اتوار یکم جنوری، 2023
”مَیں خدائے قادر ہوں۔ تْو میرے حضور چل اور کامل ہو۔ اور مَیں اپنے اور تیرے درمیان عہد باندھوں گا۔“
“I am the Almighty God; walk before me, and be thou perfect. And I will make my covenant between me and thee.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
10۔ اے خدا! میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں از سرے نو مستقیم روح ڈال۔
12۔ اپنی نجات کی شادمانی مجھے پھر عنایت کر اور مستعد روح سے مجھے سنبھال۔
8۔ مجھے خوشی اور خرمی کی خبر سنا تاکہ وہ ہڈیاں جو تْو نے توڑ ڈالی ہیں شادمان ہوں۔
14۔ اے خدا! اے میرے نجات بخش خدا! مجھے خون کے جرم سے چھڑا۔ تو میری زبان تیری صداقت کا گیت گائے گی۔
19۔ اور مَیں اْن کو نیا دل دوں گا اور نئی روح تمہارے باطن میں ڈالوں گا اور سنگین دل اْن کے جسم سے خارج کر دوں گا اور اْن کو گوشتین دل عنایت کروں گا۔
26۔ اور مَیں تم کو نیا دل بخشوں گا اور نئی روح تمہارے باطن میں ڈالوں گا۔
27۔ اور مَیں اپنی روح تمہارے باطن میں ڈالوں گا اور تم سے اپنے آئین کی پیروی کراؤں گا۔
28۔ اور تم میرے لوگ ہو گے اور مَیں تمہارا خدا ہوں گا۔
10. Create in me a clean heart, O God; and renew a right spirit within me.
12. Restore unto me the joy of thy salvation; and uphold me with thy free spirit.
8. Make me to hear joy and gladness.
14. O God, thou God of my salvation: and my tongue shall sing aloud of thy righteousness.
19. I will put a new spirit within you.
26. A new heart also will I give you, and a new spirit will I put within you.
27. I will put my spirit within you, and cause you to walk in my statutes.
28. And ye shall be my people, and I will be your God.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
26۔۔۔۔خدا سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔
26 …with God all things are possible.
1۔ اور موسیٰ اپنے سسر یترو کی جو مدیان کا کاہن تھا بھیڑ بکریاں چراتا تھا اور وہ بھیڑ بکریوں کو ہنکاتاہو ااْن کو بیابان کی پرلی طرف سے خدا کے پہاڑ کے نزدیک لے آیا۔
2۔ اور خداوند کا ایک فرشتہ جھاڑی میں سے آگ کے شعلہ میں اْس پر ظاہر ہوا۔ اْس نے نگاہ کی اور کیا دیکھتا ہے کہ ایک جھاڑی میں آگ لگی ہوئی ہے پر وہ جھاڑی بھسم نہیں ہوتی۔
3۔ تب موسیٰ نے کہا کہ میں اب ذرا اْدھر کترا کر اِس منظر کو دیکھوں کہ یہ جھاڑی کیوں نہیں جل جاتی۔
4۔ جب خداوند نے دیکھا کہ وہ دیکھنے کو کترا کر آرہا ہے تو خدا نے اْسے جھاڑی میں سے پکارا اور کہا اے موسیٰ! اے موسیٰ! اْس نے کہا مَیں حاضر ہوں۔
5۔ تب اْس نے کہا اِدھر پاس مت آ۔ اپنے پاؤں سے جوتا اْتار کیونکہ جس جگہ تْو کھڑا ہے وہ مقدس زمین ہے۔
6۔ پھر اْس نے کہا مَیں تیرے باپ کا خدا یعنی ابراہام کا خدا اور یعقوب کا خدا اور اضحاق کا خدا ہوں۔ موسیٰ نے اپنا منہ چھپایا کیونکہ وہ خدا پر نظر کرنے سے ڈرتا تھا۔
7۔ اور خداوند نے کہا مَیں نے اپنے لوگوں کی تکلیف جو مصر میں ہیں خوب دیکھی اور اْن کی فریاد جو بیگار لینے والوں کے سبب سے ہے سْنی اور مَیں اْن کے دکھو ں کو جانتا ہوں۔
8۔ اور مَیں اْترا ہوں کہ اْن کو مصریوں کے ہاتھ سے چھڑاؤں اور اْس ملک سے نکال کر اْن کو ایک اچھے اور وسیع ملک میں پہنچاؤں جہاں دودھ اور شہد بہتا ہے۔
10۔ سو اب آ مَیں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں کہ تْو میری قوم بنی اسرائیل کو مصر میں سے نکال لائے۔
11۔ موسیٰ نے خدا سے کہا مَیں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لاؤں؟
13۔ جب مَیں بنی اسرائیل کے پاس جا کر اْن کو کہوں کہ تمہارے باپ دادا کے خدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور وہ مجھے کہیں کہ اْس کا نام کیا ہے؟ تو مَیں اْن کو کیا بتاؤں؟
14۔خدا نے موسیٰ سے کہا مَیں جو ہوں سو مَیں ہوں۔ سو تْو بنی اسرائیل سے یوں کہنا کہ مَیں جو ہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔
1 Now Moses kept the flock of Jethro his father in law, the priest of Midian: and he led the flock to the backside of the desert, and came to the mountain of God, even to Horeb.
2 And the angel of the Lord appeared unto him in a flame of fire out of the midst of a bush: and he looked, and, behold, the bush burned with fire, and the bush was not consumed.
3 And Moses said, I will now turn aside, and see this great sight, why the bush is not burnt.
4 And when the Lord saw that he turned aside to see, God called unto him out of the midst of the bush, and said, Moses, Moses. And he said, Here am I.
5 And he said, Draw not nigh hither: put off thy shoes from off thy feet, for the place whereon thou standest is holy ground.
6 Moreover he said, I am the God of thy father, the God of Abraham, the God of Isaac, and the God of Jacob. And Moses hid his face; for he was afraid to look upon God.
7 And the Lord said, I have surely seen the affliction of my people which are in Egypt, and have heard their cry by reason of their taskmasters; for I know their sorrows;
8 And I am come down to deliver them out of the hand of the Egyptians, and to bring them up out of that land unto a good land and a large, unto a land flowing with milk and honey;
10 Come now therefore, and I will send thee unto Pharaoh, that thou mayest bring forth my people the children of Israel out of Egypt.
11 And Moses said unto God, Who am I, that I should go unto Pharaoh, and that I should bring forth the children of Israel out of Egypt?
13 Behold, when I come unto the children of Israel, and shall say unto them, The God of your fathers hath sent me unto you; and they shall say to me, What is his name? what shall I say unto them?
14 And God said unto Moses, I AM THAT I AM: and he said, Thus shalt thou say unto the children of Israel, I AM hath sent me unto you.
2۔ بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہہ کہ تم پاک رہو کیونکہ مَیں جو خداوند تمہارا خدا ہوں پاک ہوں۔
2 Speak unto all the congregation of the children of Israel, and say unto them, Ye shall be holy: for I the Lord your God am holy.
1۔ یرمیاہ کی باتیں۔۔۔۔
4۔۔۔۔خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا اور اْس نے فرمایا۔
5۔ اِس سے پیشتر کہ مَیں نے تجھے بطن میں خلق کیا مَیں تجھے جانتا تھا اور تیری ولادت سے پہلے مَیں نے تجھے مخصوص کیا اور قوموں کے لئے تجھے نبی ٹھہرایا۔
6۔ تب مَیں نے کہا ہائے خداوند خدا! دیکھ مَیں بول نہیں سکتا کیونکہ مَیں تو بچہ ہوں۔
7۔ لیکن خداوند نے مجھے فرمایا یوں نہ کہہ کہ مَیں بچہ ہوں کیونکہ جس کسی کے پاس مَیں تجھے بھیجوں گا تْو جائے گا اور جو کچھ تجھے فرماؤں گا تْو کہے گا۔
8۔ تْو اْن کے چہروں کو دیکھ کر نہ ڈر کیونکہ خداوند فرماتا ہے کہ مَیں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں۔
9۔ تب خداوند نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے منہ کو چھوا اور خداوند نے مجھے فرمایا دیکھ مَیں نے اپنا کلام تیرے منہ میں ڈال دیا۔
10۔ دیکھ آج کے دن مَیں نے تجھے قوموں پر اور سلطنتوں پر مقرر کیا کہ اْکھاڑے اور ڈھائے اور ہلاک کرے اور گرائے اور تعمیر کرے اور لگائے۔
17۔ اِس لئے تْو اپنی کمر کس کر اٹھ کھڑا ہو اور جو کچھ مَیں تجھے فرماؤں اْن سے کہہ۔اور۔۔۔ نہ ڈر۔
19۔۔۔۔وہ تجھ پر غالب نہ آئیں گے کیونکہ خداوند فرماتا ہے مَیں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں۔
1 The words of Jeremiah …
4 …the word of the Lord came unto me, saying,
5 Before I formed thee in the belly I knew thee; and before thou camest forth out of the womb I sanctified thee, and I ordained thee a prophet unto the nations.
6 Then said I, Ah, Lord God! behold, I cannot speak: for I am a child.
7 But the Lord said unto me, Say not, I am a child: for thou shalt go to all that I shall send thee, and whatsoever I command thee thou shalt speak.
8 Be not afraid of their faces: for I am with thee to deliver thee, saith the Lord.
9 Then the Lord put forth his hand, and touched my mouth. And the Lord said unto me, Behold, I have put my words in thy mouth.
10 See, I have this day set thee over the nations and over the kingdoms, to root out, and to pull down, and to destroy, and to throw down, to build, and to plant.
17 Thou therefore gird up thy loins, and arise, and speak unto them all that I command thee: be not dismayed …
19 …they shall not prevail against thee; for I am with thee, saith the Lord, to deliver thee.
16۔ اور یسوع بپتسمہ لے کر فی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیا اور دیکھو اْس کے لئے آسمان کھْل گیا اور اْس نے خدا کے روح کو کبوتر کی مانند اْترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا۔
17۔ اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔
16 And Jesus, when he was baptized, went up straightway out of the water: and, lo, the heavens were opened unto him, and he saw the Spirit of God descending like a dove, and lighting upon him:
17 And lo a voice from heaven, saying, This is my beloved Son, in whom I am well pleased.
13۔ جب یسوع قیصریہ فلپی کے علاقے میں آیا تو اْس نے اپنے شاگردوں سے یہ پوچھا کہ لوگ ابن آدم کو کیا کہتے ہیں؟
14۔ اْنہوں نے کہا بعض یوحنا بپتسمہ دینے والا کہتے ہیں بعض ایلیاہ بعض یرمیاہ بعض نبیوں میں سے کوئی۔
15۔ اْس نے اْن سے کہا مگر تم مجھے کیا کہتے ہو؟
16۔ شمعون پطرس نے جواب میں کہا تْو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔
17۔ یسوع نے جواب میں اْس سے کہا مبارک ہے تْو شمعون بر یوناہ کیونکہ یہ بات گوشت اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے۔
13 When Jesus came into the coasts of Cæsarea Philippi, he asked his disciples, saying, Whom do men say that I the Son of man am?
14 And they said, Some say that thou art John the Baptist: some, Elias; and others, Jeremias, or one of the prophets.
15 He saith unto them, But whom say ye that I am?
16 And Simon Peter answered and said, Thou art the Christ, the Son of the living God.
17 And Jesus answered and said unto him, Blessed art thou, Simon Bar-jona: for flesh and blood hath not revealed it unto thee, but my Father which is in heaven.
36۔ شمعون پطرس نے اْس سے کہا اے خداوند تْو کہاں جاتا ہے؟ یسوع نے جواب دیا جہاں مَیں جاتا ہوں اب تو تْو میرے پیچھے آ نہیں سکتا مگر بعد میں میرے پیچھے آئے گا۔
37۔ پطرس نے اْس سے کہا اے خداوند! مَیں تیرے پیچھے اب کیوں نہیں آ سکتا؟
36 Simon Peter said unto him, Lord, whither goest thou? Jesus answered him, Whither I go, thou canst not follow me now; but thou shalt follow me afterwards.
37 Peter said unto him, Lord, why cannot I follow thee now?
1۔ تمہارا دل نہ گھبرائے۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو۔
3۔ اور اگر مَیں جا کر تمہارے لئے جگہ تیار کروں تو پھر آکر تمہیں اپنے ساتھ لے لوں گا تاکہ جہاں مَیں ہوں تم بھی ہو۔
4۔ اور جہاں مَیں جاتا ہوں تم وہاں کی راہ جانتے ہو۔
5۔ توما نے اْس سے کہا اے خداوند ہم نہیں جانتے کہ تْو کہاں جاتا ہے۔ پھر راہ کس طرح جانیں؟
6۔ یسوع نے اْس سے کہا راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔
7۔ اگر تم نے مجھے جانا ہوتا تو میرے باپ کو بھی جانتے۔ اب اْسے جانتے ہو اور دیکھ لیا ہے۔
1 Let not your heart be troubled: ye believe in God, believe also in me.
3 I will come again, and receive you unto myself; that where I am, there ye may be also.
4 And whither I go ye know, and the way ye know.
5 Thomas saith unto him, Lord, we know not whither thou goest; and how can we know the way?
6 Jesus saith unto him, I am the way, the truth, and the life: no man cometh unto the Father, but by me.
7 If ye had known me, ye should have known my Father also: and from henceforth ye know him, and have seen him.
19۔ پس تم جا کر سب قوموں کو میرے شاگرد بناؤ اور اْن کو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔
20۔ اور اْن کو یہ تعلیم دو کہ اْن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو مَیں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔ آمین۔
19 Go ye therefore, and teach all nations, baptizing them in the name of the Father, and of the Son, and of the Holy Ghost:
20 Teaching them to observe all things whatsoever I have commanded you: and, lo, I am with you alway, even unto the end of the world. Amen.
خدا۔ عظیم مَیں ہوں؛ سب جاننے والا، سب دیکھنے والا، سب عمل کرنے والا، عقل کْل، کْلی محبت، اور ابدی؛ اصول؛ جان، روح، زندگی، سچائی، محبت، سارا مواد؛ ذہانت۔
God. The great I am; the all-knowing, all-seeing, all-acting, all-wise, all-loving, and eternal; Principle; Mind; Soul; Spirit; Life; Truth; Love; all substance; intelligence.
روح۔۔۔کہتی ہے:
انسان، جس کے حواس روحانی ہیں، میری صورت پر ہے۔وہ لافانی فہم کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ میں لافانی ہوں۔ پاکیزگی کی خوبصورتی، وجود کی کاملیت، ناقابل تسخیر جلال، سب میرے ہیں، کیونکہ میں خدا ہوں۔ میں انسان کو لافانیت دیتی ہوں کیونکہ میں سچائی ہوں۔ میں تمام تر نعمتیں شامل کرتی اور عطا کرتی ہوں، کیونکہ میں محبت ہوں۔ میں، ازل اور ابد سے مبرا، زندگی دیتی ہوں کیونکہ میں زندگی ہوں۔ میں اعلیٰ ہوں اور سب کچھ عطا کرتی ہوں کیونکہ میں شعور ہوں۔ میں ہر چیز کا مواد ہوں، کیونکہ مَیں جو ہوں سومَیں ہوں۔
Spirit, saith:
Man, whose senses are spiritual, is my likeness. He reflects the infinite understanding, for I am Infinity. The beauty of holiness, the perfection of being, imperishable glory, — all are Mine, for I am God. I give immortality to man, for I am Truth. I include and impart all bliss, for I am Love. I give life, without beginning and without end, for I am Life. I am supreme and give all, for I am Mind. I am the substance of all, because I am that I am.
عقل ہے مَیں ہوں یا ابدیت۔ عقل محدودیت میں کبھی داخل نہیں ہوتی۔ ذہانت کبھی غیر ذہانت یا مادے کا حصہ نہیں بنتی۔ نیکی بدی میں، لامحدود محدود میں، ابدی عارضی میں کبھی داخل نہیں ہوتا اور نہ ہی لافانی فانیت میں داخل ہوتا ہے۔الٰہی انا یا انفرادیت لامحدودیت سے محدودیت تک ساری روحانی انفرادیت میں منعکس ہوتی ہے۔
لافانی انسان خدا کی صورت یا خیال تھا اور ہے، حتیٰ کہ لامحدود عقل کا لامحدود اظہار، اور لافانی انسان اِس عقل کے ساتھ وجود رکھتا اور اس کا ہم آہنگ ہے۔وہ ہمیشہ سے ابدی عقل یعنی خدا میں رہا ہے؛ مگر ابدی عقل کبھی انسان میں نہیں ہو سکتا بلکہ انسان کے وسیلہ منعکس ہوتا ہے۔روحانی انسان کا ضمیر اور انفرادیت خدا کے مظاہر ہیں۔وہ اْس کے راز ہیں جو زندگی، سچ اور محبت ہے۔لافانی انسان کبھی مادی نہ تھا اور نہ ہے بلکہ ہمیشہ سے روحانی اور ابدی ہے۔
خدا، انسان کا الٰہی اصول، اور خدا کی شبیہ پر بناانسان غیر منفک، ہم آہنگ اورابدی ہیں۔
Mind is the I am, or infinity. Mind never enters the finite. Intelligence never passes into non-intelligence, or matter. Good never enters into evil, the unlimited into the limited, the eternal into the temporal, nor the immortal into mortality. The divine Ego, or individuality, is reflected in all spiritual individuality from the infinitesimal to the infinite.
Immortal man was and is God's image or idea, even the infinite expression of infinite Mind, and immortal man is coexistent and coeternal with that Mind. He has been forever in the eternal Mind, God; but infinite Mind can never be in man, but is reflected by man. The spiritual man's consciousness and individuality are reflections of God. They are the emanations of Him who is Life, Truth, and Love. Immortal man is not and never was material, but always spiritual and eternal.
God, the divine Principle of man, and man in God's likeness are inseparable, harmonious, and eternal.
مالک نے کہا، ”کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ(ہستی کے الٰہی اصول) کے پاس نہیں آتا،“ یعنی مسیح، زندگی، حق اور محبت کے بغیر؛ کیونکہ مسیح کہتا ہے، ”راہ مَیں ہوں۔“ اس اصلی انسان، یسوع، کی بدولت طبیب کے اسباب کو پہلے درجے سے آخری تک کر دیا گیاتھا۔ وہ جانتا تھا کہ الٰہی اصول یعنی محبت اْس سب کو خلق کرتا اور اْس پر حکمرانی کرتا ہے جو حقیقی ہے۔
سیکسن اور بیس دیگر زبانوں میں اچھائی خدا کے لئے ایک اصطلاح ہے۔ صحائف اْس سب کو ظاہر کرتے ہیں جو اْس نے اچھا بنایا، جیسے کہ وہ خود،اصول اور خیال میں اچھا۔اس لئے روحانی کائنات اچھی ہے، اور یہ خدا کو ویسا ہی ظاہر کرتی ہے جیسا وہ ہے۔
خدا کے خیالات کامل اور ابدی ہیں، وہ مواد اور زندگی ہیں۔مادی اور عارضی خیالات انسانی ہیں، جن میں غلطی شامل ہوتی ہے، اور چونکہ خدا، روح ہی واحد وجہ ہے، اس لئے وہ الٰہی وجہ سے خالی ہیں۔ تو پھر عارضی اور مادی روح کی تخلیقات نہیں ہیں۔ یہ روحانی اور ابدی چیزوں کے مخالف ہونے کے علاوہ کچھ نہیں۔ عارضی خیالات لازوال سچائی کے مقابل ہیں، اگرچہ (مخالف خواص کے مفروضے کے وسیلہ) غلط کو یہ بھی کہنا چاہئے کہ ”میں سچ ہوں۔“ مگر یہ کہنے سے غلطی یعنی جھوٹ خود کو تباہ کردیتا ہے۔
The Master said, "No man cometh unto the Father [the divine Principle of being] but by me," Christ, Life, Truth, Love; for Christ says, "I am the way." Physical causation was put aside from first to last by this original man, Jesus. He knew that the divine Principle, Love, creates and governs all that is real.
In the Saxon and twenty other tongues good is the term for God. The Scriptures declare all that He made to be good, like Himself, — good in Principle and in idea. Therefore the spiritual universe is good, and reflects God as He is.
God's thoughts are perfect and eternal, are substance and Life. Material and temporal thoughts are human, involving error, and since God, Spirit, is the only cause, they lack a divine cause. The temporal and material are not then creations of Spirit. They are but counterfeits of the spiritual and eternal. Transitory thoughts are the antipodes of everlasting Truth, though (by the supposition of opposite qualities) error must also say, "I am true." But by this saying error, the lie, destroys itself.
یسوع نے مسیح کی شفا کی روحانی بنیاد پر اپنا چرچ قائم کیا اور اپنے مشن کو برقرار رکھا۔۔۔۔ اْس نے خدا سے جدا کسی دانش، عمل اور نہ ہی زندگی کا دعویٰ کیا۔
اْس نے اپنے طالب علموں سے سوال کیا: ”لوگ ابنِ آدم کو کیا کہتے ہیں؟“یعنی: بدروحوں کونکالنے اور بیماروں کو شفا دینے سے کس کی یا کیا شناخت ہوتی ہے؟
شاگرد اپنے مالک کو دوسروں کی نسبت زیادہ جانتے تھے مگر جو کچھ اْس نے کہا اور کیا وہ اْس کو مکمل طور پر نہیں سمجھتے تھے وگرنہ وہ اکثر اْس پر سوال نہ اْٹھاتے۔یسوع صبر کے ساتھ اور سچائی کی ہستی کو ظاہر کرتے ہوئے اپنی تعلیم پر قائم رہا۔اْس کے طالب علموں نے سچائی کی اِس طاقت کو بیمار کو شفا دیتے، بد روح کو نکالتے اور مردہ کو زندہ کرتے ہوئے دیکھا، مگر اِس عجیب کام کی کاملیت روحانی طور پر قبول نہیں کی گئی، حتیٰ کہ اْن کی جانب سے بھی، صلیب پر چڑھائے جانے کے بعد تک، جب اْن کا بیداغ استاد اْن کے سامنے کھڑا تھا، جو بیماری، گناہ اور عارضے، موت اور قبر پر فتح مند ہوئے۔
سمجھے جانے کی خواہش کرتے ہوئے مالک نے یہ بات دوہرائی کہ ”مگر تم مجھے کیا کہتے ہیں؟“ اِس تجدید شْدہ سوال کا مطلب یہ ہے: کون اور کیا ہے جو یہ کام کرنے کے قابل ہے، جومعروف عقل کے لئے نہایت پراسرار ہے؟
Jesus established his church and maintained his mission on a spiritual foundation of Christ-healing. … He claimed no intelligence, action, nor life separate from God.
He appealed to his students: "Whom do men say that I, the Son of man, am?" That is: Who or what is it that is thus identified with casting out evils and healing the sick?
The disciples apprehended their Master better than did others; but they did not comprehend all that he said and did, or they would not have questioned him so often. Jesus patiently persisted in teaching and demonstrating the truth of being. His students saw this power of Truth heal the sick, cast out evil, raise the dead; but the ultimate of this wonderful work was not spiritually discerned, even by them, until after the crucifixion, when their immaculate Teacher stood before them, the victor over sickness, sin, disease, death, and the grave.
Yearning to be understood, the Master repeated, "But whom say ye that I am?" This renewed inquiry meant: Who or what is it that is able to do the work, so mysterious to the popular mind?
اپنی عمومی سختی کے ساتھ، شمعون نے اپنے بھائیوں کے لئے جواب دیا، اور اْس کے جواب نے ایک بڑی حقیقت کو قائم کیا: ”تْو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے!“ یعنی: مسیحا وہ ہے جسے تْو نے ظاہر کیا، مسیح، خدا کا، سچائی کا، زندگی اور محبت کا روح، جو ذہنی طور پر شفا دیتا ہے۔
With his usual impetuosity, Simon replied for his brethren, and his reply set forth a great fact: "Thou art the Christ, the Son of the living God! "That is: The Messiah is what thou hast declared, — Christ, the spirit of God, of Truth, Life, and Love, which heals mentally.
اب پطرس پر یہ واضح ہوچکا تھا کہ الٰہی زندگی، سچائی اور محبت، اور انسانی ذاتیات نہیں، بیمار کا مشفی تھا اور وہ ہم آہنگی کی سلطنت میں ایک چٹان، ایک مضبوط بنیاد تھا۔اس روحانی طور پر سائنسی بنیاد پر یسوع نے علاج کی وضاحت کی جو غیروں کے لئے معجزاتی ظاہر ہوا۔ فانی عقل کی غلطیوں کو باہر نکالتے ہوئے اْس نے یہ ظاہر کیا کہ جن بیماریوں کو باہر نکالا گیا وہ نہ تو جسمانیت، مادی طب کے وسیلہ اور نہ اصولِ صحت کے وسیلہ بلکہ الٰہی روح کے وسیلہ نکالی گئیں۔ روح کی بالادستی وہ بنیاد تھی جس پر یسوع بنا ہے۔
It was now evident to Peter that divine Life, Truth, and Love, and not a human personality, was the healer of the sick and a rock, a firm foundation in the realm of harmony. On this spiritually scientific basis Jesus explained his cures, which appeared miraculous to outsiders. He showed that diseases were cast out neither by corporeality, by materia medica, nor by hygiene, but by the divine Spirit, casting out the errors of mortal mind. The supremacy of Spirit was the foundation on which Jesus built.
مسیحی دورسے پیشتر اور بعد ازاں نسل در نسل مسیح بطور روحانی خیال، بطور خدا کے سایہ، اْن لوگوں کے لئے کچھ خاص طاقت اور فضل کے ساتھ آیا جو مسیح، یعنی سچائی کو حاصل کرنے کے لئے تیار تھے۔ ابراہیم، یعقوب، موسیٰ اور انبیاء نے مسیحا یا مسیح کی جلالی جھلکیاں پائی تھیں، جس نے ان دیکھنے والوں کو الٰہی فطرت، محبت کے جوہر میں بپتسمہ دیا تھا۔ الٰہی شبیہ، خیال یا مسیح الٰہی اصول یعنی خدا سے غیر منفِک تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یسوع نے اپنی روحانی شناخت کے اس اتحاد کو یوں بیان کیا: ”پیشتر اِس سے کہ ابراہیم پیدا ہوا، میں ہوں“؛ ”مَیں اور باپ ایک ہیں؛“ ”باپ مجھ سے بڑا ہے۔“ ایک روح میں ساری شناختیں پائی جاتی ہیں۔
Throughout all generations both before and after the Christian era, the Christ, as the spiritual idea, — the reflection of God, — has come with some measure of power and grace to all prepared to receive Christ, Truth. Abraham, Jacob, Moses, and the prophets caught glorious glimpses of the Messiah, or Christ, which baptized these seers in the divine nature, the essence of Love. The divine image, idea, or Christ was, is, and ever will be inseparable from the divine Principle, God. Jesus referred to this unity of his spiritual identity thus: "Before Abraham was, I am;" "I and my Father are one;" "My Father is greater than I." The one Spirit includes all identities.
انسان کبھی خدا نہیں ہوتا بلکہ روحانی انسان، خدا کی صورت پر، خدا کی عکاسی کرتا ہے۔اِس سائنسی سوچ میں انا اور باپ غیر منفک ہیں۔
Man is never God, but spiritual man, made in God's likeness, reflects God. In this scientific reflection the Ego and the Father are inseparable.
کیونکہ خدا لامحدود، قادر مطلق، بھر پور زندگی، سچائی، محبت، ہر ایک پر اور سب پر حاکم ہے۔
For God is infinite, all-power, all Life, Truth, Love, over all, and All.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████