اتوار 27 اگست ، 2023
”کیونکہ خدا ایک ہے اور خدا اور انسان کے بیچ میں درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو انسان ہے۔“
“For there is one God, and one mediator between God and men, the man Christ Jesus.”
1۔ دیکھو میرا خادم جس کو میں سنبھالتا ہوں۔ میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خوش ہوتا ہے۔ مَیں نے اپنی روح اْس پر ڈالی۔وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا۔
2۔ وہ نہ چلائے گا اور نہ شور کرے گا اور نہ بازاروں میں اْس کی آواز سنائی دے گی۔
3۔ وہ مسلے ہوئے سر کنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بجھائے گا۔ وہ راستی سے عدالت کرے گا۔
4۔ وہ ماندہ نہ ہوگا اور ہمت نہ ہارے گا جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم نہ کر لے۔ جزیرے اْس کی شریعت کا انتظار کریں گے۔
5۔ جس نے آسمان کو پیدا کیا اور تان دیا جس نے زمین کو اور جو کچھ اْس میں سے نکلتا ہے پھیلایا اور جو اْس کے باشندوں کو سانس اور اْس پر چلنے والوں کو روح عنایت کرتا ہے یعنی خداوند خدا یوں فرماتا ہے۔
6۔ مَیں خداوند نے تجھے صداقت سے بلایا مَیں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لئے تجھے دوں گا۔
7۔ کہ تْو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور اسیروں کو قید سے نکالے اور اْن کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں قید خانے سے چھڑائے۔
8۔ یہواہ مَیں ہی ہوں یہی میرا نام ہے مَیں اپنا جلال کسی دوسرے کے لئے اور اپنی حمد کھودی ہوئی مورتوں کے لئے روا نہ رکھوں گا۔
1. Behold my servant, whom I uphold; mine elect, in whom my soul delighteth; I have put my spirit upon him: he shall bring forth judgment to the Gentiles.
2. He shall not cry, nor lift up, nor cause his voice to be heard in the street.
3. A bruised reed shall he not break, and the smoking flax shall he not quench: he shall bring forth judgment unto truth.
4. He shall not fail nor be discouraged, till he have set judgment in the earth: and the isles shall wait for his law.
5. Thus saith God the Lord, he that created the heavens, and stretched them out; he that spread forth the earth, and that which cometh out of it; he that giveth breath unto the people upon it, and spirit to them that walk therein:
6. I the Lord have called thee in righteousness, and will hold thine hand, and will keep thee, and give thee for a covenant of the people, for a light of the Gentiles;
7. To open the blind eyes, to bring out the prisoners from the prison, and them that sit in darkness out of the prison house.
8. I am the Lord: that is my name: and my glory will I not give to another, neither my praise to graven images.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ یسوع مسیح ابن خدا کی خوشخبری کا شروع۔
9۔ اور اْن دنوں ایسا ہوا کہ یسوع نے گلیل کے ناصرت سے آکر یردن میں یوحنا سے بپتسمہ لیا۔
10۔ اور جب وہ پانی سے نکل کر اوپر آیا تو فی الفور اْس نے آسمان کو پھٹتے اور روح کو کبوتر کی مانند اپنے اوپر اْترتے دیکھا۔
11۔ اور آسمان سے آواز آئی کہ تْو میرا پیارا بیٹا ہے۔ تجھ سے مَیں خوش ہوں۔
1 The beginning of the gospel of Jesus Christ, the Son of God;
9 And it came to pass in those days, that Jesus came from Nazareth of Galilee, and was baptized of John in Jordan.
10 And straightway coming up out of the water, he saw the heavens opened, and the Spirit like a dove descending upon him:
11 And there came a voice from heaven, saying, Thou art my beloved Son, in whom I am well pleased.
14۔ پھر یسوع روح کی قوت سے بھرا ہوا گلیل کو لوٹا اور سارے گردو نواح میں اْس کی شہرت پھیل گئی۔
15۔ اور وہ اْن کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا رہا اور سب اْس کی بڑائی کرتے رہے۔
16۔ اور وہ ناصرت میں آیا جہاں اْس نے پرورش پائی تھی اور اپنے دستور کے موافق سبت کے دن عبادتخانہ میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہوا۔
17۔ اور یسعیا ہ نبی کی کتاب اْس کو دی گئی اور کتاب کھول کر اْس نے وہ مقام نکالا جہاں لکھا تھا کہ۔
18۔ خداوند کا روح مجھ پر ہے۔ اِس لئے کہ اْس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کے لئے مسح کیا۔ اْس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سناؤں۔ کچلے ہوؤں کو آزاد کروں۔
19۔ اور خداوند کے سال مقبول کی منادی کروں۔
20۔ پھر وہ کتاب بند کر کے اور خادم کو واپس دے کر بیٹھ گیا اور جتنے عبادتخانہ میں تھے سب کی آنکھیں اْس پر لگی تھیں۔
21۔ وہ اْن سے کہنے لگا کہ آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا۔
14 And Jesus returned in the power of the Spirit into Galilee: and there went out a fame of him through all the region round about.
15 And he taught in their synagogues, being glorified of all.
16 And he came to Nazareth, where he had been brought up: and, as his custom was, he went into the synagogue on the sabbath day, and stood up for to read.
17 And there was delivered unto him the book of the prophet Esaias. And when he had opened the book, he found the place where it was written,
18 The Spirit of the Lord is upon me, because he hath anointed me to preach the gospel to the poor; he hath sent me to heal the brokenhearted, to preach deliverance to the captives, and recovering of sight to the blind, to set at liberty them that are bruised,
19 To preach the acceptable year of the Lord.
20 And he closed the book, and he gave it again to the minister, and sat down. And the eyes of all them that were in the synagogue were fastened on him.
21 And he began to say unto them, This day is this scripture fulfilled in your ears.
30۔ اور دیکھو دو اندھوں نے جو راہ کے کنارے بیٹھے تھے یہ سن کر کہ یسوع جا رہا ہے چلا کر کہا اے خداوند ابنِ داؤد ہم پر رحم کر۔
31۔ لوگوں نے اْنہیں ڈانٹا کہ چپ رہیں۔ لیکن وہ اور بھی چلا کر کہنے لگے کہ اے خداوند ابنِ داؤد ہم پر رحم کر۔
32۔ یسوع نے کھڑے ہو کر انہیں بلایا اور کہا تم کیا چاہتے ہو کہ مَیں تمہارے لئے کروں؟
33۔ انہوں نے اْس سے کہا اے خداوند یہ کہ ہماری آنکھیں کھْل جائیں۔
34۔ یسوع کو ترس آیا اوراْس نے اْن کی آنکھوں کو چھوا۔ اور وہ فوراً بینا ہو گئے اور اْس کے پیچھے ہو لئے۔
30 And, behold, two blind men sitting by the way side, when they heard that Jesus passed by, cried out, saying, Have mercy on us, O Lord, thou Son of David.
31 And the multitude rebuked them, because they should hold their peace: but they cried the more, saying, Have mercy on us, O Lord, thou Son of David.
32 And Jesus stood still, and called them, and said, What will ye that I shall do unto you?
33 They say unto him, Lord, that our eyes may be opened.
34 So Jesus had compassion on them, and touched their eyes: and immediately their eyes received sight, and they followed him.
34۔ اور اْس نے اتر کر بھیڑ دیکھی اور اْسے اْن پر ترس آیا کیونکہ وہ اْن بھیڑوں کی مانند تھے جن کا چرواہا نہ ہو اور وہ اْن کو بہت سی باتوں کی تعلیم دینے لگا۔
35۔ جب دن بہت ڈھل گیا تو اْس کے شاگرد اْس کے پاس آکر کہنے لگے یہ جگہ بہت ویران ہے اور بہت دن ڈھل گیا ہے۔
36۔ اِن کو رخصت کر تاکہ چاروں طرف کی بستیوں اور گاؤں میں جا کر اپنے لئے کچھ کھانے کو مول لیں۔
37۔ اْس نے اْن سے جواب میں کہا تم ہی انہیں کھانے کو دو۔ اْنہوں نے اْس سے کہا کیا ہم جا کر دو سو دینار کی روٹیاں مول لائیں اور اِن کو کھلائیں؟
38۔ اْس نے اْن سے کہا تمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟ جاؤ دیکھو۔ اْنہوں نے دریافت کر کے کہا پانچ اور دو مچھلیاں۔
39۔ اْس نے اْن کو حکم دیا کہ سب ہری گھاس پر دستہ دستہ ہو کر بیٹھ جائیں۔
41۔ پھر اْس نے وہ پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں لیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر برکت دی اور روٹیاں توڑ کر شاگردوں کو دیتا گیا کہ اْن کے آگے رکھیں اور وہ دو مچھلیاں بھی اْن سب میں بانٹ دیں۔
42۔ پس وہ سب کھا کر سیر ہو گئے۔
43۔ اور اْنہوں نے ٹکڑوں اور مچھلیوں سے بارہ ٹوکریاں بھر کر اٹھائیں۔
44۔ اور کھانے والے پانچ ہزار تھے۔
34 And Jesus, when he came out, saw much people, and was moved with compassion toward them, because they were as sheep not having a shepherd: and he began to teach them many things.
35 And when the day was now far spent, his disciples came unto him, and said, This is a desert place, and now the time is far passed:
36 Send them away, that they may go into the country round about, and into the villages, and buy themselves bread: for they have nothing to eat.
37 He answered and said unto them, Give ye them to eat. And they say unto him, Shall we go and buy two hundred pennyworth of bread, and give them to eat?
38 He saith unto them, How many loaves have ye? go and see. And when they knew, they say, Five, and two fishes.
39 And he commanded them to make all sit down by companies upon the green grass.
41 And when he had taken the five loaves and the two fishes, he looked up to heaven, and blessed, and brake the loaves, and gave them to his disciples to set before them; and the two fishes divided he among them all.
42 And they did all eat, and were filled.
43 And they took up twelve baskets full of the fragments, and of the fishes.
44 And they that did eat of the loaves were about five thousand men.
11۔ تھوڑے عرصے کے بعد ایسا ہوا کہ وہ نائین نام کے ایک شہر کو گیا۔
12۔ جب وہ شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھو ایک مردے کو باہر لئے جاتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھااور وہ بیوہ تھی اور شہر کے بہتیرے لوگ اْس کے ساتھ تھے۔
13۔ اْسے دیکھ کر خداوند کو ترس آیا اور اْس سے کہا مت رو۔
14۔ پھر اْس نے پاس آکر جنازے کو چھوا اور اٹھانے والے کھڑے ہوگئے اور اْس نے کہا اے جوان! مَیں تجھ سے کہتا ہوں اْٹھ۔
15۔ وہ مردہ اْٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور اْس نے اْسے اْس کی ماں کو سونپ دیا۔
16۔ اور سب پر دہشت چھا گئی اور خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہوا ہے اور خدا نے اپنی امت پر توجہ کی ہے۔
11 And it came to pass the day after, that he went into a city called Nain;
12 Now when he came nigh to the gate of the city, behold, there was a dead man carried out, the only son of his mother, and she was a widow:
13 And when the Lord saw her, he had compassion on her, and said unto her, Weep not.
14 And he came and touched the bier: and they that bare him stood still. And he said, Young man, I say unto thee, Arise.
15 And he that was dead sat up, and began to speak. And he delivered him to his mother.
16 And there came a fear on all: and they glorified God, saying, That a great prophet is risen up among us; and, That God hath visited his people.
8۔ فلپس نے اْس سے کہا اے خداوند! باپ کو ہم کو دکھا۔ یہی ہمیں کافی ہے۔
9۔ یسوع نے اْس سے کہا اے فلپس! مَیں اتنی مدت سے تمہارے ساتھ ہوں کیا تْو مجھے نہیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا ہے اْس نے باپ کو دیکھا ہے۔ تْو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟
10۔ کیا تْو یقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو مَیں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر کام کرتا ہے۔
11۔ میرا یقین کرو کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔ نہیں تو میرے کاموں ہی کے سبب سے میرا یقین کرو۔
12۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں۔
8 Philip saith unto him, Lord, shew us the Father, and it sufficeth us.
9 Jesus saith unto him, Have I been so long time with you, and yet hast thou not known me, Philip? he that hath seen me hath seen the Father; and how sayest thou then, Shew us the Father?
10 Believest thou not that I am in the Father, and the Father in me? the words that I speak unto you I speak not of myself: but the Father that dwelleth in me, he doeth the works.
11 Believe me that I am in the Father, and the Father in me: or else believe me for the very works’ sake.
12 Verily, verily, I say unto you, He that believeth on me, the works that I do shall he do also; and greater works than these shall he do; because I go unto my Father.
1۔ یسوع نے یہ باتیں کہیں اوراپنی آنکھیں آسمان کی طرف اْٹھا کر کہا اے باپ! وہ گھڑی آپہنچی۔ اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔
2۔ چنانچہ تْو نے اْسے ہر بشر پر اختیار دیا ہے تاکہ جنہیں تْو نے اْسے بخشا ہے اْن سب کو ہمیشہ کی زندگی دے۔
3۔ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور بر حق کو اور یسوع مسیح کو جسے تْو نے بھیجا ہے جانیں۔
20۔ مَیں صرف انہی کے لئے درخواست نہیں کرتا بلکہ اْن کے لئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلہ سے مجھ پر ایمان لائیں گے۔
21۔ تاکہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اے باپ! تْو مجھ میں ہے اور مَیں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں اور دنیا ایمان لائے کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا۔
26۔ اور مَیں نے اْنہیں تیرے نام سے واقف کیا اور کرتارہوں گا تاکہ جو محبت تجھ کو مجھ سے تھی وہ اْن میں ہو اور مَیں اْن میں ہوں۔
1 These words spake Jesus, and lifted up his eyes to heaven, and said, Father, the hour is come; glorify thy Son, that thy Son also may glorify thee:
2 As thou hast given him power over all flesh, that he should give eternal life to as many as thou hast given him.
3 And this is life eternal, that they might know thee the only true God, and Jesus Christ, whom thou hast sent.
20 Neither pray I for these alone, but for them also which shall believe on me through their word;
21 That they all may be one;
26 And I have declared unto them thy name, and will declare it: that the love wherewith thou hast loved me may be in them, and I in them.
یسوع ناصری نے انسان کی باپ کے ساتھ یگانگت کو بیان کیا، اور اس کے لئے ہمارے اوپر اْس کی لامتناہی عقیدت کا قرض ہے۔ اْس کا مشن انفرادی اور اجتماعی دونوں تھا۔ اْس نے زندگی کا مناسب کام سر انجام دیا نہ صرف خود کے انصاف کے لئے بلکہ انسانوں پر رحم کے باعث، انہیں یہ دکھانے کے لئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا ہے، بلکہ نہ تو اْن کے لئے خود کچھ کرنے یا نہ ہی اْنہیں کسی ایک ذمہ داری سے آزاد کرنے کے لئے یہ کیا۔
Jesus of Nazareth taught and demonstrated man's oneness with the Father, and for this we owe him endless homage. His mission was both individual and collective. He did life's work aright not only in justice to himself, but in mercy to mortals, — to show them how to do theirs, but not to do it for them nor to relieve them of a single responsibility.
یسوع نے انسان کو محبت کا حقیقی فہم، یسوع کی تعلیمات کا الٰہی اصول دیتے ہوئے خدا کے ساتھ راضی ہونے میں مدد کی، اور محبت کا یہ حقیقی فہم روح کے قانون، الٰہی محبت کے قانون کے وسیلہ انسان کو مادے، گناہ اور موت کے قانون سے آزاد کرتا ہے۔
Jesus aided in reconciling man to God by giving man a truer sense of Love, the divine Principle of Jesus' teachings, and this truer sense of Love redeems man from the law of matter, sin, and death by the law of Spirit, — the law of divine Love.
یسوع ایک کنواری کا بیٹا تھا۔ اْسے خدا کا کلام سنانے کے لئے اور ایک ایسی انسانی شکل میں بشر پر ظاہر ہونے کے لئے مقرر کیا گیا تھا جسے وہ سمجھ سکتے اور ساتھ ہی ساتھ اس کا ادراک پا سکیں۔مریم کا اْسے حمل میں لینا روحانی تھا، کیونکہ صرف پاکیزگی ہی سچائی اور محبت کو منعکس کرسکتی ہے، جو واضح طور پر نیک اور پاک مسیح یسوع میں مجسم ہوتی ہے۔ اْس نے الوہیت کی اعلیٰ قسم ظاہر کی، جسے ایک جسمانی شکل ہی اْس دور میں ظاہر کر سکتی تھی۔ایک حقیقی اور مثالی انسان میں جسمانی عنصر داخل نہیں ہو سکتا۔تاہم یہ مسیح ہی ہے جو اپنی صورت پر بنائے گئے انسان اور خدا کے مابین اتفاق یا روحانی معاہدے کو بیان کرتا ہے۔
Jesus was the son of a virgin. He was appointed to speak God's word and to appear to mortals in such a form of humanity as they could understand as well as perceive. Mary's conception of him was spiritual, for only purity could reflect Truth and Love, which were plainly incarnate in the good and pure Christ Jesus. He expressed the highest type of divinity, which a fleshly form could express in that age. Into the real and ideal man the fleshly element cannot enter. Thus it is that Christ illustrates the coincidence, or spiritual agreement, between God and man in His image.
الٰہی خطاب یسوع کی مانند مسیح کوئی نام نہیں ہے۔ مسیح خدا کی روحانی،ابدی فطرت کو ظاہر کرتا ہے۔یہ نام مسیحا کا مترادف لفظ ہے، اور اْس روحانیت کی جانب اشارہ دیتا ہے جو ایسی زندگی سے سکھائی، بیان کی گئی اور ظاہر کی گئی جس کے لئے مسیح یسوع مجسم ہوا تھا۔
Christ is not a name so much as the divine title of Jesus. Christ expresses God's spiritual, eternal nature. The name is synonymous with Messiah, and alludes to the spirituality which is taught, illustrated, and demonstrated in the life of which Christ Jesus was the embodiment.
یسوع نے تعلیم دی کہ ایک خدا، ایک روح جو انسان کو خود کی شبیہ اور صورت پر خلق کرتا ہے، روح سے ہے نہ کہ مادے سے۔انسان لامتناہی سچائی، زندگی اور محبت کی عکاسی کرتا ہے۔لہٰذہ انسان کی فطرت ”شبیہ“ اور ”صورت“ کی اصطلاحات جس کسی چیز کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے اْسے سمجھتی اور شامل کرتی ہے، جیسے کہ کلام میں استعمال ہوا ہے۔
Jesus taught but one God, one Spirit, who makes man in the image and likeness of Himself, — of Spirit, not of matter. Man reflects infinite Truth, Life, and Love. The nature of man, thus understood, includes all that is implied by the terms "image" and "likeness" as used in Scripture.
یسوع کی زندگی نے،الٰہی طور پر اور سائنسی طور پر،یہ ثابت کیا کہ خدا محبت ہے، جبکہ کاہن اور ربی نے خدا کے اِس قدر نہایت طاقتور ہونے کی توثیق کی، جو پیار کرتا اور نفرت کرتا ہے۔یہودی الٰہیات نے خدا کی غیر تبدیل شدہ محبت کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
Jesus' life proved, divinely and scientifically, that God is Love, whereas priest and rabbi affirmed God to be a mighty potentate, who loves and hates. The Jewish theology gave no hint of the unchanging love of God.
یسوع نے اظہار کی بدولت زندگی کا طریقہ کار سکھایا، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کیسے الٰہی اصول بیمار کو شفادیتا، غلطی کو باہر نکالتا اور موت پر فتح مند ہوتا ہے۔ کسی دوسرے شخص کی نسبت جس کا اصل کم روحانی ہویسوع نے خدا کی مثال کو بہت بہتر انداز میں پیش کیا۔ خدا کے ساتھ اْس کی فرمانبرداری سے اْس نے دیگر سبھی لوگوں کی نسبت ہستی کے اصول کو زیادہ روحانی ظاہر کیا۔
اگرچہ گناہ اور بیماری پر اپنا اختیار ظاہر کرتے ہوئے، عظیم معلم نے کسی صورت دوسروں کو اْن کے تقویٰ کے مطلوبہ ثبوت دینے میں مدد نہیں کی۔ اْس نے اْن کی ہدایت کے لئے کام کیا، کہ وہ اِس طاقت کا اظہار اْسی طرح کریں جیسے اْس نے کیا اور اِس کے الٰہی اصول کو سمجھیں۔
Jesus taught the way of Life by demonstration, that we may understand how this divine Principle heals the sick, casts out error, and triumphs over death. Jesus presented the ideal of God better than could any man whose origin was less spiritual. By his obedience to God, he demonstrated more spiritually than all others the Principle of being.
Though demonstrating his control over sin and disease, the great Teacher by no means relieved others from giving the requisite proofs of their own piety. He worked for their guidance, that they might demonstrate this power as he did and understand its divine Principle.
اْس کا مقصد آسمانی ہستی کی سائنس کو ظاہر کرنا تھا تاکہ اِسے ثابت کرے جو خدا ہے اور جو وہ انسان کے لئے کرتا ہے۔
سچائی سے متعلق یسوع کی تعلیم اور اْس کی مشق میں ایک قربانی شامل ہوتی ہے جو ہمیں اِس کے اصول کو بطور محبت قبول کرنے کی جانب راغب کرتی ہے۔یہ ہمارے مالک کی بے گناہ زندگی اور موت پر اْس کی قدرت کے اظہار کی بیش قیمت درآمد تھی۔ اْس نے اپنے کاموں سے یہ ثابت کیا کہ کرسچن سائنس بیماری، گناہ اور موت کو تباہ کرتی ہے۔
His mission was to reveal the Science of celestial being, to prove what God is and what He does for man.
Jesus' teaching and practice of Truth involved such a sacrifice as makes us admit its Principle to be Love. This was the precious import of our Master's sinless career and of his demonstration of power over death. He proved by his deeds that Christian Science destroys sickness, sin, and death.
یسوع نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے لئے ایک پیغام بھیجا جس کا مقصد ایک سوال سے کہیں بڑھ کر یہ ثابت کرنا تھا کہ مسیح آچکا تھا: ”جو کچھ تم دیکھتے اور سْنتے ہو جا کر یوحنا سے بیان کردو۔ کہ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتے پھرتے ہیں۔ کوڑھی پاک صاف کئے جاتے اور بہرے سْنتے ہیں اور مردے زندہ کئے جاتے ہیں اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے۔“دوسرے الفاظ میں: یوحنا کو بتا دو کہ الٰہی قوت کا اظہار کیا ہے؛ تو وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ مسیحائی کام میں خدا ایک طاقت ہے۔
Jesus sent a message to John the Baptist, which was intended to prove beyond a question that the Christ had come: "Go your way, and tell John what things ye have seen and heard; how that the blind see, the lame walk, the lepers are cleansed, the deaf hear, the dead are raised, to the poor the gospel is preached." In other words: Tell John what the demonstration of divine power is, and he will at once perceive that God is the power in the Messianic work.
مسیحت جیسے کہ یسوع نے اس کی تعلیم دی کوئی بھید یا تقریبات کا ایک نظام نہیں اور نہ ہی ایک رسمی یہواہ کی طرف سے ایک خاص تحفہ ہے؛ بلکہ یہ غلطی کو رفع کرنے اور بیمار کو شفا دینے کے لئے الٰہی محبت کا اظہار تھا، محض مسیح یا سچائی کے نام سے نہیں، بلکہ سچائی کے اظہار میں، جیسا معاملہ الٰہی روشنی کے سلسلہ کا ہواہوگا۔
یسوع نے مسیح کی شفا کی روحانی بنیاد پر اپنا چرچ قائم کیا اور اپنے مشن کو برقرار رکھا۔ اْس نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ اْس کا مذہب الٰہی اصول تھا، جو خطا کو خارج کرتا اور بیمار اور گناہگار دونوں کو شفا دیتا تھا۔ اْس نے خدا سے جدا کسی دانش، عمل اور نہ ہی زندگی کا دعویٰ کیا۔ باوجود اْس ایذا کے جو اِسی کے باعث اْس پر آئی، اْس نے الٰہی قوت کو انسان کو بدنی اور روحانی دونوں لحاظ سے نجات دینے کے لئے استعمال کیا۔
Christianity as Jesus taught it was not a creed, nor a system of ceremonies, nor a special gift from a ritualistic Jehovah; but it was the demonstration of divine Love casting out error and healing the sick, not merely in the name of Christ, or Truth, but in demonstration of Truth, as must be the case in the cycles of divine light.
Jesus established his church and maintained his mission on a spiritual foundation of Christ-healing. He taught his followers that his religion had a divine Principle, which would cast out error and heal both the sick and the sinning. He claimed no intelligence, action, nor life separate from God. Despite the persecution this brought upon him, he used his divine power to save men both bodily and spiritually.
یسوع نے انسانی عقلوں اور بدنوں کو شفا دینے کے لئے کرسچن سائنس کی طاقت کو ظاہر کیا۔مگر اِس طاقت کو نظر انداز کردیا گیا تھا، مگر اِس پر دوبارہ روحانی طور پر غور کیا جانا، اِسکی تعلیم دی جانی اور مسیح کے حکم کے مطابق، ”علامتوں کی پیروی“ کرنے سے اِس کا اظہار کیا جانا چاہئے۔ جتنے بھی مسیح پر ایمان رکھتے ہیں اور روحانی طور پر سچائی کو سمجھتے ہیں اْنہیں اِس کی سائنس کا ادراک لازمی ہونا چاہئے۔
Jesus demonstrated the power of Christian Science to heal mortal minds and bodies. But this power was lost sight of, and must again be spiritually discerned, taught, and demonstrated according to Christ's command, with "signs following." Its Science must be apprehended by as many as believe on Christ and spiritually understand Truth.
کیا یہ ایمان رکھنا کفر کی ایک قسم نہیں کہ مسیحا جیسا ایک عظیم کام جو اْس نے خود کے لئے یا خدا کے لئے کیا، اْسے ابدی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لئے یسوع کے نمونے سے کوئی مدد لینے کی ضرورت نہیں تھی؟ مگر انسانوں کو اِس مد د کی ضرورت تھی اور یسوع نے اِس کے لئے اْس راہ کی نشان دہی کی۔الٰہی محبت نے ہمیشہ انسانی ضرورت کو پورا کیا ہے اور ہمیشہ پورا کرے گی۔ اس بات کا تصور کرنا مناسب نہیں کہ یسوع نے محض چند مخصوص تعداد میں یا محدود عرصے تک شفا دینے کے لئے الٰہی طاقت کا مظاہرہ کیا، کیونکہ الٰہی محبت تمام انسانوں کے لئے ہر لمحہ سب کچھ مہیا کرتی ہے۔
Is it not a species of infidelity to believe that so great a work as the Messiah's was done for himself or for God, who needed no help from Jesus' example to preserve the eternal harmony? But mortals did need this help, and Jesus pointed the way for them. Divine Love always has met and always will meet every human need. It is not well to imagine that Jesus demonstrated the divine power to heal only for a select number or for a limited period of time, since to all mankind and in every hour, divine Love supplies all good.
خدا کے لوگوں سے متعلق، نہ کہ انسان کے بچوں سے متعلق، بات کرتے ہوئے یسوع نے کہا، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے؛“ یعنی سچائی اور محبت حقیقی انسان پر سلطنت کرتی ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ انسان خدا کی صورت پر بے گناہ اور ابدی ہے۔ یسوع نے سائنس میں کامل آدمی کو دیکھا جو اْس پر وہاں ظاہر ہوا جہاں گناہ کرنے والا فانی انسان لافانی پر ظاہر ہوا۔ اس کامل شخص میں نجات دہندہ نے خدا کی اپنی شبیہ اور صورت کو دیکھا اور انسان کے اس درست نظریے نے بیمار کو شفا بخشی۔ لہٰذہ یسوع نے تعلیم دی کہ خدا برقرار اور عالمگیر ہے اور یہ کہ انسان پاک اور مقدس ہے۔
When speaking of God's children, not the children of men, Jesus said, "The kingdom of God is within you;" that is, Truth and Love reign in the real man, showing that man in God's image is unfallen and eternal. Jesus beheld in Science the perfect man, who appeared to him where sinning mortal man appears to mortals. In this perfect man the Saviour saw God's own likeness, and this correct view of man healed the sick. Thus Jesus taught that the kingdom of God is intact, universal, and that man is pure and holy.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔