اتوار 10 جولائی، 2022
”شریروں کے ذبیحے سے خداوند کو نفرت ہے پر راستکار کی دعا اْس کی خوشنودی ہے۔“
“The sacrifice of the wicked is an abomination to the Lord: but the prayer of the upright is his delight.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
10۔ اے خدا میرے اندر پاک دل پیدا کراور میرے باطن میں از سرے نو مستقیم روح ڈال۔
11۔ مجھے اپنے حضور سے خارج نہ کر۔ اور اپنی روح کو مجھ سے جدا نہ کر۔
12۔ اپنی نجات کی شادمانی مجھے پھر عنایت کر اور مستعد روح سے مجھے سنبھال۔
15۔ اے خداوند میرے ہونٹوں کو کھول دے تو میری منہ سے تیری ستائش نکلے گی۔
16۔ کیونکہ قربانی میں تیری خوشنودی نہیں ورنہ میں دیتا۔سوختنی قربانی سے تجھے کچھ خوشی نہیں۔
17۔ شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔اے خدا تْو شکستہ اور خستہ دل حقیر نہ جانے گا۔
10. Create in me a clean heart, O God; and renew a right spirit within me.
11. Cast me not away from thy presence; and take not thy holy spirit from me.
12. Restore unto me the joy of thy salvation; and uphold me with thy free spirit.
15. O Lord, open thou my lips; and my mouth shall shew forth thy praise.
16. For thou desirest not sacrifice; else would I give it: thou delightest not in burnt offering.
17. The sacrifices of God are a broken spirit: a broken and a contrite heart, O God, thou wilt not despise.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
6۔ مَیں کیا لے کر خداوند کے حضور آؤں اور خدا تعالیٰ کو کیونکر سجدہ کروں؟ کیا سوختنی قربانیوں اور یکسالہ بچھڑوں کو لے کر اْس کے حضور آؤں؟
7۔ کیا خداوند ہزاروں مینڈھوں سے یا تیل کی دس ہزار نہروں سے خوش ہوگا؟ کیا مَیں اپنے پہلوٹھے کو اپنے گناہ کے عوض میں اور اپنی اولاد کو اپنی جان کی خطا کے بدلہ میں دے دوں؟
8۔ اے انسان اْس نے تجھ پر نیکی ظاہر کر دی ہے۔ خداوند تجھ سے اِس سے زیادہ کیا چاہتا ہے کہ تْو انصاف کرے اور رحم دلی کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟
6 Wherewith shall I come before the Lord, and bow myself before the high God? shall I come before him with burnt offerings, with calves of a year old?
7 Will the Lord be pleased with thousands of rams, or with ten thousands of rivers of oil? shall I give my firstborn for my transgression, the fruit of my body for the sin of my soul?
8 He hath shewed thee, O man, what is good; and what doth the Lord require of thee, but to do justly, and to love mercy, and to walk humbly with thy God?
1۔ تب سلیمان نے اسرائیل کے بزرگوں اور قبیلوں کے سب سرداروں کو جو بنی اسرائیل کے آبائی خاندانوں کے رئیس تھے اپنے پاس یروشلیم میں جمع کیا تاکہ وہ داؤد کے شہر سے جو صیون ہے خداوند کے عہد کے صندوق کو لے آئیں۔
2۔ سو اْس عید میں اسرائیل کے سب لوگ ماہِ ایتانیم میں جو ساتواں مہینہ ہے سلیمان بادشاہ کے پاس جمع ہوئے۔
3۔ اور اسرائیل کے سب بزرگ آئے اور کاہنوں نے صندوق اٹھایا۔
4۔ اور وہ خداوند کے صندوق کو اور خیمہ اجتماع کو اور اْن سب مقدس ظروف کو جو خیمہ کے اندر تھے لے آئے۔ اْن کو کاہن اور لاوی لائے تھے۔
5۔ اور سلیمان بادشاہ نے اور اْس کے ساتھ اسرائیل کی ساری جماعت نے جو اْس کے پاس جمع تھی صندوق کے سامنے کھڑے ہو کر اتنی بھیڑ بکریاں اور بیل ذبح کئے کہ اْن کی کثرت کے سبب سے اْن کا شمار یا حساب نہ ہوسکا۔
6۔ اور کاہن خداوند کے عہد کے صندوق کو اْس جگہ پر اْن گھر کی الہام گاہ میں یعنی پاک ترین مکان میں عین کروبیوں کے بازوؤں کے نیچے لے آئے۔
7۔ کیونکہ کروبی اپنے بازوؤں کو صندوق کی جگہ کے اوپر پھیلائے ہوئے تھے اور وہ کروبی صندوق کو اور اْس کی چوبوں کو اوپر سے ڈھانکے ہوئے تھے۔
8۔ اور وہ چوبیں ایسی لمبی تھیں کہ اْن چوبوں کے سرے پاک مکان سے الہام گاہ کے سامنے دکھائی دیتے تھے لیکن باہر سے دکھائی نہیں دیتے تھے اور وہ آج تک وہیں ہیں۔
9۔ اور اْس صندوق میں کچھ نہ تھا سوائے پتھر کی اْن دولوحوں کے جن کو وہاں موسیٰ نے حوریب میں رکھ دیا تھا جس وقت کے خداوند نے بنی اسرائیل سے جب وہ ملکِ مصر سے نکل آئے عہد باندھا تھا۔
10۔ پھر ایسا ہوا کہ جب کاہن پاک مکان سے باہر نکل آئے تو خداوند کا گھر ابر سے بھر گیا۔
11۔ سو کاہن اْس ابر کے سبب سے خدمت کے لئے کھڑے نہ ہو سکے اِس لئے کہ خداوند کا گھر اْس کے جلال سے بھر گیا تھا۔
1 Solomon assembled the elders of Israel, and all the heads of the tribes, the chief of the fathers of the children of Israel, unto king Solomon in Jerusalem, that they might bring up the ark of the covenant of the Lord out of the city of David, which is Zion.
2 And all the men of Israel assembled themselves unto king Solomon at the feast in the month Ethanim, which is the seventh month.
3 And all the elders of Israel came, and the priests took up the ark.
4 And they brought up the ark of the Lord, and the tabernacle of the congregation, and all the holy vessels that were in the tabernacle, even those did the priests and the Levites bring up.
5 And king Solomon, and all the congregation of Israel, that were assembled unto him, were with him before the ark, sacrificing sheep and oxen, that could not be told nor numbered for multitude.
6 And the priests brought in the ark of the covenant of the Lord unto his place, into the oracle of the house, to the most holy place, even under the wings of the cherubims.
7 For the cherubims spread forth their two wings over the place of the ark, and the cherubims covered the ark and the staves thereof above.
8 And they drew out the staves, that the ends of the staves were seen out in the holy place before the oracle, and they were not seen without: and there they are unto this day.
9 There was nothing in the ark save the two tables of stone, which Moses put there at Horeb, when the Lord made a covenant with the children of Israel, when they came out of the land of Egypt.
10 And it came to pass, when the priests were come out of the holy place, that the cloud filled the house of the Lord,
11 So that the priests could not stand to minister because of the cloud: for the glory of the Lord had filled the house of the Lord.
1۔ پس اے بھائیو! مَیں خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔
2۔ اور اِس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہوجانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے جاؤ۔
1 I beseech you therefore, brethren, by the mercies of God, that ye present your bodies a living sacrifice, holy, acceptable unto God, which is your reasonable service.
2 And be not conformed to this world: but be ye transformed by the renewing of your mind, that ye may prove what is that good, and acceptable, and perfect, will of God.
17۔ اور عیدِ فطیر کے پہلے دن شاگردوں نے یسوع کے پاس آکر کہا تْو کہاں چاہتا ہے کہ ہم تیرے لئے فسح کھانے کی تیاری کریں؟
18۔ اْس نے کہا شہر میں فلاں شخس کے پاس جا کر کہنا اْستاد فرماتا ہے کہ میرا وقت نزدیک ہے۔ میں اپنے شاگردوں کے ساتھ تیرے ہاں عید فسح کروں گا۔
19۔ اور جیسا یسوع نے شاگردوں کو حکم دیا تھا اْنہوں نے ویسا ہی کیا اور فسح تیار کیا۔
20۔ جب شام ہوئی تو وہ بارہ شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تھا۔
26۔جب وہ کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اور برکت دے کر توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا لو کھاؤ۔ یہ میرا بدن ہے۔
27۔ پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور اْن سے کہا تم سب اِس میں سے پیو۔
28۔ کیونکہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کے لئے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے۔
29۔ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کا یہ شیرہ پھر کبھی نہ پیوں گا۔ اْس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہ میں نیا نہ پیوں۔
17 Now the first day of the feast of unleavened bread the disciples came to Jesus, saying unto him, Where wilt thou that we prepare for thee to eat the passover?
18 And he said, Go into the city to such a man, and say unto him, The Master saith, My time is at hand; I will keep the passover at thy house with my disciples.
19 And the disciples did as Jesus had appointed them; and they made ready the passover.
20 Now when the even was come, he sat down with the twelve.
26 And as they were eating, Jesus took bread, and blessed it, and brake it, and gave it to the disciples, and said, Take, eat; this is my body.
27 And he took the cup, and gave thanks, and gave it to them, saying, Drink ye all of it;
28 For this is my blood of the new testament, which is shed for many for the remission of sins.
29 But I say unto you, I will not drink henceforth of this fruit of the vine, until that day when I drink it new with you in my Father’s kingdom.
1۔ اِس پر پلاطوس نے یسوع کو کوڑے لگوائے۔
16۔ اِس پر اْس نے اْس کو اْن کے حوالہ کیا کہ مصلوب کیا جائے۔
17۔ اور وہ اپنی صلیب آپ اٹھائے ہوئے اْس جگہ تک باہر گیا جو کھوپڑی کی جگہ کہلاتی ہے۔ جس کا ترجمہ عبرانی میں گلگتا ہے۔
18۔ وہاں اْنہوں نے اْس کو اور اْس کے ساتھ اور دو شخصوں کو مصلوب کیا۔ ایک کو اِدھر ایک کو اْدھر اور یسوع کو بیچ میں۔
1 Then Pilate therefore took Jesus, and scourged him.
16 Then delivered he him therefore unto them to be crucified. And they took Jesus, and led him away.
17 And he bearing his cross went forth into a place called the place of a skull, which is called in the Hebrew Golgotha:
18 Where they crucified him, and two other with him, on either side one, and Jesus in the midst.
1۔ ہفتہ کے پہلے دن مریم مگدلینی ایسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا قبر پر آئی اور پتھر کو قبر پر سے ہٹا دیکھا۔
16۔ یسوع نے اْس سے کہا مریم! اْس نے مڑ کر اْسے عبرانی زبان میں کہا ربْونی! یعنی اے استاد!
17۔ یسوع نے اْس سے کہا مجھے نہ چھْو کیونکہ میں اب تک باپ کے پاس اوپر نہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جا کر اْن سے کہہ کہ مَیں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں۔
1 The first day of the week cometh Mary Magdalene early, when it was yet dark, unto the sepulchre, and seeth the stone taken away from the sepulchre.
16 Jesus saith unto her, Mary. She turned herself, and saith unto him, Rabboni; which is to say, Master.
17 Jesus saith unto her, Touch me not; for I am not yet ascended to my Father: but go to my brethren, and say unto them, I ascend unto my Father, and your Father; and to my God, and your God.
1۔ اِن باتوں کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو تبریاس کی جھیل کے کنارے شاگردوں پر ظاہر کیا اور اِس طرح ظاہر کیا۔
15۔ اور جب کھانا کھا چکے تو یسوع نے شمعون پطرس سے کہا اے شمعون یوحنا کے بیٹے کیا تْو اِن سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ اْس نے اْس سے کہا ہاں خداوند تْو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تجھے عزیز رکھتا ہوں۔ اْس نے اْس سے کہا تْو میرے برے چرا۔
16۔ اْس نے دوبارہ اْس سے پھر کہا اے شمعون یوحنا کے بیٹے کیا تْو مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ اْس نے کہا ہاں خداوند تْو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تجھ کو عزیز رکھتا ہوں۔ اْس نے اْس سے کہا تْو میری بھیڑوں کی گلہ بانی کر۔
17۔ اْس نے تیسری بار اْس سے کہا اے شمعون یوحنا کے بیٹے کیا تْو مجھے عزیز رکھتا ہے؟ چونکہ اْس نے تیسری بار اْس سے کہا کیا تْو مجھے عزیز رکھتا ہے اِس سبب سے پطرس نے دلگیر ہو کر اْس سے کہا اے خداوند! تْو تو سب کچھ جانتا ہے۔ تجھے معلوم ہی ہے کہ مَیں تجھے عزیز رکھتا ہوں۔ یسوع نے اْس سے کہا تْو میری بھیڑیں چرا۔
1 After these things Jesus shewed himself again to the disciples at the sea of Tiberias;
15 So when they had dined, Jesus saith to Simon Peter, Simon, son of Jonas, lovest thou me more than these? He saith unto him, Yea, Lord; thou knowest that I love thee. He saith unto him, Feed my lambs.
16 He saith to him again the second time, Simon, son of Jonas, lovest thou me? He saith unto him, Yea, Lord; thou knowest that I love thee. He saith unto him, Feed my sheep.
17 He saith unto him the third time, Simon, son of Jonas, lovest thou me? Peter was grieved because he said unto him the third time, Lovest thou me? And he said unto him, Lord, thou knowest all things; thou knowest that I love thee. Jesus saith unto him, Feed my sheep.
15۔۔۔۔ہم اْس کے وسیلہ سے حمد کی قربانی یعنی اْن ہونٹوں کا پھل جو اْس کے نام کا اقرار کرتے ہیں خدا کے لئے ہر وقت چڑھایا کریں۔
16۔ اور بھلائی اور سخاوت کرنا نہ بھولو اِس لئے کہ خدا ایسی قربانیوں سے خوش ہوتا ہے۔
15 let us offer the sacrifice of praise to God continually, that is, the fruit of our lips giving thanks to his name.
16 But to do good and to communicate forget not: for with such sacrifices God is well pleased.
ساری جانثاری کا مادا الٰہی محبت، بیماری کی شفا اور گناہ کی تباہی کا عکس اور اظہار ہے۔ہمارے مالک نے کہا، ”اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔“
The substance of all devotion is the reflection and demonstration of divine Love, healing sickness and destroying sin. Our Master said, "If ye love me, keep my commandments."
خون کا روحانی جوہر قربانی ہے۔ یسوع کی روحانی قربانی کی افادیت اِس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ہم انسانی خون کے ادراک سے ایاں کر سکیں۔جب یہ یسوع کا مادی خون ”ملعون درخت“ پر بہایا گیا تب وہ گناہوں سے پاک کرنے کے لئے اتنا موثر نہیں تھا جتنا اْس وقت تھا جب وہ خون اْس کی رگوں میں بہتا تھا جب ہر روز وہ اپنے باپ کا کام کرنے جایا کرتا تھا۔اْس کا حقیقی خون اور بدن اْس کی زندگی تھی؛ اور وہ حقیقتاً اْس کا بدن کھاتے اور خون پیتے ہیں جو اْس الٰہی زندگی میں حصہ لیتے ہیں۔
The spiritual essence of blood is sacrifice. The efficacy of Jesus' spiritual offering is infinitely greater than can be expressed by our sense of human blood. The material blood of Jesus was no more efficacious to cleanse from sin when it was shed upon "the accursed tree," than when it was flowing in his veins as he went daily about his Father's business. His true flesh and blood were his Life; and they truly eat his flesh and drink his blood, who partake of that divine Life.
وہ فسح جو یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ نیسان کے مہینے میں اپنے مصلوب ہونے سے قبل کھائی وہ ایک غمگین موقع تھا، ایک سوگوار کھانا جو دن کے آخر پر، پر نور چاندنی میں تھاجس کے ساتھ تیزی سے گہرے سایے ارد گرد پھیل رہے تھے؛ اور اس کھانے نے مادے کے لئے یسوع کی رسم پرستی یا منظوری کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔
اْس کے پیروکار، افسردہ اور خاموش، اپنے مالک کے ساتھ ہونے والی بے وفائی کی گھڑی پر غور کر رہے تھے، آسمانی من میں حصہ لیتے ہیں، جو ماضی کے بیابان میں ستائے ہوئے سچائی کے ماننے والوں نے کھایا تھا۔اْن کی خوراک واقعتاً آسمان سے اتری تھی۔بیماروں کو شفا دینے اور غلطی کو باہر نکالنے والی روحانی ہستی کی یہ بہت بڑی حقیقت تھی۔اْن کے مالک نے انہیں یہ پہلے ہی واضح کر دیا تھا، اور اب یہ روٹی انہیں خوراک دے رہی تھی اور انہیں قائم رکھ رہی تھی۔وہ اِس روٹی کو گھر گھر پہنچاتے تھے، اسے دوسروں کے لئے توڑتے (وضاحت کرتے) تھے، اور اب اْس نے انہیں تسلی دی۔
روحانی ہستی کی اِس سچائی کے لئے، اْن کا مالک تشددسہنے کو تھا اور دْکھ کا یہ پیالہ آخری قطرے تک خشک ہونے کو تھا۔اْس نے انہیں چھوڑ دینا تھا۔اْس پر چھانے والی ابدی فتح کے بڑے جلال کے ساتھ، اْس نے شکر کیا اور کہا، ”تم سب اِس میں سے پیو۔“
جب اْس کے اندر انسانی عنصر الٰہی عنصر کے ساتھ کشمکش کر رہا تھا تو ہمارے عظیم استاد نے کہا: ”میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو!“، یعنی، مجھ میں بدن نہیں بلکہ روح ظاہر ہو۔ یہ روحانی محبت کی نئی سمجھ ہے۔ یہ سبھی کچھ مسیح یا سچائی کے لئے مہیا کرتا ہے۔ یہ دشمنوں کو برکت دیتا، بیماروں کو شفا دیتا، غلطیوں کو خارج کرتا، خطاؤں اور گناہوں میں مردہ لوگوں کو زندہ کرتا اور جو دل کے غریب اور فروتن ہیں اْن کی انجیل کی خوشخبری سناتا ہے۔
The Passover, which Jesus ate with his disciples in the month Nisan on the night before his crucifixion, was a mournful occasion, a sad supper taken at the close of day, in the twilight of a glorious career with shadows fast falling around; and this supper closed forever Jesus' ritualism or concessions to matter.
His followers, sorrowful and silent, anticipating the hour of their Master's betrayal, partook of the heavenly manna, which of old had fed in the wilderness the persecuted followers of Truth. Their bread indeed came down from heaven. It was the great truth of spiritual being, healing the sick and casting out error. Their Master had explained it all before, and now this bread was feeding and sustaining them. They had borne this bread from house to house, breaking (explaining) it to others, and now it comforted themselves.
For this truth of spiritual being, their Master was about to suffer violence and drain to the dregs his cup of sorrow. He must leave them. With the great glory of an everlasting victory overshadowing him, he gave thanks and said, "Drink ye all of it."
When the human element in him struggled with the divine, our great Teacher said: "Not my will, but Thine, be done!" — that is, Let not the flesh, but the Spirit, be represented in me. This is the new understanding of spiritual Love. It gives all for Christ, or Truth. It blesses its enemies, heals the sick, casts out error, raises the dead from trespasses and sins, and preaches the gospel to the poor, the meek in heart.
خداوند کے آخری کھانے اور گلیل کی جھیل کے ساحل پرایک تازہ صبح کے پہر میں خوشگوار ملاقات میں اپنے شاگردوں کے ساتھ اْس کے روحانی ناشتے میں کتنا فرق ہے۔ اْس کا دْکھ جلال میں بدل گیا تھا، اور اْس کے شاگرد پشیمانی میں رنجیدہ ہوئے، دل کی تنبیہ ہوئی اور تکبر کی ملامت ہوئی۔
What a contrast between our Lord's last supper and his last spiritual breakfast with his disciples in the bright morning hours at the joyful meeting on the shore of the Galilean Sea! His gloom had passed into glory, and His disciples' grief into repentance, — hearts chastened and pride rebuked.
نئی روشنی کے طلوع ہونے پر ہمارے خداوند کے ساتھ یہ روحانی ملاقات صبح کا وہ ناشتہ ہے جسکی یاد مسیحی سائنسدان مناتے ہیں۔ دوبارہ اْس کی حضوری حاصل کرنے کے لئے اور خاموشی کے ساتھ الٰہی اصول، محبت کے ساتھ شراکت کرنے کے لئے وہ مسیح، سچائی کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ وہ اْن کے خداوند کی موت پر فتح، موت کے بعد اْس کی بدنی آزمائش، انسانی آزمائش کی اِس مثال، اورجب وہ مادی نظر سے اوجھل اوپر اٹھایا گیا تو مادے، یا جسم سے اوپر اْس کے روحانی اور آخری صعود کو مناتے ہیں۔
ہمارا بپتسمہ ساری غلطی سے ہماری پاکیزگی ہے۔۔۔۔ہمارا یوخرست ایک خدا کے ساتھ روحانی شراکت ہے۔ ہماری روٹی ”جو آسمان سے اترتی ہے،“ سچائی ہے۔ ہمارا پیالہ صلیب ہے۔ ہماری مے، یعنی وہ مے جو ہماری مالک نے پی اور اپنے پیروکاروں کو بھی اِس کا حکم دیا، محبت کا الہام ہے۔
This spiritual meeting with our Lord in the dawn of a new light is the morning meal which Christian Scientists commemorate. They bow before Christ, Truth, to receive more of his reappearing and silently to commune with the divine Principle, Love. They celebrate their Lord's victory over death, his probation in the flesh after death, its exemplification of human probation, and his spiritual and final ascension above matter, or the flesh, when he rose out of material sight.
Our baptism is a purification from all error.
Our Eucharist is spiritual communion with the one God. Our bread, "which cometh down from heaven," is Truth. Our cup is the cross. Our wine the inspiration of Love, the draught our Master drank and commended to his followers.
یسوع کا آخری ثبوت اْس کے طالب علموں کے لئے سب سے بلند، سب سے زیادہ قابل یقین، سب سے زیادہ فائدہ مند تھا۔وحشی ظالموں کابْغض، انسان اور اْس کے ستانے والے کی تکریم سے محبت کی خود کْشی اور غداری خدا کے سچے الٰہی خیال سے مسترد ہو گئے، جس کا یسوع کے ستانے والوں نے مزاق اْڑایا اور اْسے فنا کرنے کی کوشش کی۔ سچائی کا آخری اظہار جس کی یسوع نے تعلیم دی، اور جس کی خاطر وہ مصلوب کیا گیا، اْس نے دنیا کے لئے نئے دور کا آغاز کیا۔ وہ لوگ جنہوں نے اْس کے تاثر پر روک لگانے کے لئے اْسے ذبح کیا انہوں نے اسے برقرار رکھا اور اسے وسعت دی۔
اْس پیالے کی کڑواہٹ کے سبب جو اْس نے پیا یسوع اظہار میں اوپر اٹھایا گیا۔ انسانی قانون نے اْسے رد کیا، مگر وہ الٰہی سائنس کو ظاہر کررہا تھا۔ اْس کے دشمنوں کی حد سے زیادہ بربریت کے باوجود، وہ مادے اور فانیت کے انحراف میں روحانی قانون کے تحت کام کر رہا تھا، اور اسی روحانی قانون نے اْسے قائم رکھا۔ الٰہی کو ہر مقام پر انسان پر فاتح ہونا چاہئے۔ وہ سائنس جس کی تعلیم یسوع نے دی اور اْس پر زندگی گزاری اْسے زندگی، مواد اور ذہانت سے متعلق تمام تر مادی عقائد پراور ایسے عقائد سے فروغ پانے والی کثیر غلطیوں پر فتح مند ہونا چاہئے۔
محبت کو نفرت پر ہمیشہ فتح مند ہونا چاہئے۔ اس سے قبل کہ کانٹوں کو تاج بنانے کے لئے چنا جائے اور روح کی برتری کو ظاہر کیا جائے، سچائی اور زندگی کو غلطی اور موت پر فتح کی مہر ثبت کرنی چاہئے، دعائے خیر کہتی ہے، ”ایک اچھے اور وفادار خادم، تو نے بہت اچھا کیا“۔
Jesus' last proof was the highest, the most convincing, the most profitable to his students. The malignity of brutal persecutors, the treason and suicide of his betrayer, were overruled by divine Love to the glorification of the man and of the true idea of God, which Jesus' persecutors had mocked and tried to slay. The final demonstration of the truth which Jesus taught, and for which he was crucified, opened a new era for the world. Those who slew him to stay his influence perpetuated and extended it.
Jesus rose higher in demonstration because of the cup of bitterness he drank. Human law had condemned him, but he was demonstrating divine Science. Out of reach of the barbarity of his enemies, he was acting under spiritual law in defiance of matter and mortality, and that spiritual law sustained him. The divine must overcome the human at every point. The Science Jesus taught and lived must triumph over all material beliefs about life, substance, and intelligence, and the multitudinous errors growing from such beliefs.
Love must triumph over hate. Truth and Life must seal the victory over error and death, before the thorns can be laid aside for a crown, the benediction follow, "Well done, good and faithful servant," and the supremacy of Spirit be demonstrated.
وہ سب جو یسوع کی یاد گاری میں روٹی کھاتے اور مے پیتے ہیں وہ حقیقت میں اْس کے پیالے اور اْس کی صلیب میں سے بانٹنے کی اور اصول ِمسیح کی خاطر سب کچھ چھوڑنے کے لئے رضا مند ہیں؟ تو پھر اس الہام کو ایک مردہ رسم کے ساتھ کیوں منسوب کیا جاتا ہے بجائے غلطی کو دور کرتے ہوئے اور بدن کو ”پاک اور خدا کے لئے قابل قبول“ بناتے ہوئے، یہ دکھایا جائے سچائی کا فہم فراہم ہوا ہے؟ اگر مسیح، سچائی اظہار میں ہمارے پاس آیا، تو کسی دوسری یاد گاری کی ضرورت نہیں، کیونکہ اظہار اعمانوئیل یا خدا ہمارے ساتھ ہے؛ اور اگر کوئی دوسر ہمارے ساتھ ہے تو اْس کی یادگاری منانے کی کیا ضرورت ہے؟
اگر وہ سب جنہوں نے ساکرامنٹ میں حصہ لیا یسوع کے دکھوں کی حقیقتاً یادگاری منائی تھی اور اْس کے پیالے میں سے پیا تھا تو وہ وہ دنیا میں انقلاب برپا کر دیتے۔ وہ سب جومادی علامات کے وسیلہ اْس کی یادگاری کے متلاشی ہیں وہ صلیب اٹھائیں گے، بیماروں کو شفا دیں گے، بدروحوں کو نکالے گے اور مسیح، سچائی کی خوشخبری غریبوں، منفی سوچ والوں،کو دیں گے، وہ ہزار سالہ دور لائیں گے۔
Are all who eat bread and drink wine in memory of Jesus willing truly to drink his cup, take his cross, and leave all for the Christ-principle? Then why ascribe this inspiration to a dead rite, instead of showing, by casting out error and making the body "holy, acceptable unto God," that Truth has come to the understanding? If Christ, Truth, has come to us in demonstration, no other commemoration is requisite, for demonstration is Immanuel, or God with us; and if a friend be with us, why need we memorials of that friend?
If all who ever partook of the sacrament had really commemorated the sufferings of Jesus and drunk of his cup, they would have revolutionized the world. If all who seek his commemoration through material symbols will take up the cross, heal the sick, cast out evils, and preach Christ, or Truth, to the poor, — the receptive thought, — they will bring in the millennium.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████