اتوار 5جنوری، 2020



مضمون۔ خدا

SubjectGod

سنہری متن:سنہری متن: 1 سلاطین 19 باب 11، 12 آیات

’’اور دیکھو خداوند گزرا اور ایک بڑی تند آندھی نے خداوند کے آگے پہاڑوں کو چیر ڈالا اور پہاڑوں کے ٹکڑے کر دئیے پر خداوند آندھی میں نہیں تھا اور آندھی کے بعد زلزلہ آیا پر خداوند زلزلہ میں نہیں تھا۔ اور زلزلہ کے بعد آگ آئی پر خداوند آگ میں بھی نہیں تھا اور آگ کے بعد ایک دبی ہوئی ہلکی آواز آئی۔‘‘



Golden Text: I Kings 19 : 11, 12

And, behold, the Lord passed by, and a great and strong wind rent the mountains, and brake in pieces the rocks before the Lord; but the Lord was not in the wind: and after the wind an earthquake; but the Lord was not in the earthquake: And after the earthquake a fire; but the Lord was not in the fire: and after the fire a still small voice.





سبق کی آڈیو کے لئے یہاں کلک کریں

یوٹیوب سے سننے کے لئے یہاں کلک کریں

████████████████████████████████████████████████████████████████████████


جوابی مطالعہ: استثنا 4 باب 1، 29تا31، 36، 39 آیات


1۔ اور اب اے اسرائیلیو! جو آئین اور حکام میں تم کو سکھاتا ہوں تم اْن پر عمل کرنے کے لئے اْن کو سن لو تاکہ تم زندہ رہو اور اْس ملک میں جسے تمہارے باپ دادا کا خدا تمہیں دیتا ہے داخل ہو کر اْس پر قبضہ کر لو۔

29۔ وہاں بھی اگر تم خداوند اپنے خدا کے طالب ہو تو وہ تجھ کو مل جائے گا بشرطیکہ تو اپنے پورے دل سے اور اپنی ساری جان سے اْسے ڈھونڈے۔

30۔ جب تو مصیبت میں پڑے گا اور یہ سب باتیں تجھ پر گزریں گی تو آخری دنوں میں تْو خداوند اپنے خدا کی طرف پھرے گا اور اْس کی مانے گا۔

31۔ (کیونکہ خداوند تیرا خدا رحیم خدا ہے)۔ وہ تجھ کو نہ چھوڑے گا اور نہ ہلاک کرے گا اور نہ اْس عہد کوبھولے گا جس کی قسم اْس نے تیرے باپ دادا سے کھائی ہے۔

36۔ اْس نے اپنی آواز آسمان میں سے تجھ کو سنائی تاکہ تجھ کو تربیت کرے۔

39۔ پس آج کے دن تْو جان لے اور اِس بات کو اپنے دل میں جما لے کہ اوپر آسمان میں او رنیچے زمین پر خداوند ہی خدا ہے اورکوئی دوسرا نہیں۔

Responsive Reading: Deuteronomy 4 : 1, 29-31, 36, 39

1.     Now therefore hearken, O Israel, unto the statutes and unto the judgments, which I teach you, for to do them, that ye may live, and go in and possess the land which the Lord God of your fathers giveth you.

29.     If from thence thou shalt seek the Lord thy God, thou shalt find him, if thou seek him with all thy heart and with all thy soul.

30.     When thou art in tribulation, and all these things are come upon thee, even in the latter days, if thou turn to the Lord thy God, and shalt be obedient unto his voice;

31.     (For the Lord thy God is a merciful God;) he will not forsake thee, neither destroy thee, nor forget the covenant of thy fathers which he sware unto them.

36.     Out of heaven he made thee to hear his voice, that he might instruct thee.

39.     Know therefore this day, and consider it in thine heart, that the Lord he is God in heaven above, and upon the earth beneath: there is none else.



درسی وعظ



بائبل


درسی وعظ

بائبل

1۔ زبور 46: 1تا3 (تا پہلا)، 6، 10آیات

1۔ خدا ہماری پناہ اور قوت ہے۔ مصیبت میں مْستعد مددگار۔

2۔ اِس لئے ہم کو کچھ خوف نہیں خواہ زمین اْلٹ جائے۔ اور پہاڑ سمندر کی تہہ میں ڈال دئیے جائیں۔

3۔ خواہ اْس کا پانی شور مچائے اور موجزن ہو اور پہاڑا ْس کی طْغیانی سے ہل جائیں۔

6۔ قومیں جھْنجھلائیں۔ سلطنتوں نے جنبش کھائی۔ وہ بول اٹھا۔ زمین پگھل گئی۔

10۔ خاموش ہو جاؤ اور جا ن لو کہ میں خدا ہوں۔ میں قوموں میں سربلند ہوں گا۔ میں ساری زمین پر سر بلند ہوں گا۔

1. Psalm 46 : 1-3 (to 1st .), 6, 10

1     God is our refuge and strength, a very present help in trouble.

2     Therefore will not we fear, though the earth be removed, and though the mountains be carried into the midst of the sea;

3     Though the waters thereof roar and be troubled, though the mountains shake with the swelling thereof.

6     The heathen raged, the kingdoms were moved: he uttered his voice, the earth melted.

10     Be still, and know that I am God: I will be exalted among the heathen, I will be exalted in the earth.

2۔ یسعیاہ 30 باب 15 (تا:)، 21 آیات

15۔ کیونکہ خدا یہواہ اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ واپس آنے اور خاموش بیٹھنے میں تمہاری سلامتی ہے۔ خاموشی اور توکل میں تمہاری قوت ہے۔

21۔ اور جب تْو دہنی یا بائیں طرف مڑے تو تیرے کان پیچھے سے یہ آواز سنیں گے کہ راہ یہی ہے اِس پر چل۔

2. Isaiah 30 : 15 (to :), 21

15     For thus saith the Lord God, the Holy One of Israel; In returning and rest shall ye be saved; in quietness and in confidence shall be your strength:

21     And thine ears shall hear a word behind thee, saying, This is the way, walk ye in it, when ye turn to the right hand, and when ye turn to the left.

3۔ خروج 20 باب 1، 2 آیات

1۔ اور خدا نے یہ سب باتیں اْن کو بتائیں۔

2۔ خداوند تیرا خدا جو تجھے ملک مصر سے غلامی کے گھر سے نکال لایا مَیں ہوں۔

3. Exodus 20 : 1, 2

1     And God spake all these words, saying,

2     I am the Lord thy God, which have brought thee out of the land of Egypt, out of the house of bondage.

4۔ خروج 23 باب 20 تا 26 آیات

20۔ دیکھ مَیں ایک فرشتہ تیرے آگے بھیجتا ہوں کہ راستے میں تیرا بگہبان ہو اور تجھے اْس جگہ پہنچا دے جسے میں نے تیار کیا ہے۔

21۔ تم اْس کے آگے ہوشیار رہنا اور اْس کی بات ماننا۔ اْسے ناراض نہ کرنا کیونکہ وہ تمہاری خطا نہیں بخشے گا اِس لئے کہ میرا نام اْس میں رہتا ہے۔

22۔ پر اگر تْو سچ مچ اْس کی بات مانے اور جو مَیں کہتا ہوں وہ سب کچھ کرے تو مَیں تیرے دشمنوں کا دشمن اور تیرے مخالفوں کا مخالف ہوں گا۔

23۔ اِس لئے کہ میرا فرشتہ تیرے آگے آگے چلے گا اور تجھے اموریوں اور حِتیوں اور فِرزیوں اور کنعانیوں اور حویوں اور یبوسیوں میں پہنچا دے گا اور میں اْن کو ہلاک کر ڈالوں گا۔

24۔ تْو اْن کے معبودوں کو سجدہ نہ کرنا نہ اْن کی عبادت کرنا نہ اْن کے سے کام کرنا بلکہ اْن کو بالکل الٹ دینا اور اْن کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنا۔

4. Exodus 23 : 20-26

20     Behold, I send an Angel before thee, to keep thee in the way, and to bring thee into the place which I have prepared.

21     Beware of him, and obey his voice, provoke him not; for he will not pardon your transgressions: for my name is in him.

22     But if thou shalt indeed obey his voice, and do all that I speak; then I will be an enemy unto thine enemies, and an adversary unto thine adversaries.

23     For mine Angel shall go before thee, and bring thee in unto the Amorites, and the Hittites, and the Perizzites, and the Canaanites, and the Hivites, and the Jebusites: and I will cut them off.

24     Thou shalt not bow down to their gods, nor serve them, nor do after their works: but thou shalt utterly overthrow them, and quite break down their images.

25     And ye shall serve the Lord your God, and he shall bless thy bread, and thy water; and I will take sickness away from the midst of thee.

26     There shall nothing cast their young, nor be barren, in thy land: the number of thy days I will fulfil.

5۔ خروج 33 باب 1، 9تا 11 (تا پہلا۔)، 12 (تا پہلا)، 13، 14 آیات

1۔ اور خداوند نے موسیٰ سے کہا اْن لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر جن کو تْو ملک مصر سے نکال کر لایا یہاں سے اْس کی طرف روانہ ہو جس کے بارے میں ابراہام اور اضحاق اور یعقوب سے قسم کھا کر میں نے کہا تھا کہ اِسے میں تیری نسل کو دوں گا۔

9۔ اور جب موسیٰ خیمہ کے اندر چلا جاتا تو ابر کا ستون اتر کر خیمہ کے دروازے پر ٹھہرا رہتا اور خداوند موسیٰ سے باتیں کرنے لگتا۔

10۔ اور سب لوگ ابر کے ستون کو خیمہ کے دروازے پر ٹھہرا ہوا دیکھتے تھے اور سب لوگ اٹھ اٹھ کر اپنے اپنے ڈیرے کے دروازے پر سے اْسے سجدہ کرتے تھے۔

11۔ اور جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے باتیں کرتا ہے ویسے ہی خداوند رو برو ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا۔

12۔ اور موسیٰ نے خداوند سے کہا۔

13۔ اگر مجھ پر تیرے کرم کی نظر ہے تو مجھ کو اپنی راہ بتا جس سے مَیں تجھے پہچان لوں تاکہ مجھ پر تیرے کرم کی نظر رہے اور یہ خیال رکھ کہ یہ قوم تیری ہی امت ہے۔

14۔ تب اْس نے کہا مَیں ساتھ چلوں گا اور تجھے آرام دوں گا۔

5. Exodus 33 : 1, 9-11 (to 1st .), 12 (to 1st ,), 13, 14

1     And the Lord said unto Moses, Depart, and go up hence, thou and the people which thou hast brought up out of the land of Egypt, unto the land which I sware unto Abraham, to Isaac, and to Jacob, saying, Unto thy seed will I give it:

9     And it came to pass, as Moses entered into the tabernacle, the cloudy pillar descended, and stood at the door of the tabernacle, and the Lord talked with Moses.

10     And all the people saw the cloudy pillar stand at the tabernacle door: and all the people rose up and worshipped, every man in his tent door.

11     And the Lord spake unto Moses face to face, as a man speaketh unto his friend.

12     And Moses said unto the Lord,

13     Now therefore, I pray thee, if I have found grace in thy sight, shew me now thy way, that I may know thee, that I may find grace in thy sight: and consider that this nation is thy people.

14     And he said, My presence shall go with thee, and I will give thee rest.

6۔ استثنا 34 باب10 آیت

10۔ اور اْس وقت سے اب تک اسرائیل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند جس نے خداوند کے روبرو باتیں کیں نہیں اٹھا۔

6. Deuteronomy 34 : 10

10     And there arose not a prophet since in Israel like unto Moses, whom the Lord knew face to face.

7۔ امثال 3 باب 5، 6 آیات

5۔ سارے دل سے خداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔

6۔ اپنی سب راہوں میں اْس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔

7. Proverbs 3 : 5, 6

5     Trust in the Lord with all thine heart; and lean not unto thine own understanding.

6     In all thy ways acknowledge him, and he shall direct thy paths.

8۔ یرمیاہ 23 باب5، 6، 18، 23، 24، 29 آیات

5۔ دیکھو وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے کہ مَیں داؤد کے لئے ایک صادق شاخ پیدا کروں گا اور اْس کی بادشاہی ملک میں اقبالمندی اور عدالت اور صداقت کے ساتھ ہوگی۔

6۔ اْس کے ایام میں یہوداہ نجات پائے گا اور اسرائیل سلامتی سے سکونت کرے گا اور اْس کا نام یہ رکھا جائے گا۔ خداوند ہماری صداقت۔

18۔ پر اْن میں سے کون خداوند کی مجلس میں شامل ہوا کہ اْس کا کلام سنے اور سمجھے؟ کس نے اْس کے کلام کی طرف توجہ کی اور اْس پر کان لگایا؟

23۔ خداوند فرماتا ہے کیا میں نزدیک ہی کا خدا ہوں اور دْور کا خدا نہیں؟

24۔کیا کوئی آدمی پوشیدہ جگہوں میں چھپ سکتا ہے کہ مَیں اْسے نہ دیکھوں؟ خداوند فرماتا ہے کیا زمین و آسمان مجھ سے معمور نہیں ہیں؟ خداوند فرماتا ہے۔

29۔ کیا میرا کلام آگ کی مانند نہیں ہے؟ خداوند فرماتا ہے اور ہتھوڑے کی مانند جو چٹان کو چکنا چور کر ڈالتا ہے؟

8. Jeremiah 23 : 5, 6, 18, 23, 24, 29

5     Behold, the days come, saith the Lord, that I will raise unto David a righteous Branch, and a King shall reign and prosper, and shall execute judgment and justice in the earth.

6     In his days Judah shall be saved, and Israel shall dwell safely: and this is his name whereby he shall be called, THE LORD OUR RIGHTEOUSNESS.

18     For who hath stood in the counsel of the Lord, and hath perceived and heard his word? who hath marked his word, and heard it?

23     Am I a God at hand, saith the Lord, and not a God afar off?

24     Can any hide himself in secret places that I shall not see him? saith the Lord. Do not I fill heaven and earth? saith the Lord.

29     Is not my word like as a fire? saith the Lord; and like a hammer that breaketh the rock in pieces?

9۔ یوحنا 8 باب1، 2 آیات

1۔ مگر یسوع زیتون کے پہاڑ پر گیا۔

2۔ صبح سویرے ہی وہ پھر ہیکل میں آیا اور سب لوگ اْس کے پاس آئے اور وہ بیٹھ کر انہیں تعلیم دینے لگا۔

9. John 8 : 1, 2

1     Jesus went unto the mount of Olives.

2     And early in the morning he came again into the temple, and all the people came unto him; and he sat down, and taught them.

10۔ یوحنا 10 باب 1تا10، 27، 28 (اور وہ) آیات

1۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کوئی دروازے سے بھیڑ خانے میں داخل نہیں ہوتا بلکہ اور کسی راستے سے چڑھ آتا ہے وہ چور اور ڈاکو ہے۔

2۔ لیکن جو دروازے سے داخل ہوتا ہے وہ چرواہا ہے۔

3۔ اْس کے لئے دربان دروازہ کھول دیتا ہے اور بھیڑیں اْس کی آواز سنتی ہیں اور وہ اپنی بھیڑوں کو نام بنام بلا کر باہر لے جاتا ہے۔

4۔ جب وہ اپنی بھیڑوں کو باہر نکال چکتا ہے تو اْن کے آگے آگے چلتا ہے اور بھیڑیں اْس کے پیچھے پیچھے ہو لیتی ہیں کیونکہ وہ اْس کی آواز پہنچانتی ہے۔

5۔ مگر وہ غیر شخص کے پیچھے نہ جائیں گی بلکہ اْس سے بھاگیں گی کیونکہ غیروں کی آواز نہیں پہنچانتیں۔

6۔ یسوع نے اْن سے یہ تمثیل کہی لیکن وہ نہ سمجھے کہ یہ کیا باتیں ہیں جو ہم سے کہتا ہے۔

7۔ پس یسوع نے اْن سے پھر کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بھیڑوں کا دروازہ مَیں ہوں۔

8۔ جتنے مجھ سے پہلے آئے سب چور اور ڈاکو ہیں مگر بھیڑوں نے اْن کی نہ سنی۔

9۔ دروازہ مَیں ہوں اگر کوئی مجھ سے داخل ہو نجات پائے گا اور اندر باہر آیا جایا کرے گا اور چارہ پائے گا۔

10۔ چور نہیں آتا مگر چرانے اور مار ڈالنے اور ہلا ک کرنے کو۔مَیں اِس لئے آیا کہ وہ زندگی پائیں اور کثرت سے پائیں۔

27۔ میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور مَیں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔

28۔۔۔۔اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔

10. John 10 : 1-10, 27, 28 (and they)

1     Verily, verily, I say unto you, He that entereth not by the door into the sheepfold, but climbeth up some other way, the same is a thief and a robber.

2     But he that entereth in by the door is the shepherd of the sheep.

3     To him the porter openeth; and the sheep hear his voice: and he calleth his own sheep by name, and leadeth them out.

4     And when he putteth forth his own sheep, he goeth before them, and the sheep follow him: for they know his voice.

5     And a stranger will they not follow, but will flee from him: for they know not the voice of strangers.

6     This parable spake Jesus unto them: but they understood not what things they were which he spake unto them.

7     Then said Jesus unto them again, Verily, verily, I say unto you, I am the door of the sheep.

8     All that ever came before me are thieves and robbers: but the sheep did not hear them.

9     I am the door: by me if any man enter in, he shall be saved, and shall go in and out, and find pasture.

10     The thief cometh not, but for to steal, and to kill, and to destroy: I am come that they might have life, and that they might have it more abundantly.

27     My sheep hear my voice, and I know them, and they follow me:

28     …and they shall never perish, neither shall any man pluck them out of my hand.



سائنس اور صح


1۔ 587 :5۔8

خدا۔ عظیم مَیں ہوں؛ سب جاننے والا، سب دیکھنے والا، سب عمل کرنے والا، عقل کْل، کْلی محبت، اور ابدی؛ اصول؛ جان، روح، زندگی، سچائی، محبت، سارا مواد؛ ذہانت۔

1. 587 : 5-8

God. The great I am; the all-knowing, all-seeing, all-acting, all-wise, all-loving, and eternal; Principle; Mind; Soul; Spirit; Life; Truth; Love; all substance; intelligence.

2۔ 465 :16۔6

سوال۔ کیا ایک سے زاید خدا یا اصول ہے؟

جواب۔ نہیں ہے۔اصول اور اْس کا خیال ایک ہے، اور وہ ایک خدا، قادر مطلق، ہمہ دانی اور ہمہ جائی ہستی ہے، اور اْس کا سایہ انسان اور کائنات ہے۔اومنی لاطینی اسمِ صفت سے اخذ کیا گیا ہے جو کْل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پس خدا کْل طاقت یا توانائی، کْل سائنس یا حقیقی علم، ہمہ جائیت کو ملاتا ہے۔کرسچن سائنس کی مختلف وضاحتیں اْس عقل کی جانب اشارہ کرتی ہیں جو کبھی مادا نہیں ہوتااوروہ ایک اصول رکھتا ہے۔

2. 465 : 16-6

Question. — Is there more than one God or Principle?

Answer. — There is not. Principle and its idea is one, and this one is God, omnipotent, omniscient, and omnipresent Being, and His reflection is man and the universe. Omni is adopted from the Latin adjective signifying all. Hence God combines all-power or potency, all-science or true knowledge, all-presence. The varied manifestations of Christian Science indicate Mind, never matter, and have one Principle.

3۔ 72 :2۔3

انسان کا الٰہی اصول لافانی فہم کے وسیلہ بات کرتا ہے۔

3. 72 : 2-3

The divine Principle of man speaks through immortal sense.

4۔ 308 :14۔15

روح سے معمور بزرگوں نے سچائی کی آواز سنی، اور انہوں نے خدا کے ساتھ ویسے ہی بات کی جیسے انسان انسانوں کے ساتھ بات کرتا ہے۔

4. 308 : 14-15

The Soul-inspired patriarchs heard the voice of Truth, and talked with God as consciously as man talks with man.

5۔ 78 :17۔20

روح ساری خلا میں جذب ہوتی ہے، اسے پیغام رسانی کے لئے کسی مادی طریقہ کار کی ضرورت نہیں ہے۔ روح کو ہر جا موجود ہونے کے لئے کسی تار کسی قسم کی بجلی کی ضرورت نہیں۔

5. 78 : 17-20

If Spirit pervades all space, it needs no material method for the transmission of messages. Spirit needs no wires nor electricity in order to be omnipresent.

6۔ 117 :6۔19، 24۔28

خدا روح ہے؛ اس لئے روح کی زبان روحانی ہے اور ہونی چاہئے۔ کرسچن سائنس اعلیٰ ہستی یا اْس کے اظہار کے ساتھ کوئی جسمانی فطرت اور اہمیت نہیں جوڑتی، صرف بشر یہ کام کرتے ہیں۔ خدا کی اصلی زبان سے متعلق مرقس کی انجیل کے آخری باب میں بطور نئی زبان بات کی گئی ہے، جس کا روحانی مفہوم ”علامتوں کا پیچھا کرنے“ کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔

روح کی پاکیزہ زبان کان نے سنی نہ زبان نے ادا کی۔ ہمارے مالک نے تشبیہات اور تماثیل کے وسیلہ روحانیت سکھائی۔ خود میں سچائی اور محبت کو اور بیمار اور گناہگار پر اپنی طاقت کو بیان کرنے اور ظاہر کرنے سے بطور الٰہی طالب علم اْس نے انسان پر خدا کو واضح کیا۔

جسمانی حواس خمسہ سے اخذ کیا گیا ثبوت مکمل طور پر انسانی وجہ سے تعلق رکھتا ہے؛ اور حقیقی روشنی کے دھندلے پن کی وجہ سے، انسانی وجہ یسوع کے کاموں اور باتوں کو بہت کم ارسال کرتی اور بہت مدھم منعکس کرتی ہے۔سچائی ایک مکاشفہ ہے۔

6. 117 : 6-19, 24-28

God is Spirit; therefore the language of Spirit must be, and is, spiritual. Christian Science attaches no physical nature and significance to the Supreme Being or His manifestation; mortals alone do this. God's essential language is spoken of in the last chapter of Mark's Gospel as the new tongue, the spiritual meaning of which is attained through "signs following."

Ear hath not heard, nor hath lip spoken, the pure language of Spirit. Our Master taught spirituality by similitudes and parables. As a divine student he unfolded God to man, illustrating and demonstrating Life and Truth in himself and by his power over the sick and sinning.

Evidence drawn from the five physical senses relates solely to human reason; and because of opacity to the true light, human reason dimly reflects and feebly transmits Jesus' works and words. Truth is a revelation.

7۔ 213 :16۔4

آواز ایک ذہنی تاثر ہے جو فانی عقیدے کے لئے دیا جاتا ہے۔ حقیقت میں کان نہیں سنتا۔ الٰہی سائنس آواز کو روح کے حواس کے وسیلہ بیان کیاہوا ظاہر کرتی ہے، یعنی روحانی فہم کے وسیلہ۔

موزارٹ نے جو بیان کیا اْس سے کہیں زیادہ کا تجربہ کیا تھا۔ اْس کی عظیم دھنوں کے وجد کو کبھی نہیں سنا گیا۔وہ اِس سے کہیں بڑا موسیقار تھا جتنا دنیا اْسے جانتی تھی۔ حیرت انگیز طور پر یہ بیتھووَن کے بارے میں سچ ہے، جو مایوس کن طور پر بہرہ تھا۔ ذہنی راگ دانیاں اورموسیقی کی میٹھی دْھنیں شعوری آواز پر زیادہ فوقیت رکھتی ہیں۔ موسیقی دماغ اور دل کی تال ہے۔ فانی عقل بالکل ویسے ہی، ہم آہنگی یا مخالفت کو بیان کرتے ہوئے، بہت سی تاروں کی سارنگی ہے جیسے کہ وہ ہاتھ، جو اِس پر چلتا ہے، انسانی یا الٰہی ہے۔

اس سے قبل کہ انسانی علم چیزوں سے متعلق جھوٹے فہم میں گہرا غرق ہوتا، یعنی اْن مادی اصلیتوں میں جو واحد عقل اور ہستی کے حقیقی وسیلہ کو خارج کردیتی ہیں، یہ ممکن ہے کہ سچائی سے نکلنے والے تاثرات آواز کی مانند واضح ہوتے اور یہ کہ وہ تاریخی انبیاء پربطور آواز نازل ہوئے۔ اگر سننے کا وسیلہ مکمل طور پر روحانی ہے تو یہ عام اور لازوال ہے۔

7. 213 : 16-4

Sound is a mental impression made on mortal belief. The ear does not really hear. Divine Science reveals sound as communicated through the senses of Soul — through spiritual understanding.

Mozart experienced more than he expressed. The rapture of his grandest symphonies was never heard. He was a musician beyond what the world knew. This was even more strikingly true of Beethoven, who was so long hopelessly deaf. Mental melodies and strains of sweetest music supersede conscious sound. Music is the rhythm of head and heart. Mortal mind is the harp of many strings, discoursing either discord or harmony according as the hand, which sweeps over it, is human or divine.

Before human knowledge dipped to its depths into a false sense of things, — into belief in material origins which discard the one Mind and true source of being, — it is possible that the impressions from Truth were as distinct as sound, and that they came as sound to the primitive prophets. If the medium of hearing is wholly spiritual, it is normal and indestructible.

8۔ 284 :28۔32

کرسچن سائنس کے مطابق، انسان کے صرف وہی حواس روحانی ہیں، جو الٰہی عقل سے ظاہر ہوتے ہیں۔ خیالات خدا سے انسان میں منتقل ہوتے ہیں، لیکن نہ احساس اور نہ ہی رپورٹ مادی جسم سے عقل میں جاتے ہیں۔ باہمی رابطہ ہمیشہ خدا سے ہوکر اْس کے خیال، یعنی انسان تک جاتا ہے۔

8. 284 : 28-32

According to Christian Science, the only real senses of man are spiritual, emanating from divine Mind. Thought passes from God to man, but neither sensation nor report goes from material body to Mind. The intercommunication is always from God to His idea, man.

9۔ 585 :1۔4

کان۔ نام نہاد مادی حواس کے اعضاء نہیں،بلکہ روحانی تفہیم۔ یسوع نے کہا، روحانی ادراک کے حوالے سے، ”کان ہیں اور سْنتے نہیں؟“ (مرقس 8:18)۔

9. 585 : 1-4

Ears. Not organs of the so-called corporeal senses, but spiritual understanding.

Jesus said, referring to spiritual perception, "Having ears, hear ye not?" (Mark viii. 18.)

10۔ 89 :18۔24

فہم لازمی طور پر تعلیمی مراحل پر انحصار نہیں کرتا۔یہ خود تمام تر خوبصورتی اور شاعری اور اِن کے اظہار کی طاقت رکھتا ہے۔ روح، یعنی خدا کو تب سنا جاتا ہے جب حواس خاموش ہوں۔ جو کچھ ہم کرتے ہیں ہم سب اْس سے زیادہ کرنے کے قابل ہیں۔ روح کا عمل یا اثر آزادی عطا کرتا ہے، جو تخفیف کا مظاہر اور غیر تربیت یافتہ ہونٹوں کی گرمجوشی واضح کرتی ہے۔

10. 89 : 18-24

Mind is not necessarily dependent upon educational processes. It possesses of itself all beauty and poetry, and the power of expressing them. Spirit, God, is heard when the senses are silent. We are all capable of more than we do. The influence or action of Soul confers a freedom, which explains the phenomena of improvisation and the fervor of untutored lips.

11۔ 84 :3۔13، 28۔9

پرانے نبیوں نے اپنی پیش بینی ایک روحانی، غیر جسمانی نقطہ نظر سے حاصل کی نہ کہ بدی کی پیشن گوئی کرنے اور کسی افسانے کو غلط حقیقت بنانے سے کی، نہ ہی انسانی عقیدے اور مادے کے بنیادی کام سے مستقبل کی پیشنگوئی کرنے سے کی۔ جب ہستی کی سچائی کے ساتھ ہم آہنگی کے لئے سائنس میں کافی ترقی کی، تو انسان غیر ارادی طور پر غیب دان اور نبی بن گیا، جو بھوتوں، بدروحوں یا نیم دیوتاؤں کے اختیار میں نہیں بلکہ واحد روح کے قابو میں تھا۔ یہ ہر وقت موجود، الٰہی عقل اور اْس خیال کا استحقاق ہے جو اِس عقل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے تاکہ ماضی، حال اور مستقبل کو جانے۔

ہم سب مناسب طور پر یہ جانتے ہیں کہ روح خدا، الٰہی اصول سے آتی ہے اور اِس کی تعلیم مسیح اور کرسچن سائنس کے وسیلہ ملتی ہے۔ اگر اِس سائنس کو اچھی طرح سے سیکھا اور مناسب طور پر سمجھا گیا ہے تو ہم اس سے کہیں درست طریقے سے سچائی کو جان سکتے ہیں جتنا کوئی ماہر فلکیات ستاروں کو پڑھ سکتا یا کسی گرہن کا اندازہ لگا سکتا ہو۔

یہ ذہن خوانی غیب بینی کے بالکل الٹ ہے۔ یہ روحانی فہم کی تابانی ہے جو روح کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے نہ کہ مادی حِس کی۔یہ روحانی حِس انسانی عقل میں اْس وقت آتی ہے جب موخر الذکر الٰہی عقل کو تسلیم کرتی ہے۔

کسی شخص کو اچھائی کرنے نہ کہ بدی کرنے کے قابل بناتے ہوئے اس قسم کے الہام اْسے ظاہر کرتے ہیں جو ہم آہنگی کو تعمیر کرتا اور ہمیشہ قائم رکھتا ہے۔

11. 84 : 3-13, 28-9

The ancient prophets gained their foresight from a spiritual, incorporeal standpoint, not by foreshadowing evil and mistaking fact for fiction, — predicting the future from a groundwork of corporeality and human belief. When sufficiently advanced in Science to be in harmony with the truth of being, men become seers and prophets involuntarily, controlled not by demons, spirits, or demigods, but by the one Spirit. It is the prerogative of the ever-present, divine Mind, and of thought which is in rapport with this Mind, to know the past, the present, and the future.

All we correctly know of Spirit comes from God, divine Principle, and is learned through Christ and Christian Science. If this Science has been thoroughly learned and properly digested, we can know the truth more accurately than the astronomer can read the stars or calculate an eclipse. This Mind-reading is the opposite of clairvoyance. It is the illumination of the spiritual understanding which demonstrates the capacity of Soul, not of material sense. This Soul-sense comes to the human mind when the latter yields to the divine Mind.

Such intuitions reveal whatever constitutes and perpetuates harmony, enabling one to do good, but not evil.

12۔ 85 :23۔24، 30۔32

یہودیوں اور غیر قوموں دونوں کے پاس شدید جسمانی حواس تھے، لیکن بشر کو روحانی حواس کی ضرورت ہے۔ ۔۔۔عظیم استاد وجہ اور اثر دونوں کو جانتا تھا، وہ جانتا تھا کہ سچائی خود کو بیان کرتی ہے لیکن غلطی کو عطا کبھی نہیں کرتی۔

12. 85 : 23-24, 30-32

Both Jew and Gentile may have had acute corporeal senses, but mortals need spiritual sense. … The great Teacher knew both cause and effect, knew that truth communicates itself but never imparts error.

13۔ 505 :20۔28

روحانی حس روحانی نیکی کا شعور ہے۔ فہم حقیقی اورغیر حقیقی کے مابین حد بندی کی لکیر ہے۔ روحانی فہم عقل -یعنی زندگی، سچائی اور محبت، کو کھولتا ہے اور الٰہی حس کو، کرسچن سائنس میں کائنات کا روحانی ثبوت فراہم کرتے ہوئے، ظاہر کرتا ہے۔

یہ فہم شعوری نہیں ہے،محققانہ حاصلات کا نتیجہ نہیں ہے؛ یہ نور میں لائی گئی سب چیزوں کی حقیقت ہے۔

13. 505 : 20-28

Spiritual sense is the discernment of spiritual good. Understanding is the line of demarcation between the real and unreal. Spiritual understanding unfolds Mind, — Life, Truth, and Love, — and demonstrates the divine sense, giving the spiritual proof of the universe in Christian Science.

This understanding is not intellectual, is not the result of scholarly attainments; it is the reality of all things brought to light.

14۔ 559 :8۔16

سائنسی خیال کی ”دبی ہوئی ہلکی آواز“ دنیا کے دور دراز سمندر اور بر اعظم تک پہنچتی ہے۔ سچائی کی ناقابل سماعت آواز انسانی عقل کے لئے ایسے ہے ”جیسے ببر دھاڑتا ہے۔“ یہ صحرا اور خوف کی تاریک جگہوں میں سنائی دیتی ہے۔ یہ بدی کی ”سات آوازوں“ کو ابھارتی ہے، اور پوشیدہ سروں کے مکمل احاطہ کو پکارنے کے لئے اْن کی قابلیت کو جنجھلاتی ہے۔تب سچائی کی طاقت کا اظہار ہوتا ہے، یعنی اسے غلطی کی تباہی کے لئے ظاہر کیا جاتا ہے۔

14. 559 : 8-16

The "still, small voice" of scientific thought reaches over continent and ocean to the globe's remotest bound. The inaudible voice of Truth is, to the human mind, "as when a lion roareth." It is heard in the desert and in dark places of fear. It arouses the "seven thunders" of evil, and stirs their latent forces to utter the full diapason of secret tones. Then is the power of Truth demonstrated, — made manifest in the destruction of error.


روز مرہ کے فرائ

منجاب میری بیکر ایڈ

روز مرہ کی دعا

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ ہر روز یہ دعا کرے: ’’تیری بادشاہی آئے؛‘‘ الٰہی حق، زندگی اور محبت کی سلطنت مجھ میں قائم ہو، اور سب گناہ مجھ سے خارج ہو جائیں؛ اور تیرا کلام سب انسانوں کی محبت کو وافر کرے، اور اْن پر حکومت کرے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 4۔

مقاصد اور اعمال کا ایک اصول

نہ کوئی مخالفت نہ ہی کوئی محض ذاتی وابستگی مادری چرچ کے کسی رکن کے مقاصد یا اعمال پر اثر انداز نہیں ہونی چاہئے۔ سائنس میں، صرف الٰہی محبت حکومت کرتی ہے، اور ایک مسیحی سائنسدان گناہ کو رد کرنے سے، حقیقی بھائی چارے ، خیرات پسندی اور معافی سے محبت کی شیریں آسائشوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس چرچ کے تمام اراکین کو سب گناہوں سے، غلط قسم کی پیشن گوئیوں،منصفیوں، مذمتوں، اصلاحوں، غلط تاثر ات کو لینے اور غلط متاثر ہونے سے آزاد رہنے کے لئے روزانہ خیال رکھنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 1۔

فرض کے لئے چوکس

اس چرچ کے ہر رکن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر روز جارحانہ ذہنی آراء کے خلاف خود کو تیار رکھے، اور خدا اور اپنے قائد اور انسانوں کے لئے اپنے فرائض کو نہ کبھی بھولے اور نہ کبھی نظر انداز کرے۔ اس کے کاموں کے باعث اس کا انصاف ہوگا، وہ بے قصور یا قصوارہوگا۔ 

چرچ مینوئیل، آرٹیکل VIII، سیکشن 6۔


████████████████████████████████████████████████████████████████████████