اتوار 15مارچ، 2020



مضمون۔ مواد

SubjectSubstance

سنہری متن:سنہری متن: عبرانیوں 10 باب 3413 آیت

’’تمہارے پاس ایک بہتر اور دائمی ملکیت ہے۔‘‘



Golden Text: Hebrews 10 : 34

Ye have in heaven a better and an enduring substance.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: زبور 37: 3تا6، 16، 18 ،19آیات


3۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ ملک میں آباد رہ اور اْس کی وفاداری سے پرورش پا۔

4۔ خداوند میں مسرور رہ اور وہ تیرے دل کی مرادیں پوری کرے گا۔

5۔ اپنی راہ خداوند پر چھوڑ دے اور اْس پر توکل کر۔وہی سب کچھ کرے گا۔

6۔ وہ تیری راستبازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔

16۔ صادق کا تھوڑا سا مال بہت سے شریروں کی دولت سے بہتر ہے۔

18۔ کامل لوگوں کے ایام کو خداوند جانتا ہے۔ اْن کی میراث ہمیشہ کے لئے ہوگی۔

19۔وہ آفت کے وقت شرمندہ نہ ہوں گے اور کال کے دنوں میں آسودہ رہیں گے۔

Responsive Reading: Psalm 37 : 3-6, 16, 18, 19

3.     Trust in the Lord, and do good; so shalt thou dwell in the land, and verily thou shalt be fed.

4.     Delight thyself also in the Lord; and he shall give thee the desires of thine heart.

5.     Commit thy way unto the Lord; trust also in him; and he shall bring it to pass.

6.     And he shall bring forth thy righteousness as the light, and thy judgment as the noonday.

16.     A little that a righteous man hath is better than the riches of many wicked.

18.     The Lord knoweth the days of the upright: and their inheritance shall be for ever.

19.     They shall not be ashamed in the evil time: and in the days of famine they shall be satisfied.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ زبور 36: 5تا9 آیات

5۔ اے خداوند آسمان میں تیری شفقت ہے۔ تیری وفاداری افلاک تک بلند ہے۔

6۔ تیری صداقت خدا کے پہاڑوں کی مانند ہے تیرے احکام نہایت عمیق ہیں۔ اے خداوند تْو انسان اور حیوان دونوں کو محفوظ رکھتا ہے۔

7۔ اے خداوند تیری شفقت کیا ہی بیش قیمت ہے بنی آدم تیرے بازوؤں کے سایہ میں پناہ لیتے ہیں۔

8۔ وہ تیرے گھر کی نعمتوں سے خوب آسودہ ہوں گے۔ تْو اْن کو اپنی خوشنودی کے دریا سے پلائے گا۔

9۔ کیونکہ زندگی کا چشمہ تیرے پاس ہے۔تیرے نور کی بدولت ہم روشنی دیکھیں گے۔

1. Psalm 36 : 5-9

5     Thy mercy, O Lord, is in the heavens; and thy faithfulness reacheth unto the clouds.

6     Thy righteousness is like the great mountains; thy judgments are a great deep: O Lord, thou preservest man and beast.

7     How excellent is thy lovingkindness, O God! therefore the children of men put their trust under the shadow of thy wings.

8     They shall be abundantly satisfied with the fatness of thy house; and thou shalt make them drink of the river of thy pleasures.

9     For with thee is the fountain of life: in thy light shall we see light.

2۔ یسعیاہ 58باب10، 11، 13 (تْو)، 13 (تعظیم)، 14 آیات

10۔ اگر تْو اپنے دل بھوکے کی طرف مائل کرے اور آذودہ دل کو آسودہ کرے تو تیرا نور تاریکی میں چمکے گا اور تیری روشنی دوپہر کی مانند ہو جائے گی۔

11۔ اور خداوند سدا تیری راہنمائی کرے گا اور خشک سالی میں تجھے سیر کرے گا اور تیری ہڈیوں کو قوت بخشے گا۔ پس تْو سیراب باغ کی مانند ہو گا اور اْس چشمہ کی مانند جس کا پانی کم نہ ہو۔

13۔ اگر تْو۔۔۔اْس کی تعظیم کرے، اپنا کاروبار نہ کرے اور اپنی خوشی اور بے فائدہ باتوں سے دستبردار رہے۔

14۔ تب خداوند مَیں میسر ہوں گا اور مَیں مسرور ہوں گا اور میں تجھے دنیا کی بلندیوں پر لے چلوں گا اور میں تجھے تیرے باپ یعقوب کی میراث سے کھلاؤں گا کیونکہ خداوند کے منہ سے یہ ارشاد ہوا ہے۔

2. Isaiah 58 : 10, 11, 13 (to thou), 13 (honour), 14

10     And if thou draw out thy soul to the hungry, and satisfy the afflicted soul; then shall thy light rise in obscurity, and thy darkness be as the noonday:

11     And the Lord shall guide thee continually, and satisfy thy soul in drought, and make fat thy bones: and thou shalt be like a watered garden, and like a spring of water, whose waters fail not.

13     If thou … honour him, not doing thine own ways, nor finding thine own pleasure, nor speaking thine own words:

14     Then shalt thou delight thyself in the Lord; and I will cause thee to ride upon the high places of the earth, and feed thee with the heritage of Jacob thy father: for the mouth of the Lord hath spoken it.

3۔ مرقس 11باب11 (تا:) آیت

11۔ اور یسوع یروشلیم میں داخل ہو کر ہیکل میں آیا۔

3. Mark 11 : 11 (to :)

11     And Jesus entered into Jerusalem, and into the temple:

4۔ مرقس 12باب28تا31 آیات

28۔ اور فقیہوں میں سے ایک نے اْن کو بحث کرتے سْن کر جان لیا کہ اْس نے اْن کو خوب جواب دیا۔ وہ پاس آیا اور اْس سے پوچھا کہ سب حکموں میں اول کون سا ہے؟

29۔ یسوع نے جواب دیا کہ اول یہ ہے اے اسرائیل سْن۔ خداوند ہمار اخدا ایک ہی خداوند ہے۔

30۔ اور تْو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔

31۔ دوسرا یہ کہ تْو اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔اِن سے بڑا اور کوئی حکم نہیں۔

4. Mark 12 : 28-31

28     And one of the scribes came, and having heard them reasoning together, and perceiving that he had answered them well, asked him, Which is the first commandment of all?

29     And Jesus answered him, The first of all the commandments is, Hear, O Israel; The Lord our God is one Lord:

30     And thou shalt love the Lord thy God with all thy heart, and with all thy soul, and with all thy mind, and with all thy strength: this is the first commandment.

31     And the second is like, namely this, Thou shalt love thy neighbour as thyself. There is none other commandment greater than these.

5۔ یوحنا 6باب1، 2، 5، 8تا13، 15، 25 تا27، 63 آیات

1۔ اِن باتوں کے بعد یسوع گلیل کی جھیل یعنی تِبریاس کی جھیل کے پار گیا۔

2۔ اور بڑی بھیڑ اْس کے پیچھے ہو لی کیونکہ وہ معجزے دکھاتا اور بیماروں کو ٹھیک کرتا تھا وہ اْن کو دیکھتے تھے۔

5۔پس جب یسوع نے اپنی آنکھیں اْٹھاکر دیکھا کہ میرے پاس بڑی بھیڑ آرہی ہے تو فلپس سے کہا کہ ہم اِن کے کھانے کے لئے کہاں سے روٹیاں مول لیں؟

8۔ اْس کے شاگردوں میں سے ایک نے یعنی شمعون پطرس کے بھائی اندریاس نے اْس سے کہا

9۔ یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس جَو کی پانچ روٹیا ں اور دو مچھلیاں ہیں مگر یہ اتنے لوگوں میں کیا ہے؟

10۔ یسوع نے کہا لوگوں کو بٹھاؤ اور اْس جگہ بہت گھاس تھی۔ پس وہ مرد جو تخمیناً پانچ ہزار تھے بیٹھ گئے۔

11۔ یسوع نے وہ روٹیاں لیں اور شکر کر کے اْنہیں جو بیٹھے تھے بانٹ دیں اور اِسی طرح مچھلیوں میں سے جس قدر چاہتے تھے بانٹ دیا۔

12۔ جب وہ سیر ہو چکے تو اْس نے اپنے شاگردوں سے کہا بچے ہوئے ٹکڑوں کو جمع کرو تاکہ کچھ ضائع نہ ہو۔

13۔ چنانچہ اْنہوں نے جمع کیا اور جَو کی پانچ روٹیوں کے ٹکڑے جو کھانے والوں سے بچ رہے تھے بارہ ٹوکریاں بھریں۔

15۔ پس یسوع یہ معلوم کر کے کہ وہ آکر مجھے بادشاہ بنانے کے لئے پکڑنا چاہتے ہیں پھر پہاڑ پر اکیلا چلا گیا۔

25۔ اور جھیل کے پار اْس سے مل کر کہا اے ربی! تو یہاں کب آیا؟

26۔ یسوع نے اْن کے جواب میں کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم مجھے اِس لئے ڈھونڈتے کہ معجزے دیکھے بلکہ اِس لئے کہ تم روٹیاں کھا کر سیر ہوئے۔

27۔ فانی خوراک کے لئے محنت نہ کرو بلکہ اْس خوراک کے لئے جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتی ہے جسے ابن آدم تمہیں دے گا کیونکہ باپ یعنی خدا نے اْسی پر مہر کی ہے۔

63۔ زندہ کرنے والی تو روح ہے۔ جسم سے کچھ فائدہ نہیں۔ جو باتیں میں نے تم سے کہیں ہیں وہ روح ہیں اور زندگی بھی ہیں۔

5. John 6 : 1, 2, 5, 8-13, 15, 25-27, 63

1     After these things Jesus went over the sea of Galilee, which is the sea of Tiberias.

2     And a great multitude followed him, because they saw his miracles which he did on them that were diseased.

5     When Jesus then lifted up his eyes, and saw a great company come unto him, he saith unto Philip, Whence shall we buy bread, that these may eat?

8     One of his disciples, Andrew, Simon Peter’s brother, saith unto him,

9     There is a lad here, which hath five barley loaves, and two small fishes: but what are they among so many?

10     And Jesus said, Make the men sit down. Now there was much grass in the place. So the men sat down, in number about five thousand.

11     And Jesus took the loaves; and when he had given thanks, he distributed to the disciples, and the disciples to them that were set down; and likewise of the fishes as much as they would.

12     When they were filled, he said unto his disciples, Gather up the fragments that remain, that nothing be lost.

13     Therefore they gathered them together, and filled twelve baskets with the fragments of the five barley loaves, which remained over and above unto them that had eaten.

15     When Jesus therefore perceived that they would come and take him by force, to make him a king, he departed again into a mountain himself alone.

25     And when they had found him on the other side of the sea, they said unto him, Rabbi, when camest thou hither?

26     Jesus answered them and said, Verily, verily, I say unto you, Ye seek me, not because ye saw the miracles, but because ye did eat of the loaves, and were filled.

27     Labour not for the meat which perisheth, but for that meat which endureth unto everlasting life, which the Son of man shall give unto you: for him hath God the Father sealed.

63     It is the spirit that quickeneth; the flesh profiteth nothing: the words that I speak unto you, they are spirit, and they are life.

6۔ مرقس 16باب17 (تا دوسرا؛) 18 (وہ رکھیں گے) آیات

17۔ اور ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔ وہ میرے نام سے بدروحوں کو نکالیں گے۔

18۔۔۔۔وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو وہ اچھے ہو جائیں گے۔

6. Mark 16 : 17 (to 2nd ;), 18 (they shall lay)

17     And these signs shall follow them that believe; In my name shall they cast out devils;

18     …they shall lay hands on the sick, and they shall recover.

7۔ 2 کرنتھیوں 9باب6تا11 آیات

6۔ لیکن بات یہ ہے کہ جو تھوڑا بوتا ہے وہ کاٹے گا اور جو بہت بوتا ہے وہ بہت کاٹے گا۔

7۔ جس قدر ہر ایک نے اپنے دل میں ٹھہرایا ہے اْسی قدر دے۔ نہ دریغ کرے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔

8۔ اور خدا تم پر ہر طرح کا فضل کثرت سے کر سکتا ہے تاکہ تم کو ہمیشہ ہر چیز کافی طور پر ملا کرے اور ہر نیک کام کے لئے تمہارے پاس بہت کچھ موجود رہا ہے۔

9۔ چنانچہ لکھا ہے کہ اْس نے بکھیرا ہے۔ اْس نے کنگالوں کو دیا ہے۔ اْس کی راستبازی ابد تک باقی رہے گی۔

10۔ پس جو بونے والے کے لئے بیج اور کھانے والے کے لئے روٹی بہم پہنچاتا ہے وہی تمہارے لئے بیج بہم پہنچائے گا اور اْس میں ترقی دے گا اور تمہاری راستبازی کے پھلوں کو بڑھائے گا۔

11۔ اور تم ہر چیز کو افراط سے پا کر سب طرح کی سخاوت کرو گے جو ہمارے وسیلہ سے خدا کی شکر گزاری کا باعث ہوتی ہے۔

7. II Corinthians 9 : 6-11

6     But this I say, He which soweth sparingly shall reap also sparingly; and he which soweth bountifully shall reap also bountifully.

7     Every man according as he purposeth in his heart, so let him give; not grudgingly, or of necessity: for God loveth a cheerful giver.

8     And God is able to make all grace abound toward you; that ye, always having all sufficiency in all things, may abound to every good work:

9     (As it is written, He hath dispersed abroad; he hath given to the poor: his righteousness remaineth for ever.

10     Now he that ministereth seed to the sower both minister bread for your food, and multiply your seed sown, and increase the fruits of your righteousness;)

11     Being enriched in every thing to all bountifulness, which causeth through us thanksgiving to God.



سائنس اور صح


1۔ 468 :17 (مواد)۔24

مواد وہ ہے جو ابدی ہے اور نیست ہونے اور مخالفت سے عاجز ہے۔ سچائی، زندگی اور محبت مواد ہیں، جیسے کہ کلام عبرانیوں میں یہ الفاظ استعمال کرتا ہے: ”ایمان اْمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اندیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔“روح، جو فہم،جان، یا خدا کا مترادف لفظ ہے، واحد حقیقی مواد ہے۔ روحانی کائنات، بشمول انفرادی انسان، ایک مشترک خیال ہے، جو روح کے الٰہی مواد کی عکاسی کرتا ہے۔

1. 468 : 17 (Substance)-24

Substance is that which is eternal and incapable of discord and decay. Truth, Life, and Love are substance, as the Scriptures use this word in Hebrews: "The substance of things hoped for, the evidence of things not seen." Spirit, the synonym of Mind, Soul, or God, is the only real substance. The spiritual universe, including individual man, is a compound idea, reflecting the divine substance of Spirit.

2۔ 311 :26۔7

وہ چیزیں جو جسمانی حواس کی بدولت شناخت پاتی ہیں اْن میں مواد کی حقیقت نہیں ہوتی۔یہ محض وہی ہیں جو فانی یقین انہیں کہتا ہے۔ مادہ، گناہ اور فانیت تمام فرضی شعور یا زندگی اور وجودیت کے دعوے کو جھٹلاتے ہیں، کیونکہ فانی لوگ زندگی، مواد اور عقل کے جھوٹے حواس مہیا کرتے ہیں۔ لیکن روحانی ابدی انسان کو فانیت کے ان مراحل کی بدولت چھوا بھی نہیں جاتا۔

یہ کتنی بڑی حقیقت ہے کہ مادی حس کے وسیلہ جو کچھ بھی سیکھا گیا ہوتا ہے وہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ سائنس میں ایسا نام نہاد علم زندگی کے روحانی حقائق کے ذریعے اْلٹ ہو جاتا ہے۔ مادی حس جِسے غیر مادی تصور کرتی ہے اسے مواد کہا جاتا ہے۔ جب احساسی خواب غائب ہوتا اور حقیقت سامنے آتی ہے تو مادی حس جسے مواد سمجھتی ہے وہ عدم بن جاتا ہے۔

2. 311 : 26-7

The objects cognized by the physical senses have not the reality of substance. They are only what mortal belief calls them. Matter, sin, and mortality lose all supposed consciousness or claim to life or existence, as mortals lay off a false sense of life, substance, and intelligence. But the spiritual, eternal man is not touched by these phases of mortality.

How true it is that whatever is learned through material sense must be lost because such so-called knowledge is reversed by the spiritual facts of being in Science. That which material sense calls intangible, is found to be substance. What to material sense seems substance, becomes nothingness, as the sense-dream vanishes and reality appears.

3۔ 89 :32۔15

اگر گندم اْگانے کے لئے بیج اور آٹے کی پیدوار کے لئے گندم ضروری ہے یا ایک جانور کسی دوسرے کو جنم دے سکتا ہے، تو پھر ہم اْن کی بنیادی پیدائش کا کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں؟گلیل کے ساحل پر روٹیاں اور مچھلیا کیسے بڑھ گئیں اور وہ بھی اْس کھانے یا واحدت کے بغیر جہاں سے روٹی یا مچھلی پیدا ہو سکتی تھی؟

زمین کا مدار یا وہ فرضی لکیر جسے خطِ استوا کہا جاتا ہے مواد نہیں ہیں۔زمین کی حرکت اور اِس کی پوزیشن صرف عقل کی بدولت قائم ہیں۔خود کو اِس خیال سے خالی کر لیں کہ مادے میں مواد ہو سکتا ہے، اور یہ کہ جو حرکات اور تبدیلیاں فانی عقل کے لئے اب ممکن ہیں وہ بدن کے لئے بھی مساوی طور پر ممکن ہوں گی۔ تو ہستی کی شناخت بطور روحانی ہوگی اور موت متروک ہو جائے گی، اگرچہ اب کچھ لوگ اصرا ر کرتے ہیں کہ لافانیت سے قبل موت لازمی ہے۔

3. 89 : 32-15

If seed is necessary to produce wheat, and wheat to produce flour, or if one animal can originate another, how then can we account for their primal origin? How were the loaves and fishes multiplied on the shores of Galilee, — and that, too, without meal or monad from which loaf or fish could come?

The earth's orbit and the imaginary line called the equator are not substance. The earth's motion and position are sustained by Mind alone. Divest yourself of the thought that there can be substance in matter, and the movements and transitions now possible for mortal mind will be found to be equally possible for the body. Then being will be recognized as spiritual, and death will be obsolete, though now some insist that death is the necessary prelude to immortality.

4۔ 467 :3 (دی)۔8

اس سائنس کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ”تْو میرے حضور غیر معبودوں کو نہ ماننا۔“یہ لفظ”میرے“ روح ہے۔ لہٰذہ اس حکم کا مطلب ہے یہ: تو میرے سامنے کوئی نہ کوئی ذہانت، نہ زندگی، نہ مواد، نہ سچائی، نہ محبت رکھنا ماسوائے اْس کے جو روحانی ہے۔دوسرا بھی اسی طرح ہے، ”تْو اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔“

4. 467 : 3 (The)-8

The first demand of this Science is, "Thou shalt have no other gods before me." This me is Spirit. Therefore the command means this: Thou shalt have no intelligence, no life, no substance, no truth, no love, but that which is spiritual. The second is like unto it, "Thou shalt love thy neighbor as thyself."

5۔ 454 :17۔21

شفا اور تعلیم دونوں میں خدا اور انسان سے محبت سچی ترغیب ہے۔محبت راہ کو متاثر کرتی، روشن کرتی، نامزد کرتی اور راہنمائی کرتی ہے۔ درست مقاصد خیالات کو شہ دیتے، اور کلام اور اعمال کو قوت اور آزادی دیتے ہیں۔

5. 454 : 17-21

Love for God and man is the true incentive in both healing and teaching. Love inspires, illumines, designates, and leads the way. Right motives give pinions to thought, and strength and freedom to speech and action.

6۔ 494 :10۔19

الٰہی محبت نے ہمیشہ انسانی ضرورت کو پورا کیا ہے اور ہمیشہ پورا کرے گی۔ اس بات کو تصور کرنا مناسب نہیں کہ یسوع نے محض چند مخصوص تعداد میں یا محدود عرصے تک شفا دینے کے لئے الٰہی طاقت کا مظاہرہ کیا، کیونکہ الٰہی محبت تمام انسانوں کے لئے ہر لمحہ سب کچھ مہیا کرتی ہے۔

فضل کا معجزہ محبت کے لئے کوئی معجزہ نہیں ہے۔ یسوع نے مادیت کی نااہلیت کو اس کے ساتھ ساتھ روح کی لامحدود قابلیت کو ظاہر کیا، یوں غلطی کرنے والے انسانی فہم کو خود کی سزاؤں سے بھاگنے اور الٰہی سائنس میں تحفظ تلاش کرنے میں مدد کی۔

6. 494 : 10-19

Divine Love always has met and always will meet every human need. It is not well to imagine that Jesus demonstrated the divine power to heal only for a select number or for a limited period of time, since to all mankind and in every hour, divine Love supplies all good.

The miracle of grace is no miracle to Love. Jesus demonstrated the inability of corporeality, as well as the infinite ability of Spirit, thus helping erring human sense to flee from its own convictions and seek safety in divine Science.

7۔ 25: 22۔31

اگرچہ گناہ اور بیماری پر اپنا اختیار ظاہر کرتے ہوئے، عظیم معلم نے کسی صورت دوسروں کو اْن کے تقویٰ کے مطلوبہ ثبوت دینے میں مدد نہیں کی۔ اْس نے اْن کی ہدایت کے لئے کام کیا، کہ وہ اِس طاقت کا اظہار اْسی طرح کریں جیسے اْس نے کیا اور اِس کے الٰہی اصول کو سمجھیں۔ استاد پر مکمل ایمان اور وہ سارا جذباتی پیار جو ہم اْس پر نچھاور کر سکتے ہیں، صرف یہی ہمیں اْس کی تقلید کرنے والے نہیں بنائیں گے۔ ہمیں جا کر اْسی کی مانند کام کرنا چاہئے، وگرنہ ہم اْن بڑی برکات کو فروغ نہیں دے رہے جو ہمارے مالک نے ہمیں عطا کرنے کے لئے کام کیا اور تکلیف اٹھائی۔ مسیح کی الوہیت کا اظہار یسوع کی انسانیت میں کیا گیا تھا۔

7. 25 : 22-31

Though demonstrating his control over sin and disease, the great Teacher by no means relieved others from giving the requisite proofs of their own piety. He worked for their guidance, that they might demonstrate this power as he did and understand its divine Principle. Implicit faith in the Teacher and all the emotional love we can bestow on him, will never alone make us imitators of him. We must go and do likewise, else we are not improving the great blessings which our Master worked and suffered to bestow upon us. The divinity of the Christ was made manifest in the humanity of Jesus.

8۔ 8: 22۔24

اگر ہم غریبوں سے منہ پھیر لیتے ہیں تو ہم اْس سے اپنا اجر حاصل کرنے کو تیار نہیں جو غریبوں کو برکت دیتا ہے۔

8. 8 : 22-24

If we turn away from the poor, we are not ready to receive the reward of Him who blesses the poor.

9۔ 9: 5۔13 (تا؛)،17۔24

ہر دعا کی پرکھ اِس سوالات کے جواب میں پائی جاتی ہے: کیا ہم اپنے پڑوسی سے اِس حکم کی بنا پر بہتر پیار کرتے ہیں؟ اگرچہ ہم ہمارے دعا کے ساتھ مسلسل زندگی گزارتے ہوئے ہماری التجاؤں کی تابعداری کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرتے، تو کیا کسی بہتر چیز کے لئے دعا کرنے پر مطمئن ہو کر ہم ہماری پرانی خودغرضی کا تعاقب کرتے ہیں؟ اگر خود غرضی نے ہمدردی کو جگہ دے دی ہے، تو ہم ہمارے پڑوسی کے ساتھ بے غرضی کا سلوک رکھیں گے، اور اپنے لعنت بھیجنے والوں کے لئے برکت چاہیں گے؛

”تو اپنے سارے دل، اپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ۔“ اس حکم میں بہت کچھ شامل ہے، حتیٰ کہ محض مادی احساس، افسوس اور عبادت بھی۔ یہ مسیحت کا ایلڈوراڈو ہے۔ اس میں زندگی کی سائنس شامل ہے اور یہ روح پرصرف الٰہی قابو کی ہی شناخت کرتی ہے، جس میں روح ہماری مالک بن جاتی ہے اور مادی حس اور انسانی رضا کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔

9. 9 : 5-13 (to ;), 17-24

The test of all prayer lies in the answer to these questions: Do we love our neighbor better because of this asking? Do we pursue the old selfishness, satisfied with having prayed for something better, though we give no evidence of the sincerity of our requests by living consistently with our prayer? If selfishness has given place to kindness, we shall regard our neighbor unselfishly, and bless them that curse us;

Dost thou "love the Lord thy God with all thy heart, and with all thy soul, and with all thy mind"? This command includes much, even the surrender of all merely material sensation, affection, and worship. This is the El Dorado of Christianity. It involves the Science of Life, and recognizes only the divine control of Spirit, in which Soul is our master, and material sense and human will have no place.

10۔ 79 :29۔3

عقل کی سائنس تعلیم دیتی ہے کہ بشر کو ”بہتر کام کرنے کے لئے فکرمند ہونے“ کی ضرورت نہیں۔ یہ نیک کام کرنے کی تھکاوٹ کو ختم کر دیتا ہے۔ خیرات دینا ہمیں ہمارے خالق کی خدمت میں مفلس نہیں بناتا، نہ ہی اِسے روکنا ہمیں دولتمند بناتا ہے۔سچائی سے متعلق ہماری سمجھ کے تناسب میں ہمارے اندر قوت ہے اور ہماری طاقت سچائی کو اظہار دینے سے کم نہیں ہوتی۔

10. 79 : 29-3

Mind-science teaches that mortals need "not be weary in well doing." It dissipates fatigue in doing good. Giving does not impoverish us in the service of our Maker, neither does withholding enrich us. We have strength in proportion to our apprehension of the truth, and our strength is not lessened by giving utterance to truth.

11۔ 518 :13۔19

خدا خود کا تصور بڑے کے ساتھ ایک رابطے کے لئے چھوٹے کو دیتا ہے، اور بدلے میں، بڑا ہمیشہ چھوٹے کو تحفظ دیتا ہے۔ روح کے امیراعلیٰ بھائی چارے میں،ایک ہی اصول یا باپ رکھتے ہوئے، غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور مبارک ہے وہ شخص جودوسرے کی بھلائی میں اپنی بھلائی دیکھتے ہوئے، اپنے بھائی کی ضرورت دیکھتا اور پوری کرتا ہے۔

11. 518 : 13-19

God gives the lesser idea of Himself for a link to the greater, and in return, the higher always protects the lower. The rich in spirit help the poor in one grand brotherhood, all having the same Principle, or Father; and blessed is that man who seeth his brother's need and supplieth it, seeking his own in another's good.

12۔ 570 :14۔21، 23۔25

لاکھوں غیر جانبدار عقلیں، سچائی کے سادہ لوح متلاشی، فکر مند خانہ بدوش، صحر ا کے پیاسے، آرام اور پینے کے متلاشی اورمنتظر ہیں۔ مسیح کے نام پر انہیں ٹھنڈے پانی کا ایک پیالہ دیں، اور نتائج سے کبھی نہ ڈریں۔ کیا ہوتا اگر پرانا اژدھا مسیح کے تصور کو ڈبونے کے لئے نیا طوفان بھیج دیتا؟وہ نہ تو آپ کی آواز کو اِس کی دھاڑ کے ساتھ دبا سکتا ہے اور نہ دنیا کو دوبارہ افراتفری کے پانیوں ور قدیم رات کے اندھیروں میں جھونک سکتا ہے۔۔۔۔وہ لوگ جو اْس کے لئے تیار ہیں جس برکت میں آپ کا حصہ ہے وہ شکر گزاری کریں گے۔پانیوں کو تھاما جائے گا، اور مسیح لہروں کو حکم دے گا۔

12. 570 : 14-21, 23-25

Millions of unprejudiced minds — simple seekers for Truth, weary wanderers, athirst in the desert — are waiting and watching for rest and drink. Give them a cup of cold water in Christ's name, and never fear the consequences. What if the old dragon should send forth a new flood to drown the Christ-idea? He can neither drown your voice with its roar, nor again sink the world into the deep waters of chaos and old night. … Those ready for the blessing you impart will give thanks. The waters will be pacified, and Christ will command the wave.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████