اتوار 9 فروری، 2025
”زندہ کرنے والی تو روح ہے۔ جسم سے کچھ فائدہ نہیں۔ جو باتیں مَیں نے تم سے کہی ہیں وہ روح ہیں اور زندگی بھی ہیں۔“— مسیح یسوع
“It is the spirit that quickeneth; the flesh profiteth nothing: the words that I speak unto you, they are spirit, and they are life.”— Christ Jesus
33۔ اے خدا مجھے اپنے آئین کی راہ بتا۔ اور مَیں آخر تک اْس پر چلوں گا۔
34۔ مجھے فہم عطا کر اور مَیں تیری شریعت پر چلوں گا۔ بلکہ مَیں پورے دل سے اْس کو مانوں گا۔
35۔ مجھے اپنے فرمان کی راہ پر چلا۔ کیونکہ اِس میں میری خوشی ہے۔
36۔ میرے دل کو اپنی شہادتوں کی طرف رجوع دلا نہ کہ لالچ کی طرف۔
37۔ میری آنکھوں کو بطلان پر نظر کرنے سے باز رکھ۔اور مجھے اپنی راہوں میں زندہ کر۔
40۔ دیکھ! مَیں تیرے قوانین کا مشتاق رہا ہوں۔ مجھے اپنی صداقت سے زندہ کر۔
33. Teach me, O Lord, the way of thy statutes; and I shall keep it unto the end.
34. Give me understanding, and I shall keep thy law; yea, I shall observe it with my whole heart.
35. Make me to go in the path of thy commandments; for therein do I delight.
36. Incline my heart unto thy testimonies, and not to covetousness.
37. Turn away mine eyes from beholding vanity; and quicken thou me in thy way.
40. Behold, I have longed after thy precepts: quicken me in thy righteousness.
درسی وعظ
درسی وعظ
بائبل
1۔ اے خداوند تْو ہی میری پناہ ہے۔
3۔ تْو میرے لئے سکونت کی چٹان ہو جہاں مَیں برابر جا سکوں۔ تْو نے بچانے کا حکم دے دیا ہے۔ کیونکہ میری چٹان اور میرا قلعہ تْو ہی ہے۔
6۔۔۔۔مَیں سدا تیری ستائش کرتا رہوں گا۔
16۔ مَیں خداوند خدا کی قدرت کے کاموں کا اظہار کروں گا۔ مَیں صرف تیری ہی صداقت کا ذکر کروں گا۔
1 In thee, O Lord, do I put my trust:
3 Be thou my strong habitation, whereunto I may continually resort: thou hast given commandment to save me; for thou art my rock and my fortress.
6 …my praise shall be continually of thee.
16 I will go in the strength of the Lord God: I will make mention of thy righteousness, even of thine only.
1۔ دیکھو میرا خادم جس کو میں سنبھالتا ہوں۔ میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خوش ہوتا ہے۔ مَیں نے اپنی روح اْس پر ڈالی۔وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا۔
2۔ وہ نہ چلائے گا اور نہ شور کرے گا اور نہ بازاروں میں اْس کی آواز سنائی دے گی۔
3۔ وہ مسلے ہوئے سر کنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بجھائے گا۔ وہ راستی سے عدالت کرے گا۔
4۔ وہ ماندہ نہ ہوگا اور ہمت نہ ہارے گا جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم نہ کر لے۔ جزیرے اْس کی شریعت کا انتظار کریں گے۔
5۔ جس نے آسمان کو پیدا کیا اور تان دیا جس نے زمین کو اور جو کچھ اْس میں سے نکلتا ہے پھیلایا اور جو اْس کے باشندوں کو سانس اور اْس پر چلنے والوں کو روح عنایت کرتا ہے یعنی خداوند خدا یوں فرماتا ہے۔
6۔ مَیں خداوند نے تجھے صداقت سے بلایا مَیں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لئے تجھے دوں گا۔
1 Behold my servant, whom I uphold; mine elect, in whom my soul delighteth; I have put my spirit upon him: he shall bring forth judgment to the Gentiles.
2 He shall not cry, nor lift up, nor cause his voice to be heard in the street.
3 A bruised reed shall he not break, and the smoking flax shall he not quench: he shall bring forth judgment unto truth.
4 He shall not fail nor be discouraged, till he have set judgment in the earth: and the isles shall wait for his law.
5 Thus saith God the Lord, he that created the heavens, and stretched them out; he that spread forth the earth, and that which cometh out of it; he that giveth breath unto the people upon it, and spirit to them that walk therein:
6 I the Lord have called thee in righteousness, and will hold thine hand, and will keep thee, and give thee for a covenant of the people, for a light of the Gentiles;
5۔ اور جب وہ کفر نحوم میں داخل ہوا تو ایک صوبہ دار اْس کے پاس آیا اور اْس کی منت کر کے کہا
6۔ اے خداوند میرا خادم فالج کا مارا گھرمیں پڑا ہے اور نہایت تکلیف میں ہے۔
7۔ اْس نے اْس سے کہا مَیں آکر اْسے شفا دوں گا۔
8۔ صوبہ دار نے جواب میں کہا اے خداوند مَیں اِس لائق نہیں کہ تْو میری چھت کے نیچے آئے بلکہ صرف زبان سے کہہ دے تو میرا خادم شفا پا جا ئے گا۔
9۔ کیونکہ مَیں بھی دوسروں کے اختیار میں ہوں اور سپاہی میرے ماتحت ہیں جب ایک سے کہتا ہوں کہ جا تو وہ جاتا ہے اور دوسرے سے کہ آ تو وہ آتا ہے اور اپنے نوکر سے کہ یہ کر تو وہ کرتا ہے۔
10۔ یسوع نے یہ سْن کر تعجب کیا اور پیچھے آنے والوں سے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مَیں نے اسرائیل میں بھی ایسا ایمان نہیں پایا۔
13۔ اور یسوع نے صوبہ دار سے کہا جا جیسا تو نے اعتقاد کیا ہے تیرے لئے ویسا ہی ہواور اْسی گھڑی خادم نے شفا پائی۔
5 And when Jesus was entered into Capernaum, there came unto him a centurion, beseeching him,
6 And saying, Lord, my servant lieth at home sick of the palsy, grievously tormented.
7 And Jesus saith unto him, I will come and heal him.
8 The centurion answered and said, Lord, I am not worthy that thou shouldest come under my roof: but speak the word only, and my servant shall be healed.
9 For I am a man under authority, having soldiers under me: and I say to this man, Go, and he goeth; and to another, Come, and he cometh; and to my servant, Do this, and he doeth it.
10 When Jesus heard it, he marvelled, and said to them that followed, Verily I say unto you, I have not found so great faith, no, not in Israel.
13 And Jesus said unto the centurion, Go thy way; and as thou hast believed, so be it done unto thee. And his servant was healed in the selfsame hour.
5۔ پس وہ سامریہ کے ایک شہر تک آیا جو سوخار کہلاتا ہے۔ وہ اُس قطہ کے نزدیک ہے جو یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دیا تھا۔
6۔اور یعقوب کا کنواں وہیں تھا۔ چنانچہ یسوع سفر سے تھکاماندہ ہو کر اُس کنویں پر یونہی بیٹھ گیا۔ یہ چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔
7۔ سامریہ کی ایک عورت پانی بھرنے آئی۔ یسوع نے اُس سے کہا مجھے پانی پلا۔
9۔ اُس سامری عورت نے اُس سے کہا کہ تو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟کیونکہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے۔
10۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا اگر تو خدا کی بخشش کو جانتی اور یہ بھی جانتی کہ وہ کون ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پانی پلا تو تو اُس سے مانگتی اور وہ تجھے زندگی کا پانی دیتا۔
11۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند تیرے پاس پانی بھرنے کو تو کچھ ہے نہیں اور کنواں گہرا ہے۔ پھر وہ زندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے آیا؟
13۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا جو کوئی اِس پانی میں سے پیتا ہے وہ پھر پیاسا ہو گا۔
14۔ مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پیئے گا جو میں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہوگا بلکہ جو پانی میں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائیگا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری ر ہے گا۔
15۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند وہ پانی مجھ کو دے تاکہ میں نہ پیاسی ہوں نہ پانی بھرنے کو یہاں تک آؤں۔
16۔ یسوع نے اُس سے کہا جا اپنے شوہر کو یہاں بُلا لا۔
17۔عورت نے جواب میں اُس سے کہا میں بے شوہر ہوں۔ یسوع نے اُس سے کہا تُونے خوب کہا کہ میں بے شوہر ہوں۔
18۔ کیونکہ تُو پانچ شوہر کر چکی ہے اور جس کے پاس تُواب ہے وہ تیرا شوہر نہیں یہ تُو نے سچ کہا۔
19۔ عورت نے اُس سے کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تُو نبی ہے۔
20۔ ہمارے باپ دادا نے اِس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنا چاہیے یروشلم میں ہے۔
21۔ یسوع نے اُس سے کہا اے عورت! میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یروشلم میں۔
23۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔
24۔ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستارروح اور سچائی سے پرستش کریں۔
5 Then cometh he to a city of Samaria, which is called Sychar,
6 Now Jacob’s well was there. Jesus therefore, being wearied with his journey, sat thus on the well: and it was about the sixth hour.
7 There cometh a woman of Samaria to draw water: Jesus saith unto her, Give me to drink.
9 Then saith the woman of Samaria unto him, How is it that thou, being a Jew, askest drink of me, which am a woman of Samaria? for the Jews have no dealings with the Samaritans.
10 Jesus answered and said unto her, If thou knewest the gift of God, and who it is that saith to thee, Give me to drink; thou wouldest have asked of him, and he would have given thee living water.
11 The woman saith unto him, Sir, thou hast nothing to draw with, and the well is deep: from whence then hast thou that living water?
13 Jesus answered and said unto her, Whosoever drinketh of this water shall thirst again:
14 But whosoever drinketh of the water that I shall give him shall never thirst; but the water that I shall give him shall be in him a well of water springing up into everlasting life.
15 The woman saith unto him, Sir, give me this water, that I thirst not, neither come hither to draw.
16 Jesus saith unto her, Go, call thy husband, and come hither.
17 The woman answered and said, I have no husband. Jesus said unto her, Thou hast well said, I have no husband:
18 For thou hast had five husbands; and he whom thou now hast is not thy husband: in that saidst thou truly.
19 The woman saith unto him, Sir, I perceive that thou art a prophet.
20 Our fathers worshipped in this mountain; and ye say, that in Jerusalem is the place where men ought to worship.
21 Jesus saith unto her, Woman, believe me, the hour cometh, when ye shall neither in this mountain, nor yet at Jerusalem, worship the Father.
23 But the hour cometh, and now is, when the true worshippers shall worship the Father in spirit and in truth: for the Father seeketh such to worship him.
24 God is a Spirit: and they that worship him must worship him in spirit and in truth.
1۔ پس اب جو مسیح یسوع میں ہیں اُن پر سزا کا حکم نہیں،جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔
2۔ کیونکہ زندگی کے روح کی شریعت نے مسیح یسوع میں مجھے گناہ اورموت کی شریعت سے آزاد کردیا۔
3۔اس لئے کہ جو کام شریعت جسم کے سبب سے کمزور ہو کر نہ کر سکی وہ خدا نے کیا یعنی اْس نے اپنے بیٹے کو گناہ آلود جسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کے لئے بھیج کر جسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا۔
4۔تاکہ شریعت کا تقاضا ہم میں پورا ہو جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔
5۔کیونکہ جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں لیکن جو روحانی ہیں وہ روحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں۔
6۔اور جسمانی نیت موت ہے مگر روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔
9۔ لیکن تم جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوبشرطیکہ خدا کا روح تم میں بسا ہو اہے۔
10۔۔۔۔روح راستبازی کے سبب سے زندہ ہے۔
11۔ لیکن اگر اْسی کا روح تم میں بسا ہوا ہے جس نے یسوع کو مردوں میں سے جلایا تو جس نے مسیح یسوع کو مردوں میں سے جلایا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اْس روح کے وسیلہ زندہ کرے گا جو تم میں بسا ہوا ہے۔
14۔ اِس لئے کہ جتنے خدا کی روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں۔
1 There is therefore now no condemnation to them which are in Christ Jesus, who walk not after the flesh, but after the Spirit.
2 For the law of the Spirit of life in Christ Jesus hath made me free from the law of sin and death.
3 For what the law could not do, in that it was weak through the flesh, God sending his own Son in the likeness of sinful flesh, and for sin, condemned sin in the flesh:
4 That the righteousness of the law might be fulfilled in us, who walk not after the flesh, but after the Spirit.
5 For they that are after the flesh do mind the things of the flesh; but they that are after the Spirit the things of the Spirit.
6 For to be carnally minded is death; but to be spiritually minded is life and peace.
9 But ye are not in the flesh, but in the Spirit, if so be that the Spirit of God dwell in you.
10 …the Spirit is life because of righteousness.
11 But if the Spirit of him that raised up Jesus from the dead dwell in you, he that raised up Christ from the dead shall also quicken your mortal bodies by his Spirit that dwelleth in you.
14 For as many as are led by the Spirit of God, they are the sons of God.
19۔ روح کو نہ بجھاؤ۔
19 Quench not the Spirit.
صحیفے دلیل دیتے ہیں کہ خداقادرِمطلق ہے۔ اِس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ الٰہی عقل اوراْس کے خیالات کے علاوہ کوئی چیز نہ حقیقت کی ملکیت رکھتی ہے نہ وجودیت کی۔صحائف یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ خدا روح ہے۔اِس لئے روح میں سب کچھ ہم آہنگی ہے، اور کوئی مخالفت نہیں ہوسکتی؛ سب کچھ زندگی ہے اور موت بالکل نہیں ہے۔
The Scriptures imply that God is All-in-all. From this it follows that nothing possesses reality nor existence except the divine Mind and His ideas. The Scriptures also declare that God is Spirit. Therefore in Spirit all is harmony, and there can be no discord; all is Life, and there is no death.
روح تمام چیزوں کی زندگی، مواد اور تواتر ہے۔
Spirit is the life, substance, and continuity of all things.
سوال: ہستی کا سائنسی بیان کیا ہے؟
جواب: مادے میں کوئی زندگی، سچائی، ذہانت اورنہ ہی مواد پایا جاتا ہے۔کیونکہ خدا حاکم کْل ہے اس لئے سب کچھ لامتناہی عقل اور اْس کا لامتناہی اظہار ہے۔ روح لافانی سچائی ہے؛ مادہ فانی غلطی ہے۔ روح ابدی اور حقیقی ہے؛ مادہ غیر حقیقی اور عارضی ہے۔ روح خدا ہے اور انسان اْس کہ صورت اور شبیہ۔ اس لئے انسان مادی نہیں بلکہ وہ روحانی ہے۔
Question. — What is the scientific statement of being?
Answer. — There is no life, truth, intelligence, nor substance in matter. All is infinite Mind and its infinite manifestation, for God is All-in-all. Spirit is immortal Truth; matter is mortal error. Spirit is the real and eternal; matter is the unreal and temporal. Spirit is God, and man is His image and likeness. Therefore man is not material; he is spiritual.
روح کی بالادستی وہ بنیاد تھی جس پر یسوع نے محبت کے مذہب سے متعلق اپنا شاندار خلاصہ تعمیر کیا۔
یسوع نے مسیحی دور میں تمام تر مسیحت، الٰہیات اور شفا کی مثال قائم کی۔
The supremacy of Spirit was the foundation on which Jesus built. His sublime summary points to the religion of Love.
Jesus established in the Christian era the precedent for all Christianity, theology, and healing.
ابتدا سے آخر تک، پورا کلام پاک مادے پر روح، عقل کی فتح کے واقعات سے بھرپور ہے۔ موسیٰ نے عقل کی طاقت کو اس کے ذریعے ثابت کیا جسے انسان معجزات کہتا ہے؛ اسی طرح یشوع، ایلیاہ اور الیشع نے بھی کیا۔ مسیحی دور کو علامات اور عجائبات کی مدد سے بڑھایا گیا۔
From beginning to end, the Scriptures are full of accounts of the triumph of Spirit, Mind, over matter. Moses proved the power of Mind by what men called miracles; so did Joshua, Elijah, and Elisha. The Christian era was ushered in with signs and wonders.
یسوع نے مادیت کی نااہلیت کو اس کے ساتھ ساتھ روح کی لامحدود قابلیت کو ظاہر کیا، یوں غلطی کرنے والے انسانی فہم کو خود کی سزاؤں سے بھاگنے اور الٰہی سائنس میں تحفظ تلاش کرنے میں مدد کی۔مناسب ہدایت کی گئی وجہ جسمانی حس کی غلطی کو سدھارنے کا کام کرتی ہے، لیکن جب تک انسان کی ابدی ہم آہنگی کی سائنس سائنسی ہستی کی مْتصل حقیقت کے ذریعے اْن کی فریب نظری کو ختم نہیں کرتی گناہ، بیماری اور موت حقیقی ہی نظر آتے رہیں گے (جیسا کہ سوتے ہوئے خوابوں کے تجربات حقیقی دکھائی دیتے ہیں)۔
Jesus demonstrated the inability of corporeality, as well as the infinite ability of Spirit, thus helping erring human sense to flee from its own convictions and seek safety in divine Science. Reason, rightly directed, serves to correct the errors of corporeal sense; but sin, sickness, and death will seem real (even as the experiences of the sleeping dream seem real) until the Science of man's eternal harmony breaks their illusion with the unbroken reality of scientific being.
ایک بڑی روحانی حقیقت سامنے لائی جانی چاہئے کہ انسان کامل اور لافانی ہوگا نہیں بلکہ ہے۔ ہمیں وجودیت کے شعور کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے اور جلد یا بدیر، مسیح اور کرسچن سائنس کے وسیلہ گناہ اور موت پر حاکم ہونا چاہئے۔ جب مادی عقائد کو ترک کیا جاتا ہے اورہستی کے غیر فانی حقائق کو قبول کر لیا جاتا ہے تو انسان کی لافانیت کی شہادت مزید واضح ہو جاتی ہے۔
The great spiritual fact must be brought out that man is, not shall be, perfect and immortal. We must hold forever the consciousness of existence, and sooner or later, through Christ and Christian Science, we must master sin and death. The evidence of man's immortality will become more apparent, as material beliefs are given up and the immortal facts of being are admitted.
جب مادے پر عقیدے کو فتح کر لیا جاتا ہے تو شعور بہتر بدن تشکیل دیتا ہے۔ روحانی فہم کے وسیلے مادی عقیدے کی تصحیح کریں تو آپ کی روح آپ کو نیا بنائے گی۔ ماسوائے خدا کو رنجیدہ کرنے کے آپ کبھی خوفذدہ نہیں ہوں گے، اور آپ یہ کبھی یقین نہیں رکھیں گے کہ دل یا آپ کے بدن کا کوئی بھی حصہ آپ کو تباہ کر سکتا ہے۔
Consciousness constructs a better body when faith in matter has been conquered. Correct material belief by spiritual understanding, and Spirit will form you anew. You will never fear again except to offend God, and you will never believe that heart or any portion of the body can destroy you.
سچائی کے مطالبات روحانی ہیں، اور وہ بدن تک عقل کے وسیلہ پہنچتے ہیں۔ انسان کی ضروریات کے بہترین ترجمان نے کہا: ”اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟“
روحانی وجہ ایک غور طلب سوال ہے، کیونکہ اِس سب کے علاوہ روحانی وجہ آسمانی ترقی سے تعلق رکھتی ہے۔عمر اِس موضوع تک پہنچنے کے لئے، کسی حد تک روح کی بالادستی پر غور کرنے کے لئے، اور کم از کم حق کے لباس کا کنارہ چھونے کے لئے تیار دکھائی دیتی ہے۔
انسان سے متعلق تفصیل بطور خالصتاً جسمانی، یا بطور دونوں مادی اور روحانی، مگر کسی بھی صورت میں اْس کی جسمانی بناوٹ پرانحصار کرتے ہوئے، ایک ایسا پینڈورا بکس ہے، جس میں سے ساری بیماریاں، خصوصاً پریشانی، نکل چْکی ہیں۔ مادہ جو خود اپنے ہاتھوں میں اپنی طاقت رکھتا ہے اور ایک خالق ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، وہ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ایسے معاشرے کی طرف سے غیر قومیت اور شہوت کو بہت توثیق ملتی ہے جس میں انسانیت اپنے اخلاقی مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
مادیت کے روحانی مخالف کے تفہیم کے وسیلہ، حتیٰ کہ مسیح، حق کے وسیلہ، انسان اْس جنت کے دروازے الٰہی سائنس کی کنجی کے ساتھ دوبارہ کھولے گا جسے انسانی عقائد نے بند کر دیا ہے، اور وہ خود کو بے گناہ، راست، پاک اور آزاد پائے گا، اپنی زندگی یا موسم کے امکانات کے لئے تقویم سے صلاح لینے کی ضرورت نہ محسوس کرتے ہوئے، یہ جاننے کے لئے کہ اْس میں کتنی انسانیت ہے دماغی علوم کا مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے۔
کائنات، بشمول انسان پر عقل کی حکمرانی ایک کھلا سوال نہیں رہا بلکہ یہ قابل اثبات سائنس ہے۔ یسوع نے بیماری اور گناہ سے شفا دیتے ہوئے اور موت کی بنیاد کو تباہ کرتے ہوئے الٰہی اصول اور لافانی عقل کی طاقت کو بیان کیا۔
اپنی اصلیت اور فطرت سے متعلق غلطی کرتے ہوئے، انسان خود کو مادے اور روح کا مرکب مانتا ہے۔ اْس کا ماننا ہے کہ روح مادے کے وسیلہ چھانی جاتی ہے، ایک اعصاب پر حاوی ہوتی ہے، مادے کے عمل کی بدولت سامنے آتی ہے۔ذہنی، اخلاقی، روحانی، ہاں، لامتناہی عقل کی صورت، غیر ذہانت کے تابع ہے۔
بدن اور روح کے مابین، خبیث اور مسیح کے مابین سے زیادہ ہمدردی نہیں پائی جاتی۔
مادے کے نام نہاد قانون اِن جھوٹے عقائد کے سوا کچھ نہیں کہ ذہانت اور زندگی وہاں موجود ہوتے ہیں جہا ں عقل نہیں ہوتی۔یہ جھوٹے عقیدے تمام گناہ اور بیماری کی حاصل شدہ وجہ ہیں۔ اِس کی مخالف سچائی، کہ ذہانت اور زندگی روحانی ہیں اور کبھی مادی نہیں ہوتے گناہ، بیماری اور موت کو نیست کردیتی ہے۔
The demands of Truth are spiritual, and reach the body through Mind. The best interpreter of man's needs said: "Take no thought for your life, what ye shall eat, or what ye shall drink."
Spiritual causation is the one question to be considered, for more than all others spiritual causation relates to human progress. The age seems ready to approach this subject, to ponder somewhat the supremacy of Spirit, and at least to touch the hem of Truth's garment.
The description of man as purely physical, or as both material and spiritual, — but in either case dependent upon his physical organization, — is the Pandora box, from which all ills have gone forth, especially despair. Matter, which takes divine power into its own hands and claims to be a creator, is a fiction, in which paganism and lust are so sanctioned by society that mankind has caught their moral contagion.
Through discernment of the spiritual opposite of materiality, even the way through Christ, Truth, man will reopen with the key of divine Science the gates of Paradise which human beliefs have closed, and will find himself unfallen, upright, pure, and free, not needing to consult almanacs for the probabilities either of his life or of the weather, not needing to study brainology to learn how much of a man he is.
Mind's control over the universe, including man, is no longer an open question, but is demonstrable Science. Jesus illustrated the divine Principle and the power of immortal Mind by healing sickness and sin and destroying the foundations of death.
Mistaking his origin and nature, man believes himself to be combined matter and Spirit. He believes that Spirit is sifted through matter, carried on a nerve, exposed to ejection by the operation of matter. The intellectual, the moral, the spiritual, — yea, the image of infinite Mind, — subject to non-intelligence!
No more sympathy exists between the flesh and Spirit than between Belial and Christ.
The so-called laws of matter are nothing but false beliefs that intelligence and life are present where Mind is not. These false beliefs are the procuring cause of all sin and disease. The opposite truth, that intelligence and life are spiritual, never material, destroys sin, sickness, and death.
انسان کی روحانی انفرادیت کبھی غلط نہیں ہوتی۔یہ انسان کے خالق کی شبیہ ہے۔ مادہ بشر کو حقیقی ابتداء اور ہستی کے حقائق سے نہیں جوڑ سکتا، جس میں سب کچھ ختم ہو جانا چاہئے۔ یہ صرف روح کی برتری کو تسلیم کرنے سے ہوگا، جو مادے کے دعووں کو منسوخ کرتا ہے، کہ بشر فانیت کو برخاست کریں اور کسی مستحکم روحانی تعلق کو تلاش کریں جو انسان کو ہمیشہ کے لئے، اپنے خالق کی طرف سے لازم و ملزوم الٰہی شبیہ میں قائم رکھتا ہے۔
Man's spiritual individuality is never wrong. It is the likeness of man's Maker. Matter cannot connect mortals with the true origin and facts of being, in which all must end. It is only by acknowledging the supremacy of Spirit, which annuls the claims of matter, that mortals can lay off mortality and find the indissoluble spiritual link which establishes man forever in the divine likeness, inseparable from his creator.
ایک خدا کو ماننے اور خود کو روح کی قوت کے لئے دستیاب کرنے کے لئے آپ کو خدا کے ساتھ بے حد محبت رکھنا ہوگی۔
ساکن ہونا اور درمیانی راہ اپنانا یا روح اور مادے، سچائی اور غلطی سے اکٹھے کام کرنے کی توقع رکھنا عقلمندی نہیں۔ راہ ہے مگر صرف ایک، یعنی، خدا اور اْس کا خیال، جو روحانی ہستی کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔ بدن پر سائنسی حکمرانی الٰہی عقل کے وسیلہ حاصل ہونی چاہئے۔ کسی دوسرے طریقے سے بدن پر قابو پانا ناممکن ہے۔ اِس بنیادی نقطہ پر، کمزورقدامت پسندی بالکل ناقابل تسلیم ہے۔ سچائی پر صرف انتہائی بھروسے کے وسیلہ ہی سائنسی شفائیہ قوت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
To have one God and avail yourself of the power of Spirit, you must love God supremely.
It is not wise to take a halting and half-way position or to expect to work equally with Spirit and matter, Truth and error. There is but one way — namely, God and His idea — which leads to spiritual being. The scientific government of the body must be attained through the divine Mind. It is impossible to gain control over the body in any other way. On this fundamental point, timid conservatism is absolutely inadmissible. Only through radical reliance on Truth can scientific healing power be realized.
عقل جسمانی حواس کامالک ہے، اور بیماری، گناہ اور موت کو فتح کرسکتی ہے۔ اس خداداد اختیار کی مشق کریں۔ اپنے بدن کی ملکیت رکھیں، اور اِس کے احساس اور عمل پر حکمرانی کریں۔ روح کی قوت میں بیدار ہوں اور وہ سب جو بھلائی جیسا نہیں اْسے مسترد کر دیں۔ خدا نے انسان کو اس قابل بنایا ہے، اور کوئی بھی چیز اْس قابل اور قوت کو بگاڑ نہیں سکتی جو الٰہی طور پر انسان کو عطا کی گئی ہے۔
Mind is the master of the corporeal senses, and can conquer sickness, sin, and death. Exercise this God-given authority. Take possession of your body, and govern its feeling and action. Rise in the strength of Spirit to resist all that is unlike good. God has made man capable of this, and nothing can vitiate the ability and power divinely bestowed on man.
روز مرہ کے فرائ
منجاب میری بیکر ایڈ
روز مرہ کی دعا
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔
مقاصد اور اعمال کا ایک اصول
نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔
فرض کے لئے چوکس
اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔
چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔