اتوار 27ستمبر ، 2020 



مضمون۔ حقیقت

SubjectReality

سنہری متن: یوحنا 1 باب 1، 3 آیات

”ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔سب چیزیں اْس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا اْس میں سے کوئی چیز بھی اْس کے بغیر پیدا نہ ہوئی۔“



Golden Text: John 1 : 1, 3

In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God. All things were made by him; and without him was not any thing made that was made.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: زبور 27: 1، 3تا5، 7، 8، 14 آیات


1۔ خداوند میری روشنی اور میری نجات ہے۔ مجھے کس کی دہشت؟ خداوند میری زندگی کا پشتہ ہے۔ مجھے کس کی ہیبت؟

3۔ خواہ میرے خلاف لشکر خیمہ زن ہو خواہ میرے خلاف جنگ برپا ہو تو بھی مَیں خاطر جمع رہوں گا۔

4۔ مَیں نے خداوند سے ایک درخواست کی ہے۔ مَیں اِسی کا طالب رہوں گا مَیں عمر بھر خداوند کے گھر میں رہوں گا تاکہ خداوند کے جلال کو دیکھوں اور اْس کی ہیکل میں استفسار کیا کروں۔

5۔ کیونکہ مصیبت کے دن وہ مجھے اپنے شامیانہ میں پوشیدہ رکھے گا وہ مجھے اپنے خیمہ کے پردہ میں چھپا لے گا۔ وہ مجھے چٹان پر چڑھا دے گا۔

7۔ اے خداوند! میری آواز سن۔ مَیں پکارتا ہوں۔ مجھ پر رحم کراور مجھے جواب دے۔

8۔ جب تْو نے فرمایا کہ میرے دیدار کے طالب ہو تو میرے دل نے تجھ سے کہا۔ اے خداوند مَیں تیرے دیدار کا طالب رہوں گا۔

14۔ خداوند کی آس رکھ۔ مضبوط ہو اور تیرا دل قوی ہو۔ ہاں خداوند ہی کی آس رکھ۔

Responsive Reading: Psalm 27 : 1, 3-5, 7, 8, 14

1.     The Lord is my light and my salvation; whom shall I fear? the Lord is the strength of my life; of whom shall I be afraid?

3.     Though an host should encamp against me, my heart shall not fear: though war should rise against me, in this will I be confident.

4.     One thing have I desired of the Lord, that will I seek after; that I may dwell in the house of the Lord all the days of my life, to behold the beauty of the Lord, and to inquire in his temple.

5.     For in the time of trouble he shall hide me in his pavilion: in the secret of his tabernacle shall he hide me; he shall set me up upon a rock.

7.     Hear, O Lord, when I cry with my voice: have mercy also upon me, and answer me.

8.     When thou saidst, Seek ye my face; my heart said unto thee, Thy face, Lord, will I seek.

14.     Wait on the Lord: be of good courage, and he shall strengthen thine heart: wait, I say, on the Lord.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ پیدائش 1باب26تا31 (تا پہلا) آیات

26۔ پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اختیار رکھیں۔

27۔اور خدا نے انسان کو اپنی صور ت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کیا۔ نر و ناری اُن کو پیدا کیا۔

28۔خدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورو محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اورکُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو۔

29۔اور خدا نے کہا کہ دیکھو میں تمام روی زمین کی کُل بیج دار سبزی اور ہر درخت جس میں اُس کا بیج دار پھل ہو تم کو دیتا ہوں۔ یہ تمہارے کھانے کو ہوں۔

30۔اور زمین کے کل جانوروں کے لئے اور ہوا کے کُل پرندوں کے اور اُن سب کے لئے جو زمین پر رینگنے والے ہیں جن میں زندگی کا دم ہے کُل ہری بوٹیاں کھانے کو دیتا ہوں اور ایسا ہی ہوا۔

31۔اور خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔

1. Genesis 1 : 26-31 (to 1st .)

26     And God said, Let us make man in our image, after our likeness: and let them have dominion over the fish of the sea, and over the fowl of the air, and over the cattle, and over all the earth, and over every creeping thing that creepeth upon the earth.

27     So God created man in his own image, in the image of God created he him; male and female created he them.

28     And God blessed them, and God said unto them, Be fruitful, and multiply, and replenish the earth, and subdue it: and have dominion over the fish of the sea, and over the fowl of the air, and over every living thing that moveth upon the earth.

29     And God said, Behold, I have given you every herb bearing seed, which is upon the face of all the earth, and every tree, in the which is the fruit of a tree yielding seed; to you it shall be for meat.

30     And to every beast of the earth, and to every fowl of the air, and to every thing that creepeth upon the earth, wherein there is life, I have given every green herb for meat: and it was so.

31     And God saw every thing that he had made, and, behold, it was very good.

2۔ واعظ7 باب13، 29 آیات

13۔ خدا کے کام پر غور کر کیونکہ کون اْس چیز کو سیدھا کر سکتا ہے جسے اْس نے ٹیڑھا کیا ہے؟

29۔ لو مَیں نے صرف اتنا پایا کہ خدا نے انسان کو راست بنایا پر انہوں نے بہت سی بندشیں تجویزکیں۔

2. Ecclesiastes 7 : 13, 29

13     Consider the work of God: for who can make that straight, which he hath made crooked?

29     Lo, this only have I found, that God hath made man upright; but they have sought out many inventions.

3۔ لوقا 4باب 14، 15، 33تا37 آیات

14۔ پھر یسوع روح کی قدرت سے بھرا ہوا گلیل کو لوٹا اور سارے گردو نواح میں اْس کی شہرت پھیل گئی۔

15۔ اور وہ اْن کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا رہا اور سب اْس کی بڑائی کرتے رہے۔

33۔ اور عبادت خانہ میں ایک آدمی تھا جس میں ناپاک دیوو کی روح تھی وہ بڑی آواز سے چلا اٹھا کہ۔

34۔ اے یسوع ناصری ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تْو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ مَیں تجھے جانتا ہوں کہ تْو کون ہے۔ خدا کا قدوس ہے۔

35۔ یسوع نے اْسے جھڑک کر کہا چْپ رہ اور اْس میں سے نکل جا۔ اِس پر بدروح اْسے بیچ میں پٹک کربغیر ضرر پہنچائے اْس میں سے نکل گئی۔

36۔ اور سب حیران ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ یہ کیسا کلام ہے؟ کیونکہ وہ اختیار اور قدرت سے روحوں کو حکم دیتا ہے اور وہ نکل جاتی ہیں۔

37۔ اور گردو نواح میں ہر جگہ اْس کی دھوم مچ گئی۔

3. Luke 4 : 14, 15, 33-37

14     And Jesus returned in the power of the Spirit into Galilee: and there went out a fame of him through all the region round about.

15     And he taught in their synagogues, being glorified of all.

33     And in the synagogue there was a man, which had a spirit of an unclean devil, and cried out with a loud voice,

34     Saying, Let us alone; what have we to do with thee, thou Jesus of Nazareth? art thou come to destroy us? I know thee who thou art; the Holy One of God.

35     And Jesus rebuked him, saying, Hold thy peace, and come out of him. And when the devil had thrown him in the midst, he came out of him, and hurt him not.

36     And they were all amazed, and spake among themselves, saying, What a word is this! for with authority and power he commandeth the unclean spirits, and they come out.

37     And the fame of him went out into every place of the country round about.

4۔ لوقا 5باب12، 13، 16تا20، 24 (مَیں) تا26، 34 (تا پہلا) آیات

12۔ جب وہ شہر میں تھا تو دیکھو کوڑھ سے بھرا ہوا ایک آدمی یسوع کو دیکھ کر منہ کے بل گرا اور اْس کی منت کر کے کہنے لگا اے خداوند! اگر تْو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔

13۔ اْس نے ہاتھ بڑھا کر اْسے چھوْا اور کہا مَیں چاہتا ہوں تْو پاک صاف ہو جا اور فوراً اْس کا کوڑھ جاتا رہا۔

16۔مگر وہ جنگلوں میں الگ جا کر دعا کیا کرتا تھا۔

17۔ اور ایک دن ایسا ہوا کہ وہ تعلیم دے رہا تھا اور فریسی اور شرع کے معلم وہاں بیٹھے تھے جو گلیل کے ہر گاؤں اور یہودیہ اور یروشلیم سے آئے تھے اور خداوند کی قدرت شفا بخشنے کو اْس کے ساتھ تھی۔

18۔ اور دیکھو کئی مرد ایک آدمی کو جو مفلوج تھا چارپائی پر لائے اور کوشش کی کہ اْسے اندر لا کر اْس کے آگے رکھیں۔

19۔ اور جب بھیڑ کے سبب سے اْس کو اندر لے جانے کی راہ نہ پائی تو کوٹھے پر چڑھ کر کھپریل میں سے اْس کو کھٹولے سمیت بیچ میں یسوع کے سامنے اْتار دیا۔

20۔ اْس نے اْن کا ایمان دیکھ کر کہا اے آدمی! تیرے گناہ معاف ہوئے۔

24۔ مَیں تجھ سے کہتا ہوں اْٹھ اپنا کھٹولا اْٹھا کر اپنے گھر جا۔

25۔ اور وہ اْسی دم اْس کے سامنے اٹھا اور جس پر پڑا تھا اْسے اٹھا کر خدا کی تمجید کرتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔

26۔ وہ سب کے سب بڑے حیران ہوئے اور خدا کی تمجید کرنے لگے اور بہت ڈر گئے اور کہنے لگے آج ہم نے عجیب باتیں دیکھیں۔

34۔ اْ س نے اْن سے کہا۔

4. Luke 5 : 12, 13, 16-20, 24 (I)-26, 34 (to 1st ,)

12     And it came to pass, when he was in a certain city, behold a man full of leprosy: who seeing Jesus fell on his face, and besought him, saying, Lord, if thou wilt, thou canst make me clean.

13     And he put forth his hand, and touched him, saying, I will: be thou clean. And immediately the leprosy departed from him.

16     And he withdrew himself into the wilderness, and prayed.

17     And it came to pass on a certain day, as he was teaching, that there were Pharisees and doctors of the law sitting by, which were come out of every town of Galilee, and Judæa, and Jerusalem: and the power of the Lord was present to heal them.

18     And, behold, men brought in a bed a man which was taken with a palsy: and they sought means to bring him in, and to lay him before him.

19     And when they could not find by what way they might bring him in because of the multitude, they went upon the housetop, and let him down through the tiling with his couch into the midst before Jesus.

20     And when he saw their faith, he said unto him, Man, thy sins are forgiven thee.

24     I say unto thee, Arise, and take up thy couch, and go into thine house.

25     And immediately he rose up before them, and took up that whereon he lay, and departed to his own house, glorifying God.

26     And they were all amazed, and they glorified God, and were filled with fear, saying, We have seen strange things to day.

34     And he said unto them,

5۔ لوقا 12 باب29 (تلاش کرو) تا32 آیات

29۔ ۔۔۔تم اِس کی تلاش میں نہ رہو کہ کیا کھائیں گے کیا پہنیں گے اور نہ شکی بنو۔

30۔ کیونکہ اِن سب چیزوں کی تلاش میں دنیا کی قومیں رہتی ہیں لیکن تمہارا باپ جانتا ہے کہ تم اِن چیزوں کے محتاج ہو۔

31۔ہاں اْس کی بادشاہی کی تلاش میں رہو تو یہ چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔

32۔ اے چھوٹے گلے نہ ڈر کیونکہ تمہارے باپ کو پسند آیا کہ تمہیں بادشاہی دے۔

5. Luke 12 : 29 (seek)-32

29     …seek not ye what ye shall eat, or what ye shall drink, neither be ye of doubtful mind.

30     For all these things do the nations of the world seek after: and your Father knoweth that ye have need of these things.

31     But rather seek ye the kingdom of God; and all these things shall be added unto you.

32     Fear not, little flock; for it is your Father’s good pleasure to give you the kingdom.

6۔ یسعیاہ 60 باب1تا3، 18 تا20 آیات

1۔ اْٹھ منور ہو کیونکہ تیرا نور آگیا اور خداوند کا جلال تجھ پر ظاہر ہوا۔

2۔ کیونکہ دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائے گی اور تیرگی اْمتوں پر لیکن خداوند تجھ پر طالع ہوگا اور اْس کا جلال تجھ پر نمایا ں ہوگا۔

3۔ اور قومیں تیری روشنی کی طرف آئیں گی اور سلاطین تیرے نور کی تجلی میں چلیں گے۔

18۔ پھر تیرے ملک میں ظلم کا ذکر نہ ہوگا اور نہ تیری حدود کے اندر خرابی یا بربادی کا بلکہ تْو اپنی دیواروں کا نام نجات اور اپنے پھاٹکوں کا حمد رکھے گی۔

19۔ پھر تیری روشنی نہ دن کو سورج سے ہوگی اور نہ چاند کے چمکنے سے بلکہ خداوند تیرا ابدی نور اور تیرا خدا تیرا جلال ہوگا۔

20۔ تیرا سورج پھر کبھی نہ ڈھلے گا اور تیرے چاند کو زوال نہ ہوگا کیونکہ تیرا خداوند تیرا ابدی نور ہوگا اور تیرے ماتم کے دن ختم ہوجائیں گے۔

6. Isaiah 60 : 1-3, 18-20

1     Arise, shine; for thy light is come, and the glory of the Lord is risen upon thee.

2     For, behold, the darkness shall cover the earth, and gross darkness the people: but the Lord shall arise upon thee, and his glory shall be seen upon thee.

3     And the Gentiles shall come to thy light, and kings to the brightness of thy rising.

18     Violence shall no more be heard in thy land, wasting nor destruction within thy borders; but thou shalt call thy walls Salvation, and thy gates Praise.

19     The sun shall be no more thy light by day; neither for brightness shall the moon give light unto thee: but the Lord shall be unto thee an everlasting light, and thy God thy glory.

20     Thy sun shall no more go down; neither shall thy moon withdraw itself: for the Lord shall be thine everlasting light, and the days of thy mourning shall be ended.



سائنس اور صح


1۔ 242 :9۔14

آسمان پر جانے کا واحد راستہ ہم آہنگی ہے اور مسیح الٰہی سائنس میں ہمیں یہ راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا مطلب خدا، اچھائی اور اْس کے عکس کے علاوہ کسی اور حقیقت کو نہ جاننا، زندگی کے کسی اور ضمیر کو نا جاننا ہے، اور نام نہاد درد اور خوشی کے احساسات سے برتر ہونا ہے۔

1. 242 : 9-14

There is but one way to heaven, harmony, and Christ in divine Science shows us this way. It is to know no other reality — to have no other consciousness of life — than good, God and His reflection, and to rise superior to the so-called pain and pleasure of the senses.

2۔ 335 :27۔31

حقیقت روحانی، ہم آہنگ، ناقابل تبدیل، لافانی، الٰہی، ابدی ہے۔ غیر روحانی کچھ بھی حقیقی، ہم آہنگ یا ابدی نہیں ہو سکتا۔گناہ، بیماری اور فانیت روح کے فرضی سمت القدم ہیں، اور یہ یقیناً حقیقت کے مخالف ہوں گے۔

2. 335 : 27-31

Reality is spiritual, harmonious, immutable, immortal, divine, eternal. Nothing unspiritual can be real, harmonious, or eternal. Sin, sickness, and mortality are the suppositional antipodes of Spirit, and must be contradictions of reality.

3۔ 525 :17۔24، 28۔29

یوحنا کی انجیل میں، یہ واضح کیا گیا ہے کہ سبھی چیزیں خدا کے کلمہ سے وجود میں آئیں، ”اور جو کچھ پیدا ہوا اْس میں سے کوئی چیز بھی اْس (لوگوس، کلمہ)کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔“ہر اچھی اور قابل قدر چیز خدا نے بنائی۔ جو کچھ بھی فالتو اور نقصان دہ چیز ہے، وہ اْس نے نہیں بنائی، لہٰذہ وہ غیر حقیقی ہے۔ پیدائش کی سائنس میں ہم پڑھتے ہیں کہ جو کچھ اْس نے بنایا تھا اْس پر نظر کی ”اور دیکھا کہ اچھا ہے۔“۔۔۔ گناہ، بیماری اور موت کو حقیقت سے خالی تصور کیا جانا چاہئے جیسے کہ وہ اچھائی، یعنی خدا سے خالی ہیں۔

3. 525 : 17-24, 28-29

In the Gospel of John, it is declared that all things were made through the Word of God, "and without Him [the logos, or word] was not anything made that was made." Everything good or worthy, God made. Whatever is valueless or baneful, He did not make, — hence its unreality. In the Science of Genesis we read that He saw everything which He had made, "and, behold, it was very good." … Sin, sickness, and death must be deemed as devoid of reality as they are of good, God.

4۔ 494 :19۔29

مناسب ہدایت کی گئی وجہ جسمانی حس کی غلطی کو سدھارنے کا کام کرتی ہے، لیکن جب تک انسان کی ابدی ہم آہنگی کی سائنس سائنسی ہستی کی مْتصل حقیقت کے ذریعے اْن کی فریب نظری کو ختم نہیں کرتی گناہ، بیماری اور موت حقیقی ہی نظر آتے رہیں گے (جیسا کہ سوتے ہوئے خوابوں کے تجربات حقیقی دکھائی دیتے ہیں)۔

انسان سے متعلق ان دونظریات میں سے آپ کسے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ ایک فانی گواہی ہے جو تبدیل ہوتی، مرتی اور غیر حقیقی ہے۔ دوسری ابدی اور حقیقی شہادت ہے، جس پر سچائی کی مہر ثبت ہے، اِس کی گود لافانی پھلوں سے لدی ہوئی ہے۔

4. 494 : 19-29

Reason, rightly directed, serves to correct the errors of corporeal sense; but sin, sickness, and death will seem real (even as the experiences of the sleeping dream seem real) until the Science of man's eternal harmony breaks their illusion with the unbroken reality of scientific being.

Which of these two theories concerning man are you ready to accept? One is the mortal testimony, changing, dying, unreal. The other is the eternal and real evidence, bearing Truth's signet, its lap piled high with immortal fruits.

5۔ 352 :12۔25

ایک بچہ جو فرضی بھوتوں سے خوفذدہ ہو اور ڈر کے باعث بیمار پڑ گیا ہو، کیا اْس کی ماں اْسے یہ کہے گی: ”مَیں جانتی ہوں کہ بھوت اصل میں ہوتے ہیں۔ وہ وجود رکھتے ہیں، اور اْن سے ڈرنا چاہئے؛ مگر تمہیں اْن سے نہیں ڈرنا چاہئے“؟

بچوں کو، بالغوں کی طرح، اْس حقیقت سے ڈرنا چاہئے جو انہیں نقصان دے سکتی ہے اور جسکی اْنہیں سمجھ نہیں ہے، کیونکہ وہ کسی بھی لمحے اِس کے بے بس شکار بن سکتے ہیں،بلکہ یہ بتاتے ہوئے کہ بھوت حقیقی، بے رحم اور طاقتور ہوتے ہیں اور اْن کے بچگانہ خوف کو زیادہ ہوا دیتے ہوئے اْن کے خدشات کو بڑھانے کی بجائے بچوں کو اِس بات کا یقین دلایا جائے کہ اْن کا خوف بے بنیاد ہے، کہ بھوت حقیقی نہیں ہیں، بلکہ وہ روایتی عقائد ہیں جو غلط اور خودانسان کے بنائے ہوئے ہیں۔

5. 352 : 12-25

Would a mother say to her child, who is frightened at imaginary ghosts and sick in consequence of the fear: "I know that ghosts are real. They exist, and are to be feared; but you must not be afraid of them"?

Children, like adults, ought to fear a reality which can harm them and which they do not understand, for at any moment they may become its helpless victims; but instead of increasing children's fears by declaring ghosts to be real, merciless, and powerful, thus watering the very roots of childish timidity, children should be assured that their fears are groundless, that ghosts are not realities, but traditional beliefs, erroneous and man-made.

6۔ 353 :1۔6، 13۔24

مسیحی لحاظ سے سائنسی حقیقت حسی طور پر غیر حقیقت ہے۔ گناہ، بیماری، جو کچھ بھی مادی حس کو حقیقی دکھائی دیتا ہے، وہ الٰہی سائنس میں غیر حقیقی ہے۔جسمانی حواس اور سائنس ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے، جب تک جسمانی حواس کی گواہی مکمل طور پر کرسچن سائنس کو قبول نہیں کر لیتی۔

اِس دو ر نے مکمل طور پر بھوتوں سے متعلق عقائد کے فہم کو نہیں سمجھا ہے۔یہ ابھی بھی تھوڑا بہت اِسے مانتا ہے۔ وقت ابھی ابدیت، لافانیت مکمل حقیقت تک نہیں پہنچا۔ سبھی حقیقت ابدی ہے۔ کاملیت حقیقت کو عیاں کرتی ہے۔ کاملیت کے بِنا کچھ بھی مکمل طور پر حقیقی نہیں ہے۔ جب تک کاملیت ظاہر نہیں ہوتی اور حقیقت تک نہیں پہنچتی سبھی چیزیں غائب ہونا جاری رہیں گی۔ ہمیں ہر مقام پر بھوت پریت سے متعلق باتوں کو ترک کرنا چاہئے۔ ہمیں توہم پرستی کے کچھ ہونے کو تسلیم کرنا جاری نہیں رکھنا چاہئے، بلکہ ہمیں اِس کے تمام عقائد پر غور کرنا چاہئے اور عقلمند بننا چاہئے۔جب ہم یہ سیکھتے ہیں کہ غلطی حقیقت نہیں ہے، ہم ترقی کے لئے تیار ہو جائیں گے، ”جو چیزیں پیچھے رہ گئیں اْن کو بھول کر۔“

6. 353 : 1-6, 13-24

The Christianly scientific real is the sensuous unreal. Sin, disease, whatever seems real to material sense, is unreal in divine Science. The physical senses and Science have ever been antagonistic, and they will so continue, till the testimony of the physical senses yields entirely to Christian Science.

The age has not wholly outlived the sense of ghostly beliefs. It still holds them more or less. Time has not yet reached eternity, immortality, complete reality. All the real is eternal. Perfection underlies reality. Without perfection, nothing is wholly real. All things will continue to disappear, until perfection appears and reality is reached. We must give up the spectral at all points. We must not continue to admit the somethingness of superstition, but we must yield up all belief in it and be wise. When we learn that error is not real, we shall be ready for progress, "forgetting those things which are behind."

7۔ 130 :7۔14

اْس الٰہی سائنس سے متعلق بے ایمانی سے بات کرنا فضول ہے جو تمام مخالفت کو نیست کرتی ہے جب آپ سائنس کی حقیقت کو ظاہر کرسکتے ہیں۔اگر حقیقت خدا، الٰہی اصول، کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں ہے تو شک کرنا بے وقوفی ہوگا، اگر سائنس، جب سمجھی جائے اور ظاہر کی جائے، ساری مخالفت کو نیست کرتی ہے، چونکہ آپ قبول کرلیتے ہیں کہ خدا قادر مطلق ہے؛ کیونکہ اِس بنیاد پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اچھائی اور اِس کی شیریں مخالفتوں میں تمام قدرت پائی جاتی ہے۔

7. 130 : 7-14

It is vain to speak dishonestly of divine Science, which destroys all discord, when you can demonstrate the actuality of Science. It is unwise to doubt if reality is in perfect harmony with God, divine Principle, — if Science, when understood and demonstrated, will destroy all discord, — since you admit that God is omnipotent; for from this premise it follows that good and its sweet concords have all-power.

8۔ 472 :24 (تمام)۔3

خدا اور اْس کی تخلیق میں پائی جانے والی ساری حقیقت ہم آہنگ اور ابدی ہے۔ جو کچھ وہ بناتا ہے اچھا بناتا ہے، اور جو کچھ بنا ہے اْسی نے بنایاہے۔ اس لئے گناہ، بیماری اور موت کی حقیقت یہ ہولناک اصلیت ہے کہ غیر واقعیات انسانی غلط عقائد کو تب تک حقیقی دکھائی دیتے ہیں جب تک کہ خدا اْن کے بہروپ کو اتار نہیں دیتا۔وہ سچ نہیں ہیں کیونکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہیں۔ کرسچن سائنس میں ہم سیکھتے ہیں مادی سوچ یا جسم کی تمام خارج از آہنگی فریب نظری ہے جو اگرچہ حقیقی اور یکساں دکھائی دیتی ہے لیکن وہ نہ حقیقت کی نہ ہی یکسانیت کی ملکیت رکھتی ہے۔

8. 472 : 24 (All)-3

All reality is in God and His creation, harmonious and eternal. That which He creates is good, and He makes all that is made. Therefore the only reality of sin, sickness, or death is the awful fact that unrealities seem real to human, erring belief, until God strips off their disguise. They are not true, because they are not of God. We learn in Christian Science that all inharmony of mortal mind or body is illusion, possessing neither reality nor identity though seeming to be real and identical.

9۔ 403 :14۔23

اگر آپ یہ سمجھ جائیں کہ یہ فانی وجود خود کار فریب ہے اور حقیقی نہیں ہے تو آپ صورت حال پر قابو پا لیتے ہیں۔فانی فہم متواتر طور پر فانی جسم کے لئے غلط آراء کے نتائج کو جنم دیتا ہے؛ اور یہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک حق فانی غلطی کو اس کی فرضی توانائیوں سے برطرف نہیں کرتا، جو فانی فریب کے ہلکے سے جالے کو صاف کر دیتا ہے۔ اکثر مسیحیوں کی حالت راستی اور روحانی فہم والی ہوتی ہے، اور یہ بیماروں کی شفا کے لئے بہترین تصرف ہے۔

9. 403 : 14-23

You command the situation if you understand that mortal existence is a state of self-deception and not the truth of being. Mortal mind is constantly producing on mortal body the results of false opinions; and it will continue to do so, until mortal error is deprived of its imaginary powers by Truth, which sweeps away the gossamer web of mortal illusion. The most Christian state is one of rectitude and spiritual understanding, and this is best adapted for healing the sick.

10۔ 495 :14۔24

جب بیماری یا گناہ کا بھرم آپ کو آزماتا ہے تو خدا اور اْس کے خیال کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ منسلک رہیں۔ اْس کے مزاج کے علاوہ کسی چیز کو آپ کے خیال میں قائم ہونے کی اجازت نہ دیں۔ کسی خوف یا شک کو آپ کے اس واضح اورمطمین بھروسے پر حاوی نہ ہونے دیں کہ پہچانِ زندگی کی ہم آہنگی، جیسے کہ زندگی ازل سے ہے، اس چیز کے کسی بھی درد ناک احساس یا یقین کو تبا ہ کر سکتی ہے جو زندگی میں ہے ہی نہیں۔جسمانی حس کی بجائے کرسچن سائنس کو ہستی سے متعلق آپ کی سمجھ کی حمایت کرنے دیں، اور یہ سمجھ غلطی کو سچائی کے ساتھ اکھاڑ پھینکے گی، فانیت کوغیر فانیت کے ساتھ تبدیل کرے گی، اور خاموشی کی ہم آہنگی کے ساتھ مخالفت کرے گی۔

10. 495 : 14-24

When the illusion of sickness or sin tempts you, cling steadfastly to God and His idea. Allow nothing but His likeness to abide in your thought. Let neither fear nor doubt overshadow your clear sense and calm trust, that the recognition of life harmonious — as Life eternally is — can destroy any painful sense of, or belief in, that which Life is not. Let Christian Science, instead of corporeal sense, support your understanding of being, and this understanding will supplant error with Truth, replace mortality with immortality, and silence discord with harmony.

11۔ 480 :26۔6

بائبل بیان کرتی ہے: ”سب چیزیں اْس (الٰہی کلام) کے وسیلہ پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا اْس میں سے کوئی چیز بھی اْس کے بغیر پیدا نہ ہوئی۔“یہ الٰہی سائنس کی ابدی حقیقت ہے۔اگر گناہ، بیماری اور موت کو عدم کے طور پر سمجھا جائے تو وہ غائب ہو جائیں گے۔ جیسا کہ بخارات سورج کے سامنے پگھل جاتے ہیں، اسی طرح بدی اچھائی کی حقیقت کے سامنے غائب ہوجائے گی۔ ایک نے دوسری کو لازمی چھپا دینا ہے۔ تو پھر اچھائی کو بطور حقیقت منتخب کرنا کس قدر اہم ہے! انسان خدا، روح کا معاون ہے اور کسی کا نہیں۔ خدا کا ہونا لامتناہی، آزادی، ہم آہنگی اور بے پناہ فرحت کا ہونا ہے۔ ”جہاں کہیں خداوند کا روح ہے وہاں آزادی ہے۔“ یور کے آرچ کاہن کی مانند، انسان ”پاک ترین مقام میں داخل ہونے“ کے لئے آزاد ہے، یعنی خدا کی سلطنت میں۔

11. 480 : 26-6

The Bible declares: "All things were made by Him [the divine Word]; and without Him was not anything made that was made." This is the eternal verity of divine Science. If sin, sickness, and death were understood as nothingness, they would disappear. As vapor melts before the sun, so evil would vanish before the reality of good. One must hide the other. How important, then, to choose good as the reality! Man is tributary to God, Spirit, and to nothing else. God's being is infinity, freedom, harmony, and boundless bliss. "Where the Spirit of the Lord is, there is liberty." Like the archpriests of yore, man is free "to enter into the holiest," — the realm of God.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████