sides of the cave.

4     And the men of David said unto him, Behold the day of which the Lord said unto thee, Behold, I will deliver thine enemy into thine hand, that thou mayest do to him as it shall seem good unto thee. Then David arose, and cut off the skirt of Saul’s robe privily.

5     And it came to pass afterward, that David’s heart smote him, because he had cut off Saul’s skirt.

6     And he said unto his men, The Lord forbid that I should do this thing unto my master, the Lord’s anointed, to stretch forth mine hand against him, seeing he is the anointed of the Lord.

8     David also arose afterward, and went out of the cave, and cried after Saul, saying, My lord the king. And when Saul looked behind him, David stooped with his face to the earth, and bowed himself.

10     Behold, this day thine eyes have seen how that the Lord had delivered thee to day into mine hand in the cave: and some bade me kill thee: but mine eye spared thee; and I said, I will not put forth mine hand against my lord; for he is the Lord’s anointed.

11     Moreover, my father, see, yea, see the skirt of thy robe in my hand: for in that I cut off the skirt of thy robe, and killed thee not, know thou and see that there is neither evil nor transgression in mine hand, and I have not sinned against thee; yet thou huntest my soul to take it.

12     The Lord judge between me and thee, and the Lord avenge me of thee: but mine hand shall not be upon thee.

16     And it came to pass, when David had made an end of speaking these words unto Saul, that Saul said, Is this thy voice, my son David? And Saul lifted up his voice, and wept.

17     And he said to David, Thou art more righteous than I: for thou hast rewarded me good, whereas I have rewarded thee evil.

18     And thou hast shewed this day how that thou hast dealt well with me: forasmuch as when the Lord had delivered me into thine hand, thou killedst me not.

20     And now, behold, I know well that thou shalt surely be king, and that the kingdom of Israel shall be established in thine hand.

6 . ۔ 2 سیموئیل 22 باب 1، 3، 7، 21، 25، 27 (تا؛) آیات

1۔ جب خداوند نے داؤد کو اْس کے سب دشمنوں اور ساؤل کے ہاتھ سے رہائی دی تو اْس نے خداوند کے حضور اِس مضمون کا گیت گایا۔

3۔ خدا میری چٹان ہے۔ مَیں اْسی پر بھروسہ رکھوں گا۔ وہی میری سِپر اور میری چٹان ہے۔ میرا اونچا برج اور میری پناہ ہے۔ میرے نجات دینے والے! تْو ہی مجھے ظلم سے بچاتا ہے۔

7۔ اپنی مصیبت میں مَیں نے خداوند کو پکارا۔ مَیں اپنے خدا کے حضور چلایا۔ اْس نے اپنی ہیکل میں سے میری آواز سنی اور میری فریاد اْس کے کان میں پہنچی۔

21۔ خداوند نے میری راستی کے موافق مجھے جزا دی اور میرے ہاتھوں کی پاکیزگی کے مطابق مجھے بدلہ دیا۔

25۔ اِسی لئے خداوند نے مجھے میری راستی کے موافق بلکہ اپنی اْس پاکیزگی کے مطابق جو ا ْس کی نظر کے سامنے تھی بدلہ دیا۔

27۔ نیکوکار کے ساتھ نیک ہوگا۔

6. II Samuel 22 : 1, 3, 7, 21, 25, 27 (to ;)

1     And David spake unto the Lord the words of this song in the day that the Lord had delivered him out of the hand of all his enemies, and out of the hand of Saul:

3     The God of my rock; in him will I trust: he is my shield, and the horn of my salvation, my high tower, and my refuge, my saviour; thou savest me from violence.

7     In my distress I called upon the Lord, and cried to my God: and he did hear my voice out of his temple, and my cry did enter into his ears.

21     The Lord rewarded me according to my righteousness: according to the cleanness of my hands hath he recompensed me.

25     Therefore the Lord hath recompensed me according to my righteousness; according to my cleanness in his eye sight.

27     With the pure thou wilt shew thyself pure;

7 . ۔ متی 5 باب8 آیت

8۔ مبارک ہیں وہ جو پاکدل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔

7. Matthew 5 : 8

8     Blessed are the pure in heart: for they shall see God.



سائنس اور صح


1 . ۔ 280 :26 (خدا)۔30

خدا، جو انسان اور ساری مخلوق کی جان ہے،اپنی انفرادیت، ہم آہنگی اور لافانیت میں دائمی ہوتے ہوئے، منفرد رہتا اور انسان میں ان خوبیوں کو، عقل کے وسیلہ، نہ کہ مادے کے وسیلہ، متواتر رکھتا ہے۔

1. 280 : 26 (God)-30

God, the Soul of man and of all existence, being perpetual in His own individuality, harmony, and immortality, imparts and perpetuates these qualities in man, — through Mind, not matter.

2 . ۔ 70 :12۔16

الٰہی عقل سبھی شناختوں کو،بطور منفرد اور ابدی، گھاس کاٹنے والی تلوار تا ستارے تک، محفوظ رکھتا ہے۔ سوالات یہ ہیں: خدا کی شناختیں کیا ہیں؟ جان کیا ہے؟ کیا زندگی یا جان بنائی گئی چیز میں موجود ہوتی ہے؟

2. 70 : 12-16

The divine Mind maintains all identities, from a blade of grass to a star, as distinct and eternal. The questions are: What are God's identities? What is Soul? Does life or soul exist in the thing formed?

3 . ۔ 71 :6 (روح)۔9

روح یا سب کا الٰہی اصول، روح کی بناوٹیں نہیں ہیں۔ جان روح، خدا، خالق، حکمران محدود شکل سے باہر لامحدود اصول کا مترادف لفظ ہے، جو صرف عکس کی تشکیل کرتا ہے۔

3. 71 : 6 (Spirit)-9

Spirit, or the divine Principle of all, is not in Spirit's formations. Soul is synonymous with Spirit, God, the creative, governing, infinite Principle outside of finite form, which forms only reflect.

4 . ۔ 467 :17۔23

سائنس جان، روح کو بدن میں غیر موجود ظاہر کرتی ہے، اور خدا کو انسان میں نہیں بلکہ انسان کے وسیلہ منعکس ظاہر کرتی ہے۔عظیم ترین کم ترین نہیں ہو سکتا۔یہ عقیدہ کہ عظیم ترین کم ترین میں ہو سکتا ہے ایک غلطی ہے جو ناکام ہو جاتی ہے۔جان کی سائنس میں یہ ایک نمایاں نقطہ ہے کہ اصول اْس کے خیال میں نہیں ہوتا۔روح، جان انسان میں محدود نہیں ہیں، اور مادے میں کبھی نہیں ہوتی۔

4. 467 : 17-23

Science reveals Spirit, Soul, as not in the body, and God as not in man but as reflected by man. The greater cannot be in the lesser. The belief that the greater can be in the lesser is an error that works ill. This is a leading point in the Science of Soul, that Principle is not in its idea. Spirit, Soul, is not confined in man, and is never in matter.

5 . ۔ 478 :3۔13

فانیت کے اندر آپ کے پاس روح یا لافانیت کا کیا ثبوت ہے؟ حتیٰ کہ فطری سائنس کے مطابق بھی بدن کو چھوڑتے اور اِس میں داخل ہوتے ہوئے انسان نے کبھی روح یا جان کو نہیں پکڑا۔فانی عقیدے کے دعویٰ کے علاوہ روح کے اندر بسنے کے نظریے کی کیا بنیاد ہے؟ اِس حوالے سے کیا اظہارِ خیال ہوگا کہ ایک گھر آباد تھا، جس میں چند لوگ رہتے تھے، جبکہ اْن میں سے کسی کو بھی نہ اندر آتے دیکھا گیا نہ باہر جاتے دیکھا گیا، اور نہ ہی کوئی کھڑکی پر کبھی نظر آیا؟بدن کے اندر روح کو کون دیکھ سکتا ہے؟

5. 478 : 3-13

What evidence of Soul or of immortality have you within mortality? Even according to the teachings of natural science, man has never beheld Spirit or Soul leaving a body or entering it. What basis is there for the theory of indwelling spirit, except the claim of mortal belief? What would be thought of the declaration that a house was inhabited, and by a certain class of persons, when no such persons were ever seen to go into the house or to come out of it, nor were they even visible through the windows? Who can see a soul in the body?

6 . ۔ 300 :23۔4

روح خدا اور جان ہے اسی لئے جان مادے میں نہیں ہوتی۔ اگر روح مادے میں ہوتی، تو خدا کا کوئی نمائندہ کار نہ ہوتا، اور مادہ خدا کی شبیہ کی مانند ہوتا۔ یہ نظریہ کہ روح، جان،ذہانت مادے میں بستی ہے، سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ غیر سائنسی نظریہ ہے۔ کائنات الٰہی مواد یا عقل کی عکاسی کرتی یا ظاہر کرتی ہے، اِس لئے خدا صرف روحانی کائنات اور روحانی انسان میں ہی دکھائی دیتا ہے، جیسا کہ سورج روشنی کی اْسی کرن میں دکھائی دیتا ہے جو اِس سے خارج ہوتی ہے۔ خدا صرف اْسی میں ظاہر ہوتا ہے جو زندگی، سچائی اور محبت کی عکاسی کرتا ہے، ہاں، جو خدا کی خصوصیات اور قدرت کو ظاہر کرتا ہے، جیسے کہ انسانی صورت آئینے میں دکھائی دیتی ہے، آئینے کے سامنے کھڑے شخص کے رنگ، شکل اور حرکات کو دوہراتی ہے۔

6. 300 : 23-4

Spirit is God, Soul; therefore Soul is not in matter. If Spirit were in matter, God would have no representative, and matter would be identical with God. The theory that soul, spirit, intelligence, inhabits matter is taught by the schools. This theory is unscientific. The universe reflects and expresses the divine substance or Mind; therefore God is seen only in the spiritual universe and spiritual man, as the sun is seen in the ray of light which goes out from it. God is revealed only in that which reflects Life, Truth, Love, — yea, which manifests God's attributes and power, even as the human likeness thrown upon the mirror, repeats the color, form, and action of the person in front of the mirror.

7 . ۔ 477 :20 (شناخت)۔31

شناخت روح کا عکس ہے، وہ عکس جو الٰہی اصول، یعنی محبت کی متعدد صورتوں میں پایا جاتا ہے۔ جان مادہ، زندگی، انسان کی ذہانت ہے، جس کی انفرادیت ہوتی ہے لیکن مادے میں نہیں۔ جان روح سے کمتر کسی چیز کی عکاسی کبھی نہیں کر سکتی۔

انسان روح کا اظہار۔بھارتیوں نے بنیادی حقیقت کی چند جھلکیاں پکڑی ہیں، جب انہوں نے ایک خوبصورت جھیل کو ”عظیم روح کی مسکراہٹ“ کا نام دیا۔ انسان سے جْدا، جو جان کو ظاہر کرتا ہے، روح غیر دیوتائی ہوگی؛ انسان، جو روح سے دریافت شدہ ہے، اپنی الوہیت کھو دے گا۔

7. 477 : 20 (Identity)-31

Identity is the reflection of Spirit, the reflection in multifarious forms of the living Principle, Love. Soul is the substance, Life, and intelligence of man, which is individualized, but not in matter. Soul can never reflect anything inferior to Spirit.

Man is the expression of Soul. The Indians caught some glimpses of the underlying reality, when they called a certain beautiful lake "the smile of the Great Spirit." Separated from man, who expresses Soul, Spirit would be a nonentity; man, divorced from Spirit, would lose his entity.

8 . ۔ 337 :2 (انسان)۔4

۔۔۔انسان، خدا کی عکاسی کرتے ہوئے، اپنی انفرادیت نہیں کھو سکتا؛ مگر بطور مادی احساس، یا بدن میں ایک جان کے طور پر، اندھے بشر روحانی انفرادیت کی بینائی ضرور کھو دیں گے۔

8. 337 : 2 (man)-4

…man, reflecting God, cannot lose his individuality; but as material sensation, or a soul in the body, blind mortals do lose sight of spiritual individuality.

9 . ۔ 216 :30۔5

عقل میں مادے پر اپنے فانی عقیدے کو ترک کردیں، اور صرف ایک عقل یعنی خدا کو اپنائیں؛ کیونکہ یہ عقل اپنی خود کی شبیہ بناتی ہے۔اْس سمجھ کے وسیلہ جس کا سامنا سائنس کرتی ہے انسان کا اپنی شناخت کھو دینا ناممکن ہے؛ اور ایسے امکان کاتصور یہ نتیجہ اخذ کرنے سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے کہ انفرادی موسیقی کی آوازیں ابتدا کی ہم آہنگی میں کھو جاتی ہیں۔

9. 216 : 30-5

Give up your material belief of mind in matter, and have but one Mind, even God; for this Mind forms its own likeness. The loss of man’s identity through the understanding which Science confers is impossible; and the notion of such a possibility is more absurd than to conclude that individual musical tones are lost in the origin of harmony.

10 . ۔ 261 :21۔27

بدن یا مادے سے فہم کو الگ کردیں، جو انسانی عقیدے کی محض ایک شکل ہے، تو آپ خدا، یا اچھائی کا مفہوم اور ازلی اور لافانی کی فطرت جان سکیں گے۔فہم اور وقت کے تغیرات سے آزاد ہوتے ہوئے آپ زندگی کی مضبوط چیزوں اور سروں کو اور نہ اپنی شناخت کو کھوئیں گے۔

10. 261 : 21-27

Detach sense from the body, or matter, which is only a form of human belief, and you may learn the meaning of God, or good, and the nature of the immutable and immortal. Breaking away from the mutations of time and sense, you will neither lose the solid objects and ends of life nor your own identity.

11 . ۔ 265 :10۔15

ہستی کا یہ سائنسی فہم، روح کے لئے مادے کو ترک کرتے ہوئے، کسی وسیلہ کے بغیر الوہیت میں انسان کے سوکھے پن اوراْس کی شناخت کی گمشْدگی کی تجویز دیتا ہے، لیکن انسان پر ایک وسیع تر انفرادیت نچھاور کرتا ہے،یعنی اعمال اور خیالات کا ایک بڑا دائرہ، وسیع محبت اور ایک بلند اورمزید مستقل امن عطا کرتا ہے۔

11. 265 : 10-15

This scientific sense of being, forsaking matter for Spirit, by no means suggests man's absorption into Deity and the loss of his identity, but confers upon man enlarged individuality, a wider sphere of thought and action, a more expansive love, a higher and more permanent peace.

12 . ۔ 323 :6۔8 (تا دوسرا)،32۔6

محبت کی صحت بخش تادیب کے وسیلہ ہم راستبازی، امن اور پاکیزگی کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں،

ایک چھوٹے بچے کی مانند بننے کی خواہش اور نئی سوچ کے لئے پرانی کو ترک کرنا اْس دانش کو جنم دیتا ہے جو جدید نظریے کو قبول کرنے والی ہو۔ غلط نشانیوں کو چھوڑنے کی خوشی اور انہیں غائب ہوتے دیکھنے کی شادمانی، یہ ترغیب مکمل ہم آہنگی کو تیزی سے عمل میں لانے میں مدد دیتی ہے۔سمجھ اور خودکی پاکیزگی ترقی کا ثبوت ہے۔ ”مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں؛ کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔“

12. 323 : 6-8 (to 2nd ,), 32-6

Through the wholesome chastisements of Love, we are helped onward in the march towards righteousness, peace, and purity,

Willingness to become as a little child and to leave the old for the new, renders thought receptive of the advanced idea. Gladness to leave the false landmarks and joy to see them disappear, — this disposition helps to precipitate the ultimate harmony. The purification of sense and self is a proof of progress. "Blessed are the pure in heart: for they shall see God."

13 . ۔ 467 :1۔16

سوال۔ جان کی سائنس کی شرائط کیاہیں؟

جواب۔ اس سائنس کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ”تْو میرے حضور غیر معبودوں کو نہ ماننا۔“یہ لفظ”میرے“ روح ہے۔لہٰذہ اس حکم کا مطلب ہے یہ: تو میرے سامنے نہ کوئی ذہانت، نہ زندگی، نہ مواد، نہ سچائی، نہ محبت رکھنا ماسوائے اْس کے جو روحانی ہے۔دوسرا بھی اسی طرح ہے، ”تْو اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔“ اس بات کی پوری طرح سے سمجھ آجانی چاہئے کہ تمام انسانوں کی عقل ایک ہے، ایک خدا اور باپ، ایک زندگی، حق اور محبت ہے۔ جب یہ حقیقت ایک تناسب میں ایاں ہوگی تو انسان کامل ہوجائے گا، جنگ ختم ہو جائے گی اور انسان کا حقیقی بھائی چارہ قائم ہو جائے گا۔دوسرے دیوتا نہ ہونا، دوسری کی طرف جانے کی بجائے راہنمائی کے لئے ایک کامل عقل کے پاس جاتے ہوئے، انسان خدا کی مانند پاک اور ابدی ہوجاتا ہے، جس کے پاس وہی عقل ہے جو مسیح میں بھی تھی۔

13. 467 : 1-16

Question. — What are the demands of the Science of Soul?

Answer. — The first demand of this Science is, "Thou shalt have no other gods before me." This me is Spirit. Therefore the command means this: Thou shalt have no intelligence, no life, no substance, no truth, no love, but that which is spiritual. The second is like unto it, "Thou shalt love thy neighbor as thyself." It should be thoroughly understood that all men have one Mind, one God and Father, one Life, Truth, and Love. Mankind will become perfect in proportion as this fact becomes apparent, war will cease and the true brotherhood of man will be established. Having no other gods, turning to no other but the one perfect Mind to guide him, man is the likeness of God, pure and eternal, having that Mind which was also in Christ.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████