اتوار 30 جون ، 2019



مضمون۔ کرسچن سائنس

SubjectChristian Science

سنہری متن:سنہری متن: پیدائش 1باب3، 4آیات

’’اور خدا نے کہا روشنی ہو اور روشنی ہو گئی۔ اور خدا نے کہا کہ روشنی اچھی ہے۔‘‘



Golden Text: Genesis 1 : 3, 4

And God said, Let there be light: and there was light. And God saw the light, that it was good.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: یسعیاہ 60باب1تا4، 19تا21آیات


1۔اُٹھ منور ہو کیونکہ تیرانور آگیا اور خدا وند کا جلال تجھ پر ظاہر ہوا۔

2۔ کیونکہ دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائے گی اور تیرگی اُمتوں پر لیکن خداوند تجھ پر طالع ہو گیا اور اُس کا جلال تجھ پر نمایاں ہو گا۔

3۔ اور قومیں تیری روشنی کی طرف آئیں گی اور سلاطین تیرے طلوع کی تجلی میں چلیں گے

4۔ اپنی آنکھیں اُٹھا کر چاروں طرف دیکھ۔وہ سب کے سب اکٹھے ہوتے ہیں اور تیرے پاس آتے ہیں۔تیرے بیٹے دور سے آئیں گے اور تیری بٹیوں کو گود میں اٹھا کر لائیں گے۔

19۔ پھر تیری روشنی نہ دن کوسورج سے ہو گی نہ چاند کے چمکنے سے بلکہ خداوند تیراابدی نور اور تیرا خدا تیراجلال ہو گا

20۔ تیرا سورج پھر کھبی نہ ڈھلے گا اور تیرے چاند کو زوال نہ ہو گا کیونکہ تیرا خداوند تیرا ابدی نور ہوگااور تیرے ماتم کے دن ختم ہوجائیں گے

21۔ اور تیرے لوگ سب کے سب راستباز ہوں گے۔وہ ابد تک ملک کے وارث ہوں گے یعنی میری لگائی ہوئی شاخ اور میری دست کاری ٹھہریں گے تاکہ میرا جلال ظاہر ہو

Responsive Reading: Isaiah 60 : 1-4, 19-21

1.     Arise, shine; for thy light is come, and the glory of the Lord is risen upon thee.

2.     For, behold, the darkness shall cover the earth, and gross darkness the people: but the Lord shall arise upon thee, and his glory shall be seen upon thee.

3.     And the Gentiles shall come to thy light, and kings to the brightness of thy rising.

4.     Lift up thine eyes round about, and see: all they gather themselves together, they come to thee: thy sons shall come from far, and thy daughters shall be nursed at thy side.

19.     The sun shall be no more thy light by day; neither for brightness shall the moon give light unto thee: but the Lord shall be unto thee an everlasting light, and thy God thy glory.

20.     Thy sun shall no more go down; neither shall thy moon withdraw itself: for the Lord shall be thine everlasting light, and the days of thy mourning shall be ended.

21.     Thy people also shall be all righteous: they shall inherit the land for ever, the branch of my planting, the work of my hands, that I may be glorified.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ یوحنا 1باب1تا5آیات

1۔ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا تھا۔

2۔یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔

3۔ سب چیزیں اْس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا اْس میں سے کوئی چیز بھی اْس کے بغیر پیدا نہ ہوئی۔

4۔ اْس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔

5۔ اور نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اْسے قبول نہ کیا۔

1. John 1 : 1-5

1     In the beginning was the Word, and the Word was with God, and the Word was God.

2     The same was in the beginning with God.

3     All things were made by him; and without him was not any thing made that was made.

4     In him was life; and the life was the light of men.

5     And the light shineth in darkness; and the darkness comprehended it not.

2۔ 119زبور، 18آیت

18۔ میری آنکھیں کھول دے تاکہ میں تیری شریعت کے عجائب دیکھوں۔

2. Psalm 119 : 18

18     Open thou mine eyes, that I may behold wondrous things out of thy law.

3۔ 36زبور، 5تا9آیات

5۔ اے خداوند! آسمان میں تیری شفقت ہے۔ تیری وفاداری افلاک تک بلند ہے

6۔ تیری صداقت خدا کے پہاڑوں کی مانند ہے تیرے احکام نہایت عمیق ہیں۔ اے خداوند! تْو انسان اور حیوان دونوں کو محفوظ رکھتا ہے۔

7۔ اے خدا! تیری شفقت کیا ہی بیش قیمت ہے بنی آدم تیرے بازوؤں کے سایہ میں پناہ لیتے ہیں۔

8۔ وہ تیرے گھرکی نعمتوں سے خوب آسودہ ہوں گے۔ تْو اْن کو اپنی خوشنودی کے دریا میں سے پلائے گا۔

9۔ کیونکہ زندگی کا چشمہ تیرے پاس ہے۔ تیرے نور کی بدولت ہم روشنی دیکھیں گے۔

3. Psalm 36 : 5-9

5     Thy mercy, O Lord, is in the heavens; and thy faithfulness reacheth unto the clouds.

6     Thy righteousness is like the great mountains; thy judgments are a great deep: O Lord, thou preservest man and beast.

7     How excellent is thy lovingkindness, O God! therefore the children of men put their trust under the shadow of thy wings.

8     They shall be abundantly satisfied with the fatness of thy house; and thou shalt make them drink of the river of thy pleasures.

9     For with thee is the fountain of life: in thy light shall we see light.

4۔ متی 8باب 5تا10، 13آیات

5۔اور جب وہ کفرنحوم میں داخل ہوا تو ایک صوبہ دار اس کے پاس آیا اور اس کی منت کر کے کہا۔

6۔ اے خداوند میرا خادم فالج کا مارا گھر میں پڑا ہے اور نہایت تکلیف میں ہے۔

7۔ اس نے اس سے کہا میں آ کر اس کو شفا دوں گا۔

8۔ صوبہ دار نے جواب میں کہا اے خداوند میں اس لائق نہیں کہ تو میری چھت کے نیچے آئے بلکہ صرف زبان سے کہہ دے تو میرا خادم شفا پا جائے گا۔

9۔ کیونکہ میں بھی دوسرے کے اختیار میں ہوں اور سپاہی میرے ماتحت ہیں اور جب ایک سے کہتا ہوں کہ جا تو وہ جاتا ہے اور دوسرے سے کہ آ تو وہ آتا ہے اور اپنے نوکر سے کہ یہ کر تو وہ کرتا ہے۔

10۔ یسوع نے یہ سن کر تعجب کیا اورپیچھے آنے والوں سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں نے اسرائیل میں بھی ایسا ایمان نہیں پایا۔

13۔ اور یسوع نے صوبہ دار سے کہا جا جیسا تونے اعتقاد کیا تیرے لئے ویسا ہی ہو اور اسی گھڑی خادم نے شفا پائی۔

4. Matthew 8 : 5-10, 13

5     And when Jesus was entered into Capernaum, there came unto him a centurion, beseeching him,

6     And saying, Lord, my servant lieth at home sick of the palsy, grievously tormented.

7     And Jesus saith unto him, I will come and heal him.

8     The centurion answered and said, Lord, I am not worthy that thou shouldest come under my roof: but speak the word only, and my servant shall be healed.

9     For I am a man under authority, having soldiers under me: and I say to this man, Go, and he goeth; and to another, Come, and he cometh; and to my servant, Do this, and he doeth it.

10     When Jesus heard it, he marvelled, and said to them that followed, Verily I say unto you, I have not found so great faith, no, not in Israel.

13     And Jesus said unto the centurion, Go thy way; and as thou hast believed, so be it done unto thee. And his servant was healed in the selfsame hour.

5۔ یوحنا 3باب16تا21آیات

16۔ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اْس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اْس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

17۔ کیونکہ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اْس کے وسیلہ سے نجات پائے۔

18۔ جو اْس پر ایمان لاتا ہے اْس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا۔ جو اْس پر ایمان نہیں لاتا اْس پر سزا کا حکم ہو چکا۔ اس لئے کہ وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہیں لایا۔

19۔ اور سزا کے حکم کا سبب یہ ہے کہ نور دنیا میں آیا ہے اور آدمیوں نے تاریکی کو نور سے زیادہ پسند کیا۔ اس لئے کہ اْن کے کام بْرے تھے۔

20۔ کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آتا۔ ایسا نہ ہو کہ اْس کے کاموں پر ملامت کی جائے۔

21۔ مگر جو سچائی پر عمل کرتا ہے وہ نور کے پاس آتا ہے تاکہ اْس کے کام ظاہر ہوں کہ وہ خدا میں کئے گئے ہیں۔

5. John 3 : 16-21

16     For God so loved the world, that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but have everlasting life.

17     For God sent not his Son into the world to condemn the world; but that the world through him might be saved.

18     He that believeth on him is not condemned: but he that believeth not is condemned already, because he hath not believed in the name of the only begotten Son of God.

19     And this is the condemnation, that light is come into the world, and men loved darkness rather than light, because their deeds were evil.

20     For every one that doeth evil hateth the light, neither cometh to the light, lest his deeds should be reproved.

21     But he that doeth truth cometh to the light, that his deeds may be made manifest, that they are wrought in God.

6۔ یوحنا 8باب12آیت

12۔ یسوع نے پھر اْن سے مخاطب ہوکر کہا کہ دنیا کا نور میں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔

6. John 8 : 12

12     Then spake Jesus again unto them, saying, I am the light of the world: he that followeth me shall not walk in darkness, but shall have the light of life.

7۔ یوحنا 14باب12تا18آیات

12۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گاکیونکہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں۔

13۔ اور جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے میں وہی کروںگا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔

14۔ اگر میرے نام سے مجھ سے مانگو گے تو میں وہی کروں گا۔

15۔ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہوتو میرے حکموں پر عمل کرو۔

16۔ اور مَیں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔

17۔ یعنی روحِ حق جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ نہ اْسے دیکھتی ہے اور نہ جانتی ہے۔ تم اْسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہوگا۔

18۔ مَیں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا۔ میں تمہارے پاس آؤں گا۔

7. John 14 : 12-18

12     Verily, verily, I say unto you, He that believeth on me, the works that I do shall he do also; and greater works than these shall he do; because I go unto my Father.

13     And whatsoever ye shall ask in my name, that will I do, that the Father may be glorified in the Son.

14     If ye shall ask any thing in my name, I will do it.

15     If ye love me, keep my commandments.

16     And I will pray the Father, and he shall give you another Comforter, that he may abide with you for ever;

17     Even the Spirit of truth; whom the world cannot receive, because it seeth him not, neither knoweth him: but ye know him; for he dwelleth with you, and shall be in you.

18     I will not leave you comfortless: I will come to you.

8۔ مکاشفہ 1باب1(تا؛) آیت

1۔ یسوع مسیح کا مکاشفہ جو اْسے خدا کی طرف سے اس لئے ظاہر ہوا کہ اپنے بندوں کو وہ باتیں دکھائے جن کا جلد ہونا ضرور ہے۔

8. Revelation 1 : 1 (to ;)

1     The Revelation of Jesus Christ, which God gave unto him, to shew unto his servants things which must shortly come to pass;

9۔ مکاشفہ 21باب1تا4آیات

21۔ پھر میں نے ایک نیا آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔

22۔ پھر میں نے شہرِ مقدس نئے یروشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اْترتے دیکھا اور وہ اْس دلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کے لئے شنگھار کیا ہو۔

23۔ پھر میں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سْنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اْن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اْس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اْن کے ساتھ رہے گا اور اْن کا خدا ہوگا۔

24۔ اور وہ اْن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اس کے بعد نہ موت رہے گی نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔

9. Revelation 21 : 1-4

1     And I saw a new heaven and a new earth: for the first heaven and the first earth were passed away; and there was no more sea.

2     And I John saw the holy city, new Jerusalem, coming down from God out of heaven, prepared as a bride adorned for her husband.

3     And I heard a great voice out of heaven saying, Behold, the tabernacle of God is with men, and he will dwell with them, and they shall be his people, and God himself shall be with them, and be their God.

4     And God shall wipe away all tears from their eyes; and there shall be no more death, neither sorrow, nor crying, neither shall there be any more pain: for the former things are passed away.

10۔ مکاشفہ 22باب16، 17آیات

16۔ مجھ یسوع نے اپنا فرشتہ اس لئے بھیجا کہ کلیسیاؤں کے بارے میں تمہارے آگے اِن باتوں کی گواہی دے۔ میں داؤد کی اصل و نسل اور صبح کا چمکتا ہوا ستارہ ہوں۔

17۔ اور روح اور دلہن کہتی ہے آ، اور سننے والا بھی کہے آ۔ اور جو پیاسا ہو وہ آئے اور جو کوئی چاہے آبِ حیات مفت لے۔

10. Revelation 22 : 16, 17

16     I Jesus have sent mine angel to testify unto you these things in the churches. I am the root and the offspring of David, and the bright and morning star.

17     And the Spirit and the bride say, Come. And let him that heareth say, Come. And let him that is athirst come. And whosoever will, let him take the water of life freely.



سائنس اور صح


1۔ 554: 1 (کرسچن)۔4

۔۔۔کرسچن سائنس یہ ظاہر کرتی ہے جو ”آنکھ نے نہیں دیکھا“، حتیٰ کہ جو کچھ وجود ہے اْس کی وجہ کو بھی۔ کیونکہ کائنات، بشمول انسان، اتنی ہی ابدی ہے جتنا کہ خدا ہے، جو اس کا الٰہی لافانی اصول ہے۔

1. 554 : 1 (Christian)-4

…Christian Science reveals what “eye hath not seen,” — even the cause of all that exists, — for the universe, inclusive of man, is as eternal as God, who is its divine immortal Principle.

2۔ 510: 27۔4

روشی عقل، زندگی، سچائی اور محبت کی علامت ہے نہ کہ مادے کے اثاثے میں روح پھونکنے کی۔ سائنس صرف ایک عقل کو ظاہر کرتی ہے اور یہ خود کی روشنی سے منور ہوتے ہوئے اور کائنات پر، بشمول انسان، حکومت کرتے ہوئے کامل ہم آہنگی رکھتا ہے۔ یہ عقل خیالات اور خود کی تصویروں کو تشکیل دیتی، اْن کی مستعار لی ہوئی روشنی اور ذہانت کی ذیلی تقسیم کرتی اور انہیں درخشاں کرتی ہے، اور یوں کلام کے اس فقرے کو واضح کرتی ہے کہ، ”جو اپنے آپ میں ہی بیج رکھیں۔“

2. 510 : 27-4

Light is a symbol of Mind, of Life, Truth, and Love and not a vitalizing property of matter. Science reveals only one Mind, and this one shining by its own light and governing the universe, including man, in perfect harmony. This Mind forms ideas, its own images, subdivides and radiates their borrowed light, intelligence, and so explains the Scripture phrase, “whose seed is in itself.”

3۔ 313: 23۔26

یسوع ناصری دنیا میں قدم رکھنے والا سب سے زیادہ سائنسی شخص تھا۔ اْس نے مادی چیزوں کے نیچے غوطہ لگایا اور روحانی وجہ کو پایا۔

3. 313 : 23-26

Jesus of Nazareth was the most scientific man that ever trod the globe. He plunged beneath the material surface of things, and found the spiritual cause.

4۔ 315:6۔10، 32۔11

وہ صرف ایک عقل سے واقف تھا اور کسی دوسرے پر اْس نے کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ وہ جانتا تھا کہ انا عقل تھی نہ کہ بدن تھا اور یہ کہ مادا، گناہ اور بدی عقل نہیں تھے؛ اور الٰہی سائنس کا یہ فہم اْس پر زمانے کی پھٹکار لانے کا موجب بنا۔

الٰہی سائنس کا انداز واضح کرتے اور ظاہر کرتے ہوئے، وہ اْن سب کے لئے نجات کی راہ بن گیا جنہوں نے اْس کا کلام قبول کیا۔ اْسی سے بشر یہ سیکھ سکتے ہیں کہ بدی سے کیسے بچا جائے۔ انسان کی اصل ہستی اْس کے بنانے والے کی سائنس سے منسلک ہے، اْس مسیح، جو حقیقی انسان ہے، اْس کو اور خدا کے ساتھ اْس کے تعلق کو پانے اور الٰہی فرزندی کے لئے انسانوں کو گناہ سے دور رہنے اور فانی خودی سے نظر چرانے کی ضرورت ہے۔ مسیح، سچائی یسوع کے وسیلہ ظاہر کیا گیا تاکہ بدن پر روح کی قوت کو ثابت کر سکے، اور یہ دکھانے کے لئے کہ بیماری سے شفا دیتے ہوئے اور گناہ کو نیست کرتے ہوئے، سچائی کا اظہارانسانی عقل اور بدن پراس کے اثرات کے وسیلہ ہوتا ہے۔

4. 315 : 6-10, 32-11

He knew of but one Mind and laid no claim to any other. He knew that the Ego was Mind instead of body and that matter, sin, and evil were not Mind; and his understanding of this divine Science brought upon him the anathemas of the age.

Explaining and demonstrating the way of divine Science, he became the way of salvation to all who accepted his word. From him mortals may learn how to escape from evil. The real man being linked by Science to his Maker, mortals need only turn from sin and lose sight of mortal selfhood to find Christ, the real man and his relation to God, and to recognize the divine sonship. Christ, Truth, was demonstrated through Jesus to prove the power of Spirit over the flesh, — to show that Truth is made manifest by its effects upon the human mind and body, healing sickness and destroying sin.

5۔ 107:1۔14

سن1866میں، میں نے کرسچن سائنس یا زندگی، سچائی اور محبت کے الٰہی قوانین کو دریافت کیا اور اپنی اس دریافت کو کرسچن سائنس کا نام دیا۔ خدا نہایت شاندار انداز سے مجھے سائنسی ذہنی شفا کے مطلق الٰہی اصول کے اس آخری مکاشفہ کے استقبالیہ کے لئے تیار کرہا تھا۔

یہ صریحی اصول اعمانوئیل، ”خدا ہمارے ساتھ ہے“، ازلی حاکم، کے مکاشفہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، ابنِ آدم کو ہر اْس بیماری سے آزاد کرتے ہوئے ’’جو بدن کی میراث ہے“۔کرسچن سائنس کے وسیلہ، مذہب اور دوا الٰہی فطرت اور جوہر کے ساتھ الہامی بنائے جاتے ہیں، ایمان اور فہم کو تازہ پنکھ دیئے جاتے ہیں، اور خیالات عقلمندانہ طور پر خود کو خدا کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔

5. 107 : 1-14

IN the year 1866, I discovered the Christ Science or divine laws of Life, Truth, and Love, and named my discovery Christian Science. God had been graciously preparing me during many years for the reception of this final revelation of the absolute divine Principle of scientific mental healing.

This apodictical Principle points to the revelation of Immanuel, God with us,” — the sovereign ever-presence, delivering the children of men from every ill “that flesh is heir to.” Through Christian Science, religion and medicine are inspired with a diviner nature and essence; fresh pinions are given to faith and understanding, and thoughts acquaint themselves intelligently with God.

6۔ 293:28۔31

کرسچن سائنس سچائی اور اس کی عظمت، عالمگیر ہم آہنگی، خدا، اچھائی کی کلیت اور بدی کے عدم کو روشنی میں لاتی ہے۔

6. 293 : 28-31

Christian Science brings to light Truth and its supremacy, universal harmony, the entireness of God, good, and the nothingness of evil.

7۔ 504:12 (یہاں)۔14

۔۔۔ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں خدا کا نور نہیں دیکھا جا تا،کیونکہ سچائی، زندگی اور محبت کثرت کو بھرپور کرتے اور ازلی ہیں۔

7. 504 : 12 (there)-14

…there is no place where God’s light is not seen, since Truth, Life, and Love fill immensity and are ever-present.

8۔ 10: 22۔25

شفا کا الٰہی اصول سچائی کے کسی بھی ایماندار متلاشی کے ذاتی تجربے سے ثابت ہوجاتا ہے۔ اس کا مقصد اچھا ہے، اور اسکی مشق کسی بھی دوسرے صفائی کے طریقہ کار سے زیادہ محفوظ اور زیادہ طاقتور ہے۔

8. x : 22-25

The divine Principle of healing is proved in the personal experience of any sincere seeker of Truth. Its purpose is good, and its practice is safer and more potent than that of any other sanitary method.

9۔ 11: 9۔21

کرسچن سائنس کی جسمانی شفا الٰہی اصول کے کام سے اب، یسوع کے زمانے کی طرح، سامنے آتی ہے، جس سے قبل گناہ اور بیماری انسانی شعور میں اپنی حقیقت کھو دیتے ہیں اور ایسے فطری اور لازمی طور پر غائب ہو جاتے ہیں جیسے تاریکی روشنی کو اور گناہ درستگی کو جگہ دیتے ہیں۔ اْس وقت کی طرح، اب بھی یہ قادر کام مافوق الفطرتی نہیں بلکہ انتہائی فطرتی ہیں۔ یہ اعمانوئیل، یا ”خدا ہمارے ساتھ ہے“ کا نشان ہیں، ایک الٰہی اثر جو انسانی شعور میں ہمیشہ سے موجود ہے اور خود کو دوہراتے ہوئے، ابھی آرہا ہے جیسے کہ ماضی میں اس کا وعدہ کیا گیا تھاکہ،

(شعور کے)قیدیوں کو رہائی

اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر پانے کے لئے

اور کچلے ہوؤں کو آزاد کرنے کے لئے

9. xi : 9-21

The physical healing of Christian Science results now, as in Jesus’ time, from the operation of divine Principle, before which sin and disease lose their reality in human consciousness and disappear as naturally and as necessarily as darkness gives place to light and sin to reformation. Now, as then, these mighty works are not supernatural, but supremely natural. They are the sign of Immanuel, or “God with us,” — a divine influence ever present in human consciousness and repeating itself, coming now as was promised aforetime,

To preach deliverance to the captives [of sense],

And recovering of sight to the blind,

To set at liberty them that are bruised.

10۔ 323: 32۔6

ایک چھوٹے بچے کی مانند بننے کی خواہش اور نئی سوچ کے لئے پرانی کو ترک کرنا اْس دانش کو جنم دیتا ہے جو جدید نظریے کو قبول کرنے والی ہو۔ غلط نشانیوں کو چھوڑنے کی خوشی اور انہیں غائب ہوتے دیکھنے کی شادمانی، یہ ترغیب مکمل ہم آہنگی کو تیزی سے عمل میں لانے میں مدد دیتی ہے۔سمجھ اور خودکی پاکیزگی ترقی کا ثبوت ہے۔ ”مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں؛ کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔“

10. 323 : 32-6

Willingness to become as a little child and to leave the old for the new, renders thought receptive of the advanced idea. Gladness to leave the false landmarks and joy to see them disappear, — this disposition helps to precipitate the ultimate harmony. The purification of sense and self is a proof of progress. “Blessed are the pure in heart: for they shall see God.”

11۔ 572: 19۔22

مکاشفہ 21باب1آیت میں ہم پڑھتے ہیں:

پھر میں نے ایک نیا آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔

11. 572 : 19-22

In Revelation xxi. 1 we read: —

And I saw a new heaven and a new earth: for the first heaven and the first earth were passed away; and there was no more sea.

12۔ 573:3۔2

انکشاف کرنے والا ہماری وجودیت کی جگہ پر تھا، جبکہ وہ دیکھتے ہوئے جو آنکھ نہیں دیکھ سکتی، جو غیر الہامی سوچ کے لئے غیر حاضر ہے۔ مقدس تحریر کی یہ گواہی سائنس کی اس حقیقت کو قائم رکھتی ہے، کہ آسمان اور زمین ایک انسانی شعور، یعنی وہ شعور جو خدا عطا کرتا ہے، اْس کے لئے روحانی ہے، جبکہ دوسرے شعور، غیر روشن انسانی عقل، کے لئے بصیرت مادی ہے۔ بلاشبہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جسے انسانی عقل مادے اور روح کی اصطلاح دیتی ہے اور وہ شعور کے مراحل اور حالتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اس سائنسی شعور کے ہمراہ ایک اور مکاشفہ تھا، حتیٰ کہ آسمان کی طرف سے اعلان، اعلیٰ ہم آہنگی، کہ خدا،ہم آہنگی کا الٰہی اصول ہمیشہ انسان کے ساتھ ہے، اور وہ اْس کے لوگ ہیں۔ پس انسان کو مزید قابل رحم گناہگار کے طور پر نہیں سمجھا گیا بلکہ خدا کا بابرکت فرزند سمجھا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ آسمان اور زمین سے متعلق مقدس یوحنا کی جسمانی حس غائب ہو چکی تھی، اور اس جھوٹی حس کی جگہ روحانی حس آگئی تھی، جو ایسی نفسی حالت تھی جس کے وسیلہ وہ نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھ سکتاتھا، جس میں روحانی خیال اور حقیقت کا شعور شامل ہے۔ یہ کلام کا اختیار یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے تھا کہ ہستی کی ایسی شناخت اس وجودیت کی موجودہ حالت میں انسان کے لئے ممکن ہے اور رہی تھی، کہ ہم موت، دْکھ اور درد کے آرام سے یہاں اور ابھی باخبر ہو سکتے ہیں۔ یہ قطعی کرسچن سائنس کی چاشنی ہے۔ برداشت کرنے والے عزیزو، حوصلہ کریں، کیونکہ ہستی کی یہ حقیقت یقینا کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں سامنے آئے گی۔ کوئی درد نہیں ہوگا، اور سب آنسو پونچھ دئیے جائیں گے۔ جب آپ یہ پڑھیں تو یسوع کے ان الفاظ کو یاد رکھیں، ”خدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے۔“اسی لئے یہ روحانی شعور موجودہ امکان ہے۔

12. 573 : 3-2

The Revelator was on our plane of existence, while yet beholding what the eye cannot see, — that which is invisible to the uninspired thought. This testimony of Holy Writ sustains the fact in Science, that the heavens and earth to one human consciousness, that consciousness which God bestows, are spiritual, while to another, the unillumined human mind, the vision is material. This shows unmistakably that what the human mind terms matter and spirit indicates states and stages of consciousness.

Accompanying this scientific consciousness was another revelation, even the declaration from heaven, supreme harmony, that God, the divine Principle of harmony, is ever with men, and they are His people. Thus man was no longer regarded as a miserable sinner, but as the blessed child of God. Why? Because St. John’s corporeal sense of the heavens and earth had vanished, and in place of this false sense was the spiritual sense, the subjective state by which he could see the new heaven and new earth, which involve the spiritual idea and consciousness of reality. This is Scriptural authority for concluding that such a recognition of being is, and has been, possible to men in this present state of existence, — that we can become conscious, here and now, of a cessation of death, sorrow, and pain. This is indeed a foretaste of absolute Christian Science. Take heart, dear sufferer, for this reality of being will surely appear sometime and in some way. There will be no more pain, and all tears will be wiped away. When you read this, remember Jesus’ words, “The kingdom of God is within you.” This spiritual consciousness is therefore a present possibility.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████