اتوار 9 جولائی ، 2023
”مَیں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں اور خدا شناسی کو سوختنی قربانیوں سے زیادہ چاہتا ہوں۔“
“I desired mercy, and not sacrifice; and the knowledge of God more than burnt offerings.”
21۔ اِس لئے ساری نجاست اور بدی کے فضلہ کو دور کر کے اْس کلام کو حلیمی سے قبول کر لو جو دل میں بویا گیا اور تمہاری روحوں کو نجات دے سکتا ہے۔
22۔ لیکن کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ کہ محض سننے والے جو اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔
23۔ کیونکہ جو کوئی کلام سننے والا ہو اور اْس پر عمل کرنے والا نہ ہو وہ اْس شخص کی مانند ہے جو اپنی قدرتی صورت آئینے میں دیکھتا ہے۔
24۔ اِس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھ کرچلا جاتا اور فوراً بھول جاتا ہے کہ مَیں کیسا تھا۔
25۔ لیکن جو شخص آزادی کی شریعت پر غور سے نظرکرتا رہتا ہے وہ اپنے کام میں اِس لئے برکت پائے گا کہ سْن کر بھولتا نہیں بلکہ عمل کرتا ہے۔
26۔ اگر کوئی اپنے آپ کو دیندار سمجھے اور اپنی زبان کو لگام نہ دے بلکہ اپنے دل کو دھوکہ دے تو اْس کی دینداری باطل ہے۔
27۔ ہمارے خدااور باپ کے نزدیک خالص اور بے عیب دینداری یہ ہے کہ یتیموں اور بیواؤں کی مصیبت کے وقت اْن کی خبر لیں اور اپنے آپ کو دنیا سے بے داغ رکھیں۔
21. Wherefore lay apart all filthiness and superfluity of naughtiness, and receive with meekness the engrafted word, which is able to save your souls.
22. But be ye doers of the word, and not hearers only, deceiving your own selves.
23. For if any be a hearer of the word, and not a doer, he is like unto a man beholding his natural face in a glass:
24. For he beholdeth himself, and goeth his way, and straightway forgetteth what manner of man he was.
25. But whoso looketh into the perfect law of liberty, and continueth therein, he being not a forgetful hearer, but a doer of the work, this man shall be blessed in his deed.
26. If any man among you seem to be religious, and bridleth not his tongue, but deceiveth his own heart, this man’s religion is vain.
27. Pure religion and undefiled before God and the Father is this, To visit the fatherless and widows in their affliction, and to keep himself unspotted from the world.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
6۔ مَیں کیا لے کر خداوند کے حضور آؤں اور خدا تعالیٰ کو کیونکر سجدہ کروں؟ کیا سوختنی قربانیوں اور یکسالہ بچھڑوں کو لے کر اْس کے حضور آؤں؟
7۔ کیا خداوند ہزاروں مینڈھوں سے یا تیل کی دس ہزار نہروں سے خوش ہوگا؟ کیا مَیں اپنے پہلوٹھے کو اپنے گناہ کے عوض میں اور اپنی اولاد کو اپنی جان کی خطا کے بدلہ میں دے دوں؟
8۔ اے انسان اْس نے تجھ پر نیکی ظاہر کر دی ہے۔ خداوند تجھ سے اِس سے زیادہ کیا چاہتا ہے کہ تْو انصاف کرے اور رحم دلی کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟
6 Wherewith shall I come before the Lord, and bow myself before the high God? shall I come before him with burnt offerings, with calves of a year old?
7 Will the Lord be pleased with thousands of rams, or with ten thousands of rivers of oil? shall I give my firstborn for my transgression, the fruit of my body for the sin of my soul?
8 He hath shewed thee, O man, what is good; and what doth the Lord require of thee, but to do justly, and to love mercy, and to walk humbly with thy God?
23۔اور یسوع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور اْن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوش خبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی بیماری اور ہرطرح کی کمزوری کو دور کرتا رہا۔
23 And Jesus went about all Galilee, teaching in their synagogues, and preaching the gospel of the kingdom, and healing all manner of sickness and all manner of disease among the people.
1۔ وہ اِس بھیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب بیٹھ گیا تو اْس کے شاگرد اْس کے پاس آئے۔
2۔ اور وہ اپنی زبان کھول کر اْن کو یوں تعلیم دینے لگا۔
13۔تم زمین کے نمک ہو لیکن اگر نمک کا مزہ جاتا رہے تو وہ کس چیز سے نمکین کیا جائے گا؟ پھر وہ کسی کام کا نہیں سوا اس کے کہ باہر پھینکا جائے اور آدمیوں کے پاؤں کے نیچے روندا جائے۔
14۔تم دنیا کے نور ہو اور جو شہر پہاڑوں میں بسا ہے وہ چھپ نہیں سکتا۔
15۔ اور چراغ جلا کر پیمانے کے نیچے نہیں بلکہ چراغدان پر رکھتے ہیں تو اِس سے گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچتی ہے۔
16۔اسی طرح تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں۔
20۔ کیونکہ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں سے زیادہ نہ ہوگی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہر گز داخل نہ ہوگے۔
1 And seeing the multitudes, he went up into a mountain: and when he was set, his disciples came unto him:
2 And he opened his mouth, and taught them, saying,
13 Ye are the salt of the earth: but if the salt have lost his savour, wherewith shall it be salted? it is thenceforth good for nothing, but to be cast out, and to be trodden under foot of men.
14 Ye are the light of the world. A city that is set on an hill cannot be hid.
15 Neither do men light a candle, and put it under a bushel, but on a candlestick; and it giveth light unto all that are in the house.
16 Let your light so shine before men, that they may see your good works, and glorify your Father which is in heaven.
20 For I say unto you, That except your righteousness shall exceed the righteousness of the scribes and Pharisees, ye shall in no case enter into the kingdom of heaven.
5۔ اورجب تم دعا کرو تو ریاکاروں کی مانند نہ بنو۔ کیونکہ وہ عبادتخانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دعا کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ لوگ اْن کو دیکھیں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔
6۔ بلکہ جب تْو دعا کرے تو اپنی کوٹھڑی میں جا اور دروازہ بند کر کے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دعا کر۔ اِس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔
5 And when thou prayest, thou shalt not be as the hypocrites are: for they love to pray standing in the synagogues and in the corners of the streets, that they may be seen of men. Verily I say unto you, They have their reward.
6 But thou, when thou prayest, enter into thy closet, and when thou hast shut thy door, pray to thy Father which is in secret; and thy Father which seeth in secret shall reward thee openly.
1۔ اس وقت یسوع نے بھیڑ سے اور اپنے شاگردوں سے یہ باتیں کہیں۔
2۔ فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں۔
3۔ پس جو کچھ وہ تمہیں بتائیں سب کرو اور مانو لیکن اْن کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔
4۔ وہ ایسے بھاری بوجھ جن کو اٹھانا مشکل ہے باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں مگر آپ اْن کو انگلی سے ہلانا بھی نہیں چاہتے۔
5۔ وہ اپنے سب کام لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے تعویز بڑے بناتے اور اپنے کپڑوں کے کنارے چوڑے رکھتے ہیں۔
6۔اور ضیافتوں اور صدر نشینی اور عبادتخانوں میں اعلیٰ درجہ کی کرسیاں
7۔ اور بازاروں میں سلام اور آدمیوں سے ربی کہلانا پسند کرتے ہیں۔
8۔ مگر تم ربی نہ کہلاؤ کیونکہ تمہارا استاد ایک ہی ہے اور تم سب بھائی ہو۔
9۔ اور زمین پر کسی کو اپنا باپ نہ کہو کیونکہ تمہارا باپ ایک ہی ہے جو آسمانی ہے۔
10۔ اور نہ تم ہادی کہلاؤ کیونکہ تمہارا ہادی ایک ہی ہے یعنی مسیح۔
11۔ لیکن جو تم میں بڑا ہے وہ تمہارا خادم بنے۔
12۔ اور جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا۔
27۔اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔ مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔
28۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راستباز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہو۔
1 Then spake Jesus to the multitude, and to his disciples,
2 Saying, The scribes and the Pharisees sit in Moses’ seat:
3 All therefore whatsoever they bid you observe, that observe and do; but do not ye after their works: for they say, and do not.
4 For they bind heavy burdens and grievous to be borne, and lay them on men’s shoulders; but they themselves will not move them with one of their fingers.
5 But all their works they do for to be seen of men: they make broad their phylacteries, and enlarge the borders of their garments,
6 And love the uppermost rooms at feasts, and the chief seats in the synagogues,
7 And greetings in the markets, and to be called of men, Rabbi, Rabbi.
8 But be not ye called Rabbi: for one is your Master, even Christ; and all ye are brethren.
9 And call no man your father upon the earth: for one is your Father, which is in heaven.
10 Neither be ye called masters: for one is your Master, even Christ.
11 But he that is greatest among you shall be your servant.
12 And whosoever shall exalt himself shall be abased; and he that shall humble himself shall be exalted.
27 Woe unto you, scribes and Pharisees, hypocrites! for ye are like unto whited sepulchres, which indeed appear beautiful outward, but are within full of dead men’s bones, and of all uncleanness.
28 Even so ye also outwardly appear righteous unto men, but within ye are full of hypocrisy and iniquity.
17۔ اور عیدِ فطیر کے پہلے دن شاگردوں نے یسوع کے پاس آکر کہا تْو کہاں چاہتا ہے کہ ہم تیرے لئے فسح کھانے کی تیاری کریں؟
18۔ اْس نے کہا شہر میں فلاں شخص کے پاس جا کر کہنا اْستاد فرماتا ہے کہ میرا وقت نزدیک ہے۔ میں اپنے شاگردوں کے ساتھ تیرے ہاں عید فسح کروں گا۔
19۔ اور جیسا یسوع نے شاگردوں کو حکم دیا تھا اْنہوں نے ویسا ہی کیا اور فسح تیار کیا۔
26جب وہ کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اور برکت دے کر توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا لو کھاؤ۔ یہ میرا بدن ہے۔
27۔ پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور اْن سے کہا تم سب اِس میں سے پیو۔
28۔ کیونکہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کے لئے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے۔
17 Now the first day of the feast of unleavened bread the disciples came to Jesus, saying unto him, Where wilt thou that we prepare for thee to eat the passover?
18 And he said, Go into the city to such a man, and say unto him, The Master saith, My time is at hand; I will keep the passover at thy house with my disciples.
19 And the disciples did as Jesus had appointed them; and they made ready the passover.
26 And as they were eating, Jesus took bread, and blessed it, and brake it, and gave it to the disciples, and said, Take, eat; this is my body.
27 And he took the cup, and gave thanks, and gave it to them, saying, Drink ye all of it;
28 For this is my blood of the new testament, which is shed for many for the remission of sins.
1۔ انگور کا حقیقی درخت مَیں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔
2۔ جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اورجو پھل لاتی ہے اُسے چھانٹتا ہے تاکہ زیادہ پھل لائے۔
3۔ اب تم اُس کلام کے سبب سے جو مَیں نے تم سے کیا پاک ہو۔
4۔ تم مجھ میں قائم رہو اور مَیں تم میں۔ جس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لاسکتی اُسی طرح تم بھی اگر مجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لاسکتے۔
5۔ مَیں انگور کا درخت ہوں تُم ڈالیاں ہو۔ جو مجھ قائم رہتا ہے اور مَیں اُس میں وہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مجھ سے جدا ہوکرتم کچھ نہیں کرسکتے۔
7۔ اگر تم مجھ میں قائم رہو اور میری باتیں تم میں قائم رہیں تو جو چاہو مانگو۔ وہ تمہارے لئے ہوجائے گا۔
8۔میرے باپ کا جلال اِسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ۔ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔
1 I am the true vine, and my Father is the husbandman.
2 Every branch in me that beareth not fruit he taketh away: and every branch that beareth fruit, he purgeth it, that it may bring forth more fruit.
3 Now ye are clean through the word which I have spoken unto you.
4 Abide in me, and I in you. As the branch cannot bear fruit of itself, except it abide in the vine; no more can ye, except ye abide in me.
5 I am the vine, ye are the branches: He that abideth in me, and I in him, the same bringeth forth much fruit: for without me ye can do nothing.
7 If ye abide in me, and my words abide in you, ye shall ask what ye will, and it shall be done unto you.
8 Herein is my Father glorified, that ye bear much fruit; so shall ye be my disciples.
ہر دعا کی پرکھ اِن سوالات کے جواب میں پائی جاتی ہے: کیا ہم اپنے پڑوسی سے اِس حکم کی بنا پر بہتر پیار کرتے ہیں؟ اگرچہ ہم ہمارے دعا کے ساتھ مسلسل زندگی گزارتے ہوئے ہماری التجاؤں کی تابعداری کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرتے، تو کیا کسی بہتر چیز کے لئے دعا کرنے پر مطمئن ہو کر ہم ہماری پرانی خودغرضی کا تعاقب کرتے ہیں؟ اگر خود غرضی نے ہمدردی کو جگہ دے دی ہے، تو ہم ہمارے پڑوسی کے ساتھ بے غرضی سے سلوک رکھیں گے، اور اپنے لعنت بھیجنے والوں کے لئے برکت چاہیں گے؛ لیکن ہم اِس عظیم فرض تک محض یہ مانگنے سے کبھی نہیں پہنچ سکتے کہ یہ بس ہو جائے۔ ہمارے ایمان اور امید کے پھل کا مزہ لینے سے پہلے ہمیں ایک صلیب کو اْٹھانا ہوگا۔
The test of all prayer lies in the answer to these questions: Do we love our neighbor better because of this asking? Do we pursue the old selfishness, satisfied with having prayed for something better, though we give no evidence of the sincerity of our requests by living consistently with our prayer? If selfishness has given place to kindness, we shall regard our neighbor unselfishly, and bless them that curse us; but we shall never meet this great duty simply by asking that it may be done. There is a cross to be taken up before we can enjoy the fruition of our hope and faith.
ہم جانتے ہیں کہ پاکیزگی پانے کے لئے پاکیزگی کی خواہش رکھنا لازمی شرط ہے؛ لیکن اگر ہم سب چیزوں سے زیادہ پاکیزگی کی خواہش رکھتے ہیں، تو ہم اس کے لئے ہر چیز قربان کر دیں گے۔ ہمیں ایسا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ ہم پاکیزگی کی عملی راہ پر بحفاظت چل سکتے ہیں۔ دعا ناقابل تبدیل سچائی کو نہیں بدل سکتی، نہ ہی تنہا ہمیں سچائی کی سمجھ عطا کر سکتی ہے؛ مگر دعا، خدا کی مرضی کو جاننے اور اْسے پورا کرنے کی ایک پرجوش مستقل خواہش کے ساتھ جڑتے ہوئے، ہم سب کو سچائی کے پاس لائے گی۔ ایسی خواہش کو قابلِ سماعت اظہار کی بہت کم ضرورت ہوتی ہے۔ اِسے سوچ اور زندگی میں بہترین طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔
We know that a desire for holiness is requisite in order to gain holiness; but if we desire holiness above all else, we shall sacrifice everything for it. We must be willing to do this, that we may walk securely in the only practical road to holiness. Prayer cannot change the unalterable Truth, nor can prayer alone give us an understanding of Truth; but prayer, coupled with a fervent habitual desire to know and do the will of God, will bring us into all Truth. Such a desire has little need of audible expression. It is best expressed in thought and in life.
دعا کا ایک خطرہ یہ ہے کہ یہ ہمیں آزمائش میں ڈال سکتی ہے۔اِس کے ذریعے ہم از خود ریاکار بن سکتے ہیں، اْن خواہشات کو دوہراتے ہوئے جو حقیقی نہیں ہیں اور خود کو گناہ کرنے کے دوران تسلی دیتے ہوئے اِس یاد دہانی کے ساتھ کہ ہم اِس کے لئے پہلے ہی دعا کر چکے ہیں یا اِسے کسی دوسرے روز معافی مانگنے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے۔ریاکاری مذہب کے لئے مہلک ہے۔
The danger from prayer is that it may lead us into temptation. By it we may become involuntary hypocrites, uttering desires which are not real and consoling ourselves in the midst of sin with the recollection that we have prayed over it or mean to ask forgiveness at some later day. Hypocrisy is fatal to religion.
مالک کی ہدایت یہ ہے کہ ہم پوشیدگی میں دعا کریں اور ہماری زندگیوں سے ہماری وفاداری کی گواہی دیں۔
خودفراموشی، پاکیزگی اور احساس مسلسل دعائیں ہیں۔مشق نہ کہ پیشہ، فہم نہ کہ ایمان قادر مطلق کے کان اور دست راست حاصل کرتے ہیں اور بلاشبہ یہ بے انتہا نعمتیں نچھاور کرواتے ہیں۔
The Master's injunction is, that we pray in secret and let our lives attest our sincerity.
Self-forgetfulness, purity, and affection are constant prayers. Practice not profession, understanding not belief, gain the ear and right hand of omnipotence and they assuredly call down infinite blessings.
یسوع نے اِس حکم پر زور دیا، ”تْو میرے حضور غیر معبودوں کونہ ماننا،“ جسے شاید یوں پیش کیا جائے: تْو بشر جیسا زندگی کا ایمان نہ رکھنا؛ تْو بدی کو نہ جانے گا، کیونکہ یہاں صرف ایک زندگی ہے، یعنی خدا، اچھائی۔اْس نے ”جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو“ پیش کیا۔ اْس نے انسانی عقیدے کی صورتوں یا انسان کے نظریات کو کوئی خراجِ عقیدت پیش نہ کی، بلکہ ویسے ہی عمل کیا اور بات کی جیسے اْس نے روح سے نہ کی بد روحوں سے تحریک پائی تھی۔
یسوع نے روایتی کاہن اور ریاکار فریسی سے کہا، ”محصول لینے والے اور کسبیاں تم سے پہلے خدا کی بادشاہی میں داخل ہوتی ہیں۔“ یسوع کی تاریخ نے نیا کیلنڈر متعارف کروایا، جسے ہم مسیحی دور کہتے ہیں؛ لیکن اْس نے روایتی عبادت قائم نہیں کی۔ وہ جانتاتھا کہ انسان بپتسمہ لے سکتا، یوخرست میں شراکت کر سکتا، کلیسیا کی مدد کر سکتا، سبت کی پیروی کر سکتا، لمبی عبادات کر سکتا ہے تاہم وہ جنس پرست اور گناہگار ہی ہے۔
Jesus urged the commandment, "Thou shalt have no other gods before me," which may be rendered: Thou shalt have no belief of Life as mortal; thou shalt not know evil, for there is one Life, — even God, good. He rendered "unto Caesar the things which are Caesar's; and unto God the things that are God's." He at last paid no homage to forms of doctrine or to theories of man, but acted and spake as he was moved, not by spirits but by Spirit.
To the ritualistic priest and hypocritical Pharisee Jesus said, "The publicans and the harlots go into the kingdom of God before you." Jesus' history made a new calendar, which we call the Christian era; but he established no ritualistic worship. He knew that men can be baptized, partake of the Eucharist, support the clergy, observe the Sabbath, make long prayers, and yet be sensual and sinful.
یسوع نے اظہار کی بدولت زندگی کا طریقہ کار سکھایا، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کیسے الٰہی اصول بیمار کو شفادیتا، غلطی کو باہر نکالتا اور موت پر فتح مند ہوتا ہے۔ کسی دوسرے شخص کی نسبت جس کا اصل کم روحانی ہویسوع نے خدا کی مثال کو بہت بہتر انداز میں پیش کیا۔ خدا کے ساتھ اْس کی فرمانبرداری سے اْس نے دیگر سبھی لوگوں کی نسبت ہستی کے اصول کو زیادہ روحانی ظاہر کیا۔ اسی طرح اْس کی اس نصیحت کی طاقت ہے کہ ”اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔“
Jesus taught the way of Life by demonstration, that we may understand how this divine Principle heals the sick, casts out error, and triumphs over death. Jesus presented the ideal of God better than could any man whose origin was less spiritual. By his obedience to God, he demonstrated more spiritually than all others the Principle of being. Hence the force of his admonition, "If ye love me, keep my commandments."
مسیحی فرائض کی فہرست میں سب سے پہلا فرض جواْس نے اپنے پیروکاروں کوسکھایا وہ سچائی اور محبت کی شفائیہ قوت ہے۔ اْس نے بے جان رسموں کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ یہ زندہ مسیح، عملی سچائی ہی ہے جو مسیح کو اْن سب کے لئے ”قیامت اور زندگی“ بناتا ہے جو کاموں میں اْس کی پیروی کرتے ہیں۔ اْس کے بیش قیمت احکامات کی فرمانبرداری کرتے ہوئے، جتنا ہم یہ سمجھ سکیں اتنا اْس کے اظہار کی پیروی کرتے ہوئے، ہم اْس کے پیالے میں سے پیتے ہیں، اْس کی روٹی میں شریک ہوتے ہیں،اور اْس کی پاکیزگی میں بپتسمہ پاتے ہیں، اور بالا آخر ہم جو موت پر فتح مند ہوتا ہے اْس الٰہی اصول کے مکمل فہم میں اْس کے ساتھ بیٹھیں گے، آرام کریں گے۔
First in the list of Christian duties, he taught his followers the healing power of Truth and Love. He attached no importance to dead ceremonies. It is the living Christ, the practical Truth, which makes Jesus "the resurrection and the life" to all who follow him in deed. Obeying his precious precepts, — following his demonstration so far as we apprehend it, — we drink of his cup, partake of his bread, are baptized with his purity; and at last we shall rest, sit down with him, in a full understanding of the divine Principle which triumphs over death.
وہ لوگ جو مسیح کی پیروی کرنے کا اقرار کرتے ہیں اْس ابتدائی مذہب کو رد کردیتے ہیں جو اْس نے قائم کیا؟ یسوع کو اذیت دینے والے اِسی خاص نقطے پراپنا مظبوط ترین حملہ کرتے تھے۔اْنہوں نے مادے کے رحم و کرم پر اْسے پکڑنے کی اور چند خاص فرضی مادی قوانین کے مطابق اْسے قتل کرنے کی کوشش کی۔
فریسی الٰہی رضا کو جاننے اور اْس کی تعلیم دینے کا دعویٰ کرتے تھے، مگر وہ صرف یسوع کے مقصد کی کامیابی میں رکاوٹ ڈالتے تھے۔حتیٰ کہ اْس کے بہت سے طالب علم بھی اْس کی راہ میں کھڑے ہوگئے۔
Why do those who profess to follow Christ reject the essential religion he came to establish? Jesus' persecutors made their strongest attack upon this very point. They endeavored to hold him at the mercy of matter and to kill him according to certain assumed material laws.
The Pharisees claimed to know and to teach the divine will, but they only hindered the success of Jesus' mission. Even many of his students stood in his way.
کلیسیا کے اندر یا باہر جو کچھ اچھا ہے اْس کا احترام کرتے ہوئے، کسی شخص کی مسیح میں تقدیس پیشے کی نسبت اظہار پر زیادہ بنیاد رکھتی ہے۔شعور میں، ہم منتشر ہونے والے عقائد کو روک نہیں سکتے، اور لازوال مسیح کے الٰہی اصول کو مزید سمجھتے ہوئے، ہمیں بیمار کو شفا دینے اور موت پر فتح مند ہونے کے قابل بنایا گیا ہے۔
While respecting all that is good in the Church or out of it, one's consecration to Christ is more on the ground of demonstration than of profession. In conscience, we cannot hold to beliefs outgrown; and by understanding more of the divine Principle of the deathless Christ, we are enabled to heal the sick and to triumph over sin.
پیالہ اْس کے تلخ تجربے کو ظاہر کرتا ہے، یعنی وہ پیالہ جس کے لئے اْس نے دعا چاہی کہ وہ اْس سے ٹل جائے، حالانکہ وہ الٰہی فرمان کی پاک سپردگی میں جھک گیا تھا۔
شاگردوں نے کھا لیا تھا، تاہم یسوع نے دعا کی اور اْنہیں روٹی دی۔ لفظی معنوں میں یہ ایک بے وقوفی ہی ہوگی؛ مگر اِس کے روحانی مفہوم میں، یہ فطری اور نہایت خوبصورت بات تھی۔
The cup shows forth his bitter experience, — the cup which he prayed might pass from him, though he bowed in holy submission to the divine decree.
The disciples had eaten, yet Jesus prayed and gave them bread. This would have been foolish in a literal sense; but in its spiritual signification, it was natural and beautiful.
اْن کی خوراک واقعتاً آسمان سے اتری تھی۔بیماروں کو شفا دینے اور غلطی کو باہر نکالنے والی روحانی ہستی کی یہ بہت بڑی حقیقت تھی۔اْن کے مالک نے انہیں یہ پہلے ہی واضح کر دیا تھا، اور اب یہ روٹی انہیں خوراک دے رہی تھی اور انہیں قائم رکھ رہی تھی۔
مسیحیو! کیا آپ اْس کا پیالہ پی رہے ہیں؟ کیا آپ نے نئے عہد کا خون بانٹا ہے، یعنی وہ ایذائیں جو خدا سے متعلق ایک نئے اور بلند فہم کو پیش کرتی ہیں؟اگر نہیں تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اْس کے پیالے میں یسوع کی یادگاری منائی ہے؟ وہ سب جو یسوع کی یاد گاری میں روٹی کھاتے اور مے پیتے ہیں وہ حقیقت میں اْس کے پیالے اور اْس کی صلیب میں سے بانٹنے کی اور اصول ِمسیح کی خاطر سب کچھ چھوڑنے کے لئے رضا مند ہیں؟
Their bread indeed came down from heaven. It was the great truth of spiritual being, healing the sick and casting out error. Their Master had explained it all before, and now this bread was feeding and sustaining them.
Christians, are you drinking his cup? Have you shared the blood of the New Covenant, the persecutions which attend a new and higher understanding of God? If not, can you then say that you have commemorated Jesus in his cup? Are all who eat bread and drink wine in memory of Jesus willing truly to drink his cup, take his cross, and leave all for the Christ-principle?
اگر مسیح، سچائی اظہار میں ہمارے پاس آیا، تو کسی دوسری یاد گاری کی ضرورت نہیں، کیونکہ اظہار اعمانوئیل یا خدا ہمارے ساتھ ہے؛ اور اگر کوئی دوسرا ہمارے ساتھ ہے تو اْس کی یادگاری منانے کی کیا ضرورت ہے؟
اگر وہ سب جنہوں نے ساکرامنٹ میں حصہ لیا یسوع کے دکھوں کی حقیقتاً یادگاری منائی تھی اور اْس کے پیالے میں سے پیا تھا تو وہ دنیا میں انقلاب برپا کر دیتے۔ وہ سب جومادی علامات کے وسیلہ اْس کی یادگاری کے متلاشی ہیں وہ صلیب اٹھائیں گے، بیماروں کو شفا دیں گے، بدروحوں کو نکالیں گے اور مسیح، سچائی کی خوشخبری غریبوں، منفی سوچ والوں،کو دیں گے، وہ ہزار سالہ دور لائیں گے۔
If Christ, Truth, has come to us in demonstration, no other commemoration is requisite, for demonstration is Immanuel, or God with us; and if a friend be with us, why need we memorials of that friend?
If all who ever partook of the sacrament had really commemorated the sufferings of Jesus and drunk of his cup, they would have revolutionized the world. If all who seek his commemoration through material symbols will take up the cross, heal the sick, cast out evils, and preach Christ, or Truth, to the poor, — the receptive thought, — they will bring in the millennium.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔