اتوار 6 فروری، 2022



مضمون۔ روح

SubjectSpirit

سنہری متن: گلتیوں 5 باب25 آیت

”اگر ہم روح کے سبب سے زندہ ہیں توروح کے موافق چلنا بھی چاہئے۔“



Golden Text: Galatians 5 : 25

If we live in the Spirit, let us also walk in the Spirit.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: زبور 47: 1، 4، 6 آیات • زبور 104: 24، 30،31 آیات


1۔ اے سب امتو! تالیاں بجاؤ۔ خدا کے لئے خوشی کی آواز سے للکارو۔

4۔ وہ ہمارے لئے ہماری میراث چنے گا۔ جو اْس کے محبوب یعقوب کی حشمت ہے۔

6۔ مداح سرائی کرو۔ خدا کی مداح سرائی کرو۔ مداح سرائی کرو۔ ہمارے بادشاہ کی مداح سرائی کرو۔

24۔ اے خُداوند! تیری صعنتیں کیسی بے شمار ہیں! تو نے سب کچھ حکمت سے بنایا۔ زمین تیری مخلوقات سے معمور ہیں۔

30۔تو اپنی روح بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں۔ اورتو روی زمین کو نیا بنا دیتا ہے۔

31۔خداوند کا جلال ابدتک رہے خداوند اپنی صعنتوں سے خوش ہو۔

Responsive Reading: Psalm 47 : 1, 4, 6; Psalm 104 : 24, 30, 31

1.     O clap your hands, all ye people; shout unto God with the voice of triumph.

4.     He shall choose our inheritance for us, the excellency of Jacob whom he loved.

6.     Sing praises to God, sing praises: sing praises unto our King, sing praises.

24.     O Lord, how manifold are thy works! in wisdom hast thou made them all: the earth is full of thy riches.

30.     Thou sendest forth thy spirit, they are created: and thou renewest the face of the earth.

31.     The glory of the Lord shall endure for ever: the Lord shall rejoice in his works.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یوحنا 3 باب1تا8 آیات

1۔ فریسیوں میں سے ایک شخص نیکودیمس نام یہودیوں کا ایک سردار تھا۔

2۔ اْس نے رات کو یسوع کے پاس آکر اْس سے کہا اے ربی ہم جانتے ہیں کہ تْو خدا کی طرف سے استاد ہو کر آیا ہے کیونکہ جو معجزے تْو دکھاتا ہے کوئی شخص نہیں دکھا سکتا جب تک خدا اْس کے ساتھ نہ ہو۔

3۔ یسوع نے جواب میں اْس سے کہا مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو خدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔

4۔ نیکودیمس نے اْس سے کہا آدمی جب بوڑھا ہوگیا تو کیونکر پیدا ہوسکتا ہے؟ کیا وہ دوبارہ اپنی ماں کے پیٹ میں داخل ہو کر پیدا ہوسکتا ہے؟

5۔ یسوع نے جواب دیا کہ مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی آدمی پانی اور روح سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتا۔

6۔ جو جسم سے پیدا ہوا ہے جسم ہے اور جو روح سے پیدا ہوا ہے روح ہے۔

7۔ تعجب نہ کر کہ مَیں نے تجھ سے کہا کہ تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔

8۔ ہوا جدھر چاہتی ہے چلتی ہے اور تْو اْس کی آواز سنتا ہے مگر نہیں جانتا کہ کہاں سے آتی ہے اور کہاں کو جاتی ہے۔ جو کوئی روح سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی ہے۔

1. John 3 : 1-8

1     There was a man of the Pharisees, named Nicodemus, a ruler of the Jews:

2     The same came to Jesus by night, and said unto him, Rabbi, we know that thou art a teacher come from God: for no man can do these miracles that thou doest, except God be with him.

3     Jesus answered and said unto him, Verily, verily, I say unto thee, Except a man be born again, he cannot see the kingdom of God.

4     Nicodemus saith unto him, How can a man be born when he is old? can he enter the second time into his mother’s womb, and be born?

5     Jesus answered, Verily, verily, I say unto thee, Except a man be born of water and of the Spirit, he cannot enter into the kingdom of God.

6     That which is born of the flesh is flesh; and that which is born of the Spirit is spirit.

7     Marvel not that I said unto thee, Ye must be born again.

8     The wind bloweth where it listeth, and thou hearest the sound thereof, but canst not tell whence it cometh, and whither it goeth: so is every one that is born of the Spirit.

2 . ۔ یوحنا 4 باب5تا7، 9تا24 آیات

5۔ پس وہ سامریہ کے ایک شہر تک آیا جو سوخار کہلاتا ہے۔ وہ اُس قطہ کے نزدیک ہے جو یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دیا تھا۔

6۔اور یعقوب کا کنواں وہیں تھا۔ چنانچہ یسوع سفر سے تھکاماندہ ہو کر اُس کنویں پر یونہی بیٹھ گیا۔ یہ چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔

7۔ سامریہ کی ایک عورت پانی بھرنے آئی۔ یسوع نے اُس سے کہا مجھے پانی پلا۔

9۔ اُس سامری عورت نے اُس سے کہا کہ تو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟کیونکہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے۔

10۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا اگر تو خدا کی بخشش کو جانتی اور یہ بھی جانتی کہ وہ کون ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پانی پلا تو تو اُس سے مانگتی اور وہ تجھے زندگی کا پانی دیتا۔

11۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند تیرے پاس پانی بھرنے کو تو کچھ ہے نہیں اور کنواں گہرا ہے۔ پھر وہ زندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے آیا؟

12۔ کیا تْو ہمارے باپ یعقوب سے بڑا ہے جس نے ہم کو یہ کنواں دیا اور خود اْس نے اور اْس کے بیٹوں نے اور اْس کے مویشیوں نے اِس میں سے پیا؟

13۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا جو کوئی اِس پانی میں سے پیتا ہے وہ پھر پیاسا ہو گا۔

14۔ مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پیئے گا جو میں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہوگا بلکہ جو پانی میں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائیگا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری ر ہے گا۔

15۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند وہ پانی مجھ کو دے تاکہ میں نہ پیاسی ہوں نہ پانی بھرنے کو یہاں تک آؤں۔

16۔ یسوع نے اُس سے کہا جا اپنے شوہر کو یہاں بُلا لا۔

17۔عورت نے جواب میں اُس سے کہا میں بے شوہر ہوں۔ یسوع نے اُس سے کہا تُونے خوب کہا کہ میں بے شوہر ہوں۔

18۔ کیونکہ تُو پانچ شوہر کر چکی ہے اور جس کے پاس تُواب ہے وہ تیرا شوہر نہیں یہ تُو نے سچ کہا۔

19۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تُو نبی ہے۔

20۔ ہمارے باپ دادا نے اِس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنا چاہیے یروشلم میں ہے۔

21۔ یسوع نے اُس سے کہا اے عورت! میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یروشلم میں۔

22۔ہم جسے جانتے ہیں اُس کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔

23۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔

24۔ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستارروح اور سچائی سے پرستش کریں۔

2. John 4 : 5-7, 9-24

5     Then cometh he to a city of Samaria, which is called Sychar, near to the parcel of ground that Jacob gave to his son Joseph.

6     Now Jacob’s well was there. Jesus therefore, being wearied with his journey, sat thus on the well: and it was about the sixth hour.

7     There cometh a woman of Samaria to draw water: Jesus saith unto her, Give me to drink.

9     Then saith the woman of Samaria unto him, How is it that thou, being a Jew, askest drink of me, which am a woman of Samaria? for the Jews have no dealings with the Samaritans.

10     Jesus answered and said unto her, If thou knewest the gift of God, and who it is that saith to thee, Give me to drink; thou wouldest have asked of him, and he would have given thee living water.

11     The woman saith unto him, Sir, thou hast nothing to draw with, and the well is deep: from whence then hast thou that living water?

12     Art thou greater than our father Jacob, which gave us the well, and drank thereof himself, and his children, and his cattle?

13     Jesus answered and said unto her, Whosoever drinketh of this water shall thirst again:

14     But whosoever drinketh of the water that I shall give him shall never thirst; but the water that I shall give him shall be in him a well of water springing up into everlasting life.

15     The woman saith unto him, Sir, give me this water, that I thirst not, neither come hither to draw.

16     Jesus saith unto her, Go, call thy husband, and come hither.

17     The woman answered and said, I have no husband. Jesus said unto her, Thou hast well said, I have no husband:

18     For thou hast had five husbands; and he whom thou now hast is not thy husband: in that saidst thou truly.

19     The woman saith unto him, Sir, I perceive that thou art a prophet.

20     Our fathers worshipped in this mountain; and ye say, that in Jerusalem is the place where men ought to worship.

21     Jesus saith unto her, Woman, believe me, the hour cometh, when ye shall neither in this mountain, nor yet at Jerusalem, worship the Father.

22     Ye worship ye know not what: we know what we worship: for salvation is of the Jews.

23     But the hour cometh, and now is, when the true worshippers shall worship the Father in spirit and in truth: for the Father seeketh such to worship him.

24     God is a Spirit: and they that worship him must worship him in spirit and in truth.

3 . ۔ یوحنا 20 باب24 (توما) تا 29 آیات

24۔ مگر اْن بارہ میں سے ایک شخص یعنی توما جسے توام کہتے ہیں یسوع کے آنے کے وقت اْن کے ساتھ نہ تھا۔

25۔ پس باقی شاگرد اْس سے کہنے لگے ہم نے خداوند کو دیکھا ہے مگر اْس نے اْن سے کہا جب تک مَیں اْس کے ہاتھوں میں میخوں کے سوراخ نہ دیکھ لوں اور میخوں کے سوراخوں میں اپنی انگلی نہ ڈال لوں اور اپنا ہاتھ اْس کی پسلی میں نہ ڈال لوں ہر گز یقین نہ کروں گا۔

26۔ آٹھ روز کے بعد جب اْس کے شاگرد پھر اندر تھے اور توما اْن کے ساتھ تھا اور دروازے بند تھے یسوع نے آکر اور بیچ میں کھڑا ہو کر کہا تمہاری سلامتی ہو۔

27۔ پھر اْس نے توما سے کہا اپنی انگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ لا کر میری پسلی میں ڈال اور بے اعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ۔

28۔ توما نے جواب میں اْس سے کہا اے میرے خداوند! اے میرے خدا!

29۔ یسوع نے اْس سے کہا تْو تو مجھے دیکھ کر ایمان لایا ہے۔ مبارک ہیں وہ جو بغیر دیکھے ایمان لائیں ہیں۔

3. John 20 : 24 (Thomas)-29

24     Thomas, one of the twelve, called Didymus, was not with them when Jesus came.

25     The other disciples therefore said unto him, We have seen the Lord. But he said unto them, Except I shall see in his hands the print of the nails, and put my finger into the print of the nails, and thrust my hand into his side, I will not believe.

26     And after eight days again his disciples were within, and Thomas with them: then came Jesus, the doors being shut, and stood in the midst, and said, Peace be unto you.

27     Then saith he to Thomas, Reach hither thy finger, and behold my hands; and reach hither thy hand, and thrust it into my side: and be not faithless, but believing.

28     And Thomas answered and said unto him, My Lord and my God.

29     Jesus saith unto him, Thomas, because thou hast seen me, thou hast believed: blessed are they that have not seen, and yet have believed.

4 . ۔ گلتیوں 5 باب16تا18، 22 (پھل) تا25 آیات

16۔ مگر مَیں یہ کہتا ہوں کہ روح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہر گز پورا نہ کروگے۔

17۔ کیونکہ جسم روح کے خلاف خواہش کرتا ہے اور روح جسم کے خلاف اور یہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں تاکہ جو تم چاہتے ہو وہ نہ کرو۔

18۔ اور اگر تم روح کی ہدایت سے چلتے ہو تو شریعت کے ماتحت نہیں رہے۔

22۔ مگرروح کا پھل محبت۔ خوشی۔ اطمینان۔ تحمل۔ مہربانی۔ نیکی۔ ایمانداری۔

23۔ حلم۔ پرہیزگاری ہے۔ ایسے کاموں کی کوئی شریعت مخالف نہیں۔

24۔ اور وہ جو مسیح کے ہیں اْنہوں نے جسم کو رغبتوں اور خواہشوں سمیت صلیب پر کھینچ دیا ہے۔

25۔ اور اگر ہم روح کے سبب سے زندہ ہیں تو روح کے موافق چلنا بھی چاہئے۔

4. Galatians 5 : 16-18, 22 (the fruit)-25

16     This I say then, Walk in the Spirit, and ye shall not fulfil the lust of the flesh.

17     For the flesh lusteth against the Spirit, and the Spirit against the flesh: and these are contrary the one to the other: so that ye cannot do the things that ye would.

18     But if ye be led of the Spirit, ye are not under the law.

22     …the fruit of the Spirit is love, joy, peace, longsuffering, gentleness, goodness, faith,

23     Meekness, temperance: against such there is no law.

24     And they that are Christ’s have crucified the flesh with the affections and lusts.

25     If we live in the Spirit, let us also walk in the Spirit.

5 . ۔ رومیوں 8 باب2 (شریعت) آیات

2۔۔۔۔ زندگی کے روح کی شریعت نے مسیح یسوع میں مجھے گناہ اورموت کی شریعت سے آزاد کردیا۔

5. Romans 8 : 2 (the law)

2     …the law of the Spirit of life in Christ Jesus hath made me free from the law of sin and death.



سائنس اور صح


1 . ۔ 109 :32۔7

روح کی تین عظیم سچائیاں، قادر مطلق، ہر جا موجود، علام الغیوب، تمام طاقتیں رکھنے والا، ساری جگہ کو پر کرنے والا، ساری سائنس رکھنے والا روح ہمیشہ اِس عقیدے کی نفی کرتا ہے کہ مادہ اصل ہو سکتا ہے۔یہ ابدی سچائیاں خدا کی منور حقیقت کے طور پر ابتدائی وجودیت کا اظہار کرتی ہیں، جس میں وہ سب جو اْس نے بنایا ہے اْس کی نیک سیرت کے باعث واضح ہوتا ہے۔

1. 109 : 32-7

The three great verities of Spirit, omnipotence, omnipresence, omniscience, — Spirit possessing all power, filling all space, constituting all Science, — contradict forever the belief that matter can be actual. These eternal verities reveal primeval existence as the radiant reality of God's creation, in which all that He has made is pronounced by His wisdom good.

2 . ۔ 222 :31۔13

ہمیں اِس جھوٹے عقیدے کو نیست کر دینا چاہئے کہ زندگی اور ذہانت مادے میں ہیں، اور خود کو اْس پر قائم کرنا چاہئے جو کامل اور پاک ہے۔ پولوس نے کہا، ”روح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہر گز پورا نہ کرو گے۔“جلد یا بدیر ہم یہ سیکھیں گے کہ انسان کی متناہی حیثیت کی بیڑیاں اس فریب نظری کے باعث پگھلنے لگتی ہیں کہ وہ جان کی بجائے بدن میں، روح کی بجائے مادے میں رہتا ہے۔

مادا روح کو بیان نہیں کرتا۔خدا لامحدود ہر جا موجود روح ہے۔ اگر روح سب کچھ ہے اور ہرجا موجود ہے، تو مادا کیا اور کہاں ہے؟ یاد رکھیئے سچائی غلطی سے بڑی ہے، اور ہم بڑی چیز کو چھوٹی میں نہیں ڈال سکتے۔ جان روح ہے، اور روح بدن سے بڑی ہے۔ اگر روح ایک بار بدن میں تھی، تو روح محدود ہوگی، اور اِس لئے وہ روح نہیں ہوگی۔

2. 222 : 31-13

We must destroy the false belief that life and intelligence are in matter, and plant ourselves upon what is pure and perfect. Paul said, "Walk in the Spirit, and ye shall not fulfil the lust of the flesh." Sooner or later we shall learn that the fetters of man's finite capacity are forged by the illusion that he lives in body instead of in Soul, in matter instead of in Spirit.

Matter does not express Spirit. God is infinite omnipresent Spirit. If Spirit is all and is every-where, what and where is matter? Remember that truth is greater than error, and we cannot put the greater into the less. Soul is Spirit, and Spirit is greater than body. If Spirit were once within the body, Spirit would be finite, and therefore could not be Spirit.

3 . ۔ 140 :4۔22

خدا جسمانی ہستی ہے، کوئی بھی اِس کی حقیقی تصدیق نہیں کرسکتا۔بائبل اْسے یہ کہتے ہوئے پیش کرتی ہے: ”تْو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا کیونکہ کوئی انسان مجھے دیکھ کر زندہ نہیں رہے گا۔“ مادی نہیں بلکہ روحانی طور پر ہم اْسے بطور عقل، بطور زندگی، سچائی اور محبت جانتے ہیں۔ ہم الٰہی فطرت کو سمجھنے اور،جسمانیت پر مزید جنگ نہ کرتے ہوئے بلکہ ہمارے خدا کی بہتات سے شادمانی کرتے ہوئے، سمجھ کے ساتھ اْس سے پیار کرنے کے تناسب میں اْس کی فرمانبرداری اور عبادت کریں گے۔تو مذہب پھر دل کا ہوگا دماغ کا نہیں۔ مچھروں کو نکیل ڈالتے اوراونٹوں کو نگلتے ہوئے،انسان مزید ظالم اور محبت سے عاری قرار دیا ہوا نہیں ہوگا۔

ہم روحانی پرستش صرف تب کرتے ہیں جب ہم مادی پرستش کرنا ترک کرتے ہیں۔ روحانی عقیدت مسیحت کی جان ہے۔ مادے کے ذریعے سے پرستش کرنا بت پرستی ہے۔یہودیت اور دیگر رسومات حقیقی پرستش کی اقسام اور سایوں کے سوا کچھ نہیں۔”سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے۔“

3. 140 : 4-22

That God is a corporeal being, nobody can truly affirm. The Bible represents Him as saying: "Thou canst not see My face; for there shall no man see Me, and live." Not materially but spiritually we know Him as divine Mind, as Life, Truth, and Love. We shall obey and adore in proportion as we apprehend the divine nature and love Him understandingly, warring no more over the corporeality, but rejoicing in the affluence of our God. Religion will then be of the heart and not of the head. Mankind will no longer be tyrannical and proscriptive from lack of love, — straining out gnats and swallowing camels.

We worship spiritually, only as we cease to worship materially. Spiritual devoutness is the soul of Christianity. Worshipping through the medium of matter is paganism. Judaic and other rituals are but types and shadows of true worship. "The true worshippers shall worship the Father in spirit and in truth."

4 . ۔ 317 :16۔21 اگلا صفحہ

انسان کی انفرادیت کم ٹھوس نہیں ہے کیونکہ یہ روحانی ہے اور کیونکہ اْس کی زندگی مادے کے رحم و کرم پر نہیں ہے۔ خود کی روحانیت انفرادیت کا ادراک انسان کو مزید حقیقی، سچائی میں مزید مضبوط بناتا ہے اور اْسے گناہ، بیماری اور موت کو فتح کرنے کے قابل بناتا ہے۔ قبر میں سے جی اٹھنے کے بعد ہمارے خداوند اور مالک نے خود کو اپنے شاگردوں پر ہو بہو اْسی یسوع کے طور پر پیش کیا جسے وہ کلوری کے سانحہ سے پہلے پیار کرتے تھے۔

مادہ پرست توما کے لئے، جو روح کی بجائے مادے میں اپنا مثالی نجات دہندہ تلاش کررہا تھا اورجان کی نسبت مادی حواس اور بدن کی گواہی کے لئے زیادہ، پر خلوص لافانیت کے لئے، یسوع نے یہ ثبوت مہیا کیا کہ وہ مصلوب ہونے سے تبدیل نہیں ہوا تھا۔اِس سست اور شکی شاگرد کے لئے یسوع ایک بدنی حقیقت میں ہی رہا، جب تک ہمارا مالک اِس زمین پر بستا رہا۔توما کے لئے مادی نمائش کے علاوہ حقیقی وجود کچھ نہیں تھا۔اْس کے لئے مادے پر یقین کرنا کوئی مشکل بات نہیں تھی، مگر اْس کے لئے روح کی اصلیت کو تصور کرنا، یہ جاننا کہ عقل اور لافانیت کو کوئی چیز مٹا نہیں سکتی جس میں روح سلطنت کرتی ہے، زیادہ مشکل تھا۔

جسمانی حواس بیماریوں کو بطور حقائق متعین کرتے ہیں، مگر کلام واضح بیان کرتا ہے کہ خدا نے سب کچھ بنایا، یہاں تک کہ جسمانی حواس کہہ رہے ہیں کہ مادہ بیماری کی وجہ بنتا ہے اور الٰہی عقل اسے شفا نہیں دے سکتی یا نہیں دے گی۔مادی حواس اْس سب کو جنم دیتے اور اس کی حمایت کرتے ہیں جو مادی، غیر حقیقی، خود غرض یا بے بنیاد ہوتا ہے۔وہ روح کو مٹی میں ملادیتے ہیں،زندگی کو قید خانہ میں، اور سب چیزوں کے زوال کے لئے نیست کرتے ہیں۔ہمیں روحانی فہم کی سچائی کے ساتھ مادی فہم کے اِس جھوٹ کو خاموش کردینا چاہئے۔ہمیں غلطی کی اِس وجہ کو ترک کردینا چاہئے جو گناہ اور موت پر ایمان کو لاتی ہے اور جو قادرِ مطلق کے پاک فہم کومٹادیتی ہے۔

کیا بیمار شخص باقی سب کی نسبت زیادہ گناہگار ہے؟ جی نہیں! مگر جب تک وہ مخالف رہتا ہے، وہ خدا کی شبیہ نہیں ہوتا۔اپنے مادی عقائد سے پریشان ہوتے ہوئے، جن سے بہت سے دْکھ جنم لیتے ہیں، بیمار لوگ زیادہ روحانی ہوتے جاتے ہیں کیونکہ غلطی، یا یہ عقیدہ کہ مادہ زندگی میں ہے، روحانی زندگی کی حقیقت کو تلاش کرتا رہتا ہے۔

4. 317 : 16-21 next page

The individuality of man is no less tangible because it is spiritual and because his life is not at the mercy of matter. The understanding of his spiritual individuality makes man more real, more formidable in truth, and enables him to conquer sin, disease, and death. Our Lord and Master presented himself to his disciples after his resurrection from the grave, as the self-same Jesus whom they had loved before the tragedy on Calvary.

To the materialistic Thomas, looking for the ideal Saviour in matter instead of in Spirit and to the testimony of the material senses and the body, more than to Soul, for an earnest of immortality, — to him Jesus furnished the proof that he was unchanged by the crucifixion. To this dull and doubting disciple Jesus remained a fleshly reality, so long as the Master remained an inhabitant of the earth. Nothing but a display of matter could make existence real to Thomas. For him to believe in matter was no task, but for him to conceive of the substantiality of Spirit — to know that nothing can efface Mind and immortality, in which Spirit reigns — was more difficult.

Corporeal senses define diseases as realities; but the Scriptures declare that God made all, even while the corporeal senses are saying that matter causes disease and the divine Mind cannot or will not heal it. The material senses originate and support all that is material, untrue, selfish, or debased. They would put soul into soil, life into limbo, and doom all things to decay. We must silence this lie of material sense with the truth of spiritual sense. We must cause the error to cease that brought the belief of sin and death and would efface the pure sense of omnipotence.

Is the sick man sinful above all others? No! but so far as he is discordant, he is not the image of God. Weary of their material beliefs, from which comes so much suffering, invalids grow more spiritual, as the error — or belief that life is in matter — yields to the reality of spiritual Life.

5 . ۔ 252 :16۔20، 31۔8

مادے کی حِس خود کی آواز کو حقیقت کی شدت کے ساتھ اونچا کرتی ہے اور کہتی ہے:

میں مکمل طور پر بے ایمان ہوں، اور انسان یہ جانتا ہے۔ میں دھوکہ دے سکتی، جھوٹ بول سکتی، زناکاری کر سکتی، چوری کر سکتی، قتل کر سکتی اور نرم لہجے کی کمینگی کے ذریعے میں سراغ رسانی سے بچ سکتی ہوں۔

روح مخالف گواہی دیتے ہوئے، کہتی ہے:

میں روح ہوں۔ انسان، جس کے حواس روحانی ہیں، میری صورت پر ہے۔وہ لافانی فہم کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ میں لافانی ہوں۔ پاکیزگی کی خوبصورتی، وجود کی کاملیت، ناقابل تسخیر جلال، سب میرے ہیں، کیونکہ میں خدا ہوں۔ میں انسان کو لافانیت دیتی ہوں کیونکہ میں سچائی ہوں۔ میں تمام تر نعمتیں شامل کرتی اور عطا کرتی ہوں، کیونکہ میں محبت ہوں۔ میں، ازل اور ابد سے مبرا، زندگی دیتی ہوں کیونکہ میں زندگی ہوں۔ میں اعلیٰ ہوں اور سب کچھ عطا کرتی ہوں کیونکہ میں شعور ہوں۔ میں ہر چیز کا مواد ہوں، کیونکہ مَیں جو ہوں سومَیں ہوں۔

5. 252 : 16-20, 31-8

Material sense lifts its voice with the arrogance of reality and says:

I am wholly dishonest, and no man knoweth it. I can cheat, lie, commit adultery, rob, murder, and I elude detection by smooth-tongued villainy.

Spirit, bearing opposite testimony, saith:

I am Spirit. Man, whose senses are spiritual, is my likeness. He reflects the infinite understanding, for I am Infinity. The beauty of holiness, the perfection of being, imperishable glory, — all are Mine, for I am God. I give immortality to man, for I am Truth. I include and impart all bliss, for I am Love. I give life, without beginning and without end, for I am Life. I am supreme and give all, for I am Mind. I am the substance of all, because I am that I am.

6 . ۔ 492 :3۔6

درست وجہ کی بنا پر یہاں تصور کے سامنے ایک حقیقت ہونی چاہئے، یعنی روحانی وجودیت۔ حقیقت میں اور کوئی وجودیت نہیں ہے، کیونکہ زندگی اِس کی غیر مشابہت، لافانیت کے ساتھ متحد نہیں ہوسکتی۔

6. 492 : 3-6

For right reasoning there should be but one fact before the thought, namely, spiritual existence. In reality there is no other existence, since Life cannot be united to its unlikeness, mortality.

7 . ۔ 471 :13۔20

الٰہی سائنس کے حقائق کو تسلیم کیا جانا چاہئے، اگرچہ اِن حقائق کا ثبوت بدی کے وسیلہ، مادے کے وسیلہ یا مادی فہم کے وسیلہ حمایت نہیں پاتا، کیونکہ یہ ثبوت کہ خدا اور انسان ہم عصر ہوتے ہیں مکمل طور پر روحانی فہم کے وسیلہ برقرار رہتا ہے۔ انسان خدا کا عکس ہے اور ہمیشہ رہے گا۔خدا لامحدود ہے، اِس لئے وہ ہمیشہ موجود ہے، اور اِس کے علاوہ کوئی طاقت ہے نہ کوئی موجودگی ہے۔لہٰذہ کائنات کی روحانیت ہی تخلیق کی واحد حقیقت ہے۔

7. 471 : 13-20

The facts of divine Science should be admitted, — although the evidence as to these facts is not supported by evil, by matter, or by material sense, — because the evidence that God and man coexist is fully sustained by spiritual sense. Man is, and forever has been, God's reflection. God is infinite, therefore ever present, and there is no other power nor presence. Hence the spirituality of the universe is the only fact of creation.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████