اتوار 5 مئی ، 2024
”جب تک خداوند مل سکتا ہے اْس کے طالب ہو۔ جب تک وہ نزدیک ہے اْسے پکارو۔“
“Seek ye the Lord while he may be found, call ye upon him while he is near.”
7۔ شریر اپنی راہ کو ترک کرے اور بدکار اپنے خیالوں کو اور وہ خداوند کی طرف پھرے اور وہ اْس پر رحم کرے گا اور ہمارے خداوند کی طرف کیونکہ وہ کثرت سے معاف کرے گا۔
8۔ خداوند رحیم اور کریم ہے۔ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی۔
9۔ وہ سدا جھڑکتا نہ رہے گا۔ وہ ہمیشہ غضبناک نہ رہے گا۔
10۔ اْس نے ہمارے گناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہمیں بدلہ نہیں دیا۔
11۔ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اْسی قدر اْس کی شفقت اْن پر ہے جو اْس سے ڈرتے ہیں۔
12۔ جیسے پورب پچھم سے دور ہے ویسے ہی اْس نے ہماری خطائیں ہم سے دور کردیں۔
13۔ جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہی خداوند اْن پر جو اْس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔
7. Let the wicked forsake his way, and the unrighteous man his thoughts: and let him return unto the Lord, and he will have mercy upon him; and to our God, for he will abundantly pardon.
8. The Lord is merciful and gracious, slow to anger, and plenteous in mercy.
9. He will not always chide: neither will he keep his anger for ever.
10. He hath not dealt with us after our sins; nor rewarded us according to our iniquities.
11. For as the heaven is high above the earth, so great is his mercy toward them that fear him.
12. As far as the east is from the west, so far hath he removed our transgressions from us.
13. Like as a father pitieth his children, so the Lord pitieth them that fear him.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
8۔ خداوند یوں فرماتا ہے کہ مَیں نے قبولیت کے وقت تیری سنی اور نجات کے دن تیری مدد کی اور مَیں تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے لئے تجھے ایک عہد ٹھہراؤں گا تاکہ ملک کو بحال کرے اور ویران میراث وارثوں کو دے۔
9۔ تاکہ تْو قیدیوں کو کہے کہ نکل چلو اور اْن کو جو اندھیرے میں ہیں کہ اپنے آپ کو دکھلاؤ۔ وہ راستوں میں چریں گے اور سب ننگے ٹیلے اْن کی چراگاہیں ہوں گے۔
11۔ اور مَیں اپنے سارے کوہستان کو ایک راستہ بنا دوں گا اور میری شاہراہیں اونچی کی جائیں گی۔
13۔ اے آسمانو گاؤ! اے زمین شادمان ہو اے پہاڑو نغمہ پردازی کرو! کیونکہ خداوند نے اپنے لوگوں کو تسلی بخشی اور اپنے رنجوروں پر رحم فرمائے گا۔
8 Thus saith the Lord, In an acceptable time have I heard thee, and in a day of salvation have I helped thee: and I will preserve thee, and give thee for a covenant of the people, to establish the earth, to cause to inherit the desolate heritages;
9 That thou mayest say to the prisoners, Go forth; to them that are in darkness, Shew yourselves. They shall feed in the ways, and their pastures shall be in all high places.
11 And I will make all my mountains a way, and my highways shall be exalted.
13 Sing, O heavens; and be joyful, O earth; and break forth into singing, O mountains: for the Lord hath comforted his people, and will have mercy upon his afflicted.
14۔ اور یوسف اپنے باپ کو دفن کر کے اور اپنے ساتھ جو اْس کے باپ کو دفن کرنے کے لئے اْس کے ساتھ گئے تھے مصر کو لوٹا۔
15۔ اور یوسف کے بھائی یہ دیکھ کر کہ اْن کا باپ مر گیا کہنے لگے کہ یوسف شاید ہم سے دشمنی کرے اور ساری بدی کا جو ہم نے اْس سے کی ہے پورا بدلہ لے۔
16۔ سو انہوں نے یوسف کو کہلا بھیجا کہ تیرے باپ نے مرنے سے آگے یہ حکم کیا تھا۔
17۔ کہ تم یوسف سے کہنا کہ اپنے بھائیوں کی خطا اور اْن کا گناہ اب بخش دے کیونکہ اْنہوں نے تجھ سے بدی کی۔ سو اب تْو اپنے باپ کے خدا کے بندے کی خطا بخش دے اور یوسف اْن کی یہ باتیں سن کر رویا۔
18۔ اور اْس کے بھائیوں نے خود بھی اْس کے سامنے جا کر اپنے سر ٹیک دئیے اور کہا دیکھ ہم تیرے خادم ہیں۔
19۔ یوسف نے اْن سے کہا مت ڈرو۔ کیا مَیں خدا کی جگہ پر ہوں؟
20۔ تم نے تو مجھ سے بدی کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن خدا نے اْسی سے نیکی کا قصد کیا تاکہ بہت سے لوگوں کی جان بچائے چنانچہ آج کے دن ایسا ہی ہو رہا ہے۔
21۔ اس لئے تم مت ڈرو۔ مَیں تمہاری اور تمہارے بال بچوں کی پرورش کرتا رہوں گا۔ یوں اْس نے اپنی ملائم باتوں سے اْن کی خاطر جمع کی۔
14 And Joseph returned into Egypt, he, and his brethren, and all that went up with him to bury his father, after he had buried his father.
15 And when Joseph’s brethren saw that their father was dead, they said, Joseph will peradventure hate us, and will certainly requite us all the evil which we did unto him.
16 And they sent a messenger unto Joseph, saying, Thy father did command before he died, saying,
17 So shall ye say unto Joseph, Forgive, I pray thee now, the trespass of thy brethren, and their sin; for they did unto thee evil: and now, we pray thee, forgive the trespass of the servants of the God of thy father. And Joseph wept when they spake unto him.
18 And his brethren also went and fell down before his face; and they said, Behold, we be thy servants.
19 And Joseph said unto them, Fear not: for am I in the place of God?
20 But as for you, ye thought evil against me; but God meant it unto good, to bring to pass, as it is this day, to save much people alive.
21 Now therefore fear ye not: I will nourish you, and your little ones. And he comforted them, and spake kindly unto them.
1۔ یسوع زیتون کے پہاڑ پر گیا۔
2۔ صبح سویرے ہی وہ پھر ہیکل میں آیا اور سب لوگ اس کے پاس آئے اور وہ بیٹھ کر انہیں تعلیم دینے لگا۔
3۔ اور فقیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی اور اسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوع سے کہا۔
4۔ اے استاد!یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے۔
5۔ توریت میں موسٰی نے ہم کوحکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں۔ پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے؟
6۔ انہوں نے اسے آزمانے کے لئے یہ کہا تاکہ اس پر الزام لگانے کا کوئی سبب نکالیں مگر یسوع جھک کر انگلی سے زمین پر لکھنے لگا۔
7۔ جب وہ اس سے سوال کرتے ہی رہے تو اس نے سیدھے ہو کر ان سے کہا کہ جو تم میں بیگناہ ہو وہی پہلے اس کو پتھر مارے۔
8۔ اور پھر جھک کر زمین پر انگلی سے لکھنے لگا۔
9۔ وہ یہ سن کر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ایک ایک کر کے نکل گئے اور یسوع اکیلا رہ گیا اور عورت وہیں بیچ میں رہ گئی۔
10۔ یسوع نے سیدھے ہو کر اس سے کہا اے عورت یہ لوگ کہاں گئے؟کیا کسی نے تجھ پرحکم نہیں لگایا؟
11۔ اس نے کہا اے خداوند کسی نے نہیں۔ یسوع نے کہا میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا۔ جا۔ پھر گناہ نہ کرنا۔
1 Jesus went unto the mount of Olives.
2 And early in the morning he came again into the temple, and all the people came unto him; and he sat down, and taught them.
3 And the scribes and Pharisees brought unto him a woman taken in adultery; and when they had set her in the midst,
4 They say unto him, Master, this woman was taken in adultery, in the very act.
5 Now Moses in the law commanded us, that such should be stoned: but what sayest thou?
6 This they said, tempting him, that they might have to accuse him. But Jesus stooped down, and with his finger wrote on the ground, as though he heard them not.
7 So when they continued asking him, he lifted up himself, and said unto them, He that is without sin among you, let him first cast a stone at her.
8 And again he stooped down, and wrote on the ground.
9 And they which heard it, being convicted by their own conscience, went out one by one, beginning at the eldest, even unto the last: and Jesus was left alone, and the woman standing in the midst.
10 When Jesus had lifted up himself, and saw none but the woman, he said unto her, Woman, where are those thine accusers? hath no man condemned thee?
11 She said, No man, Lord. And Jesus said unto her, Neither do I condemn thee: go, and sin no more.
21۔ اْس وقت پطرس نے پاس آکر اْس سے کہا اے خداوند اگر میرا بھائی گناہ کرتا رہے تو مَیں کتنی دفعہ اْسے معاف کروں؟ کیا سات بار تک؟
22۔ یسوع نے اْس سے کہا مَیں تجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات بار بلکہ سات دفعہ کے ستر بار۔
23۔ پس آسمان کی بادشاہی اْس بادشاہ کی مانند ہے جس نے اپنے نوکروں سے حساب لینا چاہا۔
24۔اور جب حساب لینے لگا تو اْس کے سامنے ایک قرضدار حاضر کیا گیا جس پر اْس کے دس ہزار توڑے آتے تھے۔
25۔ مگر چونکہ اْس کے پاس ادا کرنے کو کچھ نہ تھا اِس لئے اْس کے مالک نے حکم دیا کہ یہ اور اِس کے بیوی بچے اور جو کچھ اِس کا ہے سب بیچا جائے اور قرض وصول کرلیا جائے۔
26۔ پس نوکر نے گر کر اْسے سجدہ کیا اور کہا اے خداوند مجھے مہلت دے۔ مَیں تیرا سارا قرض ادا کر دوں گا۔
27۔ اْس نوکر کے مالک نے ترس کھا کر اْسے چھوڑ دیا اور اْس کا قرض بخش دیا۔
21 Then came Peter to him, and said, Lord, how oft shall my brother sin against me, and I forgive him? till seven times?
22 Jesus saith unto him, I say not unto thee, Until seven times: but, Until seventy times seven.
23 Therefore is the kingdom of heaven likened unto a certain king, which would take account of his servants.
24 And when he had begun to reckon, one was brought unto him, which owed him ten thousand talents.
25 But forasmuch as he had not to pay, his lord commanded him to be sold, and his wife, and children, and all that he had, and payment to be made.
26 The servant therefore fell down, and worshipped him, saying, Lord, have patience with me, and I will pay thee all.
27 Then the lord of that servant was moved with compassion, and loosed him, and forgave him the debt.
9۔۔۔۔کیونکہ خداوند تمہار اخدا غفور و رحیم ہے اور اگر تم اْس کی طرف پھرو تو وہ تم سے اپنا منہ پھیر نہ لے گا۔
9 …for the Lord your God is gracious and merciful, and will not turn away his face from you, if ye return unto him.
1۔ اے خداوند! اپنا کان جھکا اور مجھے جواب دے۔ کیونکہ مَیں مسکین اور محتاج ہوں۔
2۔ میری جان کی حفاظت کر کیونکہ مَیں دیندارہوں۔ اے میرے خدا! اپنے بندہ کو جس کا توکُل تجھ پر ہے بچا لے۔
3۔ یا رب! مجھ پر رحم کر کیونکہ مَیں دن بھر تجھ سے فریاد کرتا ہوں۔
4۔ یارب! اپنے بندہ کی جان کو شاد کردے۔ کیونکہ مَیں اپنی جان تیری طرف اٹھاتا ہوں۔
5۔ اس لئے کہ تو یارب! نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے۔ اور اپنے سب دعا کرنے والوں پر شفقت میں غنی ہے۔
6۔ اے خداوند! میری دعا پر کان لگا۔ اور میری منّت کی آواز پر توجہ فرما۔
7۔ مَیں اپنی مصیبت کے دن تجھ سے دعا کروں گا۔کیونکہ تو مجھے جواب دے گا۔
8۔یا رب! معبودوں میں تجھ سا کوئی نہیں اور تیری صعنتیں بے مثال ہیں۔
1 Bow down thine ear, O Lord, hear me: for I am poor and needy.
2 Preserve my soul; for I am holy: O thou my God, save thy servant that trusteth in thee.
3 Be merciful unto me, O Lord: for I cry unto thee daily.
4 Rejoice the soul of thy servant: for unto thee, O Lord, do I lift up my soul.
5 For thou, Lord, art good, and ready to forgive; and plenteous in mercy unto all them that call upon thee.
6 Give ear, O Lord, unto my prayer; and attend to the voice of my supplications.
7 In the day of my trouble I will call upon thee: for thou wilt answer me.
8 Among the gods there is none like unto thee, O Lord; neither are there any works like unto thy works.
13۔ تم کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہواور خدا سچا ہے۔وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دے گا بلکہ آزمائش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کرے گا تاکہ تم برداشت کر سکو۔
13 There hath no temptation taken you but such as is common to man: but God is faithful, who will not suffer you to be tempted above that ye are able; but will with the temptation also make a way to escape, that ye may be able to bear it.
34۔ آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنائے عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اْسے میراث میں لو۔
34 Come, ye blessed of my Father, inherit the kingdom prepared for you from the foundation of the world:
مسیحت کی سائنس بھوسے کو گندم سے جدا کرنے کے لئے ہاتھ میں پنکھا لئے ہوئے آتی ہے۔سائنس خدا کو ٹھیک واضح کرے گی اور مسیحت اِس وضاحت کو اِس کے الٰہی اصول کو ظاہر کرے گی، جو انسان کو جسمانی، اخلاقی اور روحانی طور پر بہتر بنارہا ہوتا ہے۔
The Science of Christianity comes with fan in hand to separate the chaff from the wheat. Science will declare God aright, and Christianity will demonstrate this declaration and its divine Principle, making mankind better physically, morally, and spiritually.
”شریر اپنی راہ کو ترک کرے اور بدکار اپنے خیالوں کو۔“
"Let the wicked forsake his way, and the unrighteous man his thoughts."
کرسچن سائنس جسمانی احساسات کے ثبوت سے بلند اٹھتی ہے؛ لیکن اگر آپ نے خود کو گناہ سے اوپر نہیں اٹھایا، تو اپنے بدی کے اندھے پن پر یا کسی ایسی اچھائی پر جسے آپ جانتے ہیں اور عمل نہیں کرتے خود کو مبارکباد مت دیں۔ ایک بے ایمان حالت مسیحی سائنسی حالت سے کوسوں دور ہے۔ ”جو اپنے گناہوں کو چھپاتا ہے کامیاب نہ ہوگا لیکن جو اْن کا اقرار کر کے اْن کو ترک کرتا ہے اْس پر رحمت ہو گی۔“
Christian Science rises above the evidence of the corporeal senses; but if you have not risen above sin yourself, do not congratulate yourself upon your blindness to evil or upon the good you know and do not. A dishonest position is far from Christianly scientific. "He that covereth his sins shall not prosper: but whoso confesseth and forsaketh them shall have mercy."
یسوع کی دعا، ”ہمارے قرض ہمیں بخش“ نے معافی کی اصطلاح کی وضاحت کی۔ جب زناکار عورت سے اْس نے کہا، ”جا اور پھر گناہ نہ کرنا۔“
Jesus' prayer, "Forgive us our debts," specified also the terms of forgiveness. When forgiving the adulterous woman he said, "Go, and sin no more."
پینڈولم کی طرح گناہ اور معافی کی امید میں جھْولتے ہوئے، خود غرضی اور نفس پرستی کو متواتر تنزلی کا موجب بنتے ہوئے ہماری اخلاقی ترقی دھیمی ہو جائے گی۔مسیح کے مطالبے پر بیدار ہونے سے بشر مصائب کا تجربہ کرتے ہیں۔ یہ انہیں، ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی مانند خودکو بچانے کی بھرپور کوششیں کرنے کی ترغیب دیتا ہے؛ اور مسیح کے بیش قیمت خون کے وسیلہ یہ کوششیں کامیابی کا سہرا پاتی ہیں۔
Vibrating like a pendulum between sin and the hope of forgiveness, — selfishness and sensuality causing constant retrogression, — our moral progress will be slow. Waking to Christ's demand, mortals experience suffering. This causes them, even as drowning men, to make vigorous efforts to save themselves; and through Christ's precious love these efforts are crowned with success.
توبہ اور دْکھوں کا ہر احساس، اصلاح کی ہر کوشش، ہر اچھی سوچ اور کام گناہ کے لئے یسوع کے کفارے کو سمجھنے میں مدد کرے گا اور اِس کی افادیت میں مدد کرے گا؛ لیکن اگر گناہگار دعا کرنا اور توبہ کرنا، گناہ کرنا اور معافی مانگنا جاری رکھتا ہے، تو کفارے میں، خدا کے ساتھ یکجہتی میں اْس کا بہت کم حصہ ہوگا، کیونکہ اْس میں عملی توبہ کی کمی ہے، جو دل کی اصلاح کرتی اور انسان کو حکمت کی رضا پوری کرنے کے قابل بناتی ہے۔وہ جو، کم از کم کسی حد تک، ہمارے مالک کی تعلیمات اور مشق کے الٰہی اصول کا اظہار نہیں کر سکتے اْن کی خدا میں کوئی شرکت نہیں ہے۔ اگر چہ خدا بھلا ہے، اگر ہم اْس کے ساتھ نافرمانی میں زندگی گزاریں، تو ہمیں کوئی ضمانت محسوس نہیں کرنی چاہئے۔
Every pang of repentance and suffering, every effort for reform, every good thought and deed, will help us to understand Jesus' atonement for sin and aid its efficacy; but if the sinner continues to pray and repent, sin and be sorry, he has little part in the atonement, — in the at-one-ment with God, — for he lacks the practical repentance, which reforms the heart and enables man to do the will of wisdom. Those who cannot demonstrate, at least in part, the divine Principle of the teachings and practice of our Master have no part in God. If living in disobedience to Him, we ought to feel no security, although God is good.
سائنس میں کوئی ریاکاری نہیں ہے۔ اصول ناگزیر ہے۔ آپ انسانی مرضی سے اِس کا مذاق نہیں اڑا سکتے۔سائنس الٰہی مطالبہ ہے نہ کہ انسانی۔ہمیشہ درست ہوتے ہوئے اِس کا الٰہی اصول کبھی پشیمان نہیں ہوا، بلکہ غلطی کو بجھاتے ہوئے سچائی کے دعوے کو برقرار رکھتا ہے۔ الٰہی رحم کی معافی غلطی کی تباہی ہے۔اگر انسان سارے فضل کو بطور حقیقی روحانی وسیلہ سمجھ لیتے، تو وہ روحانیت کی طرف رجوح کرنے کی اور امن میں رہنے کی جدوجہد کرتے، مگر جس غلطی میں انسانی عقل ڈوب چکی ہے وہ جتنی زیادہ گہری ہوگی روحانیت سے اِس کی مخالفت اْتنی ہی شدید ہوگی، جب تک غلطی سچائی کو تسلیم نہیں کرلیتی۔
There is no hypocrisy in Science. Principle is imperative. You cannot mock it by human will. Science is a divine demand, not a human. Always right, its divine Principle never repents, but maintains the claim of Truth by quenching error. The pardon of divine mercy is the destruction of error. If men understood their real spiritual source to be all blessedness, they would struggle for recourse to the spiritual and be at peace; but the deeper the error into which mortal mind is plunged, the more intense the opposition to spirituality, till error yields to Truth.
جرم کو روکنے، تشدد کے واقعات سے اجتناب کرنے یا سزا دینے کی خاطر عدالتیں اور قاضی لوگوں کا فیصلہ کرتے اور اْنہیں سزاسناتے ہیں۔ یہ کہنا کہ اِن عدالتوں کا دائرہ اختیار جسمانی یا فانی عقل پر نہیں ہوتا، اِس نمونے کی مخالفت ہوگی اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انسانی قانون کا اختیار مادے تک محدود ہے، جبکہ فانی عقل، بدی، جو اصلی غیر قانونی ہے، انصاف سے انکارکرتی ہے اور رحم کی طلبگار ہے۔کیا مادہ ایک جرم کرسکتا ہے؟ کیا مادہ سزا پا سکتا ہے؟ کیا آپ اْس سوچ اور بدن کو الگ کر سکتے ہیں جس پر عدالتوں کا دائرہ اختیار ہوتا ہے؟ فانی عقل، نہ کہ مادہ، ہر معاملے میں مجرم نہیں ہوتا؛ اورانسانی قانون درست طور پر جرم کا اندازہ لگا رہا ہے، اور عدالتیں مقصد کے مطابق،بجا طور پر سزا سنا رہی ہیں۔
Courts and juries judge and sentence mortals in order to restrain crime, to prevent deeds of violence or to punish them. To say that these tribunals have no jurisdiction over the carnal or mortal mind, would be to contradict precedent and to admit that the power of human law is restricted to matter, while mortal mind, evil, which is the real outlaw, defies justice and is recommended to mercy. Can matter commit a crime? Can matter be punished? Can you separate the mentality from the body over which courts hold jurisdiction? Mortal mind, not matter, is the criminal in every case; and human law rightly estimates crime, and courts reasonably pass sentence, according to the motive.
غلطی اور سچائی کے مابین، بدن اور روح کے مابین نہ کوئی موجودہ نہ ہی ابدی شراکت داری پائی جاتی ہے۔ خدا ویسے ہی گناہ، بیماری اور موت کو پیدا کرنے کے لئے نااہل ہے جیسے وہ ان غلطیوں کا تجربہ کرنے کے لئے نااہل ہے۔ تو پھر اْس کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ غلطیوں کے ترازو سے مزین انسان کو خلق کرے، ایسا انسان جو الٰہی صورت پر پیدا کیا گیا ہے؟
کیا خدا خود، یعنی روح، سے ایک مادی انسان خلق کرتا ہے؟ کیا بدی اچھائی سے جنم لیتی ہے؟ کیا الٰہی محبت انسانیت کے ساتھ فریب کرتی ہے جب وہ انسان کو بدی کے ساتھ شریک کرتی اور پھر اِس پر اْسے سزا دیتی ہے؟ کیاابتدا کو خلق کرنا اور پھر اْس کے ماخذ کو سزا دینا عقل مندی یا اچھائی سمجھا جائے گا؟
There is neither a present nor an eternal copartnership between error and Truth, between flesh and Spirit. God is as incapable of producing sin, sickness, and death as He is of experiencing these errors. How then is it possible for Him to create man subject to this triad of errors, — man who is made in the divine likeness?
Does God create a material man out of Himself, Spirit? Does evil proceed from good? Does divine Love commit a fraud on humanity by making man inclined to sin, and then punishing him for it? Would any one call it wise and good to create the primitive, and then punish its derivative?
اگر مادی علم طاقت ہے تو یہ حکمت نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک اندھی طاقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ انسان نے ”بہت سی ایجادات کر رکھی ہیں“، مگر اْس نے ابھی تک اسے سچ نہیں ماناہے کہ علم اْسے اِسی علم کے سنگین نتائج سے بچا سکتا ہے۔مادی عقل کی اپنے ہی بدن پر طاقت کو تھوڑا سمجھا گیا ہے۔
وہ تکلیف جو فانی عقل کو اِس کے جسمانی خواب سے بیدار کرتی ہے اْن جھوٹی خوشیوں سے بہتر ہے جو اِس خواب کو قائم رکھنے کا رجحان رکھتی ہیں۔گناہ اکیلا موت پیدا کرتا ہے، کیونکہ گناہ تباہی لانے کا واحد عنصر ہے۔
یسوع نے کہا، ”اْسی سے ڈروجو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ڈال سکتا ہے“۔ اِس متن کا بغور مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں لفظ روح کا مطلب جھوٹا فہم یا مادی شعور ہے۔یہ نہ روم سے، نہ شیطان سے نہ ہی خدا سے ہوشیار رہنے کا بلکہ گناہ سے ہوشیار رہنے کا حکم تھا۔ بیماری، گناہ اور موت زندگی یا سچائی کے ساتھی نہیں ہیں۔ کوئی شریعت اِن کی حمایت نہیں کرتی۔ اِن کا خدا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جس سے کہ اِن کی طاقت قائم ہو۔ گناہ اپنا جہنم بناتا ہے، اور نیکی اپنا فردوس بناتی ہے۔
If materialistic knowledge is power, it is not wisdom. It is but a blind force. Man has "sought out many inventions," but he has not yet found it true that knowledge can save him from the dire effects of knowledge. The power of mortal mind over its own body is little understood.
Better the suffering which awakens mortal mind from its fleshly dream, than the false pleasures which tend to perpetuate this dream.
"Fear him which is able to destroy both soul and body in hell," said Jesus. A careful study of this text shows that here the word soul means a false sense or material consciousness. The command was a warning to beware, not of Rome, Satan, nor of God, but of sin. Sickness, sin, and death are not concomitants of Life or Truth. No law supports them. They have no relation to God wherewith to establish their power. Sin makes its own hell, and goodness its own heaven.
گناہ کی تباہی معافی کا الٰہی طریقہ کار ہے۔ الٰہی زندگی موت کوتباہ کرتی ہے، سچائی غلطی کو نیست کرتی ہے، اور محبت نفرت کو نیست کرتی ہے۔ تباہ ہونے کے بعد، گناہ کو معافی کی کسی اور صورت کی ضرورت نہیں رہتی۔کسی گناہ کو نیست کرتے ہوئے، کیا خدا کی معافی پورے گناہ کی آخری تباہی کی پیش بینی نہیں کرتی اور اْسے شامل نہیں کرتی ہے؟
The destruction of sin is the divine method of pardon. Divine Life destroys death, Truth destroys error, and Love destroys hate. Being destroyed, sin needs no other form of forgiveness. Does not God's pardon, destroying any one sin, prophesy and involve the final destruction of all sin?
کون ہے جس نے انسانی امن کے نقصان کو محسوس کیا اور روحانی خوشی کے لئے شدید خواہشات حاصل نہیں کیں؟آسمانی اچھائی کے بعد اطمینان حاصل ہوتا ہے حتیٰ کہ اس سے قبل کہ ہم وہ دریافت کرتے جو عقل اور محبت سے تعلق رکھتا ہے۔زمینی امیدوں اور خوشیوں کا نقصان بہت سے دلوں کی چڑھنے والی راہ روشن کرتی ہے۔ فہم کی تکلیفیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ادراک کی خوشیاں فانی ہیں اور وہ خوشی روحانی ہے۔
فہم کی تکالیف صحت بخش ہیں، اگر وہ جھوٹے پْرلطف عقائد کو کھینچ کر دور کرتے اور روح کے فہم سے محبت پیدا کرتے ہیں، جہاں خدا کی مخلوقات اچھی ہیں اور ”دل کو شادمان“ کرتی ہیں۔ ایسی ہی سائنس کی تلوار ہے جس سے سچائی غلطی، مادیت کا سر قلم کرتی ہے، انسان کی بلند انفرادیت اور قسمت کو جگہ فراہم کرتے ہوئے۔
Who that has felt the loss of human peace has not gained stronger desires for spiritual joy? The aspiration after heavenly good comes even before we discover what belongs to wisdom and Love. The loss of earthly hopes and pleasures brightens the ascending path of many a heart. The pains of sense quickly inform us that the pleasures of sense are mortal and that joy is spiritual.
The pains of sense are salutary, if they wrench away false pleasurable beliefs and transplant the affections from sense to Soul, where the creations of God are good, "rejoicing the heart." Such is the sword of Science, with which Truth decapitates error, materiality giving place to man's higher individuality and destiny.
وقت آ پہنچا ہے جب فانی عقل اپنی جسمانی، بناوٹی اور مادی بنیادوں کو ترک کرے گی، جب لافانی عقل اور اْس کی اشکال سائنس میں سمجھی جائیں گی، اور مادی عقائد روحانی حقائق میں مداخلت نہیں کریں گے۔انسان ناقابل تقسیم اور ابدی ہے۔
The time approaches when mortal mind will forsake its corporeal, structural, and material basis, when immortal Mind and its formations will be apprehended in Science, and material beliefs will not interfere with spiritual facts. Man is indestructible and eternal.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔