اتوار 22 اکتوبر ، 2023



مضمون۔ موت کے بعد امتحان

SubjectProbation After Death

سنہری متن: مکاشفہ 2 باب7 آیت

”جو غالب آئے میں اْسے زندگی کے درخت میں سے جو خدا کے فردوس میں ہے پھل کھانے کو دوں گا۔“



Golden Text: Revelation 2 : 7

To him that overcometh will I give to eat of the tree of life, which is in the midst of the paradise of God.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: یسعیاہ 25 باب1، 4، 6تا9 آیات


1۔ اے خداوند! تْو میرا خدا ہے۔ مَیں تیری تمجید کروں گا۔ تیرے نام کی ستائش کروں گا کیونکہ تْو نے عجیب کام کئے ہیں۔

4۔ کیونکہ تْو مسکین کے لئے قلعہ اور محتاج کے لئے پریشانی کے وقت ملجا اور آندھی سے پناہ گاہ اور گرمی سے بچانے کو سایہ ہوا جس وقت ظالموں کی سانس دیوار کْن طوفان کی مانند ہوگی۔

6۔ اور رب الافواج اِس پہاڑ پر سب قوموں کے لئے فربہ چیزوں سے ایک ضیافت تیار کرے گا بلکہ ایک ضیافت تلچھٹ پر سے نتھری ہوئی مے سے۔ ہاں فربہ چیزوں سے جو پْر مغز ہوں اور مے سے جو تلچھٹ پر سے خوب نتھری ہوئی ہو۔

7۔ اور وہ اِس پہاڑ پر اِس پردہ کو جو تمام لوگوں پر گر پڑا اور اْس نقاب کو جو سب قوموں پر لٹک رہا ہے دور کرے گا۔

8۔ وہ موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے گا اور خداوند خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالے گا اور اپنے لوگوں کی رسوائی تمام زمین پر سے مٹا ڈالے گا کیونکہ خداوند نے یہ فرمایا ہے۔

9۔ اور اْس وقت یوں کہاجائے گا کہ لو یہ ہمارا خدا ہے۔ ہم اْس کی راہ تکتے تھے اور وہی ہم کو بچائے گا۔

Responsive Reading: Isaiah 25 : 1, 4, 6-9

1.     O Lord, thou art my God; I will exalt thee, I will praise thy name.

4.     For thou hast been a strength to the poor, a strength to the needy in his distress, a refuge from the storm, a shadow from the heat, when the blast of the terrible ones is as a storm against the wall.

6.     And in this mountain shall the Lord of hosts make unto all people a feast of fat things, a feast of wines on the lees, of fat things full of marrow, of wines on the lees well refined.

7.     And he will destroy in this mountain the face of the covering cast over all people, and the vail that is spread over all nations.

8.     He will swallow up death in victory; and the Lord God will wipe away tears from off all faces; and the rebuke of his people shall he take away from off all the earth: for the Lord hath spoken it.

9.     And it shall be said in that day, Lo, this is our God; we have waited for him, and he will save us.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ مکاشفہ 22 باب14 آیت

14۔ مبارک ہیں وہ جو اپنے جامے دھوتے ہیں کیونکہ زندگی کے درخت کے پاس آنے کا اختیار پائیں گے اور اْن دروازوں سے شہر میں داخل ہوں گے۔

1. Revelation 22 : 14

14     Blessed are they that do his commandments, that they may have right to the tree of life, and may enter in through the gates into the city.

2 . ۔ یسعیاہ 28 باب16تا18 (تا؛) آیات

16۔اس لئے خداوند خدا یوں فرماتا ہے۔ دیکھو مَیں صیون میں بنیاد کے لئے ایک پتھر رکھوں گا۔ آزمودہ پتھر۔ محکم بنیاد کے لئے کونے کے سرے کا قیمتی پتھر جو کوئی ایمان لاتا ہے قائم رہتا ہے۔

17۔ اور مَیں عدالت کو سْوت اور صداقت کو ساہول بناؤں گا اور اولے جھوٹ کی پناہ گاہ کو صاف کر دیں گے اور پانی چھِپنے کے مکان میں پھیل جائے گا۔

18۔ اور تمہار اعہد جو موت سے ہوا ہو منسوخ ہوجائے گا اور تمہارا پیمان جو پاتال سے ہوا قائم نہ رہے گا۔

2. Isaiah 28 : 16-18 (to ;)

16     Therefore thus saith the Lord God, Behold, I lay in Zion for a foundation a stone, a tried stone, a precious corner stone, a sure foundation: he that believeth shall not make haste.

17     Judgment also will I lay to the line, and righteousness to the plummet: and the hail shall sweep away the refuge of lies, and the waters shall overflow the hiding place.

18     And your covenant with death shall be disannulled, and your agreement with hell shall not stand;

3 . ۔ متی 4 باب23 آیت

23۔اور یسوع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور اْن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوش خبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی بیماری اور ہرطرح کی کمزوری کو دور کرتا رہا۔

3. Matthew 4 : 23

23     And Jesus went about all Galilee, teaching in their synagogues, and preaching the gospel of the kingdom, and healing all manner of sickness and all manner of disease among the people.

4 . ۔ متی 5 باب1، 2 آیات

1۔وہ اْس بھیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب بیٹھ گیا تو اْس کے شاگرد اْس کے پاس آئے۔

2۔ اور وہ اپنی زبان ہوکر اْن کو یوں تعلیم دینے گا۔

4. Matthew 5 : 1, 2

1     And seeing the multitudes, he went up into a mountain: and when he was set, his disciples came unto him:

2     And he opened his mouth, and taught them, saying,

5 . ۔ متی 7 باب13، 14 آیات

13۔ تنگ دروازے سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچتا ہے اور اْس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔

14۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سْکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اْس کے پانے والے تھوڑے ہیں۔

5. Matthew 7 : 13, 14

13     Enter ye in at the strait gate: for wide is the gate, and broad is the way, that leadeth to destruction, and many there be which go in thereat:

14     Because strait is the gate, and narrow is the way, which leadeth unto life, and few there be that find it.

6 . ۔ متی 19 باب16تا22، 25، 26، 28، 29 آیات

16۔ اور دیکھو ایک شخص نے پاس آکر اْس سے کہا کہ اے استاد مَیں کون سی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟

17۔ اْس نے اْس سے کہا کہ تْو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے؟ نیک تو ایک ہی ہے لیکن اگر تْو زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو حکموں پر عمل کر۔

18۔ اْس نے اْس سے کہا کون سے حکموں پر؟ یسوع نے کہا یہ کہ خون نہ کر۔ زنا نہ کر۔ چوری نہ کر۔ جھوٹی گواہی نہ دے۔

19۔ اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔

20۔ اْس جوان نے اْس سے کہا کہ مَیں نے اِن سب پر عمل کیا ہے۔ اب مجھ میں کس بات کی کمی ہے؟

21۔ یسوع نے اْس سے کہا اگر تْو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے۔ تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا اور آکر میرے پیچھے ہو لے۔

22۔ مگر وہ جوان یہ بات سن کر غمگین ہو کر چلا گیا کیونکہ بڑا مالدار تھا۔

25۔ شاگرد یہ سن کر بہت ہی حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ پھر کون نجات پا سکتا ہے؟

26۔ یسوع نے اْن کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ آدمیوں سے تونہیں ہوسکتا لیکن خدا سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔

28۔ یسوع نے اْن سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب ابنِ آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو تم بھی جو میرے پیچھے ہو لئے ہو بارہ تختوں پر بیٹھ کر اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔

29۔ اور جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اْس کو سو گنا ملے گا اور وہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا۔

6. Matthew 19 : 16-22, 25, 26, 28, 29

16     And, behold, one came and said unto him, Good Master, what good thing shall I do, that I may have eternal life?

17     And he said unto him, Why callest thou me good? there is none good but one, that is, God: but if thou wilt enter into life, keep the commandments.

18     He saith unto him, Which? Jesus said, Thou shalt do no murder, Thou shalt not commit adultery, Thou shalt not steal, Thou shalt not bear false witness,

19     Honour thy father and thy mother: and, Thou shalt love thy neighbour as thyself.

20     The young man saith unto him, All these things have I kept from my youth up: what lack I yet?

21     Jesus said unto him, If thou wilt be perfect, go and sell that thou hast, and give to the poor, and thou shalt have treasure in heaven: and come and follow me.

22     But when the young man heard that saying, he went away sorrowful: for he had great possessions.

25     When his disciples heard it, they were exceedingly amazed, saying, Who then can be saved?

26     But Jesus beheld them, and said unto them, With men this is impossible; but with God all things are possible.

28     And Jesus said unto them, Verily I say unto you, That ye which have followed me, in the regeneration when the Son of man shall sit in the throne of his glory, ye also shall sit upon twelve thrones, judging the twelve tribes of Israel.

29     And every one that hath forsaken houses, or brethren, or sisters, or father, or mother, or wife, or children, or lands, for my name’s sake, shall receive an hundredfold, and shall inherit everlasting life.

7 . ۔ لوقا 16 باب1(تا پہلی)، 19تا31 آیات

1۔ پھر اْس نے شاگردوں سے بھی کہا:

19۔ ایک دولتمند تھا جو ارغوانی اور مہین کپڑے پہنتا اور ہر روز خوشی مناتا اور شان و شوکت سے رہتا تھا۔

20۔اور لعزر نام ایک غریب ناسوروں سے بھرا ہوا اُس کے دروازہ پر ڈالا گیا تھا۔

21۔اُسے آرزو تھی کہ دولتمند کی میز سے گرے ہوئے ٹکڑوں سے اپنا پیٹ بھرے بلکہ کتّے بھی آ کر اُس کے ناسور چاٹتے تھے۔

22۔اور ایسا ہوا کہ وہ غریب مر گیا اور فرشتوں نے اُسے لے جا کر ابرہام کی گود میں پہنچا دیا اور دولتمند بھی موا اور دفن ہوا۔

23۔ اُس نے عالمِ ارواح کے درمیان عذاب میں مبتلا ہو کر اپنی آنکھیں اُٹھائیں اور ابرہام کو دور سے دیکھا اور اُس کی گود میں لعزر کو۔

24۔اور اُس نے پکار کر کہا اے باپ ابرہام مجھ پر رحم کر کے لعزر کو بھیج کہ اپنی انگلی کا سرا پانی میں بھگو کر میری زبان تر کرے کیونکہ میں اس آگ میں تڑپتا ہوں۔

25۔ابرہام نے کہا بیٹا! یاد کر کہ تو اپنی زندگی میں اپنی اچھی چیزیں لے چکا اور اسی طرح لعزر بری چیزیں لیکن اب وہ یہاں تسلی پاتا ہے اورتو تڑپتا ہے۔

26۔اور ان سب باتوں کے سوا ہمارے تمہارے درمیان ایک بڑا گڑھا واقع ہے۔ ایسا کہ جو یہاں سے تمہاری طرف پار جانا چاہیں نہ جا سکیں اور نہ کوئی ادھر سے ہماری طرف آ سکے۔

27۔اُس نے کہا پس اے باپ! مَیں تیری منّت کرتا ہوں کہ تو اُسے میرے باپ کے گھر بھیج۔

28۔ کیونکہ میرے پانچ بھائی ہیں تاکہ وہ ان کے سامنے ان باتوں کی گواہی دے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اس عذاب کی جگہ میں آئیں۔

29۔ابرہام نے اس سے کہا ان کے پاس موسیٰ اور انبیا تو ہیں۔ ان کی سنیں۔

30۔ اُس نے کہا نہیں اے باپ ابرہام۔ ہاں اگر کوئی مردوں میں سے ان کے پاس جائے تو وہ توبہ کریں گے۔

31۔ اُس نے اُس سے کہا کہ جب وہ موسیٰ اور نبیوں ہی کی نہیں سنتے تو اگر مردوں میں سے کوئی جی اٹھے تو اس کی بھی نہ مانیں گے۔

7. Luke 16 : 1 (to 1st ,), 19-31

1     And he said also unto his disciples,

19     There was a certain rich man, which was clothed in purple and fine linen, and fared sumptuously every day:

20     And there was a certain beggar named Lazarus, which was laid at his gate, full of sores,

21     And desiring to be fed with the crumbs which fell from the rich man’s table: moreover the dogs came and licked his sores.

22     And it came to pass, that the beggar died, and was carried by the angels into Abraham’s bosom: the rich man also died, and was buried;

23     And in hell he lift up his eyes, being in torments, and seeth Abraham afar off, and Lazarus in his bosom.

24     And he cried and said, Father Abraham, have mercy on me, and send Lazarus, that he may dip the tip of his finger in water, and cool my tongue; for I am tormented in this flame.

25     But Abraham said, Son, remember that thou in thy lifetime receivedst thy good things, and likewise Lazarus evil things: but now he is comforted, and thou art tormented.

26     And beside all this, between us and you there is a great gulf fixed: so that they which would pass from hence to you cannot; neither can they pass to us, that would come from thence.

27     Then he said, I pray thee therefore, father, that thou wouldest send him to my father’s house:

28     For I have five brethren; that he may testify unto them, lest they also come into this place of torment.

29     Abraham saith unto him, They have Moses and the prophets; let them hear them.

30     And he said, Nay, father Abraham: but if one went unto them from the dead, they will repent.

31     And he said unto him, If they hear not Moses and the prophets, neither will they be persuaded, though one rose from the dead.

8 . ۔ افسیوں 4 باب1، 2، 13 آیات

1۔پس مَیں جو خداوند میں قیدی ہوں تم سے التماس کرتا ہوں کہ جس بلاوے سے تم بلائے گئے تھے اْس کے لائق چال چلو۔

2۔ یعنی کمال فروتنی اور حِلم کے ساتھ تحمل کر کے محبت سے ایک دوسرے کی برداشت کرو۔

13۔ جب تک ہم سب کے سب خدا کے بیٹے کے ایمان اور اْس کی پہچان میں ایک نہ ہو جائیں اور کامل انسان نہ بنیں یعنی مسیح کے پورے قد کے اندازہ تک نہ پہنچ جائیں۔

8. Ephesians 4 : 1, 2, 13

1     I therefore, the prisoner of the Lord, beseech you that ye walk worthy of the vocation wherewith ye are called,

2     With all lowliness and meekness, with longsuffering, forbearing one another in love;

13     Till we all come in the unity of the faith, and of the knowledge of the Son of God, unto a perfect man, unto the measure of the stature of the fulness of Christ:

9 . ۔ یعقوب 1باب2تا4، 12 آیات

2۔اے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔

3۔ تو اِس کو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔

4۔ اور صبر کو اپنا پورا کام کرنے دو تاکہ تم پورے اور کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔

12۔ مبارک ہے وہ شخص جو آزمائش کی برداشت کرتا ہے کیونکہ جب مقبول ٹھہرا تو زندگی کا وہ حاصل کرے گا جس کا خداوند نے اپنے محبت کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے۔

9. James 1 : 2-4, 12

2     My brethren, count it all joy when ye fall into divers temptations;

3     Knowing this, that the trying of your faith worketh patience.

4     But let patience have her perfect work, that ye may be perfect and entire, wanting nothing.

12     Blessed is the man that endureth temptation: for when he is tried, he shall receive the crown of life, which the Lord hath promised to them that love him.



سائنس اور صح


1 . ۔ 246: 27۔31

زندگی ابدی ہے۔ ہمیں اس کی تلاش کرنی چاہئے اور اس سے اظہار کا آغاز کرنا چاہئے۔ زندگی اور اچھائی لافانی ہیں۔ توآئیے ہم وجودیت سے متعلق ہمارے خیالات کوعمر اور خوف کی بجائے محبت، تازگی اور تواتر کے ساتھ تشکیل دیں۔

1. 246 : 27-31

Life is eternal. We should find this out, and begin the demonstration thereof. Life and goodness are immortal. Let us then shape our views of existence into loveliness, freshness, and continuity, rather than into age and blight.

2 . ۔ 550 :5۔7

خدا زندگی یا ذہانت ہے جو جانوروں اور اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کی بھی شناخت اور انفرادیت کو تشکیل دیتا اور محفوظ رکھتا ہے۔

2. 550 : 5-7

God is the Life, or intelligence, which forms and preserves the individuality and identity of animals as well as of men.

3 . ۔ 336 :25 (خدا)۔30

خدا، انسان کا الٰہی اصول، اور خدا کی شبیہ پر بناانسان غیر منفک، ہم آہنگ اورابدی ہیں۔ ہستی کی سائنس کاملیت کے اصول کو سجاتی ہے اور لافانیت کو روشنی میں لاتی ہے۔ خدا اور انسان ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ الٰہی سائنس کی ترتیب میں،خدا اور انسان ایک ساتھ رہتے ہیں اور ابدی ہوتے ہیں۔

3. 336 : 25 (God)-30

God, the divine Principle of man, and man in God's likeness are inseparable, harmonious, and eternal. The Science of being furnishes the rule of perfection, and brings immortality to light. God and man are not the same, but in the order of divine Science, God and man coexist and are eternal.

4 . ۔ 492 :7۔12

ہستی، پاکیزگی، ہم آہنگی، لافانیت ہے۔یہ پہلے سے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ اس کا علم، حتیٰ کہ معمولی درجے میں بھی، انسانوں کے جسمانی اور اخلاقی معیار کو اونچا کرے گا، عمر کی درازی کو بڑھائے گا، کردار کو پاک اور بلند کرے گا۔ پس ترقی ساری غلطی کو تباہ کرے گی اور لافانیت کو روشنی میں لائے گی۔

4. 492 : 7-12

Being is holiness, harmony, immortality. It is already proved that a knowledge of this, even in small degree, will uplift the physical and moral standard of mortals, will increase longevity, will purify and elevate character. Thus progress will finally destroy all error, and bring immortality to light.

5 . ۔ 296 :4۔21

ترقی تجربے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ فانی انسان کی پختگی ہے، جس کے وسیلہ لافانی کی خاطر فانی بشر کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خواہ یہاں یا اس کے بعد، تکالیف یا سائنس کو زندگی اور عقل کے حوالے سے تمام تر فریب نظری کو ختم کر دینا چاہئے، او ر مادی فہم اور خودی کو از سرے نو پیدا کرنا چاہئے۔ انسانیت کو اْس کے اعمال کے ساتھ منسوخ کر دینا چاہئے۔ کوئی بھی نفس پرستی یا گناہ آلود چیز لافانی نہیں ہے۔یہ مادے کی موت نہیں بلکہ جھوٹے مادی فہم اور گناہ کی موت ہی ہے جسے انسان اور زندگی ہم آہنگ، حقیقی اور ابدی ظاہر کرتے ہیں۔

مادے کی نام نہاد لذتیں اور درد نیست ہو جاتے ہیں اور انہیں سچائی کے شعلہ، روحانی فہم، اور ہستی کی حقیقت کے ماتحت چلنا ہوگا۔فانی عقیدے کو غلطی اور گناہ سے چھٹکارہ پانے کے لئے ان میں پائی جانے والی تمام تر تسکین کو ختم کرنا ہوگا۔

جلد یا بدیر بشر یہ سیکھ لیں گے، اور تباہی کے درد وہ کب تک برداشت کریں گے اس کا انحصار غلطی کی شدت پر ہے۔

5. 296 : 4-21

Progress is born of experience. It is the ripening of mortal man, through which the mortal is dropped for the immortal. Either here or hereafter, suffering or Science must destroy all illusions regarding life and mind, and regenerate material sense and self. The old man with his deeds must be put off. Nothing sensual or sinful is immortal. The death of a false material sense and of sin, not the death of organic matter, is what reveals man and Life, harmonious, real, and eternal.

The so-called pleasures and pains of matter perish, and they must go out under the blaze of Truth, spiritual sense, and the actuality of being. Mortal belief must lose all satisfaction in error and sin in order to part with them.

Whether mortals will learn this sooner or later, and how long they will suffer the pangs of destruction, depends upon the tenacity of error.

6 . ۔ 324: 13۔18

ہوشیار، سادہ اور چوکس رہیں۔ جو رستہ اس فہم کی جانب لے جاتا ہے کہ واحد خدا ہی زندگی ہے وہ رستہ سیدھا اور تنگ ہے۔یہ بدن کے ساتھ ایک جنگ ہے، جس میں گناہ، بیماری اور موت پر ہمیں فتح پانی چاہئے خواہ یہاں یا اس کے بعد، یقیناً اس سے قبل کہ ہم روح کے مقصد، یا خدا میں زندگی حاصل کرنے تک پہنچ پائیں۔

6. 324 : 13-18

Be watchful, sober, and vigilant. The way is straight and narrow, which leads to the understanding that God is the only Life. It is a warfare with the flesh, in which we must conquer sin, sickness, and death, either here or hereafter, — certainly before we can reach the goal of Spirit, or life in God.

7 . ۔ 213 :11۔15

اچھائی کی جانب بڑھنے والا قدم مادیت سے رخصت ہونا ہے، اور یہ خدا، روح کی جانب رغبت ہے۔مادی نظریات جزوی طور پر لافانی اور ابدی اچھائی کی جانب اِس توجہ کو فانی، عارضی اور مخالفت کی جانب توجہ کی بدولت مفلوج بناتے ہیں۔

7. 213 : 11-15

Every step towards goodness is a departure from materiality, and is a tendency towards God, Spirit. Material theories partially paralyze this attraction towards infinite and eternal good by an opposite attraction towards the finite, temporary, and discordant.

8 . ۔ 428 :32۔10

یہ یقین رکھنا گناہ ہے کہ کوئی چیز قادر مطلق اور ابدی زندگی کو زیر کرسکتی ہے،اور یہ سمجھتے ہوئے کہ موت نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روح کے دیگر فضائل کو سمجھنا زندگی میں روشنی لا سکتا ہے۔ تاہم ہمیں مزید اختیار کے سادہ اظہار کے ساتھ آغاز کرنا چاہئے، اور جتنا جلدی ہم یہ شروع کریں اْتنا ہی اچھا ہے۔آخری اظہار اس کے مکمل ہونے میں تھوڑا وقت لیتا ہے۔ چلتے وقت ہمیں آنکھ سے ہدایت ملتی ہے۔ ہم اپنے پاؤں کے سامنے دیکھتے ہیں، اور اگر ہم عقلمند ہوں تو ہم روحانی ترقی کی راہ میں ایک قدم آگے دیکھتے ہیں۔

8. 428 : 32-10

It is a sin to believe that aught can overpower omnipotent and eternal Life, and this Life must be brought to light by the understanding that there is no death, as well as by other graces of Spirit. We must begin, however, with the more simple demonstrations of control, and the sooner we begin the better. The final demonstration takes time for its accomplishment. When walking, we are guided by the eye. We look before our feet, and if we are wise, we look beyond a single step in the line of spiritual advancement.

9 . ۔ 289 :14۔20

یہ حقیقت کہ مسیح، یا سچائی نے موت پر فتح پائی یا ابھی بھی فتح پاتا ہے،”دہشت کے بادشاہ“ کو محض ایک فانی عقیدے یا غلطی کے علاوہ کچھ بھی ثابت نہیں کرتی، جسے سچائی زندگی کی روحانی شہادتوں کے ساتھ تباہ کرتی ہے؛ اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ حواس کو جو موت دکھائی دیتی ہے فانی فریب نظری کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ حقیقی انسان اور حقیقی کائنات کے لئے کوئی موت کا عمل نہیں۔

9. 289 : 14-20

The fact that the Christ, or Truth, overcame and still overcomes death proves the "king of terrors" to be but a mortal belief, or error, which Truth destroys with the spiritual evidences of Life; and this shows that what appears to the senses to be death is but a mortal illusion, for to the real man and the real universe there is no death-process.

10 . ۔ 46 :20۔24

یسوع کی موت کے بعداْسکی نہ بدلنے والی جسمانی حالت نے تمام تر مادی حالتوں پرسر بلندی پائی اور اِس سر بلندی نے اْس کے آسمان پر اٹھائے جانے کو واضح کیا، اور بغیر غلطی کے قبر سے آگے ایک امتحانی اور ترقی یافتہ حالت کو ظاہر کیا۔

10. 46 : 20-24

Jesus' unchanged physical condition after what seemed to be death was followed by his exaltation above all material conditions; and this exaltation explained his ascension, and revealed unmistakably a probationary and progressive state beyond the grave.

11 . ۔ 409 :27۔3

ہمیں یہ کہنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ زندگی اب مادے پر منحصر ہے مگر موت کے بعد یہ اِس پر انحصار نہیں کرے گی۔یہاں ہم زندگی کی سائنس سے لاعلمی میں اپنی زندگی نہیں گزار سکتے، اور قبر کے بعد اِس لاعلمی کے لئے اجر کی توقع نہیں کرسکتے۔لاعملی کے اجر کے طور پر موت ہمیں ہم آہنگ اور لافانی نہیں بنائے گی۔اگر یہاں ہم کرسچن سائنس پر توجہ نہیں دیتے جو کہ روحانی اور ابدی ہے،تو ہم اِس کے بعد روحانی زندگی کے لئے بھی تیار نہیں ہوں گے۔

11. 409 : 27-3

We have no right to say that life depends on matter now, but will not depend on it after death. We cannot spend our days here in ignorance of the Science of Life, and expect to find beyond the grave a reward for this ignorance. Death will not make us harmonious and immortal as a recompense for ignorance. If here we give no heed to Christian Science, which is spiritual and eternal, we shall not be ready for spiritual Life hereafter.

12 . ۔ 568 :30۔5

خود کی منسوخی، جس کے وسیلہ ہم غلطی کے ساتھ اپنی جنگ میں اپنا سب کچھ سچائی یا مسیح کے حوالے کر دیتے ہیں، کرسچن سائنس کا دستورہے۔ یہ دستور وضاحت کرتا ہے خدا کی بطور الٰہی اصول یعنی زندگی باپ کی پیش کردہ، بطور سچائی، بیٹے کی پیش کردہ،اور بطور محبت ماں کی پیش کردہ۔ ہر بشر کو کسی نہ کسی وقت، یہاں یا آخرت میں، خدا کے مخالف طاقت پر فانی عقیدے کے ساتھ نمٹنا اور اْسے فتح کرنا چاہئے۔

12. 568 : 30-5

Self-abnegation, by which we lay down all for Truth, or Christ, in our warfare against error, is a rule in Christian Science. This rule clearly interprets God as divine Principle, — as Life, represented by the Father; as Truth, represented by the Son; as Love, represented by the Mother. Every mortal at some period, here or hereafter, must grapple with and overcome the mortal belief in a power opposed to God.

13 . ۔ 291 :5۔9، 12۔18

ہم جانتے ہیں کہ جب آخری نرسنگا پھونکا جائے گا سب”ایک پل میں“ بدل جائے گا؛ مگر حکمت کایہ آخری بْلاوہ تب تک نہیں آسکتاجب تک بشر مسیحی کردار کی ترقی میں ہر ایک چھوٹے بلاوے کو پہلے سے ہی تسلیم نہ کرتے ہوں۔

عالمگیر نجات ترقی اور امتحان پر مرکوز ہے، اور ان کے بغیر غیر ممکن الحصول ہے۔آسمان کوئی جگہ نہیں، عقل کی الٰہی حالت ہے جس میں عقل کے تمام تر ظہور ہم آہنگ اور فانی ہوتے ہیں کیونکہ وہاں گناہ نہیں ہے اور انسان وہاں خود کی راستبازی کے ساتھ نہیں ”خداوند کی سوچ“ کی ملکیت میں پایا جاتا ہے جیسا کہ کلام یہ کہتا ہے۔

13. 291 : 5-9, 12-18

We know that all will be changed "in the twinkling of an eye," when the last trump shall sound; but this last call of wisdom cannot come till mortals have already yielded to each lesser call in the growth of Christian character.

Universal salvation rests on progression and probation, and is unattainable without them. Heaven is not a locality, but a divine state of Mind in which all the manifestations of Mind are harmonious and immortal, because sin is not there and man is found having no righteousness of his own, but in possession of "the mind of the Lord," as the Scripture says.

14 . ۔ 254 :16۔23

نفسی دور کے دوران، قطعی کرسچن سائنس کو اْس تبدیلی سے پہلے حاصل نہیں کیا جا سکتا جسے موت کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ جسے ہم سمجھ نہیں پاتے اْسے ظاہر کرنے کی طاقت ہم میں نہیں ہے۔مگر انسانی خودی کو انجیلی تبلیغ ملنی چاہئے۔آج خدا ہم سے اِس کلام کو قبول کرنے کا اور جلدی سے عملی طور پر مادی کو ترک کرنے اور روحانی پر عمل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جس سے بیرونی اور اصلی کا تعین ہوتا ہے۔

14. 254 : 16-23

During the sensual ages, absolute Christian Science may not be achieved prior to the change called death, for we have not the power to demonstrate what we do not understand. But the human self must be evangelized. This task God demands us to accept lovingly to-day, and to abandon so fast as practical the material, and to work out the spiritual which determines the out-ward and actual.

15 . ۔ 428 :3۔14

زندگی حقیقی ہے، اور موت بھرم ہے۔ یسوع کی راہ میں روح کے حقائق کا ایک اظہار مادی فہم کے تاریک ادراک میں ہم آہنگی اور لافانیت کو حل کرتا ہے۔اس مقتدر لمحے میں انسان کی ترجیح اپنے مالک کے ان الفاظ کو ثابت کرنا ہے: ”اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔“ جھوٹے بھروسوں اور مادی ثبوتوں کے خیالات کو ختم کرنے کے لئے، تاکہ شخصی روحانی حقائق سامنے آئیں، یہ ایک بہت بڑا حصول ہے جس کی بدولت ہم غلط کو تلف کریں گے اور سچائی کو جگہ فراہم کریں گے۔ یوں ہم سچائی کی وہ ہیکل یا بدن تعمیر کرتے ہیں، ”جس کا معمار اور بنانے والا خدا ہے“۔

15. 428 : 3-14

Life is real, and death is the illusion. A demonstration of the facts of Soul in Jesus' way resolves the dark visions of material sense into harmony and immortality. Man's privilege at this supreme moment is to prove the words of our Master: "If a man keep my saying, he shall never see death." To divest thought of false trusts and material evidences in order that the spiritual facts of being may appear, — this is the great attainment by means of which we shall sweep away the false and give place to the true. Thus we may establish in truth the temple, or body, "whose builder and maker is God."


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔