اتوار 18 فروری، 2024
”کیونکہ خداوند ہمارا حاکم ہے۔خداوند ہمارا شریعت دینے والا ہے۔خداوند ہمارا بادشاہ ہے وہی ہم کو بچائے گا“
“For the Lord is our judge, the Lord is our lawgiver, the Lord is our king; he will save us.”
1۔ خداوند میرا چوپان ہے۔ مجھے کمی نہ ہو گی۔
3۔ وہ میری جان کو بحال کرتا ہے۔ وہ مجھے اپنے نام کی خاطر صداقت کی راہوں پر لے چلتا ہے۔
1۔اے خداوند!میں اپنی جان تیری طرف اٹھاتا ہوں۔
4۔اے خداوند!اپنی راہیں مجھے دکھا اپنے راستے مجھے بتا دے۔
5۔مجھے اپنی سچائی پر چلا اور تعلیم دے۔کیونکہ تو میرا نجات دینے والا خدا ہے۔ میں دن بھر تیرا ہی منتظر رہتا ہوں۔
10۔جو خداوند کے عہد اور اس کی شہادتوں کو مانتے ہیں۔ان کے لئے اس کی سب راہیں شفقت اور سچائی ہیں۔
13۔اس کی جان راحت میں رہے گی اور اس کی نسل زمین کی وارث ہو گی۔
20۔میری جان کی حفاظت کر اور مجھے چھڑا۔مجھے شرمندہ نہ ہونے دے کیونکہ میرا توکل تجھ ہی پر ہے۔
1. The Lord is my shepherd; I shall not want.
3. He restoreth my soul: he leadeth me in the paths of righteousness for his name’s sake.
1. Unto thee, O Lord, do I lift up my soul.
4. Shew me thy ways, O Lord; teach me thy paths.
5. Lead me in thy truth, and teach me: for thou art the God of my salvation; on thee do I wait all the day.
10. All the paths of the Lord are mercy and truth unto such as keep his covenant and his testimonies.
13. His soul shall dwell at ease; and his seed shall inherit the earth.
20. O keep my soul, and deliver me: let me not be ashamed; for I put my trust in thee.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔اے صادقو!خداوند میں شادمان رہو۔حمد کرنا راست بازوں کو زیبا ہے۔
2۔ستار کے ساتھ خداوند کا شکر کرو۔دس تار کی بربط کے ساتھ اس کی ستائش کرو۔
3۔اس کے لئے نیا گیت گاؤ۔بلند آواز کے ساتھ اچھی طرح بجاؤ۔
4۔کیونکہ خداوند کا کلام راست ہے اور اس کے سب کام باوفا ہیں۔
5۔وہ صداقت اور انصاف کو پسند کرتا ہے۔زمین خداوند کی شفقت سے معمور ہے۔
6۔انسان خداوند کے کلام سے اور اس کا سارا لشکر اس کے منہ کے دم سے بنا۔
8۔ ساری زمین خداوند سے ڈرے۔ جہان کے سب باشندے اْس کا خوف رکھیں۔
9۔ کیونکہ اْس نے فرمایا اور ہوگیا۔اْس نے حکم دیا اور واقع ہوا۔
10۔خداوند قوموں کی مشورت کو باطل کر دیتا ہے۔ وہ امتوں کے منصوبوں کو نا چیز بنا دیتا ہے۔
11۔خداوند کی مصلحت ابد تک قائم رہے گی۔ اور اس کے دل کے خیال نسل در نسل۔
12۔مبارک ہے وہ قوم جس کا خداوند ہے اور وہ امت جس کو اس نے اپنی ہی میراث کے لئے برگزیدہ کیا۔
13۔خداوند آسمان پر سے دیکھتا ہے۔سب بنی آدم پر اس کی نگاہ ہے۔
14۔اپنی سکونت گاہ سے وہ زمین کے سب باشندوں کو دیکھتا ہے۔
15۔وہی ہے جو ان سب کے دلوں کو بناتا ہے اور ان کے سب کاموں کا خیال رکھتا ہے۔
18۔ دیکھو، خداوند کی نگاہ اْن پر ہے جو اْس سے ڈرتے ہیں۔ جو اْس کی شفقت کے اْمیدوار ہیں۔
19۔ تاکہ اْن کی جان موت سے بچائے اور قحط میں اْن کو جیتا رکھے۔
20۔ ہماری جان کو خداوند کی آس ہے۔ وہی ہماری کْمک اور ہماری سِپر ہے۔
21۔ہمارا دل اس میں شادمان رہے گا کیونکہ ہم نے اس کے پاک نام پر توکل کیا ہے۔
22۔اے خداوند!جیسی تجھ پر ہماری آس ہے۔ ویسی ہی تیری رحمت ہم پر ہو!
1 Rejoice in the Lord, O ye righteous: for praise is comely for the upright.
2 Praise the Lord with harp: sing unto him with the psaltery and an instrument of ten strings.
3 Sing unto him a new song; play skilfully with a loud noise.
4 For the word of the Lord is right; and all his works are done in truth.
5 He loveth righteousness and judgment: the earth is full of the goodness of the Lord.
6 By the word of the Lord were the heavens made; and all the host of them by the breath of his mouth.
8 Let all the earth fear the Lord: let all the inhabitants of the world stand in awe of him.
9 For he spake, and it was done; he commanded, and it stood fast.
10 The Lord bringeth the counsel of the heathen to nought: he maketh the devices of the people of none effect.
11 The counsel of the Lord standeth for ever, the thoughts of his heart to all generations.
12 Blessed is the nation whose God is the Lord; and the people whom he hath chosen for his own inheritance.
13 The Lord looketh from heaven; he beholdeth all the sons of men.
14 From the place of his habitation he looketh upon all the inhabitants of the earth.
15 He fashioneth their hearts alike; he considereth all their works.
18 Behold, the eye of the Lord is upon them that fear him, upon them that hope in his mercy;
19 To deliver their soul from death, and to keep them alive in famine.
20 Our soul waiteth for the Lord: he is our help and our shield.
21 For our heart shall rejoice in him, because we have trusted in his holy name.
22 Let thy mercy, O Lord, be upon us, according as we hope in thee.
12۔ اپنی نجات کی شادمانی مجھے پھر عنایت کر اور مستعد روح سے مجھے سنبھال۔
12 Restore unto me the joy of thy salvation; and uphold me with thy free spirit.
6۔ تب یسوع
11۔۔۔۔ نائین نام کے ایک شہر کو گیا اور اْس کے شاگرد اور بہت سے لوگ اْس کے ہمراہ تھے۔
12۔ جب وہ شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھو ایک مردے کو باہر لئے جاتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھااور وہ بیوہ تھی اور شہر کے بہتیرے لوگ اْس کے ساتھ تھے۔
13۔ اْسے دیکھ کر خداوند کو ترس آیا اور اْس سے کہا مت رو۔
14۔ پھر اْس نے پاس آکر جنازے کو چھوا اور اٹھانے والے کھڑے ہوگئے اور اْس نے کہا اے جوان! مَیں تجھ سے کہتا ہوں اْٹھ۔
15۔ وہ مردہ اْٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور اْس نے اْسے اْس کی ماں کو سونپ دیا۔
16۔ اور سب پر دہشت چھا گئی اور خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہوا ہے اور خدا نے اپنی امت پر توجہ کی ہے۔
6 Then Jesus
11 ...went into a city called Nain; and many of his disciples went with him, and much people.
12 Now when he came nigh to the gate of the city, behold, there was a dead man carried out, the only son of his mother, and she was a widow: and much people of the city was with her.
13 And when the Lord saw her, he had compassion on her, and said unto her, Weep not.
14 And he came and touched the bier: and they that bare him stood still. And he said, Young man, I say unto thee, Arise.
15 And he that was dead sat up, and began to speak. And he delivered him to his mother.
16 And there came a fear on all: and they glorified God, saying, That a great prophet is risen up among us; and, That God hath visited his people.
22۔ پھر وہ بیت ِ صیدا میں آئے اور لوگ ایک اندھے کو اْس کے پاس لائے اور اْس کی منت کی کہ اْسے چھوئے۔
23۔ وہ اْس اندھے کا ہاتھ پکڑ کر اْسے گاؤں سے باہر لے گیا اور اْس کی آنکھوں میں تھوک کر اپنے ہاتھ اْس پر رکھے اور اْس سے پوچھا کیا تْو کچھ دیکھتا ہے؟
24۔ اْس نے نظر اْٹھا کر کہا مَیں آدمیوں کو دیکھتا ہوں کیونکہ وہ مجھے چلتے ہوئے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے درخت۔
25۔ پھر اْس نے دوبارہ اْس کی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھے اور اْس نے غور سے نظر کی اور اچھا ہوگیا اور سب چیزیں صاف صاف دیکھنے لگا۔
22 And he cometh to Bethsaida; and they bring a blind man unto him, and besought him to touch him.
23 And he took the blind man by the hand, and led him out of the town; and when he had spit on his eyes, and put his hands upon him, he asked him if he saw ought.
24 And he looked up, and said, I see men as trees, walking.
25 After that he put his hands again upon his eyes, and made him look up: and he was restored, and saw every man clearly.
44۔ یسوع نے پکار کر کہا کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ مجھ پر نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتا ہے۔
44 Jesus cried and said, He that believeth on me, believeth not on me, but on him that sent me.
7۔ اگر تم مجھ میں قائم رہو اور میری باتیں تم میں قائم رہیں تو جو چاہو مانگو۔ وہ تمہارے لئے ہوجائے گا۔
8۔میرے باپ کا جلال اِسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ۔ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔
9۔جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی مَیں نے تم سے محبت رکھی تم میری محبت میں قائم رہو۔
10۔ اگر تم میرے حکموں پر عمل کروگے تو میری محبت میں قائم رہوگے جیسے مَیں نے اپنے باپ کے حُکموں پر عمل کیا ہے اور اُس کی محبت میں قائم ہوں۔
11۔ مَیں نے یہ باتیں اس لئے تم سے کہی ہیں کہ میری خوشی تم میں ہو اورتمہاری خوشی پوری ہوجائے۔
12۔میرا حکم یہ ہے جیسے مَیں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔
13۔اِس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دے دے۔
14۔ جو کچھ مَیں تم کو حکم دیتا ہوں اگر تم اْسے کرو تو میرے دوست ہو۔
7 If ye abide in me, and my words abide in you, ye shall ask what ye will, and it shall be done unto you.
8 Herein is my Father glorified, that ye bear much fruit; so shall ye be my disciples.
9 As the Father hath loved me, so have I loved you: continue ye in my love.
10 If ye keep my commandments, ye shall abide in my love; even as I have kept my Father’s commandments, and abide in his love.
11 These things have I spoken unto you, that my joy might remain in you, and that your joy might be full.
12 This is my commandment, That ye love one another, as I have loved you.
13 Greater love hath no man than this, that a man lay down his life for his friends.
14 Ye are my friends, if ye do whatsoever I command you.
10۔۔۔۔ اگر تْو اپنے دل کو بھوکے کی طرف مائل کرے اور آزودہ دل کو آسودہ کرے تو تیرا نور تاریکی میں چمکے گا اورتیری تیرگی دوپہر کی مانند ہوجائے گی۔
11۔ اور خداوند سدا تیری راہنمائی کرے گا اور خشک سالی میں تجھے سیر کرے گا اور تیری ہڈیوں کو قوت بخشے گا۔ پس تْو سیراب باغ کی مانند ہوگا اور اْس چشمہ کی مانند جس کا پانی کم نہ ہو۔
12۔ اور تیرے لوگ قدیم ویران مکانوں کو تعمیر کریں گے اور تْو پشت در پشت کی بنیادوں کو برپا کرے گا۔ اور تْو رخنہ کے بند کرنے والا اور آبادی کے لئے راہ کا درست کرنے والا کہلائے گا۔
14۔ تب خداوند مَیں میسر ہوں گا اور مَیں مسرور ہوں گا اور میں تجھے دنیا کی بلندیوں پر لے چلوں گا اور میں تجھے تیرے باپ یعقوب کی میراث سے کھلاؤں گا کیونکہ خداوند کے منہ سے یہ ارشاد ہوا ہے۔
10 ...if thou draw out thy soul to the hungry, and satisfy the afflicted soul; then shall thy light rise in obscurity, and thy darkness be as the noonday:
11 And the Lord shall guide thee continually, and satisfy thy soul in drought, and make fat thy bones: and thou shalt be like a watered garden, and like a spring of water, whose waters fail not.
12 And they that shall be of thee shall build the old waste places: thou shalt raise up the foundations of many generations; and thou shalt be called, The repairer of the breach, The restorer of paths to dwell in.
14 Then shalt thou delight thyself in the Lord; and I will cause thee to ride upon the high places of the earth, and feed thee with the heritage of Jacob thy father: for the mouth of the Lord hath spoken it.
1۔ مَیں ہر وقت خداوند کو مبارک کہوں گا۔ اْس کی ستائش ہمیشہ میری زبان پر رہے گی۔
2۔ میری روح خداوند پر فخر کرے گی۔ حلیم یہ سْن کر خوش ہوں گے۔
3۔ میرے ساتھ خداوند کی بڑائی کرو۔ ہم مل کر اْس کے نام کی تمجید کریں۔
4۔ مَیں خداوند کا طالب ہوا۔ اْس نے مجھے جواب دیا اور میری ساری دہشت سے مجھے رہائی بخشی۔
1 I will bless the Lord at all times: his praise shall continually be in my mouth.
2 My soul shall make her boast in the Lord: the humble shall hear thereof, and be glad.
3 O magnify the Lord with me, and let us exalt his name together.
4 I sought the Lord, and he heard me, and delivered me from all my fears.
جان یا روح خدا ہے،ناقابل تبدیل اور ابدی؛ اور انسان جان، خدا کے ساتھ وجودیت رکھتا اور اس کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ انسان خدا کی شبیہ ہے۔
Soul, or Spirit, is God, unchangeable and eternal; and man coexists with and reflects Soul, God, for man is God's image.
جان میں لامتناہی وسائل ہیں جن سے انسان کو برکت دینا ہوتی ہے اور خوشی مزید آسانی سے حاصل کی جاتی ہے اور ہمارے قبضہ میں مزید محفوظ رہے گی، اگر جان میں تلاش کی جائے گی۔ صرف بلند لطف ہی لافانی انسان کے نقوش کو تسلی بخش بنا سکتے ہیں۔
Soul has infinite resources with which to bless mankind, and happiness would be more readily attained and would be more secure in our keeping, if sought in Soul. Higher enjoyments alone can satisfy the cravings of immortal man.
سوال۔ جان کی سائنس کی شرائط کیاہیں؟
جواب۔ اس سائنس کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ”تْو میرے حضور غیر معبودوں کو نہ ماننا۔“یہ لفظ”میرے“ روح ہے۔لہٰذہ اس حکم کا مطلب ہے یہ: تو میرے سامنے نہ کوئی ذہانت، نہ زندگی، نہ مواد، نہ سچائی، نہ محبت رکھنا ماسوائے اْس کے جو روحانی ہے۔دوسرا بھی اسی طرح ہے، ”تْو اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔“اس بات کی پوری طرح سے سمجھ آجانی چاہئے کہ تمام انسانوں کی عقل ایک ہے، ایک خدا اور باپ، ایک زندگی، حق اور محبت ہے۔ جب یہ حقیقت ایک تناسب میں ایاں ہوگی تو انسان کامل ہوجائے گا، جنگ ختم ہو جائے گی اور انسان کا حقیقی بھائی چارہ قائم ہو جائے گا۔دوسرے دیوتا نہ ہونا، دوسروں کی طرف جانے کی بجائے راہنمائی کے لئے ایک کامل عقل کے پاس جاتے ہوئے، انسان خدا کی مانند پاک اور ابدی ہوجاتا ہے، جس کے پاس وہی عقل ہے جو مسیح میں بھی تھی۔
Question. — What are the demands of the Science of Soul?
Answer. — The first demand of this Science is, "Thou shalt have no other gods before me." This me is Spirit. Therefore the command means this: Thou shalt have no intelligence, no life, no substance, no truth, no love, but that which is spiritual. The second is like unto it, "Thou shalt love thy neighbor as thyself." It should be thoroughly understood that all men have one Mind, one God and Father, one Life, Truth, and Love. Mankind will become perfect in proportion as this fact becomes apparent, war will cease and the true brotherhood of man will be established. Having no other gods, turning to no other but the one perfect Mind to guide him, man is the likeness of God, pure and eternal, having that Mind which was also in Christ.
انسان کی بلند فطرت کمتر کی حکمرانی تلے نہیں ہوتی؛ اگر ایسا ہوتا، تو حکمت کی ترتیب اْلٹ ہوجاتی۔ زندگی سے متعلق ہمارے جھوٹے خیالات ابدی ہم آہنگی کو چھپاتے ہیں، اور وہ بیماری پیدا کرتے ہیں جس کی ہم شکایت کرتے ہیں۔چونکہ بشر مادی قوانین پر یقین رکھتے اور عقل کی سائنس کو رد کرتے ہیں، تو یہ مادیت کو اول اور جان کے اعلیٰ قانون کو آخر نہیں بنا تا۔اگر آپ نے ہونے کی سائنس کو سمجھا ہوتا، تو آپ کبھی پلمونری بیماری سے بچنے کے لئے حکمرانی کرنے والی عقل کی نسبت فلالین کو بہتر نہ سمجھتے۔
The higher nature of man is not governed by the lower; if it were, the order of wisdom would be reversed. Our false views of life hide eternal harmony, and produce the ills of which we complain. Because mortals believe in material laws and reject the Science of Mind, this does not make materiality first and the superior law of Soul last. You would never think that flannel was better for warding off pulmonary disease than the controlling Mind, if you understood the Science of being.
الٰہی عقل سبھی شناختوں کو،بطور منفرد اور ابدی، گھاس کاٹنے والی تلوار تا ستارے تک، محفوظ رکھتا ہے۔سوالات یہ ہیں: خدا کی شناختیں کیا ہیں؟ جان کیا ہے؟ کیا زندگی یا جان بنائی گئی چیز میں موجود ہوتی ہے؟
کچھ بھی حقیقی اور ابدی نہیں ہے، کچھ بھی روح نہیں ہے، ماسوائے خدا اور اْس کے خیال کے۔ بدی میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ نہ تو کوئی شخص، جگہ اور نہ ہی کوئی چیز ہے، بلکہ محض ایک عقیدہ، مادی حس کا ایک بھرم ہے۔
The divine Mind maintains all identities, from a blade of grass to a star, as distinct and eternal. The questions are: What are God's identities? What is Soul? Does life or soul exist in the thing formed?
Nothing is real and eternal, — nothing is Spirit, — but God and His idea. Evil has no reality. It is neither person, place, nor thing, but is simply a belief, an illusion of material sense.
کرسچن سائنس سارے اسباب کو جسمانی نہیں بلکہ ذہنی قرار دیتی ہے۔یہ جان اور بدن سے خفیہ پردہ ہٹاتی ہے۔ یہ انسان کا خدا کے ساتھ سائنسی تعلق بیان کرتی ہے، ہستی کے ملے جلے ابہام کو جْدا کرتی ہے، اور غلامانہ سوچ کو آزاد کرتی ہے۔الٰہی سائنس میں، کائنات بشمول انسان روحانی، ہم آہنگ اور ابدی ہے۔سائنس ظاہر کرتی ہے کہ جسے مادے کی اصطلاح دی جاتی ہے وہ اْس کی مغلوب حالت سے بڑھ کر کچھ نہیں جسے مصنف نے مادی عقل کی اصطلاح دی ہے۔
Christian Science explains all cause and effect as mental, not physical. It lifts the veil of mystery from Soul and body. It shows the scientific relation of man to God, disentangles the interlaced ambiguities of being, and sets free the imprisoned thought. In divine Science, the universe, including man, is spiritual, harmonious, and eternal. Science shows that what is termed matter is but the subjective state of what is termed by the author mortal mind.
کرسچن سائنس جان اور بدن کے دیدنی تعلق کو تبدیل کرتی ہے اور بدن کو عقل کے لئے معاون بناتی ہے۔پس یہ انسان پر منحصر کرتا ہے جو آرام دہ عقل کا حلیم خادم ہونے کے علاوہ کچھ نہیں، اگر چہ دوسری صورت میں یہ فہم کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔لیکن ہم اسے کبھی سمجھ نہیں پائیں گے جب تک کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ جان مادے کی بدولت بدن یا عقل میں ہے اور یہ کہ انسان کم عقلی میں شامل ہے۔
Christian Science reverses the seeming relation of Soul and body and makes body tributary to Mind. Thus it is with man, who is but the humble servant of the restful Mind, though it seems otherwise to finite sense. But we shall never understand this while we admit that soul is in body or mind in matter, and that man is included in non-intelligence.
فہم لازمی طور پر تعلیمی مراحل پر انحصار نہیں کرتا۔یہ خود تمام تر خوبصورتی اور شاعری اور اِن کے اظہار کی طاقت رکھتا ہے۔روح، یعنی خدا کو تب سنا جاتا ہے جب حواس خاموش ہوں۔ جو کچھ ہم کرتے ہیں ہم سب اْس سے زیادہ کرنے کے قابل ہیں۔ روح کا عمل یا اثر آزادی عطا کرتا ہے، جو تخفیف کا مظاہر اور غیر تربیت یافتہ ہونٹوں کی گرمجوشی واضح کرتی ہے۔
Mind is not necessarily dependent upon educational processes. It possesses of itself all beauty and poetry, and the power of expressing them. Spirit, God, is heard when the senses are silent. We are all capable of more than we do. The influence or action of Soul confers a freedom, which explains the phenomena of improvisation and the fervor of untutored lips.
چونکہ انسانی سوچ شعوری درد اور بے آرامی،خوشی اور غمی، خوف سے امید اور ایمان سے فہم کے ایک مرحلے سے دوسرے میں تبدیل ہوتی رہتی ہے، اس لئے ظاہری اظہاربالاآخر انسان پر جان کی حکمرانی ہوگا نہ کہ مادی فہم کی حکمرانی ہوگا۔خدا کی حکمرانی کی عکاسی کرتے ہوئے، انسان خود پر حکمران ہے۔صحت سے متعلق ہمارے مادی نظریات کو بے قیمت ثابت کرتے ہوئے جب انسان الٰہی روح کے ماتحت ہوجاتا ہے تو موت یا گناہ کے اختیار میں نہیں ہوسکتا۔
As human thought changes from one stage to another of conscious pain and painlessness, sorrow and joy, — from fear to hope and from faith to understanding, — the visible manifestation will at last be man governed by Soul, not by material sense. Reflecting God's government, man is self-governed. When subordinate to the divine Spirit, man cannot be controlled by sin or death, thus proving our material theories about laws of health to be valueless.
اگر جان گناہ کرتی ہے، تو وہ یقیناً فانی ہے۔گناہ میں خود کار تباہی کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ یہ خود کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ اگر گناہ کی حمایت کی جاتی، تو خدا اِسے ضرور قائم رکھتا، مگر یہ ناممکن ہے، کیونکہ سچائی غلطی کی حمایت نہیں کرسکتی۔جان انسان کا الٰہی اصول ہے اور یہ کبھی گناہ نہیں کرتی، لہٰذہ جان لافانی ہے۔ سائنس میں ہم سیکھتے ہیں کہ یہ مادی فہم ہے نہ کہ جان ہے جو گناہ کرتی ہے اور یہ دیکھا جائے گا کہ یہ گناہ کا فہم ہی ہوتا ہے جو کھو جاتا ہے نہ کہ گناہ آلودہ جان ہے۔
If Soul sins, it must be mortal. Sin has the elements of self-destruction. It cannot sustain itself. If sin is supported, God must uphold it, and this is impossible, since Truth cannot support error. Soul is the divine Principle of man and never sins, — hence the immortality of Soul. In Science we learn that it is material sense, not Soul, which sins; and it will be found that it is the sense of sin which is lost, and not a sinful soul.
ایک لمحے کے لئے ہوش کریں کہ زندگی اور ذہانت خالصتاً روحانی ہیں، نہ مادے میں نہ مادے سے، اورپھر بدن کو کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ اگر بیماری پر ایک عقیدے کی بدولت تکلیف میں ہیں تو اچانک آپ خود کو ٹھیک پائیں گے۔جب جسم پر روحانی زندگی، سچائی اور محبت کا پہرہ ہو گا تو دْکھ خوشی میں بدل جائیں گے۔لہٰذہ اْس وعدے کی امید جو یسوع دلاتا ہے: ”جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا؛۔۔۔کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں،“ ]کیونکہ انا بدن سے غائب ہو چکی اور اْس میں سچائی اور محبت آ موجود ہوتی ہے۔[ دعائے ربانی روح کی دعا ہے نہ کہ مادی فہم کی۔
Become conscious for a single moment that Life and intelligence are purely spiritual, — neither in nor of matter, — and the body will then utter no complaints. If suffering from a belief in sickness, you will find yourself suddenly well. Sorrow is turned into joy when the body is controlled by spiritual Life, Truth, and Love. Hence the hope of the promise Jesus bestows: "He that believeth on me, the works that I do shall he do also; ... because I go unto my Father," — [because the Ego is absent from the body, and present with Truth and Love.]
”تو اپنے سارے دل، اپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ۔“ اس حکم میں بہت کچھ شامل ہے، حتیٰ کہ محض مادی احساس، افسوس اور عبادت۔ یہ مسیحت کا ایلڈوراڈو ہے۔ اس میں زندگی کی سائنس شامل ہے اور یہ روح پر الٰہی قابو کی شناخت کرتی ہے، جس میں ہماری روح ہماری مالک بن جاتی ہے اور مادی حس اور انسانی رضا کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔
Dost thou "love the Lord thy God with all thy heart, and with all thy soul, and with all thy
mind"? This command includes much, even the surrender of all merely material sensation, affection, and worship. This is the El Dorado of Christianity. It involves the Science of Life, and recognizes only the divine control of Spirit, in which Soul is our master, and material sense and human will have no place.
مادی زندگی کے عقیدے اور خواب سے مکمل طور پر منفرد، الٰہی زندگی ہے، جو روحانی فہم اور ساری زمین پر انسان کی حکمرانی کے شعور کو ظاہرکرتی ہے۔یہ فہم غلطی کو باہر نکالتا اور بیمار کو شفا دیتا ہے، اوراِس کے ساتھ آپ ”صاحب اختیار کی مانند“ بات کر سکتے ہیں۔
روز مرہ کے فرائضمنجاب میری بیکر ایڈی
Entirely separate from the belief and dream of material living, is the Life divine, revealing spiritual understanding and the consciousness of man's dominion over the whole earth. This understanding casts out error and heals the sick, and with it you can speak "as one having authority."
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔