اتوار 23 جولائی ، 2023
”خداوند سچا خدا ہے۔ وہ زندہ خدا ہے۔“
“The Lord is the true God, he is the living God.”
27۔ انسان کچھ نہیں پا سکتا جب تک اْس کو آسمان سے نہ دیا جائے.
31۔ جو اوپر سے آتا ہے وہ سب سے اوپر ہے۔ جو زمین سے ہے وہ زمین ہی سے ہے کہ زمین ہی کی کہتا ہے۔ جو آسمان سے آتا ہے وہ سب سے اوپر ہے۔
32۔ جو کچھ اْس نے دیکھا اور سنا اْس کی گواہی دیتا ہے اور کوئی اْس کی گواہی قبول نہیں کرتا۔
33۔ جس نے اْس کی گواہی قبول کی اْس نے اِس بات پر مہر کر دی کہ خدا سچا ہے۔
34۔ کیونکہ جسے خدا نے بھیجا ہے وہ خدا کی باتیں کہتا ہے۔اِس لئے کہ وہ روح ناپ ناپ کر نہیں دیتا۔
35۔ باپ بیٹے سے محبت رکھتا ہے اور اْس نے سب چیزیں اْس کے ہاتھ میں دے دی ہیں۔
36۔ جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اْس کی ہے۔
27. A man can receive nothing, except it be given him from heaven.
31. He that cometh from above is above all: he that is of the earth is earthly, and speaketh of the earth: he that cometh from heaven is above all.
32. And what he hath seen and heard, that he testifieth; and no man receiveth his testimony.
33. He that hath received his testimony hath set to his seal that God is true.
34. For he whom God hath sent speaketh the words of God: for God giveth not the Spirit by measure unto him.
35. The Father loveth the Son, and hath given all things into his hand.
36. He that believeth on the Son hath everlasting life.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ اْسی روز یسوع گھر سے نکل کر جھیل کے کنارے جا بیٹھا۔
2۔ اور اْس کے پاس ایسی بڑی بھیڑ جمع ہو گئی کہ وہ کشتی پر چڑھ بیٹھا اور ساری بھیڑ کنارے پر کھڑی رہی۔
3۔ اور اْس نے اْن سے بہت سی باتیں تمثیلوں میں کہیں کہ دیکھو ایک بیج بونے والا بیج بونے نکلا۔
33۔ آسمان کی بادشاہی اْس خمیر کی مانند ہے جسے کسی عورت نے لے کر تین پیمانہ آٹے میں ملا دیا اور وہ ہوتے ہوتے سب خمیر ہوگیا۔
1 The same day went Jesus out of the house, and sat by the sea side.
2 And great multitudes were gathered together unto him,
3 And he spake many things unto them in parables, saying,
33 The kingdom of heaven is like unto leaven, which a woman took, and hid in three measures of meal, till the whole was leavened.
1۔ پھر فریسیوں اور صدوقیوں نے پاس آکر آزمانے کے لئے اْس سے درخواست کی کہ ہمیں کوئی آسمانی نشان دکھا۔
2۔ اْس نے جواب میں اْن سے کہا۔
3۔ تم آسمان کی صورت میں تو تمیز کرنا جانتے ہو مگر زمانوں کی علامتوں میں تمیز نہیں کر سکتے؟
4۔ اور وہ اْن کو چھوڑ کر چلا گیا۔
5۔ اور شاگرد پار جاتے وقت روٹی ساتھ لینا بھول گئے تھے۔
6۔ یسوع نے اْن سے کہا خبردار فریسیوں اور صدوقیوں کے خمیر سے ہوشیار رہنا۔
7۔ وہ آپس میں چرچا کرنے لگے کہ ہم روٹی نہیں لائے۔
8۔ یسوع نے یہ معلوم کر کے کہا کہ اے کم اعتقادو تم آپس میں کیوں چرچا کرتے ہو کہ ہمارے پاس روٹی نہیں؟
11۔ کیا وجہ ہے کہ تم یہ نہیں سمجھتے کہ مَیں نے تم سے روٹی کی بابت نہیں کہا؟ فریسیوں اور صدوقیوں کے خمیر سے خبردار رہو۔
12۔ تب اْن کی سمجھ میں آیا کہ اْس نے روٹی کے خمیر سے نہیں بلکہ فریسیوں اور صدوقیوں کی تعلیم سے خبردار رہنے کو کہا۔
1 The Pharisees also with the Sadducees came, and tempting desired him that he would shew them a sign from heaven.
2 He answered and said unto them,
3 O ye hypocrites, ye can discern the face of the sky; but can ye not discern the signs of the times?
4 And he left them, and departed.
5 And when his disciples were come to the other side, they had forgotten to take bread.
6 Then Jesus said unto them, Take heed and beware of the leaven of the Pharisees and of the Sadducees.
7 And they reasoned among themselves, saying, It is because we have taken no bread.
8 Which when Jesus perceived, he said unto them, O ye of little faith, why reason ye among yourselves, because ye have brought no bread?
11 How is it that ye do not understand that I spake it not to you concerning bread, that ye should beware of the leaven of the Pharisees and of the Sadducees?
12 Then understood they how that he bade them not beware of the leaven of bread, but of the doctrine of the Pharisees and of the Sadducees.
15۔ اْس وقت فریسیوں نے جا کر مشورہ کیا کہ اْسے کیونکر باتوں میں پھنسائیں۔
16۔ پس اْنہوں نے اپنے شاگردوں کو ہیرودیوں کے ساتھ اْس کے پاس بھیجا اور اْنہوں نے کہا اے استاد ہم جانتے ہیں کہ تْو سچا ہے اور سچائی سے خدا کی راہ کی تعلیم دیتا ہے اورکسی کی پروا ہ نہیں کرتا کیونکہ تْو کسی آدمی کا طرفدار نہیں ہے۔
17۔ پس ہمیں بتا۔ تْو کیا سمجھتا ہے؟
36۔ اے اْستاد توریت میں کون سا حکم بڑا ہے؟
37۔ اْس نے اْس سے کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔
38۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔
39۔ اور دوسرا اِس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔
40۔ اِنہی دو حکموں پر توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے۔
15 Then went the Pharisees, and took counsel how they might entangle him in his talk.
16 And they sent out unto him their disciples with the Herodians, saying, Master, we know that thou art true, and teachest the way of God in truth, neither carest thou for any man: for thou regardest not the person of men.
17 Tell us therefore, What thinkest thou?
36 Master, which is the great commandment in the law?
37 Jesus said unto him, Thou shalt love the Lord thy God with all thy heart, and with all thy soul, and with all thy mind.
38 This is the first and great commandment.
39 And the second is like unto it, Thou shalt love thy neighbour as thyself.
40 On these two commandments hang all the law and the prophets.
13۔ اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کیونکہ نہ تو آپ داخل ہوتے ہو اور نہ داخل ہونے دیتے ہو۔
13 But woe unto you, scribes and Pharisees, hypocrites! for ye shut up the kingdom of heaven against men: for ye neither go in yourselves, neither suffer ye them that are entering to go in.
6۔کیا تم نہیں جانتے کہ تھوڑا سا خمیر سارے گْندھے ہوئے آٹے کو خمیر کر دیتا ہے؟
7۔ پرانا خمیر نکال کر اپنے آپ کو پاک کر لو تاکہ تازہ گْندھا ہوا آٹا بن جاؤ۔
8۔ پس آؤ ہم امید کریں۔ نہ پرانے خمیر سے اور نہ بدی اور شرارت کے خمیر سے بلکہ صاف دلی اور سچائی کی بے خمیر روٹی سے۔
6 Your glorying is not good. Know ye not that a little leaven leaveneth the whole lump?
7 Purge out therefore the old leaven, that ye may be a new lump,
8 Therefore let us keep the feast, not with old leaven, neither with the leaven of malice and wickedness; but with the unleavened bread of sincerity and truth.
7۔۔۔۔جو یہودی یروشلیم سے آئے تھے وہ اْس کے آس پاس کھڑے ہو کر اْس پر بہتیرے سخت الزام لگانے لگے مگر اْن کو ثابت نہ کر سکے۔
14۔ اور اْن کے کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد فیستْس نے پولوس کے مقدمہ کا حال بادشاہ سے کہہ کر بیان کیا۔
7 …the Jews which came down from Jerusalem stood round about, and laid many and grievous complaints against Paul, which they could not prove.
14 And when they had been there many days, Festus declared Paul’s cause unto the king,
1۔ اگرپا نے پولوس سے کہا تجھے اپنے لئے بولنے کی اجازت ہے۔ پولوس ہاتھ بڑھا کر اپنا جواب یوں بیان کرنے لگا۔
4۔ سب یہودی جانتے ہیں کہ اپنی قوم کے درمیان اور یروشلیم میں شروع جوانی سے میرا چال چلن کیسا رہا ہے۔
5۔ کیونکہ وہ شروع سے مجھے جانتے ہیں اگر چاہیں تو گواہ ہوسکتے ہیں کہ مَیں فریسی ہو کر اپنے دین کے سب سے زیادہ پابندِ مذہب فرقہ کی طرح زندگی گزارتا رہا۔
9۔ مَیں نے بھی سمجھا تھا کہ یسوع ناصری کے نام کی طرح طرح سے مخالفت کرنا مجھ پر فرض ہے۔
10۔ چنانچہ مَیں نے یروشلیم میں ایسا ہی کیا اور سردار کاہنوں کی طرف سے اختیار پا کر بہت سے مقدسوں کو قید میں ڈالا اور جب وہ قتل کئے جاتے تھے تو مَیں بھی رائے دیتا تھا۔
12۔ اِسی حال میں سردار کاہنوں سے اختیار اور پروانے لے کر دمشق کو جاتا تھا۔
13۔ تو اے بادشاہ مَیں نے دوپہر کے وقت راہ میں یہ دیکھا کہ سورج کے نور سے زیادہ ایک نور آسمان سے میرے اور میرے ہمسفروں کے گردا گرد آ چمکا۔
14۔ جب ہم سب زمین پر گر پڑے تو مَیں نے عبرانی زبان میں یہ آواز سنی کہ اے ساؤل! اے ساؤل! تْو مجھے کیوں ستاتا ہے؟ پینے کی آر پر لات مارنا تیرے لئے مشکل ہے۔
15۔ مَیں نے کہا اے خداوند تْو کون ہے؟ خداوند نے فرمایا مَیں یسوع ہوں جسے تْو ستاتا ہے۔
16۔ لیکن اْٹھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کیونکہ مَیں اِس لئے تجھ پر ظاہر ہوا ہوں کہ تجھے اْن چیزوں کا بھی خادم اور گواہ مقرر کروں جن کی گواہی کے لئے تْو نے مجھے دیکھا ہے اور اْن کا بھی جن کی گواہی کے لئے مَیں تجھ پر ظاہر ہوا کروں گا۔
18۔ کہ تْو اْن کی آنکھیں کھول دے تاکہ اندھیرے سے روشنی کی طرف اور شیطان کے اختیار سے خدا کی طرف رجوع لائیں اور مجھ پر ایمان لانے کے باعث گناہوں کی معافی اور مقدسوں میں شریک ہو کر میراث پائیں۔
19۔ اِس لئے اے اگرپا بادشاہ! مَیں اْس آسمانی رویا کا نافرمان نہ ہوا۔
20۔ بلکہ پہلے دمشقیوں کو پھر یروشلیم اور سارے ملک یہودیہ کے باشندوں کو اور غیر قوموں کو سمجھاتا رہا کہ توبہ کریں اور خدا کی طرف رجوع لائیں تاکہ توبہ کے موافق کام کریں۔
21۔ اِنہی باتوں کے سبب یہودیوں نے مجھے ہیکل میں پکڑ کر مارڈالنے کی کوشش کی۔
24۔ جب وہ اِس طرح جوابدہی کر رہا تھا تو فیستس نے بڑی آواز سے کہا اے پولوس! تْو دیوانہ ہے۔ بہت علم نے تجھے دیوانہ کر دیا ہے۔
25۔ پولوس نے کہا اے فیستس بہادر! مَیں دیوانہ نہیں بلکہ سچائی اور ہوشیاری کی باتیں کہتا ہوں۔
1 Then Agrippa said unto Paul, Thou art permitted to speak for thyself. Then Paul stretched forth the hand, and answered for himself:
4 My manner of life from my youth, which was at the first among mine own nation at Jerusalem, know all the Jews;
5 Which knew me from the beginning, if they would testify, that after the most straitest sect of our religion I lived a Pharisee.
9 I verily thought with myself, that I ought to do many things contrary to the name of Jesus of Nazareth.
10 Which thing I also did in Jerusalem: and many of the saints did I shut up in prison, having received authority from the chief priests; and when they were put to death, I gave my voice against them.
12 Whereupon as I went to Damascus with authority and commission from the chief priests,
13 At midday, O king, I saw in the way a light from heaven, above the brightness of the sun, shining round about me and them which journeyed with me.
14 And when we were all fallen to the earth, I heard a voice speaking unto me, and saying in the Hebrew tongue, Saul, Saul, why persecutest thou me? it is hard for thee to kick against the pricks.
15 And I said, Who art thou, Lord? And he said, I am Jesus whom thou persecutest.
16 But rise, and stand upon thy feet: for I have appeared unto thee for this purpose, to make thee a minister and a witness both of these things which thou hast seen, and of those things in the which I will appear unto thee;
18 To open their eyes, and to turn them from darkness to light, and from the power of Satan unto God, that they may receive forgiveness of sins, and inheritance among them which are sanctified by faith that is in me.
19 Whereupon, O king Agrippa, I was not disobedient unto the heavenly vision:
20 But shewed first unto them of Damascus, and at Jerusalem, and throughout all the coasts of Judæa, and then to the Gentiles, that they should repent and turn to God, and do works meet for repentance.
21 For these causes the Jews caught me in the temple, and went about to kill me.
24 And as he thus spake for himself, Festus said with a loud voice, Paul, thou art beside thyself; much learning doth make thee mad.
25 But he said, I am not mad, most noble Festus; but speak forth the words of truth and soberness.
8۔ کیونکہ ہم حق کے برخلاف کچھ نہیں کر سکتے مگر صرف حق کے لئے کر سکتے ہیں۔
8 For we can do nothing against the truth, but for the truth.
9۔ (اِس لئے کہ نور کا پھل ہر طرح کی نیکی اور راستبازی اور سچائی ہے)۔
10۔ اور تجربے سے معلوم کرتے رہو کہ خداوند کو کیا پسند ہے۔
9 (For the fruit of the Spirit is in all goodness and righteousness and truth;)
10 Proving what is acceptable unto the Lord.
ایمان سے آگے، کسی شخص کا مقصد سچائی کے نقش قدم کو ڈھونڈنا ہونا چاہئے جو صحت اور پاکیزگی کی راہ ہے۔
One's aim, a point beyond faith, should be to find the footsteps of Truth, the way to health and holiness.
انسان اپنے اندر ایک دماغ رکھتے ہوئے مادی صورت سے کہیں بڑھ کر ہے، جسے لا فانی رہنے کے لئے اپنے ماحول سے محفوظ رہنا چاہئے۔ انسان ابدیت کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ عکس خدا کا حقیقی خیال ہے۔
اس کی وسعت اورلامحدود بنیادوں سے اونچی سے اونچی پرواز کو بڑھاتے ہوئے خدا انسان میں لامحدود خیال کو ہمیشہ ظاہر کرتا ہے۔ عقل اْس سب کو ایاں کرتی ہے جو سچائی کی ابدیت میں پایا جاتا ہے۔ ہم حقیقی الٰہی صورت اور شبیہ سے متعلق اتنا نہیں جانتے جتنا ہم خدا سے متعلق جانتے ہیں۔
انسانی قابلیتیں اس تناسب سے بڑھائی یا کامل کی جاتی ہیں جس سے انسان خدا اور انسان سے متعلق حقیقی نظریہ حاصل کرتا ہے۔
Man is more than a material form with a mind inside, which must escape from its environments in order to be immortal. Man reflects infinity, and this reflection is the true idea of God.
God expresses in man the infinite idea forever developing itself, broadening and rising higher and higher from a boundless basis. Mind manifests all that exists in the infinitude of Truth. We know no more of man as the true divine image and likeness, than we know of God.
The human capacities are enlarged and perfected in proportion as humanity gains the true conception of man and God.
دنیا کے پہرے کے میناروں پر قبضہ کرتے ہوئے، اہلِ کلیسیا کو سچائی کے معیاروں کو بلند کرنا چاہئے۔اْنہیں اپنے سامعین کو روحانی طور پر اس قدر اْبھارنا چاہئے، کہ اْن کے سننے والے ایک نئے، درست خیال کو اپنانا پسند کریں اور اْن کے نظریات وسعت اختیار کریں۔شہرت سے محبت کی بجائے، مسیحت سے محبت کو مذہبی پیشواؤں کی خدمت کو تحریک اور ترقی ملنی چاہئے۔منبر سے سچائی نکلنی چاہئے، نہ کہ اْس کو دبایا چاہئے۔ایک خاص رعایت خدمت میں ملبوس ہے۔ اِسے کیسے استعمال کیا جانا چاہئے؟ دینداری کے ساتھ، فرقے کے مفاد کی بجائے انسانیت کے مفادکے لئے۔
Clergymen, occupying the watchtowers of the world, should uplift the standard of Truth. They should so raise their hearers spiritually, that their listeners will love to grapple with a new, right idea and broaden their concepts. Love of Christianity, rather than love of popularity, should stimulate clerical labor and progress. Truth should emanate from the pulpit, but never be strangled there. A special privilege is vested in the ministry. How shall it be used? Sacredly, in the interests of humanity, not of sect.
اْس دولت، شہرت اور معاشرتی تنظیم کو دور کردیں جن کا خدا کے ترازو میں تنکا برابر وزن بھی نہیں ہے، تو پھر ہمیں اصول کے واضح خیالات ملتے ہیں۔ گروہ بندی کو توڑیں، دولت کو ایمانداری سے ہموار کریں، قابلیت کو حکمت سے آزمائیں تو ہمیں انسانیت کے بہتر خیالات ملتے ہیں۔
بدکار شخص اپنے نیک پڑوسی کا حاکم نہیں ہے۔ یہ بات سمجھی جانی چاہئے کہ غلطی کی کامیابی سچائی کی شکست ہے۔
Take away wealth, fame, and social organizations, which weigh not one jot in the balance of God, and we get clearer views of Principle. Break up cliques, level wealth with honesty, let worth be judged according to wisdom, and we get better views of humanity.
The wicked man is not the ruler of his upright neighbor. Let it be understood that success in error is defeat in Truth.
یسوع نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ فریسیوں اور فقیہوں کے خمیر سے ہوشیار رہنا جس کی وضاحت وہ انسانی عقائد کے طور پر کرتا ہے۔ اْس”خمیر سے متعلق جو ایک خاتون نے لیا اور تین پیمانہ آٹے میں ملایا اور وہ ہوتے ہوتے سارا خمیر ہوگیا“، یہ تمثیل خلاصہ بیان کرتی ہے کہ روحانی خمیر مسیح کی سائنس اور اِس کی روحانی تفسیر کو بیان کرتا ہے، یعنی ایسا خلاصہ جو اِس کہانی کے محض کلیسیائی اور رسمی اطلاق سے کہیں بڑھ کر ہے۔
Jesus bade his disciples beware of the leaven of the Pharisees and of the Sadducees, which he defined as human doctrines. His parable of the "leaven, which a woman took, and hid in three measures of meal, till the whole was leavened," impels the inference that the spiritual leaven signifies the Science of Christ and its spiritual interpretation, — an inference far above the merely ecclesiastical and formal applications of the illustration.
تھوڑا سا خمیر پورے گْندھے ہوئے آٹے کو خمیر بنا دیتا ہے۔۔۔۔ہمیں اظہار کی بدولت اپنا ایمان ثابت کرنا چاہئے۔
A little leaven leavens the whole lump. … We must prove our faith by demonstration.
کرسچن سائنس جسمانی احساسات کے ثبوت سے بلند اٹھتی ہے؛ لیکن اگر آپ نے خود کو گناہ سے اوپر نہیں اٹھایا، تو اپنے بدی کے اندھے پن پر یا کسی ایسی اچھائی پر جسے آپ جانتے ہیں اور عمل نہیں کرتے خود کو مبارکباد مت دیں۔ ایک بے ایمان حالت مسیحی سائنسی حالت سے کوسوں سے دور ہے۔
ٹھیک بات کرتے ہوئے غلط زندگی گزارنا بیوقوفانہ فریب ہے، جس سے کوئی شخص خود کازیادہ نقصان کرتا ہے۔خود گناہ کی بیڑیوں میں جکڑے ہونااور دوسروں کو بیماری کی بیڑیوں سے آزاد کرنا مشکل ہوتا ہے۔خود کی کلائیوں میں بیڑیاں ہوں تو دوسرے کی زنجیر توڑنا کٹھن ہوتا ہے۔تھوڑا سا خمیر پورے گندھے ہوئے آٹے کو خمیر کردیتا ہے۔کرسچن سائنس کی گندم کا ایک دانہ انسانوں کے لئے بڑے عجائبات کا سبب بنتا ہے، کیونکہ قادرِ مطلق سچائی ہے، لیکن نیکی کو جاری رکھنے کے لئے کرسچن سائنس کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا ضروری ہے۔
Christian Science rises above the evidence of the corporeal senses; but if you have not risen above sin yourself, do not congratulate yourself upon your blindness to evil or upon the good you know and do not. A dishonest position is far from Christianly scientific.
To talk the right and live the wrong is foolish deceit, doing one's self the most harm. Fettered by sin yourself, it is difficult to free another from the fetters of disease. With your own wrists manacled, it is hard to break another's chains. A little leaven causes the whole mass to ferment. A grain of Christian Science does wonders for mortals, so omnipotent is Truth, but more of Christian Science must be gained in order to continue in well doing.
تکلیفوں کے وقت سچائی سے ہٹ جانا ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے حق کو کبھی نہیں سمجھا۔
To fall away from Truth in times of persecution, shows that we never understood Truth.
انسانی خیالات پر غور کرنے اور ہستی کی سائنس کو رد کرنے کا صرف ایک عْذر روح سے متعلق ہماری لا علمی ہے، وہ لاعلمی جو صرف الٰہی سائنس کے ادراک کو تسلیم کرتی ہے، ایسا ادراک جس کے وسیلہ ہم زمین پر سچائی کی بادشاہت میں داخل ہوتے ہیں اور یہ سیکھتے ہیں کہ روح لامحدود اور نہایت اعلیٰ ہے۔
The only excuse for entertaining human opinions and rejecting the Science of being is our mortal ignorance of Spirit, — ignorance which yields only to the understanding of divine Science, the understanding by which we enter into the kingdom of Truth on earth and learn that Spirit is infinite and supreme.
ابدی سچائی اِسے تباہ کرتی ہے جو بشر کو غلطی سے سیکھا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور بطور خدا کے فرزند انسان کی حقیقت روشنی میں آتی ہے۔ ظاہر کی گئی سچائی ابدی زندگی ہے۔ بشر جب تک یہ نہیں سیکھتا کہ خدا ہی واحد زندگی ہے، وہ غلطی کے عارضی ملبے، گناہ، بیماری اور موت کے عقیدے سے کبھی نہیں باہر آ سکتا۔
The eternal Truth destroys what mortals seem to have learned from error, and man's real existence as a child of God comes to light. Truth demonstrated is eternal life. Mortal man can never rise from the temporal débris of error, belief in sin, sickness, and death, until he learns that God is the only Life.
ایک بدکار بشر خدا کا خیال نہیں ہے۔ وہ غلطی کے اظہار سے کچھ ہی کم ہے۔ یہ فرض کرنا ایک ہولناک غلطی ہے کہ گناہ، شہوت، نفرت، حسد، ریاکاری، بدلے میں زندگی پوشیدہ ہے۔زندگی اور زندگی کا خیال،سچائی اور سچائی کا خیال انسانوں کو کبھی بیمار، گناہگار یا فانی نہیں بناتے۔
یہ حقیقت کہ مسیح، یا سچائی نے موت پر فتح پائی یا ابھی بھی فتح پاتا ہے،”دہشت کے بادشاہ“ کو محض ایک فانی عقیدے یا غلطی کے علاوہ کچھ بھی ثابت نہیں کرتی، جسے سچائی زندگی کی روحانی شہادتوں کے ساتھ تباہ کرتی ہے؛ اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ حواس کو جو موت دکھائی دیتی ہے فانی فریب نظری کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ حقیقی انسان اور حقیقی کائنات کے لئے کوئی موت کا عمل نہیں۔
A wicked mortal is not the idea of God. He is little else than the expression of error. To suppose that sin, lust, hatred, envy, hypocrisy, revenge, have life abiding in them, is a terrible mistake. Life and Life's idea, Truth and Truth's idea, never make men sick, sinful, or mortal.
The fact that the Christ, or Truth, overcame and still overcomes death proves the "king of terrors" to be but a mortal belief, or error, which Truth destroys with the spiritual evidences of Life; and this shows that what appears to the senses to be death is but a mortal illusion, for to the real man and the real universe there is no death-process.
مادی عقائد اور روحانی فہم کبھی ایک ساتھ نہیں جڑتے۔بعد والا پہلے والے کو نیست کردیتا ہے۔ مخالفت عدم ہے جسے غلطی کا نام دیا گیا ہے۔ ہم آہنگی کچھ ہے جسے سچائی کا نام دیا گیا ہے۔
Material beliefs and spiritual understanding never mingle. The latter destroys the former. Discord is the nothingness named error. Harmony is the somethingness named Truth.
سچائی کا غلطی میں کوئی گھر نہیں اور غلطی سچائی میں کوئی قدم نہیں جما سکتی۔
سچائی لافانی عقل کی ذہانت ہے۔ غلطی نام نہاد لافانی عقل کی ذہانت ہے۔
سچائی وہ روشنی ہے جو غلطی کو دور کرتی ہے۔ جونہی بشر روح کو سمجھنا شروع کرتے ہیں، وہ اِس عقیدے کو ترک کر دیتے ہیں کہ خدا کے علاوہ بھی کوئی وجودیت ہے۔
Truth has no home in error, and error has no foothold in Truth.
Truth is the intelligence of immortal Mind. Error is the so-called intelligence of mortal mind.
Truth is the light which dispels error. As mortals begin to understand Spirit, they give up the belief that there is any true existence apart from God.
یاد رکھیں کہ انسان جلد یا بدیر، خواہ دْکھوں کی بدولت یا سائنس کی بدولت، غلطی پر آمادہ ہو جائیں گے کہ اِسے زیر ہونا ہے۔
فہم کی غلطیوں کو کالعدم کرنے کی کوشش میں کسی بھی شخص کو مکمل اور منصفانہ طور پر انتہائی انمول قیمت ادا کرناہوگی جب تک کہ ساری غلطی مکمل طور پر سچائی کے ماتحت نہ لائی جائے۔گناہ کی مزدوری ادا کرنے کے الٰہی طریقہ کار میں کسی شخص کی گْتھیوں کو سلجھانا اور اِس تجربے سے یہ سیکھنا شامل ہے کہ فہم اور جان کو کیسے الگ الگ کرنا چاہئے۔
Remember that mankind must sooner or later, either by suffering or by Science, be convinced of the error that is to be overcome.
In trying to undo the errors of sense one must pay fully and fairly the utmost farthing, until all error is finally brought into subjection to Truth. The divine method of paying sin's wages involves unwinding one's snarls, and learning from experience how to divide between sense and Soul.
زمانے گزر جاتے ہیں، مگر سچائی کا یہ خمیر ہمیشہ کام کرتا ہے۔ اِسے غلطی کے تمام تر پیمانوں کو نیست کرنا ہوتا ہے، تاکہ انسان کی روحانی آزادی میں ابدی طور پر جلال پائے۔
Ages pass, but this leaven of Truth is ever at work. It must destroy the entire mass of error, and so be eternally glorified in man's spiritual freedom.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔