اتوار 17 ستمبر ، 2023
”زندہ کرنے والی تو روح ہے۔ جسم سے کچھ فائدہ نہیں۔ جو باتیں مَیں نے تم سے کہی ہیں وہ روح ہیں اور زندگی بھی ہیں۔“
“It is the spirit that quickeneth; the flesh profiteth nothing: the words that I speak unto you, they are spirit, and they are life.”
4۔ سْن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔
5۔ تْو اپنے سار ے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ۔
6۔ اور یہ باتیں جن کا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں۔
10۔ اور جب خداوند تیرا خدا تجھ کو اْس ملک میں پہنچائے جسے تجھ کو دینے کی قسم اْس نے تیرے باپ دادا اور اضحاق اور یعقوب سے کھائی اور جب وہ تجھ کو بڑے بڑے اور اچھے شہر کو جن کو تْو نے نہیں بنایا عنایت کرے۔
12۔ تو تْو ہوشیار رہنایا ایسا نہ ہو کہ تْو خداوند کو جو تجھ کو ملک مصر یعنی غلامی کے گھرسے نکال لایا بھول جائے۔
17۔ تم جانفشانی سے خداوند اپنے خدا کے حکموں اور شہادتوں اور آئین کو جو اْس نے تجھ کو فرمائے ہیں ماننا۔
18۔ اور تْو وہی کرنا جو خداوند کی نظر میں درست اور اچھا ہے تاکہ تیرا بھلا ہو اور جس اچھے ملک کی بابت خداوند نے تیرے باپ دادا سے قسم کھائی تْو اْس میں داخل ہو کر اْس پر قبضہ کر سکے۔
4. Hear, O Israel: the Lord our God is one Lord:
5. And thou shalt love the Lord thy God with all thine heart, and with all thy soul, and with all thy might.
6. And these words, which I command thee this day, shall be in thine heart:
10. And it shall be, when the Lord thy God shall have brought thee into the land which he sware unto thy fathers, to Abraham, to Isaac, and to Jacob, to give thee great and goodly cities, which thou buildedst not,
12. Then beware lest thou forget the Lord, which brought thee forth out of the land of Egypt, from the house of bondage.
17. Ye shall diligently keep the commandments of the Lord your God, and his testimonies, and his statutes, which he hath commanded thee.
18. And thou shalt do that which is right and good in the sight of the Lord: that it may be well with thee.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ اور خدا نے یہ سب باتیں اْن کو بتائیں۔
2۔ خداوند تیرا خدا جو تجھے ملک مصر سے غلامی کے گھر سے نکال لایا مَیں ہوں۔
3۔ میرے حضور تْو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔
4۔ تْو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔
5۔ تْو اْن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اْن کی عبادت کرنا کیونکہ مَیں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں اور جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں اْن کی اولاد کو تیسری اور چوتھی پشت تک باپ دادا کی بدکاری کی سزادیتا ہوں۔
6۔ اور ہزاروں پر جو مجھ سے محبت رکھتے ہیں اور میرے حکموں کو مانتے ہیں رحم کرتا ہوں۔
1 And God spake all these words, saying,
2 I am the Lord thy God, which have brought thee out of the land of Egypt, out of the house of bondage.
3 Thou shalt have no other gods before me.
4 Thou shalt not make unto thee any graven image, or any likeness of any thing that is in heaven above, or that is in the earth beneath, or that is in the water under the earth:
5 Thou shalt not bow down thyself to them, nor serve them: for I the Lord thy God am a jealous God, visiting the iniquity of the fathers upon the children unto the third and fourth generation of them that hate me;
6 And shewing mercy unto thousands of them that love me, and keep my commandments.
1۔ شاہِ یروشلیم داؤد کے بیٹے واعظ کی باتیں۔
14۔ مَیں نے سب کاموں پر جو دنیا میں کئے جاتے ہیں نظر کی اور دیکھو یہ سب کچھ بطلان اور ہوا کی چران ہے۔
15۔ وہ جو ٹیڑھا ہے سیدھا نہیں ہوسکتا اور ناقص کا شمار نہیں ہو سکتا۔
1 The words of the Preacher, the son of David, king in Jerusalem.
14 I have seen all the works that are done under the sun; and, behold, all is vanity and vexation of spirit.
15 That which is crooked cannot be made straight: and that which is wanting cannot be numbered.
4۔ مَیں نے بڑے بڑے کام کئے۔ مَیں نے اپنے لئے عمارتیں بنائیں اور مَیں نے اپنے لئے تاکستان لگائے۔
5۔ میں نے اپنے لئے باغیچے اور باغ تیار کئے اور اُن میں ہر قسم کے میوہ دار درخت لگائے۔
6۔ مَیں نے اپنے لئے تالاب بنائے کہ اْن میں سے باغ کے درختوں کا ذخیرہ سینچوں۔
7۔ مَیں نے غلاموں اور لونڈیوں کو خریدا اور نوکر چاکر میرے گھر میں پیدا ہوئے اور جتنے مجھ سے پہلے یروشلیم میں تھے اْن سے کہیں زیادہ گائے بیل اور بھیڑوں کا مالک تھا۔
8۔میں نے سونااور چاندی اور بادشاہوں اور صوبوں کا خاص خزانہ اپنے لئے جمع کیا۔ میں نے گانے والوں اور گانے والیوں کو رکھا اور بنی آدم کے اسباب عیش یعنی لونڈیوں کو اپنے لئے کثرت سے فراہم کیا۔
9۔سو میں بزرگ ہوا اور اُن سبھوں سے جو مجھ سے پہلے یروشلیم میں تھے زیادہ بڑھ گیا۔ میری حکمت بھی مجھ سے قائم رہی۔
10۔ اور سب کچھ جو میری آنکھیں چاہتی تھیں میں نے اُن سے باز نہ رکھا۔ میں نے اپنے دل کو کسی طرح کی خوشی سے نہ روکا کیونکہ میرا دل میری ساری محنت سے شادمان ہوا اور میری ساری محنت سے میرا بخرہ یہی تھا۔
11۔ پھر میں نے ان سب کاموں پر جو میرے ہاتھوں نے کئے تھے اور اُس مشقت پر جو میں نے کام کرنے میں کھینچی تھی نظر کی اور دیکھا کہ سب بطلان اور ہوا کی چران ہے اور دنیا میں کچھ فائدہ نہیں۔
4 I made me great works; I builded me houses; I planted me vineyards:
5 I made me gardens and orchards, and I planted trees in them of all kind of fruits:
6 I made me pools of water, to water therewith the wood that bringeth forth trees:
7 I got me servants and maidens, and had servants born in my house; also I had great possessions of great and small cattle above all that were in Jerusalem before me:
8 I gathered me also silver and gold, and the peculiar treasure of kings and of the provinces: I gat me men singers and women singers, and the delights of the sons of men, as musical instruments, and that of all sorts.
9 So I was great, and increased more than all that were before me in Jerusalem: also my wisdom remained with me.
10 And whatsoever mine eyes desired I kept not from them,
11 Then I looked on all the works that my hands had wrought, and on the labour that I had laboured to do: and, behold, all was vanity and vexation of spirit, and there was no profit under the sun.
13۔ اب سب کچھ سنایا گیا۔ حاصلِ کلام یہ ہے۔ خدا سے ڈر اور اْس کے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِ کْلی یہی ہے۔
13 Let us hear the conclusion of the whole matter: Fear God, and keep his commandments: for this is the whole duty of man.
21۔ جب یسوع پھر کشتی میں پار گیا تو بڑی بھیڑ اْس کے پاس جمع ہوئی اور وہ جھیل کے کنارے تھا۔
25۔ پھر ایک عورت جس کے بارہ برس سے خون جاری تھا۔
26۔ اورکئی طبیبوں سے تکلیف اٹھا چکی تھی اور اپنا سب مال خرچ کر کے بھی اْسے کچھ فائدہ نہ ہواتھا بلکہ زیادہ بیمار ہو گئی تھی۔
27۔ یسوع کا حال سْن کر بھیڑ میں اْس کے پیچھے سے آئی اور اْس کی پوشاک کو چھوا۔
28۔ کیونکہ وہ کہتی تھی کہ اگر مَیں اْس کی پوشاک ہی چھو لوں گی تو اچھی ہو جاؤں گی۔
29۔ اور فی الفور اْس کا خون بہنا بند ہوگیا اور اْس نے اپنے بدن میں محسوس کیا کہ مَیں نے اس بیماری سے شفا پائی۔
30۔ یسوع نے فی الفور اپنے میں معلوم کر کے کہ مجھ میں سے قوت نکلی اْس بھیڑ میں پیچھے مڑ کر کہا کس نے میری پوشاک چھوئی؟
31۔ اْس کے شاگردوں نے کہا تْو دیکھتا ہے بھیڑ تجھ پر گری پڑتی ہے اور تْو کہتا ہے مجھے کس نے چھوا؟
32۔ اْس نے چاروں طرف نگاہ کی تاکہ جس نے یہ کام کیا اْسے دیکھے۔
33۔ وہ عورت جو کچھ اْس سے ہوا تھا محسوس کر کے ڈرتی اور کانپتی ہوئی اور اْس کے آگے گر پڑی اور سارا حال سچ سچ اْس سے کہہ دیا۔
34۔ اْس نے اْس سے کہا بیٹی تیرے ایمان سے تجھے شفا ملی۔ سلامت چلی جا اور اپنی بیماری سے بچی رہ۔
21 And when Jesus was passed over again by ship unto the other side, much people gathered unto him: and he was nigh unto the sea.
25 And a certain woman, which had an issue of blood twelve years,
26 And had suffered many things of many physicians, and had spent all that she had, and was nothing bettered, but rather grew worse,
27 When she had heard of Jesus, came in the press behind, and touched his garment.
28 For she said, If I may touch but his clothes, I shall be whole.
29 And straightway the fountain of her blood was dried up; and she felt in her body that she was healed of that plague.
30 And Jesus, immediately knowing in himself that virtue had gone out of him, turned him about in the press, and said, Who touched my clothes?
31 And his disciples said unto him, Thou seest the multitude thronging thee, and sayest thou, Who touched me?
32 And he looked round about to see her that had done this thing.
33 But the woman fearing and trembling, knowing what was done in her, came and fell down before him, and told him all the truth.
34 And he said unto her, Daughter, thy faith hath made thee whole; go in peace, and be whole of thy plague.
1۔ مسیح نے ہمیں آزاد رہنے کے لئے آزاد کیا ہے پس قائم رہو اور دوبارہ غلامی کے جوئے میں نہ جتو۔
5۔ کیونکہ ہم روح کے باعث ایمان سے راستبازی کی امید بر آنے کے منتظر ہیں۔
13۔ اے بھائیو! تم آزادی کے لئے بلائے گئے ہو مگر ایسا نہ ہو کہ وہ آزادی جسمانی باتوں کا موقع بنے بلکہ محبت کی راہ سے ایک دوسرے کی خدمت کرو۔
16۔ مگر میں یہ کہتا ہوں کہ اگر روح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہر گز پورا نہ کرو گے۔
17۔ کیونکہ جسم روح کے خلاف خواہش کرتا ہے اور روح جسم کے خلاف اور یہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں تاکہ جو تم چاہتے ہو وہ نہ کرو۔
18۔ اور اگر تم روح کی ہدایت سے چلتے ہو تو شریعت کے ماتحت نہیں رہے۔
1 Stand fast therefore in the liberty wherewith Christ hath made us free, and be not entangled again with the yoke of bondage.
5 For we through the Spirit wait for the hope of righteousness by faith.
13 For, brethren, ye have been called unto liberty; only use not liberty for an occasion to the flesh, but by love serve one another.
16 This I say then, Walk in the Spirit, and ye shall not fulfil the lust of the flesh.
17 For the flesh lusteth against the Spirit, and the Spirit against the flesh: and these are contrary the one to the other: so that ye cannot do the things that ye would.
18 But if ye be led of the Spirit, ye are not under the law.
1۔ پس اب جو مسیح یسوع میں ہیں اُن پر سزا کا حکم نہیں،جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔
2۔ کیونکہ زندگی کے روح کی شریعت نے مسیح یسوع میں مجھے گناہ اورموت کی شریعت سے آزاد کردیا۔
3۔اس لئے کہ جو کام شریعت جسم کے سبب سے کمزور ہو کر نہ کر سکی وہ خدا نے کیا یعنی اْس نے اپنے بیٹے کو گناہ آلود جسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کے لئے بھیج کر جسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا۔
4۔تاکہ شریعت کا تقاضا ہم میں پورا ہو جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔
5۔کیونکہ جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں لیکن جو روحانی ہیں وہ روحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں۔
6۔اور جسمانی نیت موت ہے مگر روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔
7۔ اِس لئے کہ جسمانی نیت خدا کی دشمنی ہے کیونکہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔
8۔ اور جو جسمانی ہیں وہ خدا کو خوش نہیں کر سکتے۔
9۔ لیکن تم جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوبشرطیکہ خدا کا روح تم میں بسا ہو اہے۔
15۔ کیونکہ تم کو غلامی کی روح نہیں ملی جس سے پھر ڈر پیدا ہو بلکہ لے پالک ہونے کی روح ملی جس سے ہم ابا یعنی اے باپ کہہ کر پکارتے ہیں۔
16۔ روح خود ہماری روح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں۔
17۔ اور اگر فرزند ہیں تو وارث بھی ہیں یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہم میراث۔
1 There is therefore now no condemnation to them which are in Christ Jesus, who walk not after the flesh, but after the Spirit.
2 For the law of the Spirit of life in Christ Jesus hath made me free from the law of sin and death.
5 For they that are after the flesh do mind the things of the flesh; but they that are after the Spirit the things of the Spirit.
6 For to be carnally minded is death; but to be spiritually minded is life and peace.
7 Because the carnal mind is enmity against God: for it is not subject to the law of God, neither indeed can be.
8 So then they that are in the flesh cannot please God.
9 But ye are not in the flesh, but in the Spirit, if so be that the Spirit of God dwell in you.
15 For ye have not received the spirit of bondage again to fear; but ye have received the Spirit of adoption, whereby we cry, Abba, Father.
16 The Spirit itself beareth witness with our spirit, that we are the children of God:
17 And if children, then heirs; heirs of God, and joint-heirs with Christ;
کرسچن سائنس روحانیت کے لئے انسانی نسل کی ایک خواہش کو پورا کرتی ہے۔
Christian Science meets a yearning of the human race for spirituality.
صرف بلند لطف ہی لافانی انسان کے نقوش کو تسلی بخش بنا سکتے ہیں۔
Higher enjoyments alone can satisfy the cravings of immortal man.
ہماری ترقی کا تعین کرنے کے لئے، ہمیں یہ سیکھنا چاہئے کہ ہماری ہمدردیاں کیا مقام رکھتی ہیں اور بطور خدا ہم کسے تسلیم کرتے اور کس کے حْکم کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر الٰہی محبت ہمارے لئے قریب تر، عزیز تر اور زیادہ حقیقی بن رہی ہے تو پھر مادہ روح کے سپرد ہورہا ہے۔جن چیزوں کا ہم تعاقب کرتے ہیں اورجس روح کو ہم آشکار کرتے ہیں وہ ہمارے نقطہ نظر کو ظاہرکرتی ہے اور ہمیں دکھاتی ہے کہ ہم کیا فتح کر رہے ہیں۔
کامل عقل کاملیت پیدا کرتی ہے،کیونکہ خدا عقل ہے۔غیر کامل فانی عقل اپنی مشابہتیں پیدا کرتی ہے، جن سے متعلق دانشمند انسان نے کہا، ”سب باطل ہے۔“
To ascertain our progress, we must learn where our affections are placed and whom we acknowledge and obey as God. If divine Love is becoming nearer, dearer, and more real to us, matter is then submitting to Spirit. The objects we pursue and the spirit we manifest reveal our standpoint, and show what we are winning.
The perfect Mind sends forth perfection, for God is Mind. Imperfect mortal mind sends forth its own resemblances, of which the wise man said, "All is vanity."
یہ مادی وجودیت کے بھیانک نقلی نتائج کے مقابلے میں خیالات کی روحانیت اور روز مرہ کی مسیحت پسندی ہے؛ یہ نچلے رجحانات اور ناپاکی اور شہوت پرستی کی زمینی کشش کے مقابلے میں پاکیزگی اور صداقت ہے، جو حقیقتاً کرسچن سائنس کی الٰہی ابتدا اور کام کی تصدیق کرتی ہے۔ کرسچن سائنس کی فتوحات غلطی اور تباہی پر مشتمل ہیں، جن سے گناہ، بیماری اور موت کے افسوسناک عقائد پیدا ہوتے ہیں۔
It is the spiritualization of thought and Christianization of daily life, in contrast with the results of the ghastly farce of material existence; it is chastity and purity, in contrast with the downward tendencies and earthward gravitation of sensualism and impurity, which really attest the divine origin and operation of Christian Science. The triumphs of Christian Science are recorded in the destruction of error and evil, from which are propagated the dismal beliefs of sin, sickness, and death.
ایوب نے کہا، ”میں نے تیری خبر کان سے سنی تھی، پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے۔“ بشر ایوب کے خیالات کو پھیلائیں گے، جب مادے کی فرضی تکلیف اور خوشی سبقت رکھنا ترک کرتی ہے۔
پھر وہ زندگی اور خوشی، دْکھ اور شادمانی کے جھوٹے اندازے لگائیں گے، اور وہ بے غرضی، صبر سے کام کرنے اور اْس سب کو فتح کرتے ہوئے جو خدا کی مانند نہیں ہے محبت کی نعمت حاصل کریں گے۔ ایک اونچے نقطہ نظر سے آغاز کرتے ہوئے، ایک شخص خود ساختہ بڑھتا ہے، جیسا کہ روشنی خودبغیر کسی کوشش کے روشنی کوخارج کرتی ہے، کیونکہ ”جہاں تیرا خزانہ ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا۔“
Job said: "I have heard of Thee by the hearing of the ear: but now mine eye seeth Thee." Mortals will echo Job's thought, when the supposed pain and pleasure of matter cease to predominate. They will then drop the false estimate of life and happiness, of joy and sorrow, and attain the bliss of loving unselfishly, working patiently, and conquering all that is unlike God. Starting from a higher standpoint, one rises spontaneously, even as light emits light without effort; for "where your treasure is, there will your heart be also."
الٰہی سائنس زندگی اور ذہانت کی فرضی مادی بنیادوں پر اپنے خاص حملے کا کام کرتی ہے۔یہ بت پرستی کو محکوم کرتی ہے۔دوسرے دیوتاؤں، دوسرے خالقوں اور دوسری مخلوقات پر ایمان کو کرسچن سائنس کے مقابلے جھکنا ہوگا۔یہ گناہ کے نتائج کو بے نقاب کرتی ہے جیسے بیماری اور موت میں دکھایا گیا ہے۔انسان روح کے فردوس میں،آدمیوں کے مابین پہلوٹھے کی میراث میں کرسچن سائنس کے کھْلنے والے دروازے سے کب گزرے گا؟سچائی واقعی ”راہ“ ہے۔
Divine Science deals its chief blow at the supposed material foundations of life and intelligence. It dooms idolatry. A belief in other gods, other creators, and other creations must go down before Christian Science. It unveils the results of sin as shown in sickness and death. When will man pass through the open gate of Christian Science into the heaven of Soul, into the heritage of the first born among men? Truth is indeed " the way."
قدیم مسیحی معالج تھے۔مسیحت کا یہ عنصر کھو کیوں گیا ہے؟ کیونکہ ہمارا مذہبی نظام کم و بیش ہمارے طبی نظاموں کے زیر اطاعت ہوگیا ہے۔پہلی بت پرستی مادے پر یقین تھا۔سکولوں نے خدائی پر ایمان کی بجائے، منشیات کے فیشن پر ایمان کو فروغ دیا ہے۔ مادے کے اپنے ہی مخالف کو تباہ کرنے کا یقین رکھتے ہوئے، صحت اور ہم آہنگی کو قربان کر دیا گیا ہے۔ اس قسم کے نظام روحانی قوت کی وحدت سے بنجر ہوتے ہیں، جس کے باعث مادی فہم سائنس کا غلام بنایا جاتا ہے اور مذہب مسیح کی مانند بن جاتا ہے۔
مادی دواخدا کی قوت کو منشیات سے تبدیل کرتی ہے، حتیٰ کہ انسانی طاقت سے بھی، تاکہ جسم کو شفا دے سکے۔وہ فلسفیانہ نظام جونجات کے لئے الٰہی اصول، یسوع بطور انسان پر جو خدا کا شفا دینے والا نمائندہ ہے اور اْس کی سائنس کی بجائے کسی شخص پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ خاموش کر دیا گیا ہے۔کیوں؟ کیونکہ سچائی اْن کی فرضی قوت کی مادی دوا کو منقسم کرتی اور روح کو بالادستی سے ملبوس کرتی ہے۔
The ancient Christians were healers. Why has this element of Christianity been lost? Because our systems of religion are governed more or less by our systems of medicine. The first idolatry was faith in matter. The schools have rendered faith in drugs the fashion, rather than faith in Deity. By trusting matter to destroy its own discord, health and harmony have been sacrificed. Such systems are barren of the vitality of spiritual power, by which material sense is made the servant of Science and religion becomes Christlike.
Material medicine substitutes drugs for the power of God — even the might of Mind — to heal the body. Scholasticism clings for salvation to the person, instead of to the divine Principle, of the man Jesus; and his Science, the curative agent of God, is silenced. Why? Because truth divests material drugs of their imaginary power, and clothes Spirit with supremacy.
کیا تہذیب بت پرستی کی ایک اعلیٰ قسم ہے، کہ انسان کو جسم پر پھیرنے والے برش، اونی کپڑوں، غسل کرنے، غذا، ورزش اور ہوا کے آگے جھکنا چاہئے؟ الٰہی طاقت انسان کے لئے اِتنا کچھ کرنے کے قابل نہیں جتنا وہ خود کے لئے کر سکتا ہے۔
خیالات کے نقش ِ قدم، مادی نقطہ نظر سے بلند اْٹھتے ہوئے، بہت سست ہیں، اور مسافر کی لمبی رات کی جانب اشارہ کرتے ہیں؛ مگر اْس کی حضوری کے فرشتے، وہ روحانی الہام جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ”رات کب کی گزر گئی اور دن نکلنے کو ہے“، اْداسی میں ہمارے نگہبان ہوتے ہیں۔
Is civilization only a higher form of idolatry, that man should bow down to a flesh-brush, to flannels, to baths, diet, exercise, and air? Nothing save divine power is capable of doing so much for man as he can do for himself.
The footsteps of thought, rising above material standpoints, are slow, and portend a long night to the traveller; but the angels of His presence — the spiritual intuitions that tell us when "the night is far spent, the day is at hand" — are our guardians in the gloom.
سائنس جسمانی حواس کی جھوٹی گواہی کو تبدیل کرتی ہے، اور اس تبدیلی کے باعث بشر ہستی کے بنیادی حقائق تک پہنچتے ہیں۔ پھر لامحالہ یہ سوال اٹھتا ہے: اگر مادی حواس اشارے کریں کہ انسان اچھی صحت رکھتا ہے تو کیا وہ انسان اصل میں بیمار ہے؟ جی نہیں! کیونکہ مادہ انسان کے لئے کوئی شرائط نہیں رکھ سکتا۔ اور کیا وہ اصل میں ٹھیک ہے اگر حواس کہتے ہیں کہ وہ بیمار ہے؟ جی ہاں، وہ اْس سائنس میں ٹھیک ہے جس میں صحت معمولی ہے بیماری غیر معمولی ہے۔
صحت مادے کی حالت نہیں بلکہ عقل کی حالت ہے؛اور نہ ہی مادی حواس صحت کے موضوع پر قابل یقین گواہی پیش کر سکتے ہیں۔ شفائیہ عقل کی سائنس کسی کمزور کے لئے یہ ہونا ناممکن بیان کرتی ہے جبکہ عقل کے لئے اِس کی حقیقتاً تصدیق کرنا یا انسان کی اصلی حالت کو ظاہر کرنا ممکن پیش کرتی ہے۔اس لئے سائنس کا الٰہی اصول جسمانی حواس کی گواہی کو تبدیل کرتے ہوئے انسان کو بطور سچائی میں ہم آہنگی کے ساتھ موجود ہوتا ظاہر کرتا ہے، جو صحت کی واحد بنیاد ہے؛ اور یوں سائنس تمام بیماری سے انکار کرتی، بیمار کو شفا دیتی، جھوٹی گواہی کو برباد کرتی اور مادی منطق کی تردید کرتی ہے۔
Science reverses the false testimony of the physical senses, and by this reversal mortals arrive at the fundamental facts of being. Then the question inevitably arises: Is a man sick if the material senses indicate that he is in good health? No! for matter can make no conditions for man. And is he well if the senses say he is sick? Yes, he is well in Science in which health is normal and disease is abnormal.
Health is not a condition of matter, but of Mind; nor can the material senses bear reliable testimony on the subject of health. The Science of Mind-healing shows it to be impossible for aught but Mind to testify truly or to exhibit the real status of man. Therefore the divine Principle of Science, reversing the testimony of the physical senses, reveals man as harmoniously existent in Truth, which is the only basis of health; and thus Science denies all disease, heals the sick, overthrows false evidence, and refutes materialistic logic.
سوجن کم کرنے، رسولی کو ختم کرنے یا جسمانی بیماری کاعلاج کرنے کے لئے،مَیں نے دیگر سبھی ادنیٰ علاجوں کی نسبت الٰہی سچائی کو زیادہ قوی پایا ہے۔اور کیوں نہیں، جبکہ عقل یعنی خدا ہی ساری وجودیت کا منبع اور لازمی شرط ہے۔کسی شخص کو یہ فیصلہ کرنے سے قبل کہ بدن، مادہ خراب ہو چکا ہے، اْسے پوچھنا چاہئے، ”تْو کون ہے جو خدا کے سامنے جواب دیتا ہے؟ کیا مادہ خود بات کرسکتا ہے، یا کیا یہ زندگی کے معاملات کو سمجھتا ہے؟“ مادہ، جو نہ دْکھ سہ سکتا نہ خوش ہوسکتا ہے، اْس کا درد یا شادمانی کے ساتھ کوئی حصہ نہیں بلکہ فانی عقیدے کا ایسا حصہ ضرور ہے۔
To reduce inflammation, dissolve a tumor, or cure organic disease, I have found divine Truth more potent than all lower remedies. And why not, since Mind, God, is the source and condition of all existence? Before deciding that the body, matter, is disordered, one should ask, "Who art thou that repliest to Spirit? Can matter speak for itself, or does it hold the issues of life?" Matter, which can neither suffer nor enjoy, has no partnership with pain and pleasure, but mortal belief has such a partnership.
فانی انسان فانی نہیں رہے گا، جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ مادہ کبھی وجود برقرار نہیں رکھ سکتا اور خدا کو تباہ نہیں کرسکتا، جو انسان کی زندگی ہے۔ جب یہ سمجھ لیا جاتا ہے، تو انسان مزید روحانی ہو جائے گا اور جان لے گا کہ کچھ بھی ہڑپ کرنے کے لئے نہیں ہے، چو نکہ روح، خداہی سب کچھ ہے۔کیا ہو اگر ایمان کھپت ہو؟ خدا انسان کے لئے اْس کے ایمان سے زیادہ ہے، اور جتنا ہم مادے کو یا اْس کے قوانین کو کم تسلیم کرتے ہیں اْتنا زیادہ ہی ہم لافانیت کی ملکیت رکھتے ہیں۔ جب مادے پر عقیدے کو فتح کر لیا جاتا ہے تو شعور بہتر بدن تشکیل دیتا ہے۔ روحانی فہم کے وسیلے مادی عقیدے کی تصحیح کریں تو آپ کی روح آپ کو نیا بنائے گی۔ ماسوائے خدا کو رنجیدہ کرنے کے آپ کبھی خوفذدہ نہیں ہوں گے، اور آپ یہ کبھی یقین نہیں رکھیں گے کہ دل یا آپ کے بدن کا کوئی بھی حصہ آپ کو تباہ کر سکتا ہے۔
Mortal man will be less mortal, when he learns that matter never sustained existence and can never destroy God, who is man's Life. When this is understood, mankind will be more spiritual and know that there is nothing to consume, since Spirit, God, is All-in-all. What if the belief is consumption? God is more to a man than his belief, and the less we acknowledge matter or its laws, the more immortality we possess. Consciousness constructs a better body when faith in matter has been conquered. Correct material belief by spiritual understanding, and Spirit will form you anew. You will never fear again except to offend God, and you will never believe that heart or any portion of the body can destroy you.
سوال: ہستی کا سائنسی بیان کیا ہے؟
جواب: مادے میں کوئی زندگی، سچائی، ذہانت اورنہ ہی مواد پایا جاتا ہے۔کیونکہ خدا حاکم کْل ہے اس لئے سب کچھ لامتناہی عقل اور اْس کا لامتناہی اظہار ہے۔ روح لافانی سچائی ہے؛ مادہ فانی غلطی ہے۔ روح ابدی اور حقیقی ہے؛ مادہ غیر حقیقی اور عارضی ہے۔ روح خدا ہے اور انسان اْس کہ صورت اور شبیہ۔ اس لئے انسان مادی نہیں بلکہ وہ روحانی ہے۔
Question. — What is the scientific statement of being?
Answer. — There is no life, truth, intelligence, nor substance in matter. All is infinite Mind and its infinite manifestation, for God is All-in-all. Spirit is immortal Truth; matter is mortal error. Spirit is the real and eternal; matter is the unreal and temporal. Spirit is God, and man is His image and likeness. Therefore man is not material; he is spiritual.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔