اتوار 25 اگست ، 2024
”مگر ہم میں مسیح کی عقل ہے۔“
“But we have the mind of Christ.”
33۔ واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اْس کے فیصلے کس قدر ادراک سے پرے اور اْس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں!
34۔ خداوند کی عقل کو کس نے جانا؟ یا کون اْس کا صلاح کار ہوا؟
35۔ یا کس نے پہلے اْسے کچھ دیا ہے جس کا بدلہ اْسے دیا جائے؟
36۔ کیونکہ اْسی کی طرف سے اور اْسی کے وسیلہ سے اور اْسی کے لئے سب چیزیں ہیں۔ اْس کی تمجید ابد تک ہوتی رہے۔
5۔ اور خدا صبر اور تسلی کا چشمہ تم کو یہ توفیق دے کہ مسیح یسوع کے مطابق آپس میں یک دل رہو۔
6۔ تاکہ تم یک دل اور یک زبان ہو کر ہمارے خداوند یسوع مسیح کے خدا اور باپ کی تمجید کرو۔
33. O the depth of the riches both of the wisdom and knowledge of God! how unsearchable are his judgments, and his ways past finding out!
34. For who hath known the mind of the Lord? or who hath been his counsellor?
35. Or who hath first given to him, and it shall be recompensed unto him again?
36. For of him, and through him, and to him, are all things: to whom be glory for ever.
5. Now the God of patience and consolation grant you to be like-minded one toward another according to Christ Jesus:
6. That ye may with one mind and one mouth glorify God, even the Father of our Lord Jesus Christ.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
3۔ جس کا دل قائم ہے تْو اْسے سلامت رکھے گا کیونکہ اْس کا توکل تجھ پر ہے۔
4۔ اب تک خداوند پر اعتماد رکھو کیونکہ خداوند یہواہ ابدی چٹان ہے۔
3 Thou wilt keep him in perfect peace, whose mind is stayed on thee: because he trusteth in thee.
4 Trust ye in the Lord for ever: for in the Lord JEHOVAH is everlasting strength:
1۔ پس اے بھائیو۔ مَیں خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔
2۔اور اس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہوجانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔
16۔ آپس میں یکدل رہو۔ اونچے اونچے خیال نہ باندھو بلکہ ادنیٰ لوگوں کی طرف متوجہ ہو۔ اپنے آپ کو عقلمند نہ سَمجھو۔
1 I beseech you therefore, brethren, by the mercies of God, that ye present your bodies a living sacrifice, holy, acceptable unto God, which is your reasonable service.
2 And be not conformed to this world: but be ye transformed by the renewing of your mind, that ye may prove what is that good, and acceptable, and perfect, will of God.
16 Be of the same mind one toward another. Mind not high things, but condescend to men of low estate. Be not wise in your own conceits.
7۔ کیونکہ خدا نے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور تربیت کی روح دی ہے۔
7 For God hath not given us the spirit of fear; but of power, and of love, and of a sound mind.
19۔ اور یسوع اْٹھا۔
20۔ اور دیکھو ایک عورت نے جس کے بارہ برس سے خون جاری تھا اْس کے پیچھے آکر اْس کی پوشاک کا کنارہ چھوا۔
21۔ کیونکہ وہ اپنے جی میں کہتی تھی کہ اگر صرف اْس کی پوشاک ہی چھو لوں گی تو اچھی ہو جاؤں گی۔
22۔ یسوع نے پھر کر اْسے دیکھا اور کہا بیٹی خاطر جمع رکھ تیرے ایمان نے تجھے اچھا کر دیا۔ پس وہ عورت اْسی گھڑی اچھی ہوگئی۔
27۔ جب یسوع وہاں سے آگے بڑھا تو دو اندھے اْس کے پیچھے یہ پکارتے ہوئے چلے کہ اے ابنِ داؤد ہم پر رحم کر۔
28۔ جب وہ گھر میں پہنچا تو وہ اندھے اْس کے پاس آئے اور یسوع نے اْن سے کہا کیا تم کو اعتقاد ہے کہ مَیں یہ کر سکتا ہوں؟ انہوں نے اْس سے کہا ہاں اے خداوند۔
29۔ تب اْس نے اْن کی آنکھیں چھو کر کہا تمہارے اعتقاد کے موافق تمہارے لئے ہو۔
30۔ اور اْن کی آنکھیں کھْل گئیں۔
19 And Jesus arose,
20 And, behold, a woman, which was diseased with an issue of blood twelve years, came behind him, and touched the hem of his garment:
21 For she said within herself, If I may but touch his garment, I shall be whole.
22 But Jesus turned him about, and when he saw her, he said, Daughter, be of good comfort; thy faith hath made thee whole. And the woman was made whole from that hour.
27 And when Jesus departed thence, two blind men followed him, crying, and saying, Thou Son of David, have mercy on us.
28 And when he was come into the house, the blind men came to him: and Jesus saith unto them, Believe ye that I am able to do this? They said unto him, Yea, Lord.
29 Then touched he their eyes, saying, According to your faith be it unto you.
30 And their eyes were opened;
14۔ اور جب وہ بھیڑ کے پاس پہنچے تو ایک آدمی اْس کے پاس آیا اور اْس کے آگے گھٹنے ٹیک کر کہنے لگا۔
15۔ اے خداوند میرے بیٹے پر رحم کر کیونکہ اْس کو مرگی آتی ہے اور وہ بہت دْکھ اٹھاتا ہے۔ اِس لئے کہ اکثر آگ اور گرمی میں گر پڑتا ہے۔
16۔ اور مَیں اْس کو تیرے شاگردوں کے پاس لایا تھا مگر وہ اْسے اچھا نہ کر سکے۔
17۔ یسوع نے جواب میں کہا اے بے اعتقاد اور کج رو نسل مَیں کب تک تمہارے ساتھ رہوں گا؟ کب تک تمہاری برداشت کروں گا؟ اْسے یہاں میرے پاس لاؤ۔
18۔ یسوع نے اْسے جھڑکا اور بدروح اْس میں سے نکل گئی اور وہ لڑکا اْسی گھڑی اچھا ہو گیا۔
19۔ تب شاگردوں نے یسوع کے پاس آکر خلوت میں کہا ہم اِس کو کیوں نہ نکال سکے؟
20۔ اْس نے اْن سے کہا اپنے ایمان کی کمی کے سبب سے کیونکہ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اِس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہ ہوگی۔
21۔ لیکن یہ قِسم دعا کے سوا کسی اور طرح نہیں نکل سکتی۔
14 And when they were come to the multitude, there came to him a certain man, kneeling down to him, and saying,
15 Lord, have mercy on my son: for he is lunatick, and sore vexed: for ofttimes he falleth into the fire, and oft into the water.
16 And I brought him to thy disciples, and they could not cure him.
17 Then Jesus answered and said, O faithless and perverse generation, how long shall I be with you? how long shall I suffer you? bring him hither to me.
18 And Jesus rebuked the devil; and he departed out of him: and the child was cured from that very hour.
19 Then came the disciples to Jesus apart, and said, Why could not we cast him out?
20 And Jesus said unto them, Because of your unbelief: for verily I say unto you, If ye have faith as a grain of mustard seed, ye shall say unto this mountain, Remove hence to yonder place; and it shall remove; and nothing shall be impossible unto you.
21 Howbeit this kind goeth not out but by prayer and fasting.
5۔ ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا تھا۔
6۔ اْس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔
7۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔
8۔ اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کردیااور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔
9۔ اِسی واسطے خدا نے بھی اْسے بہت سر بلند کیا اور اْسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔
10۔ تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھْکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔ خواہ اْن کا ہو جو زمین کے نیچے ہیں۔
11۔ اور خدا باپ کے جلال کے لئے ہر ایک زبا ن اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے۔
5 Let this mind be in you, which was also in Christ Jesus:
6 Who, being in the form of God, thought it not robbery to be equal with God:
7 But made himself of no reputation, and took upon him the form of a servant, and was made in the likeness of men:
8 And being found in fashion as a man, he humbled himself, and became obedient unto death, even the death of the cross.
9 Wherefore God also hath highly exalted him, and given him a name which is above every name:
10 That at the name of Jesus every knee should bow, of things in heaven, and things in earth, and things under the earth;
11 And that every tongue should confess that Jesus Christ is Lord, to the glory of God the Father.
1۔ پس اب جو مسیح یسوع میں ہیں اُن پر سزا کا حکم نہیں،جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔
2۔ کیونکہ زندگی کے روح کی شریعت نے مسیح یسوع میں مجھے گناہ اورموت کی شریعت سے آزاد کردیا۔
3۔اس لئے کہ جو کام شریعت جسم کے سبب سے کمزور ہو کر نہ کر سکی وہ خدا نے کیا یعنی اْس نے اپنے بیٹے کو گناہ آلود جسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کے لئے بھیج کر جسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا۔
4۔تاکہ شریعت کا تقاضا ہم میں پورا ہو جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔
5۔کیونکہ جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں لیکن جو روحانی ہیں وہ روحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں۔
6۔اور جسمانی نیت موت ہے مگر روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔
7۔ اِس لئے کہ جسمانی نیت خدا کی دشمنی ہے کیونکہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔
11۔ اگر اْسی کا روح تم میں بسا ہوا ہے جس نے یسوع کو مردوں میں سے جلایا تو جس نے مسیح یسوع کو مردوں میں سے جلایا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اْس روح کے وسیلہ زندہ کرے گا جو تم میں بسا ہوا ہے۔
1 There is therefore now no condemnation to them which are in Christ Jesus, who walk not after the flesh, but after the Spirit.
2 For the law of the Spirit of life in Christ Jesus hath made me free from the law of sin and death.
3 For what the law could not do, in that it was weak through the flesh, God sending his own Son in the likeness of sinful flesh, and for sin, condemned sin in the flesh:
4 That the righteousness of the law might be fulfilled in us, who walk not after the flesh, but after the Spirit.
5 For they that are after the flesh do mind the things of the flesh; but they that are after the Spirit the things of the Spirit.
6 For to be carnally minded is death; but to be spiritually minded is life and peace.
7 Because the carnal mind is enmity against God: for it is not subject to the law of God, neither indeed can be.
11 But if the Spirit of him that raised up Jesus from the dead dwell in you, he that raised up Christ from the dead shall also quicken your mortal bodies by his Spirit that dwelleth in you.
8۔ خداوند فرماتا ہے دیکھ! وہ دن آتے ہیں کہ مَیں اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہ کے گھرانے سے ایک نیا عہد باندھوں گا۔
10۔ مَیں اپنے قانون اْن کے ذہن میں ڈالوں گا اور اْن کے دلوں پر لکھوں گا مَیں اْن کا خدا ہوں گا اور وہ میری امت ہوں گے۔
8 Behold, the days come, saith the Lord, when I will make a new covenant with the house of Israel and with the house of Judah:
10 I will put my laws into their mind, and write them in their hearts: and I will be to them a God, and they shall be to me a people:
8۔ غرض سب کے سب یکدل اور ہمدرد ہو۔ برادرانہ محبت رکھو۔ نرم دل اور فروتن بنو۔
9۔ بدی کے عوض بدی نہ کرو اور گالی کے بدلے گالی نہ دو بلکہ اِس کے برعکس برکت چاہو کیونکہ تم برکت کے وارث ہونے کے لئے بلائے گئے ہو۔
8 Finally, be ye all of one mind, having compassion one of another, love as brethren, be pitiful, be courteous:
9 Not rendering evil for evil, or railing for railing: but contrariwise blessing; knowing that ye are thereunto called, that ye should inherit a blessing.
2۔ خدا کے اْس گلہ کی گلہ بانی کرو جو تم میں ہے۔ لاچاری سے گلہ بانی نہ کرو بلکہ خدا کی مرضی کے موافق خوشی سے اور ناجائز نفع کے لئے نہیں بلکہ دلی شوق سے۔
3۔ اور جو لوگ تمہارے سپرد ہیں اْن پر حکومت نہ جتاؤ بلکہ گلہ کے لئے نمونہ بنو۔
4۔ اور جب سردار گلہ بان ظاہر ہوگا تو تم کو جلال کا ایسا سہرا ملے گا جو مرجھانے کا نہیں۔
2 Feed the flock of God which is among you, taking the oversight thereof, not by constraint, but willingly; not for filthy lucre, but of a ready mind;
3 Neither as being lords over God’s heritage, but being ensamples to the flock.
4 And when the chief Shepherd shall appear, ye shall receive a crown of glory that fadeth not away.
یہاں صرف ایک مَیں یا ہم کے علاوہ کوئی نہیں، صرف ایک الٰہی اصول، یا عقل، جو ساری وجودیت پر حکمرانی کرتی ہے؛۔۔۔
خدا کی تخلیق کے سارے اجزاء ایک عقل کی عکاسی کرتے ہیں، اور جو کچھ بھی اِس واحد عقل کی عکاسی نہیں کرتا، وہ جھوٹا اور غلط ہے، حتیٰ کہ یہ عقیدہ بھی کہ زندگی، مواد اور ذہانت ذہنی اور مادی دونوں ہیں۔
There is but one I, or Us, but one divine Principle, or Mind, governing all existence; ... All the objects of God's creation reflect one Mind, and whatever reflects not this one Mind, is false and erroneous, even the belief that life, substance, and intelligence are both mental and material.
عقل، اپنی تمام تر اصلاحات پر برتر اور اِن سب پر حکمرانی کرنے والی، اپنے خود کے خیالات کے نظاموں کا ایک مرکزی شمس ہے، یعنی اپنی خود کی وسیع تخلیق کی روشنی اور زندگی؛ اور انسان الٰہی عقل کا معاون ہے۔مادہ اور فانی بدن یا عقل انسان نہیں ہے۔
دنیا عقل کے بنا، اْس ذہانت کے بنا شدید متاثر ہو گی جو طوفانوں کو اپنی گرفت میں دبائے رکھتی ہے۔نہ ہی فلسفہ اور نہ ہی تشکیک پرستی اْس سائنس کے بڑھنے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں جو عقل کی بالادستی کو ظاہر کرتی ہے۔
Mind, supreme over all its formations and governing them all, is the central sun of its own systems of ideas, the life and light of all its own vast creation; and man is tributary to divine Mind.
The world would collapse without Mind, without the intelligence which holds the winds in its grasp. Neither philosophy nor skepticism can hinder the march of the Science which reveals the supremacy of Mind.
الٰہی فہم بشر کی جان ہے، اور انسان کو سب چیزوں پر حاکمیت عطا کرتا ہے۔ انسان کو مادیت کی بنیاد پر خلق نہیں کیا گیا اور نہ اسے مادی قوانین کی پاسداری کا حکم دیا گیا جو روح نے کبھی نہیں بنائے؛ اس کا صوبہ روحانی قوانین، فہم کے بلند آئین میں ہے۔
The divine Mind is the Soul of man, and gives man dominion over all things. Man was not created from a material basis, nor bidden to obey material laws which Spirit never made; his province is in spiritual statutes, in the higher law of Mind.
عقل ہی سب سے بڑا خالق ہے، اور ایسی کوئی طاقت نہیں ہے جو عقل سے اخذ نہ کی گئی ہو۔اگر عقل تاریخی طور پر پہلے تھی، طاقت کے اعتبار سے بھی پہلے ہے، ابدیت کے لحاظ سے بھی پہلے ہے، تو اْس کے پاک نام کے موافق عقل کو جلال، عزت، اقتدار اور طاقت دیں۔ کمتر یا غیر روحانی شفائیہ طریقہ کار عقل اور دوائی کو یکجا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، لیکن یہ دونوں سائنسی طور پر یکجا نہیں ہوں گے۔ہم اِن دونوں کے ساتھ ایسا کیوں کرنا چاہیں گے، جبکہ اس میں سے کوئی اچھائی نہیں نکلے گی؟
اگر عقل سب سے پہلے اور برتر ہے،تو آئیے ہم عقل پر انحصار کرتے ہیں،جسے نِچلی طاقتوں کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہر گز نہیں ہے۔
Mind is the grand creator, and there can be no power except that which is derived from Mind. If Mind was first chronologically, is first potentially, and must be first eternally, then give to Mind the glory, honor, dominion, and power everlastingly due its holy name. Inferior and unspiritual methods of healing may try to make Mind and drugs coalesce, but the two will not mingle scientifically. Why should we wish to make them do so, since no good can come of it?
If Mind is foremost and superior, let us rely upon Mind, which needs no cooperation from lower powers,
یہ فہم کہ انا عقل ہے، اور یہ کہ ماسوائے ایک عقل یا ذہانت کے اور کچھ نہیں، فانی حس کی غلطیوں کو تباہ کرنے اور فانی حس کی سچائی کی فراہمی کے لئے ایک دم شروع ہو جاتا ہے۔یہ فہم بدن کو ہم آہنگ بناتا ہے؛ یہ ا عصاب، ہڈیوں، دماغ وغیرہ کو غلام بناتا ہے نہ کہ مالک بناتا ہے۔ اگر انسان پر الٰہی عقل کے قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، تو اْس کا بدن ہمیشہ کی زندگی اور سچائی اور محبت کے سپرد ہے۔ بشر کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ انسان، یعنی خدا کی شبیہ اور صورت، کو مادہ اور روح، اچھائی اور بدی دونوں فرض کرتا ہے۔
The understanding that the Ego is Mind, and that there is but one Mind or intelligence, begins at once to destroy the errors of mortal sense and to supply the truth of immortal sense. This understanding makes the body harmonious; it makes the nerves, bones, brain, etc., servants, instead of masters. If man is governed by the law of divine Mind, his body is in submission to everlasting Life and Truth and Love. The great mistake of mortals is to suppose that man, God's image and likeness, is both matter and Spirit, both good and evil.
یسوع نے کبھی کسی بیماری سے متعلق بطور خطرناک یا شفا دینے میں مشکل قرار نہیں دیا۔ جب اْس کے طالب علم اْس کے پاس ایک معاملہ لے کر آئے جسے شفا دینے میں وہ ناکام رہے تھے، تو اْس نے اْن سے کہا، ”اے بے اعتقاد نسل،“اس بات کی تقلید کرتے ہوئے کہ شفا دینے کی مطلوبہ طاقت عقل میں تھی۔ اْس نے کسی دوا کا نسخہ تجویز نہیں کیا، مادی قوانین کی فرمانبرداری کی حوصلہ افزائی نہیں کی، بلکہ ان کی براہ راست نافرمانی میں کام کئے۔
Jesus never spoke of disease as dangerous or as difficult to heal. When his students brought to him a case they had failed to heal, he said to them, "O faithless generation," implying that the requisite power to heal was in Mind. He prescribed no drugs, urged no obedience to material laws, but acted in direct disobedience to them.
عقل بیماری کے علاج کے لئے اْتنا ہی وزن رکھتی ہے جتنا گناہ کے علاج کے لئے رکھتی ہے۔ ہر معاملے میں زیادہ بہترین طریقہ الٰہی سائنس ہے۔ کیا علم الادویہ ڈاکڑی ایک سائنس ہے یا قیاس آرائیوں پر مبنی انسانی نظریات کا ایک مجموعہ ہے؟کوئی ایک نسخہ ایک موقع پر کامیاب ہو جاتا ہے تو دوسرے موقع پر ناکام ہوجاتا ہے، اوریہ مریض کی مختلف ذہنی حالتوں کی بنا پر ہوتا ہے۔اِن حالتوں کوسمجھا نہیں جاتا، اور کرسچن سائنس کے علاوہ اِنہیں بغیر وضاحت ترک کر دیا جاتا ہے۔سائنس میں اصول اور اْس کے کام کی کاملیت کبھی مختلف نہیں ہوتی۔ اگر آپ کسی معاملے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے خود اپنی زندگی میں مسیح، سچائی کی زندگی کا اظہار نہیں کیا ہوتا، کیونکہ آپ نے اصول کی فرمانبرداری نہیں کی ہوتی اور الٰہی سائنس کے اصول کو ثابت نہیں کیا ہوتا۔
Mind as far outweighs drugs in the cure of disease as in the cure of sin. The more excellent way is divine Science in every case. Is materia medica a science or a bundle of speculative human theories? The prescription which succeeds in one instance fails in another, and this is owing to the different mental states of the patient. These states are not comprehended, and they are left without explanation except in Christian Science. The rule and its perfection of operation never vary in Science. If you fail to succeed in any case, it is because you have not demonstrated the life of Christ, Truth, more in your own life, — because you have not obeyed the rule and proved the Principle of divine Science.
سائنس نہ صرف سب بیماریوں کا منبع دماغی قرار دیتی ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ سب بیماریاں الٰہی عقل سے شفا پاتی ہیں۔اس عقل کے علاوہ کسی اور چیز سے شفا نہیں ہوتی، خواہ ہم کتنا ہی کسی دوا یا اس حوالے سے کسی ذرائع پر بھروسہ کیوں نہ کرتے ہوں جس کی طرف انسانی کوشش یا ایمان راہنمائی دیتا ہے۔مادیت سے جو کچھ بھی بیمار کو حاصل ہوتا دکھائی دیتا ہے یہ فانی عقل ہی ہے جو اْس کے لئے لاتی ہے نہ کہ مادا لاتا ہے۔لیکن بیمار الٰہی طاقت کے علاوہ کسی اور چیز سے شفا نہیں پاتے۔ صرف سچائی، زندگی اور محبت کے کام ہم آہنگی لا سکتے ہیں۔
Science not only reveals the origin of all disease as mental, but it also declares that all disease is cured by divine Mind. There can be no healing except by this Mind, however much we trust a drug or any other means towards which human faith or endeavor is directed. It is mortal mind, not matter, which brings to the sick whatever good they may seem to receive from materiality. But the sick are never really healed except by means of the divine power. Only the action of Truth, Life, and Love can give harmony.
نام نہاد فانی عقل کے کام کو الٰہی عقل کے وسیلہ نیست کیا جانا چاہئے تاکہ ہونے کی ہم آہنگی کو سامنے لایا جا سکے۔یہاں الٰہی اختیار کے بغیر اختلاف ہوتا ہے، جو گناہ، بیماری اور موت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
بدن پر کلام واضح طور پر گناہ آلود سوچ کے مضر اثرات کا اعلان کرتے ہیں۔حتیٰ کہ ہمارے مالک نے بھی یہ محسوس کیا۔ یہ بات ریکارڈ میں ہے کہ کئی موقعوں پر اْس نے سچائی پر ”اْن کی بے اعتقادی کے باعث“ عظیم کام سر انجام نہ دئیے۔کوئی بھی انسانی غلطی خود اپنی ہی دشمن ہوتی ہے، اور خود کے خلاف کام کرتی ہے؛ یہ درست سمت میں کوئی کام نہیں کرتی جبکہ غلط سمت میں بہت کام کرتی ہے۔اگر نام نہاد عقل برے جذبات اور بدنیتی کے مقاصد کو پروان چڑھاتی ہے، تو یہ شفا دینے والی نہیں ہوتی، بلکہ یہ بیماری اور موت کو جنم دیتی ہے۔
The action of so-called mortal mind must be destroyed by the divine Mind to bring out the harmony of being. Without divine control there is discord, manifest as sin, sickness, and death.
The Scriptures plainly declare the baneful influence of sinful thought on the body. Even our Master felt this. It is recorded that in certain localities he did not many mighty works "because of their unbelief" in Truth. Any human error is its own enemy, and works against itself; it does nothing in the right direction and much in the wrong. If so-called mind is cherishing evil passions and malicious purposes, it is not a healer, but it engenders disease and death.
انسان کی بلند فطرت کمتر کی حکمرانی تلے نہیں ہوتی؛ اگر ایسا ہوتا، تو حکمت کی ترتیب اْلٹ ہوجاتی۔ زندگی سے متعلق ہمارے جھوٹے خیالات ابدی ہم آہنگی کو چھپاتے ہیں، اور وہ بیماری پیدا کرتے ہیں جس کی ہم شکایت کرتے ہیں۔چونکہ بشر مادی قوانین پر یقین رکھتے اور عقل کی سائنس کو رد کرتے ہیں، تو یہ مادیت کو اول اور جان کے اعلیٰ قانون کو آخر نہیں بنا تا۔
The higher nature of man is not governed by the lower; if it were, the order of wisdom would be reversed. Our false views of life hide eternal harmony, and produce the ills of which we complain. Because mortals believe in material laws and reject the Science of Mind, this does not make materiality first and the superior law of Soul last.
مادی فہم روح، خدا کو سمجھنے میں بشر کی کبھی مدد نہیں کرتا۔ صرف روحانی فہم کے وسیلہ انسان خدائی کو سمجھتا اوراْس سے محبت کرتا ہے۔عقل کی سائنس سے متعلق مادی حواس کے بیشمارتضادات اْس اندیکھی سچائی کو تبدیل نہیں کرتے جو ہمیشہ کے لئے برقرار رہتی ہے۔
Material sense never helps mortals to understand Spirit, God. Through spiritual sense only, man comprehends and loves Deity. The various contradictions of the Science of Mind by the material senses do not change the unseen Truth, which remains forever intact.
ہستی کی سائنس، جس میں سب کچھ الٰہی عقل، یا خدا اور اْس کا خیال شامل ہے، اِس دور میں واضح تر ہوگا مگر اِس عقیدے کے لئے کہ مادا انسان کا آلہ ہے یا یہ کہ انسان اپنی جسمانی سوچ میں داخل ہو سکتا ہے، اْس کے خود کے عقائد کے ساتھ اْسے باندھتا ہے اور پھر اْس کے بندھنوں کو مادا کہتا اور انہیں الٰہی شریعت کا نام دیتا ہے۔
The Science of being, in which all is divine Mind, or God and His idea, would be clearer in this age, but for the belief that matter is the medium of man, or that man can enter his own embodied thought, bind himself with his own beliefs, and then call his bonds material and name them divine law.
دوڑ کو تیز کرنے کی ضرورت اس حقیقت کا باپ ہے کہ عقل یہ کر سکتی ہے؛ کیونکہ عقل آلودگی کی بجائے پاکیزگی، کمزوری کی بجائے طاقت، اور بیماری کی بجائے صحتمندی بخش سکتی ہے۔ یہ پورے نظام میں قابل تبدیل ہے، اور اسے ”ہر ذرے تک“ بنا سکتی ہے۔
The necessity for uplifting the race is father to the fact that Mind can do it; for Mind can impart purity instead of impurity, strength instead of weakness, and health instead of disease. Truth is an alterative in the entire system, and can make it "every whit whole."
جب ہم الٰہی کے ساتھ اپنے رشتے کو مکمل طور پر سمجھتے ہیں، تو ہم کوئی اور عقل نہیں رکھتے ماسوائے اْس کی عقل کے، کوئی اور محبت، حکمت یا سچائی نہیں رکھتے، زندگی کا کوئی اور فہم نہیں رکھتے، اور مادے یا غلطی کی وجودیت کا کوئی اور شعور نہیں رکھتے۔
When we fully understand our relation to the Divine, we can have no other Mind but His, — no other Love, wisdom, or Truth, no other sense of Life, and no consciousness of the existence of matter or error.
انسان، اپنے خالق کی حکمرانی تلے، کوئی اور عقل نہ رکھتے ہوئے، مبشر کے اِس بیان پر قائم رہتے ہوئے کہ ”سب چیزیں اْس]خدا کے کلام[ کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اْس میں سے کوئی چیز بھی اْس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی“، گناہ، بیماری اور موت پر فتح پا سکتا ہے۔
Man, governed by his Maker, having no other Mind, — planted on the Evangelist's statement that "all things were made by Him [the Word of God]; and without Him was not anything made that was made," — can triumph over sin, sickness, and death.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔