اتوار 5 فروری، 2023
”مَیں اْس روحانی رویا کا نافرمان نہ ہوا۔“
“I was not disobedient unto the heavenly vision.”
سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں
یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں
████████████████████████████████████████████████████████████████████████
1۔ مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان میں ایک دروازہ کھلا ہوا ہے۔
2۔ فوراً مَیں روح میں آگیا۔
1۔ پھر مَیں نے ایک نیا آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔
3۔ پھر مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اْن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اْس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اْن کے ساتھ رہے گا اور اْن کا خدا ہوگا۔
4۔ اور وہ اْن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اور اْس کے بعد نہ موت رہے گی نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔
5۔ اور جو تخت پر بیٹھا ہوا تھا اْس نے کہا دیکھ مَیں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں۔ پھر اْس نے کہا لکھ لے کیونکہ یہ باتیں سچ اور بر حق ہیں۔
7۔ جو غالب آئے وہی اِن چیزوں کا وارث ہوگا اور مَیں اْس کا خدا ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہوگا۔
1. Behold, a door was opened in heaven.
2. And immediately I was in the spirit.
1. And I saw a new heaven and a new earth: for the first heaven and the first earth were passed away; and there was no more sea.
3. And I heard a great voice out of heaven saying, Behold, the tabernacle of God is with men, and he will dwell with them, and they shall be his people, and God himself shall be with them, and be their God.
4. And God shall wipe away all tears from their eyes; and there shall be no more death, neither sorrow, nor crying, neither shall there be any more pain: for the former things are passed away.
5. And he that sat upon the throne said, Behold, I make all things new. And he said unto me, Write: for these words are true and faithful.
7. He that overcometh shall inherit all things; and I will be his God, and he shall be my son.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔
3۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔
4۔اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔
9۔۔۔۔حقیقی نور جو ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے دنیا میں آنے کو تھا۔
12۔۔۔۔ جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر اِیمان لاتے ہیں۔
13۔ وہ نہ خون سے جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔
1 In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God.
3 All things were made by him; and without him was not any thing made that was made.
4 In him was life; and the life was the light of men.
9 …the true Light, which lighteth every man that cometh into the world.
12 …as many as received him, to them gave he power to become the sons of God, even to them that believe on his name:
13 Which were born, not of blood, nor of the will of the flesh, nor of the will of man, but of God.
1۔ فریسیوں میں سے ایک شخص نیکودیمس نام یہودیوں کا ایک سردار تھا۔
2۔ اْس نے رات کو یسوع کے پاس آکر اْس سے کہا اے ربی ہم جانتے ہیں کہ تْو خدا کی طرف سے استاد ہو کر آیا ہے کیونکہ جو معجزے تْو دکھاتا ہے کوئی شخص نہیں دکھا سکتا جب تک خدا اْس کے ساتھ نہ ہو۔
3۔ یسوع نے جواب میں اْس سے کہا مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو خدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔
5۔ یسوع نے جواب دیا کہ مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی آدمی پانی اور روح سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتا۔
6۔ جو جسم سے پیدا ہوا ہے جسم ہے اور جو روح سے پیدا ہوا ہے روح ہے۔
7۔ تعجب نہ کر کہ مَیں نے تجھ سے کہا کہ تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔
34۔ کیونکہ جسے خدا نے بھیجا وہ خدا کی باتیں کہتا ہے۔ اِس لئے کہ وہ روح ناپ ناپ کر نہیں دیتا۔
1 There was a man of the Pharisees, named Nicodemus, a ruler of the Jews:
2 The same came to Jesus by night, and said unto him, Rabbi, we know that thou art a teacher come from God: for no man can do these miracles that thou doest, except God be with him.
3 Jesus answered and said unto him, Verily, verily, I say unto thee, Except a man be born again, he cannot see the kingdom of God.
5 I say unto thee, Except a man be born of water and of the Spirit, he cannot enter into the kingdom of God.
6 That which is born of the flesh is flesh; and that which is born of the Spirit is spirit.
7 Marvel not that I said unto thee, Ye must be born again.
34 For he whom God hath sent speaketh the words of God: for God giveth not the Spirit by measure unto him.
16۔پھر جب شام ہوئی تو اْس کے شاگرد جھیل کے کنارے گئے۔
17۔ اور کشتی میں بیٹھ کر جھیل کے پار کفر نحوم کو چلے جاتے تھے۔ اْس وقت اندھیرا ہوگیا تھا اور یسوع ابھی تک اْن کے پاس نہ آیا تھا۔
18۔ اور آندھی کے سبب سے جھیل میں موجیں اْٹھنے لگیں۔
19۔ پس جب وہ کھیتے کھیتے تین چار میل کے قریب نکل گئے تو اْنہوں نے یسوع کو جھیل پر چلتے اور کشتی کے نزدیک آتے دیکھا اور ڈر گئے۔
20۔ مگر اْس نے اْن سے کہا مَیں ہوں۔ ڈرو مت۔
28۔ پس اْنہوں نے اْس سے کہا کہ ہم کیا کریں کہ خدا کے کام انجام دیں؟
29۔ یسوع نے جواب میں اْن سے کہا خدا کا کام یہ ہے کہ جسے اْس نے بھیجا ہے اْس پر ایمان لاؤ۔
63۔ زندہ کرنے والی تو روح ہے۔ جسم سے کچھ فائدہ نہیں۔ جو باتیں مَیں نے تم سے کہی ہیں وہ روح ہیں اور زندگی بھی ہیں۔
64۔ مگر تم میں سے بعض ایسے ہیں جو ایمان نہیں لائے۔
66۔ اِس پر اْس کے شاگردوں میں سے بہتیرے اْلٹے پھِر گئے اور اِس کے بعد اْس کے ساتھ نہ رہے۔
67۔ پس یسوع نے اْن بارہ سے کہا کیا تم بھی چلے جانا چاہتے ہو؟
68۔ شمعون پطرس نے اْسے جواب دیا اے خداوند! ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔
69۔ اور ہم ایمان لائے اور جان گئے ہیں کہ خدا کا قدوس تْو ہی ہے۔
16 And when even was now come, his disciples went down unto the sea,
17 And entered into a ship, and went over the sea toward Capernaum. And it was now dark, and Jesus was not come to them.
18 And the sea arose by reason of a great wind that blew.
19 So when they had rowed about five and twenty or thirty furlongs, they see Jesus walking on the sea, and drawing nigh unto the ship: and they were afraid.
20 But he saith unto them, It is I; be not afraid.
28 Then said they unto him, What shall we do, that we might work the works of God?
29 Jesus answered and said unto them, This is the work of God, that ye believe on him whom he hath sent.
63 It is the spirit that quickeneth; the flesh profiteth nothing: the words that I speak unto you, they are spirit, and they are life.
64 But there are some of you that believe not.
66 From that time many of his disciples went back, and walked no more with him.
67 Then said Jesus unto the twelve, Will ye also go away?
68 Then Simon Peter answered him, Lord, to whom shall we go? thou hast the words of eternal life.
69 And we believe and are sure that thou art that Christ, the Son of the living God.
1۔ مریم اور اْس کی بہن مارتھا کے گاؤں بیت عنیاہؔ کا لعزر نامی ایک آدمی بیمار تھا۔
4۔ یسوع نے سْن کر کہا کہ یہ بیماری موت کی نہیں بلکہ خدا کے جلال کے لئے ہے تاکہ اْس کے وسیلہ سے خدا کے بیٹے کا جلال ظاہر ہو۔
17۔ پس یسوع کو آکر معلوم ہوا کہ اْسے قبر میں رکھے چار دن ہوئے۔
21۔ مارتھا نے یسوع سے کہا اے خداوند! اگر تْو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔
23۔ یسوع نے اْس سے کہا تیرا بھائی جی اٹھے گا۔
24۔ مارتھا نے اْس سے کہا مَیں جانتی ہوں کہ قیامت کے دن میں آخری دن جی اٹھے گا۔
25۔ یسوع نے اْس سے کہا قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر بھی جائے تو بھی زندہ رہتا ہے۔
26۔ اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔ کیا تْو اِس پر ایمان رکھتی ہے؟
32۔ جب مریم وہاں پہنچی جہاں یسوع تھا اور اْسے دیکھا تو اْس کے قدموں میں گر کر اْس سے کہا اے خداوند اگر تْو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔
33۔جب یسوع نے اْسے اور اْن یہودیوں کو جو اْس کے ساتھ آئے تھے روتے دیکھا تو دل میں نہایت رنجیدہ ہوا۔
34۔ تم نے اْسے کہاں رکھا ہے؟ انہوں نے کہا اے خداوند چل کر دیکھ لے۔
35۔ یسوع کے آنسو بہنے لگے۔
38۔ یسوع پھر اپنے دل میں نہایت رنجیدہ ہو کر قبر پر آیا۔ وہ ایک غار تھا اور اْس پر پتھر دھرا تھا۔
39۔ یسوع نے کہا پتھر کو ہٹاؤ۔ اْس مرے ہوئے شخص کی بہن مارتھا نے اْس سے کہا اے خداوند! اْس میں سے تو اب بدبو آتی ہے کیونکہ اْسے چار دن ہو گئے۔
40۔ یسوع نے اْس سے کہا میں نے تجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تْو ایمان لائے گی تو خدا کا جلال دیکھے گی؟
41۔ پس انہوں نے اْس پتھر کو ہٹا دیا۔ پھر یسوع نے آنکھیں اْٹھا کر کہا اے باپ میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تْو نے میری سْن لی۔
42۔ اور مجھے تو معلوم تھا کہ تْو ہمیشہ میری سْنتا ہے مگر ان لوگوں کے باعث جو آس پاس کھڑے ہیں مَیں نے کہا تاکہ وہ ایمان لائیں کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا ہے۔
43۔ اور یہ کہہ کر اْس نے بلند آواز سے پکارا کہ اے لعزر نکل آ۔
44۔ جو مر گیا تھا کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نکل آیا اور اْس کا چہرہ رومال سے لپٹا ہوا تھا۔ یسوع نے اْن سے کہا اِسے کھول کر جانے دو۔
1 Now a certain man was sick, named Lazarus, of Bethany, the town of Mary and her sister Martha.
4 When Jesus heard that, he said, This sickness is not unto death, but for the glory of God, that the Son of God might be glorified thereby.
17 Then when Jesus came, he found that he had lain in the grave four days already.
21 Then said Martha unto Jesus, Lord, if thou hadst been here, my brother had not died.
23 Jesus saith unto her, Thy brother shall rise again.
24 Martha saith unto him, I know that he shall rise again in the resurrection at the last day.
25 Jesus said unto her, I am the resurrection, and the life: he that believeth in me, though he were dead, yet shall he live:
26 And whosoever liveth and believeth in me shall never die. Believest thou this?
32 Then when Mary was come where Jesus was, and saw him, she fell down at his feet, saying unto him, Lord, if thou hadst been here, my brother had not died.
33 When Jesus therefore saw her weeping, and the Jews also weeping which came with her, he groaned in the spirit, and was troubled,
34 And said, Where have ye laid him? They said unto him, Lord, come and see.
35 Jesus wept.
38 Jesus therefore again groaning in himself cometh to the grave. It was a cave, and a stone lay upon it.
39 Jesus said, Take ye away the stone. Martha, the sister of him that was dead, saith unto him, Lord, by this time he stinketh: for he hath been dead four days.
40 Jesus saith unto her, Said I not unto thee, that, if thou wouldest believe, thou shouldest see the glory of God?
41 Then they took away the stone from the place where the dead was laid. And Jesus lifted up his eyes, and said, Father, I thank thee that thou hast heard me.
42 And I knew that thou hearest me always: but because of the people which stand by I said it, that they may believe that thou hast sent me.
43 And when he thus had spoken, he cried with a loud voice, Lazarus, come forth.
44 And he that was dead came forth, bound hand and foot with graveclothes: and his face was bound about with a napkin. Jesus saith unto them, Loose him, and let him go.
1۔ پس اب جو مسیح یسوع میں ہیں اْن پر سزا کا حکم نہیں، جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔
14۔ اِس لئے کہ جتنے خدا کی روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں۔
31۔ پس ہم اِن باتوں کی بابت کیا کہیں َ اگر خدا ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے؟
1 There is therefore now no condemnation to them which are in Christ Jesus, who walk not after the flesh, but after the Spirit.
14 For as many as are led by the Spirit of God, they are the sons of God.
31 What shall we then say to these things? If God be for us, who can be against us?
10۔ پھر مَیں نے آسمان پر سے یہ بڑی آواز آتی سنی کہ اب ہمارے خدا کی نجات اور قدرت اور بادشاہی اور اْس کے مسیح کا اختیار ظاہر ہوا کیونکہ ہمارے بھائیوں پر الزام لگانے والا جو رات دن ہمارے خدا کے آگے اْن پر الزام لگایا کرتا ہے گرا دیا گیا ہے۔
12۔ پس اے آسمانو اور اْن کے رہنے والو خوشی مناؤ!
17۔ خدا کے حکموں پر عمل کرو اور یسوع مسیح کی گواہی دینے پر قائم رہو۔
10 And I heard a loud voice saying in heaven, Now is come salvation, and strength, and the kingdom of our God, and the power of his Christ: for the accuser of our brethren is cast down, which accused them before our God day and night.
12 Therefore rejoice, ye heavens, and ye that dwell in them.
17 …keep the commandments of God, and have the testimony of Jesus Christ.
21۔۔۔۔ کیونکہ دیکھو خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے۔
21 …for, behold, the kingdom of God is within you.
روح خدا ہے، اور انسان اْس کی شبیہ ہے۔
Spirit is God, and man is His likeness.
کسی شخص کا خود یہ قبول کرنا کہ انسان خدا کی اپنی شبیہ ہے انسان کو لامحدود خیال پر حکمرانی کرنے کے لئے آزاد کرتا ہے۔یہ راسخ عقیدہ موت کے لئے دروازہ بند کرتا ہے اور لافانیت کی جانب اِسے وسیع کھول دیتا ہے۔ آخر کار روح کی سمجھ اور پہچان ضرور ہونی چاہئے اور ہم الٰہی اصول کے ادراک کے وسیلہ ہستی کے بھیدوں کو سْلجھانے میں ہمارے وقت کو بہتر فروغ دیں گے۔فی الحال ہم یہ نہیں جانتے کہ انسان کیا ہے مگر ہم یقیناً تب یہ جان پائیں گے جب انسان خدا کی عکاسی کرتا ہے۔
مکاشفہ لکھنے والا ہمیں ”ایک نئے آسمان اورایک نئی زمین“ کے بارے میں بتاتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی ایسے آسمان اور زمین کی تصویر کشی کی ہے، جس کے باشندے اعلیٰ حکمت کے اختیار میں ہوں؟
آئیے ہم اِس عقیدے سے پیچھا چھڑائیں کہ انسان خدا سے الگ ہے اور صرف الٰہی اصول، زندگی اور محبت کی فرمانبرداری کریں۔ یہاں پوری حقیقی روحانی ترقی کے لئے روانگی کا بڑا نقطہ آتا ہے۔
The admission to one's self that man is God's own likeness sets man free to master the infinite idea. This conviction shuts the door on death, and opens it wide towards immortality. The understanding and recognition of Spirit must finally come, and we may as well improve our time in solving the mysteries of being through an apprehension of divine Principle. At present we know not what man is, but we certainly shall know this when man reflects God.
The Revelator tells us of "a new heaven and a new earth." Have you ever pictured this heaven and earth, inhabited by beings under the control of supreme wisdom?
Let us rid ourselves of the belief that man is separated from God, and obey only the divine Principle, Life and Love. Here is the great point of departure for all true spiritual growth.
اِس تناسب میں کہ انسانی فہم کے لئے جب مادا بطور انسان ساری ہستی کھو دیتا ہے تو اِسی تناسب میں وہ اِس کا مالک بن جاتا ہے۔وہ حقائق کے مزید الٰہی فہم میں داخل ہوجاتا ہے، اوروہ یسوع کی الٰہیات سمجھتا ہے جب یہ بیمار کو شفا دینے، مردے کو زندہ کرنے اور پانی پر چلنے سے ظاہر ہوئی۔اِن سب کاموں نے اِس عقیدے پر یسوع کے اختیار کو ظاہر کیا کہ مادا مواد ہے،کہ یہ زندگی کا ثالثی یا وجودیت کی کسی بھی شکل کو تعمیر کرنے والا ہو سکتا ہے۔
ہم یہ کبھی نہیں پڑھتے کہ لوقا یا پولوس نے بیماری سے شفا پانے کے چند ذرائع تلاش کرنے کی غرض سے بیماری کی کوئی حقیقت تخلیق کی ہو۔ یسوع نے یہ کبھی نہیں پوچھا کہ آیا کوئی بیماری شدید یا دائمی ہو، اور اْس نے کبھی صحت کے اصولوں کی جانب توجہ مبذول نہیں کروائی، کبھی دوا نہیں دی، کبھی یہ جاننے کے لئے دعا نہیں کی کہ آیا خدا کی یہ خواہش ہے کہ وہ شخص زندہ رہے۔اْس نے انسان کو سمجھا، جس کی زندگی خدا ہے، کہ وہ لافانی ہے، اور وہ جانتا تھا کہ انسان کی دو زندگیاں نہیں ہوتیں کہ ایک کو تباہ کیا جائے اور دوسری کو ناقابل تسخیر بنا دیا جائے۔
In proportion as matter loses to human sense all entity as man, in that proportion does man become its master. He enters into a diviner sense of the facts, and comprehends the theology of Jesus as demonstrated in healing the sick, raising the dead, and walking over the wave. All these deeds manifested Jesus' control over the belief that matter is substance, that it can be the arbiter of life or the constructor of any form of existence.
We never read that Luke or Paul made a reality of disease in order to discover some means of healing it. Jesus never asked if disease were acute or chronic, and he never recommended attention to laws of health, never gave drugs, never prayed to know if God were willing that a man should live. He understood man, whose Life is God, to be immortal, and knew that man has not two lives, one to be destroyed and the other to be made indestructible.
یسوع نے لعزر کو اس فہم کے ساتھ بحال کیا کہ لعز رکبھی مرا نہیں تھا، نہ کہ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اْس کا بدن مر گیا تھا اور وہ پھر زندہ ہوگیا۔
Jesus restored Lazarus by the understanding that Lazarus had never died, not by an admission that his body had died and then lived again.
وہ دور آتا ہے جب ہستی کی سچائی کا فہم حقیقی مذہب کی بنیاد ہوگا۔ فی الحال بشر آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہیں کیونکہ ہستی کے خوف کو مضحکہ خیز سمجھا جاتا ہے۔وہ فیشن، تکبر اور فہم کے غلام ہیں۔ کبھی کبھی ہم یہ سیکھیں گے کہ روح یعنی عظیم معمار نے سائنس میں آدمیوں اور عورتوں کوکیسے بنایا۔
The epoch approaches when the understanding of the truth of being will be the basis of true religion. At present mortals progress slowly for fear of being thought ridiculous. They are slaves to fashion, pride, and sense. Sometime we shall learn how Spirit, the great architect, has created men and women in Science.
ہم صرف تبھی کرسچن سائنسدان ہیں،جب ہم اْس پر سے اپنا انحصار ترک کرتے ہیں جو جھوٹا اور سچائی کو نگلنے والا ہو۔جب تک ہم مسیح کے لئے سب کچھ ترک نہیں کرتے تب تک ہم مسیحی سائنسدان نہیں بنتے۔انسانی آراء روحانی نہیں ہوتیں۔وہ کان کے سننے سے آتیں ہیں، یعنی جسم سے آتی ہیں نہ کہ اصول سے، اور فانی سے آتی ہیں نہ کہ لافانی سے۔روح خدا سے الگ نہیں ہے۔ روح خدا ہے۔
سائنس میں، خدا کے مخالف آپ کوئی قوت نہیں رکھ سکتے، اور جسمانی احساسات کو ان کی جھوٹی گواہی سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔
مجھے لِین میں مسٹر کلارک سے ملنے کی دعوت دی گئی، جو چھ ماہ سے کمر کی بیماری کے باعث بستر پر پڑا تھا، جب وہ جوان تھا تو ایک لکڑی کا بڑا کیل اْس پر گرنا اِس بیماری کی وجہ تھی۔ گھر میں داخل ہوتے ہوئے میں اْس کے ڈاکٹر سے ملا، جس نے کہا کہ مریض مر رہا تھا۔ ڈاکٹر نے اْس کی پیٹھ پر ایک ناسور کی تشخیص کی تھی، اور کہا کہ ہڈی کئی انچ تک سڑ چکی تھی۔ حتیٰ کہ اْس نے مجھے بھی وہ تحقیقی دکھائی، جس پر ہڈی کی اِس حالت کا ثبوت ملتا تھا۔ ڈاکٹر باہر چلا گیا۔ مسٹر کلارک اپنی جمی اور بے بصر آنکھوں کے ساتھ لیٹا تھا۔ موت کی شبنم اْس کے ماتھے پر تھی۔ چند لمحوں میں اْس کا چہرہ بدل گیا؛ اْس کی موت کے زردرنگ نے فطری رنگت کو جگہ دی۔ پلکیں آہستہ سے بند ہو گئیں اور سانس فطری سی چلنے لگی؛ وہ سو گیا تھا۔ قریباً دس منٹ بعد اْس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا: ”مجھے نیا انسان جیسا محسوس ہورہا ہے۔ میری ساری تکالیف دور ہو چکی ہیں۔“
We are Christian Scientists, only as we quit our reliance upon that which is false and grasp the true. We are not Christian Scientists until we leave all for Christ. Human opinions are not spiritual. They come from the hearing of the ear, from corporeality instead of from Principle, and from the mortal instead of from the immortal. Spirit is not separate from God. Spirit is God.
In Science, you can have no power opposed to God, and the physical senses must give up their false testimony.
I was called to visit Mr. Clark in Lynn, who had been confined to his bed six months with hip-disease, caused by a fall upon a wooden spike when quite a boy. On entering the house I met his physician, who said that the patient was dying. The physician had just probed the ulcer on the hip, and said the bone was carious for several inches. He even showed me the probe, which had on it the evidence of this condition of the bone. The doctor went out. Mr. Clark lay with his eyes fixed and sightless. The dew of death was on his brow. I went to his bedside. In a few moments his face changed; its death-pallor gave place to a natural hue. The eyelids closed gently and the breathing became natural; he was asleep. In about ten minutes he opened his eyes and said: "I feel like a new man. My suffering is all gone."
اِس مختصر تجربے پر غور کرتے ہوئے، مَیں انسان کے روحانی خیال کے ساتھ الٰہی عقل کی مطابقت پر غور کرنے میں ناکام نہیں ہوسکتا۔
Reviewing this brief experience, I cannot fail to discern the coincidence of the spiritual idea of man with the divine Mind.
یوحنا نے انسان اور الٰہی کی مطابقت کو دیکھا،جیسے کہ انسان یسوع میں دکھائی گئی تھی، جیسے، اْس زندگی سے متعلق جو خدا ہے انسان کے نظریے اور سمجھ کو کم کرتے ہوئے، الوہیت زندگی اور اِس کے اظہار میں انسانیت سے ملاپ کرتی ہے۔الٰہی مکاشفہ میں، مادی اور جسمانی خودی غائب ہوتے ہیں، اور روحانی خیال کو سمجھا جاتا ہے۔
John saw the human and divine coincidence, shown in the man Jesus, as divinity embracing humanity in Life and its demonstration, — reducing to human perception and understanding the Life which is God. In divine revelation, material and corporeal selfhood disappear, and the spiritual idea is understood.
اس سائنسی شعور کے ہمراہ ایک اور مکاشفہ تھا، حتیٰ کہ آسمان کی طرف سے اعلان، اعلیٰ ہم آہنگی، کہ خدا،ہم آہنگی کا الٰہی اصول ہمیشہ انسان کے ساتھ ہے، اور وہ اْس کے لوگ ہیں۔ پس انسان کو مزید قابل رحم گناہگار کے طور پر نہیں سمجھا گیا بلکہ خدا کا بابرکت فرزند سمجھا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ آسمان اور زمین سے متعلق مقدس یوحنا کی جسمانی حس غائب ہو چکی تھی، اور اس جھوٹی حس کی جگہ روحانی حس آگئی تھی، جو ایسی نفسی حالت تھی جس کے وسیلہ وہ نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھ سکتاتھا، جس میں روحانی خیال اور حقیقت کا شعور شامل ہے۔ یہ کلام کا اختیار یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے تھا کہ ہستی کی ایسی شناخت اس وجودیت کی موجودہ حالت میں انسان کے لئے ممکن ہے اور رہی تھی، کہ ہم موت، دْکھ اور درد کے آرام سے یہاں اور ابھی باخبر ہو سکتے ہیں۔ یہ قطعی کرسچن سائنس کی چاشنی ہے۔ برداشت کرنے والے عزیزو، حوصلہ کریں، کیونکہ ہستی کی یہ حقیقت یقینا کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں سامنے آئے گی۔ کوئی درد نہیں ہوگا، اور سب آنسو پونچھ دئیے جائیں گے۔ جب آپ یہ پڑھیں تو یسوع کے ان الفاظ کو یاد رکھیں، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے۔“اسی لئے یہ روحانی شعور موجودہ امکان ہے۔
Accompanying this scientific consciousness was another revelation, even the declaration from heaven, supreme harmony, that God, the divine Principle of harmony, is ever with men, and they are His people. Thus man was no longer regarded as a miserable sinner, but as the blessed child of God. Why? Because St. John's corporeal sense of the heavens and earth had vanished, and in place of this false sense was the spiritual sense, the subjective state by which he could see the new heaven and new earth, which involve the spiritual idea and consciousness of reality. This is Scriptural authority for concluding that such a recognition of being is, and has been, possible to men in this present state of existence, — that we can become conscious, here and now, of a cessation of death, sorrow, and pain. This is indeed a foretaste of absolute Christian Science. Take heart, dear sufferer, for this reality of being will surely appear sometime and in some way. There will be no more pain, and all tears will be wiped away. When you read this, remember Jesus' words, "The kingdom of God is within you." This spiritual consciousness is therefore a present possibility.
آئیے حقیقی اور ابدی سے متعلق سیکھیں اور روح کی سلطنت، آسمان کی بادشاہی، عالمگیر ہم آہنگی کی بادشاہی اور حکمرانی کے لئے تیاری کریں جو کبھی کھو نہیں سکتی اور نہ ہمیشہ کے لئے اندیکھی رہ سکتی ہے۔
Let us learn of the real and eternal, and prepare for the reign of Spirit, the kingdom of heaven, — the reign and rule of universal harmony, which cannot be lost nor remain forever unseen.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔
████████████████████████████████████████████████████████████████████████