اتوار 27 مارچ، 2022
”توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔“
“Repent: for the kingdom of heaven is at hand.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
1۔ پھر مَیں نے ایک نیا آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔
2۔ پھر مَیں نے شہرِ مقدس نئے یروشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اْترتے دیکھا اور وہ اْس دلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کے لئے شنگھار کیا ہو۔
3۔ پھر مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اْن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اْس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اْن کے ساتھ رہے گا اور اْن کا خدا ہوگا۔
4۔ اور وہ اْن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔
5۔دیکھ مَیں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں۔ پھر اْس نے کہا لکھ لے کیونکہ یہ باتیں سچ اور برحق ہیں۔
7۔ جو غالب آئے وہی اِن چیزوں کا وارث ہوگا اور مَیں اْس کا خدا ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہوگا۔
1. And I saw a new heaven and a new earth: for the first heaven and the first earth were passed away;
3. And I heard a great voice out of heaven saying, Behold, the tabernacle of God is with men, and he will dwell with them, and they shall be his people, and God himself shall be with them, and be their God.
4. And God shall wipe away all tears from their eyes; and there shall be no more death, neither sorrow, nor crying, neither shall there be any more pain: for the former things are passed away.
5. Behold, I make all things new. And he said unto me, Write: for these words are true and faithful.
7. He that overcometh shall inherit all things; and I will be his God, and he shall be my son.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
23۔۔۔۔یسوع۔
23 Jesus…
1۔وہ اْس بھیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا۔۔۔۔
2۔ اور وہ اپنی زبان کھول کراْن کو یوں تعلیم دینے گا۔
1 …seeing the multitudes, he went up into a mountain:
2 And he opened his mouth, and taught them, saying,
21۔ جو مجھ سے اے خداوند اے خداوند کہتے ہیں اْن میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہوگا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔
21 Not every one that saith unto me, Lord, Lord, shall enter into the kingdom of heaven; but he that doeth the will of my Father which is in heaven.
24۔آسمان کی بادشاہی اْس آدمی کی مانند ہے جس نے اپنے کھیت میں اچھا بیج بویا۔
25۔ مگر لوگوں کے سوتے میں اْس کا دشمن آیا اور گیہوں میں کڑوے دانے بھی بو گیا۔
26۔ پس جب پتیاں نکلیں اور بالیں آئیں تو وہ کڑوے دانے بھی دکھائی دئیے۔
27۔ نوکروں نے آکر گھر کے مالک سے کہا اے خداوند کیا تْو نے اپنے کھیت میں اچھا بیج نہ بویا تھا؟ اْس میں کڑوے دانے کہاں سے آگئے؟
28۔ اْس نے اْن سے کہا یہ کسی دشمن کا کام ہے۔ نوکروں نے اْس سے کہا تْو کیا چاہتا ہے کہ ہم جا کر اْن کو جمع کریں؟
29۔ اْس نے کہا نہیں ایسا نہ ہو کہ کڑوے دانے جمع کرنے میں تم اْن کے ساتھ گیہوں بھی اْکھاڑ لو۔
30۔ کٹائی تک دونوں کو اکٹھا بڑھنے دو اور کٹائی کے وقت میں کاٹنے والوں سے کہہ دوں گا کہ پہلے کڑوے دانے جمع کر لو اور جلانے کے لئے اْن کے گٹھے باند ھ لو اور گیہوں میرے کھِتے میں جمع کر دو۔
24 The kingdom of heaven is likened unto a man which sowed good seed in his field:
25 But while men slept, his enemy came and sowed tares among the wheat, and went his way.
26 But when the blade was sprung up, and brought forth fruit, then appeared the tares also.
27 So the servants of the householder came and said unto him, Sir, didst not thou sow good seed in thy field? from whence then hath it tares?
28 He said unto them, An enemy hath done this. The servants said unto him, Wilt thou then that we go and gather them up?
29 But he said, Nay; lest while ye gather up the tares, ye root up also the wheat with them.
30 Let both grow together until the harvest: and in the time of harvest I will say to the reapers, Gather ye together first the tares, and bind them in bundles to burn them: but gather the wheat into my barn.
10۔ شاگردوں نے پاس آکر اْس سے کہا کہ تْو اْن سے تمثیلوں میں کیوں باتیں کرتا ہے؟
11۔اْس نے جواب میں اْن سے کہا اِس لئے کہ تم کو آسمان کی بادشاہی کے بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے مگر اْن کو نہیں دی گئی۔
12۔ کیونکہ جس کے پاس ہے اْسے دیا جائے گا اور اْس کے پاس زیادہ ہو جائے گا اور جس کے پاس نہیں ہے اْس سے وہ بھی لے لیا جائے گا جو اْس کے پاس ہے۔
13۔ مَیں اْن سے تمثیلوں میں اِس لئے باتیں کرتا ہوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے اور نہیں سمجھتے۔
14۔ اور اْن کے حق میں یسعیاہ کی یہ پیشن گوئی پوری ہوتی ہے کہ تم کانوں سے سنو گے پر ہر گز نہ سمجھو گے اور آنکھوں سے دیکھو گے پر ہر گز معلوم نہ کرو گے۔
15۔ کیونکہ اِس امت کے دل پر چربی چھا گئی ہے اور وہ کانوں سے اونچا سنتے ہیں اور اْنہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ہیں تا ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کریں اور کانوں سے سنیں اور دل سے سمجھیں اور رجوع لائیں اور میں اْن کو شفا بخشوں۔
16۔لیکن مبارک ہیں تمہاری آنکھیں اس لئے کہ وہ دیکھتی ہیں اور تمہارے کان اس لئے کہ وہ سنتے ہیں۔
17۔ لیکن مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بہت سے نبیوں اور راستبازوں کو آرزو تھی کہ جو کچھ تم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکھا اور جو باتیں تم سنتے ہو سنیں مگر نہ سنیں۔
18۔ پس بونے والے کی تمثیل سنو۔
19۔ جب کوئی بادشاہی کا کلام سنتاہے اور سمجھتا نہیں تو جو اْس کے دل میں بویا گیا تھااْسے وہ شریر آکر چھین لے جاتا ہے۔ یہ وہ ہے جو راہ کے کنارے بویا گیا تھا۔
20۔ اورجو پتھریلی زمین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا ہے اور فی الفور خوشی سے قبول کر لیتا ہے۔
21۔ لیکن اپنے اندر جڑ نہیں رکھتا بلکہ چند روزہ ہے اور جب کلام کے سبب سے مصیبت یا ظلم برپا ہوتا ہے تو فی الفور ٹھوکر کھاتا ہے۔
22۔ اور جو جھاڑیوں میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا ہے اور دنیا کی فکر اور دولت کا فریب اْس کلام کو دبا دیتا ہے اور وہ بے پھل رہ جاتا ہے۔
23۔ اور جو اچھی زمین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا اور سمجھتا ہے اور پھل بھی لاتا ہے۔ کوئی سو گنا پھلتا ہے کوئی ساٹھ گنا کوئی تیس گنا۔
10 And the disciples came, and said unto him, Why speakest thou unto them in parables?
11 He answered and said unto them, Because it is given unto you to know the mysteries of the kingdom of heaven, but to them it is not given.
12 For whosoever hath, to him shall be given, and he shall have more abundance: but whosoever hath not, from him shall be taken away even that he hath.
13 Therefore speak I to them in parables: because they seeing see not; and hearing they hear not, neither do they understand.
14 And in them is fulfilled the prophecy of Esaias, which saith, By hearing ye shall hear, and shall not understand; and seeing ye shall see, and shall not perceive:
15 For this people’s heart is waxed gross, and their ears are dull of hearing, and their eyes they have closed; lest at any time they should see with their eyes, and hear with their ears, and should understand with their heart, and should be converted, and I should heal them.
16 But blessed are your eyes, for they see: and your ears, for they hear.
17 For verily I say unto you, That many prophets and righteous men have desired to see those things which ye see, and have not seen them; and to hear those things which ye hear, and have not heard them.
18 Hear ye therefore the parable of the sower.
19 When any one heareth the word of the kingdom, and understandeth it not, then cometh the wicked one, and catcheth away that which was sown in his heart. This is he which received seed by the way side.
20 But he that received the seed into stony places, the same is he that heareth the word, and anon with joy receiveth it;
21 Yet hath he not root in himself, but dureth for a while: for when tribulation or persecution ariseth because of the word, by and by he is offended.
22 He also that received seed among the thorns is he that heareth the word; and the care of this world, and the deceitfulness of riches, choke the word, and he becometh unfruitful.
23 But he that received seed into the good ground is he that heareth the word, and understandeth it; which also beareth fruit, and bringeth forth,
1۔ پھر اْس نے اپنے شاگردوں کو پاس بلا کر اْن کو ناپاک روحوں پر اختیار بخشا کہ اْن کو نکالیں اور ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دور کریں۔
5۔ اِن بارہ کو یسوع نے بھیجا اور اْن کو حکم دے کر کہا غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔
6۔ بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔
7۔ اور چلتے چلتے یہ منادی کرنا کہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔
8۔ بیماروں کو اچھا کرنا۔ مردوں کو جلانا۔ کوڑھیوں کو پاک صاف کرنا۔ بدروحوں کو نکالنا۔ مفت تم نے پایا مفت دینا۔
16۔ دیکھو مَیں تم کو بھیجتا ہوں گویا بھیڑوں کو بھیڑیوں کے بیچ میں۔ پس سانپوں کی مانند ہوشیار اور کبوتری کی مانند بے آزار بنو۔
17۔ مگر آدمیوں سے خبردار رہو کیونکہ وہ تم کو عدالتوں کے حوالہ کریں گے اور اپنے عبادت خانوں میں تم کو کوڑے ماریں گے۔
18۔ اور تم میرے سبب سے حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے تاکہ اْن کے اور غیر قوموں کے لئے گواہی ہو۔
19۔ لیکن جب وہ تم کو پکڑوائیں تو فکر نہ کرناکہ ہم کس طرح کہیں اور کیا کہیں کیونکہ جو کچھ کہنا ہوگا اْسی گھڑی تم کو بتایا جائے گا۔
20۔ کیونکہ بولنے والے تم نہیں بلکہ تمہارے باپ کا روح ہے جو تم میں بولتا ہے۔
22۔ اور میرے نام کے باعث سے سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہی نجات پائے گا۔
40۔ جو تم کو قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے۔
1 And when he had called unto him his twelve disciples, he gave them power against unclean spirits, to cast them out, and to heal all manner of sickness and all manner of disease.
5 These twelve Jesus sent forth, and commanded them, saying, Go not into the way of the Gentiles, and into any city of the Samaritans enter ye not:
6 But go rather to the lost sheep of the house of Israel.
7 And as ye go, preach, saying, The kingdom of heaven is at hand.
8 Heal the sick, cleanse the lepers, raise the dead, cast out devils: freely ye have received, freely give.
16 Behold, I send you forth as sheep in the midst of wolves: be ye therefore wise as serpents, and harmless as doves.
17 But beware of men: for they will deliver you up to the councils, and they will scourge you in their synagogues;
18 And ye shall be brought before governors and kings for my sake, for a testimony against them and the Gentiles.
19 But when they deliver you up, take no thought how or what ye shall speak: for it shall be given you in that same hour what ye shall speak.
20 For it is not ye that speak, but the Spirit of your Father which speaketh in you.
22 And ye shall be hated of all men for my name’s sake: but he that endureth to the end shall be saved.
40 He that receiveth you receiveth me, and he that receiveth me receiveth him that sent me.
27۔ ایک انسان کچھ نہیں پا سکتا جب تک اْس کو آسمان سے نہ دیا جائے۔
27 A man can receive nothing, except it be given him from heaven.
6۔ مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے۔
8۔ مبارک ہیں وہ جو پاکدل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔
10۔ مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے کیونکہ آسمان کی بادشاہی اْن ہی کی ہے۔
12۔ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے اِس لئے کہ لوگوں نے اْن نبیوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے اِسی طرح ستایا تھا۔
6 Blessed are they which do hunger and thirst after righteousness: for they shall be filled.
8 Blessed are the pure in heart: for they shall see God.
10 Blessed are they which are persecuted for righteousness’ sake: for theirs is the kingdom of heaven.
12 Rejoice, and be exceeding glad: for great is your reward in heaven:
ہستی کی حقیقت اور ترتیب کو اْس کی سائنس میں تھامنے کے لئے، وہ سب کچھ حقیقی ہے اْس کے الٰہی اصول کے طور پر آپ کو خدا کا تصور کرنے کی ابتدا کرنی چاہئے۔ روح، زندگی، سچائی، محبت یکسانیت میں جْڑ جاتے ہیں، اور یہ سب خدا کے روحانی نام ہیں۔
To grasp the reality and order of being in its Science, you must begin by reckoning God as the divine Principle of all that really is. Spirit, Life, Truth, Love, combine as one, — and are the Scriptural names for God.
سوچنے والوں کے لئے وقت آ پہنچا ہے۔ سچائی، آزادیِ عقائد اور نظامِ احترامیِ وقت، انسانیت کے آستانے پر دستک دیتے ہیں۔ ماضی کی قناعت اور مادہ پرستی کی سرد تقلید اختتام پذید ہو رہی ہے۔ خدا سے لا علمی مزید ایمان کے راستے کا پتھر نہیں رہا۔
The time for thinkers has come. Truth, independent of doctrines and time-honored systems, knocks at the portal of humanity. Contentment with the past and the cold conventionality of materialism are crumbling away. Ignorance of God is no longer the stepping-stone to faith.
ہم علم کی ترقی اور غلطی کے خاتمے کو خوش آمدید کہتے ہیں، اس لئے کہ انسانی ایجاد کا بھی ایک دن ہونا چاہئے اورہم چاہتے ہیں کہ وہ دن کرسچن سائنس کی بدولت، الٰہی حقیقت کی بدولت کامیاب ہو۔
بد بخت فریب النظری کے باعث خاموش رہ کر،کئی گھنٹوں تک خواب دیکھتے ہوئے، دنیا بچپن کے جھولے میں سو رہی ہے۔مادی فہم وجودیت کے حقائق کو اجاگر نہیں کرتا؛ بلکہ روحانی فہم انسانی شعور کو ابدی سچائی میں بلند کرتا ہے۔
We welcome the increase of knowledge and the end of error, because even human invention must have its day, and we want that day to be succeeded by Christian Science, by divine reality.
Lulled by stupefying illusions, the world is asleep in the cradle of infancy, dreaming away the hours. Material sense does not unfold the facts of existence; but spiritual sense lifts human consciousness into eternal Truth.
روح کی تین عظیم سچائیاں، قادر مطلق، ہر جا موجود، علام الغیوب، تمام طاقتیں رکھنے والا، ساری جگہ کو پر کرنے والا، ساری سائنس رکھنے والا روح ہمیشہ اِس عقیدے کی نفی کرتا ہے کہ مادہ اصل ہو سکتا ہے۔یہ ابدی سچائیاں خدا کی منور حقیقت کے طور پر ابتدائی وجودیت کا اظہار کرتی ہیں، جس میں وہ سب جو اْس نے بنایا ہے اْس کی نیک سیرت کے باعث واضح ہوتا ہے۔
The three great verities of Spirit, omnipotence, omnipresence, omniscience, — Spirit possessing all power, filling all space, constituting all Science, — contradict forever the belief that matter can be actual. These eternal verities reveal primeval existence as the radiant reality of God's creation, in which all that He has made is pronounced by His wisdom good.
خدا اور اْس کی تخلیق میں پائی جانے والی ساری حقیقت ہم آہنگ اور ابدی ہے۔ جو کچھ وہ بناتا ہے اچھا بناتا ہے، اور جو کچھ بنا ہے اْسی نے بنایاہے۔اس لئے گناہ، بیماری اور موت کی حقیقت یہ ہولناک اصلیت ہے کہ غیر واقعیات انسانی غلط عقائد کو تب تک حقیقی دکھائی دیتے ہیں جب تک کہ خدا اْن کے بہروپ کو اتار نہیں دیتا۔وہ سچ نہیں ہیں کیونکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہیں۔کرسچن سائنس میں ہم سیکھتے ہیں مادی سوچ یا جسم کی تمام خارج از آہنگی فریب نظری ہے جو اگرچہ حقیقی اور یکساں دکھائی دیتی ہے لیکن وہ نہ حقیقت کی نہ ہی یکسانیت کی ملکیت رکھتی ہے۔
All reality is in God and His creation, harmonious and eternal. That which He creates is good, and He makes all that is made. Therefore the only reality of sin, sickness, or death is the awful fact that unrealities seem real to human, erring belief, until God strips off their disguise. They are not true, because they are not of God. We learn in Christian Science that all inharmony of mortal mind or body is illusion, possessing neither reality nor identity though seeming to be real and identical.
حقیقت روحانی، ہم آہنگ، ناقابل تبدیل، لافانی، الٰہی، ابدی ہے۔غیر روحانی کچھ بھی حقیقی، ہم آہنگ یا ابدی نہیں ہو سکتا۔گناہ، بیماری اور فانیت روح کے فرضی سمت القدم ہیں، اور یہ یقیناً حقیقت کے مخالف ہوں گے۔
Reality is spiritual, harmonious, immutable, immortal, divine, eternal. Nothing unspiritual can be real, harmonious, or eternal. Sin, sickness, and mortality are the suppositional antipodes of Spirit, and must be contradictions of reality.
بدی منفی ہے کیونکہ یہ سچائی کی غیر موجودگی ہے۔ یہ کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ کچھ ہونے کی غیر موجودگی ہے۔ یہ غیر حقیقی ہے کیونکہ یہ خدا، قادرِ مطلق اور ہرجا موجود، کی پہلی سے قیاس شْدہ غیر موجودگی ہے۔ ہر بشر کو یہ سیکھنا چاہئے کہ بدی میں طاقت ہے نہ حقیقت۔
بدی خود ادعائی ہے۔ یہ کہتی ہے: ”مَیں حقیقی ہستی ہوں، نیکی کو مغلوب کرتی ہوں۔“ اِس جھوٹ کو بدی کے تمام تر دِکھاووں سے محروم کرنا چاہئے۔بدی میں صرف ایک خود کو تباہ کرنے کی طاقت ہے۔یہ اچھائی کا ذرا سا تِنکا بھی کبھی تباہ نہیں کرسکتی۔اچھائی کو تباہ کرنے کی بدی کی ہر کوشش ناکام ہوتی ہے، اور یہ صرف عارضی طور پر بدی کرنے والے کو سزا دینے میں مدد دیتی ہے۔اگر ہم ویسی ہی حقیقت کو مخالفت کے لئے تسلیم کرتے ہیں جیسی ہم آہنگی کے لئے کرتے ہیں، تو مخالفت کا اْتنا دیر پا دعویٰ ہی ہم پر ہوگا جتنا ہم آہنگی کا ہوتا ہے۔اگر بدی اچھائی جتنی ہی حقیقی ہے تو بدی بھی ویسی ہی لافانی ہے۔اگر موت زندگی جیسی ہی حقیقی ہے تو لافانیت ایک افسانہ ہے۔اگر درد، در کی غیر موجودگی جتنا ہی حقیقی ہے تو دونوں کو لافانی ہونا چاہئے؛ اور اگر ایسا ہے تو ہم آہنگی ہستی کا قانون نہیں ہوسکتی۔
فانی عقل خودی سے بے بہرہ ہوتی ہے، وگرنہ یہ خود فریب کبھی نہ ہوتی۔ اگر فانی عقل جانتی کہ بہتر کیسے بننا ہے، تو یہ بہتر بن جاتی۔ چونکہ اِسے خود کے علاوہ کسی چیز پر یقین رکھنا ہے، لہٰذہ یہ مادے کو بطور دیوتا تخت نشیں کرتی ہے۔دوسرے دیوتارکھتے ہوئے اور ایک سے زیادہ عقلوں پر یقین رکھتے ہوئے، انسانی عقل ابتداء ہی سے بت پرست تھی۔
چونکہ بشر فانی وجودیت پر بھی غور نہیں کرتا، تو وہ سب جاننے والی عقل اور اْس کی تخلیق سے کس حد تک بے خبرہوگا۔
Evil is a negation, because it is the absence of truth. It is nothing, because it is the absence of something. It is unreal, because it presupposes the absence of God, the omnipotent and omnipresent. Every mortal must learn that there is neither power nor reality in evil.
Evil is self-assertive. It says: "I am a real entity, overmastering good." This falsehood should strip evil of all pretensions. The only power of evil is to destroy itself. It can never destroy one iota of good. Every attempt of evil to destroy good is a failure, and only aids in peremptorily punishing the evil-doer. If we concede the same reality to discord as to harmony, discord has as lasting a claim upon us as has harmony. If evil is as real as good, evil is also as immortal. If death is as real as Life, immortality is a myth. If pain is as real as the absence of pain, both must be immortal; and if so, harmony cannot be the law of being.
Mortal mind is ignorant of self, or it could never be self-deceived. If mortal mind knew how to be better, it would be better. Since it must believe in something besides itself, it enthrones matter as deity. The human mind has been an idolater from the beginning, having other gods and believing in more than the one Mind.
As mortals do not comprehend even mortal existence, how ignorant must they be of the all-knowing Mind and of His creations.
جسمانی حواس کا ثبوت اکثر اوقات ہستی کی حقیقی سائنس کو تبدیل کر دیتا ہے، اور یوں گناہ، بیماری اور موت کو ظاہری قوت عطا کرتے ہوئے مخالفت کی سلطنت قائم کرتا ہے؛ لیکن بہتر سمجھا جائے تو زندگی کے بڑے حقائق غلطیوں کی اِس تکون کوشکست دیتے، اِس کی جھوٹی گواہی کی مخالفت کرتے، اور آسمان کی بادشاہی کو ظاہر کرتے ہیں، جو زمین پر ہم آہنگی کی اصل سلطنت ہے۔
The evidence of the physical senses often reverses the real Science of being, and so creates a reign of discord, — assigning seeming power to sin, sickness, and death; but the great facts of Life, rightly understood, defeat this triad of errors, contradict their false witnesses, and reveal the kingdom of heaven, — the actual reign of harmony on earth.
آسمان کی بادشاہی۔ الٰہی سائنس میں ہم آہنگی کی سلطنت؛ غلطی نہ کرنے والے کی ریاست، ابدی اور قادر مطلق عقل، روح کا ماحول، جہاں جان اعلیٰ ہے۔
Kingdom Of Heaven. The rein of harmony in divine Science; the realm of unerring, eternal, and omnipotent Mind; the atmosphere of Spirit, where Soul is supreme.
آسمان پر جانے کا واحد راستہ ہم آہنگی ہے اور مسیح الٰہی سائنس میں ہمیں یہ راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا مطلب خدا، اچھائی اور اْس کے عکس کے علاوہ کسی اور حقیقت کو نہ جاننا، زندگی کے کسی اور ضمیر کو نا جاننا ہے، اور نام نہاد درد اور خوشی کے احساسات سے برتر ہونا ہے۔
There is but one way to heaven, harmony, and Christ in divine Science shows us this way. It is to know no other reality — to have no other consciousness of life — than good, God and His reflection, and to rise superior to the so-called pain and pleasure of the senses.
الٰہی اصول اور خیال روحانی ہم آہنگی، آسمان اور ابدیت، تشکیل دیتے ہیں۔ سچائی کی کائنات میں، مادا گمنام ہے۔غلطی کا کوئی مفروضہ وہاں داخل نہیں ہوتا۔ غلطی کی تاریکی سے الٰہی سائنس، یعنی خدا کا کلام کہتا ہے کہ، ”خدا حاکم کْل“ ہے، اور ازل سے موجود محبت کی روشنی کائنات کو روشن کرتی ہے۔
The divine Principle and idea constitute spiritual harmony, — heaven and eternity. In the universe of Truth, matter is unknown. No supposition of error enters there. Divine Science, the Word of God, saith to the darkness upon the face of error, "God is All-in-all," and the light of ever-present Love illumines the universe.
انسانی فہم کے لئے ایک بڑا معجزہ الٰہی محبت ہے، اور وجودیت کی سب سے بڑی ضرورت اْس چیز کا حقیقی تصور پانا ہے جو انسان کے اندر آسمان کی بادشاہی کو تعمیر کرتی ہے۔یہ مقصد تب تک حاصل نہیں کیا جاتا جب تک ہم اپنے پڑوسی سے نفرت کرتے یا کسی ایسے شخص سے متعلق جھوٹے اندازے کو قبول کرتے ہیں جسے خدا کے کلام کی آواز بننے کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔ دوبارہ، اِس کے بلند و بالا نمایاں تصور کے درست فہم کے بغیر ہم الٰہی اصول کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔
The great miracle, to human sense, is divine Love, and the grand necessity of existence is to gain the true idea of what constitutes the kingdom of heaven in man. This goal is never reached while we hate our neighbor or entertain a false estimate of anyone whom God has appointed to voice His Word. Again, without a correct sense of its highest visible idea, we can never understand the divine Principle.
آسمان کوئی جگہ نہیں، عقل کی الٰہی حالت ہے جس میں عقل کے تمام تر ظہور ہم آہنگ اور فانی ہوتے ہیں کیونکہ وہاں گناہ نہیں ہے اور انسان وہاں خود کی راستبازی کے ساتھ نہیں ”خداوند کی سوچ“ کی ملکیت میں پایا جاتا ہے جیسا کہ کلام یہ کہتا ہے۔
Heaven is not a locality, but a divine state of Mind in which all the manifestations of Mind are harmonious and immortal, because sin is not there and man is found having no righteousness of his own, but in possession of "the mind of the Lord," as the Scripture says.
روحانی حقیقت سب چیزوں میں سائنسی سچائی ہے۔
The spiritual reality is the scientific fact in all things.
جب انسان پوری طرح سے کرسچن سائنس کو ظاہر کرتا ہے، تو وہ کامل ہو جائے گا۔ وہ نہ گناہ کرے گا، دْکھ اٹھائے گا، مادے کے ماتحت ہوگا، اور نہ خدا کی شریعت کی نافرمانی کرے گا۔اس لئے وہ آسمان کے فرشتوں کی مانند ہوگا۔
When man demonstrates Christian Science absolutely, he will be perfect. He can neither sin, suffer, be subject to matter, nor disobey the law of God. Therefore he will be as the angels in heaven.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████