اتوار 23 جون ، 2024



مضمون۔ کیا کائنات بشمول انسان ایٹمی توانائی سے مرتب ہوئی؟

SubjectIs The Universe, Including Man, Evolved By Atomic Force?

سنہری متن: مکاشفہ 22باب13 آیت

”مَیں الفا اور اومیگا۔ اول اور آخر۔ابتدا اور انتہا ہوں۔“



Golden Text: Revelation 22 : 13

I am Alpha and Omega, the beginning and the end, the first and the last.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: زبور 148: 2تا8، 11، 13 آیات


2۔ اے اْس کے فرشتو! سب اْس کی حمد کرو۔ اے اْس کے لشکرو! سب اْس کی حمد کرو۔

3۔ اے سورج! اے چاند! اْس کی حمد کرو۔ اے نورانی ستارو! سب اْس کی حمد کرو۔

4۔ اے افلاک افلاک! اْس کی حمد کرو۔ اور تْو بھی اے فضا پر کے پانی۔

5۔ یہ سب خداوند کے نام کی حمد کریں۔ کیونکہ اْس نے حکم دیا اور یہ پیدا ہوگئے۔

6۔ اْس نے اْن کو ابد الا آباد کے لئے قائم کیاہے۔ اْس نے اٹل قانون مقرر کیا ہے۔

7۔ زمین پر سے خداوند کی حمد کرو۔ اے اژدھاؤ اور سب گہرے سمندرو!

8۔ اے آگ اور اولو! اے برف اور کْہر! اے طوفانی ہوا! جو اْس کے کلام کی تعمیل کرتی ہے۔

11۔ اے زمین کے بادشاہو اورسب امتو! اے امرا اور زمین کے سب حاکمو!

13۔ یہ سب خداوند کے نام کی حمد کریں۔ کیونکہ صرف اْسی کا نام ممتاز ہے۔ اْس کا جلال زمین و آسمان سے بلند ہے۔

درسی وعظ

Responsive Reading: Psalm 148 : 2-8, 11, 13

2.     Praise ye him, all his angels: praise ye him, all his hosts.

3.     Praise ye him, sun and moon: praise him, all ye stars of light.

4.     Praise him, ye heavens of heavens, and ye waters that be above the heavens.

5.     Let them praise the name of the Lord: for he commanded, and they were created.

6.     He hath also stablished them for ever and ever: he hath made a decree which shall not pass.

7.     Praise the Lord from the earth, ye dragons, and all deeps:

8.     Fire, and hail; snow, and vapour; stormy wind fulfilling his word:

11.     Kings of the earth, and all people; princes, and all judges of the earth:

13.     Let them praise the name of the Lord: for his name alone is excellent; his glory is above the earth and heaven.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یوحنا 1 باب1تا3 آیات

1۔ ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔

2۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔

3۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔

1. John 1 : 1-3

1     In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God.

2     The same was in the beginning with God.

3     All things were made by him; and without him was not any thing made that was made.

2 . ۔ 1 سلاطین 18 باب1(تا؛) 17تا22، 30، 31 (تا پہلی)، 32(تا)، 33تا40 آیات

1۔ اور بہت دنوں کے بعد ایسا ہوا کہ خداوند کا یہ کلام تیسرے سال ایلیاہ پر نازل ہوا کہ جا کر اخی اب سے مل۔

17۔ اور اخی اب نے ایلیاہ کو دیکھا تو اْس نے اْس سے کہا اے اسرائیل کے ستانے والے کیا تْو ہی ہے؟

18۔ اْس نے جواب دیا مَیں نے اسرائیل کو نہیں ستایا بلکہ تْو اور تیرے باپ کے گھرانے نے کیونکہ تم نے خداوند کے حکموں کو ترک کیا اور تْو بعلیم کا پرور ہوگیا۔

19۔ اِس لئے اب تْو قاصد بھیج اور سارے اسرائیل کو اور بعل کے ساڑھے چار سو نبیوں کو اور یسیرت کے چار سو نبیوں کو جو ایزبل کے دستر خوان پر کھاتے ہیں کوہِ کرمل پر میرے پاس اکٹھا کر دے۔

20۔ سو اخی اب نے سب بنی اسرائیل کو بلا بھیجا اور نبیوں کو کوہِ کرمل پر اکٹھا کیا۔

21۔ اور ایلیاہ سب لوگوں کے نزدیک آکر کہنے لگا تم کب تک دو خیالوں میں ڈانواڈول رہو گے؟ اگر خداوند ہی خدا ہے تو اُس کے پیرو ہو جاو اور اگر بعل ہے تو اُس کی پیروی کرو۔ پر اُن لوگوں نے اُسے ایک حرف جواب نہ دیا۔

22۔ تب ایلیاہ نے اُن لوگوں سے کہا ایک میں ہی اکیلا خداوند کا نبی بچ رہا ہوں ہر بعل کے نبی چار سو پچاس آدمی ہیں۔

30۔ تب ایلیاہ نے سب لوگوں سے کہا کہ میرے نزدیک آجاؤ چنانچہ سب لوگ اُس کے نزدیک آ گئے۔ تب اُس نے خداوند کے اُس مذبح کو جو ڈھا دیا گیا تھا مرمت کیا۔

31۔اور ایلیاہ نے یعقوب کے بیٹوں کے قبیلوں کے شمار کے مطابق جس پر خداوند کا یہ کلام نازل ہوا تھا کہ تیرا نام اسرائیل ہو گا بارہ پتھر لیے۔

32۔ اور اُس نے اُن پتھروں سے خداوند کے نام کا ایک مذبح بنایا اور مذبح کے اردگرد اُس نے ایسی بڑی کھائی کھودی جس میں دو پیمانے بیج کی سمائی تھی۔

33۔اور لکڑیوں کو قرینہ سے چنا اور بیل کے ٹکڑے ٹکڑے کاٹ کر لکڑیوں پر دھر دیا اور کہا چار مٹکے پانی سے بھر کر اُس سوختنی قربانی پر اور لکڑیوں پر انڈیل دو۔

34۔ پھر اُس نے کہا دوبارہ کرو۔ انہوں نے دوبارہ کیا۔ پھر اُس نے کہاسہ بار کرو۔ سو انہوں نے سہ بار بھی کیا۔

35۔اور پانی مذبح کے گردا گرد بہنے لگا اور اُس نے کھائی بھی پانی سے بھروا دی۔

36۔اور شام کی قربانی چڑھانے کے وقت ایلیاہ نبی نزدیک آیا اور اُس نے کہا اے خداوند ابراہام اور اضحاق اور اسرائیل کے خدا! آج معلوم ہو جائے کہ اسرائیل میں تو ہی خدا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں نے اِن سب باتوں کو تیرے ہی حکم سے کیا ہے۔

37۔ میری سن اے خداوند میری سن تاکہ یہ لوگ جان جائیں کہ اے خداوند تو ہی خدا ہے اورتو نے پھر اُن کے دلوں کو پھیر دیا ہے۔

38۔ تب خداوند کی آگ نازل ہوئی اور اُس نے اُس سوختنی قربانی کو لکڑیوں اور پتھروں اور مٹی سمیت بھسم کر دیا اور اُس پانی کو جو کھائی میں تھا چاٹ لیا۔

39۔ جب سب لوگوں نے یہ دیکھا تو منہ کے بل گرے اور کہنے لگے خداوند وہی خدا ہے! خداوند وہی خدا ہے!۔

40۔ ایلیا نے اْن سے کہا بعل کے نبیوں کر پکڑ لو۔ اْن میں سے ایک بھی جانے نہ پائے۔ سو اْنہوں نے اْن کو پکڑ لیا اور ایلیاہ اْن کو نیچے قسیون کے نالے پر لے آیا اور وہاں اْن کو قتل کر دیا۔

2. I Kings 18 : 1 (to ;), 17-22, 30, 31 (to 1st ,), 32 (to ,), 33-40

1     And it came to pass after many days, that the word of the Lord came to Elijah in the third year, saying, Go, shew thyself unto Ahab;

17     And it came to pass, when Ahab saw Elijah, that Ahab said unto him, Art thou he that troubleth Israel?

18     And he answered, I have not troubled Israel; but thou, and thy father’s house, in that ye have forsaken the commandments of the Lord, and thou hast followed Baalim.

19     Now therefore send, and gather to me all Israel unto mount Carmel, and the prophets of Baal four hundred and fifty, and the prophets of the groves four hundred, which eat at Jezebel’s table.

20     So Ahab sent unto all the children of Israel, and gathered the prophets together unto mount Carmel.

21     And Elijah came unto all the people, and said, How long halt ye between two opinions? if the Lord be God, follow him: but if Baal, then follow him. And the people answered him not a word.

22     Then said Elijah unto the people, I, even I only, remain a prophet of the Lord; but Baal’s prophets are four hundred and fifty men.

30     And Elijah said unto all the people, Come near unto me. And all the people came near unto him. And he repaired the altar of the Lord that was broken down.

31     And Elijah took twelve stones,

32     And with the stones he built an altar in the name of the Lord: and he made a trench about the altar,

33     And he put the wood in order, and cut the bullock in pieces, and laid him on the wood, and said, Fill four barrels with water, and pour it on the burnt sacrifice, and on the wood.

34     And he said, Do it the second time. And they did it the second time. And he said, Do it the third time. And they did it the third time.

35     And the water ran round about the altar; and he filled the trench also with water.

36     And it came to pass at the time of the offering of the evening sacrifice, that Elijah the prophet came near, and said, Lord God of Abraham, Isaac, and of Israel, let it be known this day that thou art God in Israel, and that I am thy servant, and that I have done all these things at thy word.

37     Hear me, O Lord, hear me, that this people may know that thou art the Lord God, and that thou hast turned their heart back again.

38     Then the fire of the Lord fell, and consumed the burnt sacrifice, and the wood, and the stones, and the dust, and licked up the water that was in the trench.

39     And when all the people saw it, they fell on their faces: and they said, The Lord, he is the God; the Lord, he is the God.

40     And Elijah said unto them, Take the prophets of Baal; let not one of them escape. And they took them: and Elijah brought them down to the brook Kishon, and slew them there.

3 . ۔ 1 سلاطین 19 باب2، 3 (تا چوتھی)، 4 (اور آیا)تا12 آیات

2۔ سو ایزبل نے ایلیاہ کے پاس ایک قاصد روانہ کیا اور کہلا بھیجا کہ اگر میں کل اِس وقت تک تیری جان اُن کی جان کی طرح نہ بنا ڈالوں تو دیوتا مجھ سے ایسا ہی بلکہ ا س سے زیادہ کریں۔

3۔ جب اُس نے یہ دیکھا تو اٹھ کر اپنی جان بچانے کو بھاگا اور بیر سبع میں جو یہوداہ کا ہے آیا اور اپنے خادم کو وہیں چھوڑا۔

4۔۔۔۔ اور خود نکل گیا اور جھاؤ کے ایک پیڑ کے نیچے آکر بیٹھا اور اپنے لیے موت مانگی اور کہا بس ہے۔ اب تو اے خداوند میری جان کو لے لے کیونکہ مَیں اپنے باپ دادا سے بہتر نہیں ہوں۔

5۔ اور وہ جھاؤ کے ایک پیڑ کے نیچے لیٹا اور سو گیا اورد یکھو! ایک فرشتہ نے اُسے چھوا اور اُس سے کہا اٹھ اور کھا۔

6۔ اُس نے جو نگاہ کی تو کیا دیکھا کہ اُس کے سرہانے انگاروں پر پکی ہوئی ایک روٹی اور پانی کی ایک صراحی دھری ہے۔ سو وہ کھا پی کر پھر لیٹ گیا۔

7۔ اور خداوند کا فرشتہ دوبارہ پھر آیا اور اسے چھوا اور کہا اٹھ اور کھا کہ یہ سفر تیرے لیے بہت بڑا ہے۔

8۔ سو اُس نے اٹھ کر کھایا پیا اور اُس کھانے کی قوت سے چالیس دن اور چالیس رات چل کر خدا کے پہاڑ حورِب تک گیا۔

9۔ اور وہاں ایک غار میں جا کر ٹک گیا اور دیکھو خداوند کا یہ کلام اُس پر نازل ہوا کہ اے ایلیاہ! تُو یہاں کیا کرتا ہے؟

10۔ اُس نے کہا خداوند لشکروں کے خدا کے لیے مجھے بڑی غیرت آئی کیونکہ بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا اور تیرے مذبحوں کو ڈھا دیا اور تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں۔ سو وہ میری جان لینے کے در پے ہیں۔

11۔ اُس نے کہا باہر نکل اور پہاڑ پر خداوند کے حضور کھڑا ہو اور دیکھو خداوند گذرا اور ایک بڑی تند آندھی نے خداوند کے آگے پہاڑوں کو چیر ڈالا اور چٹانوں کے ٹکڑے کر دیے پر خداوند آندھی میں نہیں تھا اور آندھی کے بعد زلزلہ آیا پر خداوند زلزلہ میں نہیں تھا۔

12۔ اور زلزلہ کے بعد آ گ آئی پر خداوند آگ میں بھی نہیں تھا اور آگ کے بعد ایک دبی ہوئی ہلکی آواز آئی۔

3. I Kings 19 : 2, 3 (to 4th ,), 4 (and came)-12

2     Then Jezebel sent a messenger unto Elijah, saying, So let the gods do to me, and more also, if I make not thy life as the life of one of them by to morrow about this time.

3     And when he saw that, he arose, and went for his life, and came to Beer-sheba,

4     … and came and sat down under a juniper tree: and he requested for himself that he might die; and said, It is enough; now, O Lord, take away my life; for I am not better than my fathers.

5     And as he lay and slept under a juniper tree, behold, then an angel touched him, and said unto him, Arise and eat.

6     And he looked, and, behold, there was a cake baken on the coals, and a cruse of water at his head. And he did eat and drink, and laid him down again.

7     And the angel of the Lord came again the second time, and touched him, and said, Arise and eat; because the journey is too great for thee.

8     And he arose, and did eat and drink, and went in the strength of that meat forty days and forty nights unto Horeb the mount of God.

9     And he came thither unto a cave, and lodged there; and, behold, the word of the Lord came to him, and he said unto him, What doest thou here, Elijah?

10     And he said, I have been very jealous for the Lord God of hosts: for the children of Israel have forsaken thy covenant, thrown down thine altars, and slain thy prophets with the sword; and I, even I only, am left; and they seek my life, to take it away.

11     And he said, Go forth, and stand upon the mount before the Lord. And, behold, the Lord passed by, and a great and strong wind rent the mountains, and brake in pieces the rocks before the Lord; but the Lord was not in the wind: and after the wind an earthquake; but the Lord was not in the earthquake:

12     And after the earthquake a fire; but the Lord was not in the fire: and after the fire a still small voice.

4 . ۔ زبور 100: 3 آیت

3۔ جان رکھو کہ خداوند ہی خدا ہے۔ اْسی نے ہم کو بنایا اور ہم اْسی کے ہیں۔ ہم اْس کے لوگ اور اْس کی چراہ گاہ کی بھیڑیں ہیں۔

4. Psalm 100 : 3

3     Know ye that the Lord he is God: it is he that hath made us, and not we ourselves; we are his people, and the sheep of his pasture.

5 . ۔ رومیوں 8 باب28 آیت

28۔ اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اْن کے لئے جو خدا کے ارادہ کے موافق بلائے گئے۔

5. Romans 8 : 28

28     And we know that all things work together for good to them that love God, to them who are the called according to his purpose.

6 . ۔ یسعیاہ 14 باب24، 27آیات

24۔ رب الا فواج قسم کھا کر فرماتا ہے کہ یقینا جیسا مَیں نے چاہا ویسا ہی ہو جائے گا اور جیسا مَیں نے ارادہ کیا ویسا ہی وقوع ہوجائے گا۔

27۔ کیونکہ رب الافواج نے ارادہ کیا ہے۔ کون اْسے باطل کرے گا؟ اور اْس کا ہاتھ بڑھایا گیا ہے کون اْسے روکے گا؟

6. Isaiah 14 : 24, 27

24     The Lord of hosts hath sworn, saying, Surely as I have thought, so shall it come to pass; and as I have purposed, so shall it stand:

27     For the Lord of hosts hath purposed, and who shall disannul it? and his hand is stretched out, and who shall turn it back?

7 . ۔ عاموس 4باب13 آیت

13۔کیونکہ دیکھ اْسی نے پہاڑوں کو بنایا اور ہوا کو پیدا کیا وہ انسان پر اْس کے خیالات کو ظاہر کرتا ہے اور صبح کو تاریک بنا دیتا ہے اور زمین کے اونچے مقامات پر چلتا ہے۔ اْس کا نام خداوند رب الافواج ہے۔

7. Amos 4 : 13

13     For, lo, he that formeth the mountains, and createth the wind, and declareth unto man what is his thought, that maketh the morning darkness, and treadeth upon the high places of the earth, The Lord, The God of hosts, is his name.



سائنس اور صح


1 . ۔ 140: 28۔29 (تا؛)

ابتدا میں خدا نے انسان کو اپنی، خداکی، صورت پر پیدا کیا؛

1. 140 : 28-29 (to ;)

In the beginning God created man in His, God's, image;

2 . ۔ 583: 20۔25

خالق۔ روح؛ عقل؛ ذہانت؛ ساری اچھائی اور حقیقت کے الٰہی اصول پر زور دینے والا؛ خود موجود زندگی، سچائی اور محبت؛ وہ جو کامل اور ابدی ہے؛ مادے اور بدی کا مخالف، جس کا کوئی اصول نہیں؛ خدا جس نے وہ سب کچھ بنایا جو بنایا گیا تھا اور خود کے مخالف کوئی ایٹم یا عنصر نہ بنا سکا۔

2. 583 : 20-25

Creator. Spirit; Mind; intelligence; the animating divine Principle of all that is real and good; self-existent Life, Truth, and Love; that which is perfect and eternal; the opposite of matter and evil, which have no Principle; God, who made all that was made and could not create an atom or an element the opposite of Himself.

3 . ۔ 124: 25۔31

روح تمام چیزوں کی زندگی، مواد اور تواتر ہے۔ ہم قوتوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ انہیں چھوڑ دیں تو مخلوق نیست ہو جائے گی۔ انسانی علم انہیں مادے کی قوتیں کہتا ہے،لیکن الٰہی سائنس یہ واضح کرتی ہے کہ وہ مکمل طور پر الٰہی عقل کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور اس عقل میں میراث رکھتی ہیں، اور یوں انہیں اْن کے جائز گھر اور درجہ بندی میں بحال کرتی ہے۔

3. 124 : 25-31

Spirit is the life, substance, and continuity of all things. We tread on forces. Withdraw them, and creation must collapse. Human knowledge calls them forces of matter; but divine Science declares that they belong wholly to divine Mind, are inherent in this Mind, and so restores them to their rightful home and classification.

4 . ۔ 213: 30۔3

اس سے قبل کہ انسانی علم چیزوں سے متعلق جھوٹے فہم میں گہرا غرق ہوتا، یعنی اْن مادی اصلیتوں میں جو واحد عقل اور ہستی کے حقیقی وسیلہ کو خارج کردیتی ہیں، یہ ممکن ہے کہ سچائی سے نکلنے والے تاثرات آواز کی مانند واضح ہوتے اور یہ کہ وہ تاریخی انبیاء پربطور آواز نازل ہوئے۔

4. 213 : 30-3

Before human knowledge dipped to its depths into a false sense of things, — into belief in material origins which discard the one Mind and true source of being, — it is possible that the impressions from Truth were as distinct as sound, and that they came as sound to the primitive prophets.

5 . ۔ 293 :32۔5

پانچ جسمانی حواس انسانی غلطی کی راہیں اور آلات ہیں، اور یہ غلطی کے ساتھ ہی مطابقت رکھتی ہیں۔ یہ حواس عمومی انسانی عقیدے کی طرف اشارہ کرتی ہیں؛ کہ زندگی، مواد اور ذہانت روح کے ساتھ مادے کا ایک اتحاد ہے۔یہ مظاہر پرستی ہے، اور خود کے اندر پوری غلطی کے بیج سموئے ہوئے ہے۔

5. 293 : 32-5

The five physical senses are the avenues and instruments of human error, and they correspond with error. These senses indicate the common human belief, that life, substance, and intelligence are a unison of matter with Spirit. This is pantheism, and carries within itself the seeds of all error.

6 . ۔ 92: 11۔16

کلام کی پرانی تصویر میں ہم ایک سانپ کو علم کے درخت کے پاس کنڈلی مارے اور آدم اور حوا سے باتیں کرتا دیکھتے ہیں۔ یہ سانپ کو ہمارے باپ دادا کے سامنے نیک و بد کے علم، یعنی اْس علم کی تعریف کرتا ہوا پیش کرتا ہے جو روح کی بجائے مادے، یا بدی سے حاصل ہوا ہو۔

6. 92 : 11-16

In old Scriptural pictures we see a serpent coiled around the tree of knowledge and speaking to Adam and Eve. This represents the serpent in the act of commending to our first parents the knowledge of good and evil, a knowledge gained from matter, or evil, instead of from Spirit.

7 . ۔ 103: 31۔2

زندگی اور ہستی خدا ہیں۔کرسچن سائنس میں، انسان کوئی نقصان نہیں دے سکتا، کیونکہ سائنسی خیالات حقیقی خیالات ہیں، جو خدا سے انسان میں منتقل ہوتے ہیں۔

7. 103 : 31-2

Life and being are of God. In Christian Science, man can do no harm, for scientific thoughts are true thoughts, passing from God to man.

8 . ۔ 140 :7۔18

مادی نہیں بلکہ روحانی طور پر ہم اْسے بطور عقل، بطور زندگی، سچائی اور محبت جانتے ہیں۔ ہم الٰہی فطرت کو سمجھنے اور،جسمانیت پر مزید جنگ نہ کرتے ہوئے بلکہ ہمارے خدا کی بہتات سے شادمانی کرتے ہوئے، سمجھ کے ساتھ اْس سے پیار کرنے کے تناسب میں اْس کی فرمانبرداری اور عبادت کریں گے۔تو مذہب پھر دل کا ہوگا دماغ کا نہیں۔ مچھروں کو نکیل ڈالتے اوراونٹوں کو نگلتے ہوئے،انسان مزید ظالم اور محبت سے عاری قرار دیا ہوا نہیں ہوگا۔

ہم روحانی پرستش صرف تب کرتے ہیں جب ہم مادی پرستش کرنا ترک کرتے ہیں۔ روحانی عقیدت مسیحیت کی جان ہے۔

8. 140 : 7-18

Not materially but spiritually we know Him as divine Mind, as Life, Truth, and Love. We shall obey and adore in proportion as we apprehend the divine nature and love Him understandingly, warring no more over the corporeality, but rejoicing in the affluence of our God. Religion will then be of the heart and not of the head. Mankind will no longer be tyrannical and proscriptive from lack of love, — straining out gnats and swallowing camels.

We worship spiritually, only as we cease to worship materially. Spiritual devoutness is the soul of Christianity.

9 . ۔ 472: 30۔5

کرسچن سائنس میں ہم سیکھتے ہیں مادی سوچ یا جسم کی تمام خارج از آہنگی فریب نظری ہے جو اگرچہ حقیقی اور یکساں دکھائی دیتی ہے لیکن وہ نہ حقیقت کی نہ ہی یکسانیت کی ملکیت رکھتی ہے۔

عقل کی سائنس ساری بدی سے عاری ہوتی ہے۔ سچائی، خدا غلطی کا باپ نہیں ہے۔

9. 472 : 30-5

We learn in Christian Science that all inharmony of mortal mind or body is illusion, possessing neither reality nor identity though seeming to be real and identical.

The Science of Mind disposes of all evil. Truth, God, is not the father of error.

10 . ۔ 140: 25۔27

کرسچن سائنس کا خدا عالمگیر، ابدی اور الٰہی محبت ہے جو نہ تبدیل ہوتا ہے اور نہ بدی، بیماری اور موت کا سبب بنتا ہے۔

10. 140 : 25-27

The Christian Science God is universal, eternal, divine Love, which changeth not and causeth no evil, disease, nor death.

11 . ۔ 289 :25۔2

روحانی حقیقت اور چیزوں کا مادی عقیدہ متضادات ہیں؛ مگر روحانی سچ ہے، اور اِسی بنا پر مادی غیر حقیقی ہونا چاہئے۔زندگی مادے میں نہیں ہے۔ اِس لئے اِسے مادے سے نکلی ہوئی نہیں کہا جا سکتا۔مادہ اور موت فانی مغالطے ہیں۔ روح اور ساری روحانی چیزیں حقیقی اور ابدی ہیں۔

انسان جسم کی نہیں بلکہ روح کی اولاد ہے، زندگی کی اولاد ہے نہ کہ مادے کی۔کیونکہ زندگی خدا ہے، تو زندگی ابدی یعنی خود وجود رکھنے والی ہونی چاہئے۔زندگی ہمیشہ کا ”مَیں ہوں“، یعنی وہ ہستی جو تھا اور جو ہے اور جو آنے والا ہے، جسے کوئی چیز بھی ختم نہیں کر سکتی۔

11. 289 : 25-2

The spiritual fact and the material belief of things are contradictions; but the spiritual is true, and therefore the material must be untrue. Life is not in matter. Therefore it cannot be said to pass out of matter. Matter and death are mortal illusions. Spirit and all things spiritual are the real and eternal.

Man is not the offspring of flesh, but of Spirit, — of Life, not of matter. Because Life is God, Life must be eternal, self-existent. Life is the everlasting I am, the Being who was and is and shall be, whom nothing can erase.

12 . ۔ 511: 23۔3

فانی عقل کے لئے کائنات مائع، ٹھوس اور علم رکھنے والی ہے۔ روحانی تشریح کرتے ہوئے،پتھر اور پہاڑ ٹھوس ا ور بڑے خیالات کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ ذہانت کے پیمانے میں اْبھرتے ہوئے، مذکر، مونث یا بے لاگ جنس کی شکل لیتے ہوئے، جانور اور بشر استعاراً فانی خیال کے معیار کو پیش کرتے ہیں۔ وہ پرندے جو زمین سے اوپر فلک میں اڑتے ہیں،الٰہی اصول، محبت اور غیر مادی کے فہم کے لئے مادیت سے آگے اور بلند پرواز کرتے ہوئے کھلی ہوا سے تعلق رکھتے ہیں۔

12. 511 : 23-3

To mortal mind, the universe is liquid, solid, and aëriform. Spiritually interpreted, rocks and mountains stand for solid and grand ideas. Animals and mortals metaphorically present the gradation of mortal thought, rising in the scale of intelligence, taking form in masculine, feminine, or neuter gender. The fowls, which fly above the earth in the open firmament of heaven, correspond to aspirations soaring beyond and above corporeality to the understanding of the incorporeal and divine Principle, Love.

13 . ۔ 143: 26۔31

عقل ہی سب سے بڑا خالق ہے، اور ایسی کوئی طاقت نہیں ہے جو عقل سے اخذ نہ کی گئی ہو۔اگر عقل تاریخی طور پر پہلے تھی، طاقت کے اعتبار سے بھی پہلے ہے، ابدیت کے لحاظ سے بھی پہلے ہے، تو اْس کے پاک نام کے موافق عقل کو جلال، عزت، اقتدار اور طاقت دیں۔

13. 143 : 26-31

Mind is the grand creator, and there can be no power except that which is derived from Mind. If Mind was first chronologically, is first potentially, and must be first eternally, then give to Mind the glory, honor, dominion, and power everlastingly due its holy name.

14 . ۔ 192: 11۔26

سر گرداں طاقت مادی یقین ہے، اندھی قوت کا دیا ہوا غلط نام، حکمت کی بجائے مرضی، لافانی کی بجائے فانی عقل کی پیداوارہے۔ یہ سر ِ اول موتیا ہے، بھسم کرنے والی آگ کا شعلہ ہے، طوفان کی سانس ہے۔ یہ گرج چمک اور طوفان ہے، یہ وہ سب ہے جو خودغرضی، بدکاری، بے ایمانی اور ناپاکی ہے۔

اخلاقی اور روحانی شاید روح سے تعلق رکھتے ہیں، جو ”ہوا کو اپنی مٹھی“ میں جمع کر لیتا ہے؛ اور یہ تعلیم سائنس اور ہم آہنگی کے ساتھ یکجا ہوتی ہے۔ سائنس میں، خدا کے مخالف آپ کوئی قوت نہیں رکھ سکتے، اور جسمانی احساسات کو ان کی جھوٹی گواہی سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ نیکی کے لئے آپ کے رسوخ کا انحصار اس وزن پر ہے جو آپ درست سکیل پر ڈالتے ہیں۔ جو نیکی آپ کرتے ہیں اور ظاہری جسم آپ کو محض قابلِ حصول قوت فراہم کرتے ہیں۔ بدی کوئی طاقت نہیں ہے۔ یہ طاقت کا تمسخر ہے جوجلد ہی اپنی کمزوری کو دھوکہ دیتا اور کبھی نہ اٹھنے کے لئے گر جاتا ہے۔

14. 192 : 11-26

Erring power is a material belief, a blind miscalled force, the offspring of will and not of wisdom, of the mortal mind and not of the immortal. It is the headlong cataract, the devouring flame, the tempest's breath. It is lightning and hurricane, all that is selfish, wicked, dishonest, and impure.

Moral and spiritual might belong to Spirit, who holds the "wind in His fists;" and this teaching accords with Science and harmony. In Science, you can have no power opposed to God, and the physical senses must give up their false testimony. Your influence for good depends upon the weight you throw into the right scale. The good you do and embody gives you the only power obtainable. Evil is not power. It is a mockery of strength, which erelong betrays its weakness and falls, never to rise.

15 . ۔ 472: 24 (تمام)۔26

تمام حقیقت خدا اور اْس کی مخلوق میں ہم آہنگ اور ابدی ہے۔ جو کچھ وہ بناتا ہے اچھا ہے اور جو کچھ بنا ہے اْسی نے بنایا ہے۔

15. 472 : 24 (All)-26

All reality is in God and His creation, harmonious and eternal. That which He creates is good, and He makes all that is made.

16 . ۔ 264 :28۔31

جب ہم کرسچن سائنس میں راستہ جانتے ہیں اور انسان کی روحانی ہستی کو پہچانتے ہیں، ہم خدا کی تخلیق کو سمجھیں اور دیکھیں گے،سارا جلال زمین اور آسمان اور انسان کے لئے۔

16. 264 : 28-31

When we learn the way in Christian Science and recognize man's spiritual being, we shall behold and understand God's creation, — all the glories of earth and heaven and man.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔