اتوار 26 جنوری، 2025



مضمون۔ حق

SubjectTruth

سنہری متن: یسعیاہ 25 باب7 آیت

اور وہ اِس پہاڑ پر اِس پردہ کو جو تمام لوگوں پر گر پڑا اور اْس نقاب کو جو سب قوموں پر لٹک رہا ہے دور کرے گا۔



Golden Text: Isaiah 25 : 7

And he will destroy in this mountain the face of the covering cast over all people, and the vail that is spread over all nations.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں



جوابی مطالعہ: یسعیاہ 60 باب1، 2 آیات • یسعیاہ 25 باب 1، 4، 8 آیات


1۔ اْٹھ منور ہو کیونکہ تیرا نور آگیا ہے اور خداوند کا جلال تجھ پر ظاہر ہوا۔

2۔ کیونکہ دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائے گی اور تیرگی اْمتوں پر لیکن خداوند تجھ پر طالع ہوگا اور اْس کا جلال تجھ پر نمایاں ہوگا۔

1۔ اے خداوند! تْو میرا خدا ہے۔ مَیں تیری تمجید کروں گا۔ تیرے نام کی ستائش کروں گا کیونکہ تْو نے عجیب کام کئے ہیں۔

4۔ کیونکہ تْو مسکین کے لئے قلعہ اور محتاج کے لئے پریشانی کے وقت ملجا اور آندھی سے پناہ گاہ اور گرمی سے بچانے کو سایہ ہوا جس وقت ظالموں کی سانس دیوار کْن طوفان کی مانند ہوگی۔

8۔ وہ موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے گا اور خداوند خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالے گا اور اپنے لوگوں کی رسوائی تمام زمین پر سے مٹا ڈالے گا کیونکہ خداوند نے یہ فرمایا ہے۔

Responsive Reading: Isaiah 60 : 1, 2   •   Isaiah 25 : 1, 4, 8

1.     Arise, shine; for thy light is come, and the glory of the Lord is risen upon thee.

2.     For, behold, the darkness shall cover the earth, and gross darkness the people: but the Lord shall arise upon thee, and his glory shall be seen upon thee.

1.     O Lord, thou art my God; I will exalt thee, I will praise thy name; for thou hast done wonderful things; thy counsels of old are faithfulness and truth.

4.     For thou hast been a strength to the poor, a strength to the needy in his distress, a refuge from the storm, a shadow from the heat, when the blast of the terrible ones is as a storm against the wall.

8.     He will swallow up death in victory; and the Lord God will wipe away tears from off all faces; and the rebuke of his people shall he take away from off all the earth: for the Lord hath spoken it.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1 . ۔ یوحنا 1باب1، 5، 14، 17، 18 آیات

1۔ ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔

5۔اور نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے قبول نہ کیا۔

14۔ اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا (اور ہم نے اْس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال)۔

17۔ اس لئے کہ شریعت تو موسیٰ کی معرفت دی گئی مگر فضل اور سچائی یسوع مسیح کی معرفت پہنچی۔

18۔ خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اْسی نے ظاہر کیا۔

1. John 1 : 1, 5, 14, 17, 18

1     In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God.

5     And the light shineth in darkness; and the darkness comprehended it not.

14     And the Word was made flesh, and dwelt among us, (and we beheld his glory, the glory as of the only begotten of the Father,) full of grace and truth.

17     For the law was given by Moses, but grace and truth came by Jesus Christ.

18     No man hath seen God at any time; the only begotten Son, which is in the bosom of the Father, he hath declared him.

2 . ۔ 2کرنتھیوں 3باب12تا16 آیات

12۔ پس ہم ایسی امید کر کے بڑی دلیری سے بولتے ہیں۔

13۔ اور موسیٰ کی طرح نہیں ہیں جس نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا تاکہ بنی اسرائیل اْس مٹنے والی چیز کے انجام کو نہ دیکھ سکیں۔

14۔ لیکن اْن کے خیالات کثیف ہوگئے کیونکہ آج تک پرانے عہد نامے کو پڑھتے وقت اْن کے دلوں پر وہی پردہ پڑا رہتا ہے اور وہ مسیح میں اْٹھ جاتا ہے۔

15۔ مگر آج تک جب کبھی موسیٰ کی کتاب پڑھی جاتی ہے تو اْن کے دل پر پردہ پڑا رہتا ہے۔

16۔ لیکن جب کبھی اْن کا دل خداوند کی طرف پھرے تو وہ پردہ اْٹھ جائے گا۔

2. II Corinthians 3 : 12-16

12     Seeing then that we have such hope, we use great plainness of speech:

13     And not as Moses, which put a vail over his face, that the children of Israel could not stedfastly look to the end of that which is abolished:

14     But their minds were blinded: for until this day remaineth the same vail untaken away in the reading of the old testament; which vail is done away in Christ.

15     But even unto this day, when Moses is read, the vail is upon their heart.

16     Nevertheless when it shall turn to the Lord, the vail shall be taken away.

3 . ۔ متی 4باب23 (یسوع) آیت

23۔اور یسوع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور اْن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوش خبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی بیماری اور ہرطرح کی کمزوری کو دور کرتا رہا۔

3. Matthew 4 : 23 (Jesus)

23     Jesus went about all Galilee, teaching in their synagogues, and preaching the gospel of the kingdom, and healing all manner of sickness and all manner of disease among the people.

4 . ۔ متی 9باب2تا8 آیات

2۔ اور دیکھو لوگ ایک مفلوج کو چار پائی پر پڑا ہوا اْس کے پاس لائے۔ یسوع نے اْن کا ایمان دیکھ کر مفلوج سے کہا بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے۔

3۔ اور دیکھو بعض فقیہوں نے اپنے دل میں کہا یہ کفر بکتا ہے۔

4۔ یسوع نے اْن کے خیال معلوم کر کے کہا تم کیوں اپنے دلوں میں برا خیال لاتے ہو؟

5۔ آسان کیا ہے۔ یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہ اٹھ اور چل پھر؟

6۔ لیکن اِس لئے کہ تم جان لو کہ ابنِ آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔ (اْس نے مفلوج سے کہا) اْٹھ اپنی چار پائی اْٹھا اور اپنے گھر چلا جا۔

7۔ وہ اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔

8۔ لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا۔

4. Matthew 9 : 2-8

2     And, behold, they brought to him a man sick of the palsy, lying on a bed: and Jesus seeing their faith said unto the sick of the palsy; Son, be of good cheer; thy sins be forgiven thee.

3     And, behold, certain of the scribes said within themselves, This man blasphemeth.

4     And Jesus knowing their thoughts said, Wherefore think ye evil in your hearts?

5     For whether is easier, to say, Thy sins be forgiven thee; or to say, Arise, and walk?

6     But that ye may know that the Son of man hath power on earth to forgive sins, (then saith he to the sick of the palsy,) Arise, take up thy bed, and go unto thine house.

7     And he arose, and departed to his house.

8     But when the multitudes saw it, they marvelled, and glorified God, which had given such power unto men.

5 . ۔ لوقا 4 باب1 (اور یسوع)آیت صرف

1۔ اور یسوع۔۔۔

5. Luke 4 : 1 (And Jesus) only

1     And Jesus …

6 . ۔ لوقا 7 باب11 (گیا) تا 16 آیات

11۔۔۔۔ نائین نام کے ایک شہر کو گیا اور اْس کے شاگرد اور بہت سے لوگ اْس کے ہمراہ تھے۔

12۔ جب وہ شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھو ایک مردے کو باہر لئے جاتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھااور وہ بیوہ تھی اور شہر کے بہتیرے لوگ اْس کے ساتھ تھے۔

13۔ اْسے دیکھ کر خداوند کو ترس آیا اور اْس سے کہا مت رو۔

14۔ پھر اْس نے پاس آکر جنازے کو چھوا اور اٹھانے والے کھڑے ہوگئے اور اْس نے کہا اے جوان! مَیں تجھ سے کہتا ہوں اْٹھ۔

15۔ وہ مردہ اْٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور اْس نے اْسے اْس کی ماں کو سونپ دیا۔

16۔ اور سب پر دہشت چھا گئی اور خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہوا ہے اور خدا نے اپنی امت پر توجہ کی ہے۔

6. Luke 7 : 11 (went into)-16

11     …went into a city called Nain; and many of his disciples went with him, and much people.

12     Now when he came nigh to the gate of the city, behold, there was a dead man carried out, the only son of his mother, and she was a widow: and much people of the city was with her.

13     And when the Lord saw her, he had compassion on her, and said unto her, Weep not.

14     And he came and touched the bier: and they that bare him stood still. And he said, Young man, I say unto thee, Arise.

15     And he that was dead sat up, and began to speak. And he delivered him to his mother.

16     And there came a fear on all: and they glorified God, saying, That a great prophet is risen up among us; and, That God hath visited his people.

7 . ۔ یوحنا 13 باب3، 12 (اْن سے کہا) آیات صرف

3۔ یسوع نے یہ جان کر باپ نے سب چیزیں میرے ہاتھ میں کر دی ہیں اور مَیں خدا کے پاس سے آیا اور خدا کے پاس ہی جاتا ہوں۔

12۔۔۔۔ تو اْن سے کہا۔

7. John 13 : 3, 12 (said unto them,) only

3     Jesus knowing that the Father had given all things into his hands, and that he was come from God, and went to God;

12     …said unto them,

8 . ۔ یوحنا 14باب1، 4تا12، 15تا17 آیات

1۔تمہارا دل نہ گھبرائے۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو۔

4۔ اور جہاں مَیں جاتا ہوں تم وہاں کی راہ جانتے ہو۔

5۔ توما نے اْس سے کہا اے خداوند ہم نہیں جانتے کہ تْو کہاں جاتا ہے۔ پھر راہ کس طرح جانیں۔

6۔ یسوع نے اْس سے کہا کہ راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔

7۔ اگر تم نے مجھے جانا ہوتا تو میرے باپ کو بھی جانتے۔ اب اْسے جانتے ہو اور دیکھ لیا ہے۔

8۔ فلپس نے اْس سے کہا اے خداوند! باپ کو ہم کو دکھا۔ یہی ہمیں کافی ہے۔

9۔ یسوع نے اْس سے کہا اے فلپس! مَیں اتنی مدت سے تمہارے ساتھ ہوں کیا تْو مجھے نہیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا ہے اْس نے باپ کو دیکھا ہے۔ تْو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟

10۔ کیا تْو یقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو مَیں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر کام کرتا ہے۔

11۔ میرا یقین کرو کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔ نہیں تو میرے کاموں ہی کے سبب سے میرا یقین کرو۔

12۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہوں۔

15۔ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔

16۔ اور مَیں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔

17۔ یعنی روحِ حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اْسے دیکھتی نہ جانتی ہے۔ تم اْسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہوگا۔

8. John 14 : 1, 4-12, 15-17

1     Let not your heart be troubled: ye believe in God, believe also in me.

4     And whither I go ye know, and the way ye know.

5     Thomas saith unto him, Lord, we know not whither thou goest; and how can we know the way?

6     Jesus saith unto him, I am the way, the truth, and the life: no man cometh unto the Father, but by me.

7     If ye had known me, ye should have known my Father also: and from henceforth ye know him, and have seen him.

8     Philip saith unto him, Lord, shew us the Father, and it sufficeth us.

9     Jesus saith unto him, Have I been so long time with you, and yet hast thou not known me, Philip? he that hath seen me hath seen the Father; and how sayest thou then, Shew us the Father?

10     Believest thou not that I am in the Father, and the Father in me? the words that I speak unto you I speak not of myself: but the Father that dwelleth in me, he doeth the works.

11     Believe me that I am in the Father, and the Father in me: or else believe me for the very works’ sake.

12     Verily, verily, I say unto you, He that believeth on me, the works that I do shall he do also; and greater works than these shall he do; because I go unto my Father.

15     If ye love me, keep my commandments.

16     And I will pray the Father, and he shall give you another Comforter, that he may abide with you for ever;

17     Even the Spirit of truth; whom the world cannot receive, because it seeth him not, neither knoweth him: but ye know him; for he dwelleth with you, and shall be in you.

9 . ۔ 1 یوحنا 4 باب1، 4، 6 آیات

1۔ اے عزیزو! ہر ایک روح کا یقین نہ کروبلکہ روحوں کو آزماؤ کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں یا نہیں کیونکہ بہت سے جھوٹے نبی دنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔

4۔ اے بچو! تم خدا سے ہو اور اْن پر غالب آگئے ہو کیونکہ جو تم میں ہے وہ اْس سے بڑا ہے جو دنیا میں ہے۔

6۔ ہم خدا سے ہیں۔ جو خدا کو جانتا ہے وہ ہماری سنتا ہے۔ جو خدا سے نہیں وہ ہماری نہیں سنتا۔ اسی سے ہم حق کی روح اور گمراہی کی روح کو پہچان لیتے ہیں۔

9. I John 4 : 1, 4, 6

1     Beloved, believe not every spirit, but try the spirits whether they are of God: because many false prophets are gone out into the world.

4     Ye are of God, little children, and have overcome them: because greater is he that is in you, than he that is in the world.

6     We are of God: he that knoweth God heareth us; he that is not of God heareth not us. Hereby know we the spirit of truth, and the spirit of error.

10 . ۔ یسعیاہ 26 باب2 آیت

2۔ تم دروازے کھولو تاکہ صادق قوم کا وفادار ہی داخل ہو۔

10. Isaiah 26 : 2

2     Open ye the gates, that the righteous nation which keepeth the truth may enter in.



سائنس اور صح


1 . 1۔ 497 :3 (بطور)۔4

بطور سچائی کے پیروکار، ہم بائبل کے الہامی کلام کو ابدی زندگی کے لئے معقول ہدایت سمجھتے ہیں۔

1. 497 : 3 (As)-4

As adherents of Truth, we take the inspired Word of the Bible as our sufficient guide to eternal Life.

2 . 2۔ 282 :26 صرف

حق لافانی عقل کی ذہانت ہے۔

2. 282 : 26 only

Truth is the intelligence of immortal Mind.

3 . ۔ 510 :9۔12

سچائی اور محبت سمجھ کو روشن کرتے ہیں، جس کے ”نور کی بدولت ہم روشنی کو دیکھیں گے“؛ اور یہ روشنی اْن سب کی بدولت روحانی طور پر منعکس ہوتی ہے جو نور میں چلتے ہیں اور ایک جھوٹے مادی فہم سے دور ہوتے ہیں۔

3. 510 : 9-12

Truth and Love enlighten the understanding, in whose "light shall we see light;" and this illumination is reflected spiritually by all who walk in the light and turn away from a false material sense.

4 . ۔ 26 :10۔18، 28۔32

مسیح روح تھا جسے یسوع نے اپنے خود کے بیانات میں تقویت دی: ”راہ، حق اور زندگی مَیں ہوں“؛ ”مَیں اور میرا باپ ایک ہیں۔“ یہ مسیح، یا انسان یسوع کی الوہیت اْس کی فطرت، خدائی تھی جس نے اْسے متحرک رکھا۔الٰہی حق، زندگی اور محبت نے یسوع کو گناہ، بیماری اور موت پر اختیار دیا۔ اْس کا مقصد آسمانی ہستی کی سائنس کو ظاہر کرنا تھا تاکہ اِسے ثابت کرے جو خدا ہے اور جو وہ انسان کے لئے کرتا ہے۔

ہمارے مالک نے محض نظریے، عقیدے یا ایمان کی تعلیم نہیں دی۔یہ الٰہی اصول کی مکمل ہستی تھی جس کی اْس نے تعلیم دی اور مشق کی۔ مسیحیت کے لئے اْس کا ثبوت مذہب اور عبادت کا کوئی نظام یا شکل نہیں تھی، بلکہ یہ کرسچن سائنس تھی جو زندگی اور محبت کی ہم آہنگی پر عمل کرتی ہے۔

4. 26 : 10-18, 28-32

The Christ was the Spirit which Jesus implied in his own statements: "I am the way, the truth, and the life;" "I and my Father are one." This Christ, or divinity of the man Jesus, was his divine nature, the godliness which animated him. Divine Truth, Life, and Love gave Jesus authority over sin, sickness, and death. His mission was to reveal the Science of celestial being, to prove what God is and what He does for man.

Our Master taught no mere theory, doctrine, or belief. It was the divine Principle of all real being which he taught and practised. His proof of Christianity was no form or system of religion and worship, but Christian Science, working out the harmony of Life and Love.

5 . ۔ 317 :1۔5

یسوع نے وہ باتیں کیں جو ”بنائے عالم سے پوشیدہ“ رہی ہیں، جب سے مادی علم نے اْس تخلیق کار الٰہی اصول کا تخت غصب کیا جو مادے کی قوت پر، جھوٹ کی طاقت پر، روح کے بے معنی ہونے پر قائم ہے اور ایک بشریاتی خدا کی تشہیر کرتا ہے۔

5. 317 : 1-5

Jesus uttered things which had been "secret from the foundation of the world," — since material knowledge usurped the throne of the creative divine Principle, insisted on the might of matter, the force of falsity, the insignificance of spirit, and proclaimed an anthropomorphic God.

6 . ۔ 596 :28 (تا دوسرا)

نقاب۔ ایک پردہ؛ مخفی؛ چھپانا؛ ریاکاری۔

6. 596 : 28 (to 2nd .)

Veil. A cover; concealment; hiding; hypocrisy.

7 . ۔ 567: 18۔23

یہ جھوٹا دعویٰ، یہ قدیم عقیدہ کہ پرانا سانپ جس کا نام شیطان(بد) ہے، جو مادے کی ذہانت کا دعویٰ کرتا ہے خواہ وہ انسان کے لئے مفید ہو یا نقصان دہ، وہ بڑا واضح بھرم، لال اژدھا ہے اور اسے مسیح، سچائی، روحانی خیال نے باہر نکال پھینکا ہے، اور اس لئے یہ بے اختیار ثابت ہوا ہے۔

7. 567 : 18-23

That false claim — that ancient belief, that old serpent whose name is devil (evil), claiming that there is intelligence in matter either to benefit or to injure men — is pure delusion, the red dragon; and it is cast out by Christ, Truth, the spiritual idea, and so proved to be powerless.

8 . ۔ 286: 6۔15

حق کا فہم سچائی پر مکمل ایمان مہیا کرتا ہے، اور روحانی سمجھ تمام سوختنی قربانیوں سے بہتر ہے۔

مالک نے کہا، ”کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ(ہستی کے الٰہی اصول) کے پاس نہیں آتا،“ یعنی مسیح، زندگی، حق اور محبت کے بغیر؛ کیونکہ مسیح کہتا ہے، ”راہ مَیں ہوں۔“ اس اصلی انسان، یسوع، کی بدولت طبیب کے اسباب کو پہلے درجے سے آخری تک کر دیا گیاتھا۔ وہ جانتا تھا کہ الٰہی اصول یعنی محبت اْس سب کو خلق کرتا اور اْس پر حکمرانی کرتا ہے جو حقیقی ہے۔

8. 286 : 6-15

The understanding of Truth gives full faith in Truth, and spiritual understanding is better than all burnt offerings.

The Master said, "No man cometh unto the Father [the divine Principle of being] but by me," Christ, Life, Truth, Love; for Christ says, "I am the way." Physical causation was put aside from first to last by this original man, Jesus. He knew that the divine Principle, Love, creates and governs all that is real.

9 . ۔ 316: 7۔11

یسوع کے ذریعے بدن پر روح کی طاقت کو ثابت کرنے کے لئے مسیح یعنی سچائی کو ظاہر کیا گیا تھا، یہ دکھانے کے لئے کہ انسانی عقل اور بدن پر اِس کے اثرات کی بدولت سچائی کو،بیماری سے شفا دیتے اور گناہ کو نیست کرتے ہوئے، ظاہر کیا جاتا ہے۔

9. 316 : 7-11

Christ, Truth, was demonstrated through Jesus to prove the power of Spirit over the flesh, — to show that Truth is made manifest by its effects upon the human mind and body, healing sickness and destroying sin.

10 . ۔ 289 :14۔20

یہ حقیقت کہ مسیح، یا سچائی نے موت پر فتح پائی یا ابھی بھی فتح پاتا ہے،”دہشت کے بادشاہ“ کو محض ایک فانی عقیدے یا غلطی کے علاوہ کچھ بھی ثابت نہیں کرتی، جسے سچائی زندگی کی روحانی شہادتوں کے ساتھ تباہ کرتی ہے؛ اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ حواس کو جو موت دکھائی دیتے ہیں فانی فریب نظری کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ حقیقی انسان اور حقیقی کائنات کے لئے کوئی موت کا عمل نہیں۔

10. 289 : 14-20

The fact that the Christ, or Truth, overcame and still overcomes death proves the "king of terrors" to be but a mortal belief, or error, which Truth destroys with the spiritual evidences of Life; and this shows that what appears to the senses to be death is but a mortal illusion, for to the real man and the real universe there is no death-process.

11 . ۔ 288: 31۔2

ابدی سچائی اِسے تباہ کرتی ہے جو بشر کو غلطی سے سیکھا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور بطور خدا کے فرزند انسان کی حقیقت روشنی میں آتی ہے۔ ظاہر کی گئی سچائی ابدی زندگی ہے۔

11. 288 : 31-2

The eternal Truth destroys what mortals seem to have learned from error, and man's real existence as a child of God comes to light. Truth demonstrated is eternal life.

12 . ۔ 136: 29۔7

شاگرد اپنے مالک کو دوسروں کی نسبت زیادہ جانتے تھے مگر جو کچھ اْس نے کہا اور کیا وہ اْس کو مکمل طور پر نہیں سمجھتے تھے وگرنہ وہ اکثر اْس پر سوال نہ اْٹھاتے۔یسوع صبر کے ساتھ اور سچائی کی ہستی کو ظاہر کرتے ہوئے اپنی تعلیم پر قائم رہا۔اْس کے طالب علموں نے سچائی کی اِس طاقت کو بیمار کو شفا دیتے، بد روح کو نکالتے اور مردہ کو زندہ کرتے ہوئے دیکھا، مگر اِس عجیب کام کی کاملیت روحانی طور پر قبول نہیں کی گئی، حتیٰ کہ اْن کی جانب سے بھی، صلیب پر چڑھائے جانے کے بعد تک، جب اْن کا بیداغ استاد اْن کے سامنے کھڑا تھا، جو بیماری، گناہ اور عارضے، موت اور قبر پر فتح مند ہوئے۔

12. 136 : 29-7

The disciples apprehended their Master better than did others; but they did not comprehend all that he said and did, or they would not have questioned him so often. Jesus patiently persisted in teaching and demonstrating the truth of being. His students saw this power of Truth heal the sick, cast out evil, raise the dead; but the ultimate of this wonderful work was not spiritually discerned, even by them, until after the crucifixion, when their immaculate Teacher stood before them, the victor over sickness, sin, disease, death, and the grave.

13 . ۔ 326 :3۔22

اگر ہم مسیح یعنی سچائی کی پیروی کرنے کے خواہاں ہیں، تو یہ خدا کے مقرر کردہ طریقہ کار کے مطابق ہونا چاہئے۔ یسوع نے کہا، ”جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا۔“ وہ جو منبع تک پہنچے اور ہر بیماری کا الٰہی علاج پائے گا اْسے کسی اور راستے سے سائنس کی پہاڑی پر چڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ ساری فطرت انسان کے ساتھ خدا کی محبت کی تعلیم دیتی ہے، لیکن انسان خدا سے بڑھ کر اْسے پیار نہیں کر سکتا اورروحانیت کی بجائے مادیت سے پیار کرتے اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنے احساس کو روحانی چیزوں پر مرتب نہیں کرسکتا۔

ہمیں مادی نظاموں کی بنیاد کو ترک کرنا چاہئے، تاہم یہ منحصر ہے، اگر ہم مسیح کو ہمارے واحد نجات دہندہ کے طور پر حاصل کرتے ہیں۔ جزوی نہیں بلکہ مکمل طور پر مادی سوچ کا عظیم شفا دینے والا جسم کو بھی شفا دینے والا ہے۔

صحیح ڈھنگ سے زندگی گزارنے کا مقصد اور غرض اب حاصل کئے جا سکتے ہیں۔یہ فتح کیا گیا نقطہ آپ نے ویسے ہی شروع کیا جیسے یہ کرنا چاہئے تھا۔ آپ نے کرسچن سائنس کا عددی جدول شروع کیا ہے، اور کچھ نہیں ہو گا ماسوائے غلط نیت آپ کی ترقی میں رکاوٹ بنے گی۔ سچے مقاصد کے ساتھ کام کرنے اور دعا کرنے سے آپ کا باپ آپ کے لئے راستہ کھول دے گا۔”کس نے تمہیں حق کے ماننے سے روک دیا؟“

13. 326 : 3-22

If we wish to follow Christ, Truth, it must be in the way of God's appointing. Jesus said, "He that believeth on me, the works that I do shall he do also." He, who would reach the source and find the divine remedy for every ill, must not try to climb the hill of Science by some other road. All nature teaches God's love to man, but man cannot love God supremely and set his whole affections on spiritual things, while loving the material or trusting in it more than in the spiritual.

We must forsake the foundation of material systems, however time-honored, if we would gain the Christ as our only Saviour. Not partially, but fully, the great healer of mortal mind is the healer of the body.

The purpose and motive to live aright can be gained now. This point won, you have started as you should. You have begun at the numeration-table of Christian Science, and nothing but wrong intention can hinder your advancement. Working and praying with true motives, your Father will open the way. "Who did hinder you, that ye should not obey the truth?"

14 . ۔ 40: 31۔7

مسیحت کی فطرت پْر امن اور بابرکت ہے، لیکن بادشاہی میں داخل ہونے کے لئے، امید کا لنگر اْس شکینہ کے اندر مادے کے پردے سے آگے ڈالنا ضروری ہے جس میں سے یسوع ہم سے قبل گز رچکا ہے، اور مادے سے آگے کی یہ ترقی راستباز کی خوشیوں اور فتح مندی اور اِس کے ساتھ ساتھ اْن کے دْکھوں اور تکالیف کے وسیلہ آتی ہے۔ ہمارے مالک کی طرح، ہمیں بھی مادی فہم سے ہستی کے روحانی فہم کی جانب رْخصت ہونا چاہئے۔

14. 40 : 31-7

The nature of Christianity is peaceful and blessed, but in order to enter into the kingdom, the anchor of hope must be cast beyond the veil of matter into the Shekinah into which Jesus has passed before us; and this advance beyond matter must come through the joys and triumphs of the righteous as well as through their sorrows and afflictions. Like our Master, we must depart from material sense into the spiritual sense of being.

15 . ۔ 482 :27 (کرسچن)۔31

کرسچن سائنس حق کی شریعت ہے، جو واحد عقل یا خدا کی بنیاد پر بیمار کو شفا دیتی ہے۔یہ کسی اور طریقے سے شفا نہیں دے سکتی، کیونکہ انسان، نام نہاد فانی عقل مشفی نہیں ہے، بلکہ بیماری پر ایمان کی وجہ بنتا ہے۔

15. 482 : 27 (Christian)-31

Christian Science is the law of Truth, which heals the sick on the basis of the one Mind or God. It can heal in no other way, since the human, mortal mind so-called is not a healer, but causes the belief in disease.

16 . ۔ 37: 22۔31

یہ ممکن ہے، ہاں یہ ہر بچے، مرد اور عورت کی ذمہ داری اور استحقاق ہے کہ وہ زندگی اور سچائی، صحت اور پاکیزگی کے اظہار کے وسیلہ مالک کے نمونے کی کسی حد تک پیروی کریں۔ مسیحی لوگ اْس کے پیروکار ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر کیا وہ اْس کی پیروی اْسی طرح کرتے ہیں جیسے اْس نے حکم دیا ہے؟اِن ناگزیر احکامات کو سنیں: ”پس چاہئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے!“ ”تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو!“ ”بیمار کو شفا دو!“

16. 37 : 22-31

It is possible, — yea, it is the duty and privilege of every child, man, and woman, — to follow in some degree the example of the Master by the demonstration of Truth and Life, of health and holiness. Christians claim to be his followers, but do they follow him in the way that he commanded? Hear these imperative commands: "Be ye therefore perfect, even as your Father which is in heaven is perfect!" "Go ye into all the world, and preach the gospel to every creature!" "Heal the sick!"

17 . ۔ 371 :30۔32

یہ پورے نظام میں قابل تبدیل ہے، اور اسے ”ہر ذرے تک“ بنا سکتی ہے۔

17. 371 : 30-32

Truth is an alterative in the entire system, and can make it "every whit whole."


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔