اتوار 17مئی، 2020 



مضمون۔ فانی اور لافانی

SubjectMortals and Immortals

سنہری متن:سنہری متن: 1کرنتھیوں 15 باب 10آیت

’’لیکن جو کچھ ہوں خدا کے فضل سے ہوں اور اْس کا فضل جو مجھ پر ہوا ہے وہ بے فائدہ نہیں ہوا۔‘‘



Golden Text: I Corinthians 15 : 10

But by the grace of God I am what I am: and his grace which was bestowed upon me was not in vain.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: رومیوں 6باب1، 2، 11، 13، 14، 22آیات


1۔ پس ہم کیا کہیں؟ کیا گناہ کرتے رہیں تاکہ فضل زیادہ ہو؟

2۔ ہر گز نہیں۔ ہم جو گناہ کے اعتبار سے مر گئے کیونکر اْس میں آئندہ کو زندگی گزاریں؟

11۔ اسی طرح تم بھی اپنے آپ کو گناہ کے اعتبار سے مردہ مگر خدا کے اعتبار سے مسیح یسوع میں زندہ سمجھو۔

13۔ اور اپنے اعضاء ناراستی کے اعضاء ہونے کے لئے گناہ کے حوالہ نہ کیا کرو بلکہ اپنے آپ کو مردوں میں سے زندہ جان کر خدا کے حوالہ کرو اور اپنے اعضاء راستبازی کے ہتھیار ہونے کے لئے خدا کے حوالہ کرو۔

14۔ اس لئے کہ گناہ کا تم پر اختیار ہوگا کیونکہ تم شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہو۔

22۔ مگر اب گناہ سے آزاد اور خدا کے غلام ہوکر تم کو اپنا پھل ملا جس سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور اِس کا انجام ہمیشہ کی زندگی ہے۔

Responsive Reading: Romans 6 : 1, 2, 11, 13, 14, 22

1.     What shall we say then? Shall we continue in sin, that grace may abound?

2.     God forbid. How shall we, that are dead to sin, live any longer therein?

11.     Likewise reckon ye also yourselves to be dead indeed unto sin, but alive unto God through Jesus Christ our Lord.

13.     Neither yield ye your members as instruments of unrighteousness unto sin: but yield yourselves unto God, as those that are alive from the dead, and your members as instruments of righteousness unto God.

14.     For sin shall not have dominion over you: for ye are not under the law, but under grace.

22.     But now being made free from sin, and become servants to God, ye have your fruit unto holiness, and the end everlasting life.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ استثنا 30 باب6آیت

6۔ اور خداوندتیرا خدا تیرے اور تیری اولاد کے دل کا ختنہ کرے گا تاکہ تْو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل سے اور اپنی ساری جان سے محبت رکھے اور جیتا رہے۔

1. Deuteronomy 30 : 6

6     And the Lord thy God will circumcise thine heart, and the heart of thy seed, to love the Lord thy God with all thine heart, and with all thy soul, that thou mayest live.

2۔ زبور 49: 1تا3، 6، 7، 9 آیات

1۔ اے سب امتو! یہ سنو۔ اے جہان کے سب باشندوں کان لگاؤ۔

2۔ کیا ادنیٰ کیا اعلیٰ۔ کیا امیر کیا فقیر۔

3۔ میرے منہ سے حکمت کی باتیں نکلیں گی اور میرے دل کا خیال پْر خرد ہوگا۔

6۔ جو اپنی دولت پر بھروسہ رکھتے اور اپنے مال کی کثرت پر فخر کرتے ہیں۔

7۔ اْن میں سے کوئی کسی طرح اپنے بھائی کا فدیہ نہیں سے سکتا نہ خدا کو اْس کا معاوضہ دے سکتا اے۔

9۔تاکہ وہ ابد تک جیتا رہے اور قبر کو نہ دیکھے۔

2. Psalm 49 : 1-3, 6, 7, 9

1     Hear this, all ye people; give ear, all ye inhabitants of the world:

2     Both low and high, rich and poor, together.

3     My mouth shall speak of wisdom; and the meditation of my heart shall be of understanding.

6     They that trust in their wealth, and boast themselves in the multitude of their riches;

7     None of them can by any means redeem his brother, nor give to God a ransom for him:

9     That he should still live for ever, and not see corruption.

3۔ حزقی ایل 3 باب 12 ،14، 16، 17، 19، 21 آیات

12۔ اور روح نے مجھے اْٹھا لیا اور میں نے اپنے پیچھے ایک بڑی کڑک آواز سنی جو کہتی تھی کہ خداوند کا جلال اس کے مسکن سے مبارک ہو۔

14۔ اور روح مجھے اٹھا کر لے گئی۔ سو میں تلخ دل اور غضبناک ہو کر روزنہ ہوا اور خداوند کا ہاتھ مجھ پر غالب تھا۔

16۔اور سات دن کے بعد خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا۔

17۔ کہ اے آدم زاد میں تجھے بنی اسرائیل کا نگہبان مقرر کیا۔ پس تْو میرے منہ کا کلام سن اور میری طرف سے ان کو آگاہ کر دے۔

19۔ لیکن اگر تْو نے شریر کو آگاہ کر دیا اور وہ اپنی روش سے باز نہ آیا تو وہ اپنی بدکاری میں مرے گا اور تْو نے اپنی جان کو بچا لیا۔

21۔ لیکن اگر تْو اِس راستباز کو آگاہ کر دے تاکہ وہ گناہ نہ کرے اور وہ گناہ سے باز رہے تو وہ یقیناً جئے گا اس لئے کہ نصیحت پذیر ہوا اور تْو نے اپنی جان بچا لی۔

3. Ezekiel 3 : 12, 14, 16, 17, 19, 21

12     Then the spirit took me up, and I heard behind me a voice of a great rushing, saying, Blessed be the glory of the Lord from his place.

14     So the spirit lifted me up, and took me away, and I went in bitterness, in the heat of my spirit; but the hand of the Lord was strong upon me.

16     And it came to pass at the end of seven days, that the word of the Lord came unto me, saying,

17     Son of man, I have made thee a watchman unto the house of Israel: therefore hear the word at my mouth, and give them warning from me.

19     Yet if thou warn the wicked, and he turn not from his wickedness, nor from his wicked way, he shall die in his iniquity; but thou hast delivered thy soul.

21     Nevertheless if thou warn the righteous man, that the righteous sin not, and he doth not sin, he shall surely live, because he is warned; also thou hast delivered thy soul.

4۔ متی 23 باب1تا14 آیات

1۔ اس وقت یسوع نے بھیڑ سے اور اپنے شاگردوں سے یہ باتیں کہیں۔

2۔ فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں۔

3۔ پس جو کچھ وہ تمہیں بتائیں سب کرو اور مانو لیکن اْن کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔

4۔ وہ ایسے بھاری بوجھ جن کو اٹھانا مشکل ہے باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں مگر آپ اْن کو انگلی سے ہلانا بھی نہیں چاہتے۔

5۔ وہ اپنے سب کام لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے تعویز بڑے بناتے اور اپنے کپڑوں کے کنارے چوڑے رکھتے ہیں۔

6۔اور ضیافتوں اور صدر نشینی اور عبادتخانوں میں اعلیٰ درجہ کی کرسیاں

7۔ اور بازاروں میں سلام اور آدمیوں سے ربی کہلانا پسند کرتے ہیں۔

8۔ مگر تم ربی نہ کہلاؤ کیونکہ تمہارا استاد ایک ہی ہے اور تم سب بھائی ہو۔

9۔ اور زمین پر کسی کو اپنا باپ نہ کہو کیونکہ تمہارا باپ ایک ہی ہے جو آسمانی ہے۔

10۔ اور نہ تم ہادی کہلاؤ کیونکہ تمہارا ہادی ایک ہی ہے یعنی مسیح۔

11۔ لیکن جو تم میں بڑا ہے وہ تمہارا خادم بنے۔

12۔ اور جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا۔

13۔ اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کیونکہ نہ تو آپ داخل ہوتے ہو نہ داخل ہونے دیتے ہو۔

14۔ اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دکھاوے کے لئے نماز کو طول دیتے ہیں۔ تمہیں زیادہ سزاء ہوگی۔

4. Matthew 23 : 1-14

1     Then spake Jesus to the multitude, and to his disciples,

2     Saying, The scribes and the Pharisees sit in Moses’ seat:

3     All therefore whatsoever they bid you observe, that observe and do; but do not ye after their works: for they say, and do not.

4     For they bind heavy burdens and grievous to be borne, and lay them on men’s shoulders; but they themselves will not move them with one of their fingers.

5     But all their works they do for to be seen of men: they make broad their phylacteries, and enlarge the borders of their garments,

6     And love the uppermost rooms at feasts, and the chief seats in the synagogues,

7     And greetings in the markets, and to be called of men, Rabbi, Rabbi.

8     But be not ye called Rabbi: for one is your Master, even Christ; and all ye are brethren.

9     And call no man your father upon the earth: for one is your Father, which is in heaven.

10     Neither be ye called masters: for one is your Master, even Christ.

11     But he that is greatest among you shall be your servant.

12     And whosoever shall exalt himself shall be abased; and he that shall humble himself shall be exalted.

13     But woe unto you, scribes and Pharisees, hypocrites! for ye shut up the kingdom of heaven against men: for ye neither go in yourselves, neither suffer ye them that are entering to go in.

14     Woe unto you, scribes and Pharisees, hypocrites! for ye devour widows’ houses, and for a pretence make long prayer: therefore ye shall receive the greater damnation.

5۔ متی 21باب31 آیت (سچ)

31۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ محصول لینے والے اور کسبیاں تم سے پہلے خدا کی بادشاہی میں داخل ہوتی ہیں۔

5. Matthew 21 : 31 (Verily)

31     Verily I say unto you, That the publicans and the harlots go into the kingdom of God before you.

6۔ متی 5 باب1 ،2، 8، 17تا20 آیات

1۔ وہ اِس بھیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب بیٹھ یا تو اْس کے شاگرد اْس کے پاس آئے۔

2۔ اور وہ اپنی زبان کھول کر اْن کو یوں تعلیم دینے لگا۔

8۔ مبارک ہیں وہ جو پاکدل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔

17۔ یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔

18۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ٹلے گا جب تک کہ سب کچھ پورا نہ ہوا جائے۔

19۔ پس جو کوئی اِن چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا تو وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو اْن پر عمل کرے گا اور اْن کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا۔

20۔ کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں کی راستبازی سے زیادہ نہ ہوگی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہر گز داخل نہ ہوگے۔

6. Matthew 5 : 1, 2, 8, 17-20

1     And seeing the multitudes, he went up into a mountain: and when he was set, his disciples came unto him:

2     And he opened his mouth, and taught them, saying,

8     Blessed are the pure in heart: for they shall see God.

17     Think not that I am come to destroy the law, or the prophets: I am not come to destroy, but to fulfil.

18     For verily I say unto you, Till heaven and earth pass, one jot or one tittle shall in no wise pass from the law, till all be fulfilled.

19     Whosoever therefore shall break one of these least commandments, and shall teach men so, he shall be called the least in the kingdom of heaven: but whosoever shall do and teach them, the same shall be called great in the kingdom of heaven.

20     For I say unto you, That except your righteousness shall exceed the righteousness of the scribes and Pharisees, ye shall in no case enter into the kingdom of heaven.

7۔ افسیوں 2 باب4تا10 آیات

4۔ مگر خدا نے اپنے رحم کی دولت سے اْس بڑی محبت کے سبب سے جو اْس نے ہم سے کی۔

5۔ جب قصوروں کے سبب سے مردہ ہی تھے تو ہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کیا۔(تم کو فضل ہی سے نجات ملی ہے)۔

6۔ اور مسیح یسوع میں شامل کر کے اْس کے ساتھ جلایا اور آسمانی مقاموں میں اْس کے ساتھ بٹھایا۔

7۔ تاکہ وہ اپنی اْس مہربانی سے جو مسیح یسوع میں ہم پر ہے آنے والے زمانوں میں اپنے فضل کی بے نہایت دولت دکھائے۔

8۔ کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں۔ خدا کی بخشش ہے۔

9۔ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔

10۔ کیونکہ ہم اْسی کی کاریگری ہیں اور مسیح یسوع میں اْن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوئے جن کو خدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کے لئے تیار کیا تھا۔

7. Ephesians 2 : 4-10

4     But God, who is rich in mercy, for his great love wherewith he loved us,

5     Even when we were dead in sins, hath quickened us together with Christ, (by grace ye are saved;)

6     And hath raised us up together, and made us sit together in heavenly places in Christ Jesus:

7     That in the ages to come he might shew the exceeding riches of his grace in his kindness toward us through Christ Jesus.

8     For by grace are ye saved through faith; and that not of yourselves: it is the gift of God:

9     Not of works, lest any man should boast.

10     For we are his workmanship, created in Christ Jesus unto good works, which God hath before ordained that we should walk in them.

8۔ مکاشفہ 2 باب1(یہ) (تا،)، 2، 3، 7 آیات

1۔ جو اپنے ہاتھوں میں ساتوں ستارے لئے ہوئے ہے وہ یہ فرماتا ہے کہ

2۔ میں تیرے کام اور تیری مشقت اور تیرا صبر تو جانتا ہوں اور یہ بھی کہ تْو بدوں کو دیکھ نہیں سکتا اور جو اپنے آپ کو رسول کہتے ہیں اور ہیں نہیں تْو نے اْن کو آزما کر جھوٹا پایا۔

3۔ اور تْو صبر کرتا اور میرے نام کی خاطر مصیبت اٹھاتے اٹھاتے تھکا نہیں۔

7۔ جس کے کان ہوں وہ سنے کہ روح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے۔ جو غالب آئے میں اْسے زندگی کے درخت میں سے جو خدا کے فردوس میں ہے پھل کھانے کو دوں گا۔

8. Revelation 2 : 1 (These) (to ,), 2, 3, 7

1     These things saith he that holdeth the seven stars in his right hand,

2     I know thy works, and thy labour, and thy patience, and how thou canst not bear them which are evil: and thou hast tried them which say they are apostles, and are not, and hast found them liars:

3     And hast borne, and hast patience, and for my name’s sake hast laboured, and hast not fainted.

7     He that hath an ear, let him hear what the Spirit saith unto the churches; To him that overcometh will I give to eat of the tree of life, which is in the midst of the paradise of God.

9۔ مکاشفہ 22 باب14 آیت

14۔ مبارک ہیں وہ جو اپنے جامے دھوتے ہیں کیونکہ زندگی کے درخت کے پاس آنے کا اختیار پائیں گے اور اْن دروازوں سے شہر میں داخل ہوں گے۔

9. Revelation 22 : 14

14     Blessed are they that do his commandments, that they may have right to the tree of life, and may enter in through the gates into the city.



سائنس اور صح


1۔ 76 :20 (انسان ہے)۔21

انسان۔۔۔لافانی ہے اور الٰہی اختیار کے وسیلہ جیتا ہے۔

1. 76 : 20 (man is)-21

…man is immortal and lives by divine authority.

2۔ 492 :7۔12

ہستی، پاکیزگی، ہم آہنگی، لافانیت ہے۔یہ پہلے سے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ اس کا علم، حتیٰ کہ معمولی درجے میں بھی، انسانوں کے جسمانی اور اخلاقی معیار کو اونچا کرے گا، عمر کی درازی کو بڑھائے گا، کردار کو پاک اور بلند کرے گا۔ پس ترقی ساری غلطی کو تباہ کرے گی اور لافانیت کو روشنی میں لائے گی۔

2. 492 : 7-12

Being is holiness, harmony, immortality. It is already proved that a knowledge of this, even in small degree, will uplift the physical and moral standard of mortals, will increase longevity, will purify and elevate character. Thus progress will finally destroy all error, and bring immortality to light.

3۔ 539 :3۔7، 10۔13

زندگی کو روح سے الگ شمار کرنے سے غلطی کا آغاز ہوتا ہے، یعنی لافانیت کی بنیاد کو کھودنے سے، جیسے زندگی اور لافانیت ایسی چیزیں ہوں جنہیں مادا دونوں فراہم بھی کر سکتا ہو اور واپس بھی لے سکتا ہو۔

خدا بدی کا کوئی عنصر فراہم نہیں کر سکتا، اور انسان ایسی کچھ بھی ملکیت نہیں رکھ سکتا جو اْس نے خدا سے حاصل نہ کی ہو۔ تو پھر انسان میں غلط کام کی بنیاد کیسے آئی؟

3. 539 : 3-7, 10-13

Error begins by reckoning life as separate from Spirit, thus sapping the foundations of immortality, as if life and immortality were something which matter can both give and take away.

God could never impart an element of evil, and man possesses nothing which he has not derived from God. How then has man a basis for wrong-doing?

4۔ 327 :9۔21

بعض اوقات بدی انسان کا سب سے زیادہ درست تصور ہوتا ہے، جب تک کہ اچھائی پر اْس کی گرفت مضبوط نہیں ہوجاتی۔ پھر وہ بدی پر اپنا دباؤ کھو دیتا ہے، اور یہ اْس کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔ گناہ کی تکلیف سے بچنے کا طریقہ گناہ کو ترک کرنا ہے۔ اور کوئی راہ نہیں ہے۔ گناہ اْس حیوان کی تصویر ہے جسے جانکنی کے پیسنے کی بدولت فنا کیا جاتا ہے۔یہ اخلاقی پاگل پن ہے جو آدھی رات اور طوفان کے ساتھ ہنگامہ آرائی کے لئے آگے بڑھتا ہے۔

جسمانی حواس کے لئے کرسچن سائنس کی شرائط اٹل لگتی ہیں؛ مگر بشر یہ سیکھنے کے لئے جلد بازی میں ہیں کہ زندگی خدا، اچھائی ہے اور کہ بدی حقیقت میں انسان کے لئے کوئی مقام ہے نہ طاقت یا الٰہی معیشت ہے۔

4. 327 : 9-21

Evil is sometimes a man's highest conception of right, until his grasp on good grows stronger. Then he loses pleasure in wickedness, and it becomes his torment. The way to escape the misery of sin is to cease sinning. There is no other way. Sin is the image of the beast to be effaced by the sweat of agony. It is a moral madness which rushes forth to clamor with midnight and tempest.

To the physical senses, the strict demands of Christian Science seem peremptory; but mortals are hastening to learn that Life is God, good, and that evil has in reality neither place nor power in the human or the divine economy.

5۔ 67 :18۔24

جب ہم یہ یاد کرتے ہیں کہ روحانی عروج کے وسیلہ ہمارے خداوند یا مالک نے بیمار کو شفا دی، مردے کو زندہ کیا اور حتیٰ کہ ہواؤں اور لہروں کو اْس کی تابعداری کرنے کا حکم دیا تویہ عام تصور کہ حیوانی فطرت کسی کردار کو قوت فراہم کر سکتی ہے نہایت مضحکہ خیز ہے۔ فضل اور سچائی دیگر سبھی ذرائع اور طریقہ کاروں سے زیادہ قوی ہیں۔

5. 67 : 18-24

The notion that animal natures can possibly give force to character is too absurd for consideration, when we remember that through spiritual ascendency our Lord and Master healed the sick, raised the dead, and commanded even the winds and waves to obey him. Grace and Truth are potent beyond all other means and methods.

6۔ 328 :4۔13

بشر سمجھتے ہیں کہ وہ اچھائی کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں، جبکہ خدا اچھائی اورواحد حقیقی زندگی ہے۔ تو اِس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اْس الٰہی اصول سے متعلق کم فہم رکھتے ہوئے جو نجات اور شفا دیتا ہے، بشر صرف ایمان کے ساتھ گناہ، بیماری اور موت سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں۔ یہ غلطیاں حقیقت میں یوں تباہ نہیں ہوتیں، اور انہیں تب تک،یہاں یا اس کے بعد، انسانوں کے ساتھ جْڑے رہنا چاہئے جب تک وہ سائنس میں خدا کے حقیقی ادراک کو نہیں پا لیتے جس سے خدا کے متعلق انسان کی غلط فہمیاں ہوتی ہیں اور یہ اْس کی کاملیت سے متعلق بڑے حقائق کو ظاہر کرتا ہے۔

6. 328 : 4-13

Mortals suppose that they can live without goodness, when God is good and the only real Life. What is the result? Understanding little about the divine Principle which saves and heals, mortals get rid of sin, sickness, and death only in belief. These errors are not thus really destroyed, and must therefore cling to mortals until, here or hereafter, they gain the true understanding of God in the Science which destroys human delusions about Him and reveals the grand realities of His allness.

7۔ 476 :9۔20

خدا انسان کا اصول ہے، اور انسان خدا کا خیال ہے۔ لہٰذہ انسان نہ فانی ہے نہ مادی ہے۔فانی غائب ہو جائیں گے اور لافانی یا خدا کے فرزند انسان کی واحد اور ابدی سچائیوں کے طور پر سامنے آئیں گے۔ فانی بشر خدا کے گرائے گئے فرزند نہیں ہیں۔ وہ کبھی بھی ہستی کی کامل حالت میں نہیں تھے، جسے بعد ازیں دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔فانی تاریخ کے آغاز سے انہوں نے ”بدی میں حالت پکڑی اور گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑے۔“آخر کار فانیت غیر فانیت کے باعث ہڑپ کر لی جاتی ہے۔ جو حقائق غیر فانی انسان سے تعلق رکھتے ہیں انہیں جگہ فراہم کرنے کے لئے گناہ، بیماری اور موت کوغائب ہونا چاہئے۔

7. 476 : 9-20

God is the Principle of man, and man is the idea of God. Hence man is not mortal nor material. Mortals will disappear, and immortals, or the children of God, will appear as the only and eternal verities of man. Mortals are not fallen children of God. They never had a perfect state of being, which may subsequently be regained. They were, from the beginning of mortal history, "conceived in sin and brought forth in iniquity." Mortality is finally swallowed up in immortality. Sin, sickness, and death must disappear to give place to the facts which belong to immortal man.

8۔ 339 :20 (جیسا کہ)۔32

جیسے رومن غیر اقوام نے دیوتا سے متعلق روحانی تصور کو زیادہ تسلیم کیا ویسے ہی ہمارے مادی نظریات روحانی خیالات کو قبول کریں گے، جب تک کہ متناہی لا متناہی کو، بیماری صحت کو، گناہ پاکیزگی کو جگہ فراہم نہیں کرتا اور خدا کی بادشاہی ”جیسی آسمان پر ہے،ویسی ہی زمین پر بھی“ نہیں آجاتی۔تمام تندرستی، پاکیزگی اور لافانیت کی بنیاد اسی بڑی حقیقت میں ہے کہ خدا ہی واحد عقل ہے او ر اِس عقل پر محض ایمان نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اِسے سمجھا جانا چاہئے۔سائنس کے وسیلہ گناہ سے چھٹکارہ پانا گناہ کو کسی فرضی سوچ یا حقیقت سے برہنہ کرنا، اور یہ کبھی تسلیم نہ کرنا ہے کہ گناہ میں کوئی ذہانت یا طاقت، درد یا خوشی پائی ہے۔آپ غلطی کی حقیقت سے انکار کرتے ہوئے اِس پر فتح پاتے ہیں۔

8. 339 : 20 (As)-32

As the mythology of pagan Rome has yielded to a more spiritual idea of Deity, so will our material theories yield to spiritual ideas, until the finite gives place to the infinite, sickness to health, sin to holiness, and God's kingdom comes "in earth, as it is in heaven." The basis of all health, sinlessness, and immortality is the great fact that God is the only Mind; and this Mind must be not merely believed, but it must be understood. To get rid of sin through Science, is to divest sin of any supposed mind or reality, and never to admit that sin can have intelligence or power, pain or pleasure. You conquer error by denying its verity.

9۔ 103 :6۔17، 25۔32

سائنس کی بدولت فانی عقل کے دعوں کی تباہی پورے انسانی خاندان کو برکت دیتی ہے، جس کے وسیلہ انسان گناہ اور فانیت سے فرار ہوسکتا ہے۔تاہم ابتدا کی مانند، یہ آزادی سائنسی طور پر نیکی اور بدی دونوں کی پہچان میں خود کو ظاہر نہیں کرتی، کیونکہ بدی غیر حقیقی ہے۔

دوسری جانب، عقل کی سائنس مکمل طور پر کسی ادھورے بے محل علم سے مختلف ہے، کیونکہ، صرف اچھائی کے مقصد کے لئے کام کرتے ہوئے، عقل کی سائنس خدا ہے اور الٰہی اصول کو ظاہر کرتی ہے۔اچھائی کی حدلامتناہی خدا اور اْس کا خیال ہے، جو حاکم کل ہے۔ بدی فرضی جھوٹ ہے۔

لافانی عقل کی سچائیاں انسان کو قائم رکھتی ہیں، اور یہ فانی عقل کی داستانیں تباہ کرتی ہیں، جس کے چمکیلے بھڑکیلے دعوے، ایک نادان پروانے کی مانند، اپنے ہی پر جلا کر راکھ ہو جاتے ہیں۔

حقیقت میں کوئی فانی عقل نہیں ہے اور نتیجتاً فانی خیال اور قوت ارادی کی کوئی منتقلی نہیں ہے۔زندگی اور ہستی خدا کی ہیں۔

9. 103 : 6-17, 25-32

The destruction of the claims of mortal mind through Science, by which man can escape from sin and mortality, blesses the whole human family. As in the beginning, however, this liberation does not scientifically show itself in a knowledge of both good and evil, for the latter is unreal.

On the other hand, Mind-science is wholly separate from any half-way impertinent knowledge, because Mind-science is of God and demonstrates the divine Principle, working out the purposes of good only. The maximum of good is the infinite God and His idea, the All-in-all. Evil is a suppositional lie.

The truths of immortal Mind sustain man, and they annihilate the fables of mortal mind, whose flimsy and gaudy pretensions, like silly moths, singe their own wings and fall into dust.

In reality there is no mortal mind, and consequently no transference of mortal thought and will-power. Life and being are of God.

10۔ 276 :12۔24

اس بات کا احساس کہ تمام خارج از آہنگی غیر واقعی ہے انسانی تصور میں خیالات اور چیزوں کو اْن کی اصلی روشنی کے ساتھ لاتا ہے، اور انہیں بہت خوبصورت اور لافانی طور پر پیش کرتا ہے۔ انسان میں ہم آہنگی اْتنی ہی حقیقی اور لافانی ہوتی ہے جتنی موسیقی میں ہوتی ہے۔ مخالفت غیر واقعی اور فانی ہے۔

اگر خدا کو واحد عقل اور زندگی تسلیم کیا جاتا ہے تو اِس سے گناہ اور موت کے لئے کوئی بھی موقع میسر نہیں رہتا۔ جب ہم سائنس میں یہ سیکھ لیتے ہیں کہ ہم کامل کیسے بنیں جیسے ہمار ا آسمانی باپ کامل ہے، تو سوچ جدید اور صحتمند راستوں کی جانب، لافانی چیزوں کی فکرمندی کی طرف مڑ جاتی ہے اور بشمول ہم آہنگ انسان کائنات کے اصول کی مادیت سے دورہو جاتی ہے۔

10. 276 : 12-24

The realization that all inharmony is unreal brings objects and thoughts into human view in their true light, and presents them as beautiful and immortal. Harmony in man is as real and immortal as in music. Discord is unreal and mortal.

If God is admitted to be the only Mind and Life, there ceases to be any opportunity for sin and death. When we learn in Science how to be perfect even as our Father in heaven is perfect, thought is turned into new and healthy channels, — towards the contemplation of things immortal and away from materiality to the Principle of the universe, including harmonious man.

11۔ 324 :4۔18

سمجھ اور خودکی پاکیزگی ترقی کا ثبوت ہے۔ ”مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں؛ کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔“

جب تک ہم آہنگی اور انسان کی لافانیت زیادہ واضح نہیں ہوجاتے، تب تک ہم خدا کا حقیقی تصور نہیں پا سکتے، اور بدن اس کی عکاسی کرے گا جو اْس پر حکمرانی کرتا ہے خواہ یہ سچائی ہو یا غلطی، سمجھ ہو یا عقیدہ، روح ہو یا مادہ۔ لہٰذہ، ”اْس سے ملا رہ تو سلامت رہے گا۔“ ہوشیار، سادہ اور چوکس رہیں۔ جو رستہ اس فہم کی جانب لے جاتا ہے کہ واحد خدا ہی زندگی ہے وہ رستہ سیدھا اور تنگ ہے۔یہ بدن کے ساتھ ایک جنگ ہے، جس میں گناہ، بیماری اور موت پر ہمیں فتح پانی چاہئے خواہ یہاں یا اس کے بعد، یقیناً اس سے قبل کہ ہم روح کے مقصد، یا خدا میں زندگی حاصل کرنے تک پہنچیں پائیں۔

11. 324 : 4-18

The purification of sense and self is a proof of progress. "Blessed are the pure in heart: for they shall see God."

Unless the harmony and immortality of man are becoming more apparent, we are not gaining the true idea of God; and the body will reflect what governs it, whether it be Truth or error, understanding or belief, Spirit or matter. Therefore "acquaint now thyself with Him, and be at peace." Be watchful, sober, and vigilant. The way is straight and narrow, which leads to the understanding that God is the only Life. It is a warfare with the flesh, in which we must conquer sin, sickness, and death, either here or hereafter, — certainly before we can reach the goal of Spirit, or life in God.

12۔ 311 :22۔25

جب انسان اِس سائنس کو سمجھتی ہے، تو یہ انسان کے لئے زندگی کا قانون بلکہ روح کا بلند قانون بن جائے گی، جو ہم آہنگی اور لافانیت کے وسیلہ مادی فہم پر غالب آتی ہے۔

12. 311 : 22-25

When humanity does understand this Science, it will become the law of Life to man, — even the higher law of Soul, which prevails over material sense through harmony and immortality.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████