اتوار 30 جولائی ، 2023



مضمون۔ محبت

SubjectLove

سنہری متن: یرمیاہ 31 باب 3 آیت

”خداوندقدیم سے مجھ پر ظاہر ہوا اور کہا کہ مَیں نے تجھ سے ابدی محبت رکھی اِسی لئے مَیں نے اپنی شفقت تجھ پر بڑھائی۔“



Golden Text: Jeremiah 31 : 3

The Lord hath appeared of old unto me, saying, Yea, I have loved thee with an everlasting love: therefore with lovingkindness have I drawn thee.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: 1یوحنا 4 باب7، 8، 10، 11 آیات • استثنا 7 باب9، 13 آیات


7۔ اے عزیزو! آؤ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں، کیونکہ محبت خدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی خدا سے محبت رکھتا ہے وہ خدا سے پیدا ہوا ہے اور خدا کو جانتا ہے۔

8۔جو محبت نہیں رکھتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔

10۔ محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ اْس نے ہم سے محبت کی۔

11۔ اے عزیزو! جب خدانے ہم سے ایسی محبت کی تو ہم پر بھی ایک دوسرے سے محبت رکھنا فرض ہے۔

9۔ سو جان لے کہ خداوند تیرا خدا وہی خدا ہے۔ وہ وفادار خدا ہے اور جو اْس سے محبت رکھتے اور اْس کے حکموں کو مانتے ہیں اْن کے ساتھ ہزار پشت تک وہ اپنے عہد کو قائم رکھتا اور اْن پر رحم کرتا ہے۔

13۔ اور وہ تجھ سے محبت رکھے گا اور تجھ کو برکت دے گا اور بڑھائے گا۔

Responsive Reading: I John 4 : 7, 8, 10, 11   •   Deuteronomy 7 : 9, 13

7.     Beloved, let us love one another: for love is of God; and every one that loveth is born of God, and knoweth God.

8.     He that loveth not knoweth not God; for God is love.

10.     Herein is love, not that we loved God, but that he loved us.

11.     Beloved, if God so loved us, we ought also to love one another.

9.     Know therefore that the Lord thy God, he is God, the faithful God, which keepeth covenant and mercy with them that love him and keep his commandments to a thousand generations.

13.     And he will love thee, and bless thee, and multiply thee.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یوحنا 3 باب16 آیت

16۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اْس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اْس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

1. John 3 : 16

16     For God so loved the world, that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but have everlasting life.

2 . ۔ متی 4 باب23 آیت

23۔اور یسوع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور اْن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوش خبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی بیماری اور ہرطرح کی کمزوری کو دور کرتا رہا۔

2. Matthew 4 : 23

23     And Jesus went about all Galilee, teaching in their synagogues, and preaching the gospel of the kingdom, and healing all manner of sickness and all manner of disease among the people.

3 . ۔ لوقا 17 باب12تا19 آیات

12۔ اور ایک گاؤں میں داخل ہوتے وقت دس کوڑھی اْس کو ملے۔

13۔ اْنہوں نے دور کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا اے یسوع! اے صاحب! ہم پر رحم کر۔

14۔اْس نے انہیں دیکھ کر کہا جاؤ۔ اپنے تئیں کاہنوں کو دکھاؤ اور ایسا ہوا کہ جاتے جاتے وہ پاک صاف ہو گئے۔

15۔ پھر اْن میں سے ایک یہ دیکھ کر کہ شفا پا گیا بلند آواز سے خدا کی تمجید کرتا ہوا لوٹا۔

16۔ اور منہ کے بل یسوع کے پاؤں پر گر کر اْس کا شکر کرنے لگا اور وہ سامری تھا۔

17۔ یسوع نے جواب میں کہا کیا دسوں پاک صاف نہ ہوئے؟ پھر وہ نَو کہاں ہیں؟

18۔ کیا اِس پردیسی کے سوا اور نہ نکلے جو لوٹ کر خدا کی تمجید کرتے؟

19۔ پھر اْس نے کہا اْٹھ کر چلا جا۔ تیرے ایمان نے تجھے اچھا کیا۔

3. Luke 17 : 12-19

12     And as he entered into a certain village, there met him ten men that were lepers, which stood afar off:

13     And they lifted up their voices, and said, Jesus, Master, have mercy on us.

14     And when he saw them, he said unto them, Go shew yourselves unto the priests. And it came to pass, that, as they went, they were cleansed.

15     And one of them, when he saw that he was healed, turned back, and with a loud voice glorified God,

16     And fell down on his face at his feet, giving him thanks: and he was a Samaritan.

17     And Jesus answering said, Were there not ten cleansed? but where are the nine?

18     There are not found that returned to give glory to God, save this stranger.

19     And he said unto him, Arise, go thy way: thy faith hath made thee whole.

4 . ۔ یوحنا 8 باب58 (تا پہلی) آیت

58۔ یسوع نے اْن سے کہا۔

4. John 8 : 58 (to 1st ,)

58     Jesus said unto them,

5 . ۔ متی 5 باب43تا48 آیات

43۔ تم سْن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دْشمن سے عداوت۔

44۔ لیکن مَیں تم سے کہتاہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اوراپنے ستانے والوں کے لئے دعا کرو۔

45۔ تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔

46۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارا کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والا بھی ایسا نہیں کرتے؟

47۔ اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرتے ہو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟

48۔ پس چاہئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔

5. Matthew 5 : 43-48

43     Ye have heard that it hath been said, Thou shalt love thy neighbour, and hate thine enemy.

44     But I say unto you, Love your enemies, bless them that curse you, do good to them that hate you, and pray for them which despitefully use you, and persecute you;

45     That ye may be the children of your Father which is in heaven: for he maketh his sun to rise on the evil and on the good, and sendeth rain on the just and on the unjust.

46     For if ye love them which love you, what reward have ye? do not even the publicans the same?

47     And if ye salute your brethren only, what do ye more than others? do not even the publicans so?

48     Be ye therefore perfect, even as your Father which is in heaven is perfect.

6 . ۔ لوقا 7 باب 36تا50 آیات

36۔ اورکسی فریسی نے اُس سے دخواست کی کہ میرے ساتھ کھانا کھا۔ پس وہ اُس فریسی کے گھر جا کر کھانا کھانے بیٹھا۔

37۔ تو دیکھو ایک بدچلن عورت جو اُس شہر کی تھی۔ یہ جان کر کہ وہ اُس فریسی کے گھر میں کھانا کھانے بیٹھا ہے سنگ مر مر کے عطردان میں عطر لائی۔

38۔ اور اُس کے پاؤں کے پاس روتی ہوئی پیچھے کھڑی ہوکر اُس کے پاؤں آنسوؤں سے بھگونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے اُن کو پونچھا اور اُس کے پاؤں بہت چومے اور ان پر عطر ڈالا۔

39۔ اس کی دعوت کرنے والا فریسی یہ دیکھ کر اپنے جی میں کہنے لگا کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اُسے چھوتی ہے وہ کون اور کیسی عورت ہے کیونکہ بدچلن ہے۔

40۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا اے شمعون مجھے تجھ سے کچھ کہنا ہے۔ اُس نے کہا اے استاد کہہ۔

41۔ کسی ساہوکار کے دو قرضدار تھے۔ ایک پانچ سو دینار کا دوسرا پچاس کا۔

42۔ جب ان کے پاس ادا کرنے کو کچھ نہ رہا تو اس نے دونوں کو بخش دیا۔ پس اُن میں سے کون اُس سے زیادہ محبت رکھے گا؟

43۔ شمعون نے جواب میں اُس سے کہا میری دانست میں وہ جسے اُس نے زیادہ بخشا۔ اُس نے اُس سے کہا تو نے ٹھیک فیصلہ کیا۔

44۔ اور اُس عورت کی طرف پھر کر اُس نے شمعون سے کہا کیا تو اس عورت کو دیکھتا ہے؟ میں تیرے گھر میں آیا۔ تونے میرے پاؤں دھونے کو پانی نہ دیا مگر اِس نے میرے پاؤں آنسوؤں سے بھگو دئے اور اپنے بالوں سے پونچھے۔

45۔ تونے مجھ کو بوسہ نہ دیا مگر اِس نے جب سے میں آیا ہوں میرے پاؤں چومنا نہ چھوڑا۔

46۔ تونے میرے سر پر تیل نہ ڈالا مگر اِس نے میرے پاؤں پر عطر ڈالا ہے۔

47۔ اسی لئے میں تجھ سے کہتا ہوں کہ اس کے گناہ جو بہت تھے معاف ہوئے کیونکہ اِس نے بہت محبت کی مگر جس کے تھوڑے گناہ معاف ہوئے وہ تھوڑی محبت کرتا ہے۔

48۔ اور اُس عورت سے کہا تیرے گناہ معاف ہوئے۔

49۔ اِس پر وہ جو اُس کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تھے اپنے جی میں کہنے لگے کہ یہ کون ہے جو گناہ بھی معاف کرتا ہے؟

50۔ مگر اُس نے عورت سے کہا تیرے ایمان نے تجھے بچا لیا ہے۔ سلامت چلی جا۔

6. Luke 7 : 36-50

36     And one of the Pharisees desired him that he would eat with him. And he went into the Pharisee’s house, and sat down to meat.

37     And, behold, a woman in the city, which was a sinner, when she knew that Jesus sat at meat in the Pharisee’s house, brought an alabaster box of ointment,

38     And stood at his feet behind him weeping, and began to wash his feet with tears, and did wipe them with the hairs of her head, and kissed his feet, and anointed them with the ointment.

39     Now when the Pharisee which had bidden him saw it, he spake within himself, saying, This man, if he were a prophet, would have known who and what manner of woman this is that toucheth him: for she is a sinner.

40     And Jesus answering said unto him, Simon, I have somewhat to say unto thee. And he saith, Master, say on.

41     There was a certain creditor which had two debtors: the one owed five hundred pence, and the other fifty.

42     And when they had nothing to pay, he frankly forgave them both. Tell me therefore, which of them will love him most?

43     Simon answered and said, I suppose that he, to whom he forgave most. And he said unto him, Thou hast rightly judged.

44     And he turned to the woman, and said unto Simon, Seest thou this woman? I entered into thine house, thou gavest me no water for my feet: but she hath washed my feet with tears, and wiped them with the hairs of her head.

45     Thou gavest me no kiss: but this woman since the time I came in hath not ceased to kiss my feet.

46     My head with oil thou didst not anoint: but this woman hath anointed my feet with ointment.

47     Wherefore I say unto thee, Her sins, which are many, are forgiven; for she loved much: but to whom little is forgiven, the same loveth little.

48     And he said unto her, Thy sins are forgiven.

49     And they that sat at meat with him began to say within themselves, Who is this that forgiveth sins also?

50     And he said to the woman, Thy faith hath saved thee; go in peace.

7 . ۔ یوحنا 10 باب7 (تا پہلی)، 11، 14، 15،17، 18، 27تا30 آیات

7۔ پس یسوع نے اْن سے پھر کہا۔

11۔ اچھا چرواہا مَیں ہوں۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے۔

14۔ اچھا چرواہا مَیں ہوں۔ جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور مَیں باپ کو جانتا ہوں۔

15۔ اِسی طرح مَیں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مجھے جانتی ہیں اور مَیں بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں۔

17۔ باپ مجھ سے اِس لئے محبت رکھتا ہے کہ مَیں اپنی جان دیتاہوں تاکہ اْسے پھر لوں۔

18۔ کوئی اْسے مجھ سے چھینتا نہیں بلکہ مَیں اْسے آپ ہی دیتا ہوں مجھے اْس کے دینے کا بھی اختیار ہے اور اْسے پھر لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا۔

27۔ میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔

28۔ اور مَیں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔

29۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دیں ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا۔

30۔ مَیں اور باپ ایک ہیں۔

7. John 10 : 7 (to 1st ,) 11, 14, 15, 17, 18, 27-30

7     Then said Jesus unto them again,

11     I am the good shepherd: the good shepherd giveth his life for the sheep.

14     I am the good shepherd, and know my sheep, and am known of mine.

15     As the Father knoweth me, even so know I the Father: and I lay down my life for the sheep.

17     Therefore doth my Father love me, because I lay down my life, that I might take it again.

18     No man taketh it from me, but I lay it down of myself. I have power to lay it down, and I have power to take it again. This commandment have I received of my Father.

27     My sheep hear my voice, and I know them, and they follow me:

28     And I give unto them eternal life; and they shall never perish, neither shall any man pluck them out of my hand.

29     My Father, which gave them me, is greater than all; and no man is able to pluck them out of my Father’s hand.

30     I and my Father are one.

8 . ۔ یوحنا 15 باب9، 12 آیات

9۔جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی مَیں نے تم سے محبت رکھی تم میری محبت میں قائم رہو۔

12۔میرا حکم یہ ہے جیسے مَیں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔

8. John 15 : 9, 12

9     As the Father hath loved me, so have I loved you: continue ye in my love.

12     This is my commandment, That ye love one another, as I have loved you.

9 . ۔ یوحنا 16 باب27 آیت

27۔ اِس لئے کہ باپ تو آپ ہی تم کو عزیز رکھتا ہے کیونکہ تم نے مجھ کو عزیز رکھا ہے اور ایمان لائے ہو کہ مَیں باپ کی طرف سے نکلا ہوں۔

9. John 16 : 27

27     For the Father himself loveth you, because ye have loved me, and have believed that I came out from God.

10 . ۔ افسیوں 6 باب24 (تا پہلی)آیت

24۔ جو ہمارے خداوند یسوع مسیح سے لازوال محبت رکھتے ہیں اْن سب پر فضل ہوتا رہے۔

10. Ephesians 6 : 24 (to 1st .)

24     Grace be with all them that love our Lord Jesus Christ in sincerity.



سائنس اور صح


1 . ۔ 6: 17۔18

”خدا محبت ہے۔“ اس سے زیادہ ہم مانگ نہیں سکتے، اِس سے اونچا ہم دیکھ نہیں سکتے اور اس سے آگے ہم جا نہیں سکتے۔

1. 6 : 17-18

"God is Love." More than this we cannot ask, higher we cannot look, farther we cannot go.

2 . ۔ 30 :14۔18

رّبی اور کاہن موسوی شریعت کی تعلیم دیتے تھے، جو کہتی ہے: ”آنکھ کے بدلے آنکھ،“ اور ”جو آدمی کا خون کرے اْس کا خون آدمی سے ہوگا۔“یسوع نے ایسا نہیں کیا جوخدا کے لئے عمل پیرا ہونے والا نیا شخص تھا، اْس نے محبت کی الٰہی شریعت پیش کی جو اپنے لعنت بھیجنے والوں پر بھی برکت چاہتی ہے۔

2. 30 : 14-18

Rabbi and priest taught the Mosaic law, which said: "An eye for an eye," and "Whoso sheddeth man's blood, by man shall his blood be shed." Not so did Jesus, the new executor for God, present the divine law of Love, which blesses even those that curse it.

3 . ۔ 94 :20۔23

جن دس کوڑھیوں کو یسوع نے شفا دی اْن میں سے صرف ایک خدا کا شکر یہ کرنے کے لئے لوٹا، یعنی اْس الٰہی اصول کو تسلیم کرنے کو لوٹا جس نے اْسے شفا دی۔

3. 94 : 20-23

Of the ten lepers whom Jesus healed, but one returned to give God thanks, — that is, to acknowledge the divine Principle which had healed him.

4 . ۔ 31 :12۔13

مسیحی فرائض کی فہرست میں سب سے پہلا فرض جواْس نے اپنے پیروکاروں کوسکھایا وہ سچائی اور محبت کی شفائیہ قوت ہے۔

4. 31 : 12-13

First in the list of Christian duties, he taught his followers the healing power of Truth and Love.

5 . ۔ 362 :1۔7

یہ لوقا کی انجیل کے ساتویں باب میں اس سے منسلک کیا گیا ہے کہ ایک بار یسوع کسی فریسی، بنام شمعون،کے گھر کا مہمانِ خصوصی بنا، وہ شمعون شاگردبالکل نہیں تھا۔ جب وہ کھانا کھا رہے تھے، ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا، جیسے کہ یہ مشرقی مہمان نوازی کے فہم میں رکاوٹ بناہو۔ایک ”اجنبی عورت“ اندر آئی۔

5. 362 : 1-7

It is related in the seventh chapter of Luke's Gospel that Jesus was once the honored guest of a certain Pharisee, by name Simon, though he was quite unlike Simon the disciple. While they were at meat, an unusual incident occurred, as if to interrupt the scene of Oriental festivity. A "strange woman" came in.

6 . ۔ 363 :1 (تا مرتبان)، 3۔23، 26۔10

اْس نے سفید سنگ مرمر کا مرتبان اٹھایا ہوا تھا۔۔۔اپنا مرتبان توڑ کر اْس نے یسوع کے پاؤں کو تیل سے خوشبو دی، اپنے لمبے بالوں سے انہیں پونچھتے ہوئے، جو اْس کے کندھوں پر لٹک رہے تھے، جیسا کہ عام طور پر اْس عمر کی عورتوں کے ہوتے تھے۔

کیا یسوع نے اْس عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھا؟ کیا اْس نے اْس کی عقیدت کو روک دیا؟ نہیں! اْس نے نہایت شفقت کے ساتھ اْس کی تعریف کی۔ اور ایسا کچھ نہیں ہو اتھا۔ وہ سب جانتے ہوئے جو اْس کے ارد گرد کھڑے لوگ اپنے دلوں میں سوچ رہے تھے، خاص طور پر میزبان کے دل میں، وہ پریشان ہو رہے تھے کہ ایک نبی ہوتے ہوئے مہمان خصوصی ایک دم سے اس عورت کے اخلاقی درجے کو نہیں جانچ پایا اور اْسے دور ہٹنے کو نہیں کہا، یہ سب جانتے ہوئے، یسوع نے انہیں ایک مختصر تمثیل یا کہانی کے ساتھ ملامت کیا۔ اْس نے دو مقروضوں کا ذکر کیا ایک نے بڑی رقم ادا کرنا تھی اور دوسرے نے تھوڑی، جنہیں اپنے مشترکہ ساہوکار کی جانب سے اس ذمہ داری سے بری کیا گیا تھا۔ ”اْن میں سے کون اْس سے زیادہ محبت رکھے گا؟“ یہ مالک کا سوال شمعون فریسی سے تھا اور شمعون نے جواب دیا، ”وہ جسے اْس نے زیادہ قرض معاف کیا۔“ یسوع نے اس جواب کی تصدیق کی، اور یوں سب کے لئے ایک سبق دیا، جس کے بعد اْس عورت کے لئے یہ شاندار اعلان دیا، ”تیرے گناہ معاف ہوئے۔“

اْس کے پاؤں پر عطر لگانے سے پہلے اْس نے اپنے آنسوؤں سے انہیں دھویا۔ دوسرے ثبوتوں کی غیر موجودگی میں، اْس کی معافی، تبدیلی اور دانش میں ترقی کی توقع کے لئے کیا اْس کا غم موزوں ثبوت تھا؟ یقیناً اس حقیقت میں حوصلہ افزائی پائی جاتی تھی کہ وہ ایک یقینی اچھائی اور پاکیزگی والے انسان کے لئے اپنا پیار ظاہر کر رہی تھی، جسے آج تک زمین کے سیارے پر پاؤں رکھنے والے سب سے بہترین آدمی کے طور پر جانا گیا ہے۔ اْس کی عقیدت بے تصنع تھی، اور اِس کا اظہار اْس شخص کے لئے ہوا جو جلد ہی سب گناہگاروں کی طرف سے اپنی فانی وجودیت کو لْٹانے والاتھا، اگرچہ وہ اس سے واقف نہیں تھے، تاکہ اْس کے کلام اور اعمال کے وسیلہ وہ ہوس پرستی اور گناہ سے آزاد ہو جائیں۔

اس قسم کے ناقابل بیان احساس کے لئے کس کو بلند خراج تحسین جائے گا فریسی کی مہمان نوازی کو یا مگدلینی کی ندامت کو؟

6. 363 : 1 (to jar), 3-23, 26-10

She bore an alabaster jar … Breaking the sealed jar, she perfumed Jesus' feet with the oil, wiping them with her long hair, which hung loosely about her shoulders, as was customary with women of her grade.

Did Jesus spurn the woman? Did he repel her adoration? No! He regarded her compassionately. Nor was this all. Knowing what those around him were saying in their hearts, especially his host, — that they were wondering why, being a prophet, the exalted guest did not at once detect the woman's immoral status and bid her depart, — knowing this, Jesus rebuked them with a short story or parable. He described two debtors, one for a large sum and one for a smaller, who were released from their obligations by their common creditor. "Which of them will love him most?" was the Master's question to Simon the Pharisee; and Simon replied, "He to whom he forgave most." Jesus approved the answer, and so brought home the lesson to all, following it with that remarkable declaration to the woman, "Thy sins are forgiven."

She bathed his feet with her tears before she anointed them with the oil. In the absence of other proofs, was her grief sufficient evidence to warrant the expectation of her repentance, reformation, and growth in wisdom? Certainly there was encouragement in the mere fact that she was showing her affection for a man of undoubted goodness and purity, who has since been rightfully regarded as the best man that ever trod this planet. Her reverence was unfeigned, and it was manifested towards one who was soon, though they knew it not, to lay down his mortal existence in behalf of all sinners, that through his word and works they might be redeemed from sensuality and sin.

Which was the higher tribute to such ineffable affection, the hospitality of the Pharisee or the contrition of the Magdalen?

7 . ۔ 367 :10۔16

سچائی، مسیح کو تلاش کرنے سے مراد یہی ہے، ”مچھلیوں اور روٹیوں کے لئے“ نہیں، نہ ہی فریسی کی مانند، رْتبے کے تکبر اور تعلیم کے دکھاوے کے ساتھ، بلکہ مریم مگدلینی کی مانند، پاک دینداری کے عروج سے، خوشی کے تیل اور شکرگزاری کے عطر کے ساتھ، معافی کے آنسوؤں اور اْن بالوں کے ساتھ جو سب کے سب باپ کی طرف سے گنے ہوئے ہیں۔

7. 367 : 10-16

This is what is meant by seeking Truth, Christ, not "for the loaves and fishes," nor, like the Pharisee, with the arrogance of rank and display of scholarship, but like Mary Magdalene, from the summit of devout consecration, with the oil of gladness and the perfume of gratitude, with tears of repentance and with those hairs all numbered by the Father.

8 . ۔ 241: 19۔22

ساری جانثاری کا مادا الٰہی محبت، بیماری کی شفا اور گناہ کی تباہی کا عکس اور اظہار ہے۔ہمارے مالک نے کہا، ”اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔“

8. 241 : 19-22

The substance of all devotion is the reflection and demonstration of divine Love, healing sickness and destroying sin. Our Master said, "If ye love me, keep my commandments."

9 . ۔ 94: 1۔4

یسوع نے تعلیم دی کہ ایک خدا، ایک روح جو انسان کو خود کی شبیہ اور صورت پر خلق کرتا ہے، روح سے ہے نہ کہ مادے سے۔انسان لامتناہی سچائی، زندگی اور محبت کی عکاسی کرتا ہے۔

9. 94 : 1-4

Jesus taught but one God, one Spirit, who makes man in the image and likeness of Himself, — of Spirit, not of matter. Man reflects infinite Truth, Life, and Love.

10 . ۔ 19 :6۔11

یسوع نے انسان کو محبت کا حقیقی فہم، یسوع کی تعلیمات کا الٰہی اصول دیتے ہوئے خدا کے ساتھ راضی ہونے میں مدد کی، اور محبت کا یہ حقیقی فہم روح کے قانون، الٰہی محبت کے قانون کے وسیلہ انسان کو مادے، گناہ اور موت کے قانون سے آزاد کرتا ہے۔

10. 19 : 6-11

Jesus aided in reconciling man to God by giving man a truer sense of Love, the divine Principle of Jesus' teachings, and this truer sense of Love redeems man from the law of matter, sin, and death by the law of Spirit, — the law of divine Love.

11 . ۔ 340 :23۔29

ایک لامتناہی خدایعنی اچھائی انسان اور اقوام کو متحد کرتا ہے، انسانوں میں بھائی چارہ قائم کرتا ہے، جنگ و جدول ختم کرتا ہے، اس کلام کو پورا کرتا ہے کہ، ”اپنے پڑوسی سے اپنی مانند پیار کر،“ غیر قوموں اور مسیحی بت پرستوں کواور جو کچھ بھی معاشرتی، شہری، مجرمانہ، سیاسی، اور مذہبی شعبہ جات میں غلط ہو رہا ہے اْسے فنا کرتا ہے، جنس کو مساوی کرتا ہے، انسان پر کی گئی لعنت کو منسوخ کرتا ہے اور ایسا کچھ نہیں چھوڑتا جو گناہ کا مرتکب ہو اور دْکھ اٹھائے، سزاء پائے یا فنا ہو جائے۔

11. 340 : 23-29

One infinite God, good, unifies men and nations; constitutes the brotherhood of man; ends wars; fulfils the Scripture, "Love thy neighbor as thyself;" annihilates pagan and Christian idolatry, — whatever is wrong in social, civil, criminal, political, and religious codes; equalizes the sexes; annuls the curse on man, and leaves nothing that can sin, suffer, be punished or destroyed.

12 . ۔ 577 :32۔18

درج ذیل زبور میں ایک لفظ، اگرچہ بہت مدھم طور پر، اْس روشنی کو ظاہر کرتا ہے جو کرسچن سائنس لفظ جسمانی فہم کو خدا کے غیر جسمانی یا روحانی فہم کے لفظ کے ساتھ بدلتے ہوئے کلام پر آتی ہے۔

زبور 23

] الٰہی محبت [ میرا چوپان ہے؛ مجھے کمی نہ ہوگی۔

] محبت [ مجھے ہری ہری چراہ گاہوں میں بٹھاتی ہے؛] محبت [ مجھے راحت کے چشموں کے پاس لے جاتی ہے۔

] محبت [ میری جان] روحانی فہم [ کو بحال کرتی ہے:] محبت [ مجھے اپنے نام کی خاطر صداقت کی راہوں پر لے چلتی ہے۔

بلکہ خواہ موت کی سایہ کی وادی میں سے میرا گزر ہو میں کسی بلا سے نہیں ڈروں گا؛ کیونکہ] محبت [ میرے ساتھ ہے؛ ]محبت کا[ عصا اور ]محبت کی[ لاٹھی سے مجھے تسلی ہے۔

] محبت [ میرے دشمنوں کے روبرو میرے آگے دستر خوان بچھاتی ہے: ] محبت [ نے میرے سر پر تیل ملا ہے؛ میرا پیالہ لبریز ہوتا ہے۔

یقیناً بھلائی اور رحمت عمر بھر میرے ساتھ رہیں گی میں ہمیشہ] محبت [ کے گھر میں ] شعور میں [ سکونت کروں گا۔

12. 577 : 32-18

In the following Psalm one word shows, though faintly, the light which Christian Science throws on the Scriptures by substituting for the corporeal sense, the incorporeal or spiritual sense of Deity: —

PSALM XXIII

[Divine love] is my shepherd; I shall not want.

[Love] maketh me to lie down in green pastures:

[love] leadeth me beside the still waters.

[Love] restoreth my soul [spiritual sense]: [love] leadeth me in the paths of righteousness for His name's sake.

Yea, though I walk through the valley of the shadow of death, I will fear no evil: for [love] is with me; [love’s] rod and [love’s] staff they comfort me.

[Love] prepareth a table before me in the presence of mine enemies: [love] anointeth my head with oil; my cup runneth over.

Surely goodness and mercy shall follow me all the days of my life; and I will dwell in the house [the consciousness] of [love] for ever.

13 . ۔ 113 :5۔6

کرسچن سائنس کا لازمی حصہ، دل اور جان محبت ہے۔

13. 113 : 5-6

The vital part, the heart and soul of Christian Science, is Love.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔