اتوار 10 نومبر ، 2024
کیونکہ ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے۔
“This mortal must put on immortality.”
1۔ اْٹھ منور ہو کیونکہ تیرا نور آگیا ہے اور خداوند کا جلال تجھ پر ظاہر ہوا۔
2۔ کیونکہ دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائے گی اور تیرگی اْمتوں پر لیکن خداوند تجھ پر طالع ہوگا اور اْس کا جلال تجھ پر نمایاں ہوگا۔
3۔ اور قومیں تیری روشنی کی طرف آئیں گی اور سلاطین تیرے طلوع کی تجلی میں چلیں گے۔
3۔ اور اگر ہماری خوشخبری پر پردہ پڑا ہے تو ہلاک ہونے والوں ہی کے واسطے پڑا ہے۔
4۔ یعنی اْن بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کواِس جہان کے خدانے اندھا کر دیا ہے تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اْس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی اْن پر نہ پڑے۔
5۔ کیونکہ ہم اپنی نہیں بلکہ مسیح کی منادی کرتے ہیں کہ وہ خداوند ہے اور اپنے حق میں کہتے ہیں کہ یسوع کی خاطر تمہارے غلام ہیں۔
6۔اِس لئے کہ خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکا تاکہ خداکے جلال کی پہچان کا نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گر ہو۔
1. Arise, shine; for thy light is come, and the glory of the Lord is risen upon thee.
2. For, behold, the darkness shall cover the earth, and gross darkness the people: but the Lord shall arise upon thee, and his glory shall be seen upon thee.
3. And the Gentiles shall come to thy light, and kings to the brightness of thy rising.
3. But if our gospel be hid, it is hid to them that are lost:
4. In whom the god of this world hath blinded the minds of them which believe not, lest the light of the glorious gospel of Christ, who is the image of God, should shine unto them.
5. For we preach not ourselves, but Christ Jesus the Lord; and ourselves your servants for Jesus’ sake.
6. For God, who commanded the light to shine out of darkness, hath shined in our hearts, to give the light of the knowledge of the glory of God in the face of Jesus Christ.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا۔
26۔ پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپائیوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اختیار رکھیں۔
27۔ اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اْس کو پیدا کیا۔ نر اور ناری اْن کو پیدا کیا۔
28۔ خدا نے اْن کو برکت دی اور کہا پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور ومحکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو۔
31۔ اور خدا نے سب پر جو اْس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔
1 In the beginning God created the heaven and the earth.
26 And God said, Let us make man in our image, after our likeness: and let them have dominion over the fish of the sea, and over the fowl of the air, and over the cattle, and over all the earth, and over every creeping thing that creepeth upon the earth.
27 So God created man in his own image, in the image of God created he him; male and female created he them.
28 And God blessed them, and God said unto them, Be fruitful, and multiply, and replenish the earth, and subdue it: and have dominion over the fish of the sea, and over the fowl of the air, and over every living thing that moveth upon the earth.
31 And God saw every thing that he had made, and, behold, it was very good.
1۔ سو آسمان اور زمین اور اْن کے کْل لشکر کا بنانا ختم ہوا۔
6۔ بلکہ زمین سے کْہر اٹھتی تھی اور تمام روئے زمین کو سیراب کرتی تھی۔
7۔ اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اْس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھْونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔
1 Thus the heavens and the earth were finished, and all the host of them.
6 But there went up a mist from the earth, and watered the whole face of the ground.
7 And the Lord God formed man of the dust of the ground, and breathed into his nostrils the breath of life; and man became a living soul.
5۔ اور جب وہ کفر نحوم میں داخل ہوا تو ایک صوبہ دار اْس کے پاس آیا اور اْس کی منت کر کے کہا
6۔ اے خداوند میرا خادم فالج کا مارا گھرمیں پڑا ہے اور نہایت تکلیف میں ہے۔
7۔ اْس نے اْس سے کہا مَیں آکر اْسے شفا دوں گا۔
8۔ صوبہ دار نے جواب میں کہا اے خداوند مَیں اِس لائق نہیں کہ تْو میری چھت کے نیچے آئے بلکہ صرف زبان سے کہہ دے تو میرا خادم شفا پا جا ئے گا۔
9۔ کیونکہ مَیں بھی دوسروں کے اختیار میں ہوں اور سپاہی میرے ماتحت ہیں جب ایک سے کہتا ہوں کہ جا تو وہ جاتا ہے اور دوسرے سے کہ آ تو وہ آتا ہے اور اپنے نوکر سے کہ یہ کر تو وہ کرتا ہے۔
10۔ یسوع نے یہ سْن کر تعجب کیا اور پیچھے آنے والوں سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مَیں نے اسرائیل میں بھی ایسا ایمان نہیں پایا۔
13۔ اور یسوع نے صوبہ دار سے کہا جا جیسا تو نے اعتقاد کیا ہے تیرے لئے ویسا ہی ہواور اْسی گھڑی خادم نے شفا پائی۔
5 And when Jesus was entered into Capernaum, there came unto him a centurion, beseeching him,
6 And saying, Lord, my servant lieth at home sick of the palsy, grievously tormented.
7 And Jesus saith unto him, I will come and heal him.
8 The centurion answered and said, Lord, I am not worthy that thou shouldest come under my roof: but speak the word only, and my servant shall be healed.
9 For I am a man under authority, having soldiers under me: and I say to this man, Go, and he goeth; and to another, Come, and he cometh; and to my servant, Do this, and he doeth it.
10 When Jesus heard it, he marvelled, and said to them that followed, Verily I say unto you, I have not found so great faith, no, not in Israel.
13 And Jesus said unto the centurion, Go thy way; and as thou hast believed, so be it done unto thee. And his servant was healed in the selfsame hour.
1۔ پھر اْس نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا۔
2۔اور اْس کے شاگردوں نے اْس سے پوچھا اے ربی! کس نے گناہ کیا تھا جو یہ اندھا پیدا ہوا۔ اس شخص نے یا اِس کے ماں باپ نے؟
3۔ یسوع نے جواب دیا کہ نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے یہ اِس لئے ہوا کہ خدا کے کام اْس میں ظاہر ہوں۔
4۔ جس نے مجھے بھیجا ہے ہمیں اْس کے کام دن ہی دن میں کرنا ضرور ہے۔ وہ رات آنے والی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا۔
5۔ جب تک مَیں دنیا میں ہوں دنیا کا نور ہوں۔
6۔یہ کہہ کر اْس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مِٹی سانی اور وہ مٹی اندھے کی آنکھوں پر لگا کر
7۔اْس سے کہا جا شیلوخ (جس کا ترجمہ ”بھیجا ہوا“ ہے) کے حوض میں دھو لے۔ پس اْس نے جا کر دھویا اور بِینا ہو کر واپس آیا۔
1 And as Jesus passed by, he saw a man which was blind from his birth.
2 And his disciples asked him, saying, Master, who did sin, this man, or his parents, that he was born blind?
3 Jesus answered, Neither hath this man sinned, nor his parents: but that the works of God should be made manifest in him.
4 I must work the works of him that sent me, while it is day: the night cometh, when no man can work.
5 As long as I am in the world, I am the light of the world.
6 When he had thus spoken, he spat on the ground, and made clay of the spittle, and he anointed the eyes of the blind man with the clay,
7 And said unto him, Go, wash in the pool of Siloam, (which is by interpretation, Sent.) He went his way therefore, and washed, and came seeing.
1۔ یسوع نے یہ باتیں کہیں اوراپنی آنکھیں آسمان کی طرف اْٹھا کر کہا اے باپ! وہ گھڑی آپہنچی۔ اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔
2۔ چنانچہ تْو نے اْسے ہر بشر پر اختیار دیا ہے تاکہ جنہیں تْو نے اْسے بخشا ہے اْن سب کو ہمیشہ کی زندگی دے۔
3۔ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور بر حق کو اور یسوع مسیح کو جسے تْو نے بھیجا ہے جانیں۔
9۔ مَیں اْن کے لئے درخواست کرتا ہوں۔ مَیں دنیا کے لئے درخواست نہیں کرتا ہوں بلکہ اْن کے لئے جنہیں تْو نے مجھے دیا ہے کیونکہ وہ تیرے ہیں۔
22۔ اور وہ جلال جو تْو نے مجھے دیا ہے مَیں نے اْنہیں دیا ہے تاکہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں۔
23۔ مَیں اْن میں اور تْو مجھ میں تاکہ وہ کامل ہو کر ایک ہو جائیں اور دنیا جانے کہ تْو ہی نے مجھے بھیجا اور جس طرح کہ تْو نے مجھ سے محبت رکھی۔
1 These words spake Jesus, and lifted up his eyes to heaven, and said, Father, the hour is come; glorify thy Son, that thy Son also may glorify thee:
2 As thou hast given him power over all flesh, that he should give eternal life to as many as thou hast given him.
3 And this is life eternal, that they might know thee the only true God, and Jesus Christ, whom thou hast sent.
9 I pray for them: I pray not for the world, but for them which thou hast given me; for they are thine.
22 And the glory which thou gavest me I have given them; that they may be one, even as we are one:
23 I in them, and thou in me, that they may be made perfect in one; and that the world may know that thou hast sent me, and hast loved them, as thou hast loved me.
12۔ پس گناہ تمہارے فانی بدن میں بادشاہی نہ کرے کہ تم اْس کی خواہش کے تابع رہو۔
14۔ اس لئے کہ گناہ کا تم پر اختیار ہوگا کیونکہ تم شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہو۔
12 Let not sin therefore reign in your mortal body, that ye should obey it in the lusts thereof.
14 For sin shall not have dominion over you: for ye are not under the law, but under grace.
1۔ پس اب جو مسیح یسوع میں ہیں اُن پر سزا کا حکم نہیں،جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔
2۔ کیونکہ زندگی کے روح کی شریعت نے مسیح یسوع میں مجھے گناہ اورموت کی شریعت سے آزاد کردیا۔
12۔ پس اے بھائیو! ہم قرضدار تو ہیں مگر جسم کے نہیں کہ جسم کے مطابق زندگی گزاریں۔
13۔ کیونکہ اگر تم جسم کے مطابق زندگی گزارو گے تو ضرور مرو گے اور اگر روح سے بدن کے کاموں کو نیست و نابود کرو گے تو جیتے رہو گے۔
14۔ اِس لئے کہ جتنے خدا کی روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں۔
15۔ کیونکہ تم کو غلامی کی روح نہیں ملی جس سے پھر ڈر پیدا ہو بلکہ لے پالک ہونے کی روح ملی جس سے ہم ابا یعنی اے باپ کہہ کر پکارتے ہیں۔
16۔ روح خود ہماری روح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں۔
17۔ اور اگر فرزند ہیں تو وارث بھی ہیں یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہم میراث۔
1 There is therefore now no condemnation to them which are in Christ Jesus, who walk not after the flesh, but after the Spirit.
2 For the law of the Spirit of life in Christ Jesus hath made me free from the law of sin and death.
12 Therefore, brethren, we are debtors, not to the flesh, to live after the flesh.
13 For if ye live after the flesh, ye shall die: but if ye through the Spirit do mortify the deeds of the body, ye shall live.
14 For as many as are led by the Spirit of God, they are the sons of God.
15 For ye have not received the spirit of bondage again to fear; but ye have received the Spirit of adoption, whereby we cry, Abba, Father.
16 The Spirit itself beareth witness with our spirit, that we are the children of God:
17 And if children, then heirs; heirs of God, and joint-heirs with Christ;
22۔ اور جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے۔
22 For as in Adam all die, even so in Christ shall all be made alive.
1۔ پس اے بھائیو۔ مَیں خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔
2۔اور اس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہوجانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔
1 I beseech you therefore, brethren, by the mercies of God, that ye present your bodies a living sacrifice, holy, acceptable unto God, which is your reasonable service.
2 And be not conformed to this world: but be ye transformed by the renewing of your mind, that ye may prove what is that good, and acceptable, and perfect, will of God.
سائنس میں انسان روح کی اولاد ہے۔ اْس کا نسب خوبصورت، اچھائی اور پاکیزگی تشکیل دیتی ہے۔ اْس کا اصل، بشر کی مانند، وحشی جبلت میں نہیں اور نہ ہی وہ ذہانت تک پہنچنے سے پہلے مادی حالات سے گزرتا ہے۔ روح اْس کی ہستی کا ابتدائی اور اصلی منبع ہے؛ خدا اْس کا باپ ہے، اور زندگی اْس کی ہستی کا قانون ہے۔
In Science man is the offspring of Spirit. The beautiful, good, and pure constitute his ancestry. His origin is not, like that of mortals, in brute instinct, nor does he pass through material conditions prior to reaching intelligence. Spirit is his primitive and ultimate source of being; God is his Father, and Life is the law of his being.
درست وجہ کی بنا پر یہاں تصور کے سامنے ایک حقیقت ہونی چاہئے، یعنی روحانی وجودیت۔ حقیقت میں اور کوئی وجودیت نہیں ہے، کیونکہ زندگی اِس کی غیر مشابہت، لافانیت کے ساتھ متحد نہیں ہوسکتی۔
ہستی، پاکیزگی، ہم آہنگی، لافانیت ہے۔یہ پہلے سے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ اس کا علم، حتیٰ کہ معمولی درجے میں بھی، انسانوں کے جسمانی اور اخلاقی معیار کو اونچا کرے گا، عمر کی درازی کو بڑھائے گا، کردار کو پاک اور بلند کرے گا۔
For right reasoning there should be but one fact before the thought, namely, spiritual existence. In reality there is no other existence, since Life cannot be united to its unlikeness, mortality.
Being is holiness, harmony, immortality. It is already proved that a knowledge of this, even in small degree, will uplift the physical and moral standard of mortals, will increase longevity, will purify and elevate character.
پیدائش 1باب27 آیت: اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اْس کو پیدا کیا۔ نر وناری اْن کو پیدا کیا۔
اِس یاد گارلمحاتی خیال پر زور دینے کے لئے یہ بار بار دوہرایا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا تاکہ الٰہی روح کی عکاسی کرے۔
Genesis i. 27. So God created man in His own image, in the image of God created He him; male and female created He them.
To emphasize this momentous thought, it is repeated that God made man in His own image, to reflect the divine Spirit.
عقل کی زندگی دینے والی خصوصیت روح ہے، نہ کہ مادہ۔ مثالی انسان تخلیق کے ساتھ، ذہانت کے ساتھ اور سچائی کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ مثالی عورت زندگی اور محبت کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔
پیدائش 1 باب28 آیت: خدا نے اْن کو برکت دی اور کہا پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور ومحکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو۔
الٰہی محبت اپنے خود کے خیالات کو برکت دیتا ہے، اور اْنہیں بڑھنے، اْس کی قوت کو ظاہر کرنے کا موجب بنتا ہے۔انسان مٹی جوتنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ اْس کا پیدائشی حق محکومی نہیں حکمرانی ہے۔وہ زمین اور آسمان پر عقیدے کا حاکم ہے، جو خود صرف اپنے خالق کے ماتحت ہے۔ یہ ہستی کی سائنس ہے۔
The life-giving quality of Mind is Spirit, not matter. The ideal man corresponds to creation, to intelligence, and to Truth. The ideal woman corresponds to Life and to Love.
Genesis i. 28. And God blessed them, and God said unto them, Be fruitful, and multiply, and replenish the earth, and subdue it; and have dominion over the fish of the sea, and over the fowl of the air, and over every living thing that moveth upon the earth.
Divine Love blesses its own ideas, and causes them to multiply, — to manifest His power. Man is not made to till the soil. His birthright is dominion, not subjection. He is lord of the belief in earth and heaven, — himself subordinate alone to his Maker. This is the Science of being.
پیدائش 2باب6 آیت: بلکہ زمین سے کْہر اٹھتی تھی اور تمام روئے زمین کو سیراب کرتی تھی۔
الٰہی تخلیق کی سائنس اور سچائی کو پہلے سے پیش کردہ آیات میں بیان کیا جا چکا ہے، اور اب مخالف غلطی، تخلیق کا ایک مادی منظر، پیش کیا جانا ہے۔پیدائش کے دوسرے باب میں خدا اور کائنات کے اس مادی نظریے کا بیان پایا جاتا ہے، وہ بیان جو جیسے پہلے ریکارڈ ہوئی اْسی سائنسی سچائی کے عین متضاد ہے۔ مادے یا غلطی کی تاریخ، اگر اصلی ہے تو، قادرِ مطلق کی روح کو ایک طرف کر دے گی، لیکن یہ حقیقت کے خلاف جھوٹی تاریخ ہے۔
پہلے ریکارڈ کی سائنس دوسرے ریکارڈ کے جھوٹ کو ثابت کرتی ہے۔ اگر ایک حقیقی ہے تو دوسرا جھوٹا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔پہلاریکارڈ ساری طاقت اور حکمرانی خدا کو سونپتا ہے، اور انسان کو خدا کی کاملیت اور قوت سے شبیہ دیتا ہے۔دوسرا ریکارڈ انسان کو قابل تغیر اور لافانی، بطور اپنے دیوتا سے الگ ہوا اور اپنے ہی مدار میں گھومتا ہوا، تحریر کرتا ہے۔وجودیت کو، الوہیت سے الگ، سائنس بطور ناممکن واضح کر تی ہے۔
یہ دوسرا ریکارڈ بے تکلفی کے ساتھ اْس کی اْن ٹھوس اشکال میں غلطی کی تاریخ بیان کرتا ہے جنہیں مادے میں ذہانت اور زندگی کہا جاتا ہے۔یہ الٰہی روح کی بالادستی کے مخالف، شرک کو بیان کرتا ہے؛ مگر اِس صورت حال کوعارضی اور انسان کو فانی، خاک کا خاک میں لوٹ جانا، واضح کیا گیا ہے۔
اِس غلط نظریے میں، مادہ روح کی جگہ لے لیتا ہے۔ مادے کو زمین پر زندگی دینے والے اصول کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ روح کو انسان کی تخلیق کے لئے مادے میں داخل ہونے والے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ انسان کے لئے خدا کی واضح مذمتیں جب وہ اْس کی شبیہ، روح کی صورت پر نہیں پایا گیا اِس کی وجہ کو مانتی ہیں اور اِس مادی مخلوق کے جھوٹے ہونے کا اعلان کرنے والے مکاشفہ کے ساتھ اتفاق کرتی ہیں۔
پیدائش کے دوسرے باب کا آخری حصہ، جو روح کو فرضی طور پر کائنات کی تخلیق میں بطور مادے کے ساتھ تعاون کرنے والے کے پیش کرتا ہے، یہ غلطی کے کچھ مفروضوں پر مبنی ہے، کیونکہ اِس سے پہلے کی آیت خدا کے کام کے مکمل ہونے کا بیان دیتی ہے۔ زندگی، سچائی اور محبت کیا موت، غلطی اور نفرت کو جنم دیتا ہے؟کیا خالق خود کی مخلوق کو ہلاک کرتا ہے؟ کیا الٰہی شریعت کا لاخطا اصول تبدیل ہوتا یا توبہ کرتا ہے؟ یہ ایسا نہیں ہوسکتا۔
Genesis ii. 6. But there went up a mist from the earth, and watered the whole face of the ground.
The Science and truth of the divine creation have been presented in the verses already considered, and now the opposite error, a material view of creation, is to be set forth. The second chapter of Genesis contains a statement of this material view of God and the universe, a statement which is the exact opposite of scientific truth as before recorded. The history of error or matter, if veritable, would set aside the omnipotence of Spirit; but it is the false history in contradistinction to the true.
The Science of the first record proves the falsity of the second. If one is true, the other is false, for they are antagonistic. The first record assigns all might and government to God, and endows man out of God's perfection and power. The second record chronicles man as mutable and mortal, — as having broken away from Deity and as revolving in an orbit of his own. Existence, separate from divinity, Science explains as impossible.
This second record unmistakably gives the history of error in its externalized forms, called life and intelligence in matter. It records pantheism, opposed to the supremacy of divine Spirit; but this state of things is declared to be temporary and this man to be mortal, — dust returning to dust.
In this erroneous theory, matter takes the place of Spirit. Matter is represented as the life-giving principle of the earth. Spirit is represented as entering matter in order to create man. God's glowing denunciations of man when not found in His image, the likeness of Spirit, convince reason and coincide with revelation in declaring this material creation false.
This latter part of the second chapter of Genesis, which portrays Spirit as supposedly cooperating with matter in constructing the universe, is based on some hypothesis of error, for the Scripture just preceding declares God's work to be finished. Does Life, Truth, and Love produce death, error, and hatred? Does the creator condemn His own creation? Does the unerring Principle of divine law change or repent? It cannot be so.
بنیادی طور پر کاملیت کا معیار خدا اور انسان تھا۔ کیا خدا نے اپنا خود کا معیار گرا لیا ہے اور انسان گناہ میں گر گیا ہے؟
The standard of perfection was originally God and man. Has God taken down His own standard, and has man fallen?
یہوواہ نے یہ اعلان کیا کہ زمین ملعون تھی؛ اور اس زمین سے، یا مادے سے آدم نے جنم لیا، اس کے باوجود خدا نے ”انسان کی خاطر“ زمین کو برکت دی۔اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ آدم وہ مثالی انسان نہیں تھا جس کے لئے زمین کو برکت دی گئی تھی۔مثالی انسان اپنے وقت پر ظاہر کیا گیا، اور اْسے بطور یسوع مسیح جانا جاتا تھا۔
Jehovah declared the ground was accursed; and from this ground, or matter, sprang Adam, notwithstanding God had blessed the earth "for man's sake." From this it follows that Adam was not the ideal man for whom the earth was blessed. The ideal man was revealed in due time, and was known as Christ Jesus.
مادیت کے روحانی مخالف کے تفہیم کے وسیلہ، حتیٰ کہ مسیح، حق کے وسیلہ، انسان اْس جنت کے دروازے الٰہی سائنس کی کنجی کے ساتھ دوبارہ کھولے گا جسے انسانی عقائد نے بند کر دیا ہے، اور وہ خود کو بے گناہ، راست، پاک اور آزاد پائے گا، اپنی زندگی یا موسم کے امکانات کے لئے تقویم سے صلاح لینے کی ضرورت نہ محسوس کرتے ہوئے، یہ جاننے کے لئے کہ اْس میں کتنی انسانیت ہے دماغی علوم کا مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے۔
Through discernment of the spiritual opposite of materiality, even the way through Christ, Truth, man will reopen with the key of divine Science the gates of Paradise which human beliefs have closed, and will find himself unfallen, upright, pure, and free, not needing to consult almanacs for the probabilities either of his life or of the weather, not needing to study brainology to learn how much of a man he is.
اے بشر یہ سیکھو اور انسان کے روحانی معیار کی سنجیدگی سے تلاش کرو جو مادی خودی سے مکمل طور پر بے بہرہ ہے۔
؎خدا کے لوگوں سے متعلق، نہ کہ انسان کے بچوں سے متعلق، بات کرتے ہوئے یسوع نے کہا، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے؛“ یعنی سچائی اور محبت حقیقی انسان پر سلطنت کرتی ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ انسان خدا کی صورت پر بے گناہ اور ابدی ہے۔
Learn this, O mortal, and earnestly seek the spiritual status of man, which is outside of all material selfhood.
When speaking of God's children, not the children of men, Jesus said, "The kingdom of God is within you;" that is, Truth and Love reign in the real man, showing that man in God's image is unfallen and eternal.
۔۔۔ ظاہر کیا گیا مذہب عقل کی سائنس اور اْ س کی اشکال کی تبلیغ کرتا ہے کہ جیسے وہ پرانے عہد نامہ کے پہلے باب سے مطابقت رکھتے ہیں، جب خدا، یعنی عقل، نے کہا اور وہ ہوگیا۔
... revealed religion proclaims the Science of Mind and its formations as being in accordance with the first chapter of the Old Testament, when God, Mind, spake and it was done.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔