اتوار 22 نومبر، 2020 



مضمون۔ جان اور جسم

SubjectSoul and Body

سنہری متن: رومیوں 13 باب1 آیت

”ہر شخص اعلیٰ حکومتوں کا تابعدار رہے۔“



Golden Text: Romans 13 : 1

Let every soul be subject unto the higher powers.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: افسیوں 4 باب1تا7 آیات


1۔پس مَیں جو خداوند میں قیدی ہوں تم سے التماس کرتا ہوں کہ جس بلاوے سے تم بلائے گئے تھے اْس کے لائق چال چلو۔

2۔ یعنی کمال فروتنی اور حِلم کے ساتھ تحمل کر کے محبت سے ایک دوسرے کی برداشت کرو۔

3۔ اور اِسی کوشش میں رہو کہ روح کی یگانگت صلح کے بند سے بندھی رہے۔

4۔ ایک ہی بدن ہے اور ایک ہی روح۔ چنانچہ تمہیں جو بلائے گئے تھے اپنے بلائے جانے سے امید بھی ایک ہی ہے۔

5۔ ایک ہی خداوند ہے۔ ایک ہی ایمان۔ ایک ہی بپتسمہ۔

6۔ اور سب کا خدااور باپ ایک ہی ہے جو سب کے اوپر اور سب کے درمیان اور سب کے اندر ہے۔

7۔ اور ہم میں سے ہر ایک پر مسیح کی بخشش کے اندازہ کے موافق فضل ہوا ہے۔

Responsive Reading: Ephesians 4 : 1-7

1.     I therefore, the prisoner of the Lord, beseech you that ye walk worthy of the vocation wherewith ye are called,

2.     With all lowliness and meekness, with longsuffering, forbearing one another in love;

3.     Endeavouring to keep the unity of the Spirit in the bond of peace.

4.     There is one body, and one Spirit, even as ye are called in one hope of your calling;

5.     One Lord, one faith, one baptism,

6.     One God and Father of all, who is above all, and through all, and in you all.

7.     But unto every one of us is given grace according to the measure of the gift of Christ.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ 1 کرنتھیوں 3 باب16 آیت

16۔ کیا تم نہیں جانتے کہ تم خدا کا مقدِس ہو اور خدا کا روح تم میں بسا ہوا ہے؟

1. I Corinthians 3 : 16

16     Know ye not that ye are the temple of God, and that the Spirit of God dwelleth in you?

2۔ استثنا 27 باب1 آیت

1۔پھر موسیٰ نے بنی اسرائیل کے بزرگوں کے ساتھ ہو کر لوگوں سے کہا کہ جتنے حکم آج کے دن مَیں تم کو دیتا ہوں اْن سب کو ماننا۔

2. Deuteronomy 27 : 1

1     And Moses with the elders of Israel commanded the people, saying, Keep all the commandments which I command you this day.

3۔ استثنا 28 باب1تا4، 8، 9 آیات

1۔ اور اگر تْو خداوند اپنے خدا کی بات کو جانفشانی سے مان کر اْس کے سب حکموں پر جو آج کے دن مَیں تجھ کو دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا۔

2۔اور اگر تْو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی۔

3۔شہر میں بھی تْو مبارک ہوگا اور کھیت میں بھی مبارک ہوگا۔

4۔ تیری اولاد اور تیری زمین کی پیداوار اور تیرے چوپائیوں کے بچے یعنی گائے بیل کی بڑھتی اور تیری بھیڑ بکریوں کے بچے مبارک ہوں گے۔

8۔ خداوند تیرے انبار خانوں میں اور سب کاموں میں جن میں تْو ہاتھ لگائے برکت کا حکم دے گا اور خداوند تیرا خدا اْس ملک میں جسے وہ تجھ کو دیتا ہے تجھ کو برکت بخشے گا۔

9۔ اگر تْو خداوند اپنے خدا کے حکموں کو مانے اور اْس کی راہوں پر چلے تو خداوند اپنی اْس قسم کے مطابق جو اْس نے تجھ سے کھائی تجھ کو اپنی پاک قوم بنا کر رکھے گا۔

3. Deuteronomy 28 : 1-4, 8, 9

1     And it shall come to pass, if thou shalt hearken diligently unto the voice of the Lord thy God, to observe and to do all his commandments which I command thee this day, that the Lord thy God will set thee on high above all nations of the earth:

2     And all these blessings shall come on thee, and overtake thee, if thou shalt hearken unto the voice of the Lord thy God.

3     Blessed shalt thou be in the city, and blessed shalt thou be in the field.

4     Blessed shall be the fruit of thy body, and the fruit of thy ground, and the fruit of thy cattle, the increase of thy kine, and the flocks of thy sheep.

8     The Lord shall command the blessing upon thee in thy storehouses, and in all that thou settest thine hand unto; and he shall bless thee in the land which the Lord thy God giveth thee.

9     The Lord shall establish thee an holy people unto himself, as he hath sworn unto thee, if thou shalt keep the commandments of the Lord thy God, and walk in his ways.

4۔ رومیوں 12 باب1، 2 آیات

1۔پس اے بھائیو! میں مسیح کی رحمتیں یاد دلاکر تم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔

2۔ اور اس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہوجانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے جاؤ۔

4. Romans 12 : 1, 2

1     I beseech you therefore, brethren, by the mercies of God, that ye present your bodies a living sacrifice, holy, acceptable unto God, which is your reasonable service.

2     And be not conformed to this world: but be ye transformed by the renewing of your mind, that ye may prove what is that good, and acceptable, and perfect, will of God.

5۔ یوحنا 3باب1تا15 آیات

1۔ فریسیوں میں سے ایک شخص نیکودیمس نام یہودیوں کا سردار تھا۔

2۔ اْس نے رات کو یسوع کے پاس آکر اْس سے کہا اے ربی ہم جانتے ہیں کہ تْو خدا کی طرف سے اْستاد ہو کر آیا ہے کیونکہ جو معجزے تْو دکھاتا ہے کوئی شخص نہیں دکھا سکتا جب تک خدا اْس کے ساتھ نہ ہو۔

3۔ یسوع نے جواب میں اْس سے کہا مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو خدا کی بادشاہی کو نہیں دیکھ سکتا۔

4۔ نیکودیمس نے اْس سے کہا آدمی جب بوڑھا ہوگیا تو کیونکر پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا وہ دوبارہ اپنی ماں کے پیٹ میں داخل ہو کر پیدا ہو سکتا ہے؟

5۔ یسوع نے اْسے جواب دیا کہ مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں جب تک کوئی آدمی پانی اور روح سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتا۔

6۔ جو جسم سے پیدا ہوا ہے جسم ہے اور جو روح سے پیدا ہوا ہے روح ہے۔

7۔ تعجب نہ کر کہ مَیں نے تجھ سے کہا کہ تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔

8۔ ہوا جِدھر چاہتی ہے چلتی ہے اور تْو اْس کی آواز سنتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتی ہے اور کہاں کو جاتی ہے۔ جو کوئی روح سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی ہے۔

9۔ نیکودیمس نے جواب میں اْس سے کہا یہ باتیں کیونکر ہو سکتی ہیں؟

10۔ یسوع نے جواب میں اْس سے کہا بنی اسرائیل کا اْستاد ہو کر کیا تْو اِن باتوں کو نہیں جانتا؟

11۔مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جو ہم جانتے ہیں وہ کہتے ہیں اور جسے ہم نے دیکھا ہے اْس کی گواہی دیتے ہیں اور تم ہماری گواہی قبول نہیں کرتے۔

12۔ جب مَیں نے تم سے زمین کی باتیں کہیں اور تم نے یقین نہیں کیا تو اگر مَیں تم سے آسمان کی باتیں کہوں تو کیونکر یقین کرو گے؟

13۔ اور آسمان پر کوئی نہیں چڑھاسوا اْس کے جو آسمان سے اْترا یعنی ابنِ آدم جو آسمان میں ہے۔

14۔ اور جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اونچے پر چڑھایااْسی طرح ضرور ہے کہ ابنِ آدم بھی اونچے پر چڑھایا جائے۔

15۔ تاکہ جو کوئی ایمان لائے اْس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔

5. John 3 : 1-15

1     There was a man of the Pharisees, named Nicodemus, a ruler of the Jews:

2     The same came to Jesus by night, and said unto him, Rabbi, we know that thou art a teacher come from God: for no man can do these miracles that thou doest, except God be with him.

3     Jesus answered and said unto him, Verily, verily, I say unto thee, Except a man be born again, he cannot see the kingdom of God.

4     Nicodemus saith unto him, How can a man be born when he is old? can he enter the second time into his mother’s womb, and be born?

5     Jesus answered, Verily, verily, I say unto thee, Except a man be born of water and of the Spirit, he cannot enter into the kingdom of God.

6     That which is born of the flesh is flesh; and that which is born of the Spirit is spirit.

7     Marvel not that I said unto thee, Ye must be born again.

8     The wind bloweth where it listeth, and thou hearest the sound thereof, but canst not tell whence it cometh, and whither it goeth: so is every one that is born of the Spirit.

9     Nicodemus answered and said unto him, How can these things be?

10     Jesus answered and said unto him, Art thou a master of Israel, and knowest not these things?

11     Verily, verily, I say unto thee, We speak that we do know, and testify that we have seen; and ye receive not our witness.

12     If I have told you earthly things, and ye believe not, how shall ye believe, if I tell you of heavenly things?

13     And no man hath ascended up to heaven, but he that came down from heaven, even the Son of man which is in heaven.

14     And as Moses lifted up the serpent in the wilderness, even so must the Son of man be lifted up:

15     That whosoever believeth in him should not perish, but have eternal life.

6۔ مرقس 8 باب34تا37آیات

34۔ پھر اْس نے بھیڑ کو اپنے شاگردوں سمیت پاس بلا کر اْن سے کہا اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔

35۔ کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اْسے کھوئے گا اور جو کوئی میری اور انجیل کی خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اْسے بچائے گا۔

36۔ اور آدمی اگر ساری دنیا کو حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اْٹھائے تو اْسے کیا فائدہ ہوگا۔

37۔ اور آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے؟

6. Mark 8 : 34-37

34     And when he had called the people unto him with his disciples also, he said unto them, Whosoever will come after me, let him deny himself, and take up his cross, and follow me.

35     For whosoever will save his life shall lose it; but whosoever shall lose his life for my sake and the gospel’s, the same shall save it.

36     For what shall it profit a man, if he shall gain the whole world, and lose his own soul?

37     Or what shall a man give in exchange for his soul?

7۔ 1کرنتھیوں 6 باب19 (جانتے)، 20 آیات

19۔۔۔۔کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارا بدن روح القدس کا مقدِس ہے جو تم میں بسا ہوا ہے اور تم کو خدا کی طرف سے ملا ہے؟ اور تم اپنے نہیں۔

20۔ کیونکہ قیمت سے خریدے گئے ہو۔ پس اپنے بدن سے خدا کا جلال ظاہر کرو۔

7. I Corinthians 6 : 19 (know), 20

19     …know ye not that your body is the temple of the Holy Ghost which is in you, which ye have of God, and ye are not your own?

20     For ye are bought with a price: therefore glorify God in your body, and in your spirit, which are God’s.

8۔ کلسیوں 3 باب1، 2، 15تا17 آیات

1۔ پس جب تم مسیح کے ساتھ جلائے گئے تو عالم بالا کی چیزوں کی تلاش میں رہو جہاں مسیح موجود ہے اور خدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے۔

2۔ عالم بالا کی چیزوں کے خیال میں رہو نہ کہ زمین پر کی چیزوں کے۔

15۔ اور مسیح کا اطمینان جس کے لئے تم ایک بدن ہو کر بلائے بھی گئے ہو تمہارے دلوں پر حکومت کرے اور تم شکر گزار رہو۔

16۔ مسیح کے کلام کو اپنے دلوں میں کثرت سے بسنے دو اور کمال دانائی سے آپس میں تعلیم اور نصیحت کرو اور اپنے دلوں میں فضل کے ساتھ خدا کے لئے مزامیر اور گیت اور روحانی غزلیں گاؤ۔

17۔ اور کلام یا کام جو کچھ کرتے ہو وہ سب خداوند یسوع کے نام سے کرو اور اْسی کے وسیلہ سے خدا باپ کا شکر بجا لاؤ۔

8. Colossians 3 : 1, 2, 15-17

1     If ye then be risen with Christ, seek those things which are above, where Christ sitteth on the right hand of God.

2     Set your affection on things above, not on things on the earth.

15     And let the peace of God rule in your hearts, to the which also ye are called in one body; and be ye thankful.

16     Let the word of Christ dwell in you richly in all wisdom; teaching and admonishing one another in psalms and hymns and spiritual songs, singing with grace in your hearts to the Lord.

17     And whatsoever ye do in word or deed, do all in the name of the Lord Jesus, giving thanks to God and the Father by him.

9۔ 1 تھسلنکیوں 5 باب16 تا23 آیات

16۔ ہر وقت خوش رہو۔

17۔ بلا ناغہ دعا کرو۔

18۔ ہر ایک بات میں شکر گزاری کرو کیونکہ مسیح یسوع میں تمہاری بابت خدا کی یہی مرضی ہے۔

19۔ روح کو نہ بجھاؤ۔

20۔ نبوتوں کی حقارت نہ کرو۔

21۔ سب باتوں کو آزماؤ۔ جو اچھی ہو اْسے پکڑے رہو۔

22۔ ہر قسم کی بدی سے بچے رہو۔

23۔ خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے آپ ہی تم کو بالکل پاک کرے اور تمہاری روح اور جان اور بدن ہمارے خداوند یسوع مسیح کے آنے تک پورے پورے اور بے عیب محفوظ رہیں۔

9. I Thessalonians 5 : 16-23

16     Rejoice evermore.

17     Pray without ceasing.

18     In every thing give thanks: for this is the will of God in Christ Jesus concerning you.

19     Quench not the Spirit.

20     Despise not prophesyings.

21     Prove all things; hold fast that which is good.

22     Abstain from all appearance of evil.

23     And the very God of peace sanctify you wholly; and I pray God your whole spirit and soul and body be preserved blameless unto the coming of our Lord Jesus Christ.



سائنس اور صح


1۔ 477 : 22۔24، 26 صرف

جان مادہ، زندگی، انسان کی ذہانت ہے، جس کی انفرادیت ہوتی ہے لیکن مادے میں نہیں۔ جان روح سے کمتر کسی چیز کی عکاسی کبھی نہیں کرسکتی۔

انسان روح کا اظہار۔

1. 477 : 22-24, 26 only

Soul is the substance, Life, and intelligence of man, which is individualized, but not in matter.

Man is the expression of Soul.

2۔ 310 :14 (سائنس)۔17

سائنس روح کو بطور خدا، گناہ اور موت سے مبرا، بطور زندگی اور ذہانت ظاہر کرتی ہے جس کے گرد ہم آہنگی کے ساتھ عقل کے نظام میں ساری چیزیں گردش کرتی ہیں۔

2. 310 : 14 (Science)-17

Science reveals Soul as God, untouched by sin and death, — as the central Life and intelligence around which circle harmoniously all things in the systems of Mind.

3۔ 71 :5۔9

ساری حقیقت کی شناخت یا خیال ہمیشہ جاری رہتا ہے؛ لیکن روح یا سب کا الٰہی اصول، روح کی بناوٹیں نہیں ہیں۔ جان روح، خدا، خالق، حکمران محدود شکل سے باہر لامحدود اصول کا مترادف لفظ ہے، جو صرف عکس کی تشکیل کرتا ہے۔

3. 71 : 5-9

The identity, or idea, of all reality continues forever; but Spirit, or the divine Principle of all, is not in Spirit's formations. Soul is synonymous with Spirit, God, the creative, governing, infinite Principle outside of finite form, which forms only reflect.

4۔ 301 :5۔23۔ 30۔9

چند لوگوں نے غور کیا ہے کہ لفظ فکر کرنے سے کرسچن سائنس کی کیا مراد ہے۔ خود سے متعلق، مادی اور فانی انسان اپنے آپ کو مواد دکھائی دیتا ہے، مگر مواد کے اِس فہم میں غلطی ہے اور اسی لئے یہ مادی، عارضی ہے۔

دوسری طرف، لافانی، روحانی انسان حقیقی ذات ہے، اور یہ ابدی مواد یا روح سے متعلق غور کرتا ہے، جس کی بشر امید کرتے ہیں۔وہ اْس الٰہی پر غور کرتا ہے، جو واحد حقیقی اور ابدی الوہیت جاری رکھتا ہے۔یہ فکر فانی فہم کے لئے غیر واضع دکھائی دیتی ہے، کیونکہ روحانی انسان کی اصلیت انسانی بصیرت کو واضح کرتی ہے اور یہ محض الٰہی سائنس کے وسیلہ ظاہر کی جاتی ہے۔

جیسا کہ خدا اصل ہے اور انسان الٰہی صورت اور شبیہ ہے، تو انسان کو صرف اچھائی کے اصل، روح کے اصل نہ کہ مادے کی خواہش رکھنی چاہئے، اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہے۔یہ عقیدہ روحانی نہیں ہے کہ انسان کے پاس کوئی دوسرا مواد یا عقل ہے،اور یہ پہلے حکم کو توڑتا ہے کہ تْو ایک خدا، ایک عقل کو ماننا۔

یہ غلطی روح کی مادی صورتوں میں غیر واضح باشندے کے طور پر، اور انسان کو روحانی کی بجائے مادی گمان کرتی ہے۔لافانیت کو فانیت سے محدود نہیں کیا جاتا۔روح کو محدودیت کے ساتھ محصور نہیں کیا جاتا۔اصول منقسم خیالات میں نہیں پایا جاتا۔

مادی بدن اور عقل عارضی ہیں، مگر حقیقی انسان روحانی اور ابدی ہے۔حقیقی انسان کی شناخت کھو نہیں جاتی، بلکہ اِس وضاحت کے وسیلہ پائی جاتی ہے؛ کیونکہ ہستی اور پوری شناخت کی شعوری لامحدودیت غیر ترمیم شْدہ سمجھی جاتی اورقائم رہتی ہے۔جب خدا مکمل اور ابدی طور پر اْس کا ہے، تو یہ ناممکن ہے کہ انسان ایسا کچھ گوا بیٹھے جو حقیقی ہے۔

4. 301 : 5-23, 30-9

Few persons comprehend what Christian Science means by the word reflection. To himself, mortal and material man seems to be substance, but his sense of substance involves error and therefore is material, temporal.

On the other hand, the immortal, spiritual man is really substantial, and reflects the eternal substance, or Spirit, which mortals hope for. He reflects the divine, which constitutes the only real and eternal entity. This reflection seems to mortal sense transcendental, because the spiritual man's substantiality transcends mortal vision and is revealed only through divine Science.

As God is substance and man is the divine image and likeness, man should wish for, and in reality has, only the substance of good, the substance of Spirit, not matter. The belief that man has any other substance, or mind, is not spiritual and breaks the First Commandment, Thou shalt have one God, one Mind.

This falsity presupposes soul to be an unsubstantial dweller in material forms, and man to be material instead of spiritual. Immortality is not bounded by mortality. Soul is not compassed by finiteness. Principle is not to be found in fragmentary ideas.

The material body and mind are temporal, but the real man is spiritual and eternal. The identity of the real man is not lost, but found through this explanation; for the conscious infinitude of existence and of all identity is thereby discerned and remains unchanged. It is impossible that man should lose aught that is real, when God is all and eternally his.

5۔ 467 :17۔23

سائنس جان، روح کو بدن میں غیر موجود ظاہر کرتی ہے، اور خدا کو انسان میں نہیں بلکہ انسان کے وسیلہ منعکس ظاہر کرتی ہے۔عظیم ترین کم ترین نہیں ہو سکتا۔یہ عقیدہ کہ عظیم ترین کم ترین میں ہو سکتا ہے ایک غلطی ہے جو ناکام ہو جاتی ہے۔جان کی سائنس میں یہ ایک نمایاں نقطہ ہے کہ اصول اْس کے خیال میں نہیں ہوتا۔روح، جان انسان میں محدود نہیں ہیں، اور مادے میں کبھی نہیں ہوتی۔

5. 467 : 17-23

Science reveals Spirit, Soul, as not in the body, and God as not in man but as reflected by man. The greater cannot be in the lesser. The belief that the greater can be in the lesser is an error that works ill. This is a leading point in the Science of Soul, that Principle is not in its idea. Spirit, Soul, is not confined in man, and is never in matter.

6۔ 466 :19۔31

جانوں اور روحوں کی اصطلاح ویسے ہی غیر مناسب ہے جیسے خداؤں کی اصطلاح ہے۔جان یا روح خدا کے علاوہ کسی کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔ نہ کوئی محدود جان ہے نہ روح ہے۔ جان یا روح سے مراد ہے صرف ایک عقل، اور اِس کا ترجمہ جمع میں کبھی نہیں کیا جاسکتا۔غیر مذاہب کے قصوں اور یہودی قصوں نے اِس غلطی کو جاری رکھا کہ ذہانت، جان اور زندگی مادے میں پائی جا سکتی ہے؛ اور بت پرستی اور روایت پسندی انسان کے بنائے ہوئے عقائد کا نتیجہ ہیں۔ مسیحت کی سائنس بھوسے کو گندم سے جدا کرنے کے لئے ہاتھ میں پنکھا لئے ہوئے آتی ہے۔سائنس خدا کو ٹھیک واضح کرے گی اور مسیحت اِس وضاحت کو اِس کے الٰہی اصول کو ظاہر کرے گی، جو انسان کو جسمانی، اخلاقی اور روحانی طور پر بہتر بنارہا ہوتا ہے۔

6. 466 : 19-31

The term souls or spirits is as improper as the term gods. Soul or Spirit signifies Deity and nothing else. There is no finite soul nor spirit. Soul or Spirit means only one Mind, and cannot be rendered in the plural. Heathen mythology and Jewish theology have perpetuated the fallacy that intelligence, soul, and life can be in matter; and idolatry and ritualism are the outcome of all man-made beliefs. The Science of Christianity comes with fan in hand to separate the chaff from the wheat. Science will declare God aright, and Christianity will demonstrate this declaration and its divine Principle, making mankind better physically, morally, and spiritually.

7۔ 122 :24۔10

مادی فہم کے لئے، شہ رگ کی تقسیم زندگی ختم کر دیتی ہے؛ مگر روحانی فہم کے لئے اور سائنس میں، زندگی تبدیل ہونا جاری رکھتی ہے اور ہستی ابدی ہو جاتی ہے۔عارضی زندگی وجودیت کا ایک غلط فہم ہے۔

دیگر نظریات بھی بدن اور جان سے متعلق وہی غلطی کرتے ہیں جو پٹولمی نے نظام شمسی سے متعلق کی۔ وہ اِس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ جان مادے کی معاونت کے لئے بدن اور عقل کے نظریے میں پائی جاتی ہے۔فلکیاتی سائنس نے آسمانی اجزاء سے متعلق جھوٹے نظریے کو تباہ کردیا ہے، اور کرسچن سائنس یقیناً ہمارے زمینی اجزاء سے متعلق بری غلطی کو نیست کر دے گی۔پھرحقیقی خیال اور انسان کا اصول ظاہر ہوگا۔ پٹولمی کی غلطی ہستی کی ہم آہنگی پر اثر انداز نہیں ہوسکے گی جیسے کہ جان اور بدن سے متعلق غلطی اثر انداز ہوتی ہے، جو سائنسی ترتیب کو الٹ دیتی ہے اور مادے کو روح پر اختیار اور طاقت فراہم کرتی ہے، تاکہ انسان کائنات کا سب سے مکمل کمزور اور غیر ہم آہنگ مخلوق بن جائے۔

7. 122 : 24-10

To material sense, the severance of the jugular vein takes away life; but to spiritual sense and in Science, Life goes on unchanged and being is eternal. Temporal life is a false sense of existence.

Our theories make the same mistake regarding Soul and body that Ptolemy made regarding the solar system. They insist that soul is in body and mind therefore tributary to matter. Astronomical science has destroyed the false theory as to the relations of the celestial bodies, and Christian Science will surely destroy the greater error as to our terrestrial bodies. The true idea and Principle of man will then appear. The Ptolemaic blunder could not affect the harmony of being as does the error relating to soul and body, which reverses the order of Science and assigns to matter the power and prerogative of Spirit, so that man becomes the most absolutely weak and inharmonious creature in the universe.

8۔ 119 :25۔6

طلوعِ آفتاب کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص یہ مانتا ہے کہ یہ منظر ہماری حواس کے لئے اس یقین کی مخالفت کرتا ہے کہ زمین حرکت میں ہے اور سورج ساکت ہے۔جیسے علم فلکیات نظام شمسی کی حرکت سے متعلق انسانی نظریے کو تبدیل کرتا ہے، اسی طرح کرسچن سائنس جان اور بدن کے دیدنی تعلق کو تبدیل کرتی ہے اور بدن کو عقل کے لئے معاون بناتی ہے۔پس یہ انسان پر منحصر ہے جو آرام دہ عقل کا حلیم خادم ہونے کے علاوہ کچھ نہیں، اگر چہ دوسری صورت میں یہ فہم کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔لیکن ہم اسے کبھی سمجھ نہیں پائیں گے جب تک کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ جان مادے کی بدولت بدن یا عقل میں ہے اور یہ کہ انسان کم عقلی میں شامل ہے۔جان یا روح خدا ہے،ناقابل تبدیل اور ابدی؛ اور انسان جان، خدا کے ساتھ وجودیت رکھتا اور اس کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ انسان خدا کی شبیہ ہے۔

8. 119 : 25-6

In viewing the sunrise, one finds that it contradicts the evidence before the senses to believe that the earth is in motion and the sun at rest. As astronomy reverses the human perception of the movement of the solar system, so Christian Science reverses the seeming relation of Soul and body and makes body tributary to Mind. Thus it is with man, who is but the humble servant of the restful Mind, though it seems otherwise to finite sense. But we shall never understand this while we admit that soul is in body or mind in matter, and that man is included in non-intelligence. Soul, or Spirit, is God, unchangeable and eternal; and man coexists with and reflects Soul, God, for man is God's image.

9۔ 114 :23۔29

کرسچن سائنس سارے اسباب کو جسمانی نہیں بلکہ ذہنی قرار دیتی ہے۔یہ جان اور بدن سے خفیہ پردہ ہٹاتی ہے۔ یہ انسان کا خدا کے ساتھ سائنسی تعلق بیان کرتی ہے، ہستی کے ملے جلے ابہام کو جْدا کرتی ہے، اور غلامانہ سوچ کو آزاد کرتی ہے۔الٰہی سائنس میں، کائنات بشمول انسان روحانی، ہم آہنگ اور ابدی ہے۔

9. 114 : 23-29

Christian Science explains all cause and effect as mental, not physical. It lifts the veil of mystery from Soul and body. It shows the scientific relation of man to God, disentangles the interlaced ambiguities of being, and sets free the imprisoned thought. In divine Science, the universe, including man, is spiritual, harmonious, and eternal.

10۔ 210 :11۔16

یہ جانتے ہوئے کہ جان اور اْس کی خصوصیات ہمیشہ کے لئے انسان کے وسیلہ ظاہر کی جاتی رہی ہیں، مالک نے بیمار کو شفا دی، اندھے کو آنکھیں دیں، بہرے کو کان دئیے، لنگڑے کو پاؤں دئیے، یوں وہ انسانی خیالوں اور بدنوں پر الٰہی عقل کے سائنسی عمل کو روشنی میں لایااور انہیں جان اور نجات کی بہتر سمجھ عطا کی۔

10. 210 : 11-16

Knowing that Soul and its attributes were forever manifested through man, the Master healed the sick, gave sight to the blind, hearing to the deaf, feet to the lame, thus bringing to light the scientific action of the divine Mind on human minds and bodies and giving a better understanding of Soul and salvation.

11۔ 200 :8۔15 (تا دوسرا،)

جو کوئی بھی جان کو واضح کرنے کے لئے نااہل ہوتا ہے وہ بدن کی وضاحت قبول نہ کرنے میں علقمند ہوتا ہے۔ زندگی ہمیشہ مادے سے آزاد ہے، تھی اور ہمیشہ رہے گی،کیونکہ زندگی خدا ہے اور انسان خدا کا تصور ہے، جسے مادی طور پر نہیں بلکہ روحانی طور پر خلق کیا گیا، اور وہ فنا ہونے اور نیست ہونے سے مشروط نہیں۔ زبور نویس نے کہا: ”تْو نے اْسے اپنی دستکاری پر تسلط بخشا ہے۔ تْو نے سب کچھ اْس کے قدموں کے نیچے کر دیا ہے۔“

11. 200 : 8-15 (to 2nd .)

Whoever is incompetent to explain Soul would be wise not to undertake the explanation of body. Life is, always has been, and ever will be independent of matter; for life is God, and man is the idea of God, not formed materially but spiritually, and not subject to decay and dust. The Psalmist said: "Thou madest him to have dominion over the works of Thy hands. Thou hast put all things under his feet."

12۔ 273 :16۔18

مادے کے نام نہاد قوانین اور طبی سائنس نے کبھی بشر کو مکمل، ہم آہنگ اور لافانی نہیں بنایا۔ انسان تب ہم آہنگ ہوتا ہے جب روح کی نگرانی میں ہوتا ہے۔

12. 273 : 16-18

The so-called laws of matter and of medical science have never made mortals whole, harmonious, and immortal. Man is harmonious when governed by Soul.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████