اتوار 4 دسمبر، 2022



مضمون۔ خدا واحد وجہ اور خالق

SubjectGod The Only Cause And Creator

سنہری متن: یسعیاہ 42باب 1 آیت

”دیکھو میرا خادم جس کو مَیں سنبھالتا ہوں۔ میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خوش ہے مَیں نے اپنی روح اْس پر ڈالی۔ وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا۔“



Golden Text: Isaiah 42 : 1

Behold my servant, whom I uphold; mine elect, in whom my soul delighteth; I have put my spirit upon him: he shall bring forth judgment to the Gentiles.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: یسعیاہ 42باب 2تا7 آیات • یسعیاہ 14 باب 27 آیت


2۔ وہ نہ چلائے گا نہ شور کرے گا اور نہ بازاروں میں اْس کی آواز سنائی دے گی۔

3۔ وہ مسلے ہوئے سر کنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بجھائے گا۔ وہ راستی سے عدالت کرے گا۔

4۔ وہ ماند نہ ہو گا اور ہمت نہ ہارے گا جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم نہ کرلے۔ جزیرے اْس کی شریعت کا انتظار کریں گے۔

5۔ جس نے آسمان کو پیدا کیا اور تان دیا جس نے زمین کو اور جو کچھ اْس میں سے نکلتا ہے پھیلایا اور جو اْس کے باشندوں کو سانس اور اْس پر چلنے والوں کو روح عنایت کرتا ہے یعنی خداوند خدا یوں فرماتا ہے۔

6۔ میں خداوند نے صداقت سے تجھے بلایا میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لئے تجھے دوں گا۔

7۔ کہ تْو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور اسیروں کو قید سے نکالے اور اْن کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں قید خانے سے چھڑائے۔

27۔ کیونکہ رب الافواج نے ارادہ کیا ہے۔ کون اْسے باطل کرے گا؟اور اْس کا ہاتھ بڑھایا گیا ہے اْسے کون روکے گا؟

Responsive Reading: Isaiah 42 : 2-7Isaiah 14 : 27

2.     He shall not cry, nor lift up, nor cause his voice to be heard in the street.

3.     A bruised reed shall he not break, and the smoking flax shall he not quench: he shall bring forth judgment unto truth.

4.     He shall not fail nor be discouraged, till he have set judgment in the earth: and the isles shall wait for his law.

5.     Thus saith God the Lord, he that created the heavens, and stretched them out; he that spread forth the earth, and that which cometh out of it; he that giveth breath unto the people upon it, and spirit to them that walk therein:

6.     I the Lord have called thee in righteousness, and will hold thine hand, and will keep thee, and give thee for a covenant of the people, for a light of the Gentiles;

7.     To open the blind eyes, to bring out the prisoners from the prison, and them that sit in darkness out of the prison house.

27.     For the Lord of hosts hath purposed, and who shall disannul it? and his hand is stretched out, and who shall turn it back?



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یسعیاہ 43 باب 1 (اب) تا 3 (تا؛)، 4 (تا:)، 5، 7 (اور مَیں) آیات

1۔۔۔۔اب اے یعقوب! خداوند جس نے تجھ کو پیدا کیا اور جس نے اے اسرائیل تجھ کو بنایا یوں فرماتا ہے کہ خوف نہ کر کیونکہ مَیں نے تیرا فدیہ دیا ہے۔ مَیں نے تیرا نام لے کر تجھے بلایا ہے تْو میرا ہے۔

2۔ جب تْو سیلاب میں سے گزرے تو مَیں تیرے ساتھ ہوں گا اور جب تْو ندیوں میں سے گزرے تو وہ تجھے نہ ڈبائیں گی۔ جب تْو آگ پر چلے گا تو تجھے آنچ نہ لگے گی اور شعلہ تجھے نہ جلائے گا۔

3۔ کیونکہ مَیں خداوند تیرا خدا اسرائیل کا قدوس تیرا نجات دینے والاہوں۔

4۔ چونکہ تْو میری نگاہ میں بیش قیمت اور مکرم ٹھہرا اور مَیں نے تجھ سے محبت رکھی اِس لئے مَیں تیرے بدلے لوگ اور تیری جان کے بدلے میں امتیں دے دوں گا۔

5۔تْو خوف نہ کر کیونکہ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ مَیں تیری قوم کو مشرق سے لے آؤں گا اور مغرب سے تجھے فراہم کروں گا۔

7۔۔۔۔ اور جس کو مَیں نے اپنے جلال کے لئے خلق کیا جسے مَیں نے پیدا کیا ہاں جسے مَیں ہی نے بنایا۔

1. Isaiah 43 : 1 (now)-3 (to :), 4 (to :), 5, 7 (for I)

1     …now thus saith the Lord that created thee, O Jacob, and he that formed thee, O Israel, Fear not: for I have redeemed thee, I have called thee by thy name; thou art mine.

2     When thou passest through the waters, I will be with thee; and through the rivers, they shall not overflow thee: when thou walkest through the fire, thou shalt not be burned; neither shall the flame kindle upon thee.

3     For I am the Lord thy God, the Holy One of Israel, thy Saviour:

4     Since thou wast precious in my sight, thou hast been honourable, and I have loved thee:

5     Fear not: for I am with thee: I will bring thy seed from the east, and gather thee from the west;

7     …for I have created him for my glory, I have formed him; yea, I have made him.

2 . ۔ یسعیاہ 14 باب24 (یقینا) آیت

24۔ یقینا جیسا مَیں نے چاہا ویسا ہی ہو جائے گا اور جیسا مَیں نے ارادہ کیا ویسا ہی وقوع ہوجائے گا۔

2. Isaiah 14 : 24 (Surely)

24     Surely as I have thought, so shall it come to pass; and as I have purposed, so shall it stand:

3 . ۔ لوقا 1 باب5تا16، 18، 19، 24 (تا پہلی)، 26تا32، 34تا42، 46تا49 آیات

5۔ یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کے زمانہ میں ابیاہ کے فریق میں سے زکریاہ نام ایک کاہن تھا اور اْس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اور اْس کا نام الیشبع تھا۔

6۔ اور وہ دونوں خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے۔

7۔ اور اْن کے اولاد نہ تھی کیونکہ الیشبع بانجھ تھی اور دونوں عمر رسیدہ تھے۔

8۔ جب وہ خدا کے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کا کام انجام دیتا تھا تو ایسا ہوا۔

9۔ کہ کہانت کے دستور کے مطابق اْس کے نام کا قرعہ نکلا کہ خداوند کے مقدِس میں جا کر خوشبو جلائے۔

10۔ اور لوگوں کی ساری جماعت خوشبو جلاتے وقت باہر دعا کر رہی تھی۔

11۔ کہ خداوند کا فرشتہ خوشبو کے منبع کی داہنی طرف کھڑا ہوا اْس کو دکھائی دیا۔

12۔ اور زکریاہ دیکھ کر گھبرایا اور اْس پر دہشت چھا گئی۔

13۔ مگر فرشتے نے اْس سے کہا اے زکریاہ! خوف نہ کر کیونکہ تیری دعا سن لی گئی ہے اور تیرے لئے تیری بیوی الیشبع کے بیٹا ہوگا۔ تْو اْس کا نام یوحنا رکھنا۔

14۔ اور تجھے خوشی اور خرمی ہوگی اور بہت سے لوگ اْس کی پیدائش کے سبب سے خوش ہوں گے۔

15۔ کیونکہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہوگا اور ہر گز نہ مے نہ کوئی اور شراب پئے گا اور اپنی ماں کے پیٹ ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا۔

16۔ اور بہت سے بنی اسرائیلیوں کو خداوند کی طرف جو اْن کا خدا ہے پھیرے گا۔

18۔ زکریاہ نے فرشتے سے کہا مَیں اِس بات کو کس طرح جانوں؟ کیونکہ مَیں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے۔

19۔ فرشتے نے جواب میں اْس سے کہا کہ مَیں جبرائیل ہوں جو خدا کے حضور کھڑا رہتا ہوں اور اِس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تجھ سے کلام کروں اور تجھے اِن باتوں کی خوشخبری دوں۔

24۔ اِن دنوں کے بعد اْس کی بیوی الیشبع حاملہ ہوئی۔

26۔ چھٹے مہینے میں جبرائیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرت تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا۔

27۔ جس کی منگنی داؤد کے گھرانے کے ایک مرد یوسف نام سے ہوئی تھی اور اْس کنواری کا نام مریم تھا۔

28۔ اور فرشتے نے اْس کے پاس اندر آکر کہا سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا ہے! خداوند تیرے ساتھ ہے۔

29۔ وہ اِس کلام سے بہت گھبرا گئی اور سوچنے لگی کہ یہ کیسا سلام ہے۔

30۔ خوف نہ کر کیونکہ خداوند کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے۔

31۔ اور دیکھ تْو حاملہ ہوگی اور تیرے بیٹا ہوگا۔ اْس کا نام یسوع رکھنا۔

32۔ وہ بزرگ ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خداوند خدا اْس کے باپ داؤد کا تخت اْسے دے گا۔

34۔ مریم نے فرشتے سے کہا یہ کیونکر ہوگا جبکہ مَیں مرد کو نہیں جانتی؟

35۔ اور فرشتے نے جواب میں اْس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگا اور خدا تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مولودِ مقدس خدا کا بیٹا کہلائے گا۔

36۔ اور دیکھ تیری رشتہ دار الیشبع کے بھی بڑھاپے میں بیٹا ہونے والا ہے اور اب اْس کو جوبانجھ کہلاتی تھی چھٹا مہینہ ہے۔

37۔ کیونکہ جو قول خدا کی طرف سے ہے وہ ہر گز بے تاثیر نہ ہوگا۔

38۔ مریم نے کہا دیکھ مَیں خداوند کی بندی ہوں۔ میرے لئے تیرے قول کے موافق ہو۔ تب فرشتہ اْس کے پاس سے چلا گیا۔

39۔ اْنہی دنوں مریم اْٹھی اور جلدی سے پہاڑی ملک میں یہوداہ کے ایک شہر کو گئی۔

40۔ اور زکریاہ کے گھر میں داخل ہو کر الیشبع کو سلام کیا۔

41۔ اور جونہی الیشبع نے مریم کا سلام سنا تو ایسا ہوا کہ بچہ اْس کے پیٹ میں اْچھل پڑا اور الیشبع روح القدس سے بھر گئی۔

42۔ اور بلند آواز سے پکار کر کہنے لگی تْو عورتوں میں مبارک ہے اور تیرے پیٹ کا پھل مبارک ہے۔

46۔ پھر مریم نے کہا کہ میری جان خداوند کی بڑائی کرتی ہے۔

47۔ اور میری روح میرے منجی خدا سے خوش ہوئی۔

48۔ کیونکہ اْس نے اپنی بندی کی پست حالی پر نظر کی اور دیکھ اب سے لے کر ہر زمانہ کے لوگ مجھ کو مبارک کہیں گے۔

49۔ کیونکہ اْس قادر نے میرے لئے بڑے بڑے کام کئے ہیں اور اْس کا نام پاک ہے۔

3. Luke 1 : 5-16, 18, 19, 24 (to 1st ,), 26-32, 34-42, 46-49

5     There was in the days of Herod, the king of Judæa, a certain priest named Zacharias, of the course of Abia: and his wife was of the daughters of Aaron, and her name was Elisabeth.

6     And they were both righteous before God, walking in all the commandments and ordinances of the Lord blameless.

7     And they had no child, because that Elisabeth was barren, and they both were now well stricken in years.

8     And it came to pass, that while he executed the priest’s office before God in the order of his course,

9     According to the custom of the priest’s office, his lot was to burn incense when he went into the temple of the Lord.

10     And the whole multitude of the people were praying without at the time of incense.

11     And there appeared unto him an angel of the Lord standing on the right side of the altar of incense.

12     And when Zacharias saw him, he was troubled, and fear fell upon him.

13     But the angel said unto him, Fear not, Zacharias: for thy prayer is heard; and thy wife Elisabeth shall bear thee a son, and thou shalt call his name John.

14     And thou shalt have joy and gladness; and many shall rejoice at his birth.

15     For he shall be great in the sight of the Lord, and shall drink neither wine nor strong drink; and he shall be filled with the Holy Ghost, even from his mother’s womb.

16     And many of the children of Israel shall he turn to the Lord their God.

18     And Zacharias said unto the angel, Whereby shall I know this? for I am an old man, and my wife well stricken in years.

19     And the angel answering said unto him, I am Gabriel, that stand in the presence of God; and am sent to speak unto thee, and to shew thee these glad tidings.

24     And after those days his wife Elisabeth conceived,

26     And in the sixth month the angel Gabriel was sent from God unto a city of Galilee, named Nazareth,

27     To a virgin espoused to a man whose name was Joseph, of the house of David; and the virgin’s name was Mary.

28     And the angel came in unto her, and said, Hail, thou that art highly favoured, the Lord is with thee: blessed art thou among women.

29     And when she saw him, she was troubled at his saying, and cast in her mind what manner of salutation this should be.

30     And the angel said unto her, Fear not, Mary: for thou hast found favour with God.

31     And, behold, thou shalt conceive in thy womb, and bring forth a son, and shalt call his name JESUS.

32     He shall be great, and shall be called the Son of the Highest: and the Lord God shall give unto him the throne of his father David:

34     Then said Mary unto the angel, How shall this be, seeing I know not a man?

35     And the angel answered and said unto her, The Holy Ghost shall come upon thee, and the power of the Highest shall overshadow thee: therefore also that holy thing which shall be born of thee shall be called the Son of God.

36     And, behold, thy cousin Elisabeth, she hath also conceived a son in her old age: and this is the sixth month with her, who was called barren.

37     For with God nothing shall be impossible.

38     And Mary said, Behold the handmaid of the Lord; be it unto me according to thy word. And the angel departed from her.

39     And Mary arose in those days, and went into the hill country with haste, into a city of Juda;

40     And entered into the house of Zacharias, and saluted Elisabeth.

41     And it came to pass, that, when Elisabeth heard the salutation of Mary, the babe leaped in her womb; and Elisabeth was filled with the Holy Ghost:

42     And she spake out with a loud voice, and said, Blessed art thou among women, and blessed is the fruit of thy womb.

46     And Mary said, My soul doth magnify the Lord,

47     And my spirit hath rejoiced in God my Saviour.

48     For he hath regarded the low estate of his handmaiden: for, behold, from henceforth all generations shall call me blessed.

49     For he that is mighty hath done to me great things; and holy is his name.



سائنس اور صح


1 . ۔ 180 :25۔27

جب خدا، ازلی فہم جو سب باتیں سمجھتا ہے، انسان پر حکومت کرتا ہے تو انسان جانتا ہے کہ خدا کے لئے سب کچھ ممکن ہے۔

1. 180 : 25-27

When man is governed by God, the ever-present Mind who understands all things, man knows that with God all things are possible.

2 . ۔ 332 :23 (یسوع)(تا۔)26۔29

یسوع ایک کنواری کا بیٹا تھا۔۔۔۔مریم کا حاملہ ہونا روحانی تھا، کیونکہ صرف پاکیزگی ہی حق اور محبت کی عکاسی کر سکتی تھی، جو واضح طور پر نیک اور پاک مسیح یسوع میں مجسم ہوئی۔

2. 332 : 23 (Jesus) (to .), 26-29

Jesus was the son of a virgin. … Mary's conception of him was spiritual, for only purity could reflect Truth and Love, which were plainly incarnate in the good and pure Christ Jesus.

3 . ۔ 29 :14۔1

کرسچن سائنس میں ہدایت پانے والے اِس جلالی تصور تک پہنچے کہ خدا ہی انسان کا واحد مصنف ہے۔کنواری ماں نے خدا کے اِس تصور کا حمل لیا، اور اپنے نظریے کو یسوع کا نام دیا، یعنی یشوع، یا نجات دہندہ۔

مریم کے روحانی فہم کی روشن خیالی نے مادی قانون اور اِس کی نسلی ترتیب کو خاموش کر دیا، اورخدا کو بطور ابنِ آدم ظاہر کرتے ہوئے اْس کے بچے کو سچائی کے مکاشفہ کے وسیلہ پرورش دی۔روح القدس یا الٰہی روح نے کنواری ماں کے پاک فہم پر اِس سمجھ کے ساتھ سایہ کیا کہ ہستی روح ہے۔مسیح نے ہمیشہ اْس خدا کی گود میں ایک تصور آباد کیا جو یسوع انسان کا الٰہی اصول ہے، اور عورت نے اِس روحانی تصور کا حمل لیا، اگرچہ جو شروع میں بہت ہلکا سا فروغ پایا۔

انسان بطور خدا کے فرزند، بطور روح کے تصور، لافانی گواہی ہے کہ روح ہم آہنگ اور آدمی ابدی ہے۔یسوع مریم کی خود آگاہی کا فرزند تھا جو خدا کے ساتھ شراکت میں تھی۔

3. 29 : 14-1

Those instructed in Christian Science have reached the glorious perception that God is the only author of man. The Virgin-mother conceived this idea of God, and gave to her ideal the name of Jesus — that is, Joshua, or Saviour.

The illumination of Mary's spiritual sense put to silence material law and its order of generation, and brought forth her child by the revelation of Truth, demonstrating God as the Father of men. The Holy Ghost, or divine Spirit, overshadowed the pure sense of the Virgin-mother with the full recognition that being is Spirit. The Christ dwelt forever an idea in the bosom of God, the divine Principle of the man Jesus, and woman perceived this spiritual idea, though at first faintly developed.

Man as the offspring of God, as the idea of Spirit, is the immortal evidence that Spirit is harmonious and man eternal. Jesus was the offspring of Mary's self-conscious communion with God.

4 . ۔ 31 :4۔11

یسوع نے کسی بدنی تعلق کو تسلیم نہیں کیا۔ اْس نے کہا: ”زمین پر کسی کو اپنا باپ نہ کہو کیونکہ تمہارا باپ ایک ہی ہے جو آسمانی ہے۔“ اْس نے دوبارہ کہا: ”کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی“، یہ مطلب دیتے ہوئے کہ یہ وہی ہیں جو اْس کے باپ کی مرضی بجا لاتے ہیں۔ ہمارے پاس اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں کہ وہ کسی شخص کو باپ کے نام سے پکارتا ہو۔وہ روح، خدا کو واحد خالق کے روپ میں جانتا تھا اور اِس لئے اْسے بطور سب کا باپ بھی جانتا تھا۔

4. 31 : 4-11

Jesus acknowledged no ties of the flesh. He said: "Call no man your father upon the earth: for one is your Father, which is in heaven." Again he asked: "Who is my mother, and who are my brethren," implying that it is they who do the will of his Father. We have no record of his calling any man by the name of father. He recognized Spirit, God, as the only creator, and therefore as the Father of all.

5 . ۔ 63 :5۔11

سائنس میں انسان روح کی اولاد ہے۔ اْس کا نسب خوبصورت، اچھائی اور پاکیزگی تشکیل دیتی ہے۔ اْس کا اصل، بشر کی مانند، وحشی جبلت میں نہیں اور نہ ہی وہ ذہانت تک پہنچنے سے پہلے مادی حالات سے گزرتا ہے۔ روح اْس کی ہستی کا ابتدائی اور اصلی منبع ہے؛ خدا اْس کا باپ ہے، اور زندگی اْس کی ہستی کا قانون ہے۔

5. 63 : 5-11

In Science man is the offspring of Spirit. The beautiful, good, and pure constitute his ancestry. His origin is not, like that of mortals, in brute instinct, nor does he pass through material conditions prior to reaching intelligence. Spirit is his primitive and ultimate source of being; God is his Father, and Life is the law of his being.

6 . ۔ 506 :18۔21

روح یعنی خدا، غیر تشکیل شدہ خیالات کو اْن کے مناسب مقام پر یکجا کرتا ہے، اور اِن خیالات کو ایاں کرتا ہے، جیسے وہ ایک پاک مقصد کی پتیاں اْسے ظاہر کرنے کی غرض سے کھولتا ہے۔

6. 506 : 18-21

Spirit, God, gathers unformed thoughts into their proper channels, and unfolds these thoughts, even as He opens the petals of a holy purpose in order that the purpose may appear.

7 . ۔ 507 :3۔6، 15۔8

خدا کی ولدیت اور ممتا کو ظاہر کرتے ہوئے، روح مناسب طور پر ہر چیز کو کھلاتا پلاتا اور کپڑے پہناتا ہے، جیسے ہی وہ روحانی تخلیق کے دائرے میں شامل ہوتی ہے۔

روح کی کائنات الٰہی اصول یا زندگی کی تخلیقی قوت کی عکاسی کرتی ہے جو عقل کی کثیر اشکال کو دوبارہ جنم دیتی اور مشترکہ تصوریعنی انسان کے اجماع پر حکمرانی کرتی ہے۔درخت اور جڑی بوٹی خود کی کسی افزائشی قوت کی وجہ سے پھل پیدا نہیں کرتے، بلکہ عقل کی وجہ سے جس میں سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ایک مادی دنیا فانی عقل اور انسان ایک خالق کے معنی پیش کرتے ہیں۔سائنسی الٰہی تخلیق فانی عقل اور کائنات کو خدا کی تخلیق کردہ ظاہر کرتی ہے۔

لا متناہی عقل ابدیت کے ذہنی مالیکیول کی طرف سے سب کو خلق کرتی اور اْن پر حکومت کرتی ہے۔ سب کا یہ الٰہی اصول اْس کی تخلیق کی پوری سائنس اور آرٹ اور انسان اور کائنات کی لافانیت کو ظاہر کرتا ہے۔تخلیق ہمیشہ سے ظاہر ہو رہی ہے اور اسے اپنے لازوال ذرائع کی فطرت کے باعث ظاہر ہونا جاری رکھنا چاہئے۔ بشری فہم اس ظہور کو الٹ کر دیتا ہے اور خیالات کو مادی کہتا ہے۔ لہٰذہ غلط تشریح کے ساتھ الٰہی خیال انسانی یا مادی عقیدے کے معیار تک گرتا دکھائی دیتا ہے، جسے مادی انسان کہا جاتا ہے۔لیکن بیج اس کے اندر ہی ہے،محض ایسے ہی جیسے الٰہی عقل سب کچھ ہے اور سب کچھ پیدا کرتی ہے، جیسے عقل کثیر کرنے والی ہے، اورعقل کا لامتناہی خیال، انسان اور کائنات پیداوار ہے۔واحد ذہانت یا سوچ کا مواد، ایک بیج یا ایک پھول خدا ہے، جو اس کا خالق ہے۔عقل سب کی روح ہے۔ عقل وہ زندگی، سچائی اور محبت ہے جو سب پر حکومت کرتی ہے۔

7. 507 : 3-6, 15-8

Spirit duly feeds and clothes every object, as it appears in the line of spiritual creation, thus tenderly expressing the fatherhood and motherhood of God.

The universe of Spirit reflects the creative power of the divine Principle, or Life, which reproduces the multitudinous forms of Mind and governs the multiplication of the compound idea man. The tree and herb do not yield fruit because of any propagating power of their own, but because they reflect the Mind which includes all. A material world implies a mortal mind and man a creator. The scientific divine creation declares immortal Mind and the universe created by God.

Infinite Mind creates and governs all, from the mental molecule to infinity. This divine Principle of all expresses Science and art throughout His creation, and the immortality of man and the universe. Creation is ever appearing, and must ever continue to appear from the nature of its inexhaustible source. Mortal sense inverts this appearing and calls ideas material. Thus misinterpreted, the divine idea seems to fall to the level of a human or material belief, called mortal man. But the seed is in itself, only as the divine Mind is All and reproduces all — as Mind is the multiplier, and Mind's infinite idea, man and the universe, is the product. The only intelligence or substance of a thought, a seed, or a flower is God, the creator of it. Mind is the Soul of all. Mind is Life, Truth, and Love which governs all.

8 . ۔ 263 :1۔14، 20 صرف

بشر غرور پسند ہوتے ہیں۔وہ خود کو آزاد کارکنان، ذاتی مصنف، کسی ایسی چیز کے بنانے والے تصور کرتے ہیں جو خدا نہ بنا سکا یا نہیں بنا سکتا۔فانی عقل کی تخلیقات مادی ہیں۔لافانی روحانی انسان تنہا سچائی کی تخلیق کو پیش کرتا ہے۔

جب بشر اپنے وجودیت کے خیالات کو روحانی کے ساتھ جوڑتا ہے اور خدا کی مانند کام کرتا ہے، تو وہ اندھیرے میں نہیں ٹٹولے گا اور زمین کے ساتھ نہیں جڑا رہے گا کیونکہ اْس نے آسمان کا مزہ نہیں چکھا۔جسمانی عقائد ہمیں دھوکہ دیتے ہیں۔ وہ انسان کو غیر اختیاری ریاکار بناتے ہیں جو اچھائی پیدا کرتے ہوئے بدی پیدا کرتا ہے، فضل اور خوبصورتی کا خاکہ بناتے ہوئے بد نمائی بناتا ہے،جنہیں برکت دیتا ہے انہیں وہ زخمی کر دیتا ہے۔

یہاں صرف ایک خالق کے علاوہ کوئی نہیں، جس نے سب کچھ خلق کیا۔

8. 263 : 1-14, 20 only

Mortals are egotists. They believe themselves to be independent workers, personal authors, and even privileged originators of something which Deity would not or could not create. The creations of mortal mind are material. Immortal spiritual man alone represents the truth of creation.

When mortal man blends his thoughts of existence with the spiritual and works only as God works, he will no longer grope in the dark and cling to earth because he has not tasted heaven. Carnal beliefs defraud us. They make man an involuntary hypocrite, — producing evil when he would create good, forming deformity when he would outline grace and beauty, injuring those whom he would bless.

There can be but one creator, who has created all.

9 . ۔ 516 :9۔23

خدا تمام چیزوں کو اپنی شبیہ پر بناتا ہے۔ زندگی وجودیت سے، سچ راستی سے، خدا نیکی سے منعکس ہوتا ہے، جو خود کی سلامتی اور استقلال عنایت کرتے ہیں۔ محبت، بے غرضی سے معطر ہو کر، سب کو خوبصورتی اور روشنی سے غسل دیتی ہے۔ ہمارے قدموں کے نیچے گھاس خاموشی سے پکارتی ہے کہ، ”حلیم زمین کے وارث ہوں گے۔“ معمولی قطلب کی جھاڑی اپنی میٹھی خوشبو آسمان کو بھیجتی ہے۔ بڑی چٹان اپنا سایہ اور پناہ دیتی ہے۔ سورج کی روشنی چرچ کے گنبد سے چمکتی ہے، قید خانے پر گرتی ہے، بیمار کے کمرے میں پڑتی ہے، پھولوں کو روشن کرتی ہے، زمینی منظر کو دلکش بناتی ہے، زمین کو برکت دیتی ہے۔ انسان، اْس کی شبیہ پر خلق کئے جانے سے پوری زمین پر خدا کی حاکمیت کی عکاسی کرتا اور ملکیت رکھتا ہے۔ آدمی اور عورت بطور ہمیشہ کے لئے خدا کے ساتھ ابدی اور ہم عصر، جلالی خوبی میں، لامحدود مادر پدر خدا کی عکاسی کرتے ہیں۔

9. 516 : 9-23

God fashions all things, after His own likeness. Life is reflected in existence, Truth in truthfulness, God in goodness, which impart their own peace and permanence. Love, redolent with unselfishness, bathes all in beauty and light. The grass beneath our feet silently exclaims, "The meek shall inherit the earth." The modest arbutus sends her sweet breath to heaven. The great rock gives shadow and shelter. The sunlight glints from the church-dome, glances into the prison-cell, glides into the sick-chamber, brightens the flower, beautifies the landscape, blesses the earth. Man, made in His likeness, possesses and reflects God's dominion over all the earth. Man and woman as coexistent and eternal with God forever reflect, in glorified quality, the infinite Father-Mother God.

10 . ۔ 517 :30۔31

الٰہی محبت اپنے خود کے خیالات کو برکت دیتا ہے، اور اْنہیں بڑھنے، اْس کی قوت کو ظاہر کرنے کا موجب بنتا ہے۔

10. 517 : 30-31

Divine Love blesses its own ideas, and causes them to multiply, — to manifest His power.

11 . ۔ 68 :27۔2

کرسچن سائنس تخلیق کو نہیں بلکہ افشائی کو پیش کرتی ہے، یہ مالیکیول سے عقل تک کی مادی ترقی کو نہیں بلکہ انسان اور کائنات کے لئے الٰہی عقل کی عنایت کو ظاہر کرتی ہے۔مناسب طور پر جب انسانی نسل ابدی کے ساتھ روابط کو ختم کردیتی ہے، تو ہم آہنگ ہستی کو روحانی طور پر سمجھا جائے گا، اوروہ انسان ظاہر ہوگا جو زمینی نہ ہو بلکہ خدا کے ساتھ باہم ہو۔

روز مرہ کے فرائضمنجاب میری بیکر ایڈی

11. 68 : 27-2

Christian Science presents unfoldment, not accretion; it manifests no material growth from molecule to mind, but an impartation of the divine Mind to man and the universe. Proportionately as human generation ceases, the unbroken links of eternal, harmonious being will be spiritually discerned; and man, not of the earth earthly but coexistent with God, will appear.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████