اتوار 31 دسمبر ، 2023
”اور سچائی سے واقف ہوگے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔“
“And ye shall know the truth, and the truth shall make you free.”
1۔ تسلی دو تم میرے لوگوں کو تسلی دو۔ تمہارا خدا فرماتا ہے۔
4۔ ہر ایک نشیب اونچا کیا جائے گا اور ہر ایک ٹیڑھی چیز سیدھی اور ہر ایک نا ہموار جگہ ہموار کی جائے گی۔
5۔ اور خداوند کا جلال آشکارا ہوگا اور تمام بشر اْس کو دیکھیں گے کیونکہ خداوند نے اپنے منہ سے فرمایا ہے۔
10۔ اے قومو! خداوند کا کلام سنو اور دور کے جزیروں میں منادی کرو اور کہو کہ جس نے اسرائیل کو تتر بتر کیا وہی اْسے جمع کرے گا اور اْس کی ایسی نگہبانی کرے گا جیسی گڈریا اپنے گلے کی۔
11۔ کیونکہ خداوند نے یعقوب کا فدیہ دیا ہے اور اْسے اْس کے ہاتھ سے جو اْس سے زور آور تھا رہائی بخشی ہے۔
12۔ پس وہ آئیں گے اور صیہون کی چوٹی پر گائیں گے اور خداوند کی نعمتوں یعنی اناج اور مے اور تیل اور گائے بیل کے اور بھیڑ بکری کے بچوں کی طرف اکٹھے رواں ہوں گے اور اْن کی جان سیراب باغ کی مانند ہوگی اور وہ پھر کبھی غمزدہ نہ ہوں گے۔
1. Comfort ye, comfort ye my people, saith your God.
4. Every valley shall be exalted, and every mountain and hill shall be made low: and the crooked shall be made straight, and the rough places plain:
5. And the glory of the Lord shall be revealed, and all flesh shall see it together: for the mouth of the Lord hath spoken it.
10. Hear the word of the Lord, O ye nations, and declare it in the isles afar off, and say, He that scattered Israel will gather him, and keep him, as a shepherd doth his flock.
11. For the Lord hath redeemed Jacob, and ransomed him from the hand of him that was stronger than he.
12. Therefore they shall come and sing in the height of Zion, and shall flow together to the goodness of the Lord, for wheat, and for wine, and for oil, and for the young of the flock and of the herd: and their soul shall be as a watered garden; and they shall not sorrow any more at all.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ خداوند خدا کی روح مجھ پر ہے اْس نے مجھے مسح کیا تاکہ حلیموں کو خوشخبری سناؤں۔ اْس نے مجھے بھیجا ہے کہ شکستہ دلوں کو تسلی دوں۔ قیدیوں کے لئے رہائی اور اسیروں کے لئے آزادی کا اعلان کروں۔
1 The Spirit of the Lord God is upon me; because the Lord hath anointed me to preach good tidings unto the meek; he hath sent me to bind up the brokenhearted, to proclaim liberty to the captives, and the opening of the prison to them that are bound;
6۔اور یعقوب کا کنواں وہیں تھا۔ چنانچہ یسوع سفر سے تھکاماندہ ہو کر اُس کنویں پر یونہی بیٹھ گیا۔ یہ چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔
7۔ سامریہ کی ایک عورت پانی بھرنے آئی۔ یسوع نے اُس سے کہا مجھے پانی پلا۔
9۔ اُس سامری عورت نے اُس سے کہا کہ تو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟کیونکہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے۔
10۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا اگر تو خدا کی بخشش کو جانتی اور یہ بھی جانتی کہ وہ کون ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پانی پلا تو تو اُس سے مانگتی اور وہ تجھے زندگی کا پانی دیتا۔
11۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند تیرے پاس پانی بھرنے کو تو کچھ ہے نہیں اور کنواں گہرا ہے۔ پھر وہ زندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے ا ٓیا؟
12۔کیا تو ہمارے باپ یعقوب سے بڑا ہے جس نے ہم کو یہ کنواں دیا اور خود اس نے اور اس کے بیٹوں نے اور اس کے مویشی نے اس میں سے پیا؟
13۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا جو کوئی اِس پانی میں سے پیتا ہے وہ پھر پیاسا ہو گا۔
14۔ مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پیئے گا جو میں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہوگا بلکہ جو پانی میں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائیگا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری ر ہے گا۔
15۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند وہ پانی مجھ کو دے تاکہ میں نہ پیاسی ہوں نہ پانی بھرنے کو یہاں تک آؤں۔
16۔ یسوع نے اُس سے کہا جا اپنے شوہر کو یہاں بُلا لا۔
17۔عورت نے جواب میں اُس سے کہا میں بے شوہر ہوں۔ یسوع نے اُس سے کہا تُونے خوب کہا کہ میں بے شوہر ہوں۔
18۔ کیونکہ تُو پانچ شوہر کر چکی ہے اور جس کے پاس تُواب ہے وہ تیرا شوہر نہیں یہ تُو نے سچ کہا۔
19۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تُو نبی ہے۔
20۔ ہمارے باپ دادا نے اِس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنا چاہیے یروشلم میں ہے۔
21۔ یسوع نے اُس سے کہا اے عورت! میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یروشلم میں۔
22۔ہم جسے جانتے ہیں اُس کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔
23۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔
24۔ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستارروح اور سچائی سے پرستش کریں۔
25۔عورت نے اُس سے کہا میں جانتی ہوں کہ مسیح جو خرستُس کہلاتا ہے آنے والا ہے۔ جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتادے گا۔
26۔ یسوع نے اُس سے کہا میں جو تجھ سے بول رہا ہوں وہی ہوں۔
27۔اتنے میں اس کے شاگرد آ گئے اور تعجب کرنے لگے کہ وہ عورت سے باتیں کر رہا ہے تو بھی کسی نے نہ کہا کہ تو کیا چاہتا ہے؟یا اس سے کس لئے باتیں کرتا ہے؟
28۔پس عورت اپنا گھڑا چھوڑ کر شہر میں چلی گئی اور لوگوں سے کہنے لگی۔
29۔آؤ،ایک آدمی کو دیکھو جس نے میرے سب کام مجھے بتا دیے۔کیا ممکن ہے کہ مسیح یہ ہے؟
6 Jesus therefore, being wearied with his journey, sat thus on the well: and it was about the sixth hour.
7 There cometh a woman of Samaria to draw water: Jesus saith unto her, Give me to drink.
8 (For his disciples were gone away unto the city to buy meat.)
9 Then saith the woman of Samaria unto him, How is it that thou, being a Jew, askest drink of me, which am a woman of Samaria? for the Jews have no dealings with the Samaritans.
10 Jesus answered and said unto her, If thou knewest the gift of God, and who it is that saith to thee, Give me to drink; thou wouldest have asked of him, and he would have given thee living water.
11 The woman saith unto him, Sir, thou hast nothing to draw with, and the well is deep: from whence then hast thou that living water?
12 Art thou greater than our father Jacob, which gave us the well, and drank thereof himself, and his children, and his cattle?
13 Jesus answered and said unto her, Whosoever drinketh of this water shall thirst again:
14 But whosoever drinketh of the water that I shall give him shall never thirst; but the water that I shall give him shall be in him a well of water springing up into everlasting life.
15 The woman saith unto him, Sir, give me this water, that I thirst not, neither come hither to draw.
16 Jesus saith unto her, Go, call thy husband, and come hither.
17 The woman answered and said, I have no husband. Jesus said unto her, Thou hast well said, I have no husband:
18 For thou hast had five husbands; and he whom thou now hast is not thy husband: in that saidst thou truly.
19 The woman saith unto him, Sir, I perceive that thou art a prophet.
20 Our fathers worshipped in this mountain; and ye say, that in Jerusalem is the place where men ought to worship.
21 Jesus saith unto her, Woman, believe me, the hour cometh, when ye shall neither in this mountain, nor yet at Jerusalem, worship the Father.
22 Ye worship ye know not what: we know what we worship: for salvation is of the Jews.
23 But the hour cometh, and now is, when the true worshippers shall worship the Father in spirit and in truth: for the Father seeketh such to worship him.
24 God is a Spirit: and they that worship him must worship him in spirit and in truth.
25 The woman saith unto him, I know that Messias cometh, which is called Christ: when he is come, he will tell us all things.
26 Jesus saith unto her, I that speak unto thee am he.
27 And upon this came his disciples, and marvelled that he talked with the woman: yet no man said, What seekest thou? or, Why talkest thou with her?
28 The woman then left her waterpot, and went her way into the city, and saith to the men,
29 Come, see a man, which told me all things that ever I did: is not this the Christ?
10۔ پھر وہ سبت کے دن کسی عبادتخانے میں تعلیم دیتا تھا۔
11۔ اوردیکھو ایک عورت تھی جس کو اٹھارہ برس سے کسی بد روح کے باعث کمزوری تھی۔ وہ کْبڑی ہو گئی تھی اور کسی طرح سیدھی نہیں ہو سکتی تھی۔
12۔ یسوع نے اْسے دیکھ کر بلایا اور اْس سے کہا اے عورت تْو اپنی کمزوری سے چھوٹ گئی۔
13۔ اور اْس نے اْس پر ہاتھ رکھے۔ وہ اْسی دم سیدھی ہوگئی اور خدا کی تمجید کرنے لگی۔
10 And he was teaching in one of the synagogues on the sabbath.
11 And, behold, there was a woman which had a spirit of infirmity eighteen years, and was bowed together, and could in no wise lift up herself.
12 And when Jesus saw her, he called her to him, and said unto her, Woman, thou art loosed from thine infirmity.
13 And he laid his hands on her: and immediately she was made straight, and glorified God.
28۔ پس یسوع نے کہا کہ جب تم ابنِ آدم کو اونچے پہاڑ پر چڑھاؤ گے تو جانو گے کہ مَیں وہی ہوں اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا بلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا اْسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں۔
29۔ اور جس نے مجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے۔ اْس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ مَیں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اْسے پسند آتے ہیں۔
30۔جب وہ یہ باتیں کہہ رہا تھا تو بہتیرے اس پر ایمان لائے۔
31۔ پس یسوع نے اْن یہودیوں سے کہا جنہوں نے اْس کا یقین کیا تھا کہ اگر تم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔
32۔ اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔
36۔ پس اگر بیٹا تمہیں آزاد کرے گا تو تم واقعی آزاد ہوگے۔
28 Then said Jesus unto them, When ye have lifted up the Son of man, then shall ye know that I am he, and that I do nothing of myself; but as my Father hath taught me, I speak these things.
29 And he that sent me is with me: the Father hath not left me alone; for I do always those things that please him.
30 As he spake these words, many believed on him.
31 Then said Jesus to those Jews which believed on him, If ye continue in my word, then are ye my disciples indeed;
32 And ye shall know the truth, and the truth shall make you free.
36 If the Son therefore shall make you free, ye shall be free indeed.
14۔اگر میرے نام سے مجھ سے کچھ چاہو گے تو میں وہی کروں گا۔
15۔ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔
16۔ اور مَیں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔
17۔ یعنی روحِ حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اْسے دیکھتی نہ جانتی ہے۔ تم اْسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہوگا۔
26۔ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ مَیں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔
27۔ مَیں تمہیں اطمینان دئیے جاتا ہوں۔ اپناا طمینان تمہیں دیتا ہوں۔ جس طرح دنیا دیتی ہے مَیں تمہیں اْس طرح نہیں دیتا۔ تمہارا دل نہ گھبرائے نہ ڈرے۔
14 If ye shall ask any thing in my name, I will do it.
15 If ye love me, keep my commandments.
16 And I will pray the Father, and he shall give you another Comforter, that he may abide with you for ever;
17 Even the Spirit of truth; whom the world cannot receive, because it seeth him not, neither knoweth him: but ye know him; for he dwelleth with you, and shall be in you.
26 But the Comforter, which is the Holy Ghost, whom the Father will send in my name, he shall teach you all things, and bring all things to your remembrance, whatsoever I have said unto you.
27 Peace I leave with you, my peace I give unto you: not as the world giveth, give I unto you. Let not your heart be troubled, neither let it be afraid.
1۔ مسیح نے ہمیں آزاد رہنے کے لئے آزاد کیا ہے پس قائم رہو اور دوبارہ غلامی کے جوئے میں نہ جتو۔
13۔ اے بھائیو! تم آزادی کے لئے بلائے گئے ہو مگر ایسا نہ ہو کہ وہ آزادی جسمانی باتوں کا موقع بنے بلکہ محبت کی راہ سے ایک دوسرے کی خدمت کرو۔
1 Stand fast therefore in the liberty wherewith Christ hath made us free, and be not entangled again with the yoke of bondage.
13 For, brethren, ye have been called unto liberty; only use not liberty for an occasion to the flesh, but by love serve one another.
انسانی عقائد کے کمزور احاطوں سے آگے، عقائد کی ڈھیلی گرفت سے اوپر، کرسچن عقل کی شفا ایک ظاہر شدہ اور عملی سائنس پیدا کرتی ہے۔ ہر دور میں یہ آمرانہ رہتی ہے بطور مسیح کی سچائی، زندگی اور محبت کا مکاشفہ، جو ہر انسان کے سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے مستحکم رہتا ہے۔
Beyond the frail premises of human beliefs, above the loosening grasp of creeds, the demonstration of Christian Mind-healing stands a revealed and practical Science. It is imperious throughout all ages as Christ's revelation of Truth, of Life, and of Love, which remains inviolate for every man to understand and to practise.
سامری عورت نے کہا: ”آؤ، ایک آدمی کو دیکھو جس نے میرے سب کام مجھے بتا دئے۔ کیا ممکن ہے کہ مسیح یہ ہے؟“
The Samaritan woman said: "Come, see a man, which told me all things that ever I did: is not this the Christ?"
یسوع کے ذریعے بدن پر روح کی طاقت کو ثابت کرنے کے لئے مسیح یعنی سچائی کو ظاہر کیا گیا تھا، یہ دکھانے کے لئے کہ انسانی عقل اور بدن پر اِس کے اثرات کی بدولت سچائی کو،بیماری سے شفا دیتے اور گناہ کو نیست کرتے ہوئے، ظاہر کیا جاتا ہے۔
یسوع نے مسیح،یعنی خدا کے حقیقی خیال کو پیش کیا۔
Christ, Truth, was demonstrated through Jesus to prove the power of Spirit over the flesh, — to show that Truth is made manifest by its effects upon the human mind and body, healing sickness and destroying sin.
Jesus represented Christ, the true idea of God.
پولوس نے کہا، ”روح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہرگز پورا نہ کروگے۔“جلد یا بدیر ہم یہ سیکھیں گے کہ انسان کی متناہی حیثیت کی بیڑیاں اس فریب نظری کے باعث پگھلنے لگتی ہیں کہ وہ جان کی بجائے بدن میں، روح کی بجائے مادے میں رہتا ہے۔
Paul said, "Walk in the Spirit, and ye shall not fulfil the lust of the flesh." Sooner or later we shall learn that the fetters of man's finite capacity are forged by the illusion that he lives in body instead of in Soul, in matter instead of in Spirit.
مادے کے دعووں سے انکار خوشی کی روح کی جانب انسانی آزادی اور بدن پر آخری فتح کی جانب بڑا قدم ہے۔
Denial of the claims of matter is a great step towards the joys of Spirit, towards human freedom and the final triumph over the body.
نہ عمر اور نہ ہی حادثہ روح کے حواس کے ساتھ مداخلت کر سکتا ہے، اور اِن کے علاوہ کوئی حقیقی حواس نہیں ہیں۔۔۔۔روح کے حواس درد سے مبرا ہیں، اور وہ ہمیشہ سکون میں رہتے ہیں۔کوئی چیز بھی اْن سے تمام تر چیزوں کی ہم آہنگی اور سچائی کی طاقت اور استقلال کو چھپا نہیں سکتی۔
Neither age nor accident can interfere with the senses of Soul, and there are no other real senses. … Spirit's senses are without pain, and they are forever at peace. Nothing can hide from them the harmony of all things and the might and permanence of Truth.
ہر خطے اور نسل کے آدمی اور عورتیں ابھی بھی مادی فہم کی قید میں ہیں اور اِس سے انجان ہیں کہ اپنی آزادی کیسے پائیں۔ جب ہماری سر زمین پر افریقی غلامی کو موقوف کیاگیا تھا تب انسانی حقوق کو ایک واحدحصے میں اور انسانی زندگی کی کم ترین سطح پر مقرر کیا گیا تھا۔ یہ دنیا بھر میں غلامی کے خاتمے کی جانب مزید اقدام کے لئے صرف ایک پیش بینی تھی، یعنی وہ غلامی جو وجودیت کی اعلیٰ سطحوں پر اور مزید نازک اور مسخ شدہ اشکال میں پائی جاتی تھی۔
افریقہ کے غلام کی جانب سے خدا کی آواز آج بھی ہماری سر زمین میں گونجتی ہے، جب اِس نئی تحریک کے قاصد کی آواز کائنات کی آزادی کے بنیادی سْر جیسی سنائی دی، بطور خدا کے بیٹے انسان کے حقوق کی مکمل منظوری طلب کرتے ہوئے، یہ مطالبہ رکھتے ہوئے کہ گناہ، بیماری اور موت کی کڑیاں انسانی عقل سے سخت ہوں اور یہ اِس کی آزادی جیتی جا ئے انسانی جنگ کے وسیلہ نہیں، خون اور خنجر کے ساتھ نہیں بلکہ مسیح کی الٰہی سائنس کے وسیلہ۔
خدا نے انسانی حقوق کا ایک بلند تر مقام تعمیر کر رکھا ہے، اور اِسے اْس نے الٰہی دعوں پر تعمیر کیا ہے۔ یہ دعوے اشاروں یا عقائد کے وسیلہ نہیں بنائے گئے، بلکہ ”زمین پر اْن آدمیوں سے جن سے راضی ہو صلح“ کے اظہار سے۔انسانی ضابطے، نظریہ پرستی کی الٰہیات، مادی دوا اور حفظانِ صحت، ایمان اور روحانی فہم کو زنجیر ڈالتے ہیں۔ الٰہی سائنس اِن زنجیروں کو ریزہ ریزہ توڑ دیتی ہے، اورانسان کا اپنے خالق کے ساتھ بلا شراکت تابعداری کا پیدائشی حق خود کو مضبوط کرتا ہے۔
مَیں نے اپنے سامنے کسی بیمار کو دیکھا، جو اِس عقیدے میں ایک غیر حقیقی مالک کی غلامی کو برسوں سے اوڑھے ہوئے تھا کہ وہ عقل کی بجائے بدن پر حکمرانی کرتے ہیں۔
لنگڑا، گونگا، بہرہ، اندھا، بیمار، جنس پرست،گناہگار، میری خواہش تھی کہ یہ اپنے عقائد کی غلامی سے اور فرعونوں کے تعلیمی نظام سے رہائی پائیں، جو آج، ماضی کی طرح، اسرائیلی قوم کو قید میں رکھتے ہیں۔ میں نے اپنے سامنے ہولناک تصادم دیکھا، بحیرہ قلزم اور بیابان؛ مگر میں نے خدا پر ایمان رکھ کر، سچائی، مضبوط نجات دہندہ پر بھروسہ کر کے سفر جاری رکھا، کہ وہ مجھے کرسچن سائنس کی سر زمین میں راہنمائی دے، جہاں بیڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور انسان کے حقوق کومکمل طور پر سمجھا اور تسلیم کیاجاتا ہے۔
مَیں نے دیکھا کہ فانی عقیدہ بشمول تمام غلطی، اوریہ کہ، حتیٰ کہ جابرانہ قانون متنازعہ ہوتے ہیں اور بشر کو اْن کی آزادی کے حق کی تعلیم دی جاتی ہے، تاکہ غلام بنانے والے حواس کے دعووں سے انکار کیا جائے اور اْنہیں تبدیل کیا جائے۔الٰہی عقل کے قانون کو انسانی غلامی کا خاتمہ کرنا چاہئے، وگرنہ بشر انسان کے غیر منفک ناگزیر حقوق سے لاعلم رہنا اور نااْمید غلامی کے ماتحت رہنا جاری رکھیں گے، کیونکہ چند عوامی معلمین الٰہی قوت سے لاعلمی کی اجازت دیتے ہیں، وہ لاعلمی جو متواتر غلامی اور انسانی دْکھوں کی بنیاد ہوتی ہے۔
انسان کے حقوق کو سمجھتے ہوئے ہم تمام مظالم کی تباہی سے متعلق پیش بینی کرنے میں ناکام نہیں ہو سکتے۔غلامی انسان کی جائزحالت نہیں ہے۔ خدا نے انسان کو آزاد پیدا کیا۔ پولوس نے کہا، ”میں آزاد پیدا ہوا۔“ سب انسانوں کو آزاد ہونا چاہئے۔ ”جہاں کہیں خداوند کا روح ہے، وہاں آزادی ہے۔“
Men and women of all climes and races are still in bondage to material sense, ignorant how to obtain their freedom. The rights of man were vindicated in a single section and on the lowest plane of human life, when African slavery was abolished in our land. That was only prophetic of further steps towards the banishment of a worldwide slavery, found on higher planes of existence and under more subtle and depraving forms.
The voice of God in behalf of the African slave was still echoing in our land, when the voice of the herald of this new crusade sounded the keynote of universal freedom, asking a fuller acknowledgment of the rights of man as a Son of God, demanding that the fetters of sin, sickness, and death be stricken from the human mind and that its freedom be won, not through human warfare, not with bayonet and blood, but through Christ's divine Science.
God has built a higher platform of human rights, and He has built it on diviner claims. These claims are not made through code or creed, but in demonstration of "on earth peace, goodwill toward men." Human codes, scholastic theology, material medicine and hygiene, fetter faith and spiritual understanding. Divine Science rends asunder these fetters, and man's birthright of sole allegiance to his Maker asserts itself.
I saw before me the sick, wearing out years of servitude to an unreal master in the belief that the body governed them, rather than Mind.
The lame, the deaf, the dumb, the blind, the sick, the sensual, the sinner, I wished to save from the slavery of their own beliefs and from the educational systems of the Pharaohs, who to-day, as of yore, hold the children of Israel in bondage. I saw before me the awful conflict, the Red Sea and the wilderness; but I pressed on through faith in God, trusting Truth, the strong deliverer, to guide me into the land of Christian Science, where fetters fall and the rights of man are fully known and acknowledged.
I saw that the law of mortal belief included all error, and that, even as oppressive laws are disputed and mortals are taught their right to freedom, so the claims of the enslaving senses must be denied and superseded. The law of the divine Mind must end human bondage, or mortals will continue unaware of man's inalienable rights and in subjection to hopeless slavery, because some public teachers permit an ignorance of divine power, — an ignorance that is the foundation of continued bondage and of human suffering.
Discerning the rights of man, we cannot fail to foresee the doom of all oppression. Slavery is not the legitimate state of man. God made man free. Paul said, "I was free born." All men should be free. "Where the Spirit of the Lord is, there is liberty."
کرسچن سائنس آزادی کو اونچا کرتی اور چلاتی ہے کہ: ”میری پیروی کریں! بیماری، گناہ اور موت کے بندھنوں سے بچیں!“ یسوع نے راستہ متعین کیا ہے۔ دنیا کے باسیو، ”خدا کے فرزندوں کی جلالی آزادی“ کو قبول کریں، اور آزاد ہوں! یہ آپ کا الٰہی حق ہے۔ مادی حِس کے بھرم نے، نہ کہ الٰہی قانون نے، آپ کو باندھا ہوا ہے، آپ کے آزاد اعضاء کو جکڑا ہوا ہے، آپ کی صلاحتیوں کو معزول کر رکھا ہے، آپ کے بدن کو لاغر کیا ہوا ہے، اور آپ کی ہستی کی تختی کو خراب کر رکھا ہے۔
اگر خدا نے انسان پر حکمرانی کے لئے مادی قوانین قائم کئے ہوتے، جن کی نافرمانی انسان کو بیمار بنا دیتی، تو یسوع نے براہ راست مخالفت میں اور تمام مادی حالتوں کی خلاف ورزی میں شفا دیتے ہوئے اِن قوانین کو رد نہ کیا ہوتا۔
Christian Science raises the standard of liberty and cries: "Follow me! Escape from the bondage of sickness, sin, and death!" Jesus marked out the way. Citizens of the world, accept the "glorious liberty of the children of God," and be free! This is your divine right. The illusion of material sense, not divine law, has bound you, entangled your free limbs, crippled your capacities, enfeebled your body, and defaced the tablet of your being.
If God had instituted material laws to govern man, disobedience to which would have made man ill, Jesus would not have disregarded those laws by healing in direct opposition to them and in defiance of all material conditions.
کرسچن سائنس خدا کو ظاہر کرتی ہے، بطور گناہ، بیماری اور موت کے مصنف نہیں، بلکہ بطور الٰہی اصول، اعلیٰ ہستی، عقل، بدی سے مبرا۔
چونکہ تمام تر سچائی الٰہی عقل سے جاری ہوتی ہے اس لئے اس میں جسمانی سائنس نہیں ہے۔ اس لئے سچائی انسان نہیں ہے، اور یہ مادے کا قانون نہیں ہے کیونکہ مادہ قانون دینے والا نہیں ہے۔ سائنس الٰہی عقل کا ظہور ہے اور صرف یہی خدا کی صحیح تشریح کرنے کے قابل ہے۔ اس کا اصل روحانی ہے نہ کہ مادی۔ یہ الٰہی اظہارِ خیال ہے، یعنی تسلی دینے والا جو سچائی کی جانب گامزن کرتا ہے۔
Christian Science reveals God, not as the author of sin, sickness, and death, but as divine Principle, Supreme Being, Mind, exempt from all evil.
There is no physical science, inasmuch as all truth proceeds from the divine Mind. Therefore truth is not human, and is not a law of matter, for matter is not a lawgiver. Science is an emanation of divine Mind, and is alone able to interpret God aright. It has a spiritual, and not a material origin. It is a divine utterance, — the Comforter which leadeth into all truth.
مقدس یوحنا کے الفاظ میں: ”وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔“ میں الٰہی سائنس کو یہ مددگار سمجھتا ہوں۔
In the words of St. John: "He shall give you another Comforter, that he may abide with you forever." This Comforter I understand to be Divine Science.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔